غزوہ مؤتہ جس کوغزوہ جیش الامراء بھی کہا جاتا ہے 1 سن 8 ہجری کو مؤتہ کے مقام پر مسلمانوں اور رومی لشکر کے درمیان لڑی گئی۔ 2 اس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد تین ہزار3 اور رومی فوج تقریباً دولاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھی۔4 اس جنگ میں مسلمانوں کی قیادت حضرت زید بن حارثہ کر رہےتھے جبکہ ان کی شہادت کے بعد بالترتیب حضرت جعفر بن ابی طالب ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ 5 اور حضرت خالد بن ولید 6 نے کمان سنبھالی۔ کفّار کے لشکر کے ایک حصہ کی کمان شرحبیل بن عمروغسانی کے پاس تھی اور دوسرے حصہ کی قیادت ہرقل خود کر رہا تھا۔7 مسلمان جمعہ کے دن مدینہ منوّرہ سے روانہ ہوئے 8اور شام کے علاقے معان پہنچے۔ وہاں لشکر اسلام نے دو دن قیام کیا اور صورت حال کا جائزہ لیا، 9 پھر مؤتہ کے مقام پر جاکر کفّار کا مقابلہ کیا۔ یہ جنگ سات دن تک جاری رہی 10 اور بغیر کسی واضح نتیجہ کے ختم ہوئی۔11 تاہم تین ہزار مُسلمانوں کادو لاکھ کفّار کے مقابلے میں نہ صرف ثابت قدم رہنا بلکہ خاطر خواہ نقصان پہنچا کر سلامتی کے ساتھ لوٹ آنا کسی فتح سے کم نہیں تھا۔اس معرکہ میں مسلمانوں کی طرف سے12 مسلمان شہید ہوئے۔12
علامہ واقدی ، 13 ابن ہشام ، 14 بیہقی ،15 ابن حزم 16 ودیگر سیرت نگاروں نے اس معرکہ کا شمار غزوات میں کیا ہے اگرچہ کہ اس معرکہ میں حضور بنفس نفیس شریک نہیں تھے۔ اس معرکہ میں آپ کو جنگ کے احوال کی خبر معجزاتی طورپر لمحہ بہ لمحہ ملتی رہی۔ آپ منبر پر تشریف فرماتھے اور اللہ کے فضل سے معجزاتی طور پر معرکہ کارزار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےتھے۔ اس معجزے کی بنیاد پر اس معرکہ کو غزوہ کہا جاتا ہے گویا کہ حضور خود اس میں شریک تھے۔17 تاہم علّامہ زرقانی ، 18 ابن کثیر 19 اور ابراہیم حلبی 20 نے اس کوغزوہ کے ساتھ سرایا کے طور پر بھی شمار کیا ہے۔
یہ معرکہ جمادی الاولیٰ، سن 8 ہجری21 بمطابق اگست یا ستمبر، 629 عیسوی 22 کو مؤتہ کے مقام پر وقوع پذیر ہوا۔ مؤتہ ملکِ شام کی حدود میں واقع بلقاء نامی جگہ کی ایک بستی تھی23 جو بیت المقدس سے دو دن کی مسافت پر واقع تھی۔ 24
حضورنبی کریم نے حارث بن عمیر ازدی کو خط دےکر بصریٰ کے امیر حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس پہنچانے کے لیے بطور قاصد روانہ کیا۔ 25 جب حارث بن عمیر مؤتہ کے مقام پر پہنچےتو وہاں ان کا سامنا شرحبیل بن عمرو غسانی سے ہواجو شاہ روم قیصر کی طرف سے شام کے امراء میں سےتھا۔ 26 جب اسے حضرت حارث بن عمیر ازدی کے شام جانے اور امیرِ بصریٰ کو حضور کا خط پہنچانے کی خبر ہوئی تو اس نے حضرت حارث بن عمیر ازدی کو گرفتار کیا اور انہیں بے دردی سے شہید کردیا۔ رسول اللہ کے یہ واحد قاصد تھے جنہیں شہید کیا گیا۔ جب یہ اطلاع رسول اللہ کو پہنچی تو آپ کو شدید دکھ ہوا کیونکہ حضرت حارث بن عمیر ازدی حضور کے قاصد تھے اور قاصد کا قتل دنیا کے کسی بھی قانون میں روا نہیں تھا چنانچہ آپ نے صحابہ کرام کو اس واقعہ سے مطلع فرمایااور قصاص لینے کے لیے غزوہ کی تیاری کاحکم دیا۔ 27
صحابہ کرام روانگی سے قبل مقام جرف میں جمع ہوئے۔ جرف مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک مقام تھا۔ ظہر کے وقت حضور تشریف لائے۔ صحابہ کرام کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپ تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا:
