Encyclopedia of Muhammad

حضرت محمد مصطفیٰ sym-1 کو شہید کرنے کی یہودی سازش

Published on: 29-Oct-2025

حضرت محمد مصطفیٰ sym-1 جب مکّہ س سےمدینہ منوّرہ تشریف لائے تو یہاں یہود کے قبائل آباد تھے جن میں بنو قینقاع، بنو قریظہ اور بنو نضیر مشہور تھے۔ 1آپ sym-1 نے ان کے ساتھ مدینہ منوّرہ اور اہل ایمان کی حفاظت کے لئے تحریری معاہدہ فرمایا 2جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔ان تین یہودی قبائل میں سے ایک بنو نضیر تھا جو معاہدہ کی روسے جنگ وامن میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کا ویسے ہی پابند تھا جیسے خود مسلمان اس قبیلے کا ساتھ دینے کے پابند تھے۔ معاہدہ کی رو سے مسلمانوں اور بنونضیر پر یہ بات لازم بھی تھی کہ وہ اگر غلطی سے کسی دوسرے قبیلہ کے فرد کا قتل کردیں تو مقتول کا خون بہا (دیت) بھی مل کر ادا کریں گے۔ 3آپ sym-1 کے ساتھ معاہدہِ امن پر دستخط کرنے کے باوجود نہ تو یہ یہودی قبیلہ آپ sym-1 کی تکریم پر آمادہ تھا اور نہ ہی ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی کی بنیاد پر دو مقتولین کی دیت کو ادا کرنے پر ، بلکہ اس موضوع پر گفت وشنید کی آڑ میں اس نے آپ sym-1 کو شہید کرنے کا پورا منصوبہ بھی تیار کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادیا۔ 4ان کے اس معاہدہ شکنی اور قبیح عمل کی پاداش میں رسول کریم sym-1 نے قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ منوّرہ سے بالآخر جلا وطن کردیا ۔5

حضرت محمد sym-1 یہودِ مدینہ کی نظر میں

یہود نبی کریم sym-1 کو بہت اچھی طرح اور پہچانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ sym-1للہ تعالیٰ کے سچے اور آخری نبی ورسول ہیں6لیکن اپنے دلوں میں آپ sym-1 کےلیے موجود حسد کی وجہ سے وہ آپ sym-1 پر ایمان لانے سے منکر رہے۔ یہو د کے کتمان حق کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا:

وَدَّ كَثِيرٞ مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ لَوۡ يَرُدُّونَكُم مِّنۢ بَعۡدِ إِيمَٰنِكُمۡ كُفَّارًا حَسَدٗا مِّنۡ عِندِ أَنفُسِهِم مِّنۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ ٱلۡحَقُّۖ فَٱعۡفُواْ وَٱصۡفَحُواْ حَتَّىٰ يَأۡتِيَ ٱللَّهُ بِأَمۡرِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٖ قَدِيرٞ 1097
بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے کہ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بیشک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔

رسول کریم sym-1 نے ہرممکن کوشش کی کہ یہود مدینہ کو اپنے قریب کر سکیں۔ ان کی تمام سازشوں اورشرارتوں کے باوجود آپ sym-1 کا رویہ ان کے ساتھ عفو ودرگزر کا تھا لیکن پھر بھی یہود نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ آپsym-1 کو کسی نہ کسی طرح کی تکلیف یا نقصان پہنچائیں۔8یہود کی اسی سازشی ذہنیت کی طرف اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت مبارکہ میں اشارہ فرمایا ہے:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا.... 9
آپ یقیناً ایمان والوں کے حق میں بلحاظِ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔۔۔

بنو نضیر کی سازش کا سبب

بنو نضیر کے لوگ آپ sym-1 کو اس لئے شہید کرنا چاہتے تھےکیونکہ حضرت عمرو بن امیہ الضمری sym-5 نے قبیلہ بنو عامر کے دو ایسے افراد کو بے خبری میں قتل کردیا تھا جو رسول کریم sym-1 سے پہلے ہی اپنی جان کی امان پاچکے تھے۔ جب عمرو بن امیہ sym-5 نے رسول اللہ sym-1 کو اس کی خبر دی تو آپ sym-1نے فرمایا :

لقد قتلت قتیلین لادینهما.10
تم نے ایسے دو لوگوں کو قتل کیا جن کی دیت میں ضرور ادا کروں گا۔

