encyclopedia

آپ ﷺ کی آنکھیں مبارک | خالق کائنات کی تخلیق کا شاہکار

Published on: 20-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 18، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 349-357)

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں مبارک بلاشبہ خالق کائنات کی تخلیق کا شاہکار تھیں۔جن کا حسن دیکھنے والے کو اپنے اندر جذب کرلیتا تھا۔وہ ان کی رعنائی سےمرعوب ہوکررہ جاتاتھا۔بارباران کو دیکھنےکی آرزو جذبات میں چٹکیاں لیتی تھے۔یہ وہ مبارک آنکھیں تھیں جن سے کون ومکاں کی کوئی شےاوجھل نہیں۔ ان چشمانِ اقدس نے لوح وقلم ،عرش وفرش،جنت ودوزخ، بحروبر، جن وانس غرض کائنات کی ہرشےکودیکھا تھا۔یہ وہ آنکھیں تھیں جن کے متعلق اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا:

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى171
اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی )۔

یہی وہ آنکھیں ہیں جنہیں لیلۃ الاسراء رب کائنات نے اپنی نشانیاں دکھائیں۔2

خوبصورت آنکھیں

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مقدس اور نورانی آنکھیں بہت ہی خوبصورت تھیں ۔قدرت الٰہی سے سرمگیں بھی کہ سرمہ کے بغیر معلوم ہوتا کہ سرمہ لگا ہوا ہے۔ آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈورے تھے جن کو علامات نبوت میں شمار کیا گیا ہے۔ پلکیں نہایت خوشنما اور دراز تھیں۔ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں مبارک بڑی بڑی اور کشادہ تھیں۔ سیاہ حصہ مکمل طور پر سیاہ تھا اور سفید حصہ انتہائی سفید تھا۔ بالائی پپوٹوں کے وہ حصے جو آپس میں ملتے ہیں مائل بہ سیاہی تھے جن کی وجہ سے سرمہ لگائے بغیر بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں سُرمگیں دکھائی دیتی تھیں۔

حضرت فاروق اعظمRadi Allah Anho نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھوں کی صفت کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ادعج العینین.3
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک آنکھیں کشادہ اور گہری سیاہ تھیں۔

مولائےکائنات حضرت علیRadi Allah Anho نے بھی حضور نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نگاہ نازنین کی حالت کو بیان کیاہے۔ 4

ابن کثیر لفظ دعج کا معنى بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

قال الجوھرى: الدعج شدة سواد العینین مع سعتھا.5
جوہری نے کہا: دعج کا مطلب دونوں آنکھوں کی سیاہی کا گہرہ ہونا وسیع ہونے کا ساتھ۔

دعج پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے امام بیہقی Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

والدعج شدة سواد الحدقة لایكون الدعج فى شىء الا فى سواد الحدق وكان فى عینیه تمزج من حمرة.6
دعج سے مراد ہے کہ آنکھ کے ڈھیلے میں سیاہ حصہ شدید سیاہ تھا یہ صفت ادعج کسی چیز میں نہیں ہوتی صرف آنکھ کی سیاہ پتلی میں ہوتی ہے۔نیز آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھوں میں سُرخی اور ہلکی سرخی کا امتزاج بھی تھا۔

صحابئ جلیل حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anhoسے روایت ہے :

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابرج العینین.7
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں نہایت ہی کشادہ اور خوبصورت تھیں۔

حضرت انس Radi Allah Anhoفرماتےہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابحر العینین.8
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں سُرخی مائل تھیں۔

حضرت جابر بن سمرہ Radi Allah Anho سے روایت ہے:

عن جابر بن سمرة قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أشكل العینین. وراوه أبو داود عن شعبة فقال: أشھل العینین...أما قوله: أشكل العینین: قال أبو عبیدة: الشكلة: حمرة فى بیاض العین، والشھلة: حمرة فى سوادھا. 9
حضرت جابر بن سمرہ Radi Allah Anhumaسے مروی ہے کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مقدس آنکھیں سفید سرخی مائل تھیں۔ یعنی سفیدی میں سرخ باریک دھاریاں تھیں اور ابو داود نے شعبہ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں اشکل العینین کی بجائے اشہل العینین وارد ہے۔بہر حال راوی کے قول "اشکل العینین" کا مطلب ابوعبیدۃ نے یہ بتایا ہے کہ: شکلۃ آنکھ کی سفیدی میں سرخی کو کہتے ہیں اور شھلۃ کا معنی آنکھ کی پتلی میں سیاہی کا ہونا ہے۔

