وحی انبیاء و رُسل کا ایک ایسا شخصی مشاہدہ رہا ہے جس کی نوعیت انتہائی غیر معمولی ہوا کرتی تھی۔ اس غیر معمولی تجربے کو صحیح طور پرالفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ عام انسانی مشاہدات و تجربات اور کیفیات سے بالکل منفرد ہوا کرتا تھا۔ وحی کے نزول کے وقت کی کیفیت واضح طور پر یہ بتاتی تھیں کہ اس کلام کا وزن باقاعدہ محسوس کیا جاتا تھا۔ یہ ایک عام انسان کے بس کی بات ہی نہیں تھی کہ اُس بوجھ کو برداشت کرپاتا۔ نزول وحی کے اس بوجھ کو صرف وہ خاص اشخاص سنبھال سکتےتھے جن کو انبیاء کے لقب سے جانا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا انتخاب خود رب تعالی نے فرمایا تھا اور اس ہی نے ان کو یہ بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت اور وصف عطا فرمایا تھا۔ جب نبی کریم پر وحی الہٰی نازل ہوتی تھی تو اس کے اثرات کا مشاہدہ آپ کے صحابہ کرام و ازواج مطہرات براہ راست فرمایا کرتے تھے۔ انبیاء کرام پر نزول وحی کی مختلف صورتیں تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
انبیاء کرام کو تشریعی وحی سے پہلے خواب کے ذریعے خدائی پیغامات دیئے جاتے تھے۔ اس طریقہ کار کے اختیار کرنے سے فائدہ یہ ہوتا تھا کہ انبیاء کرام براہِ راست اللہ تعالیٰ کے پیغامات کو قبول کرنے کے لئے ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار ہوجاتے تھے اور انہیں وحی کے وصول کرنے میں کسی قسم کا شک اور وہم نہ رہتا تھا۔ اسی لئے انبیاء کرام کے خواب کو سچا خواب بھی کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کے خواب کا ذکر ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کررہے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
...قَالَ يَابُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ ... 102 1
۔۔۔ (ابراہیم نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔۔۔
اسی طرح حضرت عائشہ انبیاء کرام کو وحی سے پہلے اللہ کی طرف سے اشارات ملنے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
أول ما بُدِئَ به رسول اللّٰه -صلى اللّٰه عليه وسلم- من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم, فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح. 2
رسول اللہ کی طرف وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچے خواب آنے سے ہوا، حضور جو خواب بھی دیکھتے اس کی تعبیر صبح کے روشن ہونے کی طرح سامنے آجاتی تھی۔
أرأيتك الذي كنت أحدثك أني رأيته في المنام فإنه جبريل عليه السلام استعلن لي. 3
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس کے بارے میں میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں نے اسے خواب میں دیکھا؟ وہ جبریل ہیں جو میرے سامنے ظاہر ہوئے تھے۔
اسی طرح مدینہ طیبہ کے ایک منافق نے جب آپ پر جادو کرنے کی کوشش کی تو اس وقت آپ کو من جانب اللہ بذریعہ خواب اس کی اطلاع دے کر اس کو بے اثر کرنے کا طریقہ خواب میں ہی تعلیم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر واقعات بھی ہیں جن میں رب تعالیٰ نے خود اپنے پیغمبر سے خواب میں کلام فرمایا تھا۔ اس میں منامی یعنی نیند کی حالت میں معراج بھی شامل ہے۔ علامہ سہیلی منامی معراج کے حوالہ سے فرماتے ہیں:
ورأيت المهلب في شرح البخاري قد حكى هذا القول عن طائفة من العلماء وأنهم قالوا: كان الإسراء مرتين مرة في نومه ومرة في يقظته ببدنه صلى اللّٰه عليه وسلم. 4
مہلب نے شرح بخاری میں اہلِ علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیا ہے کہ آپ کو معراج دو مرتبہ ہوئی، ایک مرتبہ خواب میں، دوسری مرتبہ بیداری میں جسمِ اقدس کے ساتھ۔
اس دوران حضور کو رب تعالیٰ سے بالواسطہ روحانی طور پر ملاقات اور ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔
وحی کی جملہ کیفیات میں سے ایک صورت یہ تھی کہ نبی کو وحی کی آواز گھنٹی کی طرح بلا تعطل محسوس ہوا کرتی تھی جس کے لئے حدیث میں صلصلۃ الجرس کے الفاظ آئے ہیں۔ 5 وحی کے حصول کی یہ سب سے زیادہ سخت حالت ہوا کرتی تھی۔ اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی آپ کو ایسی وحی کے حصول کے دوران پسینہ آجایا کرتا تھا۔ 6
بسا اوقات آپ کے چہرہ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناہٹ محسوس ہوتی تھی۔ حضرت عمرفاروق وحی کے نزول کی اس کیفیت کے متعلق فرماتے ہیں:
...إذا أنزل عليه الوحي سمع عند وجهه دوي كدوي النحل... 7
نبی اکرم پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کے روئے انور کے قریب سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی۔
وحی کی اس کیفیت کو صحابہ کرام شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ سے تشبیہ دیا کرتے تھے کیونکہ انہیں وحی کے نزول کی اس کیفیت میں ہلکی ہلکی آواز سنائی دیا کرتی تھی۔ 8
یہ وحی کی وہ صورت تھی جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے دل میں کوئی بات القاء کردیتا تھا جو کہ حقیقت کی نشاندہی کرتی تھی۔ نبی کریم کو بھی کئی مواقع پر الہام کے ذریعے ہدایت دی گئی۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ 6 9
اور بیشک آپ کو (یہ) قرآن بڑے حکمت والے، علم والے (رب) کی طرف سے القاء کیا جارہا ہے۔
حضور اس کیفیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
إن روح القدس نفث في روعي. 10
روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی ہے۔
آپ تک پیغام پہنچانے کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ تھی کہ آپ کے پاس وحی بذریعہ فرشتہ کے آتی تھی۔ فرشتے ایسی مخلوق ہیں جن کی پیدائش انس و جن سے علیحدہ طریقہ پر ہوئی ہے۔ ان کے دو، چار یا اس سے زائد پر ہوتےہیں11 اور انہیں نورانی مخلوق کہا جاتا ہے۔ 12 یہ انسانِ اوّل کے خمیر کو گوندھے جانے سے پہلے بھی موجود تھے اور حمد وثناء میں مشغول رہتے تھے۔ 13 ان میں مرد و عورت اور مذکر و مونث کی تقسیم نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید نے انہیں نہ ہی مونث بیان کیا ہے اور نہ ہی مذکر۔ البتہ قرآن مجید نے ان کے بارے میں یہ خبر ضرور دی ہے کہ وہ انسانی شکلوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں جیسا کہ حضرت مریم کے لیے حضرت جبریل مکمل انسانی صورت میں متمثل ہوئے 14 یا حضرت ابراہیم کے سامنے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے تاکہ انہیں بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنائیں اور رسول مکرم کے سامنے بھی بشری صورت میں ظاہر ہوئے۔15 قرآن نے انہیں "عباد الرحمان" کے نام سے موسوم کیا ہے جس کا واضح ترین مطلب یہ ہے کہ وہ فقط حکم الہی کے پابند ہیں اور اس سے سرِمو انحراف نہیں کرتے۔ 16 فرشتوں کے ذمہ مختلف فرائض ہیں جن میں سےایک اہم کام انبیائے کرام کے پاس اللہ کا پیغام یعنی وحی لانا تھا۔17 فرشتوں کی تعداد شمار سے باہر ہے جس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ 18 تمام فرشتوں میں چار فرشتے مقرب تر ہیں جو سب ملآئکہ پر فضیلت رکھتے ہیں ان میں حضرت جبرائیل، میکائیل، عزرائیل اور اسرافیل شامل ہیں۔ 19
