اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ بنت ابو بکر آپ
کی ازواج مطہرات میں سے واحد غیر شادی شدہ خاتون تھیں۔ 1آپ
کی ولادت آپ
کے اعلان نبوت سے قبل دور جاہلیت میں ہوئی۔ 2آپ
کو کئی القابا ت سے نوازا گیا جن میں سے "صدّیقہ بنت صدّیق"یعنی "سچے شخص کی سچی صاحبزادی"مشہور ہے۔ 3آ پ
کی کنیت اُمّ عبداللہ تھی حالانکہ آپ
بے اولاد تھیں۔ 4آپ
کا مقام ومرتبہ تمام ازواج مطہرات میں حضرت خدیجہ
کے بعد سب سے بلند وبالا ہے۔ 5
آپ کا پورا نام بمع سلسلہ نسب عائشہ بنت ابی بکر
بن ابی قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرۃ بن کعب بن لوئی تھا۔ 6آپ کی والدہ ماجدہ کا نام امّ رومان بن عامر 7 بن عویمر بن عبد الشمس بن عتاب بن اُذینہ بن سُبَیع بن دُھمان بن الحارث بن غنم بن مالک بن کنانہ الکنانیہ تھا۔ 8
آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ
کے وصالِ پُرملال کے بعد خولہ بنت حکیم
نے آپ
کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ آپ
کو عائشہ
یا سودہ بنت زمعہ
کے ساتھ نکاح کرلینا چاہیے۔ آپ
نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت خولہ بنت حکیم
کے ذریعے حضرت ابوبکر صدیق
کے پاس ان کی صاحبزادی حضرت عائشہ
کے رشتہ کےلیے بھیجا۔ حضرت خولہ
آپ
کا پیغام لے کر حضرت ابوبکرصدیق
کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ
نے فرمایا کہ وہ پہلے ہی حضرت عائشہ
کے رشتہ کی بات جبیرابن مطعم سے پکی کر چکے ہیں ، جو اب تک اسلام نہیں لائے تھے۔ اس کے باجود حضرت ابو بکر صدیق
جبیر کے والد مطعم کے گھر تشریف لے گئے اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کی جس نے آپ
کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کیا کہ وہ کسی صورت اپنے بیٹے کو اس بات کی اجازت نہیں دےگی کہ وہ عائشہ
سے شادی کے بعد کے دین اسلام کو قبول کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق
اس موقع پر اس خاتون کو جواب دینے کے بجائے مطعم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اس کی بیوی کی کہی ہوئی بات کے بارے میں دریافت کیا ۔مطعم نے حضرت ابو بکر صدیق
کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ انہوں نے اس کی بیوی سے سنا ہے خود اس کا مؤقف بھی یہی ہے۔ 9حضرت ابوبکر صدیق
نے اس انکار کو اللہ کی طرف سے نشانی جانا کیوں کہ اب ایسی صورت میں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اپنی صاحبزادی کا نکاح جبیر سے کریں لہذا آپ
کےلیے آپ
کی طرف سے اپنی صاحبزادی کے لیے آئے ہوئےرشتہ کی پیشکش کو قبول کرنا آسان ہوگیا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق
مطعم کے گھر سے واپس لوٹے اور حضرت خولہ
کو یہ خوشخبری سنائی کہ وہ آپ
کے ساتھ ان کی صاحبزادی کے رشتہ کی بات پکی کرلیں۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ
کی منگنی آپ
کے ساتھ انعقاد پذیر ہوگئی۔ 10
حضرت عائشہ کے ساتھ آپ
کے نکاح کا سبب یہ حقیقت تھی کہ آپ
نے اپنے خواب میں اس نکاح سے متعلق واضح علامات دیکھیں تھیں۔ 11ابن اثیر
فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ
کے وصال کے بعد آپ
کو ایک خواب دکھایا گیا 12جسے آپ
نے اس طرح بیان فرمایا :
أريتك فى المنام مرتين، أرى أن رجلا يحملك فى سرقة حرير فيقول: هذا امرأتك فأكشف فأراك فأقول إن كان هذا من عند اللّٰه يمضه. 13
میں (محمد)نے آپ (حضرت عائشہ
) کو اپنے خواب میں دو مرتبہ (نکاح سے قبل) دیکھا ہے۔ پہلی مرتبہ ایک شخص(فرشتہ) آپ
کی تصویر ریشم کے ایک ٹکڑے پر لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ (
) کی ہونے والی زوجہ (محترمہ) ہے۔ میں نے آپ
کی تصویر کو دیکھ کر کہا اگر اللہ کی یہی منشا ومرضی ہے تو یہ معاملہ انعقاد پذیر ہوکر رہے گا ۔
دوسری روایت خود حضرت عائشہ کی ہے جس میں آپ
فرماتی ہیں:
ما تزوجنى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم حتى أتاه جبريل بصورتى وقال:هذه زوجتك. 14
اللہ کے نبینے مجھ سے اس وقت تک نکاح نہیں فرمایا جب تک جبریل
نے میری تصویر انہیں دکھا کر یہ نہیں فرما دیا تھا کہ یہ آپ
کی زوجہ (محترمہ) ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت خولہ نے آپ کے سامنے جب حضرت عائشہ
کا نام رشتہ کےلیے لیا تو آپ
فورا اس پر راضی ہوگئے۔ مشرکین مکہ جو آپ
پر طعن وتشنیع کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے انہوں نے بھی اس موقع پر حضرت عائشہ
کے ساتھ آپ
کی منگنی پر لب کشائی کی جرأت نہیں کی بلکہ اسے عرب رسم ورواج کے طور پر کھلے دل سے قبول کرلیا ۔
منگنی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ
اس وقت 6 برس کی تھیں جبکہ نکاح کے وقت 9 سال تھی۔ 15 اس حوالہ سے بنیادی ماخذ جس سے تمام مورخین، سوانح نگار، مستشرقین اور علمائے اسلام حضرت عائشہ
کی عمر کے بارے میں استنباط کرتے ہیں وہ مجموعی طور پروہ 10 روایات ہیں جنہیں امام بخاری، امام مسلم اور امام ابوداؤد
نےاپنی کتب احادیث میں نقل کیا ہے۔ یہ مرویات اگر چہ کہ دوسری کتب احادیث اور تاریخ میں بھی موجود ہیں لیکن صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد ہی کو ان تمام کےلیے بنیادی مآخذ اور مرجع سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اگر محققین ان دلائل کا تجزیہ کریں جو ان کتب میں مذکور ہیں اور امام بخاری
اور امام مسلم
