کو شہید کرنے کی یہودی سازشحضرت محمد مصطفیٰ
جب مکّہ س سےمدینہ منوّرہ تشریف لائے تو یہاں یہود کے قبائل آباد تھے جن میں بنو قینقاع، بنو قریظہ اور بنو نضیر مشہور تھے۔ 1آپ
نے ان کے ساتھ مدینہ منوّرہ اور اہل ایمان کی حفاظت کے لئے تحریری معاہدہ فرمایا 2جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔ان تین یہودی قبائل میں سے ایک بنو نضیر تھا جو معاہدہ کی روسے جنگ وامن میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کا ویسے ہی پابند تھا جیسے خود مسلمان اس قبیلے کا ساتھ دینے کے پابند تھے۔ معاہدہ کی رو سے مسلمانوں اور بنونضیر پر یہ بات لازم بھی تھی کہ وہ اگر غلطی سے کسی دوسرے قبیلہ کے فرد کا قتل کردیں تو مقتول کا خون بہا (دیت) بھی مل کر ادا کریں گے۔ 3آپ
کے ساتھ معاہدہِ امن پر دستخط کرنے کے باوجود نہ تو یہ یہودی قبیلہ آپ
کی تکریم پر آمادہ تھا اور نہ ہی ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی کی بنیاد پر دو مقتولین کی دیت کو ادا کرنے پر ، بلکہ اس موضوع پر گفت وشنید کی آڑ میں اس نے آپ
کو شہید کرنے کا پورا منصوبہ بھی تیار کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادیا۔ 4ان کے اس معاہدہ شکنی اور قبیح عمل کی پاداش میں رسول کریم
نے قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ منوّرہ سے بالآخر جلا وطن کردیا ۔5
یہودِ مدینہ کی نظر میںیہود نبی کریم
کو بہت اچھی طرح اور پہچانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ
للہ تعالیٰ کے سچے اور آخری نبی ورسول ہیں6لیکن اپنے دلوں میں آپ
کےلیے موجود حسد کی وجہ سے وہ آپ
پر ایمان لانے سے منکر رہے۔ یہو د کے کتمان حق کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا:
وَدَّ كَثِيرٞ مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ لَوۡ يَرُدُّونَكُم مِّنۢ بَعۡدِ إِيمَٰنِكُمۡ كُفَّارًا حَسَدٗا مِّنۡ عِندِ أَنفُسِهِم مِّنۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ ٱلۡحَقُّۖ فَٱعۡفُواْ وَٱصۡفَحُواْ حَتَّىٰ يَأۡتِيَ ٱللَّهُ بِأَمۡرِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٖ قَدِيرٞ 1097
بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے کہ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بیشک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
رسول کریم
نے ہرممکن کوشش کی کہ یہود مدینہ کو اپنے قریب کر سکیں۔ ان کی تمام سازشوں اورشرارتوں کے باوجود آپ
کا رویہ ان کے ساتھ عفو ودرگزر کا تھا لیکن پھر بھی یہود نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ آپ
کو کسی نہ کسی طرح کی تکلیف یا نقصان پہنچائیں۔8یہود کی اسی سازشی ذہنیت کی طرف اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت مبارکہ میں اشارہ فرمایا ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا.... 9
آپ یقیناً ایمان والوں کے حق میں بلحاظِ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔۔۔
بنو نضیر کے لوگ آپ
کو اس لئے شہید کرنا چاہتے تھےکیونکہ حضرت عمرو بن امیہ الضمری
نے قبیلہ بنو عامر کے دو ایسے افراد کو بے خبری میں قتل کردیا تھا جو رسول کریم