زيد بن حارثة أمير الناس، فإن قتل زيد بن حارثة فجعفر بن أبي طالب، فإن أصيب جعفر فعبد اللّٰه بن رواحة، فإن أصيب عبد اللّٰه بن رواحة فليرتض المسلمون بينهم رجلا فليجعلوه عليهم. 28
زید بن حارثہ لوگوں کے امیر ہوں گے، اگر وہ جام شہادت نوش کرلیں تو جعفربن ابی طالب اور اگر وہ بھی تمغہ شہادت سے سرفراز ہوں ، تب عبد اللہ بن رواحہ لشکر کے امیر ہوں گےاور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو پھر مسلمان آپس میں سے جس پر راضی ہوں ان کو امیر بنا لیں ۔
اس موقع پر وہاں ایک یہودی نعمان بن فنحص بھی یہ باتیں سن رہا تھا۔ وہ حضور کو ان کی کنیت ابا القاسم سے مخاطب کر کے عرض گزار ہوا کہ اگر آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں تو امارت کے سلسلے میں آپ نے جن حضرات کا نام لیکر تقرر فرمایاہے وہ سب اللہ کی راہ میں شہید ہوں گے،کیونکہ بنی اسرائیل کے انبیاء جب کسی کو لشکر کا امیر بناتے اور پھر ساتھ یہ کہہ دیتے کہ "اگر یہ شہید ہوجائیں" خواہ وہ سو حضرات ہی کیوں نہ ہوں وہ سب شہادت کا درجہ پا لیتے تھے۔پھر اس یہودی نے زید بن حارثہ سے کہا کہ اگر حضور اللہ کے سچے نبی ہے تو تم کبھی واپس نہیں لوٹو گےجس پر حضرت زید بن حارثہ نےجم کر جواب دیا کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے اورپکے نبی ہیں۔ 29
حضور نے ایک سفید جھنڈا باندھ کر حضرت زید بن حارثہ کے حوالہ کیا اور وصیت فرمائی کہ مؤتہ کے مقام پر جائیں جہاں حضرت حارث بن عمیر (قاصد) کو شہید کیا گیا تھا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں ۔اگر وہ قبول کرلیں تو انہیں امن میں رہنے دیں اور اگر قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت طلب کر کے ان سے جہاد کریں۔ 30 پھر حضور بنفس نفیس لشکر کو رخصت کرنے کے لیے”ثنیۃ الوداع“ تک تشریف لائے اور وہاں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا جسے تاریخ کے اوراق نے سنہری حروف میں اس طور پر محفوظ کیا کہ اس خطبہ کا ایک ایک لفظ اسلامی نظریہ جہاد کا زریں اصول ہے۔ علّامہ واقدی نے مذکورہ خطبہ کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے:
...فقال: اغزوا بسم اللّٰه، فقاتلوا عدو اللّٰه وعدوكم بالشام، وستجدون فيها رجالا في الصوامع معتزلين للناس، فلا تعرضوا لهم، وستجدون آخرين للشيطان، في رءوسهم مفاحص فاقلعوها بالسيوف، ولا تقتلن امرأة ولا صغيرا مرضعا ولا كبيرا فانيا، لا تغرقن نخلا ولا تقطعن شجرا، ولا تهدموا بيتا. 31
۔۔۔ پس (حضور نے) فرمایا: اللہ کا نام لیکر جہاد کرو، پس اللہ اور اپنے دشمنوں سے (ملک) شام میں قتال کرو، تم وہاں پر کچھ ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو دنیا سے الگ تھلگ اپنی خانقاہوں میں گوشہ نشیں ہوں گے (تم) ان سے اعراض برتنا، البتہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے سر شیطانوں کے گھونسلے ہوں گے، ان کا قلع قمع کردینا۔ تاہم کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، کھجور کے درخت کو مت کاٹنا ،نہ ہی کسی اور درخت کو کاٹنا اور نہ ہی کوئی گھر گرانا۔