کی مرویات کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کریں اور اس وقت کےمعروضی حالات وواقعات کاجائزہ لیں تو حضرت عائشہ
کی عمر کے حوالہ سے حقیقت حال بالکل واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔
حضرت عائشہ کی عمر کے حوالہ سے امام بخاری
نے 5 روایات کواپنی کتاب صحیح بخاری میں جمع کیاہے 1617181920جبکہ امام مسلم
نے اس حوالہ سے 4 روایات اپنی کتاب صحیح مسلم میں لی ہیں۔ 21222324امام ابو داؤد
نے بھی اپنی کتاب سنن ابن ابی داؤد میں اس حوالے سےایک روایت رقم کی ہے۔ 25بظاہر یہ 10 مختلف روایات نظر آتی اور شمار ہوتی ہیں تاہم امام بخاری
کی پانچ مرویات، امام مسلم
کی 2 مرویات اور امام ابوداود
کی روایت کردہ ایک روایت کا راوی ایک ہی ہے جس کا نام ہشام ہے جو اپنی روایت کو عروہ سے اور وہ اپنی روایت کو حضرت عائشہ
سے نقل کرتے ہیں۔ امام مسلم
کی بیان کردہ بقیہ2 روایات میں سے ایک کے راوی زہری ہیں جو اسے عروہ سے روایت کرتے ہیں اور عروہ اس روایت کو حضرت عائشہ
سے بیان کرتےہیں جبکہ امام مسلم
کی روایت کردہ دوسری روایت کے راوی ابراہیم ہیں جنہوں نے اس روایت کی سماعت اسود سے کی اور اسود نے اس روایت کو حضرت عائشہ
سے سماعت کیا ہے۔ اس طرح یہ 10 روایات اپنی حقیقت کے اعتبار سے محض 3 مرویات ہیں۔
حضرت ہشام کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ عروہ کے بیٹے تھے جو حضرت زبیر
کے صاحبزادے تھے اور حضرت زبیر
حضرت عائشہ
کے بھانجے تھے۔ ہشام کی ولادت 61 ہجری میں ہوئی 26 اور انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی مدینہ منورہ میں بسر کی جہاں تحصیلِ علمِ حدیث کے بعد وہ علم الحدیث کے عالم بن گئے۔ 27ان کی مرویات، حدیث کی کم وبیش تمام کتب میں نقل کی گئی ہیں۔ تاہم بعد میں جب انہوں نے عراق کی طرف سفر کرنا شروع کیا تو وہ اپنی مرویات میں تدلیس یعنی حدیث کے علم میں ایک راوی کو چھپا کر دوسرے راوی کی طرف حدیث منسوب کرنےکا شکار ہوگئے،جیسا کہ امام ذہبی
یعقوب ابن شیبہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
وقال عبد الرحمن بن خراش: بلغني أن مالكانقم على هشام بن عروة حديثه لأهل العراق، وكان لا يرضاه ثم قال قدم الكوفة ثلاث مرات قدمة كان يقول فيھا حدثنى أبى قال سمعت عائشة، والثانية فكان يقول أخبرنى أبى، عن عائشة، وقدم الثالثة فكان يقول أبى، عن عائشة يرسل، عن ابيه.28
عبد الرّحمٰن بن خراش بیان کرتے ہیں کہ مجھے مالک سے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ ہشام بن عروہ کے اہل عراق سے حدیث کی روایت سے خوش نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہشام کوفہ (عراق) تین مرتبہ گئے تھے۔ جب وہ پہلی مرتبہ لوٹ کر آئے تو ان کے بیان کرنے کا انداز اس طرح تھا کہ میں روایت کرتا ہوں اپنے والد سے جو فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہسے سنا۔ دوسری مرتبہ انہوں نے اس طرح روایت کیا: میرے والد نے مجھے آگاہ کیا (اس کے بارے میں ) جو انہوں نے حضرت عائشہ
سے روایت کیا ہے۔ تیسری مرتبہ انہوں نے اس طرح کہا : میرے والد نے فرمایا جو وہ روایت کرتے ہیں حضرت عائشہ
سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث کی نسبت براہ راست اپنے والد کی طرف کرتے ہیں اور بیچ میں سے دوسرے راویانِ حدیث کو حذف کرڈالتے ہیں۔
اسی طرح امام ذہبی سے بھی منقول ہے:
هشام ثبت لم ينكر عليه إلا بعد صار إلى العراق، فانه انسبط فى الرواية وأرسل عن ابيه بنا كان سمعه من غير ابيه عن ابيه. 29
ہشام کی رُوات حدیث کی ثقاہت پر ان کے عراق جانے سے پہلے کسی کو انکار نہیں تھا لیکن وہاں جانے کے بعد انہوں نے بہت ساری روایت کردہ احادیث کی نسبت اپنے والد کی طرف کرڈالی حالانکہ وہ احادیث انہوں نے (اپنے والد سے نہیں بلکہ) دوسرے لوگوں سے سماعت کی تھیں ۔
اس حوالہ سے یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ خود اہل عراق سے حدیث کی روایت کے متعلق حضرت ہشام کا اپنا نظریہ یہ تھا :
قال هشام بن عروة: إذا حدثك العراقى بألف حديث فألق تسعمائة وتسعين وكن من الباقى فى شك. 30
ہشام ابن عروہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی عراقی تمہارے سامنے ایک ہزار احادیث کو روایت کرے تو ان میں سے 990 قبول کیے بغیر مسترد کردو جبکہ باقی ماندہ (10) کے بارے میں مشکوک رہو۔
مذکورہ بالا بحث کے تناظر میں بڑی حیران کن حقیقت سامنے یوں آتی ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر کے حوالہ سے سلسلہ رُواتِ حدیث میں موجود تمام راویان حدیث کا تعلق عراق سے ہے۔ ان احادیث کے راویان میں سے کسی کا بھی تعلق مکہ اور مدینہ سے نہیں ہے۔ 31 یہ بات مزید شکوک وشبہات کو اس لیے جنم دیتی ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حدیث جس میں حضرت عائشہ
نے اپنی منگنی اور نکاح کے وقت عمر کو بیان کیا ہو اور اس حدیث کے روات مکہ اور مدینہ کے بجائے عراق سے ہوں یعنی وہ حدیث مکہ اور مدینہ کے بجائے عراق سے روایت کی جارہی ہو۔ اس مسئلہ پر ابن حجر عسقلانی
فرماتے ہیں:
هشام بن عروة بن الزبير بن العوام تابعى صغير مشھور ذكره بذالك أبو الحسن القطان وأنكره الذهبى وابن القطان فان الحكاية المشھورة عنه أنه قدم العراق ثلاث مرات ففى الاولى حدث عن أبيه فصرح بسماعه وفى الثانية حدث بالكثير فلم يصرح بالقصة وهى تقتضى انه حدث عنه بما لم يسمعه منه وهذا هو التدليس. 32
