Encyclopedia of Muhammad

وحی سے متعلقہ شبہات کا ازالہ

قرآن مجید یعنی وحی الہی پر مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، یہ شکوک و شبہات زیادہ تر قرآن اور اسلام کے بارے میں عدمِ علم یا غلط فہمیوں کی بنا پر ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان اعتراضات کا جائزہ لیں گے اور ان کے جواب پیش کریں گے۔

سب سے بڑا اعتراض جو مستشرقین اور ملحدین کی طرف سے وحی الٰہی پر کیا گیا وہ یہ تھا کہ آپ کو (نعوذ بااللہ) مرگی کے دورہ پڑتے تھے اور اس کیفیت میں آپ کی زبان مبارک سے کچھ الفاظ نکلا کرتے تھے جن کو مسلمانوں نے وحی الٰہی سمجھ کر قرآن کی صورت میں محفوظ کرلیا۔ اپنی اصل اور اساس کے حساب سے تو یہ نہایت ہی گھٹیا اور بھونڈا اعتراض ہے لیکن ایک مسلمان کو کیونکہ ان باتوں کا جواب معلوم ہونا چاہیے اس لئے یہ عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ جانیں کے میڈیکل سائنس کے مطابق یہ مرگی ہے کیا؟ مرگی ایک دماغی بیماری ہے جسے انگریزی میں (Epilepsy) کہا جاتا ہے۔اس مرض میں انسانی دماغ میں متحرک رہنے والی برقی رو وقتی طور پر بے اعتدال ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کا پورا جسم بد حواس، بے ترتیب اورمدہوش ہوجا تاہے۔ اس بیماری کی عام علامات میں اچانک سے بے ہوش ہوجانا یا بے ہوشی کی کیفیت کا طاری ہونا،انسانی جسم کا اکڑ جانا، انسانی وجود کو جھٹکے لگنا، اچانک زمین پر گر جانا، عارضی طور پر سانس کا رُک جانا، مریض کے منہ کا ایک طرف ٹیڑھا ہوجانا، مریض کے منہ سے جھاگ کا نکلنا، مریض کی زبان کا دانتوں کے درمیان آکر کٹ جانا، اور مریض کا پیشاب نکل جانا شامل ہیں۔ اس مرض میں بعض مریضوں کو نسبتاً کم شدت کے دورے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے مریض مکمل طور پر اپنا ہوش و حواس نہیں کھوتا لیکن مریض کی کیفیت اور چہرے کے تاثرات ضرور بدل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود مریض اس قابل ہوتا ہے کہ بات کرسکے اور سُن سکے مرگی کے دورے میں اگر سختی ہو توسارے وجود پرپسینہ بھی آجاتا ہے۔ مرگی کے مریضوں کو ہوش میں آنے پر کچھ یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کیا کچھ دیکھا، سُنا اورکہا ہوتا ہے۔

اب اگر وحی کی جملہ کیفیات کا تقابل مرگی کی مذکورہ بالا علامات سے کیا جائے تو ان میں کوئی چیز بھی مشترک نظر نہیں آتی۔ مرگی کے دورے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو اس کے سامنے کہی گئی ہوتی ہیں یا خود اُس نے کی ہوتی ہیں یا جو کچھ اُس کے سامنے پیش آیا ہوتا ہے وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔اگر کوئی مریض اپنے دوران مرض کی کوئی کہی اور سُنی بات صحیح طور پر دہرادے تو اُس کے مرگی کا دورہ مشکوک ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف وحی کے نزول اور اُس کے بعد کی کیفیت اس کے بالکل برعکس ہے جس میں حضور وہ تمام قرآنی سورتیں اور آیات جو کبھی مختصر ہوتیں اور کبھی طویل انہیں بالکل صحیح طور پر پہلے خود تلاوت کرتے اورپھر کاتبین وحی کو اُن کا املاء بھی کرواتےتھے۔ وحی الٰہی کے نزول میں اس حوالے سے نہایت منفرد بات یہ ہوا کرتی تھی کہ یہ آیات کسی خاص موقع اور مناسبت سے نازل ہوا کرتی تھیں۔ اِن کے نزول کی وہ ترتیب نہیں ہوتی تھی جس ترتیب پر آج قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب موجود ہے لیکن اُس کے باوجود حضور املاء کرواتے وقت کاتبین کویہ ہدایت بھی فرماتے جاتے تھے کہ کس سورۃ کو کس جگہ اور کس آیت کو کون سی آیات سے پہلے اور بعد میں لکھنا ہے۔ وحی کے نزول کے نتیجہ میں مرتب شدہ قرآن کریم انسان کے لئے ہدایت و رہنمائی کے ایسے کامل مجموعہ کی شکل میں سامنے آیا جس کے اندر دیے گئے احکامات، ہدایات، تعلیمات اور منہیات کی حیثیت ابدی اصولوں اور ضابطوں پر مشتمل ہے۔ یہ کلام عربی فصاحت و بلاغت، زبان و بیان اور عربی ادب و گرامر کا ایسا مرقع ہے جس کی مثل و مثال نہ اس کے نزول کے وقت تھی اور نہ ہی آج تک پیش کی جاسکی ہے۔ لہذا وحی الہی کو مرگی سے تشبیہ دے کر حضور کی نبوت و رسالت پر اعتراض کم علمی، ہٹ دھرمی اور الزام تراشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

