غزوہ بدر اسلام کا پہلا عظیم معرکہ ہے جس سے اسلام کی شان وعظمت میں بے حد اضافہ ہوا،اور کفر کا غرور خاک میں ملا۔ یہ معرکہ 17 رمضان المبارک، 2 ہجری بروز جمعہ کو وقوع پذیر ہوا۔ 1 اسلام میں اس معرکہ کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ اس میں مسلمانوں نے عظیم قربانیوں کوپیش کیا اور اللہ کے فضل سے سرخرو ہوئے۔ غزوہ بدرمیں مسلمانوں کو کئی طرح کی آزمائشوں کا سامنا بیک وقت کرنا پڑا۔ پہلی آزمائش یہ تھی کہ مدینہ منورہ سے نکلتے وقت مقصد صرف ایک قافلہ پر قابو پاکر اس کے مال ومتاع کو حاصل کرنا تھا لیکن جب اپنے گھروں سے دور ہوئے تومقصد یکسر بدل چکا تھا۔ اب لشکر قریش سے جنگ کرنی تھی جس میں جانوں کے جانےکا احتمال تھا ۔ دوسرا کڑا امتحان یہ تھا کہ لشکر اسلام تعداد میں بھی کم تھا اور اسلحہ کے لحاظ سے بھی کمزور تھاجبکہ سامنے کا لشکر تین گنا بڑا اور بھرپور سامان سے لیس تھا ۔ فرق دونوں لشکروں میں یہ تھا کہ لشکر کفار محض دنیاوی اغراض اور دنیاوی جاہ وجلال کو بڑھانے کے مقصد سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ ان کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ تھے لیکن ان کےدلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف تھا ۔جبکہ مسلمانوں میں آپ کے اعلان کے بعد خیالات وجذبات مکمل طور پر بدل چکے تھے ۔ اب ان کا مطمح نظر اللہ اور اس کے رسول اللہ کی اطاعت اور اسلام کی عظمت وبقا تھی اور وہ مکمل طور پر ایمانی جذبات سے بھرپور تھے ۔
غزوہ بدر کے 2اسباب تھے۔پہلا سبب اقتصادی طور پر دشمن کو کمزور کرنا جس کو سرد جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ 2 دوسرا سبب عسکری کاروائیاں تھیں جن کے ذریعہ سے یہودِ مدینہ ومشرکینِ مکہ کے سامنے اہل اسلام کی عسکری قوت کا اظہار کرنا تھا ۔ 3 اقتصادی جنگ کی طرف حضرت سعد بن معاذ کا واقعہ بھی نشاندہی کرتا ہے جس میں طواف کرتے ہوئے ان کو ابو جہل نے روکا اور دھمکی دی تھی کہ اگر تم صفوان بن امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہ جاتے ۔ جواب میں حضرت سعد نے اس سےفرمایا کہ اگر تم کچھ کرتے تو ہم اس سے بڑا اقدام کرتے وہ یہ کہ تمہارا شام جانے کا راستہ روک دیتے جس کی وجہ سے سب اہل مکہ کی معیشت زندہ ہے۔ 4 دوسرا سبب یعنی عسکری کاروائی کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی شان وشوکت کو بڑھانا اور اس کا پرچار کرنا تھا ۔
پورے مکی دور میں اورہجرت کے بعد ابتدائی 2 سالوں تک مسلمانوں کو دفاعی قتال کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بعد جب اللہ تعالی نے مسلمانوں پر فضل فرمایا تو باقائدہ انہیں اجازت دی گئی کہ جو تم سے لڑے تم بھی ان سے لڑو۔ 5 اس اجازت کے ملنے کے بعدرسول اللہ نے سرایہ وغزوات کا آغازفرمایا جس میں یکے بعد دیگرے کئی سرایہ ہوئے جس میں سے سریہ حمزہ ،سریہ عبیدہ بن حارث ،سریہ سعد بن مالک اور غزوہ بواط شامل تھے ۔ غزوہ ودان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں قریش کے تجارتی قافلے پر رعب داری کے علاوہ ایک مقصد یہ بھی شامل تھا کہ قبیلہ بنو ضمرہ کو اعتماد میں لیا جائے۔ جمادی الاولی کے آخر یا جمادی الآخر کے شروع میں آپ کو قریش کے قافلے کے بارے میں معلوم ہوا کہ شام کی طرف تجارت کی غرض سے جانے والا ہے۔ آپ 150 صحابہ کرام کے ساتھ اس کے تعاقب میں نکلے اور جب عشیرہ کے مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ قافلہ نکل چکا ہے۔ آپ نے وہاں تقریبا ایک ماہ قیام کیا اور وہاں کے آس پاس کے قبائل بنو مدلج اور بنی ضمرہ سے تعلقات استوار فرمائے۔ 6 اس طرح کے تمام غزوات سے مقصد قریش مکہ کو پیغام دینا تھا کہ مسلمان اب اپنی عسکری قوت مضبوط کرچکے ہیں۔
آپ نے اس قافلےکی اہمیت کے پیش نظر اس سے متعلقہ معلومات لانے کےلیے حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور سعید بن زید کو شمالی جانب بھیجا ہوا تھاتا کہ وہ قافلہ کی واپسی آمد کی بر وقت خبر دے سکیں۔ وہ دونوں صحابہ کرام ”حوراء“پہنچ کر جو رستے میں موجود ایک اہم جگہ تھی، ٹھہرگئے۔ جب قافلہ وہاں سے گذرا تو انہوں نے جلدی سے رسول اللہ کو اسکے حوالے سے آگا ہ کیا ۔ 7 یہ ایک عظیم قافلہ تھا جس میں ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار دینارکی مالیت سے زیادہ کا مال موجود تھا جس کی قیمت آج کروڑوں میں بنتی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے 70 مرد الگ سے قافلے کے ساتھ تھے ۔ 8 جب آپ کو قافلے کی واپسی کی خبر ملی توآپ نے سب مسلمانوں کو جمع کیا اور ان کو قافلہ کے بارے میں بتایا اور فرمایا :
هذه عير لقريش فيها أموال فأخرجوا إليها، لعل اللّٰه أن ينفلكموها. 9
یہ قریش کاقافلہ ہے جس میں ان کا مال وزر ہے۔ اس کے تعاقب میں نکلو۔ شاید اللہ تعالی اس کے ذریعے تمہیں مال غنیمت عطا فرمائے۔
