encyclopedia

میلاد النبی ﷺ مفسّرین کی نظر میں | اقتباسات اور جمہور کا مؤقف

Published on: 21-Mar-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، علامہ سعید اللہ خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سیّد سعد ابراہیم، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:19، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 545-556)

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد کو امتِ مسلمہ میں دور اوّل ہی سے بنظر استحسان دیکھا جاتا رہا ہے کیونکہ اس کی اصل قرآن مجید میں موجود ہونے کےساتھ ساتھ،1نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی سنتِ متواترہ میں بھی موجود ہے2 نیز مدینہ منورہ آنے کے بعد اپنا عقیقہ ہوجانےکے باوجود3دوبارہ عقیقہ کرنا بھی اس کی اصل ہے۔4 یہی وجہ ہے کہ یوم میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں صحابہ کرام صدقہ وخیرات کیاکرتے تھے ۔پھر امت میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس عمل میلاد میں تغیر و تبدل بھی آتا رہا اور ہر کسی نے اپنی ثقافت کے لحاظ سے اس کو شایان شان منایا۔امت مسلمہ کے علمی طبقہ نے اس پر کئی کتب لکھیں اور اس کے جواز و استحسان پر کئی دلائل پیش کیے ۔ان لکھنے والوں میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات اکابر ہیں ۔یہاں چند مفسرین کا خصوصی طور سے ذکر کیا جارہا ہے جنہوں نے اس میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو جائز ومستحسن لکھا ہے۔

میلاد النبی ﷺامام فخر الدین رازی کی نظر میں

ان جلیل القدر علمائے تفسیر میں عظیم مفسر امام فخر الدین رازی Rehmatullah Alaihہیں جنہوں نے"مفاتیح الغیب"کے نام سے ایک عظیم تفسیر لکھی ہے جو آپ کے تبحّرِ علمی کا شاندار مرقّع ہے۔آپRehmatullah Alaihنے بھی میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے باعثِ برکت ہونےکا بڑی شد ومد سے ذکر کیا ہے اور اس پر صدقہ وخیرات کرنے پر اجر و فضل کا ذکر کیا ہے چنانچہ ابن حجر ہیتی امام فخر الدین رازیRehmatullah Alaihکے حوالہ سے رقمطراز ہیں:

قال وحید عصره وفرید دھره الامام فخر الدین الرازى مامن شخص قرأمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ملح اوبر او شى آخر من المأكولات الا ظھرت فیه البركة وفى كل شى وصل الیه من ذلك المأكول فانه یضطرب ولا یستقر حتى یغفر اللّٰه لآكله وان قرى مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ماء فمن شرب من ذلك الماء دخل قلبه الف نور ورحمة وخرج منه الف غلة وعلة ولایموت ذلك القلب یوم تموت القلب ومن قرأ مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على درھم مسكوكة فضة كانت او ذھبا وخلط تلك الدراھم بغیرھا وقعت فیه البركة ولایفتقر صاحبھا ولا تفرغ یدہ ببركة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم . 5
امام فخر الدین رازی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ جس شخص نے نمک، گیہوں یا کھانے کی ایسی ہی کسی اور چیز پر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا میلاد شریف پڑھوایا تو اُس شئے میں برکت ظاہر ہوگی اور ہر اس چیز میں بھی جس تک یہ کھانے کی اشیاء پہنچیں گی ۔ یہ برکت رکے گی نہیں بلکہ مسلسل رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے کھانے والے کی مغفرت کردے گا۔اگر پانی پر میلاد شریف پڑھوایا جائے تو جو اس پانی کو پئے گاتو اُس کے قلب میں ہزار انوار ورحمت داخل ہوں گے اور اس کے دل سے ہزار کینے اور بیماریاں نکل جائیں گی۔ جس دِن دِل مریں گے اُس دن اس کا دِل نہیں مرے گا۔جس نے چاندی یا سونے میں ڈھلے درہم پر میلاد پڑھوایا اور اس درہم کو دوسرے درہم میں ملایا تو اس میں برکت واقع ہوگی اور یہ شخص محتاج بھی نہیں ہوگا اور نہ اس کا ہاتھ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی برکات سے کبھی محروم ہوگا ۔