سے پہلے ہی اپنی جان کی امان پاچکے تھے۔ جب عمرو بن امیہ
نے رسول اللہ
کو اس کی خبر دی تو آپ
نے فرمایا :
لقد قتلت قتیلین لادینهما.10
تم نے ایسے دو لوگوں کو قتل کیا جن کی دیت میں ضرور ادا کروں گا۔
چنانچہ آپ
نے ان دونوں افراد کا خون بہا یادیت ادا کرنے اور اس معاملہ میں یادہانی کرانے بنو نضیر کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تاکہ حسب معاہدہ آپ
ان سے دیت ادا کرنے کےلیے تعاون کی بات کر سکیں ۔11چنانچہ آپ
اپنے چند صحابہ کرام جن میں حضرت ابو بکر ،عمر ، عثمان، علی، زبیر،طلحہ، سعد بن معاذ،سعد بن عبادہ ،اور اسید بن حضیر
شامل تھے، ان کے ہمراہ ہفتہ کے دن قبیلہ بنو نضیر کی طرف تشریف لے گئے ۔ بنو نضیر کی طر ف جاتے ہوئے آپ
نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد قبا میں نماز بھی ادا فرمائی۔12آپ
قبیلہ بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے تاکہ حسبِ معاہدہ دیت کی ادائیگی میں اُن سے حصہ لینے کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے بظاہر کہا کہ وہ وہی کریں گے جو آپ
چاہیں گے، اور آپ
سے کہا کہ آپ کچھ دیر آرام فرما لیں۔ پھر ایک گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر آپ
کو بٹھا دیا۔13
کے خلاف اکسانایہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان کی بدبختی اور باطنی رذالت نے انہیں آن گھیرا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ (نعوذ بااللہ ) آپ
کو شہید کرڈالیں ۔ یہودیوں کے سردار حُییّ بن اخطب نے ان سےکہا کہ محمد (
) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ان کے پاس آئے ہوئے ہیں جن کی تعداد دس سے بھی کم ہے۔ اس وقت ان پر گھر کی چھت کے اوپر سے ایک بڑا پتھر گرا کے انہیں(نعوذبااللہ) قتل کیا جاسکتا ہے ۔اس کے بعد جس کے نتیجے میں ان کے تمام ساتھی منتشر ہوجائیں گے ۔قبیلہ قریش کے لوگ مکّہ س چلے جائیں گے اور یہاں تمہارے حلیف صرف اوس وخزرج کے لوگ باقی رہ جائیں ۔14حُییّ بن اخطب کے اکسانے پر ایک یہودی جس کانام عمر و بن جحاش تھا اس نے اس گھر کی چھت پر جس کی دیوار کےساتھ آپ
تشریف فرما تھے چڑھ کر آپ
پر بڑا پتھر گرانے کی ذمہ داری لے لی ۔15
یہودیوں میں ایک سمجھدار آدمی سلام بن مشکم نے جب حُییّ بن اخطب کے ان شیطانی خرافات کو سنا تو اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ محمد (
) کو اس ارادے کی خبر کردی جائے گی اور یہ فریقین کے درمیان معاہدے کے خلاف ورزی ہوگی لیکن انہوں نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے ارادہ کو پورا کرنے پر تل گئے۔16
کا پُر حکمت خروجرسول اللہ
کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل
کے ذریعہ یہود کے ناپاک منصوبے سے باخبر فرمادیا اس لیے آپ
فوراوہاں سے اس طریقہ سے باہر نکلے گویا کہ آپ
اپنی کسی اہم ضرورت سے باہر گئے ہوں ۔ اس کامقصد یہ تھا کہ کہیں یہود آپ
کے ارادہ سے باخبر ہوکر آپ
کے ساتھیوں کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ آپ
وہاں سے سیدھا مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے۔ طویل انتظار کے بعد صحابہ کرام