آپ اور دیگر انبیاء پر سب سے ذیادہ وحی حضرت جبرائیل کے توسط سے نازل کی گئی۔ اعلان نبوت کے بعد خود حضور نےجبرائیل سے ان کی مختلف شکلوں و صورتوں ملاقات اور گفتگو فرمائی اور آپ کی ازواج مطہرات اور بعض صحابہ کرام نے بھی حضرت جبرائیل کو حضور کے پاس آتے ہوئے، گفتگو اور سوال و جواب کرتے ہوئے دیکھا۔ حضرت جبرائیل کو جن جن مقامات پر جن جن صحابہ کرام نے اپنی آنکھوں سے انسانی شکل و صورت میں دیکھا تھا ان صحابہ کرام کا نام اور وہ مقامات بھی اسلامی تاریخ میں محفوظ رکھے گئے ہیں۔ قرآن پاک اس طریقہءِ نزول وحی کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ 51 20
ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر حکمت والا ہے ۔
یہ سوال کہ آخر نبی کو اس بات کا یقین کیسے ہوتا تھا کہ اس کے پاس وحی لانے والی مخلوق فرشتہ ہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتہ نبی کے سامنے اپنے فرشتہ ہونے اور حامل وحی الٰہی ہونے پر معجزہ پیش کرتا ہے اور اللہ تعالی نبی کو ایسی صفت عطاء فرماتا ہے جس سے وہ جن، فرشتہ اور شیطان کو الگ الگ پہچان لیتا ہے جیسے ہم انسانوں، جانوروں، نباتات اور جمادات کو الگ الگ پہنچاتےہیں کیونکہ ہماری رسائی عالم ظاہر تک ہے جبکہ نبی کی پہنچ ظاہری اور غیر ظاہری دونوں دنیاؤں میں ہے۔ 21 اس بات کو اگر کوئی آسان کرکے سمجھنا چاہے تو وہ ایسے ہے کہ جس طرح مختلف اقسام کی خوشبو میں کئی خوشبویں اپنی بو کے لحاظ سے بظاہر یکساں لگتی ہیں لیکن جن لوگوں کو خوشبو کی پہچان ہے وہ تمام خوشبوؤوں کو ان کی بو کے لحاظ سے فرق کرکے بآسانی علیحدہ علیحدہ جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اسی طرح حضور تمام دوسری مستور مخلوقات بالخصوص فرشتہ وحی کو علیحدہ علیحدہ ان کی زبان و پیغام، لب ولہجہ اور طور و اطوار سے بآسانی پہچان لیا کرتے تھے۔
حضرت جبرائیل حضور کے پاس کثرت سے مختلف صورتوں میں تشریف لایا کرتے تھے چنانچہ حضور اگراس دوران اپنے گھر میں تشریف فرما ہوتے تو ازواج مطہرات کو زیارت کی سعادت حاصل ہوجایا کرتی تھی اور اگر آپ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ سفر و حضر میں ہوتے تو انہیں جبرائیل کی زیارت کی سعادت حاصل ہوجایا کرتی تھی، مثلاً:
وحی الٰہی کے نزول کے دیگر طرائق میں سے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء سے بحالت بیداری براہِ راست بغیر کسی حجاب اور رُکاوٹ کے بھی کلام فرمایا کرتا تھا۔ آپ کی سیرتِ طیّبہ میں اس کی نظیرٗ واقعہ معراج کی صورت میں ملتی ہے، جس میں اللہ تعالی نے آپ سے بلا حجاب اور بے نقاب براہِ راست کلام فرمایا۔ بیان المعانی میں اس حوالہ سے منقول ہے :
أن يكلمه الله يقظة كما كان في ليلة الإسراء 22
(وحی الٰہی کا ایک طریقہ یہ تھا کہ) اللہ تعالیٰ حالتِ بیداری میں کلام فرمائے جیسا کہ معراج کی رات کلام فرمایا۔