مزید یہ کہ حضور نے جب اعلان نبوت فرمایا تو آپ پر ایمان لانے والوں میں عرب کے نامور حکماء، امراء، شعراء، خطباء، اطبّاء اور جنگی سپہ سالاروں، دانشوروں سمیت یہود و نصاریٰ کے علماء بھی تھے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گہری واقفیت رکھنے والے یہ تجربہ کار لوگ آنکھیں بند کرکے آپ پر ایمان نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے آپ کے قول، فعل، عمل، سیرت، کردار، اخلاق، شخصیت اور جسمانی، اعصابی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی صحت و سلامتی میں آپ کو اپنے سے فائق، بہتر اور مضبوط جان کرآپ کی سیادت و نبوت کو قبول کیا۔ ان سینکڑوں دانشمند افراد میں سے کبھی کسی کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ شبہ نہیں ہوا کہ آپ کو خفیف سا بھی جسمانی یا اعصابی مرض لاحق ہے۔ اسی طرح مکہ و عرب کے وہ تمام زعماء جنہیں اپنی فہم و فراست اور عقل و فکر پر ناز تھا اور کسی نہ کسی صورت وہ اپنے آپ کو تمام لوگوں سے برتر سمجھ کر آپ کو کاہن، کبھی مجنون، کبھی شاعر اور کبھی ساحر قرار دیتے تھے، انہیں بھی کبھی یہ ہمت نہ ہوسکی کہ وہ آپ پر نازل ہونے والی وحی اور اُس کی مختلف کیفیات کی روشنی میں آپ کو مرگی کا مریض قرار دیں۔ حالانکہ عرب میں یہ بیماری اس زمانے کی معروف بیماریوں میں سے ایک تھی اور مریض کے علاج کے لئے مختلف ذرائع اختیار کیے جاتے تھے۔

ڈاکٹر حمید اللہ نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ یہ تمام مرگی کی نشانیاں کسی بھی اعتبار سے نبی کریم میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ہمیشہ ساکت و صامت ہوجاتے تھے نہ کہ ہاتھ پاؤں مارتے تھے۔ ثانیاً وحی کے دوران شروع سے آخر تک اور وحی کے ختم ہوجانے کے بعد رسول اللہ کی زبان سے جو آوازیں نکلتیں وہ قابل فہم عبارتیں ہوتیں، یعنی قرآن کی آیتیں جن کو سن کر ہر شخص سمجھ سکتا تھا، یہ نہیں کہ چیخیں ماری جارہی ہوں یا جیسے کہ بیمار بعض اوقات کراہتا ہے اور ایسی آوازیں نکالتا ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔1

اسی طرح رسول اکرم کے ہاں لڑکے لڑکیوں کی ولادت ہوئی اور لڑکیوں کی اولاد اب تک دنیا میں باقی ہے جن میں اس مرض کے توارث سے تاریخ ساکت ہے۔ لہذا وحی کے نزول اور وہ بھی صرف خاتم النبیین پر نازل شدہ وحی کو غیر حقیقی قرار دے کر کوئی بیماری سمجھنا، سچ اور حق کا مذاق اُڑانے کے مترادف اورخود ایک بیمار ذہنیت کی علامت ہے کیونکہ پوری انسانی تاریخ میں صرف نبی کریم ہی تنہا وہ پیغمبر ہیں جنہوں نے اپنے سابقہ تمام انبیاء و رُسل کی نبوت و رسالت اور اُن پر نازل ہونے والی وحی وپیغام الہی اور اُن سے صادر ہونے والے تمام معجزات کی تصدیق اور تصویب فرمائی اور اپنی اُمت کو ان پر ایمان لانے کی تاکید فرمائی ہے۔

کیا جون آف آرک (Joan of Arc) پر بھی وحی اتری تھی؟

جون آف آرک (Joan of Arc) رومن کیتھولک فرقے کی فرانسیسی لڑکی تھی جو حساس اور نیک صفت مشہور تھی۔ جب فرانس پر انگریز وں نے حملہ کیا اور فرانسیسیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو جون نامی اس لڑکی نے یہ دعوی کیا کہ اسے غیب سے آوازیں محسوس ہوئیں کہ مقرب فرشتے میکائیل ، مارگریٹ اور کیتھرین اسکندری نے الہام کے ذریعہ اسے چارلس ہفتم کی مدد کرنے اور فرانس کو انگریزوں کے قبضہ سے چھڑانے اور بادشاہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ہدایت دی ہے۔ فرانس کے بادشاہ چارلس ہفتم نے اس کے کہے پر اپنی امدادی فوج کو بھیجا جس نے 9 دن محاصرہ کیا اور اس علاقے کو انگریزوں سے چھڑا لیا۔ جون کی سربراہی میں فرانسیسیوں کو مزید فتوحات بھی نصیب ہوئیں جن کے نتیجے میں بالآخر ریمس کے مقام پر چارلس ہفتم کی تاج پوشی ہوئی۔ اس تقریب نے فرانسیسیوں کی ہمتوں کو بلند کردیا۔ جون نے چونکہ انگریزوں کے خلاف اور فرانس کے حق میں جدوجہد کو "خدائی فریضہ" قرار دیا تھا اس لیے اس کو مقدس ہستی سمجھا جانے لگا۔

اس واقعہ یا اس جیسے دوسرے واقعات سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہلِ قلم وحی اور الہام کی حقیقت کو خلط ملط کردیتے ہیں۔ اُس کی وجہ یہ کہ وہ مذکورہ بالا واقعہ میں جون نامی لڑکی کو اُس کے کشف، الہام، غیب کی خبروں سے آگاہی، میکائیل اور مقدس ارواح کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کے دعوؤں کی وجہ سے اسے مقامِ نبوت پر فائز کرکے وحی کا نزول اور وصول عام انسان کے لئے ثابت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اُن کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اس لڑکی کی عزت، عصمت اور بزرگی پوری قوم کے نزدیک ایک مسلمہ حقیقت تھی اوراس لڑکی نے اپنے عمل و کردار اورجدو جہد و قربانی کے ذریعہ اپنی قوم کی بے مثال خدمت کی۔ اس لئے مقام نبوت کےحاملین اور جون کی طرح کے افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

