encyclopedia

ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رضى الله عنہا

Published on: 11-Mar-2024
image
پیدائش555 عیسویوفات619 عیسویعمر65 سالوالدخویلد بن اسدوالدہفاطمہ بنت زیدشوہرعتیق ابن عابد المخزومی (علیحدگی ہوئی)ابو ہالہ بن زرارہ التمیمی(علیحدگی ہوئی)رسول اللہ ﷺاولادہندقاسم رضی اللہ عنہطاہر رضی اللہ عنہطیب رضی اللہ عنہرقیہ رضی اللہ عنہاام کلثوم رضی اللہ عنہااور فاطمہ رضی اللہ عنہالقب:ام المؤمنینقبیلہ:قریشمزار مبارکجنت المعلیٰ
LanguagesChinese 中文PortugueseHindiDutchEnglish

حضرت خدیجہ بنت خویلد Radi Allah Anha ایک عقل مند اور بردبار خاتون تھیں۔ وہ نسب میں اعلیٰ، شرافت میں ارفع اور معاشی طور پر مالدار اور خود کفیل تھیں۔ وہ مکہ مکرمہ میں عام الفیل (ہاتھی کا سال) سے تقریباً 15 سال پہلے پیدا ہوئیں۔ 1 ان کا خاندان علاقے کے دیگر خاندانوں سے زیادہ معزز اور محترم سمجھا جاتا تھا۔ جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمرمبارک 25 سال ہوئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت خدیجہ بنت خویلد Radi Allah Anha سے نکاح فرمایا جو اس وقت 40 سال کی تھیں۔ 2 یہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پہلی شادی تھی اور جب تک حضرت خدیجہ بنت خویلد Radi Allah Anha زندہ رہیں تب تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔ 3 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت خدیجہ بنت خویلد Radi Allah Anha کی اس ازدواجی زندگی کو دنیا بھر کے تمام شادی شدہ جوڑوں کے لیے ایک مثالی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

پورا نام و نسب

آپ Radi Allah Anha کا پورا نام خدیجہ بنتِ خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہرتھا۔ آپ Radi Allah Anha کی والدہ کا نام فاطمہ تھا جو زید بن الاصم بن رواحہ بن حجربن عبد بن معیس بن عامر بن لوی کی بیٹی تھیں۔ 4

حضور ﷺ سے ماقبل کے نکاح

حضرت خدیجہ بنت خویلد Radi Allah Anha کی شادی سب سے پہلے عتیق بن عابد بن عبداللہ مخزومی سے ہوئی اور ان کی وفات کے بعد ان کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ بن نباش بن عدی بن حبيب بن صرد بن سلالہ بن جروہ بن أسيد بن عمرو بن تميم التميمی سے ہوئی۔ 5 ان کا ایک بیٹا ہند بن ابی ہالہ تھا۔ 6 ہند بن ابی ہالہ کی پرورش رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے فرمائی۔ وہ مسلمان ہوئے اور غزوۂ بدر اور احد میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے شانہ بشانہ لڑے۔ 7

اسی طرح عتیق بن عابد مخزومی سے حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کی ایک بیٹی ہوئی تھیں جس كی وجہ سے آپ Radi Allah Anha امّ ہند کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ 8 جب آپ Radi Allah Anha کے دوسرے شوہر یعنی ابو ہالہ بن زرارة کا وصال ہوا اور آپ Radi Allah Anha کی عدت پوری ہوگئی تو آپ Radi Allah Anha کو اشرافیہ اور قبیلے کی مشہور شخصیات کی طرف سے شادی کے پیغامات بھیجے گئے کیونکہ ہر کوئی آپ Radi Allah Anha کی عزت اور شرف کی وجہ سے نکاح کا خواست گار تھا۔ 9