لشکر اِسلام غزوہ مؤتہ کے لیے جمعہ کے دن روانہ ہونا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ لشکر کے ساتھ نہیں نکلے کیونکہ ان کا ارادہ تھا کہ جمعہ کی نماز حضور کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد وہ نکلیں گے اور لشکر سے جا ملیں گے چنانچہ اُنہوں نے جمعہ کی نماز مدینہ طیبہ میں ادا کی۔ اس واقعہ کوامام ترمذی روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فقال له: «ما منعك أن تغدو مع أصحابك؟»، فقال: أردت أن أصلي معك ثم ألحقهم، فقال: لو أنفقت ما في الأرض ما أدركت فضل غدوتهم. 32
تو (رسول اللہ نے) ان (عبد اللہ بن رواحہ ) سے فرمایا: تمہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے کس چیز نے روکا؟ انہوں نے کہا: میں چاہتا تھا کہ میں آپ ( ) کے ساتھ نماز پڑھوں پھر انہیں جا ملوں۔ تو رسول اللہ نے فرمایا: اب اگر تم زمین میں جو کچھ ہےوہ سب کچھ بھی خرچ کر دو، تب بھی ان کے صبح کے عمل کا ثواب نہیں پا سکو گے۔
پس حضرت عبداللہ بن رواحہ جنگ کے لیے نکل پڑے یہاں تک کے وہ لشکر سے جاملے۔
غزوہ مؤتہ کے لیے جانے والا لشکر اس وقت تک کے تمام غزوات میں مسلمانوں کا سب سے بڑا لشکر تھا جو تین ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔ 33 جب مسلمانوں کا لشکر جہاد کے لیے روانہ ہوا تو دشمن تک اس کی خبر پہنچ گئی چنانچہ شرحبیل بن عمرو غسانی نے مقابلہ کے لیے لشکر ترتیب دینا شروع کیا اور آس پاس کے قبائل کو جنگ میں شرکت کی دعوت دی ۔ شامی عرب قبائل جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے ان میں قبیلہ لخم، جُذام، قَیس،34 بَہراء اور بَلِیّ نے اپنے جنگجو بھیجے۔ ان کا سپہ سالار مالک بن زافلہ نامی شخص تھا جس کا تعلق قبیلہ اراشہ سے تھا۔ شرحبیل نے ان سب کو جمع کر کے لشکر ترتیب دیا جس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔35 مسلمان جب شام کے علاقہ معان میں پہنچے تو انہیں خبر ملی کہ ہرقل بھی ایک لاکھ فوج کے ساتھ شرحبیل کی مدد کے لیے بلقاء کے قریب پڑاؤڈالے ہوئے ہے۔36 لہٰذا کفّار کے لشکر کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی۔
جب مسلمانوں کو لشکر کفّار کی اصل تعداد معلوم ہوئی جو دو لاکھ سے زائد تھی اور ان کے مقابلے میں مسلمان صرف تین ہزار تھے تو اُنہوں نے صورت حال کا جائزہ لینے اور جنگی حکمت عملی بنانے کے لیے معان نامی جگہ میں پڑاؤ ڈالا اور دو دن وہاں قیام کیا۔ مسلمانوں میں سے بعض حضرات نے رائے دی کہ ہم رسول اللہﷺ کو دشمن کی تعداد کے بارے میں خبر کر دیتے ہیں جس کی بنا پر حضورﷺ یا تو مزید افرادی قوت بھیج دیں گے یا کوئی اور مناسب حال فیصلہ فرمادیں گے۔حضرت عبد اللہ بن رواحہ اس رائے سے متفق نہ ہوئے اور لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يا قوم، واللّٰه إن التي تكرهون، للتي خرجتم تطلبون الشهادة، وما نقاتل الناس بعدد ولا قوة ولا كثرة، ما نقاتلهم إلا بهذا الدين الذي أكرمنا اللّٰه به، فانطلقوا فإنما هي إحدى الحسنيين إما ظهور وإما شهادة. قال: فقال الناس: قد واللّٰه صدق ابن رواحة. فمضى الناس فقال عبد اللّٰه بن رواحة. 37
اے لوگو! جس بات کو تم اس وقت ناپسند کر رہے ہو اسی شہادت کی طلب میں تو تم نکلے ہو، ہم دشمنوں سے عدد، قوت یا کثرت دیکھ کر نہیں لڑتے بلکہ ہم تو اس دین کی خاطر لڑتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت بخشی ہے، لہٰذا اٹھو اور چلو! دو بھلائیوں میں سے ایک ضرور حاصل ہوگی، یا تو دشمن پر غلبہ ملے گا یا شہادت نصیب ہوگی۔ (یہ سننا تھا کہ) لوگ پکار اٹھے : اللہ کی قسم ابن رواحہ نے سچ کہا!