چنانچہ آپ sym-1 نے ان دونوں افراد کا خون بہا یادیت ادا کرنے اور اس معاملہ میں یادہانی کرانے بنو نضیر کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تاکہ حسب معاہدہ آپ sym-1 ان سے دیت ادا کرنے کےلیے تعاون کی بات کر سکیں ۔11چنانچہ آپ sym-1 اپنے چند صحابہ کرام جن میں حضرت ابو بکر ،عمر ، عثمان، علی، زبیر،طلحہ، سعد بن معاذ،سعد بن عبادہ ،اور اسید بن حضیر sym-7 شامل تھے، ان کے ہمراہ ہفتہ کے دن قبیلہ بنو نضیر کی طرف تشریف لے گئے ۔ بنو نضیر کی طر ف جاتے ہوئے آپsym-1 نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد قبا میں نماز بھی ادا فرمائی۔12آپ sym-1 قبیلہ بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے تاکہ حسبِ معاہدہ دیت کی ادائیگی میں اُن سے حصہ لینے کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے بظاہر کہا کہ وہ وہی کریں گے جو آپ sym-1 چاہیں گے، اور آپ sym-1 سے کہا کہ آپ کچھ دیر آرام فرما لیں۔ پھر ایک گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر آپ sym-1 کو بٹھا دیا۔13

حُییّ بن اخطب کا یہود کو آپsym-1 کے خلاف اکسانا

یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان کی بدبختی اور باطنی رذالت نے انہیں آن گھیرا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ (نعوذ بااللہ ) آپ sym-1 کو شہید کرڈالیں ۔ یہودیوں کے سردار حُییّ بن اخطب نے ان سےکہا کہ محمد (sym-1) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ان کے پاس آئے ہوئے ہیں جن کی تعداد دس سے بھی کم ہے۔ اس وقت ان پر گھر کی چھت کے اوپر سے ایک بڑا پتھر گرا کے انہیں(نعوذبااللہ) قتل کیا جاسکتا ہے ۔اس کے بعد جس کے نتیجے میں ان کے تمام ساتھی منتشر ہوجائیں گے ۔قبیلہ قریش کے لوگ مکّہ س چلے جائیں گے اور یہاں تمہارے حلیف صرف اوس وخزرج کے لوگ باقی رہ جائیں ۔14حُییّ بن اخطب کے اکسانے پر ایک یہودی جس کانام عمر و بن جحاش تھا اس نے اس گھر کی چھت پر جس کی دیوار کےساتھ آپ sym-1 تشریف فرما تھے چڑھ کر آپ sym-1 پر بڑا پتھر گرانے کی ذمہ داری لے لی ۔15

سلام بن مشکم کی یہود کو نصیحت

یہودیوں میں ایک سمجھدار آدمی سلام بن مشکم نے جب حُییّ بن اخطب کے ان شیطانی خرافات کو سنا تو اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ محمد (sym-1) کو اس ارادے کی خبر کردی جائے گی اور یہ فریقین کے درمیان معاہدے کے خلاف ورزی ہوگی لیکن انہوں نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے ارادہ کو پورا کرنے پر تل گئے۔16

رسول اللہ sym-1 کا پُر حکمت خروج

رسول اللہ sym-1 کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل sym-9 کے ذریعہ یہود کے ناپاک منصوبے سے باخبر فرمادیا اس لیے آپ sym-1 فوراوہاں سے اس طریقہ سے باہر نکلے گویا کہ آپ sym-1 اپنی کسی اہم ضرورت سے باہر گئے ہوں ۔ اس کامقصد یہ تھا کہ کہیں یہود آپ sym-1کے ارادہ سے باخبر ہوکر آپsym-1 کے ساتھیوں کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ آپsym-1 وہاں سے سیدھا مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے۔ طویل انتظار کے بعد صحابہ کرام sym-7 نے بھی وہاں سے واپسی کی اجازت چاہی جس کو سن کر یہود کہنے لگے کہ محمد (sym-1) نے بہت جلدی کی حالانکہ وہ تو ان کا بھرپور اکرام کرنا چاہتے تھے ۔صحابہ کرام sym-7 نے واپسی میں آپ sym-1کو تلاش کرتے ہوئے ایک شخص سے آپsym-1 کےمتعلق پوچھا جو مدینہ منوّرہ سے آرہا تھا، اس نے بتایا کہ آپ sym-1 اس وقت مدینہ منوّرہ میں ہیں۔ یہ سن کریہ تمام صحابہ کرام sym-7 آپ sym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں سے جلدی آنے کی وجہ دریافت کی17جس کے جواب میں آپ sym-1 نے ان کو سارا ماجرا سنایا اور فرمایا:

همّت يهود بالغدر بي، فأخبرني الله تعالى فقمت. 18
یہود نے میرے ساتھ دھوکہ کرنا چاہا ،تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خبردی اس لیے میں وہاں سے اٹھ گیا۔