اس عبارت سے معلو م ہوا کہ امام فخر الدین رازی Rehmatullah Alaih بھی نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد کومستحب قرار دیتے تھے اور اس پر خرچ کرنے والے کے لیے عظیم انعامات کا ذکرکرکے اس طرف اشارہ کرتے تھے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد منانے سے نعمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں اوریہ مستحب کام ہے۔

میلاد النبی ﷺشیخ تقی الدین سبکی Rehmatullah Alaihکی نظر میں

ساتویں (7)صدی ہجری کے جلیل القدر مفسرجو اپنے دور کے مسلمہ امام، قاضی القضاۃ اورشیخ الاسلام بھی تھے یعنی تقی الدین أبو الحسن علی بن عبد الکافی سبکی شافعیRehmatullah Alaih بھی ان علمائے عظام Rehmatullah Alaih کی جماعت میں سر فہرست ہیں جو محفل ِ میلاد منعقد کرتے اور اس میں اپنے ہمعصر علمائے کرام و مشائخ عظام کو مدعو کیا کرتے تھے۔آپRehmatullah Alaih کے بحرالعلوم ہونے پر سب کا اتفاق ہے چنانچہ امام ابن حجر مکیRehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

الإمام المجمع على جلالته واجتھاده.6
امام (سبکیRehmatullah Alaih وہ ہیں )جن کی جلالتِ علمی و اجتہاد پر اجماع ہے۔

اتنے بڑے عالم نے بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے تذکرۂ مولود کو باعث برکت سمجھا ہے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ولادت کے تذکرہ کے وقت سب سے پہلے تعظیما ًکھڑے ہونے کا سہرا بھی آپRehmatullah Alaih کے سر ہے چنانچہ امام برہان الدین الحلبی Rehmatullah Alaih لکھتے ہیں:

ومن الفوائد انه جرت عادةكثیر من الناس بذكر وضعه صلى اللّٰه عليه وسلم أن یقوموا تعظیما له صلى اللّٰه عليه وسلم وھذا القیام بدعة لا أصل لھا أى لكن ھى بدعة حسنة لأنه لیس كل بدعة مذمومة.....قال إمامنا الشافعى قدس اللّٰه سره ما أحدث و خالف كتابا أوسنة أو إجماعا أو أثرھا فھو البدعة الضلالة وما أحدث من الخبر......لم یخالف شیئا من ذلك فھو البدعة المحمودة وقد وجد القیام عند ذكر اسمه صلى اللّٰه عليه وسلم من عالم الأمة ومقتدى الأئمة دینا وورعا الإمام تقى الدین السبكى وتابعه على ذلك مشایخ الإسلام فى عصر وفقد حكى بعضھم أن الإمام السبكى اجتمع عنده جمع كثیر من علماء عصره فانشد منشد قول الصرصرى فى مدحه صلى اللّٰه عليه وسلم :
قلیل لمدح المصطفى الخط بالذھب
علی ورق من خط أحسن من كتب
وأن ینھض الأشراف عند سماعه
قیاما صفوفا أو جثیا على الركب
فعند ذلك قام الإمام السبكى رحمه اللّٰه وجمیع من فى المجلس فحصل أنس كبیر بذلك المجلس ویكفى مثل ذلك فى الاقتداء . 7
اور فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کی یہ عادت جاری ہوگئی ہے کہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پیدائش مبارک کا ذکر سنا فوراً حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور یہ قیام بدعت ہے جس کی کوئی اصل نہیں یعنی بدعت حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی۔۔۔ ہمارے امام شافعیRehmatullah Alaih نے فرمایا جو چیز کتاب، سنت، اجماع یا اقوالِ صحابہ کے خلاف ہو وہ بدعتِ ضلالہ ہے اور جو نیک کام ایجاد کیا جائے اور وہ ان (اصول شرعیہ) کے خلاف نہ ہو بدعتِ محمودہ ہے۔۔۔حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ذکر مبارک کے وقت (آسمانی مخلوقات اور ملائکہ کا)قیام پایا گیا ہے۔ امت محمدیہ کے جلیل القدر عالم امام تقی الدین سبکیRehmatullah Alaih جو دین اور تقویٰ میں ائمہ کے مقتداء ہیں ،اس پر ان کے دور کے ہمعصر تمام علماء و مشائخ اسلام نے ان کی اتباع کی چنانچہ منقول ہے کہ امام سبکی Rehmatullah Alaih کے پاس ان کے ہمعصر علماء کرام بکثرت جمع ہوئے۔ ایک مداح رسول نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مدح میں امام صرصریRehmatullah Alaih کے یہ اشعار پڑھے: اگر چاندی پر سونے کے حروف سے بہترین کاتب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مدح لکھے تب بھی کم ہے۔ بیشک عزت و شرف والے لوگ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا ذکر جمیل سن کر صف بستہ قیام کرتے ہیں یا گھٹنوں پر دوزانو ہوجاتے ہیں۔یہ اشعار سن کرامام سبکی اور تمام اہل مجلس مشائخ وعلماء بھی کھڑے ہوگئے اور اس وقت بڑا انس حاصل ہوا۔ مجلس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس قسم کے واقعات مشائخ علماء کی اقتداء کے بارے میں کافی ہوتے ہیں۔