اس پورے واقعہ میں جون نامی لڑکی نے کہیں بھی اپنی نبوت و رسالت کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی اُس لڑکی نے پہلے سے موجود مذہب (عیسائیت) پر عمل پیرا ہونے کے لئے تبلیغ و اصلاح کے ذریعہ اپنی قوم کو راغب کرنے کی کوشش کی۔ اس خاتون نے اپنے کشف و الہام کو کسی نئی شریعت یا مذہب کے لئے بطور حجت و دلیل پیش نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ تو اُس سے کوئی معجزہ صادر ہوا اور نہ ہی اُس نے کسی معجزے کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی ذات پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اُس نے جس جرأت و بہادری کا جنگ میں مظاہرہ کیا وہ جنگ بھی درحقیقت دین کے احیاء کے نام پر نہیں لڑی گئی۔ وہ خود اپنے کشف و الہام اور خواب کی تعبیر کرنے سے بھی معذور تھی اسی لئے غیب کی خبروں کی توجیہہ اور حقیقت جاننے کے لئے اُس نے عیسائی مذہب کے پادری سے رجوع کیا۔ اُس کا کلام اپنی اُمت کے لئے الہامی اساس کی بنیاد پر کوئی پیغام نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عقل، فکر، شعوراور نظریہ کے اعتبار سے اس منصب کی ہرگز حامل نہ تھی کہ قوم اُس کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں علمی، عملی، الہامی، اخلاقی اور روحانی طور پر ترقی کرسکے۔ اسے اپنی فوج کی سربراہی بھی اپنے ملک کے بادشاہ کے دربار میں حاضری کے نتیجہ میں حاصل ہوئی تھی نہ کہ وہ اس منصب پر خدا کی طرف سے فائز ہوئی تھی یعنی خلاصہ کے طور پر کہا جائے تو نہ وہ نبیہ تھی، نہ اس نے نبوت و رسالت کا دعوی کیا تھا اور نہ ہی اس کے اس مخصوص الہام کا منصب نبوت و وحی الٰہی سے کوئی واسطہ تھا۔

کیا حضورﷺ نے نبوت کا دعویٰ کسی راہب سے ملاقات کی وجہ سے کیا تھا؟

مغربی اہل قلم آپ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ شام کے شہر بصریٰ میں آپ کی ملاقات بحیرا راہب سے ہوئی تھی جس کا تعلق نسطوری فرقہ سے ہونے کی وجہ سے وہ عیسیٰ کی الوہیت، ابنیت اور تثلیث کا منکر تھا۔ اسی لئے اُس کا پختہ ایمان توحید باری تعالیٰ پر تھا۔ مستشرقین کے خیال کے مطابق حضور نے اپنی نبوت کا دعویٰ وحی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس راہب سے ملاقات کی وجہ سے کیا تھا۔ ثانیاً وہ یہ کہتے ہیں کہ حضور نے تمام عقائدِ اسلام کی تعلیم بھی اُسی بحیرا سے حاصل کی جو علمِ نجوم کا ماہر، حساب دان اور ان کے بقول ایک جادوگر بھی تھا۔ کچھ اہلِ قلم پادری حضرات نے اپنی طرف سے یہ الزام بھی تراشا ہے کہ عیسائی راہب بحیرا ،محمد کا استاد اور معلّم ہی نہ تھا بلکہ اعلان نبوت کے بعد وہ آپ کا مصاحبِ خاص بھی کچھ عرصہ رہا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیرت کی بعض کتابوں میں حضور کا اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ شام کے سفر کا ذکر ملتا ہے۔ اس موقع پر بحیرا راہب نے آپ کو قریش کے ساتھ اس حال میں دیکھا تھا کہ بادل کا ٹکڑا آپ کے سر پر سایہ فگن تھا۔ یہ دیکھ کر اُس نے آپ کے چچا سے کہا تھا کہ: "یہ لڑکا بہت عظیم ہوگا، اُسے یہودیوں سے بچانا چاہیے"۔ ان روایات کی صحت اور ضعف پر بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ان تمام روایات کو ایک لمحہ کے لئے صحیح بھی تسلیم کرلیں تب بھی کسی ضعیف سے ضعیف ترین روایت میں بھی یہ بات نہیں ملتی کہ بحیرا نے آپ سے براہِ راست یا آپ کے قافلہ میں موجود کسی شخص سے آپ کی موجودگی میں اپنے عقیدے اور مذہب پر کوئی بات کی ہویا پورے قافلے میں کسی کو بھی اپنے مذہب پر ایمان لانے کی دعوت دی ہو۔ جب عقیدے اور مذہب کے بارے میں کسی قسم کی گفتگو کا ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی تنہائی میں بحیرا کی آپ سے راز و نیاز کے بارے میں کوئی ادنی سا ثبوت دستیاب نہیں ہے، تو محض تخیل کی بنیاد پر طرفین کے مابین تعلیم و تعلّم کا پورا افسانہ گھڑ لینا سوائے ذہنی کج روی اور اخلاقی پستی کے اور کچھ نہیں۔

اس حوالہ سے دوسری بات یہ ہے کہ اگر بحیرا راہب خود اتنا صاحب علم اور صاحب نظر شخص تھا تو خود اس نے الہامی کتاب کے نام سے کوئی کتاب تصنیف کیوں نہ کرلی تھی اور اپنی اس تصنیف کی بنیاد پر ایک نیا دین خود کیوں ایجاد نہیں کرلیا تھا۔ آخر ایسی کیا بات تھی کہ اس راہب نے حضور سے پہلے اور بعد میں کسی اور شخص کو وہ سب کچھ سکھانے کی کوشش نہیں کی جواُس نے ایک ہی نشست میں مغربی مصنفین کے دعوؤں کے مطابق حضور کو سکھا دیا تھا حالانکہ وہ اُس جگہ پر برسوں بلکہ دہائیوں سے مقیم تھا۔ عموماً کلیساؤں کے ساتھ مسیحی دینی تعلیم کے مدرسہ منسلک ہوا کرتے تھے اور جو کچھ مغربی اہل قلم بحیرا راہب کی علمیت اور عظمت کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں تو کم از کم درجہ میں اُس کی حیثیت اگر پوری دنیا ئے مسیحیت کے"شیخ الکل" کی نہ بھی ہو تو تب بھی ملک شام میں وہ عیسائیت کا سب سے بڑا عالم دین ضرور تھا چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جس کلیسا میں بحیثیت مسیحی عالم دین کے وہ مقیم تھا وہاں پر کوئی ایسا مسیحی دینی مدرسہ نہ ہوجہاں دینی تعلیم کے لئے طلبہ بحیرا سے استفادہ نہ کرتے ہوں۔ چنانچہ وہ طلبہ جنہیں بحیرا نے خود یا اپنے مصاحب مسیحی علماء سے تعلیم دلوائی تھی آخر اُن میں سے کوئی ایک بھی ذی استعداد ایسا شخص پیدا کیوں نہ ہوا جس نے مدتیں صرف کرکے باقی ساری چیزیں سیکھ لیں اور جو اصل سیکھنے اور جاننے کی چیزیں اور ضروری علوم تھے وہ بحیرا جیسے استاذ الکل کی صحبت کے باوجود نہیں سیکھ سکا؟ دوسری طرف مغربی مصنفین کے مطابق حضور نے ایک ہی نشست میں بحیرا راہب سے سب کچھ سیکھ لیا تھا حالانکہ حضور کا اس کے ساتھ ملاقات کا دورانیہ چند منٹوں پر ہی مشتمل تھا۔ اس دعوی کی وجہ یہ ہے کہ جو جملے اس ملاقات کے دوران بحیرا سے منقول ہیں انہیں اگر نہایت سکون سے گفتگو کرنے والا شخص بھی ادا کرے تو اس کی ادائیگی میں چند منٹ سے زیادہ صرف نہیں ہوتے۔