ہشام بن عروہ بن زیبر بن عوام کم عمر تابعی تھے جیسا کہ ابو الحسن القطان نے ذکر کیاہے تاہم امام ذہبی اور القطان نے اس بات کی نفی کی ہے۔ ہشام کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ عراق تین مرتبہ گئے ہیں۔ابتداء میں وہ اپنے والد سے نقل کیا کرتے تھے اور پھر وہ کہنے لگے کہ انہوں نے خود اپنے والد سے سنا ہے۔ بعد میں وہ اہل عراق سے بہت ساری احادیث روایت کرتے تھے لیکن وہ مکمل طور پر کبھی یہ تفصیلات نہیں بتاتے تھے کہ انہوں نے کس سے یہ احادیث حاصل کی ہیں۔ ان کا یہ عمل اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ ممکنہ طور پر انہوں نے کئی روایات کو اپنے والد کی طرف منسوب کرڈالا تھا جو انہوں نے اپنے والد سے نہیں سنی تھیں اور یہ عمل حدیث کی اصطلاح میں تدلیس (راوی کا سلسلہ روایت میں کسی راوی کو ترک کرکے دوسرے راوی سے روایت کو بیان کرنا )کہلاتا ہے۔
ایک دوسری جگہ پر ابن حجر عسقلانی مزید فرماتے ہیں:
هشام ابن عروة ابن الزبير ابن العوام الأسدى ثقة فقيه ربما دلس من الخامسة. 33
ہشام بن عروہ العوام الاسدی اگر چہ کہ قابل اعتماد فقیہ تھے تاہم سلسلہ رُوات میں پانچویں راوی کے مقام پر انہوں نے روایت میں تدلیس کی ہے۔
البغدادی نقل کرتے ہیں کہ امام مالک نے فرمایا :
هشام بن عروة كذاب.34
ہشام بن عروہ جھوٹے تھے۔
امام ذہبی فرماتے ہیں:
حجة إمام، لكن فى الكبر تناقص حفظه، ولم يختلط أبدا، ولا عبرة بما قاله أبو الحسن بن القطان من أنه وسھيل بن أبى صالح اختلطا، وتغيرا. نعم الرجل قليلا ولم يبق حفظه كھو فى حال الشبيبة، فنسى بعض محفوظه أووهم، فكان ماذا! أهو معصوم من النسيان! 35
ہشام بن عروہ اگرچہ کہ مقتدا و پیشوا اور علم الحدیث میں قابل اعتماد تھے لیکن عمر بڑھ جانے کے بعد (بڑھاپے میں) ان کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود کبھی انہوں نے چیزوں کو خلط ملط نہیں کیا اور نہ ہی اس بات کی کوئی شہادت ہے کہ انہوں نے احادیث کو باہم ایک دوسرے کے ساتھ ملادیا ہو اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ انہوں نے احادیث میں کوئی تبدیلی کی ہو جیسا کہ ابو الحسن القطان اور سہیل ابن ابی صالح نے روایت کیا ہے۔ تاہم بڑھاپے میں ان کا حافظہ اتنا مضبوط نہ تھا جیسا کہ جوانی میں تھا ۔ بڑھاپے میں وہ چیزوں کو بھول جایا کرتے تھے یا چیزوں کے بارےمیں شک وشبہ کا شکار ہوجایا کرتے تھے چنانچہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ وہ بھول چوک سے محفوظ نہیں تھے۔
مذکورہ بالا تمام روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہشام سے حدیث کی روایت میں تدلیس سرزد ہوئی، بعد کی عمر میں ان کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا اور انہوں نے کئی احادیث اہل عراق سے روایت کیں جو خود ان کے وضع کردہ اصول کے مطابق ناقابل اعتماد اور ناقابل قبول تھیں۔ اسی طرح یہ بات ایک تاریخی حقیت کے طور پر موجود ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر کے حوالہ سے آٹھ روایات جو ہشام سے مروی ہیں اور جنہیں امام بخار ی ،امام مسلم اور امام ابو داؤد
نے نقل کیا ہے وہ بھی ناقابل اعتبار اور ناقابل قبول ہیں ۔
دوسری روایت جسے امام مسلم نے نقل کیا ہے وہ سلسلۃ الرُوات کے اعتبار سے 6 راویوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک زہری ہیں جو اس حدیث کو عروہ سے روایت کرتے ہیں حالانکہ علم الحدیث کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ زہری نے عروہ سے کوئی چیز روایت کی ہی نہیں ہے۔ 36مزید یہ کہ اس سلسلۃ الرُوات کے دوسرے راوی عبدا لرزاق ہیں جن کے بارے میں کچھ علماء حدیث کی یہ رائے ہے کہ وہ ثقہ اور بااعتماد راوی ہیں تاہم دوسرے اہل علم انہیں ثقہ نہیں سمجھتے بلکہ انہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ۔عباس بن عبد العظیم جو عبدالرزاق کے پاس صنعاء حدیث کے لیے گئے تھے، قسم کھا کر بیان کرتے ہیں:
واللّٰه الذى لا اله الا هو ان عبدالرزاق كذاب. 37
میں اللہ وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ عبدالرزاق جھوٹا ہے۔
اما م ذہبی نے بھی اس قول کی تصدیق کی ہے۔ 38اب جب کہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ زہری نے کوئی روایت عروہ سے نہیں کی اور خود حدیث کے راوی عبدالرزاق کی ثقاہت بھی سوالیہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ6 میں سے 2 راویوں کی روایت ہی مشکوک ہوگئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود یہ روایت بهی قابل اعتماد نہیں ہے۔
اس سلسلہ کی تیسری روایت کو امام مسلم نے اس طرح نقل کیا ہے:
حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت: تزوجھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علية وسلم وهى بنت ست، وبنى بھا وهى بنت تسع، ومات عنھا وهى بنت ثمان عشرة. 39
ابو معاویہ بیان کرتے ہیں اعمش سے، وہ اسے بیان کرتے ہیں ابراہیم سے، وہ اسے روایت کرتے ہیں حضرت عائشہسے جو فرماتی ہیں: اللہ کے رسول
نے جب مجھ سے منگنی فرمائی تو اس وقت میری عمر 6برس تھی جبکہ انہوں نے جب مجھ سے نکاح فرمایا تو میری عمر9 برس تھی اور جب انہوں نے دنیا سے پردہ فرمایا تو اس وقت میں 18 برس کی تھی ۔
اس حدیث کے سلسلہ رُوات میں ایک راوی ابو معاویہ ہیں۔ ان کے متعلق علماء حدیث فرماتے ہیں :
وكان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا. 40