نزول وحی کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ خود رب تعالیٰ اپنے کسی پیغمبر سے پردے یا حجاب کے پیچھے سے کلام فرمائے جیسا کہ کوہِ طور پر رب تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے ہم کلامی فرمائی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
...وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا 164 23
اور ﷲ نے موسٰی (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔
اس حوالہ سے مناع بن خلیل فرماتے ہیں:
ومنه الكلام الإلهي من وراء حجاب بدون واسطة يقظة، وهو ثابت لموسى عليه السلام. 24
اور اسی میں سے کلام الہی(من وراء حجاب ) پردے کے پیچھے سے بغیر کسی واسطے کے جاگتے ہوئے ہونا ہے، اور یہ موسیٰ کے لیے بھی ثابت ہے۔
جس طرح درج بالاسطور میں اس حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ نزول وحی کی مختلف صورتیں تھیں اسی طرح جب آپ پر وحی اترتی تو آپ پر اس وقت مختلف کیفیات و اثرات کا ورود ہوتا تھا جن کو محدثین نے درج ذیل اقسام میں بیان کیا ہے:
نزول اور وصول وحی کی ایک کیفیت یہ تھی کہ وقت نزول وحی آپ کا جسم مبارک انتہائی بھاری ہوجایا کرتا تھا۔ حضرت زید بن ثابت جو کتابت وحی میں بہت نمایاں مقام رکھتے تھے ایک مرتبہ ایک محفل میں وہ آپ کے برابر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کا گھٹنہ ان کے گھٹنے کے اوپر تھا۔ اس موقع پر آپ کے اوپر اچانک نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اُحد پہاڑ جیسا بوجھ لاکر میرے گھٹنے پر رکھ دیا ہے اور اس وزن سے میرا گھٹنہ چورا چورا ہوجائے گا۔ تاہم یہ کیفیت صرف چند لمحے جاری رہی، اور جوں ہی حضور پر یہ کیفیت ختم ہوئی تو ان کے گھٹنے پر سے یہ ناقابل برداشت بوجھ بھی ختم ہوگیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ جب آپ پر وحی کا نزول اس حالت میں ہوتا کہ آپ اپنی سواری پر سوار ہوتے تو وہ اپنی گردن زمین پر رکھ دیتی۔ اس سواری میں اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی تھی کہ وہ حرکت کرسکے حتیٰ کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ختم ہوجاتا۔ آپ عموماً اونٹنی پر سفر کرتے۔ جب آپ اونٹنی پر فتح مکہ کی مہم کے لئے روانہ ہوئے تو شہر میں داخل ہونے سے قبل آپ کا قافلہ رُک گیا اور آپ کی اونٹنی جس پر آپ سوار تھے، اچانک رُک کر کھڑی ہوگئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس کی ٹانگیں وزن کے دباؤ کی وجہ سے اس طرح لرز رہی تھیں جیسے اس کے اوپر کوئی بہت بڑا بوجھ لاد دیا گیا ہو چنانچہ وہ اس بوجھ کو برداشت نہیں کرسکی اور فوراً ہی بیٹھ گئی۔ اس روایت کو حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں:
أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم كان إذا أوحي إليه وهو على ناقته وضعت جرانها فما تستطيع أن تتحرك حتى يسرى عنه " وعن أسماء بنت يزيد قالت: نزلت سورة المائدة وأنا آخذ بزمام ناقة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم العضباء. فكادت من ثقلها أن تندق عضد الناقة... 25