اس مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں یہ واضح ہواکہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے تذکرہ کے وقت قیام مستحب ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مولود النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے جمع ہوکر محافل و مجالس کا انعقاد کرنا نہ صرف جائز و مستحسن فعل ہے بلکہ امت کہ مقتدر مشائخ و مایہ ناز مفسرینRehmatullah Alaih جن میں شیخ تقی الدین سبکی Rehmatullah Alaih جیسے متبحّر مفسر بھی شامل ہیں اس مبارک محفل ومجلس کو منعقد کرتےاور بارگاہِ رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے اس پر انعامات وصول کرتے آئے ہیں۔

ميلاد النبیﷺامام ابن جماعہ کی نظر میں

ان مفسرین کرام میں ایک بلند پایہ مفسر و عالم مصرو شام کے قاضی القضاۃ اور اپنے ہمعصر فقیہ علماء میں جو بمنزلہ شیخ کےہیں یعنی برہان الدین بن جماعہ Rehmatullah Alaih بھی ان مفسرین میں شامل ہیں جو مولود النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو نہ صرف جائزو بنظر استحسان دیکھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر مولود النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موقع پر باقاعدہ محفلِ میلاد کا اہتمام کرتے تھے اور اس میں حاضر ہونے والوں کو کھانا بھی کھلایا کرتے تھے۔آپ Rehmatullah Alaih کا پورا نام ابو اِسحاق اِبراہیم بن عبد الرحیم بن اِبراہیم بن جماعہ الشافعی ہے اور آپ Rehmatullah Alaih نے دس جلدوں پر مشتمل قرآن حکیم کی تفسیر بھی لکھی ہے جس کے خود مصنف کے ہاتھوں سے لکھے گئے ایک نسخہ کو شیخ ابن حجر Rehmatullah Alaih نے دیکھا ہے اور اس کی افادیت کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں کئی قسم کے نکات و رموز اور فوائد ہیں ۔ 8

شیخ ابن جماعہ کے میلاد منانے کے حوالہ سے امام ملا علی قاری Rehmatullah Alaihاپنی مایہ ناز کتاب"المورد الروی فی مولد النبی صلي الله عليه وسلم" میں آپ Rehmatullah Alaihکے معمولاتِ میلاد شریف کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

فقد اتصل بنا ان الزاھد القدوة المعمر ابا اسحاق ابراھیم بن عبدالرحیم بن ابراھیم جماعة لماكان بالمدینة النبویة، على ساكنھا افضل الصلاوة اكمل التحیة، كان یعمل طعاماً فى المولد النبوى، ویطعم الناس، ویقول: لوتمکنت عملت بطول الشھر كل یوم مولداً.9
ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ بزرگ ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam(اس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو) میں تھے تو میلاد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے اور فرماتے کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔10