وہ حدیث کے حافظ اور انتہائی پارسا شخصیت تھے(لیکن عقیدہ کے لحاظ سے مرجئہ 41 میں سے تھے) ۔
امام سیوطی امام ابو داؤد
سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
وقال أبو داؤد كان رئيس المرجئة بالكوفة. 42
ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ (ابو معاویہ) کوفہ میں مرجئوں کے قائد ورہنما تھے۔
امام ذہبی یعقوب ابن شیبہ سے نقل کرتےہوے بیان کرتے ہیں:
ثقة، ربما دلس، كان يرى الإرجاء. 43
(ابو معاویہ) اپنی ثقاہت کے اعتبار سے قابل اعتبار تھے لیکن حدیث کی روایت بیان کرتے ہوئے بسا اوقات تدلیس کا شکا ر ہوجاتے تھے البتہ اپنے عقیدہ کے اعتبار سے مرجئہ میں سے تھے ۔
ابن حجر عسقلانی ابن سعد سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس وكان مرجئا. 44
ابن سعد بیان کرتےہیں کہ(ابو معاویہ) ثقہ راوی تھے لیکن بہت ساری احادیث کے سلسلۃ الرُوات میں انہوں نے تدلیس کا ارتکاب کیا جبکہ عقیدہ کے لحاظ سےوہ مرجئی تھے۔
ابو معاویہ کے بارے میں مذکورہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ صحیح العقیدہ نہیں تھے بلکہ مرجئہ تھے اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلسلۃ الرُوات میں بعض راویان حدیث کا ذکر روایت کے وقت ترک کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس طرح ان کی بیان کردہ روایات ناقابل اعتماد اور ناقابل قبول ہو گئیں گویا اب تک مذکورہ تینوں روایات کے سلسلۃ الرُوات میں اصولی اور تکنیکی طورپر مسائل ہیں جس کی وجہ سے روایات کے اخذوقبول کےلیے محدثین کے اسلوب کے مطابق یہ روایات ناقابل اعتماد اور ناقابل اعتبار ہیں۔ تاہم اس کا مطلب ہر گز اور ہر گز یہ نہیں ہے کہ کتب احادیث کی تمام یا زیادہ تر روایات جو ان میں جمع کی گئیں ہیں ناقابل اعتماد ہیں۔ہماری پیش کردہ وضاحت صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ امام بخاری، امام مسلم اور امام ابو داؤد اپنی تمام تر ثقاہت ووجاہت کے باوجود انسان وبشر تھے اور اپنی تمام تر ممکنہ علمی وتحقیقی کاوش کے باوجود ان کے لیےاس بات کا امکان ہمیشہ موجود رہا ہے کہ انہوں نے کچھ ناقابل اعتماد روایات کو اپنی کتب حدیث میں جمع کردیا ہو ۔اس بات کی دوسری مناسب توجیہ یہ ہے کہ ان ائمہ حدیث نے اپنی کتب میں جمع کردہ احادیث کے حوالہ سے اپنے پیش نظر امام بخاری
کے استاد کے وضع کردہ اصولِ حدیث کو پیش نظر رکھا ہو جس طرح امام بیہقی
عبدالرحمن سے نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
عن عبدالرحمن بن مهدى أنه كان يقول: إذا روينا عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى الحلال والحرام والأحكام، تشددنا فى الأسانيد، وانتقدنا الرجال، وإذا روينا فى فضائل الأعمال والثواب والعقاب، تساهلنا فى الأسانيد، وتسامحنا فى الرجال. 45
عبدالرحمن ابن مہدی سے مروی ہے کہ وہ کہا کرتےتھے کہ جب ہم آپسے حلال وحرام کی بابت کوئی حدیث روایت کرتے تو سلسلۃ الرُوات کو نہایت سختی سے جانچتے تھے اور ان پر نقد بھی کیا کرتے تھے لیکن جب ہم فضائل اعمال اور ثواب وعذاب سے متعلقہ روایات کو بیان کرتے تو اپنی جانچ کے معیار کو قدرِ نرم کردیا کرتے تھے اور راویوں کے اعمال وعادات سے درگزر کیا کرتے تھے ۔
عبدالرحمن ابن مہدی، امام بخاری
کے استاد تھے اور انہیں سلسلۃ الرُوات کے افراد کی جانچ پر مہارت تامہ رکھنے والی شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ وہ بحیثیت ماہر اسماءالرجال کے فرماتے تھے کہ جب کسی کی فضیلت کا معاملہ ہوتاہے تو حدیث کے سلسلۃ ا لرُوات کو سختی کے ساتھ جانچنے کے معیار کو نرم کردیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ تمام احادیث جس میں حضرت عائشہ
کی عمر کو منگنی کے وقت 6اور نکاح کے وقت 9 سال بیان کیاگیا ہے انہیں صحیح طور پر اور سختی کے ساتھ نہیں جانچا گیا کیونکہ ان روایات کا تعلق حلال و حرام کے معاملات سے نہ تھا۔ لہذا امام بخاری، امام مسلم اور امام ابو داؤد
نے شاید اسی وجہ سے امام عبدالرحمن کے وضع کردہ ان اصولوں کو اس طرح کی رُوات کے بیان کرنے میں بطور اصول کے اختیار کرکے ان احادیث کو اپنی کتب احادیث میں درج کیا ہے۔
حضرت عائشہ کا سنِ ولادت تاریخی لحاظ سے غیرِ متعین ہے تاہم خود حضرت عائشہ
سے مروی روایات کے مطابق بوقت منگنی آپ
کی عمر 6 سال اور بوقت نکاح و رخصتی آپ
کی عمر9 سال تھی۔ آپ
کی مذکورہ عمر غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد روایات و اسناد کی بنیاد پر ہے اور اس روایت سے آپ
کی ولادت آپ
کے اعلان نبوت کے 5 سال بعدثابت ہوتی ہے۔ آپ
کی اصل عمر کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ہے جنہیں امام ابن اسحاق
نے روایت کیا ہے جو خود امام بخاری
سے تقریبا ایک صدی قبل حیات تھے۔ابن اسحاق روایت کرتے ہیں:
ثم اسلم ناس...اخت عمر بن خطاب، واسماء بنت ابى بكر، وعائشة بنت ابى بكر وهى صغيرة... 46
پھر جب لوگوں میں سے عمر بن خطاب کی بہن،اسماء بنت ابی بکراور عائشہ بنت ابی بکر
جو چھوٹی بچی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
مذکورہ بالا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نےا بتدائی سالوں میں اسلام کو قبول کیا۔ مندرجہ بالا روایت واضح کرتی ہے کہ اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ بنت ابی بکر
نے فاطمہ بنت خطاب
کے فور اً بعد اسلام قبول کرلیا تھا جو اعلان نبوت کے تیسرے سال اسلام لے آئی تھیں۔
ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ قبول اسلام کے وقت حضرت عائشہ چھوٹی بچی تھیں یعنی آپ
اس وقت 6 برس کی تھیں۔ 47 یہی وجہ تھی کہ آپ
نے اسلام کو شعوری طور پر قبول کیا۔اس روایت کے مطابق حضرت عائشہ
کی عمر آپ
کے ساتھ منگنی کے وقت13 یا14 برس کی تھی کیوں کہ اس منگنی کا انعقاد اعلان نبوت کے دسویں سال ہوا تھا جبکہ نکاح کے وقت آپ کی عمر 16 یا 17 برس تھی کیوں کہ نکاح کا انعقاد ہجرت کے پہلے سال ہوا تھا۔ 48
حضرت اسماء حضرت عائشہ
کی بڑی بہن تھیں۔ کتب تاریخ سے یہ بات واضح حقیقت کے طور پر معلوم ہوتی ہے کہ حضرت اسماء
حضرت عائشہ
سے 10 سال بڑی تھیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
وهى اكبر من اختھا عائشة بعشر سنين...وبلغت من العمر مائة سنة...ثم ماتت فى سنة ثلاث وسبعین. 49
(حضرت اسماء) 10 برس حضرت عائشہ
سے بڑی تھیں۔۔۔آپ (
)نے100 برس کی عمر پائی۔۔۔آپ(
) کا وصال 73 ہجری میں ہوا۔
قرطبی50 اورجزری 51 نے بھی یہ نقل کیا ہے کہ حضرت اسماء کا وصال100 سال کی عمر میں 73 ہجری میں ہوا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے وقت آپ
کی عمر 27 سال تھی ۔ثانیا آپ
حضرت عائشہ
سے 10 برس بڑی تھیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہ
کی عمر 16 یا 17 سال تھی۔
حضرت خدیجہ کے وصال کے بعد خولہ بنت حکیم
نے آپ
کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بات پر زور دیا کہ آپ
دوبارہ شادی فرمالیں۔آپ
کے کاشانہ اقدس میں اس وقت اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو بچیوں کی دیکھ بھال کرسکے، امور خانہ داری کو دیکھ سکے اور آپ
کو بھی اپنے امور حیات میں ان کے ذریعہ مدد و معاونت حاصل ہوسکے۔آپ
نے جب حضرت خولہ
سے یہ پوچھا کہ وہ کس سے شادی کریں تو جواب میں انہوں نے دو نام لیے، ایک حضرت سودہ
کا اور دوسرا حضرت عائشہ
کا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ
ان میں سے کسی ایک یا دونوں سے نکاح فرماتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اس قابل تھی جو گھر کے معاملات کو اچھے طریقہ سے دیکھ اور سنبھال سکے۔ یہ بات اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اگر حضرت عائشہ
کی عمر اس وقت 6برس کی ہوتی تو حضرت خولہ
کس طرح محض 6 سال کی بچی کانام اس مقام و محل میں لیتی 52 کیوں کہ گھر کے معاملات اور مسائل کو دیکھنا اس عمر کی لڑکی کےلیے کسی بھی طور پر ممکن ہی نہیں تھا ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ کا نام حضرت خولہ
کے دماغ میں اس لیے آیا تھا کہ آپ
کو خواب میں حضرت عائشہ
کی تصویر دکھائی گئی تھی لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ
کو وحی کے ذریعہ صرف آپ کا چہرہ دکھایا گیا تھا اور اس روایت میں اس بات کا کوئی ذکر موجود نہیں کہ منگنی کے وقت حضرت عائشہ
کی عمر مبارک6 برس تھی۔
امام بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ
اس وقت ایک چھوٹی بچی تھیں جب سورۃ القمر نازل ہوئی ۔ یوسف ابن مہک فرماتے ہیں:
قال: إنى عند عائشة ام المؤمنين، قالت: لقد انزل على محمد صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة وإنى لجارية ألعب، بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر. 53
(یوسف ابن مہک) فرماتے ہیں کہ میں اس وقت حضرت عائشہکے گھر پر تھا جب اُمّ المؤمنین (حضرت عائشہ
) نے یہ فرمایا : اس وقت جب یہ وحی آپ
پر مکہ میں نازل ہوئی بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمرتواس وقت میں چھوٹی عمر کی کھیلنے کودنے والی لڑکی تھی ۔
یہ سورت شق القمر کے موقع پر ہجرت سےتقریباً پانچ سال قبل نازل ہوئی۔ 54 اس حدیث میں حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ وہ اس وقت "جاریہ" تھیں۔ عربی زبان میں اس لفظ کا معنی اس عمر کی لڑکی ہوتا ہے جو قریب البلوغ ہو۔ 55 اس کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ القمر کے نزول کے وقت حضرت عائشہ
کی عمر 8 یا 9 برس تھی۔ اگر اس وقت آپ کی اس عمر کو قبول کر لیا جائے تو منگنی کے وقت آپ کی عمر 13یا 14 برس جبکہ نکاح کے وقت 16 یا 17 برس قرار پاتی ہے لہذا آپ کی عمر جو بوقت نکاح اور رخصتی کے9 برس بیان کی جاتی ہے وہ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔
حضرت ابو بکر کے تمام بیٹے اور بیٹیاں،حضرت عبداللہ،حضرت اسماء،حضرت عبدالرحمن اور حضرت عائشہ
آپ
کے اعلان نبوت سے قبل یعنی عہد جاہلیت میں پیدا ہوئے۔ طبری بیان کرتے ہیں :
فكل هؤلاء الأربعة من أولاده، ولدوا من زوجتيه اللتين سمينا هما فى الجاهلية. 56
(حضرت ابو بکر) کے مذکورہ چاروں بچے آپ (
)کی دو ازواج سے عہد جاہلیت میں پیدا ہوئے ۔
مذکورہ بالا تفصیل امام طبری کے بیان سے مطابقت رکھتی ہے کیوں کہ یہ تفصیلات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمر اعلان نبوت کے پانچویں سال میں8 برس تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ
کی پیدائش آپ
کےاعلان نبوت سے 3 برس قبل ہوئی تھی چنانچہ ہجرت کے پہلے سال لامحالہ آپ کی عمر 16 یا 17 برس ہی تھی۔
حضرت خولہ نے جب آپ
سے یہ بات عرض کی کہ آپ
دوبارہ نکاح فرمالیں تو یہ بھی استفسار فرمایا کہ آپ