مزید یہ کہ اسلام کی وہ تمام تعلیمات جن کے بارے میں مسلمانوں کا پختہ ایمان ہے کہ وہ من جانب اللہ وحی کی صورت میں نبی کریم پر نازل ہوئیں لیکن عیسائی انہیں منزّل من اللہ ماننے سے دانستہ انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ عیسائی اور یہودی عقائد و تعلیمات کے بالکل برعکس بلکہ ضد ہیں۔ اب وہ تعلیمات جو عیسائیت اور یہودیت کے خلاف ہوں انہیں یہودیت و عیسائیت سے ماخوذ جاننا اور سمجھنا کیا کسی عیسائی اور یہودی عالم کے لئے ممکن ہے؟ کیا کوئی یہودی اور عیسائی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اسلام کی ساری تعلیمات بھی بحیرا راہب کی تعلیمات اور ہدایات تھیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ موجودہ عیسائی و یہودی تعلیمات تحریف و ترمیم پر مبنی ہیں کیونکہ یہ وہ تعلیمات بالکل نہیں جو اسلام پیش کرتا ہے اور اگر جواب "نہ"میں ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حضور پر لگائے جانے والا یہ الزام جھوٹ پر مبنی ہے۔ دلائل، شواہد اور قرآن کی روشنی میں یہ بات بالکل ایک بدیہی حقیقت ہے کہ آپ بغیر کسی شک و شبہ کے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں جنہیں کسی انسان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت قطعاً نہیں تھی۔ جو کچھ آپ نے بحیثیتِ نبی اور رسول کے انسانوں کو سکھایا اور بتایا خواہ وہ وحی متلو یا وحی غیر متلو کی صورت میں ہو اس کی نوعیت، حیثیت، اہمیت اورضرورت انسانوں کے لئے خود اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ کی نبوت ورسالت کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، خالقیت، مالکیت، صمدیت اور ربوبیت کو انتہائی خالص ترین شکل میں قبول کرنا ہے اور آپ کی نبوت و رسالت کا انکار کرنا خود رب تعالیٰ کی قدرت و عظمت کا انکار کرنا ہے۔ لہذا وحی الہٰی اور نبوت و رسالت محمدی کے انکار کے لئے اس من گھڑت اعتراض کو دلیل بنانا تجاہل عارفانہ کے سوا کچھ نہیں۔

کیاحضور ﷺ نے ورقہ بن نوفل سے کسب فیض کیا تھا؟

مغربی اہل قلم کے بقول آپ نے ورقہ بن نوفل جو عیسائیت کے بہت بڑے عالم تھے اورحضرت خدیجہ کے ساتھ آپ کی رشتے داری بھی تھی، ان سے علمی طور پر اِکتساب ِفیض کر کے ان کی دی ہوئی تعلیمات کو اپنے نام سے پیش کیا تھا۔ یقیناً اسلامی لٹریچر میں ورقہ بن نوفل کو باعثِ احترام شخصیت سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ بزرگ شخصیت ہونے کے ساتھ حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خدیجہ نے آپ کو پہلی وحی کے نزول کے بعد ان کی خدمت میں لے جا کر نزول وحی کا پورا واقعہ بیان فرمایا جس کا ذکر ہم وحی کی ابتداء والے باب میں وحی متلو کے عنوان کے تحت کرچکے ہیں۔ جب ورقہ بن نوفل کو حضرت خدیجہ نے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا تو آپ گہری سوچ میں چلے گئے اور پھر کہا کہ اگرحضرت جبرائیل نے واقعی اپنے قدم زمین پر رکھ دیے ہیں تو انہوں نے یہ کام لوگوں کی اچھائی اور بھلائی کے لیے کیا ہے۔ حضرت جبرائیل نبی کے علاوہ کبھی کسی کے لیے زمین پر تشریف نہیں لائے کیونکہ حضرت جبرائیل تمام انبیاء کے رفیق ہیں جو اللہ کے حکم سے صرف انبیاء کے پاس ہی پیغام خداوندی لے کر تشریف لایا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ میں اس چیز پر یقین رکھتا ہوں جو تم نے عبداللہ کے بیٹے کے متعلق مجھے بتائی ہے لیکن میں ان(حضور ) سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور سننا چاہتا ہوں کہ فرشتے نے حضور سے کیا کلام فرمایا ہے کیونکہ مجھے خوف لاحق ہے کہ کہیں یہ جبرائیل کے علاوہ کوئی اور نہ ہو کیونکہ بعض اوقات شیاطین بھی اس روپ میں لوگوں کے پاس آکر انہیں گمراہ کرتے ہیں اور نیک انسانوں کو پریشان کرتے ہیں۔