ملا علی قاری کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ شیخ ابن جماعۃ Rehmatullah Alaihجو مایہ ناز مفسر ہیں وہ بھی مدینہ منورہ میں مولود النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی محافل کا انعقاد کیا کرتے تھے اور لوگوں کو رسول مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی میں کھانا بھی کھلایا کرتے تھے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی خوشی کرنا اور اس خوشی کے اظہار کے خاطر کھانا کھلانا جائز ومستحسن ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

میلاد النبیﷺامام سیوطی Rehmatullah Alaihکی نظر میں

مفسّرقرآن شیخ امام جلال الدین سیوطی Rehmatullah Alaihنے مولد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حوالہ سے انتہائی وقیع رسالہ بنام"حُسْنُ الْمَقْصَد فِیْ عَمَلِ الْمَوْلَد" لکھا ہے جس میں میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمنانے کی شرعی حیثیت اور اس پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات بیان کیے گئے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام ، مروّجہ طرز کی محافل میلاد کے انعقاد کا آغاز،آغاز کرنے والے بادشاہ، معترضین میلاد کے اعتراضات مع جوابات، میلاد منانے اور اُس پر خوشی کرنے کا ذکر ، سرکار دوعالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پیر کے روز پیدا ہونے کی حکمت کے ساتھ ساتھ میلاد میں غلط رسموں اورناجائز امور پر بھی مفصّل کلام کیا ہے ۔ان کا ایک اقتباس یہاں پیش کیاجارہا ہے جس سے اندازہ ہوجائےگا کہ امام جلال الدین سیوطی Rehmatullah Alaihمیلاد کے نہ صرف جواز کے قائل ہیں بلکہ آپ Rehmatullah Alaihنےاس کے استحسان کے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ اس میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اصل کی تخریج بھی خود فرمائی ہے چنانچہ آپ Rehmatullah Alaih تحریر فرماتے ہیں:

أن أصل عمل المولد الذى ھو اجتماع الناس وقرآء ة ما تیسر من القرآن وروایة الأخبار الواردة فى مبدأ أمر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وما وقع فى مولده من الآیات ثم یمدّ لھم سماط یأكلونه وینصرفون من غیر زیادة على ذلك ھو من البدع الحسنة التى یثاب علیھا صاحبھا، لما فیه من تعظیم قدر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإظھار الفرح والاستبشار بمولده الشریف.11
محفل میلاد در اصل لوگوں کا اکٹھے ہونا، بسہولت تلاوت قرآن کرنا اور ان احادیث کا بیان کرنا اور سننا ہے جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ابتدائی حیاتِ طیّبہ کے بارے میں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کے موقع پر پیش آنےوالے واقعات کے حوالہ سے منقول ہیں۔ پھر طعام کے لیے خوانِ طعام بچھایا جاتاہے جس پہ وہ کھانا تناول کرتے ہیں اور بغیر کسی اور زیادتی کیے واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔یہ نئے اچھے اعمال میں سے ہیں جن پر ثواب عطا کیاجائےگا کیونکہ اس میں رسالت مآب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی قدر و منزلت اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آمد پر اظہارِ خوشی ہے۔