حضرت خدیجہ بنت خویلد Radi Allah Anha ان عورتوں میں سے تھیں جو اپنے نسب، عزت، وقار، کردار، دولت، حسن سلوک، سخاوت اور کاروبار کی وجہ سے مشہور تھیں۔ 10 اگرچہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں اور پرورش پائی جو شرک سے دوچار تھا لیکن آپ Radi Allah Anha نے ہمیشہ شرک اور دیگرغیر اخلاقی کاموں سے پرہیز کیا کیونکہ آپ Radi Allah Anha کے چچا ورقہ بن نوفل شرک کے منکراور موحد تھے۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھیں کہ بنو اسماعیل کی اولاد میں سے ایک نبی آنے والا ہے کیونکہ انہیں ورقہ بن نوفل نے یہ اطلاع دی تھی۔ 11

کاروباری معاملات

حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کو اپنے والدین کی طرف سے اور بعد میں مرحوم شوہر کی وراثت میں سے بڑاحصہ ملا تھا جسے آپ Radi Allah Anha نے مختلف کاروبار میں لگایا۔ بحیثیت عورت کے کیونکہ وہ تجارتی قافلوں کے ساتھ خود سفر نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے وہ ربّ المال کی حیثیت سے کاروباری منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ 12 اس دور میں یمن اور شام اہل عرب کے بڑے تجارتی مراکز تھے اورموسم گرما میں عرب کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے جبکہ موسم سرما میں یمن کی طرف جاتے تھے۔ 13 حضرت خدیجہ Radi Allah Anha ان تجارتی قافلوں میں سرمایہ کاری کیا کرتی تھیں اور اپنے مال کو کسی مضارب کے ذریعے دوسرے شہر میں فروخت کرکے وہاں سے مال بھی منگوایا کرتی تھیں جس سے ان کو اچھا منافع ملا کرتا تھا۔

حضرت محمد ﷺ سے نکاح

جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شام سے حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے تجارتی قافلے کو منافع کے ساتھ لے کر لوٹے تو حضرت خدیجہ Radi Allah Anha بہت خوش ہوئیں۔ جب ان کے غلام نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے محاسن کے حوالے سے تفصیلات ذکر کیں تو حضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس حوالے سے بہت سی غیر مناسب روایات بھی منقول ہیں جن کا تدارک ضروری ہے۔ ایک روایت کے مطابق نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خدیجہ Radi Allah Anha سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے اور بعد میں اس شرط پر نکاح فرمانا قبول کرلیا کہ حضرت خدیجہ Radi Allah Anha شادی کے تمام اخراجات کی ادائیگی کریں گی۔ محمد بن سعد بیان کرتے ہیں:

عن نفيسة بنت منية قالت:. فأرسلتني دسيسا إلى محمد بعد أن رجع في عيرها من الشام. فقلت: يا محمد ما يمنعك أن تزوج؟ فقال: ما بيدي ما أتزوج به. قلت: فإن كفيت ذلك ودعيت إلى الجمال والمال والشرف والكفاءة ألا تجيب؟ قال: فمن هي؟ قلت: خديجة. قال: وكيف لي بذلك؟ قالت قلت: علي. قال: فأنا أفعل. فذهبت فأخبرتھا. فأرسلت إليه أن ائت لساعة كذا وكذا 14
نفیسہ بنت منیہ (Radi Allah Anha) بیان کرتی ہیں کہ: حضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے مجھے خفیہ طور پر محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس بھیجا جب وہ شام سے اپنے تجارتی سفر کے بعد واپس آئے۔ میں (نفیسہ Radi Allah Anha) نے کہا: اے محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)! آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شادی سے کیا چیز روکتی ہے؟ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میرے پاس نکاح کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میں (نفیسہ Radi Allah Anha) نے کہا: اگر آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کو وافر وسائل میسرآجائیں اور آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )کو خوبصورتی، دولت، عزت اور مساوی حیثیت کی (کسی خاتون) کی طرف سے پیغام ملے تو کیا آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) اسےقبول کریں گے؟ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)نے پوچھا: وہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: خدیجہ ( Radi Allah Anha)۔ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) نے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہوگا؟ میں نے کہا: میں اس کا انتظام کروں گی۔ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)نےفرمایا: پھر میں راضی ہوں۔ چنانچہ انہوں نے جاکر خدیجہ ( Radi Allah Anha) کو اس کی خبر دی۔