ابو سفیان جو تجارتی قافلہ کا سربراہ تھا وہ بھی حالات و واقعات پر برابر نظر رکھے ہوئے تھا۔ بدر کے قریب پہنچ کر اس نے قافلہ وہیں روکا اورپہلے خود اکیلےآگے گیا تاکہ معلومات حاصل کر سکے۔ بدر کے پاس اس کو مجدی بن عمرو ملا۔ ابو سفیان نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہاں کوئی مشکوک لوگ دیکھے ہیں؟ وہ کہنے لگا ایسا تو کچھ نہیں دیکھا البتہ دو آدمی یہاں آئے تھے، انہوں نےیہاں سے پانی بھر ااور واپس چلے گئے ۔ ابو سفیان جو نہایت ذیرک تھا، فوراً اٹھا اور ان کے اونٹوں کے بٹھانے کی جگہ پر گیا۔ وہاں اسنےاونٹوں کے لیدنوں کواٹھا کر ان کو پھوڑا جس میں سے کھجوروں کی گٹھلیاں نکلیں۔ ان کو دیکھتے ہی اس نے کہا کہ یہ تو مدینہ کا چارہ ہے۔یقینا یہ مدینہ والوں کے جاسوس ہوں گے۔ یہ کہ کر وہ فوراً واپس ہوا اور قافلہ کو لیکر ساحل سمندر کی طرف نکل گیا۔ 10 اس نے فوراً ہی ضمضم بن عمرو غفاری کو 20 مثقال اجرت دےکر مکہ مکرمہ روانہ کیا اور تاکید کی کہ وہ وہاں جاکر حسب رواج اپنی قمیص پھاڑ کر دہشت زدہ انداز میں مکہ میں اعلان کرے کہ تم محمد () سے اپنے اموال بچاؤ ۔ 11
اس خبر کے ملتے ہی قریش نے زور و شور سے تیاریاں شروع کردیں اور کہنے لگے کہ محمد()یہ سمجھتا ہے کہ یہ قافلہ بھی ابن حضرمی کے قافلے جیسا ہوگا جس کو انہوں نے پا لیا تھا۔ عنقریب ان کو پتہ چل جائے گا کہ یہ اس طرح کا قافلہ نہیں ہے۔تین دن میں انہوں نے تیاری مکمل کر لی۔ مکہ میں جو کوئی بھی تھا یا تو وہ خود نکلا یا اپنی جگہ کسی کو تیار کیا۔ اشعار پڑھ کر لوگوں کو جنگ پر ابھارا گیا اور سرداروں نے جنگ کے لئےخوب مال جمع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے گانے والی باندیاں اور ڈھول وغیرہ بھی ساتھ لیے تاکہ دوران جنگ وہ اپنے گیتوں سے جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکا تی رہیں۔نکلتے وقت انہوں نے اپنے مخالف قبیلہ بنو بکر سے خطرہ محسوس کیا کہ کہیں وہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں پر حملہ نہ کردیں لیکن شیطان ان کے پاس سراقہ بن مالک کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ اس چیز سے تم بے فکر ہو جاؤ کہ وہ لوگ تم پر حملہ کریں گے۔ قرآن میں اس کا جھوٹ ان الفاظ میں واضح کیاگیا ہے:
وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكُمْ إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ 48 12
اور جب شیطان نے ان (کافروں) کے لئے ان کے اَعمال خوش نما کر دکھائے اور اس نے (ان سے) کہا: آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں (ہو سکتا) اور بیشک میں تمہیں پناہ دینے والا (مددگار) ہوں۔ پھر جب دونوں فوجوں نے ایک دوسرے کو (مقابل) دیکھ لیا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور کہنے لگا: بیشک میں تم سے بے زار ہوں، یقیناً میں وہ (کچھ) دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
ابلیس کی تسلی سن کر انہیں حوصلہ ملااور وہ جلدی سے اپنا لشکر لے کرنکلے۔ جب یہ لشکر ”مرالظہران “پہنچا تو ابو جہل نے لشکر کےلیے 10 اونٹ ذبح کیے۔ اگلے دن امیہ بن خلف نے ”عسفان“ میں9 اونٹ ذبح کئے۔ ”قدید“پہنچ کر سہیل بن عمرو نے 10 اونٹ ذبح کیے۔ وہاں سے کوچ کر کے ساحل سمند ر پہنچے تو وہاں منبہ نے10 اونٹ ذبح کیے اور ”جحفہ“ کے مقام پر رات کے وقت پڑاؤ کیا۔ 13
رمضان المبارک کی 8 تاریخ کو رسول اللہ نے لوگوں کو جمع کیا اور انکوقافلہ کے متعلق آگاہ فرمایا۔ مدینہ منورہ کے دینی امور کے انجام دہی کےلیے عبداللہ ابن ام مکتوم کو نائب بنایا اور باقی انتظامی امور پر ابو لبابہ کو ذمہ دار بنایا۔ 14 دیگر افراد جن کی تعداد 313 سے 319 کے درمیان تھی، ان کو لیکرآپ قافلہ کے تعاقب میں مدینہ منورہ سے نکلنےاور نقب المدینہ، عقیق، ذوالحلیفہ، ذات الجیش، تربان، ملل، عمیس الحمائم، صخیرات الیمام، سیالہ، روحاء اور شنوکہ سے ہوتے ہوئے عراق الظبیۃ پہنچے۔ ایک دیہاتی سے قافلہ کے بارے میں پوچھا اس نےآپ کو کچھ نہیں بتایا۔ 15 وہاں سے آپ نے دو خبر رساں بسبس بن عمرو اور عدی بن ابو زغباء کو روانہ کیا۔ یہ دونوں بدر کے مقام پر پہنچے اور وہاں دو باندیوں سے قافلہ کے بارے میں سنا اور واپس رسول اللہ کی طرف چل دیے۔ 16 اور وادی دفران پہنچ کر قیام کیا۔ اسی جگہ آپ کو قافلہ ءِابو سفیان اور اہل مکہ کے نکلنے کی اطلاع ملی۔ مکہ سے آنے والے لشکر کی خبر سن کر آپ نے تمام صحابہ کرام کو جمع کیا اورمشورہ لیاکہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ 17 قرآن اس صورت حال کا تذکرہ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے :
وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ 7 18
اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کی) جڑ کاٹ دے۔
سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر اُٹھے اور ایمان افروزگفتگوفرمائی۔ پھر حضرت عمر اُٹھےاور اپنے جذبہ جاں نثاری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ پھر مقداد بن عمرو اُٹھے، انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! تشریف لے چلیے جدھر اللہ نے آپ کوحکم دیا ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بخدا! ہم آپ کو وہ جواب نہیں دیں گے جو جواب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو دیا تھا کہ:
اذهب أنت وربك فقاتلا إنا ها هنا قاعدون، ولكن اذهب أنت وربك فقاتلا إنا معكما مقاتلون، فو الذى بعثك بالحق لو سرت بنا إلى برك الغماد لجالدنا معك من دونه حتى تبلغه. 19
جائیے آپ اور آپ کا خدا اور ان سے جنگ کیجیے! ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ہم یہ کہیں گے: تشریف لے چلیے اور جنگ کیجیے ! ہم آپ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں گے۔