پس حضور حضرتِ خدیجہ کے کہنے پر ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے جنہوں نے آپ سے اس واقعہ کے متعلق اور حضرت جبرائیل سے ملاقات کے احوال دریافت کئے۔ حضور نے انہیں تفصیل سے سب کچھ بتایا اور ساتھ ہی حضرت جبرائیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی لے کر آئے تھے اس کے متعلق آگاہ فرمایا اس کے ساتھ ساتھ حضرت جبرائیل کے آسمان پر ظاہر ہونے اور حضور کو رسول کہ کر پکارنے کے متعلق بھی بتایا۔ یہ سب سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا: میں حلفیہ کہتا ہوں کہ وہ حضرت جبرائیل ہی تھے اور یہ الفاظ اللہ کی جانب سے نازل ہوئے ہیں۔ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو اس کے احکامات پہنچائیں۔ یہ معاملہ پیغمبری کا ہے اور اگر میں آپ کے اعلانِ نبوت تک زندہ رہا تو میں آپ کا مکمل ساتھ دوں گا۔ اس واقعہ کی بنیاد پر مستشرقین، حضور پہ الزام عائد کرتے ہیں کہ آپ نےاس وقت کے عرب عیسائی عالم، ورقہ بن نوفل سے اکتساب فیض کیا ہے۔

اس حوالہ سے پہلی بات تویہ کہ رسول کریم آغاز وحی سے قبل ورقہ بن نوفل اور ان کی مذہبی حیثیت کے بارے میں بے شک جانتے ہوں گے لیکن آپ کا ان کے پاس جا کر تسلسل سے ملاقاتیں کرنا یا ان سے کسی بھی قسم کے کلام کی سماعت کرنا پورے سیرتی ادب، کتب حدیث اور کتب تاریخ میں کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ ورقہ بن نوفل نے حضور کو عیسائی عقائد و تعلیمات کے بارے میں آگاہی دی یا دینے کی کوشش کی تو یہ سوائے افسانے کے کچھ نہیں کیونکہ اگر ورقہ بن نوفل نے حضور کو مسیحیت کے بارے میں کوئی تعلیم کسی موقع پر دی ہوتی تو خود ورقہ بن نوفل اپنی بھتیجی حضرت خدیجہ سے اس کا تذکرہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر ضرور کرتے ورنہ آپ کے اعلان نبوت کے موقع پر کم از اکم یہ ضرور ارشاد فرماتے کہ آج آپ جس بات کا دعوی کررہے ہیں یہ تو وہی ہے جو میں آپ کو سکھاتا رہا ہوں۔ اسی طرح لاکھوں احادیث کے ذخیرے میں یا پھر تاریخ عرب قبل از اسلام پر لکھی گئی سینکڑوں تاریخی کتب میں کہیں نہ کہیں اس بات کا حوالہ ضرور ملتا کہ ورقہ بن نوفل نے عیسائیت کی عظمت، ضرورت اور اہمیت پر کوئی خطبہ دیا تھا یا خود آپ نے کسی موقع پر لوگوں کو جمع کرکے عیسائیت کے عقائد و تعلیمات کے حوالے سے خطابت و شاعری فرمائی ہو۔ ہمیں پورے عرب کے تاریخی ومذہبی لٹریچر میں ایسی کوئی بات اشاروں اور کنایوں تک میں نہیں ملتی جو اس دعوی کےلیے دلیل بن سکے۔

اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تاریخ کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ شاگرد چاہے کتنا ہی لائق و فائق اور بڑا انسان کیوں نہ بن جائے لیکن استاد کے لئے اس کی حیثیت ہمیشہ چھوٹوں کی سی رہتی ہے کوئی بھی استاد اپنے آپ کو کسی بڑے انسان کے معلّمی کے منصب سے معزول کرنے پر تیار نہیں ہوتا بلکہ وہ اساتذہ جو کسی بھی وجہ سے اپنے فن میں باکمال یا نامور نہ ہوسکے وہ کسی ایسے شاگرد کا سہارا ڈھونڈنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں جسے اللہ تعالی نے کوئی عظمت عطا کردی ہو۔ ایسے کسی شاگرد کو اگر کسی استاد نے ایک دن بھی پڑھایا ہو تو یہ بات بتانے میں وہ فخر محسوس کرتا ہے کہ یہ بڑا انسان اس کا شاگرد رہا ہے لہذا ورقہ بن نوفل کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ خود حضور کے معلّم ہونے کا دعویٰ کر بیٹھتے اور اگر وہ ایسا کوئی دعویٰ کرتےتو حضور اس کو کسی بھی طور پر نہیں جھٹلاتے کیونکہ آپ کا پورے عرب میں تعارف ہی الصَّادق (نہایت سچے) الامین (نہایت امانت دار) کا تھا۔ دوست اور دشمن نے اسلام سے قبل وبعد آپ پر مختلف قسم کی الزام تراشیاں کرنے کی نہایت منظم اور بھرپور کوششیں کیں لیکن آپ کے بدترین دشمن نے بھی کبھی آپ کے وصفِ صداقت و امانت کو خلاف واقع اور خلاف حقیقت نہیں سمجھا۔

وحی الہی پر ذاتی ذہنی اختراع ہونےکا الزام

مغربی مستشرقین بسا اوقات حضور پر نازل ہونے والی وحی کو نفسیاتی وحی کہہ کر آپ پر ایمان لانے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ نے وحی الٰہی اور کلام ِربّانی کے نام سے پیش کیا ہے وہ آپ کی ذات پر ماحول کے اثرات، حالات کا جبر اور آپ کےنفسیاتی و ذہنی رجحانات کا نتیجہ تھا۔ اس لیے حضور کی وحی آسمان سے نازل شدہ نہیں تھی بلکہ وہ خود آپ کی جستجوئے فکر و نظر اور دل و دماغ میں برپا اس وقت کی سماجی کشمکش کا نتیجہ تھی جس کی وجہ سے آپ کی ذاتی خواہش یہ ہوگئی تھی کہ وہ وحی الٰہی کو وصول کرنے کا دعویٰ کرکے اپنی نبوت کا اعلان کریں۔ ان لوگوں کا مزید دعویٰ یہ ہے کہ حضور نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور فراست سے معلوم کرلیا تھا کہ عربوں میں پھیلا ہوا شرک وبت پرستی، جنگ و جدال اورقتل و قتال وغیرہ اعمالِ قبیحہ ہیں۔ اسی وجہ سے آپ نے غار حرا کی تنہائی میں خالقِ کائنات کی طرف متوجہ ہو کر اپنی فکر اور نورِ بصیرت میں اضافہ کیا۔ اس بصیرت نے حضور کواس بات پرمجبور کردیا کہ وہ اپنی نبوت و رسالت اور وحی کا اعلان فرمائیں۔