کئی محدثین و معتبر سیرت نگاروں کی یہ رائے ہے کہ شام سے واپسی کا یہ سفر نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا پہلا تجارتی سفر نہیں تھا۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

كنت ارعاها على قراريط لأهل مكة. 15
میں قراریط پر اہل مکہ کے لئے (بھیڑبکریاں) چرایا کرتا تھا۔

ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں یہاں قراریط کے معنی میں دو احتمالات موجود ہیں: ایک تو یہ مکہ کے پاس موجود جگہ کا نام تھا دوسرا اس سے مراد قراط (مخصوص زر مبادلہ) کی جمع بھی ہوسکتی ہے 16 گویا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شام کے اس تجارتی قافلے پر جانے سے پہلے بھی اہل مکہ کی بھیڑ بکریوں کو جنگل میں لے جا کر ان کی دیکھ بھال کرتے اور بدلے میں معاوضہ وصول کیا کرتے تھے۔ اکبر شاہ نجیب آبادی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مختلف تجارتی قافلوں کے ساتھ اپنا سامان لے کر جایا کرتے تھے اور کافی منافع لے کر واپس آتے تھے۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے تجارتی قافلوں کو بحرین، یمن اور شام لے کرگئے اور ہر بار منافع لے کر لوٹے۔ 19 ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دوسرے تاجروں کے مقابلے میں بہتر تجارتی شرائط پیش کیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مضاربت میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دیگر تجّار کی بنسبت اچھا منافع کمایا۔ یہ تمام روایات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اگرچہ حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کی طرح دولت مند نہیں تھے، لیکن ان کے پاس اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کافی ذرائع تھے۔ مزید برآں ابن ہشام کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خدیجہ Radi Allah Anha سے شادی کی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں 20 جوان اونٹ مہر کے طور پر دیے جن کی قیمت ان دنوں بہت زیادہ تھی۔ 17 امام دولابی کا ایک اور اقتباس جو زرقانی نے درج کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کو 12 اوقیہ چاندی دی اور ہر اوقیہ 40 درہم کے برابر تھا۔ 18 ایک درہم تقریباً 3 گرام کے برابر ہے یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں 1500 گرام چاندی دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس شادی کرنے اور خاندان کی کفالت کا ذریعہ موجود تھا اورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کسی اور پر منحصر نہیں تھے لہٰذا جو روایت رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مالی خستہ حالی کی طرف منسوب ہے وہ ضعیف ہے اور اسی لیے نامور مؤرخین جیسے ابن اسحاق، ابن ہشام، ابن کثیر وغیرہ نے اسے اپنی تصانیف میں شامل نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت احادیث کی بڑی کتابوں میں بھی درج نہیں ہے۔

ایک اور روایت جس کو مسندِ امام احمد بن حنبل میں نقل کیا گیا اس کے مطابق حضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے (نعوذ باللہ) اپنے والد کو نشے میں دھت کردیا تھا اور انہیں دھوکہ دیا کہ وہ نشے کی حالت میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ان کے نکاح کا پیغام قبول فرما لیں۔ جیسا کہ روایت میں منقول ہے:

…ذكر خديجة، وكان أبوها يرغب أن يزوجه، فصنعت طعاما وشرابا، فدعت أباها ونفرا من قريش، فطعموا وشربوا حتى ثملوا، فقالت خديجة لأبيھا: إن محمد بن عبد اللّٰه يخطبني، فزوجني إياه. فزوجها إياه فخلعته وألبسته حلة، وكذلك كانوا يفعلون بالآباء، فلما سري عنه سكره، نظر فإذا هو مخلق وعليه حلة، فقال: ما شأني، ما هذا؟ قالت: زوجتني محمد بن عبد اللّٰه. قال: أنا أزوج يتيم أبي طالب لا، لعمري. فقالت خديجة: أما تستحي تريد أن تسفه نفسك عند قريش؟ تخبر الناس أنك كنت سكران؟ فلم تزل به حتى رضي. 20
(حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے) حضرتِ خدیجہ ( Radi Allah Anha) کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان کے والد اپنی بیٹی کا نکاح نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کرنے کے لیے تیار نہیں تھے چنانچہ حضرتِ خدیجہ ( Radi Allah Anha) نے ضیافت کا اہتمام کیا اور قریش کے چند اشرافیہ کو مدعو کیا۔ جب سب نے سیر ہوکر کھا پی لیا تو حضرتِ خدیجہ ( Radi Allah Anha) نے اپنے والد سے کہا کہ محمد بن عبداللہ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) نے مجھے شادی کا پیغام بھیجا ہے، پس آپ میرا ان سے نکاح کر دیں۔ ان کے والد نے ان کی شادی رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو حضرتِ خدیجہ ( Radi Allah Anha) نے انہیں خاص لباس (عربی رسم و رواج کے مطابق) پہنایا۔ جب نکاح ہوا اور ان کے والد کو ہوش آیا تو انہوں نےاپنے کپڑوں کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے ایسا لباس کیوں پہن رکھا ہے؟ حضرت خدیجہ (Radi Allah Anha ) نے ان سے کہا کہ آپ نے میری شادی محمد بن عبداللہ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) سے کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمہاری شادی ابو طالب کے یتیم سے کیسے کرسکتا ہوں؟ میں قسم کھاتا ہوں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس پر حضرت خدیجہ ( Radi Allah Anha) نے فرمایا کہ اگر آپ ایسی باتیں کہیں گے تو کیا آپ قریش کے سامنے شرمندہ نہیں ہونگے؟ جب تک وہ راضی نہ ہوئے وہ انہیں سمجھاتی رہیں۔

یہ روایت عقل و نقل کے لحاظ سے ضعیف بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ روایت منگھڑت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے لئے رشتوں کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی۔ مکہ کے سارے رئیس آپ Radi Allah Anha سے نکاح کی خواہش رکھتے تھے اور کئی نے نکاح کے پیغامات بھی بھیجے تھے، لیکن آپ Radi Allah Anha نے انہیں اپنی حسنِ سیرت اور حسن کردار کی وجہ سے قبول نہیں فرمایا ۔ ثانیا نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بھی سینکڑوں خواتین نکاح کرنے کی خواہش رکھتی تھیں کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حسین و جمیل، صادق اور امین ہونے کے ساتھ سب سے اعلی کردار اور اخلاق کے مالک تھے۔ لہذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس بھی رشتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ثالثا یہ بات عقلاً بھی محال ہے کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کسی نشہ میں دھت شخص سے ان حالات میں نکاح پڑھواتے کیونکہ زندگی بھر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نشہ آور اشیاء سے خود بھی دور رہے اور ایسے لوگوں کو کبھی پسند نہیں فرمایا جو شراب یا کوئی دوسری نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بہک جائیں۔ مستقبل کے اعلانِ نبوت کے تناظر میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ایسے رشتے کے بارے میں جسے ابتداء میں نہ خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جانا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کوشش فرمائی ایسے کام کی اجازت مرحمت فرما دینا یا پھر اس پر سکوت اختیار کرلینا نا ممکن تھا جو اخلاق کے پست ترین درجے سے بھی گرا ہوا ہو لہذا نبی و رسول جس طرح اعلان نبوت کے بعد معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اسی طرح اعلان ِ نبوت سے قبل بھی اللہ تعالی ہر چھوٹی بڑی برائی سے محفوظ رکھنے کے لئے خصوصی اہتمام فرماتا ہے۔ اسی وجہ سے اس طرح کی روایت نہ صرف تاریخی و عقلی طور پر قابل رد ہے بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مقام و مرتبہ کے خلاف توہین آمیز جرات اور گستاخانہ بیان ہے۔