اسی طرح امام سیوطی Rehmatullah Alaihنے اس رسالے میں امام ابن الحاج Rehmatullah Alaihکے سوال کو نقل کیا ہے اور پھر اس کا جواب تحریر کیا ہے چنانچہ امام سیوطیRehmatullah Alaih اس اعتراض کو بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه فى شھر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة فمن ذلك استعمالهم المغانى ومعهم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا فى ذلك على العوائد الذميمة فى كونھم يشتغلون فى أكثر الأزمنة التى فضلها اللّٰه تعالى وعظمها ببدع ومحرمات ولا شك أن السماع فى غير هذه الليلة فيه ما فيه. فكيف به إذا انضم إلى فضيلة هذا الشهر العظيم الذى فضله اللّٰه تعالى وفضلنا فيه بھذا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم على ربه عز وجل...فآلة الطرب والسماع أى نسبة بينھا وبين تعظيم هذا الشهر الكريم الذى من اللّٰه تعالى علينا فيه بسيد الأولين والآخرين فكان يجب أن يزاد فيه من العبادات والخير شكرا للمولى سبحانه وتعالى على ما أولانا من هذه النعم العظيمة... وهذه المفاسد مركبة على فعل المولد إذا عمل بالسماع فإن خلا منه وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فهو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة فى الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنھم أشد الناس اتباعا لسنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظيما له ولسنته صلى اللّٰه عليه وسلم ولهم قدم السبق فى المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منھم أنه نوى المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسعهم.12
من جملہ لوگوں کی ایجاد کردہ بدعتوں میں سے ایک ماہ ربیع الاول میں میلاد پاک منانا ہے جسے وہ عظیم عبادت سمجھتے ہیں اور شعائر ِ اسلامی کا اظہار گردانتے ہیں حالانکہ یہ میلاد بہت سے نت نئےحرام اورناجائز افعال پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان حرام اشیاء میں سےآلاتِ طرب ہیں جیسےطار، مصر صر اور شبابہ وغیرہ جنہیں آلات سماع کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برائی میں مشغول ہوتے ہیں۔بالخصوص جن اوقات کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے، ان میں بدعتوں اور حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ سماع توبلاشبہ اس رات کے علاوہ بھی جائز نہیں ہےتو اس رات میں کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ جو رات اس مہینہ کی عظمت وفضیلت کو متضمن ہے کہ جس میں باری تعالی نے نبی سرور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو مبعوث فرمایا۔۔۔ لہذا واضح ہوا کہ آلات طرب وسماع کی اس بزرگ مہینے سے کوئی ادنی سی بھی نسبت نہیں جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولین و آخرین کے سردار Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو پیدا فرماکر ہم پر احسان فرمایا لہٰذا ضروری ہے کہ اس مہینہ میں عبادات اور نیکیاں بکثرت سرنجام دی جائیں۔ اس عظیم نعمت پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے۔۔۔ یہ مذکورہ برائیاں فعلِ میلاد پر اس وقت مرتب ہوتی ہیں جب اس میں سماع وغیرہ شامل ہو اور اگر سماع سے خالی ہو، میلاد کی نیت سے لوگوں کو بلاکر کھانا کھلایا جائے اور تمام ماقبل مذکورہ خرافات سے یہ فعلِ میلاد محفوظ ہو تو بھی یہ صرف اپنی نیتِ مولد کی وجہ سے بدعت ہے کیونکہ یہ دین میں زیادتی ہے اور یہ گزشتہ سلف صالحین کے عمل سے بھی ثابت نہیں ہے حالانکہ سلف صالحین کی اتباع لازمی ہے۔ ان حضرات ِصالحین میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس طرح فعلِ مولد کی نیت کی ہو(اور یہ فعل سرانجام دیاہو) لہٰذا جو انہوں نے کیا ہمیں بھی وہی کرنا چاہیے۔

جس طرح امام فاکہانی نے فعلِ میلاد کو بدعت کہا ہے13 اسی طرح مذکورہ بالا عبارت کے آخر میں امام ابن الحاج نے بھی یہی لکھا ہے اور اس مذکورہ بالا اعتراض کا جواب امام سیوطی Rehmatullah Alaih نے اپنے رسالہ "حُسْنُ الْمَقْصَد فِیْ عَمَلِ الْمَوْلَد" میں دیا ہے چنانچہ اس کا جواب دیتے ہوئے امام سیوطی تحریر فرماتے ہیں:

وحاصل ما ذكره أنه لم يذم المولد بل ذم ما يحتوى عليه من المحرمات والمنكرات، وأول كلامه صريح فى أنه ينبغى أن يخص ھذا الشھر بزيادة فعل البر وكثرة الخيرات والصدقات وغير ذلك من وجوه القربات، وهذا هو عمل المولد الذى استحسناه، فإنه ليس فيه شىء سوى قراءة القرآن وإطعام الطعام، وذلك خير وبر وقربة.14
ابن الحاج کی عبارت جس کو انہوں نے ذکر کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے میلاد شریف کی برائی نہیں کی بلکہ ان حرام اور فحش افعال کی برائی کی جو اس میں شامل ہوگئے ہیں اور ان کا ابتدائی کلام اس بات میں صریح ہے کہ اس ماہ مبارک کو بکثرت نیکیوں اورزیادہ خیرات وصدقات کے ساتھ خاص کیا جائےاورقربِ الہی کے دیگر طریقوں کے ساتھ مخصوص کیا جائے۔ یہی وہ میلاد ہے جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں تلاوت قرآن اور کھانا کھلائے جانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہی افعال بھلے، نیکی اور قربِ الہی کا ذریعہ ہیں۔