حضور کی سیرت طیبہ خواہ مسلمانوں کی تحریروں سے اس کا مطالعہ کیا جائے یاغیر مسلم مُنصف مزاج اہل قلم کی تحریروں سے اس کو پڑھا جائے، ان سب میں ایک بات قدرِ مشترک ہے جس کا تمام اہل قلم اعتراف کرتے ہیں کہ حضور اپنی ذاتی زندگی میں صادق و امین تھے۔ آپ نے زندگی بھر کسی پرکوئی جھوٹا الزام نہیں لگایا اور نہ ہی کسی بھی معاملہ میں جھوٹ بولنے کی کوشش کی چنانچہ وہ شخص جس کا سرے سے مزاج اور فطرت ہی دروغ گوئی اور الزام تراشی کی لعنت سے پاک اور صاف رہا ہو وہ آخر اللہ تعالی پر جھوٹ کیوں باندھنے کی کوشش کرے گا کہ وہ جو کچھ جانتا ہے یا دین و ہدایت کے نام سے انسانوں کو پیش کررہا ہے وہ وحی الٰہی یا ہدایت ِربّانی ہے۔ اللہ تعالی کے علم میں یہ بات یقینا ً موجود تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تحقیق کے نام پر حضور کی نبوت و رسالت پر الزام تراشی کی جائے گی اوراسے مختلف حیلوں اور بہانوں سے غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی نبوت و رسالت اور آپ پر نازل ہونے والی وحی کو خود اپنی جانب سے نازل کردہ قرار دے کر اس الزام تراشی یا غلط فہمی کو دو ٹوک انداز میں دور کردیا ہے۔ چنانچہ وحی کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

  تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ 49 2
  یہ (بیان ان) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، پس آپ صبر کریں۔ بیشک بہتر انجام پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

  ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ 102 3
  (اے حبیبِ مکرّم !) یہ (قصّہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (برادرانِ یوسف) اپنی سازشی تدبیر پر جمع ہورہے تھے اور وہ مکر و فریب کررہے تھے۔
  ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ 444
  (اے محبوب!) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں، حالانکہ آپ (اس وقت) ان کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے طور پر) اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم () کی کفالت کرے گا اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔

اب ہم مستشرقین کے اصل اعتراض کی طرف آتے ہیں جس کا لب لباب یہ ہے کہ حضور خود مُصلح اور پیغمبر بننے کے انتظار میں تھے (نعوذ باللّٰہ من ذلک)۔ یہ وہ بے بنیاد الزام ہے جس کی کوئی ٹھوس علمی یا تاریخی حیثیت نہیں ہے کیونکہ علم و تاریخ کے کسی بھی مستند ذریعہ سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے کبھی نبوت و رسالت کے حصول کی تمنا یا جستجو خود کی ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ ضرور بالضرور اس کا اظہار یا تذکرہ اپنے گھر یا حلقہ احباب میں کرتے۔ اسی لیے رب تعالی نے ارشاد فرمایا:

  وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ...86 5
  آپ کو بالکل یہ امید نہ تھی کہ آپ کی طرف کتاب (وحی) بھیجی جائے گی مگر یہ سب تمہارے پروردگار کی مہربانی سے ہوا ...

یعنی خدا تعالی نے حضور پر یہ کتاب نازل فرما کر آپ پر اور پوری انسانیت پر اپنی رحمت کاملہ کا ثبوت دیا ہے۔ اس رحمت (وحی کے اترنے) میں آپ کی ذاتی چاہت اور خواہش کا کوئی ادنیٰ عمل دخل کار فرما نہیں ہے اورنہ ہی آپ کو اِس کی کوئی توقع اور آرزو رہی تھی۔ جس طرح کسی بھی شخص کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر دلیل اور ثبوت کے کسی عام انسان پر الزام تراشی کرے اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ایک ایسی شخصیت جس کی صداقت و امانت پر ارب ہا ارب انسان متفق ہیں اور پوری دنیا ان کی دیانت و امانت کی آج تک گواہ ہے، صرف دو تین افراد کھڑے ہوکر ایسے صادق وامین شخصیت کے دامن کو الزام تراشی کے ذریعہ داغدار کرنے کی کوشش کریں تو ایسے افراد دنیا کے ہر نظامِ قانون و عدل میں قابل مؤاخذہ اور لائق گِرفت ہوا کرتے ہیں۔

رہی یہ بات کہ حضورکو عطاءکی جانے والی نبوت و رسالت اور وحی الٰہی آپ کی ذاتی چاہت اور خواہش کی بنیاد پر حقیقی وحی کے بجائے آپ کے اپنے ذہن کی اختراع تھی تو اس حوالہ سے یہ بات ہر شخص کے پیش نظر رہنی چاہیےکہ غارِ حرا میں آپ پر پہلی وحی کے نزول کے فوری بعد آپ پر جو ہیبت اور خوف کی طبعی و بشری کیفیت طاری ہوئی وہ کسی منتظرِ وحی شخص کی کیفیت ہرگز نہیں ہوسکتی۔ آپ اگر خود وحی کے منتظر ہوتے تو یہ آپ کے پاس اتنا شاندار موقع تھا کہ آپ دوڑ کر اپنی قوم کے پاس پہنچ جاتے اور انہیں آگاہ کرتے کہ میں برسوں سے جس غیر معمولی واقعہ کا منتظر تھا وہ مجھے برسوں کی ریاضت اور محنت کے بعد بالآخر حاصل ہوگیا ہے۔ لہذا آپ سب مجھے فوراً اللہ کا پیغمبر مان کر مجھ پر ایمان لے آئیں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا بلکہ وحی کے آغاز کے بعد کچھ عرصے تک آپ نے اپنے خاندان یا اہل مکہ میں سے کسی کو نہ تو کوئی سورت سنائی اور نہ ہی انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو آپ کی زوجہ محترمہ اور آپ کے قریب رہنے والے آپ کے وہ ساتھی جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا اس حوالہ سے کوئی نہ کوئی بات یا روایت ضرور بیان کرتے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور کے اعلانِ نبوت سے قبل و بعد کے حالات و واقعات پر ہزاروں روایات بیان کی ہیں۔ لہذا ان معتبر اور محترم شخصیات کی اس حوالہ سے خاموشی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تحقیق کے نام پر چند غیر مسلم اہل قلم کی طرف سے حضور پر نازل شدہ وحی الٰہی کو آپ کے ذہن کی اختراع بنا کر پیش کرنے کے لیے پھیلائے گئے بیانات نہ صرف غلط ہیں بلکہ جھوٹ کا پلندہ ہیں۔

