Encyclopedia of Muhammad

وحی کی ضرورت و اہمیت

حصول علم کے معروف ذرائع حواسِ خمسہ اور عقل ہیں۔ حواس خمسہ اورعقل اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کے ذریعہ انسان کو دنیاوی زندگی کے بہت سارے معاملات کو سمجھنے اور جاننے میں بھرپور مدد ملتی ہے۔ زندگی کے زیادہ تر معاملات اور مشکلات کو حل کرنے میں انسان انہی دو فطری صلاحیتوں کا محتاج رہتا ہے۔ جس طرح انسانی علم و شعور میں ترقی ہوتی جاتی ہے اسی طرح اُس کی سوچ و فکر کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت وہ آتا ہے جب فرد محسوس کرتا ہے کہ حواسِ خمسہ اور انسانی عقل اپنی محدودیت کی وجہ سے اُس کی زندگی کے بعض اہم سوالات کے جوابات اور زندگی کے اہم مسائل کا حل فراہم کرنے سے قاصر ہوگئی ہے۔ ان میں سر فہرست درج ذیل سوالات ہوتے ہیں:

  1. اس کو کس نےاور کیوں بنایا؟
  2. اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
  3. کائنات کیا ہے اورکیوں ہے؟
  4. کب سے ہے اور کب تک رہے گی؟
  5. اس کا اصل دشمن کون ہے؟
  6. انسان کو موت کیوں آتی ہے؟
  7. موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔

ان سوالات کے جوابات کو جاننے کے لئے دورِ جدید کا انسان سائنس کی طرف رجوع کرتا ہے کیونکہ سائنس ہی وہ معروف ذریعہ ہے جو عام طور پر نفسِ انسانی اور کائنات کےعمومی سر بستہ رازوں کوپردہ ٔاخفاء سے منصّہ شہود پر لاتی ہے۔ بے شک سائنس انسان اور کائنات کے بارے میں کئی اہم سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن:

اوّلاً: سائنس کے سارے جوابات انسانی ظن اور تخمین پر مشتمل ہوتے ہیں یعنی ان کی بنیاد یقین پر نہیں ہوتی۔

ثانیاً: سائنس کے جوابات مادّی اور محسوس اشیاء کے دائرے سے باہر نہیں جاتے۔

ثالثاً: سائنس کیوں کا جواب کبھی نہیں دیتی۔

رابعاً: سائنس کا دعویٰ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ نتائج کا حصول تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر کرتی ہے۔

خامساً: سائنس انسان اور کائنات کے مقصدِ تخلیق سے بالکل تعرض نہیں کرتی۔

سائنس کی جانب سے انسانی زندگی کے ان اہم ترین اُمور اور سوالات کے بارے میں مایوس کن خاموشی یا پھر ان سوالات کی بنیاد یعنی خدا و مذہب کا جارحانہ رد عقل و خرد کے حامل انسان کو اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ وہ مذاہبِ عالم اور اُن کی تعلیمات کی طرف مراجعت کرے کیونکہ مذاہب و اَدیان کا موضوع ہی انسان، انسانی حیات و ممات، تقدیرِ انسانی، انسانی فناء و بقاء کے اُصول، کائنات کا مقصدِ تخلیق سمیت وہ سینکڑوں اہم موضوعات ہیں جن کے بارے میں جدید و قدیم انسانی علوم و دانش بشول سائنس مہر بَلَب ہیں۔

غیر سماوی مذاہب خود انسانی غور وفکر یا مرورِ زمانہ کا نتیجہ ہوتے ہیں چنانچہ مذکورہ سوالات کے بارے میں ان کے دیے گئے جوابات عموماً غیر تسلی بخش ہوتے ہیں۔ انسانی عقل و شعور خود محدود ہیں، لہذا ان مذاہب سے تسلی بخش اور حقیقت پر مبنی جوابات ملنا عملا ممکن بھی نہیں ہے۔ غیر سماوی مذاہب کی طرف رجوع کرنے اور ناکام ہونے کے بعد انسان کے پاس صرف سماوی مذاہب کی طرف رُجوع کرنے کا موقع باقی بچتا ہے کیونکہ سماوی مذاہب کی اساس و بنیاد انسانی غور و فکر کے بجائے وحی الٰہی ہوا کرتی ہےجوانبیاء ورسل کو ہی دی جاتی ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی سمیت اُس کے احکامات براہِ راست وصول کرکے بنی نوع انسان تک پہنچادیں۔ سماوی مذاہب میں یہودیت اور عیسائیت کیونکہ اب اپنی اصل تعلیمات کے ساتھ باقی نہیں رہے اور ان میں انسانی سوچ و فکر کی باکثرت آمیزش ہوچکی ہے اس لئے اب اسلام ہی وہ واحد سماوی مذہب ہے جو اصلی ہیئت اور حالت میں اپنی تمام تعلیمات کے ساتھ محفوظ شکل و صورت میں موجود ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ ایسے اہم اور ادق سوالات کے لئے اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو ہی مشعل راہ بنایا جائے۔

وحی کی افادیت

حواس ِخمسہ کی طرح عقلِ انسانی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کے ذریعہ انسان نے غورو فکر اور تعقّل وتدبر کو اپنا کر علوم و معلومات کی دنیا میں بے مثال ترقی کی ہے۔ ترقی کی یہ نوعیت مادّی اور طبیعیّاتی جہانوں کی دریافت اور ضرورت و تعیّش کی لاکھوں اشیاء کی ایجادات کی صورت میں ہے۔ آج ہمارے سامنے ایجادات نے مادّی ،علمی اور طبیعیّاتی اُمور میں انسانی ترقی کے لئے ناقابلِ یقین دروازے کھول دئیے ہیں لیکن اس بے مثال ترقی کا براہِ راست کوئی واسطہ انسان کی شخصیت کی تعمیر و ترقی، اخلاق و کردار کی بلندی اوراُخروی و ابدی فوز و فلاح سے نہیں ہے کیونکہ انسان کی حقیقی کامیابی و ناکامی کے اُصول جاننے کے لیے حواس اورعقلِ انسانی کافی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی عقل جملہ علوم و معلومات کا حصول، تجربات اور مشاہدات کے ذریعہ کرتی ہے جبکہ دنیا و آخرت میں خوش بختی اور بدبختی جسے ہم کامیابی و ناکامی کا نام دیتے ہیں اس کا کوئی تعلق تجربہ اور مشاہدہ سے نہیں ہے کیونکہ انسان محسوسات، تجربات اور مشاہدات سے جو بھی علم حاصل کرتا ہے اس کا تعلق دنیا اور دنیا کی ترقی سے ضرور ہے لیکن اس کے دائرہ میں اُخروی زندگی کے فوز و فلاح کا تصور شامل نہیں ہوتا۔ انسان دنیاوی و اُخروی کامیابی یا ناکامی کا تصور ہمیشہ عقائد و اخلاق اور عبادات و اعمال کے ذریعہ اخذ کرتا رہا ہے اور ان جملہ اُمور کا تعلق عقلِ انسانی سے ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ وہ دائرہ ہے جس میں عقلِ انسانی خود سرتسلیم ِخم کردیتی ہے کیونکہ یہ سارے امورمذہبی لحاظ سے اُمور مغیبات کے دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ عقل ذریعہ علم ہونے کے باوجود مغیبات کے لیے قطعی اور یقینی ذریعہ علم نہیں ہے۔ انسانی عقل کے فیصلوں میں وہم، شک و شبہ اور دھوکہ شامل ہوکر عقل کے فیصلوں کوکبھی بھی غلط ثابت کر ڈالتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی کی عقل، عقل ِصالح نہیں ہوتی ہے۔ زیادہ تر انسانوں کی عقل اپنے ظاہر و باطن کی آلودگی و پراگندگی اورسیرت و کردار کی پستی کی وجہ سے عقلِ فاسد ہوجاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ فاسد عقل صحیح کام کوغلط اور غلط کام کو صحیح بنا کر پیش کرتی ہے۔ اسی طرح عقل کے نام سے کیے جانے والے فیصلوں کی نوعیت عارضی، غیر حقیقی، وقتی، یا مفاداتی سوچ سے مغلوب ہوکر عموماً من چاہی ہوا کرتی ہے جسے ماننے کی وجہ سے ہی آج انسان نے اپنے اخلاق و کردار، حالات و معاملات اور خود اس دنیا کے امن و امان کو تباہ کر ڈالا ہے۔