نے بھی وہاں سے واپسی کی اجازت چاہی جس کو سن کر یہود کہنے لگے کہ محمد (
) نے بہت جلدی کی حالانکہ وہ تو ان کا بھرپور اکرام کرنا چاہتے تھے ۔صحابہ کرام
نے واپسی میں آپ
کو تلاش کرتے ہوئے ایک شخص سے آپ
کےمتعلق پوچھا جو مدینہ منوّرہ سے آرہا تھا، اس نے بتایا کہ آپ
اس وقت مدینہ منوّرہ میں ہیں۔ یہ سن کریہ تمام صحابہ کرام
آپ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں سے جلدی آنے کی وجہ دریافت کی17جس کے جواب میں آپ
نے ان کو سارا ماجرا سنایا اور فرمایا:
همّت يهود بالغدر بي، فأخبرني الله تعالى فقمت. 18
یہود نے میرے ساتھ دھوکہ کرنا چاہا ،تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خبردی اس لیے میں وہاں سے اٹھ گیا۔
آپ
اور صحابہ کرام
کے چلے جانے کےبعد یہودیوں میں سے ایک زیرک شخص کنانہ بن صویراء جو آسمانی کتب کا علم رکھنے والا تھا ان یہودیوں کے پاس آیا اور کہنے لگاکہ وہ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ آخری نبی کی جو نشانیاں ان کی کتاب میں لکھی ہیں وہ سب محمد (
) میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اللہ کے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ ہی ان کےباطل ارادوں سے باخبر کردیا ہے اور بلا شک وشبہ وہ خاتم النبیین
ہیں ۔ اس نے مزید کہا کہ اس کی قوم بیشک یہ چاہتی تھی کہ آخری پیغمبر حضرت ہارون
کی نسل سے آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت اسماعیل
کی اولاد میں سے مبعوث فرمادیا لیکن ان کتابوں میں اس نبی کی جو علامات درج ہیں وہ یہی ہیں کہ اس نبی کی پیدائش مکّہ س میں ہوگی اور وہ یثرب کی طرف ہجرت کرے گا۔ 19نبی کی جو صفات تورات میں مذکور ہیں وہ آپ
پر ہی صادق آتی ہیں اس لیے اگر یہوداسلام قبول کرلیں تو بچ جائیں گے ورنہ وہ خاک وخون میں لت پت ہو جائیں گے۔ یہ سن کر حُییّ اپنی ضد پر اڑا رہا کہ وہ تورات کو نہیں چھوڑ سکتے یعنی اس نبی پر ایمان نہیں لاسکتے۔ یہ سن کر صویراء نے ان سے کہا کہ پھر اس نصیحت کو یاد رکھو کہ اب جو بھی پیغام محمد (
) کی طرف سے آئے اس کو بلا چوں چراں کے قبول کرلینا کیوں کہ محمد
خون، مال اورجائیدادوں سے تعرض نہیں کریں گےلیکن پہلی بات زیادہ بہتر ہے کہ وہ اسلام لے آ ئیں۔20
کا بنو نضیر کو جلا وطنی کا پیغام بھیجنارسول اللہ
نے محمد بن مسلمہ
کو بلایا اور قبیلہ بنو نضیر روانہ فرمایا کہ جا کر ان کو یہ پیغام دیں :
أن يخرجوا من المدينة، ولا يساكنوني بها، وقد أجّلتهم عشرا فمن وجدت بعد ذلك ضربت عنقه. 21
(وہ) مدینہ سے نکل جائیں اور ان میں سے کوئی بھی مدینہ منوّرہ میں رہائش نہ اختیار کرے۔ میں نے ان کو 10 دن کی مہلت دی ہے پس اس کے بعد جو پایا جائے گا اس کی گردن ماردی جائے گی۔
یہود اپنی اس حرکت پر پہلے ہی کف افسوس مل رہے تھے کہ وہ رسوا ہوگئے ، اس پر مزید کنانہ بن صویراء نے ان کاانجام ان کو بتاکر مزید خوف زدہ کردیا تھا۔ پھر جب ان کے پاس حضرت مسلمہ
پیغام لے کر پہنچے تو یہ بات ان کےلیے آخری دھکا ثابت ہوئی،اس لیے انہوں نے مدینہ منوّرہ کو چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور وہاں سےنکل گئے۔22