کیا وحی حضور کی تصنیفی کاوش ہے؟

بعض مستشرقین نے اپنا پورا زور اس بات پر لگایا ہے کہ وہ اس بات کو کسی طور ثابت کرسکیں کہ حضور پر نازل ہونے والی وحی الہی حضور کی ذاتی تخلیقی و تصنیفی کاوش ہے جومنزل من اللہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جارج سیل (George Sale) نے آپ پر یہ الزام عائد کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وحی کی تصنیف میں آپ نے کچھ لوگوں سے مدد لی ہے۔ 6

حضور پر نازل ہونے والی وحی کے حوالے سے یہ نہایت عجیب و غریب قسم کا اعتراض ہے کیونکہ جارج سیل کا دعوی ہے کہ وحی الہی منزّل من اللہ نہیں ہے بلکہ خود نبی کریم کی تصنیف اور تخلیق ہے۔ اس اعتراض کے ثبوت کے لئے اُن کے پاس کوئی ٹھوس تاریخی اور علمی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان کا ظن اور تخمینہ ہے کہ جو کچھ وحی الہی کے نام پر قرآن کریم کی صورت میں حضور نے پیش کیا ہے اس کے لئے اُنہوں نے اپنے دور کے کچھ اہلِ علم کی مدد بالواسطہ یا بلا واسطہ حاصل کر رکھی تھی لیکن اُن کے اس دعوی کے تارو پود اُس وقت بکھر کر رہ جاتے ہیں جب وہ خود اس بات کا اعتراف کرلیتے ہیں کہ یہ اعتراض تو حضور کے ہم عصر غیر مسلم مخالفین بھی پوری کوشش کے باوجود ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

جس طرح مستشرقین وحی الٰہی کا انکار کرکے اس کو انسانی کلام ثابت کرنے کے لئے لایعنی اورلغو باتیں اور دعوے کرتے رہے ہیں، کفارِ مکہ و عرب بھی وحی کے حوالے سے تقریباً ساڑے چودہ سو برس قبل اس طرح کے کھوکھلے اور بے بنیاد دعوے کیا کرتے تھے۔ ان دعوؤں اور الزامات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ذکر فرما کر متلاشیانِ حق کے لئے قیامت تک اس طور پر محفوظ کردیا ہے کہ اب یا آئندہ کوئی اس طرح کے کسی دعوے کی جرأت اور کوشش کرے تو یہ مخالفینِ حق کی طرف سے طالبین حق کے لئے کوئی نئی اور انہونی کوشش نہیں ہوگی، بلکہ اپنے پیش رو منکرین حق کے جھوٹے دعوؤں کی دوبارہ نئے الفاظ اور زبان و بیان کے ساتھ دوہرائی ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل آیات مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے پورے منظر نامہ اور کفار کے لگائے گئے الزامات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

  وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ 103 7
  اور بیشک ہم جانتےہیں کہ وہ (کفار و مشرکین) کہتے ہیں کہ انہیں یہ (قرآن) محض کوئی آدمی ہی سکھاتا ہے، جس شخص کی طرف وہ بات کو حق سے ہٹاتے ہوئے منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے جبکہ یہ قرآن واضح و روشن عربی زبان (میں) ہے۔

دوسرے مقام پر کفار کے بے بنیاد اعتراض کو رد کرتے ہوئے فرمایا:

  وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا 5 8
  اور (یہ کافر) کہتے ہیں کہ (یہ قرآن) اگلوں کے افسانے ہیں جن کو اس شخص نے لکھوا رکھا ہے پھر وہ (افسانے) اسے صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ انہیں یاد کرکے آگے سنا سکے)۔

مذکورہ بالا آیات میں کفار مکہ کے حضور پروحی الٰہی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کا تقابل آج کے دور کے مستشرقین کے الزامات سے کیا جائے تو لگتا ہے کہ جس طرح مکہ و عرب کے منکرینِ وحی و رسالت نے ہر معاملہ میں بے بس اور لاجواب ہوکر الزام تراشی اور بہتان بازی کو اپنا وطیرہ بنالیا تھا بالکل اُسی طرح اس دور کے مستشرقین کے پاس وحی الٰہی اور رسالت محمدی کی صداقت کے انکار کے لئے علمی، عملی، تاریخی، عقلی، فکری، نظریاتی اور اخلاقی دلیل نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ وہ منکرینِ اہلِ مکہ و عرب کی طرح صرف جھوٹ اور الزام تراشی کی بنیاد پر اپنی نام نہاد علمی و تحقیقی عمارت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

مخالفین کے یہ دعوے کہ حضرت محمد نے خود قرآن تصنیف کیا اس حوالہ سے بھی غلط ہیں کیونکہ سب سے پہلےحضرت محمد نے اپنی زندگی کے ابتدائی 40 سالوں میں کبھی کوئی تحریری مواد پیش نہیں کیا تھا، جبکہ قرآن کا زبان اور ادبی معیار عربی زبان کے بڑے شعراء اور ادباء کو بھی حیران کردیتا تھا۔ دوم، قرآن کے مختلف مقامات پر نازل ہونے کے باوجود اس کی آیات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، جو انسانی تصنیف میں ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ مکہ و عرب کے بڑے بڑے زبان دانوں نے اس کا اعتراف یا تو ایمان لاکر کیا ورنہ وہ آپ کی بے جا مخالفت اور عداوت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دست بردار ہوگئے۔ البتہ جن لوگوں کی قسمت میں ایمان لانا مقدر نہیں تھا تو انہوں نے عاجز آکر آپ پر مستشرقین کی طرح یہ الزام لگا ڈالا کہ یہ کلام حضور کو کوئی ماہرِ زبان اور شناسائے لسان عرب خاموشی اور تنہائی میں سکھا کر چلا جاتا ہے۔ جب اُن سے پوچھا جاتا کہ آخر وہ کون سا ایسا شخص ہے جو اتنا بامعنی، فصیح و بلیغ، جامع و کامل اور بے مثال و لاجواب کلام حضور کو سکھاتا ہے تو کوئی جواب دیتا کہ وہ بلعام لوہار ہے اور کوئی کہتا کہ وہ بنی مغیرہ کا غلام یعیش ہے۔ اسی طرح کوئی کسی اور کو حضور کا معلّم بتاتا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جن جن لوگوں کو حضور کا معلّم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تووہ سب کے سب عجمی تھے اور اُن میں سے کسی کی بھی مادری زبان عربی نہ تھی اور مزید لطف کی بات یہ ہے کہ وہ افراد جنہیں حضور کا معلّم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی وہ تمام یکے بعد دیگرے حضور کے دست اقدس پر بیعت فرما کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔

کیا قرآن تورات وانجیل سے ماخوذ ہے؟

مستشرقین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ حضور پر نازل ہونے والی وحی الٰہی اللہ کا نازل کردہ سچا کلام نہیں ہے بلکہ تورات، انجیل اور یہودیت و عیسائیت کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں تورات، زبور اور انجیل کی تصدیق کا ذکر ہے کیونکہ جس طرح قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اسی طرح یہ کتب مقدسہ بھی من جانب اللہ ہی تھیں اور ان کا بنیادی پیغام بھی ایک ہی تھا۔ اسی لئے آج کے عہد نامہ قدیم و جدید جو کہ تورات و انجیل کی مسخ شدہ صورتیں ہیں، ان کے اندر ایسے معانی و مفہوم پائے جاتے ہیں جو قرآن کریم میں بھی موجود ہیں لیکن ایسا مواد قلیل ہے۔ ثانیا اگرحضور پر نازل شدہ وحی الہی تورات و انجیل سے اخذ شدہ ہوتیں تو لامحالہ عیسائیت کی بنیادی تعلیمات مثلاً تثلیث، کفارہِ گناہ، مصلوبیت مسیح اور نجات، اسلامی عقائد و تعلیمات کی بالکل ضد نہ ہوتیں بلکہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہوتیں حالانکہ حضور پر نازل ہونے والی وحی الہٰی ان عیسائی عقائد و تعلیمات کے علی الاطلاق بطلان پر مشتمل ہے۔ ثالثاً، جس طرح قرآن کریم میں زندگی کے ہر پہلو یعنی معاشرت، معیشت، سیاست، تعلیم وغیرہ کے لئے کامل تعلیمات و ہدایات کے اصول دیے گئے ہیں جبکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے بقول تورات اور انجیل میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے، نتیجہ کے طور پر اگر کوئی بات ان کی کتب مقدسہ میں موجود ہی نہیں تو قرآن کریم ان کتب سے اخذ کی ہوئی کتاب کیسے ہوسکتی ہے؟ جو نظریہ جہاد کا قرآن کریم میں موجود ہے کیا اس کی ہلکی سی بھی نظیر تورات و انجیل میں موجود ہے؟ جب ایسا نہیں ہے تو یہ ایک واضح بات ہے کہ قرآن کریم نہ ہی تورات سے ماخوذ ہے نہ انجیل سے۔

مستشرقین کے مذکورہ بالا اعتراضات کے جواب میں خود ان پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ حضور اگر نبیِ بر حق نہیں ہیں اور آپ پر نازل ہونے والی وحی اگرحق تعالیٰ کی طرف سے منزّل نہیں تھی تو نجران کے عیسائی علماء کا وفد جو مدینہ طیبہ میں مناظرے کے لئے حضور کے پاس آیا تھا وہ خود لاجواب ہوکر آپ کی عائد کردہ شرائط منظور کرکے خاموشی کے ساتھ واپس نجران کیوں لوٹ کر گیا؟ وہ کیوں رسول کریم کو اپنے اور اپنے مذہب کی حقانیت پر قائل نہ کرسکے؟ اسی طرح مدینہ منورہ اور اُس کے مضافاتی علاقوں مثلاً خیبر وغیرہ میں مقیم انتہائی چرب زبان، چالاک اور دھوکہ باز یہودی جنہیں خدا کے منظورِ نظر اور پسندیدہ ترین قوم ہونے کے زعم کے ساتھ ساتھ اپنی علمیت، قابلیت، صلاحیت اور لیاقت پر بے حد اعتماد تھا، وہ کئی بار اپنی بھر پور تیاریوں اور کوششوں کے باوجود نہ حضور کولاجواب کرسکے، نہ قرآن کے مقابلہ میں تورات کی عظمت و برتری کو ثابت کرسکے اور نہ اپنے اس دعویٰ کو برحق ثابت کرسکے کہ وہ دنیا کی تمام دوسری اقوام کے مقابلے میں اب بھی خدا کی پسندیدہ قوم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستشرقین کا یہ دعوی محض ایک بے دلیل دعوی ہی ہے جو ان کی باطنی بدنیتی پر مبنی ہے ورنہ جمیع حقائق اس طرف ہی اشارہ کررہے ہیں کہ جو کچھ آپ نے قرآن پاک کی صورت میں بیان کیا وہ سب کا سب منزّل من اللہ تھا جس میں یہود و نصاری کا تعاون ہونا تو دور کی بات خود حضور کا اپنا کہا ہوا ایک حرف بھی شامل نہیں ہے۔

 


  • 1 ڈاکٹر حمیداللہ ،خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد ،پاکستان،ص: 164
  • 2 القرآن، سورۃ ھود 49:11
  • 3 القرآن، سورۃ یوسف 102:12
  • 4 القرآن، سورۃ آل عمران 44:03
  • 5 القرآن، سورہ القصص86:28
  • 6 George Sale (1892), The Koran, Frederick Warne & Co., London, U.K. Pg. 48.
  • 7 القرآن، سورۃالنحل 16: 103
  • 8 القرآن، سورۃ الفرقان 25 :5