حضرت زینب بنت جحش آپ کی سگی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔1 آپ کی ولادت حضور کے اعلان نبوت سے 17 برس قبل ہوئی۔ ابتدا میں آپ کا نام برّہ تھا جو بعد میں بدل کر زینب رکھ دیا گیا۔2 آپ شکل وصورت کے لحاظ سے نہایت حسین وجمیل تھیں۔3آپ کی پہلی شادی حضور کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ ہوئی۔ حضرت زید بن حارثہ کے طلاق دینے کے بعد آپ کا نکاح حضورکے ساتھ ہوا 4اس طرح آپ بھی ام المومنین یعنی اہل ایمان کی والدہ کےعظیم وعالی مرتبت شرف وسعادت سے بہرہ ور ہوئیں۔
آپ کا پورا اسم گرامی زینب بنت جحش بن رئاب بن يعمر بن صبرہ بن مرہ بن كبير بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ تھا۔5 آپ کی والدہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب ابن ہاشم تھا 6جو رشتہ میں حضور کی سگی پھوپھی تھیں۔ 7
حضرت زید کا پورا نام زید بن حارثہ بن شراحیل تھا ۔ آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنو کلب سے تھا۔ آپ کی عمر محض 8 بر س تھی جب آپ اپنی والدہ کے ساتھ رشتہ داروں سے ملاقات کےلیے تشریف لےگئے۔ جب آپ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو کچھ لوگوں نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے آپ کو اغوا کر لیا۔ ان حملہ آوروں نے آپ کو”سوق عکاظ“(عکاز کے بازار)میں بطور غلام فروخت کر دیا۔ آپ کے خریدار حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہ بنت خویلد کے رشتہ میں بھانجے تھے، انہوں نے آپ کو 400 درہم میں خرید کر بطور تحفہ اپنی خالہ یعنی حضرت خدیجہ بنت خویلد کی خدمت میں پیش فرمایا اورحضرت خدیجہ نے حضور سےشادی کے بعد آپ کو حضور کی خدمت عالیہ میں بطور ہدیہ پیش فرما دیا۔ 8
آپ نے حضرت زید کو آزاد فرما کر اپنا منہ بولا بیٹا بنانے کا اعلان فرمایا جس کی وجہ سےحضرت زید کو زیدبن محمد کہہ کر پکارا جانے لگا ۔9 حضرت زید جب شادی کی عمر کو پہنچے تو آپ نے ان کےلیے اپنی پھوپھی زاد بہن یعنی زینب بنت جحش کا انتخاب فرمایا جو کہ نہایت خوبصورت اور باوقار خاتون تھیں۔ حضرت زینب بعض وجوہات کی بنا پراس رشتہ سے خوش نہ تھیں، اسی طرح آپ کے گھر والے بھی حضرت زید کے سابقہ پسِ منظر یعنی غلامی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس رشتہ سے مطمئن نہ تھے۔ 10 اسی دوران قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کا نزول ہوا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا 36 11
اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے تو یقیناً وہ کھلی گمراہی میں کا شکار ہوگیا۔
اس آیت کے نزول کے بعدحضرت زینب نے اللہ تعالی کا حکم قبول کرتے ہوئے حضرت زید کے ساتھ نکاح فرمالیا12 اور آپ بھی معاشرے کے مختلف طبقات میں موجود سماجی تفاوت کو توڑنے کےلیے خود اپنے گھر سے مثال پیش کر نے میں کامیاب ہوگئے ۔
حضرت زید اور حضرت زینب دونوں ہی آپ سے دل وجان سےمحبت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں کے درمیان ذہنی طور پر ہم آہنگی نہ ہوپائی جس کے سبب ان کی ازدواجی زندگی کامیابی کی منازل طے نہ کرسکی۔اس کی اہم ترین وجہ یہ تھی کہ حضرت زینب باوجود چاہت کے اس بات کو نہ بھلاسکیں کہ حضرت زید آزاد کردہ غلام ہیں جبکہ اپنے بارے میں انہیں اس بات کا احساس چین لینے نہیں دیتا تھا کہ وہ خود عرب کے ایک نہایت معزز ومحترم خاندان کی چشم وچراغ ہیں۔ دوسری طرف حضرت زید بھی بطور خاوند اور عرب کے مسلمہ سماجی ومعاشرتی اصول کے مطابق اپنی اس آرزو کو دبا نہ سکے کہ وہ اپنے گھر کے سربراہ اور بڑے ہیں چنانچہ ان کے درمیان حجت اور بحث ومباحثہ کا سلسلہ مستقل طور پر جاری رہا یہاں تک کہ ان کے خانگی معاملات بگڑتے چلے گئے۔