انکے بعد حضرت سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: یا رسول اللہ! آپ تشریف لے چلیے جدھر آپ کا ارادہ ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے! اگر آپ ہمیں سمندر کے سامنے لے جائیں اور خوداس میں داخل ہوجائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگادیں گے، ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم اس بات کو ناپسند نہیں کرتے اگر آپ کل ہی دشمن کا مقابلہ کریں۔ ہم جنگ کے گھمسان میں صبر کرنے والے ہیں اور دشمن سے مقابلہ کے وقت سچے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہم سے وہ کارنامے دکھلائے گا جس سے آپ کی چشم مبارک ٹھنڈ ی ہوجائے گی۔ پس اللہ کے حکم سے آپ روانہ ہوجایے۔
جب صحابہ کرام نے ان اصحاب کی آراء سنیں تو تمام صحابہ کرام کی رائے بھی وہی بن گئی جو ان کی رائے تھی۔ 20 پھر آپ نے فرمایا: تمہیں خوشخبری ہو، اللہ تعالیٰ نے مجھے دو گروہوں میں سے ایک گروہ پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ بخدا! میں قوم کے مقتولوں کی قتل گاہوں کو دیکھ رہا ہوں۔ 21
مسلمانوں کے لشکر کا عَلَم آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کو دیا جس کا رنگ سفید تھا۔ اس کے علاوہ دو کالے جھنڈے تھے۔ ایک آپ نے حضرت علی کو دوسرا ایک انصاری صحابی کو دیا ۔سامانِ جنگ میں 70 اونٹ تھے جن پر تین یا چار لوگ باری باری سواری کرتے تھے۔ آپ کے ساتھ حضرت علی اور مرثدبن ابی مرثد غنوی ایک اونٹ میں شریک تھے 22جس پر وہ بھی باری باری سفر فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ 2گھوڑے تھے جن میں سے ایک مقداد بن اسود کے پاس تھا اور دوسرا حضرت زبیر بن عوام کے پاس تھا ۔23 اس بے سروسامانی کے عالم میں صحابہ کرام نے جو اپنے ایمانی جذبات کا اظہار فرمایا وہ قابل دید تھا۔
ذفران کے علاقےسے آپ لشکر کے ساتھ چلے اور بدر کے قریب پڑاؤ کیا۔باقی قافلہ کو وہاں چھوڑ کر آپ نے حضرت ابوبکر کو ساتھ لیا اورقافلہ کے بارے میں معلومات لینے نکلے۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک عمر رسیدہ شخص سےہوئی۔ آپ نے اس سے ابو سفیان کے قافلہ کے بارے میں اوراس کو جانچنے کےلیے خودمحمد () اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا ۔ اسنے کہا کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ محمد() اور ان کے ساتھی فلاں دن نکلے ہیں، اگر یہ بات درست ہےتو آج وہ فلاں مقام پر ہوں گے۔ اس نے وہی جگہ بتائی جس جگہ آپ نے پڑاؤ کیا ہوا تھا ۔ پھر اس نے قریش کے بارے میں کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ وہ فلاں دن نکلے ہیں اگر یہ خبر درست ہے تو آج وہ فلاں مقام پر ہوں گے، اور اس نے وہی جگہ بتائی جس جگہ قریش ٹھہرے ہوئے تھے ۔
شام کے وقت آپ نے حضرت علی ، زبیر بن عوام ، سعد بن ابی وقاص اور مزید کچھ صحابہ کرام کو بدرکی طرف خبر لانے کےلیے بھیجا۔ وہاں ان کو دو غلام ملے۔ یہ حضرات ان کو پکڑ کر لے آئے ۔ اس وقت آپ نماز ادا فرما رہے تھے۔ رسول اللہ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے ان سے قریش کے پڑاؤ کے متعلق پوچھا کہ وہ لوگ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ اس ٹیلے کے پیچھے ہیں۔آپ نے پوچھا کہ وہ کتنےاونٹ روز انہ ذبح کرتے ہیں؟ کہنے لگے ایک دن 9 اور ایک دن10۔ آپ نے یہ سن کر اندازہ لگایا کہ وہ 950 سے 1000کے درمیان ہیں۔ پھر آپ نے اس سے قریش کے سرداروں کے متعلق پوچھا کہ کون کون ساتھ آیا ہے؟ انہوں نےان سرداروں کے نام گنوائے۔ آپ نے ان سرداروں کے نام سن کر فرمایا کہ مکہ والوں نے اپنے چنیدہ اور شرف والے لوگ تمہاری طرف بھیجے ہیں ۔ 24
قریش نے سب سرداروں کو نکلنے پر غیرت دلائی اور اس کے علاوہ جو تیاری ان سے تین دن میں ہوسکی انہوں نے کی۔امیہ بن ابی صلت نے اشعار کےذریعہ سے لوگوں کو ابھارا۔ عبدللہ بن ابی ربیعہ نے 500 دینار کا اعلان کیا اور اسلحہ بھی دیا،طعیمہ نے 20اونٹ دیے ۔ 25 جب لشکر تیار ہوا تو وہ ساز وسامان اور افرادی قوت کے اعتبار سے ایک بڑا لشکر تھا جس میں 950 سے 1000 کے درمیان افراد شامل تھے۔ 100 گھوڑے تھے، 70اونٹ تھےاور 600 کے قریب جنگی لباس تھے ۔26 اس قدر جنگی ساز وسامان کے باوجود بھی کفار کے لشکر میں ٹوٹ پھوٹ تھی اور حوصلے پست تھے۔ اسکی 3 بڑی وجوہات تھیں:
یہ وہ اندرونی اختلافات تھے جنہوں نے لشکرِ کفار کے قدم جمنے سے روک دیے تھے۔ اسی وجہ سے وہ قتل ہوئے اور بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔ یہی وجہ تھی کہ کفار کی لشکر میں سے کچھ لوگ اس بات پر متفق ہوئے کہ ہم جنگ کیے بغیر ہی واپس چلتے ہیں کیوں کہ ہمیں سراسر اس جنگ میں نقصان ہی کا اندیشہ ہے ،یہی قرار داد لے کر وہ ابو جہل کے پاس گئے اور اس سے اس سلسلے میں بات کی تو ابو جہل نے ان کو سخت بزدلی کے طعنے دیے اور عامر بن حضرمی ( جس کا بھائی غزوہ عشیرہ میں مارا گیا تھا) اس کے پاس جاکر اس کو غیرت دلائی کہ تمہارے بھائی کا بدلہ نہیں لیا جارہا ،وہ یہ سن کر چلانے لگا اور لشکر میں دوبارہ سے جنگ کی آگ بھڑک گئی۔ 29