نزول وحی کے نقلی و داخلی دلائل

سماوی مذاہب کے ماننے والے تمام افراد وحی الٰہی کے نہ صرف قائل ہیں، بلکہ شدّ و مد کے ساتھ اپنے اپنے مذاہب کی کتبِ مقدّسہ کو اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ الہام و کلام مانتے ہیں۔ لہذا نبی کریم پر وحی الٰہی کا آنا اہلِ مذاہب کی تاریخ میں کوئی انہونی بات یا خلاف واقعہ حقیقت ہرگز نہیں ہے۔ یہ اہل مذاہب خود تو نبوت و رسالت کے سلسلہ پر یقین رکھتے ہیں لیکن تمام رسولوں سے بڑھ کر اورعقل و نقل کے ہر معیار پر پورا اُترنے والی نبوت و رسالتِ محمدی کا انکار و تردید محض اپنی لاعلمی، کم علمی، ضِد و عناد، حسد و بغض، ہڈ دھرمی یا پھرتجاہل عارفانہ کے سبب کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنے انبیاء و رسل کے لئے وحی اور الہام کو بغیر کسی ظاہری و خارجی دلیل کے ماننے والے حضور پر نازل ہونے والی وحی کے بارے میں جب انکار و تردید اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو درحقیقت وہ نبوت و رسالت ِمحمدی کو ہی نہیں بلکہ ہر نبی پر اترنے والی وحی کو جھٹلاتے ہیں۔ اہل کتاب ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود اُن کا یہ غیر حقیقت پسندانہ اور سطحی طرزِعمل جس کی بنیاد حضور کی نبوت و رسالت کے ساتھ صدیوں کی عداوت اور دشمنی پر مبنی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملحدین (Atheist) خود ان کے مذہب، تصور نبوت و رسالت، کتبِ مقدسہ اور اورانبیائے سابقین پر اترنے والی وحی کا بے باکانہ رد کرتے ہیں۔ لہذا اہل مذاہب کو دینِ اسلام کے جملہ حقائق و دقائق اور معتقدات و عبادات کو حق و انصاف کی نگاہ سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اورعقل و نقل کی روشنی میں وحی محمدی کا سنجیدہ تجزیہ کرنا چاہئے تاکہ ان پر اسلامی تعلیمات اوراس کی حقیقت و حقانیت واضح اور منکشف ہوسکے۔

وحی الٰہی جو قرآن کریم کی شکل میں آج بھی ہر قسم کے تغیّر و تبدّل سے محفوظ ہے اس پر اعتراضات کا وارد ہونا کوئی نئی بات نہیں ہےبلکہ دور رسالت ماٰب سے ہی ان اعتراضات کی شروعات ہوچکی تھی۔ اسی لئے قرآن کریم میں جابجا ان اعتراضات کا مُسکت جواب خود اللہ تعالی کی طرف سے مختلف آیات و سُوَر میں دیا گیا ہے تاکہ وحی الٰہی کی حقانیت و صداقت کو جانچنا طالب حق کے لیے آسان ہوسکے۔اسی لئے وحی الٰہی کے مُنزل من اللہ ہونے کی حیثیت کو مختلف خارجی و داخلی شہادتوں اور دلائل سے جانچا جاسکتا ہے۔ اِس ضمن میں ہم سب سے پہلے خود قرآنی شہادتوں سے دلائل پیش کریں گے اور اس کے بعد خارج از قرآن دلائل سے اپنے مؤقف کے اثبات میں استشہاد کریں گے۔

وحی خداوندی کی حقانیت کے لئے قرآن کی داخلی شہادتیں

قرآن مجید میں کئی مقامات پر داخلی دلائل و قرائن موجود ہیں جو خود اس بات کی بھرپور تصدیق کرتے ہیں کہ یہ انسان کا خود ساختہ کلام نہیں بلکہ منزّل من اللہ کلام ہے۔ اس سلسلہ میں چند آیات پیش کی جارہی ہیں جو اس کلام کے منزل من اللہ ہونے کے لیے کسی انسانی عقل و شعور پر دستک دیتی ہیں:

  قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ... 1
  آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کررہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔
  وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ 192 نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ 193 عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ 194 بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ 195 2
  بیشک یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے اُتارا گیا۔ اسے روح الامین (جبرائیل ) لے کر اترے ہیں۔ آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔
  تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ 2 3
  اس کتاب کا نازل کیا جانا اللہ کی جانب سے ہے جو غالب حکمت والا ہے۔
  تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 2 4
  یہ کتاب نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والے (رب) کی جانب سے نازل شدہ ہے۔
  ...تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ 42 5
  (یہ کتاب ) بڑی حکمت والے، بڑی حمد والے (رب) کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔
  تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ 2 6
  اس کتاب کا اتارا جانا، اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔
  إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلًا 23 7
  بے شک ہم نے آپ پر قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا ہے۔
  إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ 9 8
  بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
  الر كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ 1 9
  الف، لام، را، یہ (عظیم) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی جانب لے آئیں۔
  إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ 2 10
  بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔
  أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ... 2 11
  کیا یہ بات لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مردِ (کامل) کی طرف وحی بھیجی کہ آپ (بھولے بھٹکے ہوئے) لوگوں کو (عذابِ الٰہی کا) ڈر سنائیں۔
  أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ 114 12
  (فرما دیجئے:) کیا میں ﷲ کے سوا کسی اور کو حاکم (و فیصل) تلاش کروں حالانکہ وہ (ﷲ) ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصّل (یعنی واضح لائحہ عمل پر مشتمل) کتاب نازل فرمائی ہے، اور وہ لوگ جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی تھی (دل سے) جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) آپ کے رب کی طرف سے (مبنی) برحق اتارا ہوا ہے پس آپ (ان اہلِ کتاب کی نسبت) شک کرنے والوں میں نہ ہوں (کہ یہ لوگ قرآن کا وحی ہونا جانتے ہیں یا نہیں)۔
  أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ ... 51 13
  کیا ان کے لئے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر (وہ) کتاب نازل فرمائی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے (یا ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی)۔
  إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ 77 فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ 78 لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ 79 تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ 80 أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ 81 14
  یہ عزت والا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ پروردگار عالم کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو ؟
  قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا 6 15
  فرما دیجئے: اِس (قرآن) کو اُس (اللہ) نے نازل فرمایا ہے جو آسمانوں اور زمین میں (موجود) تمام رازوں کو جانتا ہے، بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
  وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا 105 16
  اور حق کے ساتھ ہی ہم نے اس (قرآن) کو اتارا ہے اور حق ہی کے ساتھ وہ اترا ہے، اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔

مذکورہ بالا آیات، وحی الٰہی کے کلام اللہ ہونے کی داخلی شہادت و اثبات ہیں۔ اللہ تعالی نے جس طرح اپنی صفات و قدرت کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے کسی بھی انسان کے لیے جس کے سامنے اس سے پہلے اس طرح کا کوئی دوسرا کلام موجود نہ ہو، بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہ کلام حضور کا اپنا کلام ہوتا تو اپنے کلام کو اتنے زور دار طریقہ سے اللہ کا کلام بنا کر پیش کرنا ممکن ہی نہ تھا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت و حاجت تھی کیونکہ عربوں میں سب سے زیادہ عزت و اکرام خود بادشاہوں کی نگاہ میں بھی شعراء کو ہی حاصل تھا۔ لہذا خود اپنا کلام اور وہ بھی بے مثال کلام جو نہایت لطیف اور دقیق معارف وحقائق پر مشتمل ہو اسے اپنے سوا کسی دوسرے کی طرف منسوب کرنے کی خود حضور کو قطعاً کوئی حاجت نہ تھی۔ یہ کلام اگر خود حضور کا ہوتا اور وہ اس کے ذریعہ سے کسی دنیاوی مفاد کے طلبگار ہوتے تو اس میں اللہ وحدہ لاشریک کا اتنا پر جلال تعارف کروانے کے بجائے آپ عربوں کے کسی معروف معبود کا ذکر کے اس کلام کو اُس کی طرف منسوب کردیتے تاکہ تمام عرب اپنے معبودانِ باطلہ کی عظمت کے قائل ہوکر آپ کو بغیر کسی دشمنی و عداوت کے اپنے معبود کا مرسلِ برحق سمجھ کر اپنے سر آنکھوں پر بٹھا لیتے۔ اس کلام کے وحی الٰہی ہونے کی اِس سے بڑھ کر اور کیا واضح دلیل ہو سکتی ہے کہ حضور نے اس کلام کواُس خالقِ حقیقی کی طرف منسوب کیا جس کو خود عرب سِرے سے جانتے تھے اور نہ ہی مانتے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس رب کی طرف سے آنے والی دعوت ہی کی وجہ سے وہ آپ کے ساتھ دشمنی پر بھی اتر آئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے اس کلام (قرآن مجید) کو مافوق البشر اور غیر انسانی کلام قرار دیا تھا۔

نزول وحی کے عقلی و خارجی دلائل

(1)   خالق کی پہچان

انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی نہ کسی خالق یا خدا پر ایمان لائے۔ اسی وجہ سے انسان اپنے دنیاوی وجود کی ابتداء سے ہی ایک مافوق الفطرت ہستی پر ایمان رکھتا آیا ہے اس بات سے قطعِ نظر کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہوا ہے وہ حقیقی بھی ہے یا محض جھوٹی اور تخیلاتی ہے جنہیں ہم عُرف عام میں سچا خدا اور جھوٹا خدا کی تفریق سے پہچانتے ہیں۔ جولوگ فقط اپنے عقل و شعور اور حواس خمسہ کے ذریعے اس ما بعد الطبعیاتی مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے ذہن، علم اور حواس خمسہ کی محدودیت کی وجہ سے اکثر غلط نتائج برآمد کرتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے ”خالق و معبود“ کو اپنے ہی ہاتھ سے بنا ڈالتے ہیں اور خود ہی اس خدا کی صفات اپنے فہم و دانش کے مطابق وضع کرتے ہیں۔ اپنے خدا اور اس کی صفات کو وضع کرنے کے بعد یہ انسان اپنی مرضی کا ایسا نظام وضع کرتا ہے جس کے ذریعے اس کی اجارہ داری دوسرے انسانوں پر قائم رہے اور اس کے نفس کی حرص و ہوس پوری ہوتی رہے۔ پھر اپنی خواہشات کی تکمیل کو مذہب کی آڑ اور تحفظ دینے کے لئے اس نظام کو بھی اپنے جھوٹے خداؤں کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ نتیجۃً وہ خود گمراہ ہوتا ہےاور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔

اس لئے جب انسان کی عقل اور اس کے علم کے سارے میسر ذرائع اس اصلی خدا کی دریافت میں ناکام ہوجاتے ہیں تو صرف ایک ہی چیز ہے جو انسان کو اپنے اصل خدا کا تعارف کرواتی ہے اور وہ ہے وحی الہٰی۔ یہ خدا کی ذات، اس کی صفات، اس کے پیغام، مخلوق سے محبت، زندگی گذارنے کا طریقہ، زندگی کے تمام اہم امور اور سوالات کے جوابات دیتی ہے جیسا کہ اسلام کی صورت میں ہمارے پاس ایک مکمل اور مؤثر نظام اور نظریہ زندگی موجود ہے۔

(2)   اصل دشمن کی پہچان

عمومی طور پر انسان ہر اس شخص اور چیز کو اپنا دشمن گردانتا ہے جو اس کی خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی ہے یا اس کی زندگی کے نظریہ سے اختلاف کرتی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پہچانتا اور سمجھتا ہے جو اس کے حواسِ خمسہ کے ذریعہ اس کے ذہن میں منتقل ہوتی ہیں اور ظاہری طور پر یہ رکاوٹ انسان یا انسان کی بنائی ہوئی کوئی شے ہوتی ہے۔ لہذا ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے دشمن کے طور پر جاننا شروع کردیتا ہے حالانکہ یہ دونوں انسان ایک ہی آدم () کی اولاد میں سے ہیں۔ نتیجتاً انسان اصل دشمن کو چھوڑ کر آپس میں لڑتے ہیں، خون بہاتے، تباہی پھیلاتے اور اپنے اصل مقصد سے دور ہوجاتے ہیں۔

جب وہ اصل دشمن جو انسان کے حواس خمسہ میں نہ آئے اور عقل و شعور کے ذریعے بھی اس کا پتہ لگانا ممکن نہ ہو تو سوال یہ بنتا ہے کہ آخر نوع انسانی اس دشمن کا پتا کیسے لگا پائے گی؟ اس مسئلہ کو انسان کے خالق حقیقی یعنی اللہ تعالی نے انبیاء و رسل کے ذریعے وحی بھیج کر حل فرما دیا تاکہ انسان آپس میں الجھ کر اپنی دنیا و آخرت نہ برباد کردیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

  إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ 6 17
  بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی (اس کی مخالفت کی شکل میں) اسے دشمن ہی بنائے رکھو، وہ (شیطان) تو اپنے گروہ کو صرف اِس لئے بلاتا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہوجائیں۔
  وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ 62 18
  اور شیطان تمہیں ہرگز (اس راہ سے) روکنے نہ پائے، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اس کے علاوہ شیطان کے حربوں، اس کی چالوں اور اس سے بچنے کا طریقہ بھی قرآن کریم میں موجود ہے۔ الغرض بغیر اس الہامی صحیفہ کےنوع انسان کا تباہی سے بچنا یقیناً ناممکن ہے۔ اس نسخہ کو پڑھ کر انسان نہ صرف حقیقی دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کے قابل ہوسکتا ہے بلکہ آپس میں اتحاد اور امن کی فضا بھی قائم کرسکتا ہے۔

(3)   صحیح مذہب کی پہچان

انسانی تاریخ میں مختلف اقوام نے متعدد بار وحی الٰہی کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، مقام ِنبوت و رسالت، آخرت، قبر، حشر، حساب و کتاب ، جنت و دوزخ کے حوالے سے اپنے اپنے عقائد و ایمانیات وضع کرکے اس کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے کوئی قوم شرک کو صحیح سمجھتی ہے، کسی نے تثلیث کو اپنا ایمان بنا رکھا ہے، تو کوئی دوخداؤوں کو پوجتی ہے، کسی نے مخلوق کو خدا بنا رکھا ہے اور کوئی مظاہر فطرت کو کائنات کا خالق سمجھتی ہے اور کوئی سرے سے خدا کو نہ ماننے کو ہی اپنا ایمان جانتی ہے۔ کسی کے لیے انبیاء کرام میں بعض چھوٹے درجہ کے انبیاء و رسل (Minor Prophets) ہیں اور کسی کے لیے اُن میں ایسا گروہ ہے جنہیں وہ بڑے نبی اور رسول (Major Prophets) کے طور پرپکارتے ہیں۔ ایک گروہ ایسا ہے جو بعض انبیاء کرام کو مانتا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو بہت سارے انبیاء کا سرے سے ہی انکار کرتاہے۔ کسی نے انبیاء کرام کو خدا کا بیٹا سمجھ لیا ہے اور کوئی نبی ہی کو خدا مانتا ہے۔ کوئی جنت کو حقیقی سمجھتا ہے اور کوئی مجازی، کوئی اُخروی راحت و الم کو تناسخِ ارواح کا نام دیتا ہے اور کسی کے نزدیک آواگون کا نظریہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی طرح کسی کا طریقہ عبادت محض دھیان گیان ہے اور کسی نے جنگلوں اور صحراؤں میں پڑاؤ ڈال کر خود ساختہ طریقہ سے بعض حرکات کو عبادت سمجھ رکھا ہے، کوئی دنیا کو خیرِ کُل سمجھتا ہے اور کوئی اسے شرِّ کامل مانتا ہے۔ کوئی گائے کا گوشت کھانے سے منع کرتا ہے اور کوئی خنزیر خوری کو اچھا سمجھتا ہے۔

