صفہ عربی زبان میں اس چبوترے کو کہتے ہیں جس پر چھت ڈال دی گئی ہو۔ عرف میں صفہ سے مرادمسجد نبوی کی وہ جگہ ہے جو سایہ دار تھی اور وہ وہاں مقیم صحابہ کرام کی آماجگاہ تھی۔1 اسی صفہ کے مقیم صحابہ کرام کو اصحاب صفہ کہا جاتا تھا۔ 2 صفہ کا یہ چبوترہ اپنی بے سروسامانی کے باجود بیک وقت عظیم درسگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ نبی کریم
کی خدمت میں حاضر ہونے والے افراد وقبائل کےلیے مہمان خانہ بھی تھا جہاں دور درازسے آئے مہمان اور مسافر ٹھہرا کرتے تھے۔ 3 یہ ایک چھاؤنی اور عسکری تربیت گاہ بھی تھی جہاں اہل صفہ تربیت پاکر دشمنان اسلام کے خلاف معرکہ آرائی کےلیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ 4
آپ پر جو وحی قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوتی وہ آپ
صحابہ کرام
کو سکھاتے اور وہ دوسرے لوگوں تک اس کو پہنچاتے رہتے تھے۔ اس کام کے باقائدہ اہتمام کے لئے مختلف مقامات متعین تھے جس کی ایک مثال حضرت عمر فاروق
کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنت خطاب
کا گھر تھا جہاں تعلیم القرآن کی ایک درسگاہ قائم تھی اور اس کے معلم حضرت خباب بن الارت
تھے جو ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ 5 اسی طرح رسول اللہ
کے مدینہ منورہ کی طر ف ہجرت فرمانے سے قبل مدینہ منورہ میں تعلیم وتعلم کا سلسلہ حضرت مصعب بن عمیر
نے حضرت سعد بن معاذ
کےگھر میں قائم کیا ہوا تھا۔ 6
جب رسول اللہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں آپ
نے اپنا حلقہءِتعلیم شروع فرمایا۔ آپ
فجر کی نماز اور اپنے دیگر معمولات سے فارغ ہوکر اسطوانہ توبہ کے قریب تشریف فرما ہوتے۔ اہل صفہ اور مہمان وہاں پہلے سےموجود رہتے اور حلقہ بنا کر آپ
کے انتظار میں تشریف فرما ہوتے۔ آپ
ان کے پاس جاکر حال احوال دریافت کرنے کے بعد ان کو قرآن کریم کی آیات سکھاتے اورپھر نبی کریم
سے سوال وجواب کے ذریعہ علم حاصل کرتے۔ 7 جب طالبانِ علم کی تعد اد میں اضافہ ہوگیا تو رسول اللہ
نے مسجد کے اندر ہی ایک کونے میں ایک چبوترہ بنوایا اور اس جگہ کو علم کی تدریس اور صفہ کے طالبان علم کے قیام کے لئے مختص کردیا۔ 8
مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے تقریباً 17 ماہ بعد جب قبلہ بیت المقدس سے تبدیل ہوا اور بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جانے لگی تومسجد نبوی کے شمال کی جانب جو قدیم محراب تھی اس کو رسول اللہ
کے حکم سے اہل صفہ کا ٹھکانا بنادیا گیا جس کی چوڑائی اور لمبائی کم از کم اتنی تھی جس میں تقریباً 200 سے 300افراد کی گنجائش موجود تھی۔9
اہل صفہ کے مستقل طلبہ کی تعداد میں کمی وبیشی ہوتی رہتی تھی۔ کبھی تو یہ تعداد70 ہوجاتی اور کبھی اس سے کچھ زیادہ۔ 10 ان میں سے کچھ صحابہ کرام اپنے کام کاج کی وجہ سےمستقل بنیادوں پر حاضر نہیں ہوپاتے تھے۔ اس کےعلاوہ وہ لوگ بھی اس چبوترے میں قیام پذیر ہوتے جو مدینہ منورہ کے باہر سے تشریف لاتے اور ان کا کوئی جاننے والے مدینہ منورہ میں نہ ہوتا۔ البتہ ایک خاص تعداد ان صحابہ کرام
کی تھی جنہوں نے اپنے آپ کو صرف حصوقل علم کےلیے وقف کررکھا تھا لہذا وہ مستقل طور پر مسجد میں مقیم تھے۔ 11