اس تقدیر پر مطلب یہ ہو گا کہ آنکھوں کی پتلیاں سیاہ سرخی مائل تھیں ۔راوی نے حضر ت سماک بن حربRehmatullah Alaihسے پوچھا:

ما اشكل العین؟ قال: طویل شق العین.10
اشکل العینین کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: آنکھوں کے گوشوں کا طویل ہونا۔

حضرت علی Radi Allah Anho سے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عظیم العینین.11
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھیں بڑی تھیں۔

اسی طرح حضرت علی Radi Allah Anho سے ہی ایک مروی روایت میں مذکور ہے :

اسود الحدقة.12
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک آنکھوں کی پُتلی سیاہ تھی ۔

حضرت جابر بن سمرہ Radi Allah Anho کی روایت میں "اشہل العینین" آیا ہے اس کا معنی ہے سرخ و سیاہ آنکھوں والے۔کیونکہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھوں کے سفید حصے میں سرخ ڈورے تھے۔

چنانچہ امام ابوداؤد طیالسیRehmatullah Alaih روایت کرتے ہیں:

جابر بن سمرة یقول: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اشھل العین، منھوس العقب، ضلیع الفم.13
حضرت جابر بن سمرہRadi Allah Anho فرماتے ہیں: رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں سُرخی مائل تھیں، ایڑیوں میں گوشت کم تھااور منہ مبارک کشادہ تھا۔

آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈوروں کو علامات نبوت میں شمار کیا گیا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے ایک واقعہ امام ابن کثیر نے تحریر کیا ہے کہ جب حضرت ابوطالب Radi Allah Anho آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اپنے ساتھ ملک شام لے گئے تو وہاں کے راہب جو الہامی کتب کے عالم تھے انہوں نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھ کر حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور حضرت ابوطالبRadi Allah Anho سے چند سوالا ت کیے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

قال بحیرا: فباللّٰه أسألك، وجعل یسأله عن أشیاء من أحواله فیخبره حتى سأله عن نومه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: تنام عیناى ولا ینام قلبى وجعل ینظر فى عینیه إلى الحمرة ثم قال لقومه: أخبرونى عن ھذه الحمرة تأتى وتذھب أو لا تفارقه؟ قالوا: ما رأیناھا فارقته قط وكلمه أن ینزع جبة علیه حتى نظر إلى ظھره وإلى خاتم النبوة بین كتفیه علیه السلام مثل زر الحجلة متواسطا فاقشعرت كل شعرة فى رأسه وقبل موضع خاتم النبوة وجعلت قریش تقول: إن لمحمد عند ھذا الراھب لقدرا وجعل أبو طالب . لما رأى من الراھب . یخاف على ابن أخیه ثم قال الراھب لأبی طالب: ما یكون ھذا الغلام منك؟ قال: ابنى قال: ما ھو بابنك وما ینبغى أن یكون أبوه حیا قال: فإنه ابن أخى قال: فما فعل أبوه؟ قال أبو طالب: توفى وأمه حبلى به قال: فما فعلت أمه؟ قال: توفیت قريیا قال: صدقت ارجع بابن أخیك إلى بلدك واحذر علیه الیھود فواللّٰه إن رأوه أو عرفوا منه الذى أعرف لیبغنه عنتا فإنه كائن لابن أخیك شأن عظیم نجده فى كتبنا وما ورثنا من آبائنا، وقد أخذ علینا مواثیق.14
بحیرا نے کہا: میں آپ سے اﷲ کے نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں پھر وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے سوالات کرنے لگا اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نیند کے متعلق پوچھا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا پھر وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھوں میں بسی سرخی کی طرف متوجہ ہوا کہنے لگا: بتلاؤ یہ سرخی آتی جاتی رہتی ہے یا ہمیشہ رہتی ہے؟ اہل قافلہ کہنے لگے: ہم نے تو یہ کبھی غائب نہیں دیکھی۔بحیرا نے تقاضا کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنا جبّہ اتاریں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اتارا جب اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی حجلہ عروسی کے مہرے جیسی تھی تو اس کے سر کے بال کھڑے ہوگئے اور بے اختیار مہر نبوت کو چوم لیا۔بالآخر راہب شام نے کہا: اس بچے کو فوراً اپنے وطن لے جاؤ مجھے اس کے متعلق یہود سے ڈر آرہا ہے۔ بخدا اگر انہوں نے اسے دیکھ لیا یا جو کچھ میں نے اس میں پہچانا ہے وہ پہچان گئے تو اسے نقصان پہچانےکی کوشش کریں گے کیونکہ تمہارے بھتیجے کو عظیم الشان مقام ملنے والا ہے جو ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا اور اپنے باپ دادا سے سنا ہے اور اس پر ہم سے مضبوط وعدے لیے گئے ہیں۔