رسول اللہ جب صحابہ کرام سے مشورہ کرچکے تو آپ نے بدر کے قریب ایک اونچی جگہ پانی کے قریب پڑاؤ کیا ،جہاں آپ کے پاس ایک صحابی حباب بن منذر تشریف لائے اور آپ سے با ادب استفسار فرمایا کہ: اے اللہ کے رسول ! اس جگہ پر ٹھہرنے کا حکم اللہ تعالی کی طرف سے ہے یا یہ جنگی چال ہے جو تبدیل کی جا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ جنگی چال ہے جو تبدیل کی جا سکتی ہے ۔ یہ سن کر وہ فرمانے لگے، یارسول اللہ ! اگر ہم جنگی حکمت عملی کے طور پر اس سے آگے پیچھے ہوسکتے ہیں تو آپ یہاں سے تشریف لے چلیے۔ ہم آگے بڑھ کر وہاں تک جا پہنچتے ہیں کہ یہاں کے سارے کنویں ہمارے عقب میں چلے جائیں۔ ہم باقی کنوؤں کو بند کرکے صرف ایک کنؤاں کھولے رکھیں گے اور اسکا پانی نیچے کی جانب ایک حوض میں جمع کرلیں گےتاکہ پانی سے ہم ہی مستفید ہوسکیں اور دشمن پانی کی سہولت سے محروم رہے ۔ یہ سن کر آپ نے ان کی رائے کی تعریف کی اور اسی کے مطابق عمل کیا ۔ 30 اس کے بعد تمام کنوؤں کو پاٹ دیا گیا اور ایک کنوئیں کو حوض بنالیا گیا۔ اسی طرح جنگی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے آپ نے اونٹوں کے گلوں سے گھنٹیاں بھی اتروا دیں تاکہ لشکر کی نقل وحرکت سے کفار بے خبر رہیں۔ 31
قرآن کریم میں اس نقشہ کو یوں بیان کیا گیا ہے :
إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ 42 32
جب تم (مدینہ کی جانب) وادی کے قریبی کنارے پر تھے اور وہ (کفّار دوسری جانب) دور والے کنارے پر تھے اور (تجارتی) قافلہ تم سے نیچے تھا، اور اگر تم آپس میں (جنگ کے لئے) کوئی وعدہ کر لیتے تو ضرور (اپنے) وعدہ سے مختلف (وقتوں میں) پہنچتے لیکن (اللہ نے تمہیں بغیر وعدہ ایک ہی وقت پر جمع فرما دیا) یہ اس لئے (ہوا) کہ اللہ اس کام کو پورا فرما دے جو ہو کر رہنے والا تھا تاکہ جس شخص کو مرنا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے مرے اور جسے جینا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے جئے (یعنی ہر کسی کے سامنے اسلام اور رسول برحق کی صداقت پر حجت قائم ہو جائے)، اور بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
اسی طرح جو نیچے کی طرف کا حصہ تھا اس کی زمین ہموار تھی اور اللہ تعالی کی مدد ونصرت سے وہاں بارش بھی ہوئی جس سے مسلمانوں کے قد م اور مضبوط ہوگئے جب کہ کفار جس جانب تھے وہاں ان کے قدم کیچڑ کی وجہ سے دھنسنے لگے جس کی وجہ سے ان کو شدید مشکلات اور تھکاوٹ کا سامناکرنا پڑا۔ 33 اسی طرح میدان جنگ کی ایک حکمت عملی آپ نے یہ بھی اپنائی کہ آپ نے اپنے لشکر کا رخ مغرب کی طرف اور سورج کو پیٹھ کی طرف رکھاتاکہ جب سورج طلوع ہو تو شعاوؤں سے مسلمان لشکر متاثر نہ ہو ۔ جبکہ کفار کے لشکر کا رخ مشرق کی جانب تھا 34 جہاں سے سورج براہ راست ان کی آنکھوں پر پڑ رہا تھا۔
اسی طرح جنگ شروع ہونے سے قبل مسلمانوں پر اللہ تعالی کی طرف سے اس قدر سکینہ نازل ہوا کہ ان کو نیند کے جھونکے آنے لگے ،اور کفار کی حالت یہ تھی کہ گھوڑے کی ہنہناہٹ پر بھی وہ ایک دم کانپ جاتے تھے ۔مسلمان رات کو اس قدر اطمینان سے سوئے کہ صبح کو اکثر کو غسل کی حاجت پیش آئی۔ مسلمانوں پر یہ حالت شاق گزری تو اللہ تعالی نے ان پر آسمان سے بارش اتاری جس سے انہوں نے غسل بھی کیا، برتن بھی بھرے اور زمین بھی ان کےلیے نرم ہوگئی ۔ 35 قرآن کریم میں اللہ تعالی نے سکون کی اس کیفیت اور شیطان کے مکر کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ 11 36
جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے۔
بدر کے میدان میں اللہ تعالی نے رسول اللہ کو کفار کی تعداد کم دکھائی ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ 44 37
(وہ واقعہ یاد دلائیے) جب آپ کو اللہ نے آپ کے خواب میں ان کافروں (کے لشکر) کو تھوڑ ا کر کے دکھایا تھا اور اگر (اللہ) آپ کو وہ زیادہ کر کے دکھاتا تو (اے مسلمانو!) تم ہمت ہار جاتے اور تم یقیناً اس (جنگ کے) معاملے میں باہم جھگڑنے لگتے لیکن اللہ نے (مسلمانوں کو بزدلی اور باہمی نزاع سے) بچا لیا۔ بیشک وہ سینوں کی (چھپی) باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
رسول اللہ نے صحابہ کرام کواللہ تعالی کی اس مدد کے بارے میں بتایا تھا جس سے ان کے حوصلے بلند ہوگئے تھے۔
مسلمان جب بدر کے مقام پر اپنی جگہ کا انتخاب کر چکے تو حضرت سعد بن معاذ نے رسول اللہ سے فرمایا کہ کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک چھاؤنی بنائیں جس میں آپ قیام فرمائیں اور وہاں سے لشکر کی قیادت کریں ۔ اگر اللہ تعالی نے ہمیں غلبہ عطا فرمایا تو بہت اچھا اور اگر (خدانہ خواستہ ) ہم مغلوب ہوئے تو جو ہمارے پیچھے (مدینہ میں ) لوگ ہیں آپ ان سے جاملیں۔آپ نےیہ سن کر ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ پھر آپ کے لیے وہ چھاؤنی بنادی گئی جسے عریش بھی کہا گیا۔ آپ اس میں تشریف فرما ہوئے جہاں سے پورے میدان جنگ کا مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔ 38
مسلمان ایک دن قبل ہی میدان بدر میں آ پہنچے تھے۔ اس رات آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ میدان کا چکر لگایا اوران کو بشارت دی کہ یہ فلاں سردار کے قتل کی جگہ ہے اور یہ فلاں کی اور یہاں قریش کا فلاں سردار مارا جائے گا۔ راوی فرماتے ہیں اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، جو جو نشان آپ نے بتائے تھے ٹھیک اسی جگہ وہ کافر قتل ہوئے ۔ 39
اگلی صبح کو لشکر کفار جب میدان میں اترا تورسول اللہ نے ان کے ساز وسامان اور لاؤ لشکر کو دیکھ کر دعا فرمائی:
اللّٰهم هذه قريش قد أقبلت بخيلائها وفخرها تحادك وتكذب رسولك، اللّٰهم فأحنهم الغداة.