ثیبہ(شادی شدہ خاتون جو یا تو بیوہ ہو یا مطلقہ ہو) سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا بِکْر (کنواری یا غیر شادی شدہ لڑکی) سے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ بِکر کا لفظ عربی زبان میں چھوٹی بچی کےلیے استعمال نہیں ہوتا کیوں کہ چھوٹی بچی کو عربی میں "جاریہ" کے لفظ سے پکارا جاتا ہے۔ اب جب حضرت عائشہ
کے لیے بِکر کا لفظ استعمال کیا گیا اور جاریہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا تویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت حضرت عائشہ
غیر شادی شدہ تھیں لیکن بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نکاح کے قابل تھیں۔ 57
مذکورہ بالا تفصیلات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ کی منگنی اور شادی کے وقت عمر سے متعلق روایات میں روایت اور درایت دونوں کے حساب سے تسامح موجود ہیں لہذا یہ غیر معقول بات ہے کہ ان الفاظ کو ان کے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے قبول کیا جائے ۔تاہم پھر بھی اگر کسی طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ
سے بوقتِ نکاح حضرت عائشہ
کی عمر 9 برس تھی تو یہ بات کسی بھی صورت میں حضور
کے منصبِ نبوت پرطعن و تشنیع کا باعث نہیں بنتی کیونکہ عرب کے اس ماحول اور دیگر تہذیبوں میں 9 برس کی لڑکی بالغ ہوجایا کرتی تھی اور اس عمر میں نکاح عام تھا ۔
جب اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو مکہ چھوڑنے کا حکم دیا تو آپ
نے مدینہ منورہ سے اس رات ہجرت فرمائی جواللہ تعالی نے آپ
کےلیے متعین فرمائی تھی اوراس دوران آپ
نے حضرت علی ابن ابو طالب
کو اپنے بستر پر چھوڑا۔ 58آپ
کے مدینہ منورہ پہنچنے کے چند دنوں بعد آپ
اور حضرت ابو بکر
نے اپنے گھر والوں کو مدینہ آنے کےلیے پیغام بھیجا۔ حضرت عائشہ
نے جب یہ خبر سنی تو آپ
بہت خوش ہوئیں اور آنے والے سفر کے لیے تیاری فرمانے لگیں ۔ حضرت ابو بکر
نے حضرت عبداللہ بن اُرَیقِط
کو اپنے بیٹے عبداللہ
کے پاس بھیج کر یہ پیغام دیا کہ وہ آپ
کے گھر والوں کو مدینہ منورہ لے آئیں۔چنانچہ وہ ام رومان
کے ساتھ حضرت ابو بکر
کے اہل خانہ میں سےحضرت اسماء
، حضرت عائشہ
اور حضرت عبدالرحمن
کو مدینہ منورہ لے آئے۔ حضرت عائشہ
ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کئی ماہ تک قیام پذیر رہیں۔آپ
کے گھر والے شروع میں حارثہ ابن نعمان کے گھر پر مقیم رہے۔ بعد ازاں آپ
نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور اس مسجد کے ساتھ ایک رہائش گاہ حضرت عائشہ
وحضرت سودہ
کے لیے تعمیر فرماکر حضرت عائشہ
سے نکاح ماہ شوال میں فرمایا۔ 59
آپ کا حضرت عائشہ
سے نکاح ہجرت کے 8ماہ بعد ہوا۔ 60 نکاح کی یہ تقریب نہایت باوقار اور انتہائی سادہ انداز میں حضرت صدیق اکبر
کے گھر پر منعقد کی گئی۔ حضرت عائشہ
جب نکاح کے لئے تیار ہوگئیں تو آپ کی والدہ امّ رومان
آپ
کو اس کمرہ میں لے آئیں جہاں مدینہ منورہ کی خواتین اس خوش قسمت دلہن کا انتظار کر رہی تھیں۔ آپ
نے جیسے ہی وہاں قدم رنجہ فرمایا تو ان تمام خواتین نے آپ
کےلیے دعا فرمائی اور آپ
کی قسمت پررشک کا اظہارکیا۔ 61آپ
کے لیے چار سو درہم کا مہر مقرر کیا گیا۔ 62 جب تقریبِ نکاح اختتام پذیر ہوئی تو حضرت عائشہ
کو ان کے گھر لے جایا گیا جو مسجد نبوی سے متصل ایک نہایت سادہ سا حجرہ تھا جو اندر سے بھی کمال سادگی کا نمونہ تھا۔ اس حجرہ کے سامانِ ضرورت میں ایک چمڑے کا گدا تھا جس میں گھاس پھوس بھری ہوئی تھی جبکہ فرش پر کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ اس کمرہ کے دروازہ پر ایک پردہ ٹکا ہواتھا جو اونٹ کے بالوں سے بنایا گیا تھا۔ حضرت عائشہ
اپنے اس نئے گھر میں آپ
کے ساتھ اپنی نئی زندگی کے آغاز پر نہایت مطمئن ومسرور تھیں۔ آپ
نے انہیں لوگوں کی ہدایت کےلیے علم کے زیور سےمزین فرمایااور ان کی خصوصی تربیت فرمائی جس کے نتیجہ میں آپ
خود اپنی ذات میں خوبیوں کا مجموعہ بن گئیں اور آپ
کی ذات سے ایک زمانہ تک دنیا نے علم وحکمت کا فیضان پایا ۔
آپ غزوات کے دوران عمومی طور پر اپنی ازواج میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ 6 ہجری میں بنو مصطلق کی مہم کے دوران آپ
نے حضرت عائشہ
اور حضرت ام سلمہ
کو اپنے ساتھ سفر میں رکھا۔ مسلمان اس مہم میں کامیاب ہوکر لوٹے۔ واپسی کے سفر کے دوران مدینہ منورہ سے کچھ فاصلہ پر مسلمان خیمہ زن ہوئے۔ 63اس دوران حضرت عائشہ
حاجت کے سبب قافلہ سے کچھ فاصلے پر تشریف لے گئیں۔بعد فراغت اپنی سواری کے پاس پہنچی تو ظفار(یمن کا ایک شہر) کے مہرہ کا بنا ہواآپ کا ہار غائب تھا۔چنانچہ آپ واپس لوٹیں اور اپنا ہار تلاش کرنے لگیں۔ اس ہار کی تلاش میں آپ کو کچھ دیر ہو گئی۔ جو لوگ آپ کو اونٹ پر سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور آپ کےہودج کو اٹھا کر آپ کےاونٹ پر رکھ دیا۔ آپ کیونکہ دبلی پتلی اور نحیف تھیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ آپ ہودج کے اندر ہی موجود ہیں۔ جب آپ اپنا ہار ڈھونڈ کر واپس لوٹیں تو آپ نے وہاں کسی کو نا پایا۔ آپ وہاں بیٹھ کر ان قافلے والوں کا انتظار کرنے لگیں کہ جیسے ہی ان کو علم ہوگا کہ آپ ہودج میں تشریف فرما نہیں ہیں ویسے ہی وہ آپ کو لینے واپس لوٹ آئیں گے۔ جب قافلے والوں کو لوٹنے میں وقت لگا اور آپ پر تھکاوٹ تاری ہونے لگی تو آپ اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے اونگنے لگیں یہاں تک کے سو گئیں۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی جولشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھےتاکہ لشکر کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو تو وہ اٹھا لیں، انہوں نےجب آپ کو سوئے ہوئےدیکھا تو پہچان گئےکیونکہ آپ نے حضرت عائشہ