نبی کریم پراونٹنی کی سواری کے دوران وحی نازل ہوتی تو (وحی کے بوجھ کی وجہ سے) اونٹنی اپنی گردن کو بالکل جھکا کر (زمین پر رکھ) دیتی اور ذرا بھی حرکت نہ کرپاتی یہاں تک کہ آپ پرآسانی آتی (یعنی وحی کا سلسلہ منقطع ہوجاتا)۔ سیدہ اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ میں نبی کریم کی اونٹنی "العضباء" کی لگام تھامے ہوئی تھی جب سورۃ المائدہ آپ پر نازل ہوئی، میں نے دیکھا کہ وحی کے ثقل کی وجہ سے اونٹنی کے بازو ٹوٹنے کو ہوگئے۔
وحی کے نزول کی سختی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب سردیوں میں وحی نازل ہوتی تو نبی کریم کا چہرہ پسینہ سے شرابور ہوجایا کرتا تھا۔ اس حوالہ سے آپ کی رفیقہء حیات حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
ولقد رأيته ينزل عليه الوحي في اليوم الشديد البرد، فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا. 26
میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں نبی کریم کو دیکھا ہے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔
حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ جب حضور پر نزول وحی ہوتی تو آپ کے چہرہ انور اور جسم کی رنگت متغیر ہوجاتی۔ آپ اپنے صحابہ کرام میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی گفتگو نہ فرماتے۔ نبی کریم کے جسم مبارک پر وزن اور خشیت کی کیفیت کا اندازہ آپ کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے پہلی وحی کے نزول کے بعد ارشاد فرمائے تھے کہ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي27 یعنی مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ آپ کے اس بیان سے آپ کی جسمانی اور باطنی کیفیات کا بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ نزول وحی کے بعد آپ کی کیفیات اور احساسات میں کسی قدر تبدیلی ہوجاتی تھی۔
حضور پر وحی کے نازل ہونے یا رُک جانے کا سارا دارومدار اللہ تعالی کی منشاء و مرضی پر تھا۔ چنانچہ جب اللہ تعالی نے چاہا تو وحی کا نزول ہوتا رہا اور جب چاہا اور جتنے عرصے کے لیے چاہا تواُس نے وحی کا نزول منقطع فرمادیا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک مرتبہ جبرائیل کی آمد میں تاخیر پر اُن سے آپ نے پوچھا :
ما يمنعك أن تزورنا أكثر مما تزورنا؟ 28
اے جبریل ! پہلے آپ ہمارے پاس کثرت سے تشریف لاتے تھے اب کیا مانع ہے کہ تشریف نہیں لاتے۔
جس کے جواب میں حضرت جبرائیل نے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا:
وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا 64 29
اور (جبرائیل میرے حبیب سے کہو کہ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر (زمین پر) نہیں اتر سکتے، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے (سب) اسی کا ہے، اور آپ کا رب (آپ کو) کبھی بھی بھولنے والا نہیں ہے۔
اسی طرح ایک بار جبرائیل نے آپ کی خدمت میں آنے میں دیر لگادی۔ جب جبرائیل کچھ عرصہ کے بعد حاضرہوئے تو آپ نے فرمایا: اے جبریل آپ کی آمد کا انتظار اور شوق مجھے بے چین کیے ہوئے تھا۔ اس کے جواب میں جبرائیل نے فرمایا: یارسول اللہ آپ کے انتظار اور شوقِ ملاقات سے زیادہ خود مجھے اس بات کا اشتیاق تھا کہ آپ سے شرف ملاقات حاصل کرسکوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند ہوں، آپ کے پاس تب ہی حاضر ہوسکتا ہوں جب مجھے وہاں سے اذن ِحاضری ہو، ورنہ نہیں۔ 30