اے اللہ! یہ قریش اپنے تکبر اور فخر کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ۔اے اللہ اپنی وہ مدد بھیج جسکا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے،اے اللہ کل ان کو ہلاک فرما۔
جب لشکر قریش اپنے جگہ سنبھال چکا تو قریش کے کچھ لوگ رسول اللہ کے حوض پر پانی پینے آئے۔ ان میں حکیم بن حزام بھی تھے جو بدر کے دن بچ گئے تھے اور بعد میں اسلام لےآئے تھے۔ آپ نے ان لوگوں کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں پانی پینے دو، جو جو آج یہاں سےپانی پئے گا، کل مارا جائے گا سوائے حکیم بن حزام کے۔ 40
رسول اللہ نے لشکر کو جمع کیا اور سب کو اس معرکہ کی اہمیت بتائی اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا :
أما بعد فإني أحثّكم على ما حثّكم اللّٰه عز وجل عليه وأنهاكم عمّا نهاكم اللّٰه عز وجل عنه، فإن اللّٰه عز وجل عظيم شأنه، يأمر بالحقّ، ويحبّ الصّدق، ويعطي على الخير أهله على منازلهم عنده، به يذكرون، وبه يتفاضلون، وإنكم قد أصبحتم بمنزل من منازل الحق... 41
میں تم سب کو اس چیز کی ترغیب دیتا ہوں جس کی ترغیب اللہ تعالی نے دی ہے۔اور اس چیز سے منع کرتا ہوں جس چیز سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے۔اللہ تعالی کی شان بلند وبرتر ہے، جو حق کا حکم دیتا ہے اور سچ کو پسند کرتا ہے، اور نیکی پر اپنے پاس سے درجات عطا فرماتا ہے۔ انہی مقامات کے ذریعہ سے تم یاد کیے جاؤ گے اور انہی کے ذریعہ سے تمہیں برتری ملے گی، اور اس وقت تم اللہ کے ہاں ایسے مقام پر ہو جو حق کا مقام ہے۔ یہ مقام اللہ تعالی صرف اسی سےقبول فرماتا ہے جو اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے،اور بے شک صبر جنگ کے موقعہ پرہی ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی غم کو دور فرماتا ہےاور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔اورتم اسی صبر پرآخرت میں بھی اجر کے مستحق بنو گے۔ تم میں اللہ کا نبی موجود ہے جو تمہیں (غلط بات سے) منع بھی کرتا ہے اور (نیک بات کا) حکم بھی دیتا ہے، لہذا آج کے دن بچو کہ کہیں اللہ تعالی تم سے ایسا کام نہ دیکھے جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنے ۔
اس کے بعد آپ نے چند جنگی اقدامات کیے جوآپ کی جنگی حکمت عملی پر مکمل دلالت کرتے ہیں ۔ آپ نے مسلمانوں کے لشکر کی صف بندی کی 42 جوکہ عربوں کےلیے ایک نئی چیز تھی۔ آپ نے سب سے پہلےتیر اندازوں کو رکھا تاکہ گھڑ سواروں کے حملوں کو روک سکیں۔اس کے بعد نیزہ بردار صف رکھی اور اس کے بعد تلوار برداروں کی۔ 43 حملہ کو روکنے اور ہتھیاروں کو احتیاط سے استعمال کرنےکے حوالے سے آپ نے لشکر سے فرمایا:
إذا أكثبوكم فارموهم، واستبقوا نبلكم. 44
جب کفار کا لشکر تمہارے قریب ہو تو ان پر تیر برساؤ، (کیونکہ دور سے تیر چلانے سے تیر لگے گا نہیں اور ضائع ہوگا )اور اپنے تیر بچا کر رکھو۔
تلوار بردار دستہ سے آپ نے فرمایا :
ولا تسلوا السيوف حتى يغشوكم. 45
اپنی تلواروں کو نہ سونتے رکھو (تاکہ ہاتھ نہ تھک جائیں ) جب تک دشمن تمہارے قریب نہ آجائیں۔
آپ جب صفیں درست فرما رہے تھے تو ایک صحابی حضرت سواد بن غزیہ صف سے تھوڑا آگےکی طرف نکلے ہوئے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ صحابہ کرام کی صفحیں درست کروارہے تھے۔ آپ نے جب ان کو صف سے آگے نکلے ہوئے دیکھا تو پیٹ میں ہلکا سا کچوکا لگاکر فرمایا:
استو يا سواد، فقال يا رسول اللّٰه !أوجعتني وقد بعثك اللّٰه بالحق والعدل قال "فأقدني" فكشف رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن بطنه وقال استقد قال فاعتنقه فقبل بطنه فقال "ما حملك على هذا يا سواد "؟ قال يا رسول اللّٰه !حضر ما ترى، فأردت أن يكون آخر العهد بك أن يمس جلدي جلدك فدعا له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بخير . 46
اے سواد صف درست کرو۔ وہ فرمانے لگے یارسول آپ نے مجھے تکلیف دی ہے ۔جبکہ اللہ تعالی نے آپ کو حق اور عدل کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔ مجھے اس کا بدلہ چاہیے۔ آپ نے (فورا) پیٹ سے کپڑا ہٹا کر فرمایا :بدلہ لے لو۔ وہ فورا لپک کر آپ سے چمٹ گئے اور آپ کے(بدن مبارک کے) بوسے لینے لگے ۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ تووہ کہنے لگے، یارسول اللہ ! جنگ کی حالت ہے۔ میں نے یہ چاہا کہ میرا آخری کام یہ ہوکہ میرا جسم آپ کے جسم مبارک کو چھو لے۔ آپ نے ان کےلیے خیر کی دعا فرمائی ۔
یہ وہ جانثاری تھی جو مسلمانوں کے صف میں موجود ہر جانثار کے دل میں موجود تھی جو آپ پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھے ۔
ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ کفار کے لشکر سے ایک شخص اسود بن عبد الاسد مخزومی نکلا جو انتہائی بد اخلاق اور شریر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں مسلمانوں کے حوض سے پانی پیئوں گا یا اس کو خراب کروں گا ورنہ اس کوشش میں مارا جاؤں گا ۔ جب وہ نکلا تو مسلمانوں کے لشکر سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نکلے۔ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو حضرت حمزہ نے اس کے پاؤں پر حملہ کر کے اس کی نصف پنڈلی کاٹ دی جس سے خون کا فوارہ نکل کر کفار کے لشکر کی طرف بہہ پڑا۔ پھر بھی وہ حوض کی طرف مڑا اور اس کے قریب ہوگیا تانکہ اپنا ارادہ اور قسم پوری کرسکے۔ حضرت حمزہ نے دوسرا وار کرکے اس کو واصل بجہنم کردیا ۔ 47
اسود مخزومی کے قتل ہونے کے بعد کفار کے لشکر سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ نکلے اور مسلمانوں کو مقابلہ کےلیے للکارا۔ ان کے مقابلہ کےلیے انصار کے تین لوگ نکلے، حضرت عوف ،حضرت معاذ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم کون لوگ ہو؟ یہ حضرات کہنے لگے، ہم انصار میں سے ہیں۔ اس کے جواب میں عتبہ وغیرہ کہنے لگے کہ ہمارا تم سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ ہمارے مقابلے میں ہمارے برابر کے لوگ جو ہماری قوم سے ہیں وہ آئیں ۔تو ان کے مقابلہ میں آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن حارث،حضرت حمزہ اور حضرت علی کو روانہ فرمایا۔ جب یہ تینوں آگے بڑہے تو وہ دور سے دیکھ کر کہنے لگےکہ تم کون لوگ ہو؟ کیونکہ انہوں نے زرہیں پہنی ہوئی تھیں اسلئے وہ ان کو پہچان نہ سکے۔جب انہوں نے اپنے نام بتائے تو وہ کہنے لگے کہ اب ہمارا برابر کے لوگوں سے واسطہ پڑاہے۔پھر مقابلہ شروع ہوا تو حضرت عبیدہ نے عتبہ پر،حضرت حمزہ نے شیبہ پر اور حضرت علی نے ولید پر حملہ کیا ۔ حضرت حمزہ اور حضرت علی نے اپنے مقابل کو جلد انجام تک پہنچا دیا البتہ حضر ت عبیدہ اور عتبہ میں لڑائی چلتی رہی۔ دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیے، جس سے حضرت عبیدہ کی ٹانگ کٹ گئی ۔یہ دیکھ کر حضرت علی وحمزہ نے ولید پر حملہ کیا اور اس کا کام تمام کردیا ۔حضرت عبیدہ کا زخم کافی گہرا تھا جس سے ان کی شہادت ہو گئی۔ 48
ابھی یہ دو مقابلے ہوئے تھے اور عام حملہ نہیں ہوا تھا۔ آپ صفوں کو درست کرنے کے بعد عریش پر آگئے جو آپ کے لیے بنایا گیا تھا۔آپ کےپاس اس وقت صرف حضرت ابو بکرصدیق تھے۔ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگے:
اللهم إن تهلك هذه العصابة الیوم لا تعبد في الأرض أبدا.
