لفظ وحی کا مفہوم اور اس کی تعریف اسلام کی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ وحی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی "اشارے" یا "پوشیدہ انداز میں بات پہنچانے" کے ہیں۔ 1 امام ابو نصر جوہری کے مطابق لفظ وحی کا اطلاق مذکورہ معنی کے ساتھ ساتھ " لکھ کر دینے "اور "بھیج دینے " پر بھی ہوتا ہے۔ 2 وحی کا معنی بیان کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی المفردات فی غریب القرآن میں لکھتے ہیں:
أصل الوحي: الإشارة السريعة، ولتضمن السرعة قيل: أمر وحي، وذلك يكون بالكلام على سبيل الرمز والتعريض، وقد يكون بصوت مجرد عن التركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالكتابة. 3
وحی کے اصلی معنی ہیں وہ اشارہ جو نہایت تیزی وسرعت کے ساتھ ہو، اسی سرعت کی وجہ سے کہتے ہیں امروحی (یعنی جلدسے جلدظاہرہونے والی بات) اور یہ بات کبھی تو گفتگو میں اشاروں اورکنایوں کےطورپرہوتی ہے ،اورکبھی محض آواز ہوتی ہے جوحروف والفاظ کےربط وترتیب سے(بظاہر) خالی ہوتی ہے اور کبھی اعضاوجوارح کے اشاروں سے اور کبھی بذریعہ تحریر بھی ممکن ہے۔
اسلامی اصطلاح میں وحی اُس خصوصی علم کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے منتخب کردہ انبیاء و رسل کو براہ راست یا فرشتے کے ذریعے عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اسے انسانوں تک پہنچائیں۔ اس میں اللہ کا پیغام، ہدایات، احکام اور وہ اخلاقی اصول شامل ہوتے ہیں جو انسانیت کی ہدایت اور فلاح کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ حافظ بدرالدین عینی وحی کے شرعی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وفي اصطلاح الشريعة هو كلام الله المنزل على نبي من أنبيائه. 4
اور شریعت کی اصطلاح میں وحی اللہ کا وہ کلام ہےجو اس کےنبیوں میں سےکسی نبی پر اُتاراگیاہو۔
ان تعریفات سے واضح ہوا کہ وحی اللہ کاوہ کلام ہے جو عالمِ غیب سے عالمِ شہادت تک کسی مقرّب فرشتے مثلاً جبرائیل یا براہ راست کسی بھی پیغمبر اور رسول کے پاس آتا رہا ہے۔ثانیا وحی الٰہی وہ خاص علم ہے جو محض اللہ کے فضل سے، بغیر کسب ،تلاش اور محنت کےانبیاء کرام کو خصوصی طورپرلوگوں کی ہدایت اور بھلائی کی غرض سےدیا جاتا ہے۔اس علم کے حصول اور اسے آگے پہنچانے میں انبیاء کسی قسم کی کمی بیشی اورکوتاہی نہیں کرتے اور نہ ہی وحی الٰہی میں انبیاء کرام اپنی ذاتی سوچ،فکراورخیال کوشامل کرتے ہیں ۔
عربی زبان میں"وحی " اور " ایحا" دونوں الگ الگ لفظ ہیں ، اگرچہ کہ مفہوم کے اعتبار سے دونوں کے مابین کافی حد تک مماثلت ہے۔ لفظ " ایحا " کا مفہوم عام ہےجس کا اطلاق انبیاء پروحی نازل کرنے کے علاوہ کسی کو اشارہ کرنےاور کسی غیر نبی کے دل میں کوئی بات ڈالنے پر ہوتا ہے۔ لہذا یہ لفظ نبی اور غیر نبی دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ "وحی " صرف اُس پیغام کو کہتے ہیں جو انبیاء پر نازل ہو۔یہی وجہ ہےکہ قرآن کریم نے لفظ "ایحا " کا استعمال تو انبیاء اور غیر انبیاء دونوں کے لئے کیا ہے ، لیکن لفظ "وحی " بمعنی اسم مفعول (الموحٰی) کے انبیاء کے علاوہ کسی اور کے لئے استعمال نہیں فرمایا ہے چنانچہ "وحی" وہ خاص ذریعہ مراسلت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنا کلام اپنے کسی پیغمبر یا رسول تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ اس پیغام کو نوع انسانی تک پہنچا دیں۔
وحی کا مفہوم قرآن کریم میں کبھی "ایحاء" کے مصدر سے مشتق کیا گیا ہے کبھی "وحیٌ " سے۔ ان مختلف صورتوں میں جو معنی اخذ کئے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) وحی بمعنیٰ فطری الہام:
یہ وہ الہام ہے جو اللہ تعالیٰ پاکیزہ نفوس اوراشخاص کے قلوب میں ڈالتا ہے جیسے حضرت موسیٰ کی والدہ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے بات ڈال کر انہیں پیش آمدہ مسئلہ کا حل اپنی جناب سے عطاءفرمایا :
وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ... 7 5
اور ہم نے موسٰی کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو۔
(۲) وحی بمعنیٰ جبلت:
انسانوں اور حیوانات دونوں کی جبلت میں اللہ تعالیٰ نے بعض باتیں ایسی رکھ دی ہیں جس کی روشنی میں انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں ہر وقت رب تعالیٰ کی رہنمائی ا ور ہدایت کا احساس رہتا ہے مثلاًقرآن کریم میں شہد کی مکھی کی مثال دی گئی ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ الہام فرماتا ہے:
وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ... 68 6
اور آپ کےرب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی۔
یہ جبلت کی وحی ہے جو جانور اور انسان دونوں کو حاصل ہوتی ہے۔
(۳) وحی بمعنیٰ اشارہ:
انسان کاکسی عضو بدن سے اشارہ کرنا بھی وحی کہلاتا ہے۔ جیسا کہ :
فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا 11 7
پھر (زکریا ) حجرۂ عبادت سے نکل کر اپنے لوگوں کے پاس آئے تو اُن کی طرف اشارہ کیا (اور سمجھایا) کہ تم صبح و شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو۔