اسی دوران قرآن کریم کی آیات کا نزول ہوا جن میں متبنی یعنی منہ بولے بیٹے کی شرعی وقانونی حیثیت کو واضح کر کے یہ بتلایا گیا کہ اسلام میں متبنی یا منہ بولے بیٹے کی حیثیت حقیقی بیٹے کی سی نہیں ہے13اور نہ ہی اس کا اپنے منہ بولے باپ کی میراث میں کوئی حصہ بطور شرعی ترکہ کے موجود ہے۔ اللہ تعالی کے اس حکم کا واضح مطلب اور نتیجہ یہ تھا کہ آئندہ حضرت زید کوان کے اصل والد کے نام کے ساتھ پکارہ، لکھا اور پڑھاجائے گا نہ کہ منہ بولے والد کے نام سے۔ یعنی پہلے اگر وہ زید بن محمد کے نام سے پکارے جاتے تھے تو اب انہیں زید بن حارثہ پکارا جائےگا۔ 14
ادھر حضرت زید کے گھر کے معاملات ان کی اہلیہ کے ساتھ مزید خراب ہوتے چلے گئے چنانچہ حضرت زید نے حضور سے حضرت زینب کو طلاق دینے کی اجازت طلب کی۔ حضور نے ان کے خانگی حالات کی نزاکت بھانپ کر دونوں کے درمیا ن ازدواجی زندگی کی تلخیا ں کم کرنے کےلیے انہیں باہم ایک دوسرے سے جدا ہونے کی اجازت دے دی کہ وہ ایک دوسرے سے دوری اختیار کرلیں ۔ ادھر اللہ تعالی نے اپنی حکمت کاملہ کے مطابق آپ کو حضرت زینب بنت جحش کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا۔15 چنانچہ آپ نے ان کی عدت کے مکمل ہونے کا انتظار فرمایا16 اور تکمیلِ مدت کے بعد ان سے نکاح کےلیے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا ۔
حضرت زینب بنت جحش اس بات پر بے انتہا خوش تھیں کہ آپ نے ان سے نکاح کرنے کےلیے خود اپنا رشتہ بھیجا ہے چنانچہ حضور نے تین ہجری میں آپ سے نکاح فرمایا۔ 17 اس موقع پر آپ نے حضرت زینب کو 400 دراہم بطور مہر کے پیش کیے 18اور ولیمہ کے لیے ایک بکری ذبح فرماکر دعوت کا اہتمام بھی فرمایا۔ اس موقع پر بعض لوگ ایسے بھی تھے جو دعوت ولیمہ کھانے کے بعد حضور کے کاشانہ اقدس پر گفتگو اور مزاح کی غرض سےمزید کچھ وقت کےلیے رک گئے ۔ یہ لوگ دعوت ولیمہ کھا کر فارغ ہوچکے تھے اس لیے اب ان کے پاس آپ کے کاشانہ اقدس پر مزید رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ آپ ان مہمانوں کے جانے کے انتظار میں گھر سے دوبار اس امید پر باہر تشریف لائےکہ یہ لوگ آپ کے باہر تشریف لے جانے کو پیغام سمجھ کر وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجائیں گے۔ اس کے باجود جب یہ لوگ وہاں سے روانہ نہ ہوئے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کےلیے ان آیات کا نزول فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا 53 19
اے ایمان والو! نبیِ کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہوجایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقیناً تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکرم) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ سوال کیا کرو، یہ (ادب) تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لئے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد کبھی بھی ان کی اَزواجِ (مطہرات) سے نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہے۔
اس آیت مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اور عام مسلمان خواتین کو حجاب کا حکم دیا گیا تاکہ ان کی عزت،عفت اور عصمت کی حفاظت کی جاسکے ۔
آپ کےحضرت زینب سےنکاح فرمانے کے بعد غیر مسلمین اور منافقوں نے آپ پر اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے کا بھونڈا الزام لگانے کی کوشش کی 20لیکن ان کا یہ الزام اس لیے بے بنیاد ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اس پورے واقعہ کی وضاحت میں قرآن حکیم کی ان دو آیات کا نزول فرما یا:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 40 21