چنانچہ مسلمانوں نے معان سے پڑاؤ ختم کیا اوربلقاء کی طرف روانہ ہوئے۔
مسلمانوں کا لشکر جب بلقاء کے حدود میں پہنچا تو ان کا سامنا ہرقل کی فوج سے ہوا جو شارف نامی بستی میں خیمہ زن تھی۔جب دشمن قریب ہوا تو مسلمانوں نے شارف سے ہٹ کر مؤتہ نامی بستی میں پڑاؤ ڈالااور وہاں صف بندی کی۔ مسلمانوں نے اپنے لشکر کے میمنہ پر قطبہ بن قتادہ کو مقرر کیا جن کا تعلق بنی عذرہ سے تھا، اور میسرہ پر عبایہ بن مالک کو جو انصار میں سے تھے، ان کو مقرر کیا گیا۔ 38
جنگ شروع ہوئی تو امیر جیش حضرت زید بن حارثہ جہاد کا عَلم تھامے ہوئے تھے جو حضور نے ان کے سپرد کیا تھا۔ آپ مردانہ وار لڑ ے، یہاں تک کہ انہیں دشمن کا نیزہ لگا اور وہ شہید ہوگئے۔حضرت زید بن حارثہ کی شہادت کے بعد جنگ کی کمان حضرت جعفر بن ابی طالب نے سنبھالی اُس ترتیب کے مطابق جو حضور نے امارت کے لیے مقرر کی تھی۔ جعفر بن ابی طالب اپنے سفید سرخی مائل گھوڑے ”شقراء“ پر سوار تھے۔ 39 جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا اور صفوں کوچیرتے ہوئے وہ آگے بڑھتے جارہے تھے۔ جب میدان کارزار میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا تو گھوڑے کی پشت سے چھلانگ لگا کر اترے اور گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر وہ گھوڑے کو اپنے حال پر چھوڑدیں گے تو دشمن اس پر قبضہ کرکے مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ 40
حضرت جعفر بن ابی طالب نے اپنے دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھاما ہوا تھا اور جب دشمن نے وہ ہاتھ کاٹ دیا، توانہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا اٹھا لیا۔ جب دشمن نے وہ ہاتھ بھی کاٹ دیا تو انہوں نے اپنے دونوں بازوؤں کے ذریعہ جھنڈے کو اپنے سینہ کے ساتھ لگا لیایہاں تک کہ آپ شہید ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں انہیں جنت میں دو بازو عطا فرمائے جن کے ذریعہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ جہاں چاہےاڑتے پھرتے ہیں۔41 اس خصوصی فضیلت کی بنا پر جعفر بن ابی طالب کو جعفر طیار کہا جاتا ہے۔42 حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت جعفر بن ابی طالب شہید ہوئے میں اس وقت ان کے پاس کھڑا تھا ۔ ان کے جسم پر نیزے اور تلواروں کے 50 زخم تھے جس میں سے ایک بھی پشت پر نہیں تھا اور ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ ان کے جسم پر 90 سے زیادہ نیزوں اور تلواروں کے نشانات تھے۔ 43
حضرت جعفر بن ابی طالب کی شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے کمان سنبھالی اور عَلم بلند کر کے آگے بڑھے۔آپ گھوڑے پر سوار تھے اور چاہ رہے تھے کہ گھوڑے سے اتر کر دشمن پر وار کریں لیکن اترنے میں کچھ دقّت ہوئی تواپنے نفس کو ملامت کرنے کے لیے کچھ اشعار کہے اور پھر زور لگا کر گھوڑے سے اتر پڑے۔جب گھوڑے سے اترے تو آپ کے چچازاد گوشت کی ہڈی لے کر آئے اور کہا کہ یہ تناول کر کے کچھ قوت حاصل کرلیں کیونکہ ان دنوں آپ نے بہت کم کچھ کھایا تھا۔حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے اس ہڈی کو ابھی ایک ہی بار چوسا تھا کہ لوگوں کےایک دوسرے پر جھپٹنے کی آواز سنی۔ اس پر آپ نےاپنے نفس کو ملامت کیا اور ہڈی پھینک کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے یہاں تک کہ شہادت پالی۔44 سعيد بن ابی ہلال فرماتے ہیں کہ زید بن حارثہ ، جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ کو غزوہ مؤتہ والے دن ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ 45
حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد جب جھنڈا ان کے ہاتھ سے گر گیا تو لوگوں میں ہل چل مچ گئی۔کچھ ادھر ادھر بھاگنے لگے کچھ پیچھے ہٹنے لگے۔ قتبہ بن عامر جو میمنہ کے سالار تھے انہوں نے لوگوں کو پکارا اور فرمایا:
يا قوم يقتل الرجل مقبلا أحسن من أن يقتل مدبرا. 46
اے لوگو! مرد مجاہد کا لڑ کر شہید ہونا بہتر ہے اس سے کہ پیٹھ پھیرے اور قتل ہو۔
اس کے بعد ابو الیسر نے جھنڈا اٹھایا اور ثابت بن اقرم عجلانی کے حوالے کیا۔ ثابت بن اقرم نے امارت لینے سے انکار کیا تو لوگوں نے حضرت خالد بن ولید کو اپنا نیا سپہ سالار مقرر کیا، اور ثابت بن اقرم نے عَلَم ِجہاد ان کے سپرد کردیا۔47 جب حضرت خالد بن ولید نے لشکر کی قیادت سنبھالی اور رسول اللہ کا جھنڈا بلند کیاتو حضور نے اس موقع پر مدینہ پاک میں ارشاد فرمایا کہ اب معرکہ نے شدّت اختیار کرلی ہے۔ 48
اگلے دن حضرت خالد بن ولید نے جنگی حکمت عملی میں تبدیلی فرمائی جس سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ جب صبح ہوئی توجنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت خالد بن ولید نے اگلی صفوں کے لوگوں کو پچھلی صفوں میں بھیج دیا، اسی طرح میمنہ کو میسرہ اور میسرہ کو میمنہ کردیا۔جب جنگ شروع ہوئی اور کفّار نے اپنے سامنے نئے چہرے دیکھے تو ان کے اوسان خطا ہوگئے۔انہیں لگا کہ مسلمانوں کو رات میں کہیں سے مدد پہنچی ہے چنانچہ ان کے دل میں مسلمانوں کا رعب بڑھ گیااور کفّار کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں نے کفّار کی خوب بیخ کنی کی۔ 49 گھمسان کی جنگ ہوئی اور خالد بن ولید نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے یہاں تک کہ آپ کے ہاتھ سے 9 تلواریں ٹوٹیں اور صرف ایک یمنی تیغہ (چھوٹی تلوار، جس کا پھل چوڑا ہوتا ہے) آپ کے ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا۔ 50
ابن کثیر نے بحوالہ موسیٰ بن عقبہ کے لکھا کہ جب مسلمانوں نے حضرت خالد بن ولید کو اپنا نیا سپہ سالار مقرر کیا تو ان کی انوکھی چال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست سے دوچار کیا اور مسلمان غالب آگئے۔ 51 اس مرحلہ میں جب دشمن پر ہیبت طاری تھی اور وہ الٹے قدموں میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تب حضرت خالد بن ولید نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور اپنے لشکر کو سمیٹ کر پیچھے ہٹنا شروع ہوئے۔