الغرض جتنا انسانی عقول میں اختلاف ہے اتنا ہی انسان کے خود بنائے ہوئےعقائد وتصورات بھی مختلف ہیں کیونکہ انسان جب بھی محض عقل کی بنیاد پر مغیبات اور ماوراء الطبیعیات (Meta Physics) کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوشش کرے گا وہ لامحالہ غلطی کا ارتکاب کرے گا اور یہ سب کچھ انسان آج تک کرتا رہا ہے کیونکہ آنکھیں اور بصارت ہونے کے باوجود، خارجی روشنی کے بغیر اندھیری جگہ میں قیمتی چیز کی تلاش بھی بے سود اور بے نتیجہ رہتی ہے۔ اسی طرح خارجی ہدایت کے بغیر انسانی عقل کے فیصلے بھی اندھیرے میں بلندی سے چھلانگ لگانے کے مترادف بن جاتے ہیں۔ یہ وحی الہٰی ہی ہے جو انسان کو نہ صرف صحیح مذہب کے بارے میں بتاتی ہے، بلکہ اس کے علمی، عقلی اور فکری دلائل مع امثال کے فراہم کرتی ہےاور گمراہی کے عمیق گڑھے میں گرنے سے بچاتی ہے۔

(4)   صحیح مقصد کی پہچان

دنیا کی کوئی بھی مشین خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کا بنانے والا اُسے ایک خاص مقصد کے تحت بناتا ہے۔ اسی لئے دنیا میں انسا نوں کی بنائی ہوئی ہر مشین کے ساتھ اس کے صحیح مصرف اور استعمال کے لیے ایک تفصیلی ہدایت نامہ مرتب کیا جاتا ہے تاکہ اس مشین کو غلط استعمال ہونے اور کرنے سے بچایا جاسکے ورنہ قیمتی سے قیمتی اور نہایت پائیدار مشین بھی چند دنوں میں تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو "انسان" اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی جملہ مخلوقات میں سے اس کی خالقیت کا سب سے بڑا شاہکار ہے اسی لیے انسان کے ساتھ رب تعالیٰ کا بے پناہ محبت اور شفقت کا تعلق ہے کیونکہ اس کو ایک خاص مقصد کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اس مقصد کے تعین کے لیے روزِ اوّل سے لے کر خاتم النبیین کی بعثتِ مبارکہ تک تواتر اور تسلسل کے ساتھ وحی الٰہی ہدایتِ خداوندی کی شکل میں انبیاء ورسل پر نازل ہوتی رہی تاکہ انسانوں کو زندگی کے مقصد سے آشنا کرایا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی اور ہدایت کی سب سے قابلِ اعتبار اور لائقِ اعتماد صورت آج قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے جو آج تک دریافت شدہ انسانی تاریخ میں آنے والے ہر نبی اور رسول کی صداقت کے ہر معیار اور میزان پر پورا اُترتا ہے۔

لہذا قرآن کریم کی روشنی میں انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ خلیفۃ اللہ بن کر رب کی مرضی اور منشاء کے مطابق زندگی گزارے اور باقی انسانوں کو اس کی دعوت دینے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔ رضائے الٰہی کے اس تصور کو وحی الٰہی نے عبودیت اور بندگی قرار دیاہے :

  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ 56 19
  اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔

رب تعالیٰ کے بندگی اور عبودیت بجا لانے میں خود رب تعالیٰ کا کوئی ذاتی فائدہ اور مفاد نہیں ہے بلکہ یہ تو خود انسان کے حقیقی فائدہ کی بات ہے کہ اپنے مقصد ِتخلیق سے آگاہ ہوکر اس کی تکمیل کے لیے بھر پور کوشش کرے تاکہ حیاتِ ابدی کی مسرّتوں سے بہروَر ہوسکے۔

(5)   زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی

حضور پر نازل ہونے والی آخری وحی اور اس میں دی جانے والی ہدایات نےانسان کی روحانی، قلبی، ذہنی، جسمانی و مالی ضروریات و عبادات، خارجی زندگی و معاملات، جنایات و عقوبات، مناکحات ومعاوضات، مخاصمات و عادات، حقوق و فرائض، اخلاقیات، اقتصادیات اور سیاسیات سمیت جملہ مسائل کا جامع حل پیش کیا ہے۔ وحی محمدی کسی ایک قوم یا نسل اورکسی ایک زمانے یا ایک خطّہ کے فوز و فلاح کی مدّعی نہیں ہے، بلکہ اس میں ہر کس و ناکس، مسلمان و غیر مسلم، بادشاہ و رعایا، حاکم و محکوم، امیر و غریب، چھوٹا و بڑا، مرد وعورت، تعلیم یافتہ و ناخواندہ، آجرو اجیر الغرض ہر انسان کے تمام جائز حقوق کی رعایت رکھی گئی ہے۔ لہذا وحی الٰہی کو قبول کرکے آج کا انسان کسی پر احسان نہیں کرے گا، بلکہ خود اپنی زندگی کی ہمہ جہت مشکلات اور کشمکش سے نکلنے کا پائیدار حل تلاش کرلے گا۔ وحی الٰہی نے انسان کو "معلوم" مخلوق قرار دے کر اسے حیوان کے بجائے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ اپنے فطری فریضہ بندگی رب کی ادائیگی پر آمادہ ہوجائے اور خود اپنے بندہ ہونے کی حیثیت قبول کرلے۔ انسانی زندگی کی اس عظیم حقیقت کو وحی الٰہی اور ہدایتِ ربّانی کی روشنی کے بغیر جاننا ممکن نہیں ہے لہذا انسان کے پاس انسان بننے کے لیے وحی الٰہی کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

(6)   ما بعد الطبعیاتی سوالوں کے جواب

دنیا میں دو قسم کی اشیاء پائی جاتی ہیں: مرئی و غیر مرئی۔ مرئی وہ اشیاء ہوتی ہیں جن کو سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ غیر مرئی وہ اشیاء ہوتی ہیں جن کو سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن ان کو حواس خمسہ کی مدد سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نظر آنے والی اشیاء جنہیں مبصَّرات بھی کہا جاتا ہے، ان کو دیکھنے کے لیے بھی دو قسم کی روشنیوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے ایک وہ جو انسانی آنکھ کی روشنی ہے جو انسان کے وجود کے داخل میں موجود ہے جبکہ دوسری روشنی وہ ہے جو انسان کے وجود کے باہر موجود ہوتی ہیں مثلاً سورج، چراغ اور بلب جیسی اشیاء کی روشنی جو خارج میں موجود ہوتی ہیں۔ اگرخارج میں مذکور ان روشنیوں میں سے کوئی روشنی موجود نہ ہو تو تب بھی انسان کی اپنی بینائی کے باوجود اس کی حیثیت نابینا کی سی ہوجاتی۔ اس لیے دنیا کی زندگی کا یہ اُصول ہے کہ جب تک یہ دونوں روشنیاں جمع نہیں ہوتیں اس وقت تک اشیاء موجود ہونے کے باوجود نظر نہیں آتیں۔