خلافائے راشدین کے علاوہ اہل صفہ میں شامل وہ عظیم شخصیات جنہوں نے نبی کریم سے کسب فیض کیا ان کی تعداد کا از اول تا آخر مجموعہ نکالا جائے تو یہ تعداد تقریبا 400 کے قریب بنتی ہے۔ 12 ان میں سے بعض مشہور صحابہ کرام
کے نام یہ ہیں :
مذکورہ بالا صحابہ کرام کے علاوہ بھی کئی ایک نام ایسے ہیں جن کو اصحاب سِیر نے اصحابِ صفہ کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
جو علوم درسگاہ صفہ میں پڑھائے جاتے تھے ان میں سر فہرست ایمانیات کے بعد حفظ قرآن کریم کا علم تھا۔اس کے علاوہ ان طلباء کو لکھنے کی مشق بھی کروائی جاتی تھی۔ اُس وقت جو لوگ لکھنا جانتے تھے وہ اپنی خدمات صفہ کی مجلس میں پیش کرتے تھے جیسا کہ عبادہ بن صامت فرماتے ہیں:
علمت ناسا من أهل الصفة الكتاب.15
میں نے اہل صفہ کے کئی طلبہ کو لکھنا سکھایا۔
کتابت میں خوشخطی بھی آپ کے پیش نظر تھی جس کے لیے آپ
نے حضرت عبداللہ بن سعید بن عاص
کو منتخب فرمایا۔ اس حوالہ سے حافظ ابن عبد البر نقل فرماتے ہیں:
امرہ أن يعلم الكتابة بالمدينة، وكان كاتبا محسنا.16
ان (عبداللہ بن سعید )کو آپنے یہ ذمہ داری دی کہ وہ اہل مدینہ کو کتابت سکھائیں کیوں کہ وہ خوشنما خط والے کاتب تھے۔
صفہ کے چبوترے میں آپ اپنے صحابہ کرام
کو ایک حلقہ میں بٹھا کر تعلیم وتعلم کا کام اس طرح کیا کرتے تھے گویا کہ باقاعدہ ایک جماعت میں درس وتدریس کا عمل جاری ہے۔ اس جماعت کی تدریس کبھی آپ
خود فرمایا کرتے اور کبھی آپ
کی طرف سے سے متعین کردہ کوئی دوسرا معلّم یہ کام کرتا تھا۔ اس دوران جب درس وتدریس کا عمل جاری ہوتا تو تمام طلبائے کرام اس وقت بھی انتہائی توجہ اور انہماک سے مدرس یا معلّم کی طرف متوجہ ہوتے جب حضور
کے علاوہ کوئی اور شخص تدریس کا کام سرانجا م دے رہا ہوتا۔ اس حوالہ سے حضرت ابو سعید خدری
نقل فرماتے ہیں:
جلست مع عصابة من ضعفاء المهاجرين، إن بعضنا ليستتر ببعض من العري، وقارئ يقرأ علينا، فنحن نستمع إلى كتاب اللّٰه، إذ جاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فجلس وسطنا ليعدل نفسه بنا، ثم أشار بيده، فاستدارت الحلقة وبرزت وجوههم له.17
میں مہاجرین کی ایک خستہ حال جماعت کےساتھ (صفہ میں) بیٹھا تھا۔ ان میں سے بعض بعض کی پیٹھ کے پیچھے بیٹھ کر اپنا ستر چھپانے کےلیے پناہ لے رہے تھے۔ ایک پڑھانے والا ہمیں سنا رہا تھا اور ہم غور سے اللہ کا کلام سن رہے تھے۔ اس دوران رسول اللہتشریف لائے اور ہمارے درمیان تشریف فرماہوئے تاکہ ہم سب برابر آپ
کو دیکھ سکیں۔ پھر آپ
نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا تو حلقہ بنادیا گیا اور سب کے چہرے آپ
کی طرف ہوگئے۔
آپ اصحاب صفہ کوآداب مجلس، آداب لباس، آداب اکل و شرب اور شرم وحیا کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت جرہد
تشریف فرماتھے اور ان کی ران سے کپڑا ہٹا ہوا تھا توآپ
نے ان کو سمجھایا کہ ران سَتَر میں شامل ہے اس کو چھپاؤ۔ 18 اسی طرح اگر کوئی طالبعلم نیند یا تھکاوٹ کی وجہ سے استاد کی غیر موجودگی میں آرام کی غرض سے لیٹ جاتا تو اسے لیٹنے کے آداب کی بھی تعلیم دے کر تربیت فرماتے۔ حضرت یعیش طخفہ
فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ منہ کے بل لیٹا ہوا تھا اسی اثنا میں رسول اللہ
کا گزر اس طرف سے ہوا تو آپ
نےمجھ سے فرمایا:
...إن هذه ضجعة يبغضها اللّٰه تبارك وتعالى...19
۔۔۔اس طرح سے لیٹنا اللہ تعالی کو ناپسند ہے۔۔۔
رسول اللہ نے طلبا کی اس حوالہ سے بھی تربیت فرمائی کہ دوران تدریس یا کسی محفل ومجلس میں نشست وبرخاست کا طریقہ کار اور ادب کیا ہوگا۔ آپ
نے اہل ایمان کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ کوئی بھی شخص مجلس میں حاضری کے وقت کسی کی گرد ن نہ پھلانگے بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جائے۔ 20
اہل صفہ کے کپڑوں کا حال یہ تھا کہ کئی کئی دن ایک ہی کپڑا پہنے رکھتے تھے۔ ان کےپاس دوسرا لباس یا کپڑا نہیں ہوتا تھا کہ اس کو دھو کر پہن لیا کریں۔ اس کے علاوہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ہی چادر ہوتی تھی جس سے وہ صرف اپنا ستر ہی چھپا پاتے تھے۔ اس حوالہ سے حضرت ابو ہریرہ اہل صفہ کے لباس کا حال یوں بیان فرماتے ہیں :
كنت في سبعين من أصحاب الصفة ما منهم رجل عليه رداء إما بردة أو كساء قد ربطوها في أعناقهم، فمنها ما يبلغ الساق، ومنها ما يبلغ الكعبين فيجمعه بيده كراهية أن ترى عورته.21
میں ان 70 اصحاب صفہ میں سے تھا جن میں سے کسی کے پاس (صرف) ایک چادر یا ایک جبہ یا ایک کپڑا تھا جو انہوں نے اپنی گردن میں باندھ رکھا ہوتا تھا ، یہ کپڑا کسی کے پنڈلی تک پہنچتا اورکسی کے ٹخنے تک۔ وہ اس کو(اپنے ہاتھوں سے سمیٹ کر) اس خوف سے جمع کرتے رہتے کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے۔
اس کسما پرسی کی حالت میں اصحاب صفہ نے علم حاصل کیا ۔
نبی کریم خود تو بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے اور اہل صفہ کے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھتے 22 لیکن اہل صفہ کی غذا کا آپ بھرپور انتظام فرماتے۔ان میں سے بعض کےکھانے کا انتظام خود آپ
فرماتے اور دیگر حضرات کو اہل مدینہ پر تقسیم فرمایا ہوا تھا۔ اس حوالہ سے آ پ
نے اہل مدینہ کو یوں ترغیب دی :
أن أصحاب الصفة، كانوا ناسا فقراء وأن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة، ومن كان عنده طعام أربعة فليذهب بخمسة۔ أو كما قال: وأن أبا بكر الصديق رضي اللّٰه عنه جاء بثلاثة وانطلق نبي اللّٰه بعشرة. 23
اصحاب صفہ میں سے کچھ لوگ بہت غریب تھے اور بیشک نبی کریمنے فرمایا کہ جس کے پاس دو لوگوں کا کھانا ہے وہ تین کو لے جائےاور جس کے پاس چار کی گنجائش ہے و ہ پانچ کو لے جائے۔ حضرت ابو بکرصدیق
تین لوگوں کو لے کر گئے اور اللہ کے نبی
دس لوگوں کو لے کر گئے۔
چونکہ صفہ پر مقیم طلباء کی تعداد زیادہ تھی اس لیے مستقل طور پر کھانے کا انتظام نہیں ہوپاتا تھا۔ اس لئے کچھ لوگ کھجوریں لا کر اہل صفہ کی خدمت کےلیے رکھ جاتے تھے اور اہل صفہ بقدر ضرورت ان میں سے استعمال فرماتے تھے۔ بسا اوقات کھجوروں کی قلت اور طلبہ کی کثرت کی وجہ سے ایک ایک کھجور ہی حصہ میں آتی تھی۔ ایک مرتبہ کچھ صحابہ کرام نےرسول کریم
کی خدمت اقدس میں گزارش کی :
قد أحرق التمر بطوننا.24
