ام المومنین حضر ت جویریہ کا تعلق قبیلہ خزاعہ کے خاندان بنومصطلق سے تھا۔ آپ کا اصل نام برّہ تھا جس کو آپ ﷺ نے جویریہ سےتبدیل کر دیا ۔1 آپ کے والد حارث بن ابی ضرار خاندانِ بنو مصطلق کے نامی گرامی سردار تھے۔ 2 آپﷺ کے نکاح میں آنے سے قبل آپ مسافع بن صوفان المصطلقی کے نکاح میں تھیں 3 لیکن بعد میں جنگی قیدی بنیں اور آپﷺ نے باقائدہ آپ کا فدیہ دے کر آپ کو آزاد کروایا اور پھر آپ سے نکاح فرمایا۔ 4
حضرت جویریہ کا پورا نام وشجرہ نسب جویریہ بنت الحارث بن ابی ضرار بن حبيب بن الحارث بن عائذ بن مالك بن جذيمہ( جو المصطلق تهے) بن سعيد بن عمرو بن ربيعہ بن حارثہ بن عمرو مزيقاء بن عامر بن حارثہ بن امرؤ القيس بن ثعلبہ بن مازن بن الازد تھا۔ 5
حضرت جویریہ اپنے قبیلہ کےسردار حارث بن ابو ضرار کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف آس پاس کے قبائل کو جمع کیا تاکہ مدینہ منورہ پر حملہ کرسکیں اور اپنا ایک جاسوس مدینہ منورہ بھیجا جو پکڑا گیا۔حضرت عمر نے تفتیش شروع کی تو اس نے بتایا کہ اس کا تعلق قبیلہ بنو مصطلق سے ہے اور ان کاسردار رسول اللہ ﷺ کے خلاف لشکر کشی کاارادہ کرچکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سننے کے باجود اس کو اسلام لانے کی دعوت دی جس کو اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اپنی قوم کےساتھ ہے اور اسے ان کی آمد کا انتظار ہے۔یہ سن کر حضرت عمر نے آپ ﷺ کی اجازت سے اس جاسوس کو اس کے انجام تک پہنچا دیا۔6
رسول اللہ ﷺ نے لشکر کو تیا ر کیا اور حارث بن ضرار کی سرکوبی کےلیے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے مریسیع کے مقام پر جاکر پڑاؤ کیا۔آپ ﷺ نے لشکر کی صف بندی فرمائی اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابو بکر اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ کو دیا ۔آپﷺ نے صف بندی کے بعدحضرت عمر کو حکم دیا کہ کفار کے لشکر کو اسلام کی دعوت پیش کریں۔اسلام کی دعوت دشمنان اسلام کو سخت ناگوار گزری جسے سن کر انہوں نے آگے سے تیر برسانے شروع کردیے۔لشکر اسلام نے بھی تھوڑی دیر تک تیروں سے جواب دے کر مقابلہ کیا اور پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم سے دشمن پر حملہ کیا جس کے سامنے لشکر کفار ٹِک نہ سکا۔ دشمن کے 10 آدمی مارے جانے کے بعد باقی لوگوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مال غنیمت لے کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئے ۔ مدینہ منورہ میں تمام مال اور قیدی صحابہ کرام میں تقسیم کردیے گئے۔7
حضرت جویریہ مال غنیمت کےتقسیم کے وقت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں آئیں۔ انہوں نے حضرت جویریہ سے فرمایا کہ مجھے ایک متعین رقم ادا کرو اور اپنے آپ کو آزاد کرالو ۔حضرت جویریہ نے اس بات کو بخوشی قبول کیا لیکن مسئلہ مال کی ادائیگی کا تھا جس کاحل انہوں نے یہ نکالا کہ وہ آپ ﷺ کے دربار اقدس میں سوالی بن کر حاضر ہوئیں اور عرض کی:
…يا رسول الله، أنا جويرية بنت الحارث ابن أبي ضرار، سيد قومه، وقد أصابني من البلاء، ما لم يخف عليك فوقعت في سهم لثابت بن قيس بن الشماس أو لابن عم له فكاتبته على نفسي فجئتك أستعينك على كتابتي… 8یارسول اللہ(ﷺ) ! میں جویریہ بنت حارث بن ابو ضرار ہوں، (میرے والد) اپنی قوم کے سردار ہیں، مجھ پر جو آزمائش آئی ہوئی ہے اس سے آپ بخوبی باخبر ہیں۔ میں مال غنیمت کے طور پر ثابت بن قیس الشماس یا اس کے چچازاد بھائی کے حصہ میں آئی ہوں۔ لہذا انہوں نے میری رہائی کے عوض مجھ سے مکاتبت کا معاملہ کرلیا ہے جس کی ادائیگی کےلیے میں آپ سے مدد طلب کرنے آئی ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی درخواست سنی تو فرمایا کہ اگر وہ چاہیں تو آپﷺ ان کی طرف سے سارا مال ادا کرنے کو تیار ہیں جس سے وہ آزاد ہوجائینگی اور اس کے بعد اگر وہ پسند فرمائیں تو آپﷺ ان سے نکاح بھی کرسکتے ہیں ۔حضرت جویریہ نے جب یہ سنا تو بِلاپس وپیش اس پیشکش کو قبول فرمالیا ۔ 9