وحی کے نزول کے حوالہ سے یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ جب آپ پر کثرت کے ساتھ وحی نازل ہونے لگتی تو آپ بیمار پڑجاتے اور بسا اوقات شدید ضرورت کے وقت اللہ تعالی کسی مصلحت اور حکمت کے تحت وحی کو مؤخر فرمادیا کرتا تھا۔ وحی الٰہی ہمہ وقت آپ کے قلب انور پر نازل ہوا کرتی تھی اسی لیے کبھی آپ اپنے حجرہ مبارک میں بستر پر تشریف فرما ہوتے تو وحی نازل ہوجاتی، کبھی صحابہ کرام کے درمیان موجود ہوتے تو وحی کا نزول ہوجاتا۔ کبھی سفر میں سوار ہوتے یا سواری کے بغیر تشریف لے جارہے ہوتے تو وحی نازل ہوجاتی۔ کبھی رات کی تاریکی میں اور دن کے اجالے میں وحی کا نزول ہوتا، کبھی میدان جنگ میں ہوتے اور کبھی معاہداتِ امن میں ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ پر وحی نازل فرمادیتا۔ الغرض وحی کے نزول کا کوئی وقت متعین نہیں تھا جب اور جہاں اس کی ضرورت پڑتی یا آپ کی طرف سے رب تعالی کے حضور کسی امر خاص میں رہنمائی درکار ہوتی تو اللہ تعالی اپنے فضل و کرم کا اظہار وحی کے ذریعہ فرما دیا کرتے تھے ۔
حضور جب کبھی بیداری کی حالت میں اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف فرما ہوتے تو وحی الہٰی کے نزول سے قبل اس بات کا بھرپور اہتمام فرماتے کہ جس جگہ آپ سریر آرائے مسند ہوتے اُس جگہ کو فرشتے کی آمد کے لئے درست فرمادیتے۔ ایک بار حضرت ام سلمہ سے فرمایا: ہمارے بیٹھنے کی جگہ دُرست کردو آج وہ فرشتہ ہمارے پاس آرہا ہے جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آیا۔
اللہ تعالی ٰنے جب بھی وحی کو نازل فرمایا تو اس میں وحی کی مخاطب قوم کی زبان کی رعایت رکھی تاکہ وہ قوم اللہ تعالی کے پیغام کو بآسانی سمجھ کر اس کے قبول اور عدم قبول کا فیصلہ کریں۔ اس لیے ہمیشہ اللہ تعالی نے جس قوم میں رسول کو مبعوث فرمایا ہے وحی بھی اسی قوم کی زبان میں نازل کی۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں وحی مختلف زبانوں میں اترتی رہی ہے، مثلاً، اس کا نزول کبھی عبرانی میں ہوا اور کبھی سریانی زبان میں، کبھی آرامی میں ہوا جبکہ آخری وحی عربی زبان میں نبی کریم پر نازل ہوئی۔
حضور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری اور ابدی وحی عربی زبان میں نازل فرمائی ہے کیونکہ آپ کے اوّل مخاطبین کی زبان عربی تھی جو چھ سو دس عیسوی (610ء) میں اسلام کے ظہور سے پہلے جزیرہ نما عرب میں نہ صرف اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے ساتھ موجود تھی بلکہ اپنے ارتقاء اور کمال کی ساری منزلیں بھی طے کرچکی تھی۔ اس زبان کا انتخاب اس وجہ سے بھی کیا گیا کہ یہ زبان بلند خیالات کو ادا کرنے اور اللہ کے علوم و معارف کی نہایت نازک اور باریک باتیں ادا کرنے اور دلوں میں اثر پیدا کرنے کے لئے نہایت موزوں تھی۔ اس کے مختصر جملوں میں سہولت کے ساتھ بڑے بڑے مضامین ادا ہو جاتےہیں۔
وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے پیغمبروں کو ہدایت اور رہنمائی فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ خواب، فرشتے کے ذریعے، براہِ راست کلام، دل میں الہام، حجاب کے پیچھے سے کلام اور طبعی علامات کے ذریعے وحی کی ہر صورت اپنے اندر اللہ کی قدرت، حکمت اور علم کی گہرائیوں کو سمیٹے ہوئے ہے جن کا علم ہمیں اللہ کی حکمت عملی اور پیغمبروں کی عظمت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