اسی طرح ما بعد الطبعیاتی حقائق کو جاننے اور اُن کی معرفت حاصل کرنے کے لیے بھی داخلی اور خارجی دونوں روشنیوں کی ضرورت ہے۔ یہاں داخلی روشنی سے مراد انسانی عقل کی روشنی ہے جبکہ خارجی روشنی سے مراد وحی الٰہی کی روشنی ہے تاکہ انسان یہ بات جان سکے کہ ایمان و کفر، جنت و دوزخ، نیک و بد، خیر و شر، جائز و ناجائز، حلال و حرام کیا ہیں؟ داخلی عقل کی روشنی کے باوجود خارج میں وحی الٰہی کی روشنی کے بغیر انسان رب کی معرفت حاصل کرسکتا ہے نہ ہی اسےانبیاء کی پہچان ہو سکتی ہےاور نہ ہی وہ مقصد زندگی سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح وحی الٰہی سے اپنے آپ کو محروم رکھنے کے نتیجہ میں انسان ایمان و معرفت جیسی کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی معرفتِ خداوندی جیسی اہم ترین حقیقت سے لاعلم رہ کر زندگی برباد کر ڈالتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اُس کی اُخروی زندگی شدید خسارہ سے دوچار ہوجاتی ہے۔

انسان کی دنیاوی زندگی اس کے پاس اُخروی کامیابی کا پہلا اور آخری موقع ہے اگر یہ زندگی اس کی لاپرواہی یا گمراہی میں گزر جائے تواس کے پاس سوائے کفِ افسوس ملنے کے دوسرا اختیار باقی نہیں رہتا اور اس کا سدھار صرف اور صرف وحی الٰہی ہی ممکن بناتی ہے۔

(7)   ابدی فلاح

اپنی زندگی سے پیار اور محبت کرنا انسانی فطرت کا شروع ہی سے خاصہ رہا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ انسان موت کو اپنی حیات کا خاتمہ اور اپنی ذندگی کا اختتام سمجھتا ہے۔ انسان کے دل و دماغ میں یہ بات ہمیشہ مستحضر رہتی ہے کہ اس دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں موت آنے کے ساتھ ہی اس سے چھن جائیں گی جسکی وجہ سے نہ تو وہ مرنا چاہتا ہے اور نہ ہی ان فانی نعمتوں سے محروم ہونا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوانی کی بہاروں کو قابو میں رکھنے اور بڑھاپے کی روک تھام کے نام سے دنیا بھر میں نئے نئے تجربات جاری و ساری ہیں تاکہ وہ اس زندگی کے لطف و حظ سے لمبے عرصے تک مستفید ہوا جاسکے اور اس دنیا کو ہی دارالبقاء اور جنت بنا ڈالنا ممکن ہو سکے۔

انسان کی لاکھ چاہت کے باوجود یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی بھی صورت آخرت کے بجائے اس دنیا میں ابدی زندگی کو پالے۔ البتہ جو چیز ابدی اور دائمی ہے وہ جنّت ہے جس کے حصول اور متعلقہ امور کا علم فقط وحی الٰہی کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ وحی الٰہی اور ہدایتِ ربّانی پر ایمان اور عمل کے نتیجہ میں ہی جنت کی ابدی، دائمی، پُر مُسرت اور خوشگوار اُخروی زندگی کا حصول ممکن ہے۔ کوئی اس زندگی کا اقرار کرے یا انکار لیکن اس زندگی کا اختتام دائمی اور ابدی زندگی پر ہی منتج ہوگا جس کی حقیقت و معرفت ہمیں وحی الٰہی کے ذریعے ہی میسر آتی ہے۔

(8)   عالمگیر غیر جانبدار قوانین کا مأخذ

انسانی ذندگی کی عمومی ضروریات کھانے پینے، لباس و مکان، شادی بیاہ، عزت و شہرت، مال و دولت، عہدہ و منصب حاصل کرنا ہے۔ انہی اُمور و مقاصد کے باعث لوگوں میں عموماً اختلافات، تنازعات، لڑائی، جھگڑے، قتل و قتال اور خون خرابہ ہوتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے قانون کی موجودگی لازم ہے۔ یہ قانون اس وقت کارآمد ہوتا ہے جب یہ اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہو یعنی حقیقی معنی میں یہ قانون بغیر کسی تعصب، اختلاف، امتیاز و افتراق اور دشمنی کے ہر شخص کے لیے یکساں وضع کیا گیا ہو۔ قانون وضع کرنے کے لیے مکمل علم، رحم و شفقت اور غیر جانبداری کی صفات سے متصف ہونا ازحد ضروری ہے تاکہ قانون کا بے لاگ اطلاق، اعتدال کی روح کے ساتھ اس طورپر نافذ ہوسکے کہ انسانی نفس و معاشرہ کی جسمانی، روحانی اور اخلاقی اصلاح و تطہیر ممکن الحصول ہوجائے۔

دنیا میں ایسا قانون جو جرائم اور گناہوں کی بیخ کُنی کرے، غیر جانبداری سے ہر انسان کو بروقت اور بلاقیمت انصاف فراہم کرے اور ساتھ ہی ساتھ ظالم و مظلوم ہر دو کی رعایت رکھتے ہوئے انسان کے صرف دنیاوی مفادات کو مدِنظر نہ رکھے بلکہ اس کی اُخروی منفعت اور روحانی زندگی کو بھی مقدم رکھے وہ صرف قانونِ خدا وندی ہے جو وحیِ الہٰی کی صورت میں تمام انسانوں کو بلا تفریقِ رنگ و نسل عطاء کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی ذات ان تمام ضروریات اور حاجات سے پاک ہے جن کے حصول کی طمع اور لالچ ایک انسانی نفس میں ہمیشہ موجزن رہتی ہے۔ اللہ کو نہ تو کھانے پینے، لباس ومکان، شادی بیاہ، عزت وشہرت، مال و دولت، عہدہ و منصب کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی حاجت بلکہ اس کی ذات ان تمام باتوں سے بلند اور برتر ذات ہے اس لیے اگر کوئی معاشرہ حقیقی امن و امان، سکون و اطمینان اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہو تو اس کے لیے قانونِ خداوندی اور وحیِ الٰہی ہی پہلا اور آخری انتخاب ہے۔ اسی لیےحقیقی واضع قانون (Legislator) یعنی رب تعالی کا فرمان ہے:

  ...إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ... 57 20
  حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔

اسی طرح جاہلیت کے ناکارہ قانون کا رد کرتے ہوئے فرمایا:

  أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ 50 21
  کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں ﷲ سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔

یہ محض دعویٰ نہیں ہے کہ وحی الٰہی پر مبنی قانون کے نفاذ سے تمام انسانی معاشروں میں امن وسکون اور حقیقی مسرت و فلاح کے راستے کھل جاتے ہیں بلکہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ و تہذیب میں جہاں جہاں وحی الٰہی پر مبنی قانون نافذ العمل رہا ہے، وہاں وہاں جرائم اور معاصی ناقابلِ ذکر حد تک ختم ہوتے چلے گئے ہیں۔ آج بھی سعودی عرب اور افغانستان میں وحی الٰہی پر مبنی شریعتِ اسلامی کے جزوی نفاذ کی وجہ سے دنیا بھر کے معاشروں کے مقابلہ میں وہاں امن وامان کی صورت حال قابلِ رشک ہے۔ لہٰذا وحیِ الٰہی پر مبنی قانون دنیا کے ہرفرد اور معاشرے کی حقیقی ضرورت ہے جس سے انکار یا تو لاعلمی کی بنیاد پر ممکن ہے یا پھر کسی نفس اور شیطان کے بہکاوے کی بنیاد پر ہی کسی کے لیے ممکن ہو سکتا ہے۔