حضرت علی Radi Allah Anhoفرماتے ہیں: جب مجھے قاضی بناکر یمن بھیجا گیا تو ایک یہودی عالم نے مجھے نبی آخرالزماں Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا حلیہ مبارک بیان کرنے کے لیے کہا۔جب میں سرکار دو عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سراپا مبارک بیان کرچکا تو اس یہودی عالم نے کچھ مزید بیان کرنے کی استدعا کی میں نے کہا :اس وقت مجھے یہی کچھ یاد ہے۔ اس یہودی عالم نے کہا: اگر مجھے اجازت ہو تو مزید حلیہ مبارک میں بیان کروں؟ اس کے بعد وہ یوں گویا ہوا:

فى عینیه حمرة، حسن اللحیة حسن الفم، تام الاذنین.
حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک آنکھوں میں سرخ ڈورے ہیں، ریش مبارک نہایت خوبصورت دہن اقدس حسین وجمیل اور دونوں کان مبارک (حسن میں) مکمل تھے۔15

امام ابن عساکرRehmatullah Alaih نے حضرت قاتل بن حیانRehmatullah Alaih کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰAlaihis Salam کو حکم دیا:

جد فى امرى ولا تھزل! الى ان قال: صدقوا النبى العربى الانجل العینین.16
میرے معاملے میں کوشش کر حتیٰ کہ فرمایا: اس نبی عربی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تصدیق کرو جن کی آنکھیں خوبصورت اور بڑی ہوں گی۔

آپ ﷺکی چشمِ سُرمگیں

حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں قدرتی طور پر سرمگیں تھیں اور جوان مبارک آنکھوں کو دیکھتا وہ یہ سمجھتا کہ آپﷺ ابھی ابھی سرمے کی سلائی ڈال کر آئے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام برہان الدین حلبیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

وولد نبینا لى صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا. اى: على صورةالمختون.مکحولا ونظیفا ما به قذر.17
ہمارے نبی پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamختنہ شدہ پیدا ہوئے یعنی اس طرح جیسے مختون آدمی ہوتا ہے نیز اس طرح کہ (آپ کی آنکھوں میں گویا) سرمہ لگا ہوا تھا اور پاک صاف پیدا ہوئے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم مبارک پر کوئی آلودگی نہیں تھی۔

حضرت جابر بن سمرہ Radi Allah Anho سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

وكنت اذا رایته قلت: اكحل العینین ولیس باكحل.18
اگر تم حضور نبی کریم ﷺکی مبارک آنکھوں کو دیکھوگے تو کہو گے کہ ان میں سرمہ لگا ہوا ہے حالانکہ ان میں سرمہ لگا ہوا نہیں ہوتا تھا۔

اس کی شرح میں امام ابن جوزی Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

والكحل: سواد ھدب العین خلقة.قال الزجاج: الكحل: أن یسود مواضع الكحل.19
کحل کا مطلب آنکھ کی پتلی کا پیدائشی سیاہ ہونا ہے۔زجاج نے کہا کہ: کحل کا معنی سرمہ لگانے کی جگہ کا سیاہ ہونا ہے۔

حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anho سے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اكحل العینین.20
حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں ہمیشہ سرمگیں رہتی تھیں ۔

امام صالحی Rehmatullah Alaih"اکحل" کا معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

سواد یكون فى مفاوز اجفان العین خلقة.21
اکحل اس سیاہی کو کہتے ہیں جو آنکھوں کی پلکوں وغیرہ میں پیدائشی طور پر ہو۔

مبارک آنکھوں کی تازگی

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبچپن میں بھی جب نیند سے بیدار ہوتے تو سر کے بال اُلجھے ہوئے ہوتے نہ آنکھیں بوجھل ہوتیں بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamخندہ بہ لب اور شگفتہ گلاب کی طرح تروتازہ ہوتے اور قدرتی طور پر آنکھیں سرمگیں ہوتیں۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباسRadi Allah Anhuma سے مروی ہے کہ حضرت ابوطالب Radi Allah Anhoنے فرمایا:

كان الصبیان یصبحون رمصا شعثا ویصبح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دھینا كحیلا.22
عام طور پر بچے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں بوجھل اور سر کے بال اُلجھے ہوتے ہیں جبکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبیدار ہوتے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سر انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔

حضرت ابن عباسRadi Allah Anhuma نے بھی اس کو بیان کیا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بچپن کی حالت میں بیدار ہوتےتو عام بچوں سے الگ اور نمایاں طور پر ہشاش بشاش اور کھِلے کھِلے بیدار ہوتے اور آنکھوں میں بجائے نیند و اضطرابیت کے تازگی و فرحت نمایاں ہوتی اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔

تورات میں سرمگیں آنکھوں کا ذکر

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھوں کا قدرتی طور پر سرمگیں ہونے کی صفت تورات شریف میں بھی موجود تھی جس کاعلمائے یہود خود اقرار کرتے تھے کہ ہم تورات شریف میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی یہ صفت پاتے ہیں کہ قدرتی طور پرآخری نبی ﷺکی آنکھیں سرمگیں ہونگی۔ ابن عباس Radi Allah Anhuma فرماتے ہیں:

قال احبار الیھود: وجدو ا صفة محمد صلى اللّٰه علیه وسلم مكتوبا فى التوراة اكحل العین.23
یہودیوں کے بڑوں نے کہاکہ:محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صفت تورات میں یہ لکھی ہے کہ حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھیں ہمیشہ سرمگیں رہیں گی۔

آپﷺ کی قوّت بصارت

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھوں کی بصارت کا عالم یہ ہوتا تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اشیاءکے دیکھنے کے لیے عام انسانوں کی طرح کسی خارجی روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔بلکہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےبارے میں منقول ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاجالہ اور اندھیرے میں یکساں طور پر دیکھتے تھے۔چنانچہ روایت میں مروی ہے:

عن عائشة قالت:كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یرى فى الظلمة كمایرى فى الضوء.24
ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہRadi Allah Anha فرماتی ہیں:حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاندھیرے میں بھی ویسے ہی دیکھتے تھے جیسے روشنی میں۔

شرم و حیاء سے معمور نگاہ مصطفیٰ ﷺ

شرم و حیاء ہی انسان کا وہ وصفِ جمیل ہے جس کی آغوش میں اخلاق و کردار کی خوبیاں پرورش پاتی ہیں۔ جو انسان اس وصف سے کامل طور پر متصف ہوجاتا ہے وہ اخلاق حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے اور جس انسان میں یہ صفت نہ رہے وہ پھر بے حیائی وبے شرمی کا مجسمہ ہوکر جو چاہے کرسکتا ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا دیکھنا کمالِ حیاء اور شانِ محبوبیت کا آئینہ دار ہوتا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی چشمانِ اطہر میں شفقت و محبت اور شرم و حیا کی ملی جلی کیفیت ہمہ وقت موجود رہتی۔جس کی عکاسی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے اسوہ حسنہ سے اور اس قول مبارک سے بھی کی:

اذا لم تستحى فاصنع ماشئت.25
جب تو نے شرم و حیاء نہیں کی تو جو چاہے کر۔

شرم وحیاء کا وصف مبارک بھی دوسرے اوصاف حمیدہ کی طرح حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات اقدس میں اکمل طور پر تھا صحابہ کرام Radi Allah Anhumفرماتے ہیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکثرت حیاء کی وجہ سے کسی شخص کے چہرے پر نظریں نہیں جماتے تھے۔جب کبھی کسی طرف دیکھتے تو تھوڑی اوپر آنکھ اٹھاتے اور اسی سے دیکھ لیتے۔ آپ ﷺکی اس ادائے محبوبانہ کا ذکر روایات میں یوں مذکور ہے۔

خافض الطرف نظره الى الارض اكثر من نظره الى السماء.26
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی۔

گوشہ چشم سے دیکھنا کمال شفقت والفت کا انداز لیے ہوئے تھا جبکہ جھکی ہوئی نظریں نہایت درجہ شرم وحیاء پر دلالت کرتی ہیں، اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے بڑھ کر کون عفت مآب اور حیا دار ہوسکتا تھا۔حضرت ابوسعید خدریRadi Allah Anho آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اس وصف عالیہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اشد حیاء من العذراء فى خدرھا وكان اذا كره شیئا عرفناه فى وجھه.27
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرم و حیاء کے مالک تھے۔ ہم چہرہ اقدس کے آثار سے ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ناپسندیدگی محسوس کرلیا کرتے۔

نبی رحمت ،فخر دوعالم ، سروردوعالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں مبارک بڑی کشادہ ،سیاہ، سرمگیں تھیں۔جوبھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھتا یا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محفل میں بیٹھتا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ایک ایک حسن کو دیکھتا تواسے رب ِکائنات کی قدرت کا کمال نظرآتا۔کیاکیا کمالات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شخصیت میں جمع تھے اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟سوائےان کمالات کو عطاکرنے والے کے یا جس کو یہ عطا کیے گئے ان کے۔


  • 1  القرآن،سورۃ النجم53 : 17
  • 2  رب العزت نےفرمایا: لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا، ترجمہ: تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ۔(القرآن،سورۃ الاسراء 01:17)
  • 3  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1414ھ، ص:23
  • 4  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص: 213
  • 5  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی ، شمائل الرسول لابن کثیر ، مطبوعۃ:مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :26
  • 6  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405 ھ، ص :303
  • 7  عمر بن شبہ نمیری بصری ، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ ، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة جدۃ، جدة، السعودیۃ، 1399ھ، ص:608
  • 8  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:23
  • 9  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً) ص: 43
  • 10  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث :2339، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ھ، ص:1029
  • 11  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:24
  • 12  ضیاء الدین ابو عبداﷲ محمد بن عبد الواحد مقدسی، الاحادیث المختارۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:316
  • 13  سلیمان بن داؤ دالطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 802، ج-2، مطبوعۃ: دار ھجر، القاهرة، مصر، 1999ء، ص:126
  • 14  ابو نعیم احمد اصفہانی ، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986 ء، ص:169-170
  • 15  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، شمائل الرسول، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:16
  • 16  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 2، مطبوعۃ: احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء ، ص:24
  • 17  برہان الدین علی بن ابراہیم حلبی ، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ ، ص:78
  • 18  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 20917، ج -34، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:466
  • 19  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى ﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:43
  • 20  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص :23
  • 21  ایضًا، ص :26
  • 22  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1990 ء، ص :120
  • 23  اسماعیل بن محمد اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث :179، مطبوعۃ: دار طیبۃ ،الریاض،السودیۃ، 1409ھ، ص:157
  • 24  عیاض بن موسیٰ المالکی،الشفا بتعريف حقوق المصطفى، ج-1،مطبوعہ: دار الفيحاء، عمان، 1407هـ ، ص:164
  • 25  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 655 ، ج -2، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:15
  • 26  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت،لبنان، 1988، ص:13-12
  • 27  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی ، حدیث: 2336، ج-3، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:670

Powered by Netsol Online