کنانہ بن صویراء کی یہود کو تنبیہ

آپ sym-1 اور صحابہ کرام sym-7 کے چلے جانے کےبعد یہودیوں میں سے ایک زیرک شخص کنانہ بن صویراء جو آسمانی کتب کا علم رکھنے والا تھا ان یہودیوں کے پاس آیا اور کہنے لگاکہ وہ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ آخری نبی کی جو نشانیاں ان کی کتاب میں لکھی ہیں وہ سب محمد (sym-1) میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اللہ کے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ ہی ان کےباطل ارادوں سے باخبر کردیا ہے اور بلا شک وشبہ وہ خاتم النبیینsym-1 ہیں ۔ اس نے مزید کہا کہ اس کی قوم بیشک یہ چاہتی تھی کہ آخری پیغمبر حضرت ہارون sym-9 کی نسل سے آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت اسماعیل sym-9 کی اولاد میں سے مبعوث فرمادیا لیکن ان کتابوں میں اس نبی کی جو علامات درج ہیں وہ یہی ہیں کہ اس نبی کی پیدائش مکّہ س میں ہوگی اور وہ یثرب کی طرف ہجرت کرے گا۔ 19نبی کی جو صفات تورات میں مذکور ہیں وہ آپsym-1 پر ہی صادق آتی ہیں اس لیے اگر یہوداسلام قبول کرلیں تو بچ جائیں گے ورنہ وہ خاک وخون میں لت پت ہو جائیں گے۔ یہ سن کر حُییّ اپنی ضد پر اڑا رہا کہ وہ تورات کو نہیں چھوڑ سکتے یعنی اس نبی پر ایمان نہیں لاسکتے۔ یہ سن کر صویراء نے ان سے کہا کہ پھر اس نصیحت کو یاد رکھو کہ اب جو بھی پیغام محمد (sym-1) کی طرف سے آئے اس کو بلا چوں چراں کے قبول کرلینا کیوں کہ محمدsym-1 خون، مال اورجائیدادوں سے تعرض نہیں کریں گےلیکن پہلی بات زیادہ بہتر ہے کہ وہ اسلام لے آ ئیں۔20

آپ sym-1 کا بنو نضیر کو جلا وطنی کا پیغام بھیجنا

رسول اللہ sym-1 نے محمد بن مسلمہ sym-5 کو بلایا اور قبیلہ بنو نضیر روانہ فرمایا کہ جا کر ان کو یہ پیغام دیں :

أن يخرجوا من المدينة، ولا يساكنوني بها، وقد أجّلتهم عشرا فمن وجدت بعد ذلك ضربت عنقه. 21
(وہ) مدینہ سے نکل جائیں اور ان میں سے کوئی بھی مدینہ منوّرہ میں رہائش نہ اختیار کرے۔ میں نے ان کو 10 دن کی مہلت دی ہے پس اس کے بعد جو پایا جائے گا اس کی گردن ماردی جائے گی۔

یہود اپنی اس حرکت پر پہلے ہی کف افسوس مل رہے تھے کہ وہ رسوا ہوگئے ، اس پر مزید کنانہ بن صویراء نے ان کاانجام ان کو بتاکر مزید خوف زدہ کردیا تھا۔ پھر جب ان کے پاس حضرت مسلمہ sym-5 پیغام لے کر پہنچے تو یہ بات ان کےلیے آخری دھکا ثابت ہوئی،اس لیے انہوں نے مدینہ منوّرہ کو چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور وہاں سےنکل گئے۔22


  • 1  الشيخ صفی الرحمن المباركفوري،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 202
  • 2  ابو زہرہ محمد بن احمد، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکرالعربی،القاہرۃ، مصر، 1425ھ، ص: 485
  • 3  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی حلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص: 501-502
  • 4  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 364-365
  • 5  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 236
  • 6  القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 146
  • 7  القرآن، سورۃ البقرۃ 2 : 109
  • 8  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 184
  • 9  القرآن، سورۃ المائدۃ 5: 82
  • 10  ابو الفتح محمد بن محمدابن سید الناس اليعمري، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 66
  • 11  ابو الربیع سلیمان بن موسی الكلاعي، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 410- 411
  • 12  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی اللہ علیہ وسلم، ج-4، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 318
  • 13  أبو محمد علي بن أحمد ابن حزم الأندلسي، جوامع السیرۃ النبوية، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 109
  • 14  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس صلی اللہ علیہ وسلم ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 460
  • 15  أبوالفداء إسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-3، مطبوعۃ: عيسى البابي الحلبي، القاهرة، مصر، 1976م، ص:146
  • 16  حسن بن محمد المشاط، إنارة الدجى في مغازي خير الورى صلی اللہ علیہ وسلم، مطبوعۃ: دارالمنہاج، جدۃ، السعودیۃ، 1426ھ، ص: 329
  • 17  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة صلی اللہ علیہ وسلم، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 355
  • 18  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 366
  • 19  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-13، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 251
  • 20  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 365-366
  • 21  محمد الغزالي السقا، فقہ السیرۃ، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 283
  • 22  ایضاً، ص: 283-284

Powered by Netsol Online