جنگ کے بعد حارث بن ضرار کو جب پتہ چلا کہ اس کی بیٹی بھی مسلمانوں کی قید میں ہے تو وہ اپنے ساتھ کئی سارے اونٹ لے کر مدینہ منورہ پہنچا تاکہ اپنی بیٹی کا فدیہ دے کر حضرت جویریہ کو چھڑا سکے۔ اس نےآتے ہوئے دو قیمتی اونٹ ایک گھاٹی میں چھپا لیے۔جب رسول اللہ ﷺ کے دربار میں پہنچا اور اپنےآنے کا مقصد بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
…فأين البعيران اللذان غيبتهما بالعقيق، في شعب كذا وكذا؟ فقال الحارث: أشهد أن لا إله إلا الله، وأنك محمد رسول الله… 10وہ دو اونٹ کہاں ہیں جن کو تم نےوادی عقیق کی فلاں فلاں گھاٹی میں چھپا یا ہے؟ یہ سن کر حارث بن ضرار کہنے لگا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ،اور آپ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
حضرت حارث بن ضرار نے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ ﷺ سے خود اپنی بیٹی کا نکاح کروایا اور 400درہم مہر مقرر فرمایا۔11 واقدی فرماتے ہیں کہ آ پ کا مہر ان کے قبیلہ کے 40افراد کی آزادی مقرر ہوا۔12 جبکہ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے حضرت جویریہ کی طرف سے 9 اوقیہ چاندی بطورِ فدیہ کے خود ادا فرما کر ان کو پہلے آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کیا۔ 13
رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت جویریہ سے نکاح فرمالیا اور حضرت حارث بھی مسلمان ہوگئے تو صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ کے سسرالی رشتہ کے احترام میں اپنے تمام قیدی رہا کردیے ۔14 اسی لئے حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ انہوں نے حضرت جویریہ سے زیادہ بابرکت خاتون نہیں دیکھیں جن کی وجہ سے ان کے قبیلہ کے کئی سو افراد نے رہائی پائی۔15
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت جویریہ انتہائی حسین شکل وصورت اور بہترین اداؤں والی خاتون تھیں ۔ 16 آپ انتہائی زاہدہ، عابدہ ،متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں۔ ذکر واذکار کی کثرت فرمایا کرتی تھیں۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز کےلیے تشریف لے جارہے تھے اس وقت آپ ﷺ نے حضرت جویریہ کو جائے نماز پر بیٹھے ذکر واذکارمیں مشغول پایا۔کافی دیر کے بعد آپ ﷺاشراق کے وقت واپس اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف لائے تو حضرت جویریہ اسی مقام پر تشریف فرماہوکر حسب سابق ذکر واذکار میں مشغول تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا پڑھ رہی ہیں۔ حضرت جویریہ نے آپﷺ کواپنے ذکر واذکار کے بارے میں بتایا جس کو سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ چار كلمات ایسے ہیں کہ اگر ان کو3،3 مرتبہ پڑھا جائے تو ان کا اجر ان تمام ذکر واذکار سے زیادہ ہے جو انہوں نے صبح سے ابھی تک کیے ہیں۔ وہ کلمات یہ ہیں:
سبحان الله عدد خلقه، وسبحان الله رضاء نفسه، وسبحان الله زنة عرشه، وسبحان الله مداد كلماته۔ 17اللہ تعالی کےلیے ہی پاکیزگی ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے بقدر، اور پاکیزگی ہے اللہ تعالی کےلیے اس کی رضامندی کے بقدر، اور پاکیزگی ہے اللہ تعالی کے لیے عرش کے وزن کے بقدر، اور پاکیزگی ہے اللہ تعالی کےلیے اس کےکلمات کی سیاہی کے بقدر ۔
حضرت جویریہ فرائض کے علاوہ نوافل کا اہتمام بھی کثرت کے ساتھ فرمایا کرتی تھیں اور رمضان شریف کے علاوہ عام ایّام میں بھی بالخصوص جمعہ کا روزہ رکھا کرتی تھیں۔18
ام المومنین حضرت جویریہ کا وصال 50 ہجری میں 65 سال کی عمر میں حضرت امیر معاویہ کے دورِخلافت میں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ مروان بن حکم نے پڑھائی۔ 19 آپ کو جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