روایت کے اعتبار سے احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راویوں کا سلسلہ انتہائی ضعیف ہے۔ 21 بیہقی کا بھی یہی قول ہے۔ 22 ابن سعد مزید کہتے ہیں کہ ساری روایت غلط اور غیرصحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ معروف روایت کے مطابق حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے والد جنگ فجارسے پہلےفوت ہوچکے تھے اور عمرو بن اسد جو حضرت خدیجہ Radi Allah Anha كے چچا تهے 23 انہوں نے آپ Radi Allah Anha کا نکاح رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کیا تھا۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کی عمر 40 سال تھی اور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam 25 سال کے تھے۔ 24 یہ شادی نہایت بابرکت اور محترم تھی اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اکثر اولاد اسی نکاح کی برکت سے ہوئی ۔

اولاد

نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت خدیجہ Radi Allah Anha كا یہ نکاح اسلامی تاریخ کے اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ آپ Radi Allah Anha نہ صرف حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زوجہ تھیں بلکہ ایک بہترین رفیق اور دوست بھی تھیں۔ آپ Radi Allah Anho کی سابقہ شوہر سے بھی اولاد موجود تھی لیکن نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم Alaihis Salam کے انہی سے تھی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حضرت خدیجہ Radi Allah Anha سے پیدا ہونے والی اولاد کے اسماء قاسم Radi Allah Anho، طاہر Radi Allah Anho، طیب Radi Allah Anho، زینب Radi Allah Anha، رقیہ Radi Allah Anha، ام کلثوم Radi Allah Anha اور فاطمہ Radi Allah Anha تھے۔ قاسم، طیب اور طاہر کا انتقال نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلانِ نبوت سے پہلے ہوا۔ جبکہ ان کی تمام بیٹیاں زندہ رہیں، اسلام قبول کیا، اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مدینہ ہجرت کرگئیں۔ 25

وصال

حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کا انتقال ہجرت سے تقریباً 3 سال قبل، حضرت ابو طالب کےانتقال والے سال، 26 65 سال کی عمر میں ہوا 27 جس کو اسلامی تاریخ میں عام الحزن کہا جاتا ہے۔ 28 انہیں مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ میں جوالحجون کے نام سے بھی مشہور ہے دفن کیا گیا۔ 29


  • 1  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 2  ایضاً
  • 3  پیر کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء، ص: 431
  • 4  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، 1955م، ص: 189
  • 5  ایضاً، ص: 643
  • 6  ایضاً
  • 7  ابو الفدا اسمٰعیل ابن کثیر الدمشقی، جامع المسانيد والسنن الهادي لأقوم سنن، ج-8، دار خضر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1998م، ص: 369
  • 8  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 11
  • 9  ایضاً، ج-1، ص: 105
  • 10  علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج۔1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 199
  • 11  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2009م، ص: 149
  • 12  ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 51
  • 13  ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، زاد المسیر، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص: 494
  • 14  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 15  محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2262، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 360
  • 16  ابو محمد محمود ابن احمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح البخاری، ج-8، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 128
  • 17  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2009م، ص: 150
  • 18  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 378
  • 19  Akber Shah Najeebabadi (2000), The History of Islam, Darus Salam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 98-99.
  • 20  ابو عبدالله احمد بن محمد بن حنبل الشييباني، مسند احمد بن حنبل، حديث: 2849، ج-5، مطبوعه: موسسة الرسالة، بيروت، لبنان، ص: 46
  • 21  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 2849، ج-5، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 47
  • 22  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي،دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 2008
  • 23  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 24  ایضاً
  • 25  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 130
  • 26  ایضاً، ص: 271
  • 27  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری،أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،ج۔7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، 2003م، ص: 81
  • 28  ابو العباس احمد بن علی الحسینی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1999م، ص: 45
  • 29  ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1825

Powered by Netsol Online