یہ بظاہر جنگی اصولوں کے خلاف تھا کہ شکست خوردہ دشمن کا پیچھا کر کے انہیں مزید نقصان پہنچانے کے بجائے مسلمان خود پیچھے ہٹ رہے تھے لیکن اس فیصلہ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خالد بن ولید کو معلوم تھا کہ اُنہوں نے دشمن کے ایک جتھے کو شکست دی تھی نہ کہ پورے لشکر کو اور جیسے ہی یہ خبر دشمن کی بقیہ فوج کو پہنچنی تھی، وہ کمک لے کر آجاتے اور چونکہ دشمن کی تعداد اس وقت مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھی اس لئےعقل مندی اسی میں تھی کہ مسلمان اپنی بچی کچی فوج کے ساتھ صحیح سلامت واپس ہوں۔ مزید یہ کہ اتنی کم تعداد میں ایک عظیم الشام رومی لشکر کو نقصان پہنچانا خود ایک تاریخ ساز کارنامہ تھا اور اس کے بعدصحیح سلامت واپس پہنچنا نہایت صحیح فیصلہ تھا۔ اسی پر عمل کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولید نے دشمن کی سراسیمگی کا فائدہ اٹھایا، مسلمانوں کے لشکر کو جمع کیا اور پیچھے ہٹتے ہٹتے جنگ کے میدان سے مسلمانوں کو صحیح سلامت باہر لے آئے۔ 52
علّامہ واقدی روایت کرتے ہیں کہ غزوہ مؤتہ کے موقع پر حضور مدینہ میں منبر پر تشریف فرما تھے اور آپ کے سامنے سے مدینہ سے شام تک کے درمیان کےسارے پردے اٹھا دئے گئے تھے اور آپ اس معرکہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ 53 آپ نے مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر وہاں کے لوگوں کو امراءِ لشکر کی شہادتوں کے حوالہ سے آگاہ کیا اور جب حضرت خالد بن ولید کو سالار لشکر بنایا گیا تو آپ نے ان کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
اللهم إنه سيف من سيوفك، فأنت تنصره، فمن يومئذ سمي سيف . 54
اے اللہ! خالدبن ولید تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں پس تو ان کی مدد فرما۔ اس دن کے بعد سے حضرت خالد بن ولید کا لقب سیف اللہ ہوگیا۔
اس کے بعدآپ نے شہداء کا ذکر فرمایا۔ ابن ہشام روایت کرتے ہیں:
ثم قال: لقد رفعوا إلي في الجنة، فيما يرى النائم، على سرر من ذهب، فرأيت في سرير عبد اللّٰه بن رواحة ازورارا عن سريري صاحبيه، فقلت: عم هذا؟ فقيل لي: مضيا وتردد عبد اللّٰه بعض التردد، ثم مضى. 55
پھر (رسول اللہ نے) فرمایا: بے شک میں نے ان کو خواب میں جنت کے اندر سونے کے تختوں پربیٹھے دیکھا ہے اور میں نے عبد اللہ بن رواحہ کے تخت میں زید بن حارثہ اور جعفربن ابی طالب کے تخت کے مقابلے میں ایک قسم کی کمی دیکھی ہے۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا : یہ کمی کس وجہ سےہے؟ فرمایا: وہ دونوں بغیر کسی تردد کے آگے بڑھے اور عبد اللہ بن رواحہ نے تھوڑا تردد کیا تھا۔