محمد تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے
اور فرمایا:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا 5 22
تم اُن (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہوگا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
حضرت زینب انتہائی سخی اورفیاض خاتون ہونے کے ساتھ نہایت بلند کردار کی خاتون تھیں۔ 23حضرت عائشہ کےساتھ بعض معاملات پر معمولی اختلافات کے علاوہ آپ نے ہمیشہ حضرت عائشہ کی حمایت و مدافعت فرمائی بالخصوص واقعہ افک میں وہ حضرت عائشہ کی عفت و عظمت کی خاطر خود اپنی سگی بہن کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔24 حضرت عائشہ نے بھی آپ کی اس قدردانی اور عزت افزائی کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے آپ کی تعریف ان الفاظ میں کی:
ولم أر امرأة قط خيرا في الدين من زينب، وأتقى لله وأصدق حديثا وأوصل للرحم وأعظم صدقة، وأشد ابتذالا لنفسها في العمل الذي تصدق به وتقرب به إلى اللّٰه تعالى، ما عدا سورة من حدة كانت فيها تسرع منها الفيئة 25
میں نے کوئی ایسی عورت نہیں دیکھی جو دین میں زینب سے بہتر ہو، زیادہ پرہیزگار ہو، بات میں زیادہ سچی ہو، خاندانی رشتوں سے زیادہ جڑی ہو، خیرات میں زیادہ سخی ہو، اور صدقہ و خیرات میں زیادہ اپنے آپ کو وقف کرنے والی ہو۔
حضرت زینب مختلف پیشوں میں بھی مہارت رکھتی تھیں مثلا چمڑے کی دباغت، موتی پرونا اور سامان تجارت کو نفع پر فروخت کر کے اس کی منفعت کو غرباء میں تقیسم کرنا وغیرہ ۔ 26 ان کی دریا دلی اور سخاوت کے بارے میں مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب آپ کو 12000 درہم بطور سالانہ وظیفہ کے خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق کی طرف سے پیش کیےگئے تو آپ نے اتنی بڑی رقم فوری طور پر تمام ضرورت مند لوگوں میں تقسیم فرمادی پھر اللہ تعالی سے دعا کی کہ آئندہ برس یہ وظیفہ لینے کےلیے وہ بقید حیات نہ رہیں تاکہ وہ اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں ۔27 حضرت عائشہ نے حضرت زینب کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ آپ ہمیشہ ان کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور حضور کی تمام ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی سوائے ان کے حضرت عائشہ کا ہمسر نہ تھا اور نہ ہی کسی کوان کے علاوہ اس قدر، قدر ومنزلت حاصل تھی ۔28
حضر ت زینب نے اللہ تعالی سے جو دعا مانگی تھی اللہ تعالی نے اسے قبول فرما لیا اور آئندہ برس کے سرکاری نان ونفقہ کےحصولی سے قبل ہی آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔ حضور کے دنیا سے پردہ فرمالینے کےبعد تمام امہات المومنین میں آپ ہی حضور کی پہلی زوجہ محترمہ ہیں جن کا وصال ہوا۔ 29آپ کے انتقال سے متعلق امام مسلم نے حضور کی درج ذیل حدیث کو نقل فرمایا ہے:
أسرعكن لحاقا بي أطولكن يدا. قالت: فكن يتطاولن أيتهن أطول يدا. قالت: فكانت أطولنا يدا زينب؛ لأنها كانت تعمل بيدها وتصدق 30
تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی میری وہ اہلیہ ہوگی جو تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔ (حضرت عائشہ ) فرماتی ہیں : ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ (پھر) فرماتی ہیں: زینب ہم میں سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ ا پنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں۔
آپ کا انتقال 20 ہجری میں حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں ہوا ۔آپ کی نماز جنازہ حضرت عمر فاروق نے پڑھائی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی ۔31 انتقال کے وقت آپ کی عمر 53برس تھی۔ 32