کو پردہ کے حکم کے آنے سے پہلےدیکھا ہواتھا۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی نے حضرت عائشہ
کو بغیر چھوئے جگانے کے لئے انّاللّٰہپڑھنا شروع کیا جس کی آواز سے آپ جاگ اٹھیں اور فوراً اپنی چادر سے آپ نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی نےحضرت عائشہ
کو سواری پر سوار کرایا اور سواری کو آگے سے پکڑ کر چلنےلگے۔ جب یہ دونوں لشکر کے قریب پہنچے تو ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ لشکر پڑاؤ کئے ہوئے تھا۔ 64 آپ
نے حضرت عائشہ
کو دیکھا تو آپ
کو اس بات کی خوشی ہوئی اور سکون محسوس ہوا کہ وہ خیریت سے بغیر کسی مصیبت میں مبتلا ہوئے تشریف لے آئیں ہیں۔ تاہم مدینہ منورہ کے منافقین نے عبداللہ بن ابی کی قیادت میں اس واقعہ کو آپ
اور مسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کرنے کے لیےغنیمت جانا اورحضرت عائشہ
پر بہتان باندھنے کےلیے آپ کے خلاف جھوٹی افواہیں پھیلانے لگے جسے بدقسمتی سے بعض سادہ لوح مسلمانوں نے بھی سچ جان کر قبول کرنا شروع کردیا۔ ان مسلمانوں میں مسطح بن اثاثہ بھی شامل تھے جو حضرت ابو بکر
کےرشتہ دار تھے۔ان کے علاوہ حضرت حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش بھی منافقین کی اس سازش کا شکار ہوگئے۔
جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ پہنچا تو حضرت عائشہ بیمار ہو گئیں۔ آپ کی یہ بیماری تقریباًایک ماہ تک جاری رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی افواہوں کا بڑا چرچا رہا۔ اس دوران آپ
جب امّ المؤمنین حضرت عائشہ
کے پاس تشریف لے جاتے تو صرف سلام کرنے اور طبیعت دریافت کرنے پر قناعت فرماتے اور واپس تشریف لے جاتے۔ جب آپ کی طبیعت میں افاقہ ہوا تو آپ امّ مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئیں۔ مناصع مدینہ منوّرہ کی آبادی سے باہر رفع حاجت کی جگہ تھی جہاں عموماً خواتین صرف رات میں اس لئے جایا کرتی تھیں کہ گھروں میں بیت الخلاء موجود نہیں تھے۔ جب رفع حاجت سے فارغ ہوکر دونوں خواتین واپس آنے لگیں تو امّ مسطح اپنی چادر میں الجھ گئیں اور ان کی زبان سے حضرت مسطح کی شان میں ناگوار الفاظ نکلے۔ حضرت عائشہ
نے اّم مسطح کو منع فرمایا کہ وہ حضرت مسطح کے لئے کوئی سخت بات نہ کہیں کیونکہ وہ بدری صحابی تھے۔ اس پر امّ مسطح ناراض ہوئیں اور حضرت عائشہ
کو بتانے لگیں کہ ان پر تہمت لگانے والوں میں حضرت مسطح پیش پیش ہیں جسے سن کر حضرت عائشہ
کا مرض بڑھ گیا۔ جب آپ اپنے گھر واپس آئیں تو نبی کریم
سے عرض کیا کہ آپ
انہیں ان کے والدین کے گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمادیں ۔ آپ
نے ان کو اس کی اجازت دے دی۔ آپ نے اپنی والدہ کےگھر جا کر افواہوں کے بارے میں دریافت کیا جس سے آپ کو اندازہ ہوا کہ آنحضرت
کا ان کی طرف عدم التفات اور بے توجہی کا سبب یہ افواہیں تھیں جو مدینہ طیبہ میں گردش کررہی تھیں۔ اگر چہ کہ حضرت عائشہ
شدید صدمہ سے دو چار تھیں لیکن وہ تنہا ا س صدمہ کا شکار نہیں تھیں بلکہ خود آپ
بھی صدمہ، دکھ اور تکلیف کی اس کیفیت سے گزر رہے تھے۔ آپ
پوری طرح جانتے تھے کہ حضرت عائشہ
اس معاملہ میں بالکل معصوم ہیں اور انہیں افترا پردازوں نے اپنی بہتان بازی کا شکار کیا ہوا ہے۔آپ
نے اسامہ بن زید اور علی ابن ابی طالب کو بلا کر ان سے اس معاملہ میں ان کی رائے مانگی۔ حضرت اسامہ نے آپ
کو یقین دلایا کہ یہ سب جھوٹ اور من گھڑت بات ہے تاہم حضرت علی
نے آپ
کی خدمت میں عرض کی کہ اس معاملہ میں حضرت عائشہ
کی خادمہ خاص حضرت بریرہ سے مزید معلومات حاصل کی جائے۔ جب حضرت بریرہ
سے حضرت عائشہ
کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت عائشہ
کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتیں البتہ جب بھی انہوں نےآٹا گوندھ کر کے اسے حضرت عائشہ
کے حوالہ کیا تو وہ اس کی حفاظت کے دوران سو جایا کرتی تھیں اور بھیڑ آکر اس آٹے میں منہ مار دیا کرتی تھی۔ 65
اس کے بعد آپ حضرت ابوبکر
کے گھر تشریف لے گئے اور دیکھا کہ حضرت عائشہ
کی آنکھیں مسلسل دو دن رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھیں۔ آپ
وہاں جاکر حضرت عائشہ
کے قریب تشریف فرما ہوئے اور پھر اللہ تعالی کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہوئے آپ کو تقویٰ اور طہارت کی نصیحت کی جس کے جواب میں آپ نے قرآن پاک کی اس آیت کوتلاوت فرمایا: 66
فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ 1867
تو(اس موقع پر ) صبر ہی اچھا ہے، اور میں( اس حالت میں صرف )اللہ ہی سےمدد چاہتا ہوں ان باتوں پر جو تم مجھے بتارہے ہو ۔
اس موقع پر آپ پر سورہ نور کی آیات 11 سے 21 کا نزول ہوا جس میں اللہ تعالی نے حضرت عائشہ
کو منافقین کے عائد کردہ تمام گھٹیا الزامات سے بری قرار دیا۔ حضرت عائشہ
اس وحی کے نزول سے بے پناہ خوش ہوئیں اور اللہ کی حمد وثنا ء كی اور اس کی مدد اور معاونت پر اس کی شکر گزار ہوئیں۔ 68یہی وہ موقع تھا جب وحی کے ذریعہ پاک دامن خواتین پر الزام لگانے والوں کےلیے اللہ تعالی نے حد قذف کی سزا کا حکم بھی نازل فرمایا 69جس کے بعد مسطح بن اثاثہ،حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش جو حضرت عائشہ