اےاللہ! آج اگر یہ جماعت ختم ہوگئی تو زمین پر پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔
حضرت ابو بکر صدیق نے جب اس طرح آپ کو دعا فرماتے دیکھا تو عرض کی: یارسول اللہ آپ کی یہ مناجات اللہ پاک نے سن لی۔ اللہ پاک اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے ان شاءاللہ۔ 49 اسی مناجات سے متعلق آپ پر یہ آیت نازل ہوئی:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ 9 50
(وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لئے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔
پھر آپ نے چند گھڑیاں آنکھیں بند فرمائیں اور پھر ابو بکر صدیق کو خوشخبری دی کہ میں جبرئیل کو دیکھ رہا ہوں جو زرد عمامہ ٹکائے گھوڑے کی لگام تھامے ہماری مدد کو اتر رہے ہیں۔ 51
جب فرشتوں کے اتارے جانےکی خوشخبری آپ کو ملی تو آپ اپنی چھاؤنی سے باہر تشریف لائے۔ اس وقت آپ نے زِرہ پہن رکھی تھی۔ اس وقت آپ نے پھر سے صحابہ کرام کو جہاد کی ترغیب دی اور انہیں جنت کی خوشخبری دی۔ جب آپ نے یہ فرمایا:
قوموا إلى جنة عرضها السموات والأرض.
چلو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان وزمیں کی طرح ہے۔
تو اس وقت عمیر بن حمام کے ہاتھ میں کھجوریں تھیں اور وہ ان کو کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سن کر آپ کہنے لگے: واہ واہ یارسول اللہ ! اتنی بڑی جنت۔ آپ نے فرمایا: ہاں ۔ عمیر بن حمام نے یہ جواب سنا تو فرمایا: میرے اور جنت کے درمیان یہ زندگی حائل ہے، اگر کھجور کھاتا رہا تو کافی وقت ضائع ہو جائےگا۔ یہ کہہ کر آپ نےکھجور یں پھینکیں اور تلوار اٹھا لی یہاں تک کے دشمن سے لڑتےلڑتے جام شہادت نوش فرمالیا ۔ 52
ایک اور صحابی حضرت عوف بن حارث کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے رسول اللہ سے پوچھا کہ اللہ تعالی کب اپنے بندے پر مسکراتا ہے؟ آپ نے فرمایا:
غمسه يده في العدو حاسرا.
جب بندہ بغیر جنگی لباس کےدشمن پر ہاتھ ڈال دے ۔
انہوں نے یہ سن کر اپنی زِرہ اتاری اور میدان میں اتر گئے یہاں تک کے دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ 53
ابو جہل جو کہ اس امت کا فرعون تھا ، اس کو اللہ تعالی نے دو کمسن بچوں معاذ ابن عمرو اور معوذ ابن عفرا کے ہاتھوں قتل کرایا۔ یہ دونوں سگے بھائی تھے لیکن ایک کی نسبت انکے والد اور دوسرے کی انکی والدہ کی طرف کی جاتی تھی۔ ان دونوں نے ابو جہل پر حملہ کیا اور گھوڑے سے گراکر ادہ مواہ کردیا ،اس کےعبداللہ بن مسعود نے اس کا سر کاٹ کر اس کا قصہ تمام کیا۔ 54 رسول اللہ کفار کی لاشوں کے پاس کھڑے تھے اور ابو جہل کی لاش کو تلاش کررہے تھے۔ جب اسکی لاش آپ کو نظرنہیں آئی توآپ نے دعا فرمائی کہ: اے اللہ! مجھے اس امت کے فرعون کے بارے میں کمزور نہ فرما نا۔ اس کے بعد لوگ اس کو تلاش کرنے لگے تو عبد اللہ بن مسعود نے اس کو پالیا ۔اور اس کا سر کاٹ کر رسول اللہ کے پاس لے آئے اور فرمانے لگے یارسول اللہ ! یہ اللہ کے دشمن ابو جہل کا سر ہے ۔آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے 5 سجدے شکر کے کیے ،اور اس کے بعد فرمایا :
اللّٰه أكبر، الحمد للّٰه الذي صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده. 55
اللہ اکبر ،تمام تعریفیں اس ذات کےلیے جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور لشکروں کو اکیلے شکست دی۔
امیہ بن خلف بھی سرداران قریش میں سے تھا اوراس کی عبدالرحمن بن عوف کے ساتھ اسلام سے پہلے کی دوستی تھی۔ بدر کے دن امیہ بن خلف نے عبدالرحمن بن عوف کو آواز لگائی اور کہا کہ ہمیں اپنے ساتھ لے جاؤ۔ عبدالرحمن بن عوف نے امیہ اور اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور انہیں جلدی جلدی میدان جنگ سے دور لے جانے لگے۔ اس اثنا میں حضرت بلال نےامیہ بن خلف کو دیکھ لیا۔ یہی امیہ بن خلف تھا جو حضرت بلال کو اسلام لانے پر سزائیں دیا کرتا تھا۔ حضرت بلال نے اسکو جاتے دیکھا تو زور سے آواز لگائی کہ یہ تو کفرکا سرغنہ امیہ بن خلف ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مدد کے لئےانصار کو آواز لگائی اور سب نے مل کر امیہ بن خلف کو قتل کردیا ۔ 56
اس کے بعد آپ نے کفار کو ایک گڑھے میں ڈال کر اس پر مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا۔پھر تیسرےدن آپ اس گڑھے کے پاس تشریف لائے اور ان سرداروں کے نام لے لے کر فرمایا : کیا تم نے وہ دیکھ لیا جو اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ فرمایا تھا؟ حضرت عمر نے عرض کی : یارسول اللہ !آپ بلا روح کے جسموں سے کیسے کلام فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا :
والذي نفس محمد بيده، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم. 57
قسم اس ذات كی جس كے دست قدرت میں محمد كی جان ہے! جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں تم اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔
قبیلہ بنو غفار کے دونوجوان، جنہوں نے کفار کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کی تھی صرف جنگ دیکھنے کی غرض سے وہاں ایک پہاڑ پر موجودتھے، انہوں نے میدان بدر میں فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پہاڑ پر بیٹھے تھے کہ پہاڑ کے قریب ایک بادل کا ٹکڑاآیا جس میں ایک قسم کی گرج تھی۔ اس میں سے ہم نے ایک گھڑسوار کی آواز سنی جو کہ رہا تھا ، اے حیزوم آگے بڑھ۔ جب میر ے ساتھی نے یہ آواز سنی تو خوف کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ قریب تھا کہ میں بھی مر جاتا پر میں بے ہوش ہوگیا ۔ 58 جنگ کی کیفیت یہ تھی کہ اس میں مسلمان کسی کافر کا پیچھا کرتا تو وہ ایک کوڑے کی آواز سنتا اور جب اس کے قریب جاتا تو اس کی ناک کو پھٹا ہواپاتا اور چہرے کونیلا پاتا۔ جب آپ کو اس کیفیت کا بتایا گیا تو آپ نے فرمایا! ہاں یہ اللہ کی مدد ہے ۔مسلمان اپنی تلوار کافر کے لیے اٹھاتے تو اس سےپہلے ہی اس کا سر الگ پڑا ہوتا تھا ۔فرشتوں کی مار کا اثر کفار کے چہرے اور جوڑوں پر پایا گیا ۔ 59 شیطان بدر کے میدان میں کفار کے ساتھ سراقہ بن مالک کی صورت میں آیا تھا اور مشرکین سے کہتا پھرتا تھا کہ آج کہ دن تم ہی غالب رہو گے، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ لیکن جب حضرت جبرئیل کو دیکھا تو فورا بھاگ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میں جو دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھ سکتے، اس لیے ان سے لڑنا میرے بس کی بات نہیں ۔ 60
بدر کے میدان میں صحابہ کرام نے بہادری وجانثاری کی ایک تاریخ رقم کی ۔حضرت عکاشہ بن محصن اس قدر زور سےدشمن پر وار کیے جارہے تھے کہ ان کی تلوار ہی ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہ کے پاس آئے اور آپ سے اپنی تلوار کے ٹوٹ جانے کی عرض کی۔ آپ نے ان کی بات سنی تو ان کو ایک ٹہنی دی اورارشادفرمایا:
قاتل بهذا يا عكاشة.
اے عکاشہ! اس سے دشمن کے ساتھ جنگ کرو۔
جب حضرت عکاشہ نے اس ٹہنی کو پکڑ کر ہوا میں لہرایا تو وہ تلوار بن گئی۔ آپ نے پورا معرکہ اس تلوار سے لڑا ۔اس تلوار کا نام آپ نے ''عون'' (مدد) رکھا۔پھر آپ شہادت تک ہر غزوہ میں اسی تلوار سےلڑتے رہے 61 جس پر کئی صحابہ کرام گواہ بنے۔
معرکہ بدر میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی۔ مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان کفارکے مقابلہ میں کم ہوا اور شان وشوکت میں بھی اضافہ ہوا۔ جبکہ کفار نے اس غزوہ میں اپنی عزت گنوانے کے ساتھ زبردست شکست اٹھائی اور کافی بھاری جانی ومالی نقصان کاسامنا کیا ۔ بدر کے میدان میں 70 کفار مقتول ہوئے اور 70 ہی قید ہوئے ۔ 62 اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کے شہداء کی تعداد صرف 14 تھی ۔جن میں6 انصار اور8 مہاجرین تھے۔ 63
لڑائی کے ختم ہونے پر آپ نے فورا واپسی نہیں کی بلکہ تین دن آپ نے وہاں قیام فرمایا ۔تیسرے دن آپ نے کوچ کرنے کا حکم فرمایا اور تمام لشکر آپ کے پیچھے روانہ ہوا۔ 64
رسول اللہ بدرسے لوٹے تو مقام صفراء پر آپ نے مال غنیمت تقسیم کرنے کا اعلان فرمایا ۔ مال غنیمت میں 150 اونٹ ، 10 گھوڑے، اسلحہ،کپڑے،چمڑے کے قالین اور کافی سامان تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا ۔ چونکہ یہ پہلا بڑا غزوہ تھا جس میں اس قدر مال غنیمت ملا تھا اس لئے اس کی تقسیم کا طریقہ کار صحابہ کرام کو معلوم نہیں تھا ۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے تقسیم غنیمت سے متعلق یہ آیت نازل فرمائی:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ 1 65
(اے نبئ مکرّم !) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول () ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول () کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو۔
اس کے بعد آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔66 اسی مقام پر آپ نے نضر بن حارث کو قتل کرنے کاحکم فرمایا اور جب آپ عرق الظبیہ پہنچے تو آپ نے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔67 وہاں سے آپ مدینہ منورہ کی طرف چلے اور قیدیوں سے پہلے مدینہ منورہ پہنچے۔جاتے ہوئے آپ نے قیدیوں کے بارےمیں فرمایا :
استوصوا بالأسرى خيرا.