یعنی امام ابن الحاج نے عمل مولد میں ہونے والی خرافات کو غلط کہا تھا جس کا جواب سطور بالا میں دیاگیا ہے اور امام فاکہانی کے سوال کے جواب میں امام جلال الدین سیوطی Rehmatullah Alaih نے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اصل کو کئی احادیث سے ثابت کیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جلیل القدر مفسر بھی نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد کو مستحسن جانتے تھے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات بھی آپRehmatullah Alaih نے اسی وجہ سے دیے تھے ۔

میلاد النبیﷺامام ابن کثیرRehmatullah Alaih کی نظر میں

امام ابن کثیر جو ایک مفسر کی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے درمیان جانے جاتے ہیں انہوں نے بھی مولد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی لکھتے ہیں:

ابن کثیر کے اس مختصر رسالے کا ذکر ان کے کسی سوانح نگار نے نہیں کیا ہے۔ اس کا سبب رسالے کا حجم بھی ہوسکتا ہے اور اس کی کامیابی بھی۔ اس قیمتی اور نایاب کتاب کی تلاش کا سہرا ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کے سر ہے۔ انہیں اس کا مخطوطہ ریاستہائے متحدہ امریکا کے شرہ برنسٹن کی یونیورسٹی کی لائبریری میں دستیاب ہوا۔ جو مجموعہ یہودا کے ضمن میں قلمی رسائل نمبر چار ہزار اٹھانوے( 4098 )کے مجموعے میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں کل سترہ رسائل ہیں اور یہ رسالہ ورق نوّے( 90) سےسو( 100) تک پر مشتمل ہے۔ اس مخطوطے کوسات سو چھیاسی( 786ھ) میں لکھا گیا ہے یعنی ابن کثیر کی وفات کے محض بارہ (12) سال بعد۔ ڈاکٹر منجد نے اسے پہلی بارانیس سو انہتر( 1969ء) میں دار الکتاب الجدید، بیروت سے شائع کروایا۔ لیکن اس میں احادیث کی تخریج بالکل نہیں کی گئی ہے اور صرف البدایہ والنہایہ سے اس کے نصوص کا مقابلہ کیا گیا ہے۔15

ابن کثیر نے اپنی کتاب"البدایۃ والنہایۃ" میں ایک مقام پر شاہ اربل کی تعریف کی ہے اور ان کے نیک کام تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے:

وكانت صدقاته فى جمیع القرب والطاعات على الحرمین وغیرھما.16
ان کے تمام نیک کاموں میں صدقات کا دائرہ حرمین اور دیگر مقامات تک پھیلا ہوا تھا۔

ان میں ایک نیک کام جامع مسجد مظفری کا بنانا بھی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی Rehmatullah Alaihتحریر فرماتے ہیں:

وھو الذى عمر الجامع المظفرى بسفح قاسیون.17
اسی بادشاہ نے قاسیون کی وادی میں جامع مظفری کو تعمیر کرایا تھا ۔

ان کی بنائی ہوئی مسجد مظفری کے مؤذن کے حکم پر امام ابن کثیر نے مولد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نام سے یہ رسالہ لکھا جو بیروت سے کئی بار شائع ہوچکا ہے۔ غالباً اس مسجد کے مؤذن نے مسجد میں منعقد ہونے والی میلاد کی محفلوں میں پڑھنے کے لیے ابن کثیر سے یہ کتاب لکھوائی ہوگی۔ یہ کتاب اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ابن کثیر ان محفلوں کے انعقاد کو جائز سمجھتے تھے۔ 18

اس"مولد رسول اللہ صلي الله عليه وسلم"نامی نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے میلاد پر لکھے گئے رسالہ میں ابن کثیر لکھتے ہیں:

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت شریفہ کی شب عظمت وشرافت والی اور مومنین کے لیے برکت وسعادت والی شب ہے۔پاک وطاہر شب تھی، جس کے انوار ظاہروعیاں تھے اور جو بڑی بزرگی اور قدر ومنزلت والی شب تھی۔ اس شب میں اﷲ تعالیٰ نے اس محفوظ وپوشیدہ جوہر کو (اس خاکدان گیتی میں) ظاہر فرمایا جس کے انوار ہمیشہ سے نکاح کے ذریعہ نہ کہ بے حیائی کے ذریعے شریف صلب سے طاہر وعفت والے رحم میں منتقل ہوتے رہے اور یہ سلسلہ ابو البشر آدم Alaihis Salamسے چلتا ہوا عبداﷲ بن عبد المطلب پر ختم ہوا۔ اور حضرت عبداﷲ سے یہ نور جناب آمنہ بنت وہب کی جانب منتقل ہوا۔ اور اسی شرف وعزت والی رات میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت ہوئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت شریفہ کے جو حسی ومعنوی اور ظاہری وباطنی انوار ظاہر ہوئے ان سے عقلیں حیران، اور نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔19

اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسر کی نظر میں میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجائز و مستحسن ہے اور انہوں نے خود بھی اس کے جواز واستحسان پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا ترجمہ پاکستان سے بھی شائع ہوچکا ہے۔

میلاد النبیﷺاسماعیل حقی Rehmatullah Alaih کی نظر میں

انہی مفسرین کرام میں سے ایک مفسرِ جلیل شیخ امام اسماعیل حقیRehmatullah Alaih بھی ہیں جنہوں نے میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم میں شامل کیا ہے اور ربیع الاوّل کے ماہ کو ولادت رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی وجہ سے عظیم الشان تحریر کیا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:

إنه قد اتفق أھل العلم على أفضلیة شھر رمضان لأنه أنزل فیه القرآن ثم شھر ربیع الأول لأنه مولد حبیب الرحمن وأما أفضل اللیالى فقیل لیلة القدر لنزول القرآن فیھا وقیل لیلة المولد المحمدى لولاه ما أنزل القرآن ولا تعینت لیلة القدر فعلى الأمة تعظیم شھر المولد ولیلة كى ینالوا منه شفاعته ویصلوا إلى جواره.20
اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ ماہ رمضان تمام مہینوں سے افضل ہے اس کے بعد ربیع الاول شریف کو باقی تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہےکیونکہ اس میں حبیبِ رحمن Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپیداہوئے،البتہ فضیلت والی رات شب قدرہےاس لیےکہ اس میں قرآن نازل ہوااورکہاگیا کہ شب ولادت محمدی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamافضل رات ہےکیونکہ اگروہ نہ ہوتےتوقرآن بھی نازل نہ ہوتااورنہ ہی شب قدرمتعین ہوتی پس امت پرلازم ہےکہ اس ماہ اورشب ولادت کی تعظیم کریں تاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شفاعت وقرب حاصل کرسکیں۔

بعض کے نزدیک تمام راتوں سے لیلۃ القدر افضل ہے لیکن بعض نے لیلۃ القدر سمیت تمام راتوں پر شبِ میلاد کو افضل کہا اس لیے کہ اگر حضور تشریف نہ لاتے تو نہ لیلۃ القدر ہوتی اور نہ کوئی اور شے۔امت پر لازم ہے کہ وہ ماہِ میلاد شریف کے دنوں اور راتوں کی تعظیم وتکریم میں جدوجہد کرے تاکہ حضور نبی پاک Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شفاعت نصیب ہو اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قرب کریمانہ سے نوازے جائیں۔21

نیزاسی طرح میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم کے افعال میں شامل قراردیتے ہوئے امام اسماعیل حقیRehmatullah Alaih ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

ومن تعظیمه عمل المولد إذا لم یكن فیه منكر قال الإمام السیوطى قدس سره یستحب لنا اظھار الشكر لمولده انتھى.22
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم میں ہے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا میلاد منانا جبکہ اس میں خلاف شرع کوئی امر نہ ہو امام سیوطی نے فرمایا کہ ہمارے لیے میلاد کے ذریعے اظہار تشکر ضروری ہے۔ 23