کے حوالہ سے افواہ سازی پھیلانے میں شامل تھے انہیں 80 کوڑوں کی سزا دی گئی ۔ 70
اللہ تعالی کی طرف سے اس خصوصی فضل وکرم جس میں حضرت عائشہ کی پاکدامنی اور عفت وعصمت کا وحی کے ذریعہ اعلان کردیا گیا تھا۔ اسے سننے کے بعد سیدہ عائشہ
دوبارہ اپنے حجرہ مبارک میں جو مسجد نبوی
سے متصل تھا تشریف لے آئیں اور آنحضرت
كے ساتھ زندگی گزاری۔ حجۃ الوداع کے بعد آپ
شدید علیل ہوگئے تو آپ
نےاپنی زندگی کے بقیہ ایّام حضرت عائشہ
کے حجرہ میں گزارے۔ آپ
کے حضرت عائشہ
کے حجرہ میں قیام پر بقیہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی کوئی اعتراض اس لیے نہیں کیا کہ ان میں سے ہر ایک اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ آپ
کی طبیعت مبارک ناساز تھی اور وہ اپنی صحتیابی کےلیے جہاں رہنا چاہیں رہ لیں۔ چنانچہ آپ
نہایت پرسکون انداز میں حضرت عائشہ
کے حجرہ مبارکہ میں قیام پذیر رہے جہاں آپ نے آپ
کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے ہمہ وقت آپ
کی تیمار داری فرمائی ۔ 71
جب آپ کا دنیا سے رحلت کا وقت قریب آیا تو حضرت عائشہ
نے آپ
کو اپنے جسم کے ساتھ سہارا دیا ہوا تھا اور اسی حالت میں جبکہ آپ
کا سر ِاقدس حضرت عائشہ
کے سر اور سینہ کے درمیان تھا آپ
کا وصال پُرملال ہوا۔ حضرت عائشہ
فرمایا کرتی تھیں کہ مجھ پر اللہ تعالی کے بڑے احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ آپ
کا وصال پُرملال میرے گھر میں اس وقت ہوا جب میں نے آپ
کے جسم اقدس کو اپنے وجود سے سہار ا دیا ہوا تھا۔ 72
حضرت عائشہ کو دس ایسے خصائص اور اوصاف سے نوازا گیا تھا جو آپ
کی کسی دوسری زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں تھے جن کی تفصیل درج ذیل ہیں :
حضرت عائشہ آپ
کے وصال پُرملال کے بعد47 برس تک حیات رہیں۔ 74 اس دوران آپ نے دین اسلام کےلیے بے پناہ خدمات سرانجام دیں ۔ آپ
کی احادیث طیبہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جن کی تعداد تقریبا 2210 ہے وہ آپ سے ہی مروی ہیں۔
آپ کی تمام ازواج اور ہم عصر خواتین میں آپ سب سے زیادہ اہل علم اور فقیہ تھیں۔ آپ کو طب اور شاعری پر کمال دسترس حاصل تھی۔ 75 حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور خلافت میں فقہی معاملات پر نہایت قابلیت اور مدلل انداز میں آپ اپنی رائے کو پیش فرمایا کرتی تھیں۔ 76 آپ
آپ سے بے پناہ محبت فرمایا کرتے تھے جیسا کہ روایت ہے :
أن عمرو بن العاص، قال: يا رسول اللّٰه أي الناس أحب إليك؟، قال: عائشة ، قال: من الرجال، قال: أبو بكر 77
عمرو بن العاص نے ایک مرتبہ رسول اللہپوچھا کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ آپ کو کون پسند ہے؟ آپ
نے ارشاد فرمایا: عائشہ(
)۔ آپ (حضرت عمرو ) نےدوبارہ پوچھا کہ مردوں میں آپ (
) کو کون زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ (
) نے جواب دیا: عائشہ (
)کے والد ابو بکر (
)۔
حضرت عثمان غنی کو شہید کرنے کے بعد آپ کے قاتلین نے خود کو حضرت علی کی فوج میں چھپانے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان غنی کے متبعین اور دیگر لوگ یہ چاہتے تھے کہ قاتلین عثمان کو سزا دی جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت عائشہ
حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لارہی تھیں۔ واپسی کے دوران آپ کی ملاقات طلحہ ابن عبیداللہ اور زبیر بن العوام سے ہوئی جنہوں نے آپ سے یہ استدعا کی کہ وہ حضرت علی
سے قاتلین عثمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کریں۔ حضرت عائشہ
اس بات کوسن کر راضی ہوگئیں اور حضرت طلحہ
اور حضرت زبیر
کے ساتھ عراق روانہ ہوئیں۔ انہوں نے بصرہ پہنچ کر حضرت علی
کے پہنچنے کا نتظار فرمایا ۔ حضرت علی
تشریف لے آئے اور ہرممکن کوشش کی کہ گفت وشنید کے ذریعہ اس معا ملہ کو حل فرمالیں تاکہ مسلمانوں کی وحدت قائم رہے۔ ان مذاکرات کے دوران قعقہ ابن عامر نے بہت ہی عمدہ کردار ادا کیا اور طرفین مسئلہ کے حل پر راضی ہوگئے۔ چنانچہ دوطرفہ لوگ واپس اپنے اپنے خیموں میں جاکر آرام فرما ہوگئے تاہم قاتلین عثمان نے ایک بہت بڑی سازش تیار کر کے مسلمانوں کے درمیان جنگ کی آگ کو بھڑکا ڈالا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے دونوں اطراف کے خیموں پر رات کے اندھیرے میں علیحدہ علیحدہ یلغار کرڈالی جس کے نتیجہ میں اصحاب جمل یعنی حضرت عائشہ
کے متبعین یہ سمجھے کہ شاید حضرت علی
کے لشکر نے ان پر حملہ کرڈالا جب کہ حضرت علی
کا لشکر سمجھا کہ حضرت عائشہ
کے حامیوں نے حضرت علی
پر حملہ میں پیش قدمی کرڈالی ہے۔ اس اچانک پڑنے والی یورش سے دونوں گروہوں میں جنگ چھڑ گئی جس کا اختتام اس وقت ہوا جب حضرت علی
نے اس اونٹ کے پاؤں کاٹ ڈالے جس پر حضرت عائشہ
کا پالا ن رکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی
آپ
کے پاس تشریف لائے اور آپ
کے لئے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار فرماتے ہوئے آپ
کو میدان جنگ سے مدینہ منورہ واپس لوٹ جانےپر راضی کیا۔ آپ جب وہاں سے واپس لوٹیں تو اس کے بعدآپ نے بقیہ زندگی سیاست کے جھمیلوں سے دور گزاری ۔ 78
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ جو نہایت ہی صاحب علم اور صاحب تقوی تھیں، آپ کا وصا ل 17 رمضان المبارک سن 58 ہجری میں ہوا۔حضرت ابو ہریرہ
نے آپ
کا جنازہ پڑھایا اور آپ
کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔ 79