(9)   روح کی تسکین و غذا

انسان کا نظر آنے والا مادّی وجود اپنی حقیقت کے اعتبار سے جسم اور روح سے مرکب ہے۔ جسم مادّی ہونے کی وجہ سے فانی ہے جبکہ روح ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ اسی لیے جسم کے مقابلہ میں روح اعلیٰ و ارفع ہے جبکہ انسانی جسم، روح کے مقابلہ میں ادنیٰ اور کمترہے۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھ کر جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا جسم جب اس کی روح کے مقابلہ میں کمتر اور روح ہر لحاظ سے برترہے تو ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ انسان کے فانی جسم کی ہر ضرورت پوری کرے اور اُس کی روح کی ضرورت پورا کرنے کے لئے کوئی اہتمام نہ کرے۔ یعنی اس کے وجود کی ضروریات کی تکمیل کے لیے تو قدرت نے پانی، غلّہ و غذا، دھوپ اور روشنی، ہوا اور آگ، چاند اور ستار و ںسمیت تمام مطلوب اشیاء کو انتہائی فیاضی کے ساتھ اس دنیا میں پھیلا رکھا ہو جبکہ انسانی روح جو غیر فانی اور ابدی ہے اس کی قوّت و حیات کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہو۔

انسانی وجود میں روح کی حیثیت سوار کی ہے جبکہ اُس کے جسم کی حیثیت سواری کی ہے اور ہر شخص یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ سوار کی اہمیت سواری کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسا ن جتنی دیکھ بھال کسی سواری کی کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ دیکھ بھال سوار یا مہمان کی کرتا ہے۔ لہٰذااس بات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ انسانی روح کی غِذا کا انتظام و انصرام قدرت نے جسم کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بہتر اور منظم انداز سے کیا ہو گا۔ اس انتظام کو مذہبی اصطلاح میں "وحی الہٰی" کہا جاتا ہے۔

انسان کے مادّی اور روحانی وجود اور اُن کے علیحدہ علیحدہ تقاضوں کا سبب یہ ہے کہ انسانی وجود کا تعلق زمین سے ہے لہذا اس کی غذا بھی قدرت نے زمین سے ہی متعلق کردی ہے۔ دوسری طرف روحِ انسانی کا تعلق عالم بالا سے ہےاور وہ نہایت ہی لطافت کی حامل ہے لہذا اس کی غذا بھی عالمِ بالا سے ہونے کے ساتھ ساتھ اُس غذا میں لطافت کے عنصر کا پایا جانا بھی از حد ضروری ہے تاکہ اُس کی افادیت روحِ انسانی کے لئے مسلّم رہے۔

اس حوالہ سے اگر دنیا میں موجود غذاؤں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اس دنیا میں موجود تمام غذاؤں کی نوعیت کثیف ہے جبکہ واحد غذا جو لطافت میں کامل واکمل ہے وہ صرف عالمِ بالا سے ہی متعلق ہے۔ وہ کوئی مادّی غذا نہیں بلکہ روحانی غذا اور دواء ہے جو انسانوں کے پاس وحی ربّانی اور کلامِ الٰہی کی صورت میں موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اور جہاں اس کلام کو پڑھا جاتا ہے انسانی طبعیّتیں اس کی طرف بغیر کسی شک و شبہ کے مائل ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ کے اس کلام سے اُنسیت اور تعلق بڑھاتا چلا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کی روحانی استعداد اور قوت کے ساتھ ساتھ اس کا علمی و روحانی اطمینان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم خود اپنے آپ کو قلب و روح کی شفایابی کا ذریعہ بتاتا ہے اور فرماتا ہے:

  ...أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ 28 22
  جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

وحی الہی کس طرح انسانی روح کی طلب، چاہت اور ضرورت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حافظِ قرآن اورعام مسلمان اپنی زندگی میں ہزاروں بلکہ لاکھوں مرتبہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اس وحی (قرآن کریم) کی تلاوت کرتا ہے لیکن اس کے مزاج میں نہ تو کلام الٰہی (قرآن کریم) کی بتکرار تلاوت سے اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی خلجان کا شکار ہوتا ہے بلکہ جس قدر وہ کلامِ الٰہی کی تلاوت میں تکرار اور کثرت کرتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اُسے روحانی طور پر لذّت، فرحت اور سکونِ دل میسر آتا چلا جاتا ہے۔ لہذا "وحی الٰہی" بغیر کسی شک و شبہ کے انسانی روح کی وہ حقیقی غذا ہے جو اللہ تعالیٰ اگر اپنے بندوں کے لیے آسمان سے نازل نہیں فرماتا تو تمام انسان روحانی طور پر موت کا شکار ہوکر فنا کے گھاٹ اُتر جاتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ "کلام ِالٰہی" ہی حیاتِ حقیقی کا ذریعہ ہے۔

(10)   روحانی شفاء

دنیا کی زندگی میں انسانی جسم اور انسانی روح کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریاں اور ان کا وجود ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ جسم کی مثل انسانی روح کو بھی مختلف بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانی جسم اور اس کی دوا دونوں مادّی چیزیں ہیں اس لیے انسان اپنے تجربات اور مشاہدات کے ذریعہ دواؤں کو دریافت کرکے جسمانی بیماریوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں دوا ساز کمپنیاں مختلف تجربات و مشاہدات اور تحلیل و تجزیہ کی بنیاد پر بیماریوں کے لئے نِت نئی اَدویات بناتی رہتی ہیں لیکن روحِ انسانی کے غیر مرئی اور غیر مادی ہونے کی وجہ سے اس کے امراض انسانی تشخیص، تجربات و مشاہدات کے دائرہ سے خارج ہیں۔ اسی لیے روح اور روحانی بیماروں کے لیےعلاج اور دواؤں کا تعیّن انسان کی قدرت و طاقت میں نہیں ہے۔ چونکہ روح کا تعلق عالمِ امریا امر ربّی اور عالمِ بالا سے ہے اسی لئے اس کے امراض کی دوا بھی عالمِ بالا سے ہی میسر آسکتی ہے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ روحانی امراض کا علاج بدنی امراض کے علاج سے زیادہ اہم ہے کیونکہ جسمانی مرض سے انسان کا جسم اور مادّی وجود عارضی اور وقتی طور پر تکلیف میں مبتلا یا موت سے ہمکنار ہوتا ہے جبکہ روحانی امراض سے انسان دائمی روحانی عوارضات کا شکار ہوکر ابدی ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدن کا علاج ربِّ کائنات نے انسان کے سپرد فرمایا ہے جبکہ روحانی امراض کی دوا وحی الٰہی اور کلامِ ربّانی میں رکھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

  وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ... 82 23
  اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے۔

(11)   حقیقی خدا سے محبت

انسا ن فطری طورپر جس طرح دنیا کی اشیاء سے محبت کرتا ہے ویسے ہی اپنی روحانی جبلت کے تحت اس بات پر بھی مجبور ہے کہ وہ خالقِ کائنات اور اپنے رب سے بھی محبت کرے۔ اپنے رب سے محبت کےاظہار کا سلیقہ صحیح اور غلط ہوسکتا ہے مثلاً اہلِ ایمان کا اپنے رب کے ساتھ محبت کا تعلق یا بُت پرستوں کا غیراللہ کو مظہرِ خدا و ندی سمجھ کر اُن سے محبت کرنے کا طریقہ و تعلق لیکن حبِّ الٰہی کا یہ فطری جذبہ انسان پر ہمیشہ سے اتنا غالب رہا ہے کہ اہل مذہب تو ایک طرف رہے خود اپنے آپ کو ملحد، لادین، لامذہب اور منکرینِ خدا سمجھنے والے بھی اس فطری جذبہ حُبِ الٰہی سے اپنی جان نہیں چھڑا سکے اور اپنے جیسے کسی جیتے جاگتے انسان کو چند اضافی محاسن کی بنیاد پر خدا کی طرح پوجنے لگے یا اس سے محبت کرنے لگے جیسے روس میں لینن اور چین میں ماؤزے تنگ کی بڑی بڑی تصویریں اور مجسمے قدم قدم پر نصب کئے گئے ہیں جن کی تعظیم، ان سے محبت اور ان کی اطاعت وہ ہر وقت کررہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بدھ مت کے پیروکار جو خُدا پر ایمان کے انکاری ہیں وہ اپنے اس جذبہ حبِ الٰہی کی تسکین کے لیے بلند و بالا پہاڑوں کو تراش کر بدھا کے عظیم الجثہ مجسمے، چین، ہندوستان، پاکستان، افغانستان، برما اور مختلف ممالک میں بناتے رہے ہیں۔