اسی طرح نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ولادت کی محفل میں ساعتِ میلاد کے وقت کھڑے ہوکر درود وسلام کے اثبات پر امام تقی الدین سبکی Rehmatullah Alaih کی عبارت نقل کرنے کے بعد اس کے جواز کے بارے میں اپنی رائےدیتے ہوئے لکھتے ہیں:

ویكفى ذلك فى الاقتداء.24
تو ان کی اقتداء کی دلیل کافی ہے۔

ان مذکورہ بالا عبارات سے بھی واضح ہواکہ شیخ اسماعیل حقی Rehmatullah Alaih جو کہ بلند پایہ مفسر ہیں انہوں نے بھی میلاد النبیSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو مستحسن قراردیا ہے اور اس کو نبی مکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم میں شامل کیا ہے۔

ان مذکورہ بالا مفسرین کے اقتباسات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا میلاد منانا ایک مستحسن امر ہے اور نبی مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تعظیم میں شامل ہے اور اس کےمنانے والے پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا خصوصی فضل واحسان ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو اکہ امت کے اکابر علماء اس میلاد النبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو بنظر استحسان دیکھتےہیں ۔


  • 1  القرآن،سورۃ یونس10: 58
  • 2  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:477
  • 3  جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکر سیوطی،الحاوی للفتاوٰی، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:188
  • 4  ابو بکر احمد بن حسین البیھقی،السنن الکبری،حدیث: 19273، ج-9، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص:505
  • 5  شھاب الدین احمد بن حجر ہیتمی الشافعی،النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولد آدمﷺ،مطبوعۃ: مکتبۃ الحقییۃ،استنبول ،ترکی،2003م،ص:6
  • 6  ایضا، الفتاویٰ الحدیثیۃ، مطبوعۃ: مطبع جمالیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 85
  • 7  ابو الفرج على بن ابراهيم الحلبى، انسان العيون فى سيرة النبى الامين المامونﷺ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:123
  • 8  شیخ خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-1، مطبوعۃ: دار العم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 46 - 47
  • 9  نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی مولدالنبیﷺ، مطبوعۃ: منہاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م،ص:81
  • 10  نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی مولدالنبیﷺ(مترجم:عبد القیوم ہزاروی)،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان، 2011ء، ص:84
  • 11  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 189
  • 12  ابو عبد الله محمد بن محمدالمالكی الشھیر بابن الحاج، المدخل،ج-2، مطبوعۃ:دار التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2
  • 13  تاج الدین عمر بن علی الفاکہانی، المورد فی عمل المولد، مطبوعۃ: دار العاصمۃ، الریاض، السعودية،1998م، ص: 8-9
  • 14  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 187
  • 15  ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی ، تحفہ عید میلاد النبیﷺ،مطبوعہ: اویسی بک سٹال، گوجرانوالہ،پاکستان، 2011ء،ص: 84
  • 16  أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر،البدایۃ والنہایۃ، ج-13، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 160
  • 17  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 189
  • 18  ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی ، تحفہ عید میلاد النبی ﷺ ،مطبوعہ: اویسی بک سٹال، گوجرانوالہ، پاکستان، 2011ء،ص:84-85
  • 19  ابو الفداء اسماعیل ا بن کثیر الدمشقی، مولد رسول اﷲ ﷺ،مطبوعہ: اویسی بک اسٹال ،گوجرانوالہ،پاکستان، 2011ء، ص:97
  • 20  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 243
  • 21  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن(مترجم: شیخ الحدیث فیض احمد اویسی﷫)،ج-6، مطبوعہ: مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاولپور،پاکستان، 1985ء،ص: 164
  • 22  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:56
  • 23  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن (مترجم: شیخ الحدیث فیض احمد اویسی)، ج-26، مطبوعہ: مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاولپور،پاکستان، 1985ء،ص: 345
  • 24  ایضا، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 56

Powered by Netsol Online