قیدیوں کے بارے میں بہتری سے کام لینا۔
اور پھر قیدیوں نے خود اس بات کی گواہی دی کہ صحابہ کرام نے کیسے ان کا خیال رکھا۔ وہ خود بھوکے رہتے تھے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتےتھے ۔68
تمام لوگ جب قیدیوں سمیت مدینہ منورہ پہنچ چکے تو چند دن بعد آپ نے قیدیوں کے بارے میں مشورہ طلب فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق نے رائے دی:
يا رسول الله قومك وأهلك فاستبقهم واستأن بهم... 69
یارسول اللہ : یہ آپ کی قوم اور خاندان والے ہیں، ان کو باقی رکھیں اور ان کے ساتھ نرمی کریں ۔
آپ نے مزید فرمایا کہ ان سے فدیہ لیں تاکہ آپ مالی طور پر کفارکے خلاف مضبوط ہوجائیں اور ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کو اسلام لانے کی بھی توفیق عطا فرمادیں ۔پھر آپ نے حضرت عمر سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت عمر فرمانے لگے : یارسول اللہ ! میری رائے وہ نہیں جو ابو بکر کی رائےہے بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کریں ہم ان کی گردنیں اتار دیں۔ عقیل کو علی کے حوالہ کریں وہ اس کی گردن ماریں، مجھے میرا فلاں رشتہ دار حوالہ کریں میں اس کی گردن ماروں ۔یہ سارے کفر کے سرغنے اور ان کے بہادر لوگ ہیں۔ آپ نے دونوں کی رائےسنی تو قلبی نرمی اور گداز کے باعث حضرت ابو بکرصدیق کی رائے کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اگلے دن میں رسول اللہ کے پاس گیا تو رسول اکرم اور ابو بکر رو رہے تھے ۔ میں نے ان سے وجہ پوچھی تو رسول اللہ فرمانے لگے :
أبكي للذي عرض علي أصحابك من أخذهم الفداء، لقد عرض علي عذابهم أدنى من هذه الشجرة - شجرة قريبة من نبي اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم - وأنزل اللّٰه عز وجل: ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض. 70
میں اس مشورہ کی وجہ سے رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کا دیا تھا (اس فیصلہ کی وجہ سے) عذاب مجھے دکھایا گیا جو کہ اس درخت سے زیادہ قریب تھا ۔(جو درخت) رسول اللہ کے قریب تھا ۔ اور اللہ تعالی نےمجھ پر یہ آیت نازل فرمائی کہ: کسی نبی کو یہ سزاوار نہیں کہ اس کے لئے (کافر) قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں ان (حربی کافروں) کا اچھی طرح خون نہ بہا لے۔
بدر کے معرکہ میں جو70لوگ قید ہوئےوہ مالی حیثیت کے اعتبار سےمختلف تھے اس لیے فدیہ لیتے وقت کوئی ایک عدد مقرر نہیں کیا گیا بلکہ تعداد اور ادائیگی کے مختلف طریقوں کو اختیار کیا گیا۔ کچھ لوگ وہ تھےجن کے پاس مال نہیں تھا لیکن ہنر موجود تھا تو ان کا فدیہ وہ ہنر سکھانا ہی طے کیا گیا ۔جوقیدی پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان کا فدیہ دس دس بچوں کو مکمل لکھنا پڑھنا سکھاناطے کیا گیا۔ 71 کچھ وہ لوگ تھے جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، نہ فن، نہ مال، ان کو بلا فدیہ ہی چھوڑا گیا جیسا کہ مطلب بن حنطب،ابو عزہ جمحی اورصیفی بن عابد کے ساتھ کیا گیا یعنی ان تینوں کو بلا مال کے چھوڑا گیا ۔ 72 اس کے علاوہ جن لوگوں کے پاس مال تھا ان سے اچھی مقدار میں فدیہ لیا گیاجیسا کہ حضرت عباس سے تین افراد کا 1200 دینار فدیہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ نوفل سے 1000 نیزے فدیہ میں لیے گئے۔ ابو وداعہ نے اپنے والدکا4000 درہم فدیہ دیا۔ 73
مشرکین کو بدر میں اس بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ بھاگتے ہوئے وہ اپنے سرداروں کی میتیں بھی ساتھ نہ لے جاسکے اور وہیں مسلمانوں نے ایک گڑھے میں ان کو ڈال دیا۔مشرکین میں سے سب سے پہلے جو مکہ مکرمہ پہنچا وہ حیسان بن عبداللہ خزاعی تھا۔ جب وہ پہنچا تو وہاں موجود لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا حالات ہیں؟ وہ کہنے لگا: عتبہ مارا گیا ، شیبہ مارا گیا، ابو الحکم مارا گیا، ابوالبختری مارا گیا ، امیہ بن خلف مارا گیا، زمعہ بن اسود مارا گیا، نبیہ اور منبہ مارے گئے، ابو البختری بن ہشام مارا گیا ۔ جب وہ قریش کے مقتولین گِن رہا تھا تو صفوان بن امیہ سمجھا کہ شایدصدمہ سے اس کی عقل چلی گئی ہے اس لیے اس نے کہا کہ اگر اس کی عقل سلامت ہے تو اس سے میرے بارے میں پوچھو۔ اس سے پوچھا گیاتو کہنے لگا: یہ سامنے بیٹھا ہوا ہے ،میں نے اس کے باپ اور بھائی کو قتل ہوتے دیکھا ہے۔اس کے بعد سفیان بن مغیرہ سے پوچھا گیا کہ تم بتاؤ وہاں کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا: باخدا ہم ایسے لوگوں سے ملے جن کو ہم نےاپنے کندھوں پر سوار پایا۔ وہ ہمیں جہاں چاہتے موڑتے تھے، جیسے چاہتے تھے ہمیں قیدی بناتے تھے،اللہ کی قسم ایسے لوگ میں نے پہلے نہیں دیکھے۔ 74
جب مکہ میں کفار کی شکست کی خبرپھیلی تو عورتوں نے نوحے شروع کردئیے اور تقریبا ایک ماہ تک ان کی یہ کیفیت رہی۔ وہ اپنے بال نوچتیں اور جب بھی کسی مقتول کی سواری آتی تو اس کو دیکھ کر نوحہ کرنے لگتیں۔75 الأسود بن المطلب کے گھر کے تین لوگ زمعہ بن الأسود، عقيل بن الأسود، اور الحارث بن زمعہ مارے گئے تھے، اس کا رونے کا بہت زیادہ دل کر رہا تھالیکن وہ اجتماعی نوحے کا انتظار کررہا تھا۔ ایک رات اس کو کسی کےرونے کی آواز آئی۔ وہ خود تو نابینا ہوچکا تھا اسلئے اپنے خادم سے کہنے لگا ذرا سن کر بتاؤ یہ آواز کیسی ہے؟ کیا یہ نوحے والے ہیں ؟ کیا قریش اپنے مرنے والوں پر رو رہے ہیں؟ تاکہ میں بھی زمعہ پر روؤں۔ میرا پیٹ (شدت غم سے)جل رہا ہے ۔غلام نے جھوٹ سے کام لیاا ورواپس آکر اس سےکہا کہ ایک عورت اپنے اونٹ کے گم ہونے پر رو رہی ہے 76 تانکہ یہ مزید ہلکان نہ ہو۔
غزوہ بدر اسلام کا فیصلہ کن معرکہ تھا جس کےذریعے سے اللہ تعالی نے مسلمانوں کی شان وشوکت اور سطوت میں بے پناہ اضافہ فرمایا۔قرآن کریم نے غزوہ بدر کو ”یوم الفرقان“ 77 کا نام دیا اس کے علاوہ بدر کے دن کو قرآن کریم نے بطشۃ الکبری 78 سے بھی تعبیر فرمایا۔ اس معرکہ سے مسلمانوں کو کئی پہلوؤں سے فیصلہ کن نتائج حاصل ہوئے جن میں سے چند ایک یہ ہیں :