بعض مفسرین مثلاًحضرت مجاہد یہاں أوحى إليهم كا ایک معنی " لکھ کر سمجھانا" بھی کرتے ہیں یعنی أوحى إليهم کامعنی یہ ہو گا کہ حضرت زکریا نے زمین پر لکھ کر بات کی تھی ۔اس لئے "وحی" کا لفظ لکھ کر بات کرنے کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہوتا ہے۔
(۴) وحی بمعنیٰ تکوینی امر:
يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا 4 بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا 5 8
اس دن لوگ مختلف گروہ بن کر (جُدا جُدا حالتوں کے ساتھ) نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اَعمال دکھائے جائیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا آسمان سے مخاطب ہو کر اسے خاص اُمور تفویض کرنا بھی قرآن پاک کی روشنی میں وحی کے مختلف معانی میں سے ایک معنی ہے:
... وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ ... 12 9
اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا۔
(۵) وحی بمعنیٰ اطلاع و پیغام:
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ اطلاع یا خبر دی کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے تاکہ وہ اہلِ ایمان کے قلوب کو جنگ کے دوران تقویت پہنچا ئیں۔ جیسے درجہ ذیل آیت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے :
إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ ... 10
(اے حبیبِ مکرم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لئے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں۔
(۶) وحی بمعنیٰ وسوسہ:
یہ وہ بُرا خیال اور شیطانی وسوسہ ہے جو جن وانس کے وجود میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ جیسا کہ قران کریم میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُون 112 11
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا رب (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)۔
بنیادی طور پر وحی کی دو قسمیں ہیں جن کو وحی متلو اور غیر متلو کے نام سے جانا جاتا ہے۔
وحی متلو
وحی متلوسےمراد وہ وحی ہےجس کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے اور جس کی تلاوت نماز میں کی جاتی ہے۔ اسے قرآن کریم اور فرقان مجید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وحی محفوظ اس طور پر ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ اپنے اوپر لیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفار کی ہزار ہاکوششوں کے باوجود قرآن مجید میں ذرہ برابر رد و بدل نہیں کر سکے۔
وحی غیر متلو
اِس وحی کو وحی "غیر متلو " اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ اس وحی کی تلاوت نہیں کی جاتی۔عموماًیہ صحیح احادیث کی شکل میں محفوظ ہے اور یہ وہ وحی ہے جو
مذکورہ بالا تفصیلات سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ شریعت کے تمام اُمور اور احکامات کا انحصا روحی الٰہی پر ہی ہےخواہ وہ "وحی متلو" کے ذریعے سے ہو یا " غیر متلو " کے ذریعے۔اس حوالہ سے حضور کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کی ذاتی خواہش اور چاہت یا پھر اس کی علمیت اوربصیرت پر اکتفاء ہرگز نہیں کیا گیا ہے بلکہ وحی الٰہی ہی کو مصدرِ شریعت اور منبعِ ہدایت گردانا گیا ہے تاکہ شریعتِ اسلام کو انسانی فکرکی غلطی اور علم کی محدودیت سےمحفوظ رکھا جاسکے ۔
الہام، القاء ، کشف اور وحی الٰہی میں جوجوہری نوعیت کا فرق یہ ہے کہ وحی خود انبیاء کے لیے بھی واجب العمل ہوتی ہے اور ان کے پیروکاروں کے لیے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ دیگر صورتوں میں ایسا نہیں ہے ۔ ثانیاً وحی قطعی ہوتی ہے جس میں ظن کا کوئی شبہ اور داخلہ ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی شیطان کو اس میں تصرف کا کوئی اختیار حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی تینوں ذرائع علم میں یہ اقدار اس کمال درجے میں موجود نہیں ہوتیں۔ اس بات کو اس مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی نیک بندے یا ولی اللہ کے دل پر کسی غیبی پیغام کا کشف،الہام یا القاء ہوجائے تو وہ اس کے لیے تو قابل عمل ہے لیکن دوسروں کے لیے قابل اتباع ہرگز نہیں ہے۔اس کے برعکس کسی دوسرے شخص کو اگراس بات کا یقین ہوجائے کہ یہ پیغام شیطانی وسوسہ ہے تو اس کے لئے اُلٹا اس سے بچنا لازم ہوجاتاہےجبکہ وحی کا حکم اس سے بالکل مختلف ہے کیونکہ انبیاء کی وحی سو فی صد یقینی ہوتی ہے اور اس کی پیروی فرض ہے چاہے وہ انسانی عقل و فہم کے بعینہ مطابق ہو یا بظاہر اس کے خلاف اور ما وراءالعقل ہو۔ اسی لئے الہام،القاء اور کشف اپنی جمیع انواع اور خصوصیات کے ساتھ کسی بھی طور پر شرعی حجت نہیں ہوتے اور نہ ہی انکی پیروی لازم ہوتی ۔
وحی کی تعریف اور اس کی مختلف اقسام و پہلوؤں کی وضاحت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اسلامی تعلیمات میں کس قدر اہمیت کی حامل ہے اور اس کا انسان کی زندگی پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایک عظیم نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت کے لیے ایک خصوصی تحفہ ہے جس سے غیر الہامی مذاہب اور الحاد یکسر محروم ہیں۔