کھجوروں ( کے مسلسل استعمال ) نے ہمارے پیٹ میں سوزش پیدا کردی ہے۔
رسول اللہ نے یہ بات سن کر ان کو تسلی دی کہ تمہیں اس وقت یقینا تکلیف کا سامنا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب تم آنے والے زمانہ میں بہت ترقیاں اور آسائشیں دیکھو گے لیکن یہ دور(موجودہ زمانہ) اور یہ حالت ایمان وعمل کے اعتبار سے اس زمانہ راحت سے بہت زیادہ اچھی ہوگی۔ 25
آپ جب بھی ا ہل صفہ کو تعلیم وتعلم میں مشغول پاتے تو ان الفاظ میں اللہ تعالی کا شکر ادا فرماتے:
الحمد للّٰه الذي لم يمتني حتى أمرني أن أصبر نفسي مع قوم من أمتي، معكم المحيا ومعكم الممات.26
تمام تعریفیں اس ذات کےلیے ہیں جس نے مجھے موت سے پہلے حکم دیا کہ میں اپنے آپ کواپنی امت کے ان لوگوں کےساتھ جمائے رکھوں ( جن سے رب تعالی راضی ہے اور اے اہل صفہ) میرا جینا اور میرا مرنا تمہارے ساتھ ہی ہے۔
آپ جب محسوس کرتے کہ صفہ میں زیر تعلیم صحابہ کرام
اب بوجوہ اکتاہٹ کا شکار ہونے لگے ہیں یا کسی وجہ سے لوٹ کر اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں تو آپ
ان کو چھٹی عطا فرمادیا کرتے اور ساتھ ہی ساتھ قیمتی نصائح سے بھی نوازتے۔ اس سلسلہ میں امام بخاری
مالک بن حویرث کا قول نقل فرماتے ہیں:
أتينا النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ونحن شببة متقاربون، فأقمنا عنده عشرين ليلة، فظن أنا اشتهينا أهلينا، فسألنا عن من تركنا في أهلينا؟ فأخبرناه - وكان رفيقا رحيما - فقال: «ارجعوا إلى أهليكم فعلموهم ومروهم، وصلوا كما رأيتموني أصلي، فإذا حضرت الصلاة، فليؤذن لكم أحدكم، وليؤمكم أكبركم.27
ہم رسول اللہکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے (تعلیم کے لیے) جبکہ ہم لوگ ہم عمرنوجوان تھے۔ ہم رسول اللہ
کے پاس 20 دن ٹھہرے۔ رسول اللہ
نے محسوس کیا کہ ہم گھر جانا چاہتے ہیں تو آپ
نے ہم سے پوچھا کہ ہم پیچھے اہل وعیال میں کس کوچھوڑ کر یہاں آئیں ہیں؟ ہم نے آپ
کو بتایا تو آپ
مزاج کے نہایت نرم اور مشفق تھے، لہذا آپ
نے فرمایا : اپنے گھر جاؤ اور ان کو بھی سکھاؤ(جو یہاں سیکھا) اور ان سے اعمال کراتے رہو۔ جب نماز کا وقت ہو تو کوئی ایک بندہ اذان کہے اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ نماز پڑھادیا کرے۔
تحصیل علم میں جن عظیم نفوس نے باقائدہ سے پہل کی وہ اہل صفہ تھے جن کے قدم مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہیں ڈگمگائے۔ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ان لوگوں نےقرآن و حدیث کے عظیم علم کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا اور بحسن خوبی امت تک پہنچایا۔ قرآن کریم سے لے کر وہ تمام علوم جو دنیا وآخرت کی کامیابی اور سربلندی کا ذریعہ ہیں ان کا ہم تک بحفاظت منتقل ہونا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کا سہر ا یقیناًاہل صفہ کے سر جاتا ہے۔ آپ نے صفہ کی درسگا ہ میں بطور طالبعلم حاضر ہونے والے صحابہ کرام
کی براہ راست تعلیم وتربیت جس انداز میں کی یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہر صحابی رسول
تہذیب واخلاق اور سیرت وکردار کا ایک بہترین اور لائق تقلید نمونہ بن گیا تھا۔