اب چونکہ انسان میں یہ محبت فطرتاً موجود ہے تو ضروری ہے کہ حقیقی محبوب کو تلاش کرنے میں اس کی مدد کی جائے کیونکہ جب بھی انسان نے فقط اپنی عقل سے اس محبوب کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے تو شیطان و نفس کے بہکاوے میں آکر غلط فیصلے ہی کئے ہیں۔ یہ وحی الہی ہی ہے جس کے ذریعے انسان اس ذات کو پہچاننے کے قابل ہوتا ہے جو اس محبت کے لائق ہے۔

(12)   حقیقی کامیابی کا تعین

انسان جس طرح اپنی عقل کے بل بوتے پر ہر تصور اور نظریہ کو وضع کرتا آیا ہے اسی طرح کامیابی کے حوالہ سے بھی اس نے اپنے اصول وضع کئے ہیں جن کے مطابق اگر نتیجہ توقعات کے مطابق نہ ہو تو یہ ناکامی کہلاتی ہے اور اس نتیجہ کے لئے جو بھی وسائل اور محنت کھپائی گئی ہوتی ہے وہ ضائع ہوجاتی ہے۔ اس سے وہ انسان جس نے خلوص کے ساتھ اپنی جان لگائی ہوئی ہوتی ہے مایوس ہوجاتا ہے اور اگلے معرکہ کے لئے اس کا حوصلہ بھی پست ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس وحی الہٰی نے بھی کامیابی کا نظریہ دیا ہے جس کے مطابق کامیابی اور ناکامی کا تعلق فقط نتیجہ سے نہیں کیونکہ نتیجہ دینا رب کی قدرت اور حکمت پر مبنی ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے جو اصول وحی الٰہی نے ہمیں بتائے ہیں ان کے مطابق انسان کے ذمہ صرف خلوص کے ساتھ اللہ کے بتائے ہوئے اوامر پر عمل، نواہی سے پرہیز اور اس کے دئے ہوئے مقصد کے حصول کے لئے مسلسل جستجو اور جدوجہد کرنی ہے۔ بعض اوقات وحی پر عمل کرنے سے بظاہر ایسا ہونا ممکن ہے کہ انسان کو ان غیر پسندیدہ نتائج کا سامنا کرنا پڑے جسے دنیا ناکامی کے نام سے جانتی ہے لیکن حقیقتا وہ ناکامی نہیں ہوتی۔ عند اللہ اس کا اجر مسلسل بڑھ رہا ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات ایسے مخلصین دین کو دنیا میں بھی بظاہر چند ناکامیوں کے بعد عروج عطا ہوجاتا ہے اور آخرت میں بھی اجر ملتا ہے۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالی ہے:

  مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ 120 24
  اہلِ مدینہ اور ان کے گرد و نواح کے (رہنے والے) دیہاتی لوگوں کے لئے مناسب نہ تھا کہ وہ رسول ﷲ () سے (الگ ہوکر) پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ ان کی جانِ (مبارک) سے زیادہ اپنی جانوں سے رغبت رکھیں، یہ (حکم) اس لئے ہے کہ انہیں ﷲ کی راہ میں جو پیاس (بھی) لگتی ہے اور جو مشقت (بھی) پہنچتی ہے اور جو بھوک (بھی) لگتی ہے اور جو کسی ایسی جگہ پر چلتے ہیں جہاں کا چلنا کافروں کو غضبناک کرتا ہے اور دشمن سے جو کچھ بھی پاتے ہیں (خواہ قتل اور زخم ہو یا مالِ غنیمت وغیرہ) مگر یہ کہ ہر ایک بات کے بدلہ میں ان کے لئے ایک نیک عمل لکھا جاتا ہے۔ بیشک اللہ نیکوکاروں کا اَجر ضائع نہیں فرماتا۔

حصول وحی کے لئے انبیاء و رسل کی ضرورت

انبیاء و رسل انسانوں کے درمیان اللہ تعالی کے منتخب کردہ خاص اشخاص کا گروہ ہے جو الہامی ہدایت کے تحت انسانوں کو ان کے تمام سوالات کا کافی و شافی جواب دیتا ہے۔ اس سلسلۃ الذہب کے پہلے شخص حضرت آدم تھے اور اس سلسلہ کا اختتام خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی پر ہوا۔ حضرت آدم اللہ تعالی کے وہ مقرب بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، فرشتوں کی موجودگی، جنت و دوزخ اور ثواب و عذاب پر گواہ بنانے کے لئے آسمانوں میں ایک عرصۂ دراز تک ٹھہرایا تاکہ وہ اُن تمام اُمور، حقائق اور واقعات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں جس کے بارے میں اُن کی آئندہ آنے والی نسلوں کوخود انہیں میں سے مبعوث کیے گئے انبیاء ورُسل متوجہ فرماتے رہیں گے۔ انبیاء و رُسل ہونے کا دعویٰ صرف وہی افراد کرسکتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس بارِ گراں اور امانت کے لئے خود منتخب فرمایا ہو اور خود اُن کی زندگی کے شب و روز، اُن کی سیرت وصورت، اخلاق و کردار،علم و عمل اور معجزات و بشارات، اُن کے دعوائے نبوت و رسالت کی صداقت کی دلیل ہوں۔

ان انبیاء و رسل نے ہمیشہ ایک ایسا نظامِ زندگی اور پیغامِ ہدایت لانے کا دعویٰ کیا ہے جو کافی و شافی طریقے سے انسان کے اُن تمام سوالات کے جوابات دیتا ہے جنہیں انسان کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں کرسکتا۔ وحی الٰہی کے حصول کا دعویٰ صرف کسی ایک یا خاص پیغمبر نے نہیں کیا بلکہ تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ورسل نے اپنے اپنے زمانہ میں کیا۔ بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ ہر نبی اور رسول جن کے درمیان بسا اوقات صدیوں اور ہزاروں سال کا عرصہ دراز، بطور زمانی مسافت کے اور ہزاروں میل کی دوری بطور مکانی مسافت کے ہونے کے باوجود ان کی تعلیمات، ایمانیات اور عقائد جن سے انہوں نے انسانوں کو آگاہ کیا وہ اجمال و تفصیل سے قطع نظر ایک ہی قسم کی تعلیمات تھیں جن کا بنیادی محور اور مرکزی نقطہ ایمان بااللہ، ایمان بالرسالت اور ایمان بالآ خرت ہی رہا ہے۔

خود اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی تصریح فرمائی ہے کہ اُس کی طرف سے مبعوث کردہ انبیاء و رُسل کو جس مخصوص پیغام کا حامل بنا کر مبعوث فرمایا گیا ہے وہ پیغام اللہ تعالی ہر زمانہ میں اپنے معزز نبیوں اور رسولوں کو دیتا رہا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

  إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا 163 25
  (اے حبیب !) بیشک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح () کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان () کی طرف (بھی) وحی فرمائی، اور ہم نے داؤد () کو (بھی) زبور عطا کی تھی۔

انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ اس اہم ذمہ داری کو اپنے اپنے زمانوں کے اعتبار سے بھرپور طور پر نبھاتے چلے آئے ہیں۔ انبیائے کرام کے سلسلہ کے آخری نبی یعنی حضرت محمد مصطفی ، جنہیں خود رب تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے سلسلے کا خاتم قرار دیا، انہوں نے انسان کے مقصدِ تخلیق کو یوں بیان فرمایا کہ انسان کی زندگی مسلسل ایک امتحان اور آزمائش ہے۔ زندگی میں اُسے جس اختیار و آزادی سے نوازا گیا ہے اُس کا مقصد گمراہی اختیار کرنا اور زندگی کواپنی چاہت اور مرضی سے گزارنا نہیں ہے بلکہ اس اختیار اور آزادی کو نفس اور شیطان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دی ہوئی ہدایت (وحی) کے مطابق گزارنا ہے۔

نبی آخری الزماں ﷺ پر نزول وحی اور اس پر کفار کا رد عمل

حضور پر جب وحی نازل ہوئی تو سب سے پہلے آپ کے رفقاء کرام نے اس کی تصدیق کی۔ جب آپ نے اس کا بھرپور اعلان کیا تو سب سے پہلے آپ کی نبوت و رسالت کا انکار آپ کے دور میں کفارِ مکہ، اس کے بعد یہودِ مدینہ پھر نجران کے عیسائیوں اور دیگر نے کیا۔ وحی و رسالت محمدی کا انکار کرنے والے وہ لوگ جو کسی بھی دوسرے مذہب یا نظریہ سے وابستہ تھے اُن میں سے اکثر کےانکار و مخالفت کی اصل وجہ کوئی علمی، عقلی اور نظریاتی دلیل نہیں تھی بلکہ آپ کے ساتھ دشمنی و عداوت کا سبب ذاتی وقبائلی بغض و عناد اور حسد و رقابت تھی۔

سب سے خطرناک تعصب نبی کریم کی وحی سے یہودیوں کو تھا جن کو اس بات سے تکلیف تھی کہ آپ عرب اور پھر بنی اسماعیل میں سے اللہ کے منتخب کردہ آخری نبی یعنی خاتم النبیین تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کُل انسانیت کا نبی اور رحمۃ اللعالمین بنا کر قرآن کریم جیسی عظیم المرتبت کتابِ ہدایت دے کربھیجا تھا۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ اس پیغمبر کو بھی بنی اسرائیل سے ہونا چاہئے تھا اور چونکہ ایسا نہ ہوا تھا اس لئے ان یہودیوں نے آپ پر روزِ اول سے طعن وتشنیع کی اور آپ پر نازل ہونے والی وحی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی وہ مسلسل کوشش کرتے رہے۔ بعد ازاں اس کام میں ان لوگوں کو عیسائیوں کی بھی معاونت حاصل ہوگئی اور دونوں مذاہب کے لوگوں نے یہ سلسلہ ایک ہزار برس سے زائد عرصے تک جاری رکھا۔ ان لوگوں نےاپنی الہامی کتابوں میں تحریفات کرکے جو عہدنامہ قدیم و جدید مرتب کیا، ان میں علمی غلطیاں، تاریخی تضادات اور فحش اغلاط کے ساتھ ساتھ معاشرے کے حوالہ سے نامکمل تعلیمات نےان مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذاہب سے برگشتہ کردیا۔ مغرب میں ان مذاہب کے پیشواؤں کے غیر عقلی اور غیر اخلاقی رویوں نے بھی عامۃ الناس کو مذاہب سے دور کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ رہی سہی کسر تحریک نشأۃ ثانیہ اور تحریک تنویر نے پوری کردی جن کی بدولت بحث و تحقیق کے نام پر تسخیر کائنات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے نتیجہ میں ایک طرف سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی ہوئی اور دوسری طرف سماجی علوم کے میدان میں بھی عقل کی بنیاد پر مشاہدات و تجربات کے نتائج نے مذاہب بالخصوص عیسائیت کے عقائد و نظریات کی دھجیاں بکھیر ڈالیں۔ مغربی اہل علم ودانش نے عیسائی کتاب مقدس کے کلام الہی ہونے پر ایسے سائنسی اور عقلی اعتراضات اٹھانے شروع کیے کہ راسخ العقیدہ عیسائی اہل علم بھی ان کا جواب دینے سے عاجز ہوتے چلے گئے۔

مغربی مذاہب عیسائیت اور یہودیت نے جیسے جیسے سائنس اور عقل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے شروع کیے اور مذاہب کے مقابلہ میں جدیدیت کو قبول کرنا شروع کردیا تو عامۃ الناس اور خواص کو اس بات پر پختہ یقین ہونا شروع ہوگیا کہ زندگی کے مسائل کا حل اور حقیقت تک پہنچنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ سائنس ہے۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ اب مغربی معاشروں میں اللہ پر ایمان ،انبیاءاور رسل کو ماننا، وحی الہی اور کتب سماوی، شرائع خداوندی کی قبولیت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

مغرب کی اس الحادی فکر کا سیلابِ بلاخیز جب مسلمان ملکوں میں داخل ہوا تو سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی الحادی فکر و نظر کو اسلام جیسے مضبوط، محفوظ اور عقل و نقل کی دلیل پر مبنی دین سے واسطہ پڑا جس نے گزشتہ دو صدیوں سے ہر محاذ پر مغربی الحاد اور لادینی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے بلکہ دلائل و براہین سے اس جدید فکروفلسفہ کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ اسلام کی قوت اس کا باقاعدہ وحی الہی پر قائم دین ہونا ہے جو مسلمانوں کے تمام تر تاریخی و تہذیبی نشیب و فراز کے باوجود اپنی انتہائی محفوظ شکل قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے۔ وحی الہی پر مبنی اللہ تعالی کا یہ آخری کلام انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے تمام اہم ترین شخصی، نفسی، الہیاتی، علمیاتی اور کونیاتی سوالات کا کافی وشافی جواب آج بھی اسی طرح فراہم کرتا ہے جس طرح آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل اس کلام الہی نے اپنے نزول کے وقت انسانوں کے انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی، قانونی، تہذیبی، ثقافتی، تاریخی، علمی، علمیاتی، فکری، نظریاتی، اعتقادی مسائل کو کافی و شافی طریقہ سے حل کیا تھا۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ البقرۃ:97:2
  • 2 القرآن، سورۃ الشعراء26: 192-195
  • 3 القرآن، الاحقاف: 02:46
  • 4 القرآن، فصلت:02:41
  • 5 القرآن، سورۃفصلت: 42:41
  • 6 القرآن، سورۃالسجدة02:32
  • 7 القرآن، سورۃالدّهر23:76
  • 8 القرآن،سورۃالحجر: 09:15
  • 9 القرآن،سورۃابراہيم01:14
  • 10 القرآن،سورۃ يوسف02:12
  • 11 القرآن،سورۃيونس 02:10
  • 12 القرآن،سورۃ الانعام 06: 114
  • 13 القرآن،سورۃالعنکبوت 29: 51
  • 14 القرآن،سورۃالواقعہ 81-77 : 56
  • 15 القرآن،سورۃالفرقان6:25
  • 16 القرآن،سورۃالإسراء105:17
  • 17 القرآن، سورۃ فاطر، 6:35
  • 18 القرآن، سورۃ الزخرف، 62:43
  • 19 القرآن، سورۃ الذاریات 56:51
  • 20 القرآن ،سورۃ الانعام 57:06
  • 21 القرآن ،سورۃ المائدہ50:05
  • 22 القرآن ،سورۃ الرعد28:13
  • 23 القرآن، سورةالاسراء82:17
  • 24 القرآن، سورةالتوبۃ120:9
  • 25 القرآن، سورة النساء4:163