مسلمانوں نے جنگ کی خبر حضور تک پہنچانے کے لیے مؤتہ سے ایک قاصد یعلی بن امیہ کو روانہ کیا۔ جب وہ حضور کے پاس پہنچے تو رسول اللہ نے ان سے فرمایا کہ اگر وہ چاہیں تووہ رسول اللہ کو خبر دے دیں ورنہ آپ خود انہیں بتا دیں کہ جنگ میں کیا ہوا۔ اس پر آپ نے عرض کی کہ آپ ہی ان کو آگاہ فرمادیں۔ پھر آپ نے ان کو تمام تر جنگ کے حالات بتائے جس پر یعلی بن امیہ نے عرض کی کہ آپ نے جنگ کے تمام حالات اس طور پر بتلائے کہ کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ اس پر نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آپ کے لیے اس طور پر اٹھا دیا تھا کہ وہ مدینہ پاک سے ہی جنگ کا مشاہدہ فرمارہے تھے۔ 56
حضرت خالد بن ولید مسلمانوں کو میدان جنگ سے بحفاظت نکال کر مدینہ واپس لوٹے تو مدینہ والے حضور کی قیادت میں لشکر کا استقبال کرنے کے لیے باہر نکل آئے ۔ بچے آگے آگے دوڑ رہے تھے اور حضور اپنی سواری پر سوار تھے۔ حضور نے سب کو تاکید کی کہ بچوں کو اپنی سواریوں پر بٹھائیں اور خود عبد اللہ ابن جعفر کو اپنے ساتھ اپنی سواری پر بٹھا لیا۔ جب مسلمان لشکر سے آملے تو کچھ لوگ ان کے واپس لوٹ آنے کی وجہ سےطعن و تشنیع کرتے ہوئےان پر مٹی پھینکنے لگے۔ آپ نے ان لوگوں کو اس فعل سے روکا اور فرمایا کہ یہ لوگ میدان جنگ سے بھاگنے والے نہیں بلکہ پلٹ پلٹ کر دشمن پر حملہ کرنے والے ہیں۔57 امام ابن کثیر ان روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو مدینہ والوں نے ”فرارہوجانے والے“ کہہ کر مخاطب کیاتھا، یہ مسلمانوں کا وہ لشکر نہیں تھا جو حضرت خالد بن ولید کے حکم پر واپس ہوا تھا، 58 بلکہ یہ الگ سے چند لوگ تھے جنہیں ایک سَریہ پر بھیجا گیا تھا اور وہ لوگ وہاں سے فرار ہوکر مدینہ میں آکر چھپ گئے تھے۔ ان لوگوں کو بھی نبی کریم نے "فرار ہوجانے والے" نہیں کہا تھا بلکہ ان کو عَکَّار(پناہ طلب کرنے والا) کہا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ خود ان کے پشت پناہ ہیں۔59 لہٰذا غزوہ موتہ سے واپس آنے والوں کے بارے میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ لوگوں نے انہیں "فرارہوجانے والے" کہا ہو۔
غزوہ مؤتہ میں مسلمان دشمن کے ساتھ سات دن تک برسر پیکار رہے۔ 60 اس غزوہ کے نتیجہ کے بارے میں مورخین کااختلاف ہے۔ کچھ کے نزدیک مسلمان کسی واضح فتح کے بغیر لوٹ آئے جبکہ دیگر کے ہاں مسلمانوں کو مشرکین پر واضح فتح نصیب ہوئی۔61 اس اختلاف کی وجہ درحقیقت حضرت انس بن مالک کی وہ روایت ہے جس میں حضور نےارشاد فرمایا:
عن أنس رضي اللّٰه عنه، أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم نعى زيدا، وجعفرا، وابن رواحة للناس قبل أن يأتيهم خبرهم، فقال: «أخذ الراية زيد فأصيب، ثم أخذ جعفر فأصيب، ثم أخذ ابن رواحة فأصيب» وعيناه تذرفان: حتى أخذ الراية سيف من سيوف اللّٰه، حتى فتح اللّٰه عليهم. 62
حضرت انس فرماتے ہیں: حضرت زید ، حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحۃ کی شہادت کی خبر نبی نے ان کی شہادت کی خبر آنے سے پہلے ہی صحابہ کرام کو بیان کردی۔ آپ () نے فرمایا۔ "زید نے جھنڈا تھاما اور وہ شہید كردیے گئے، پهر جعفر نے جهنڈا تهاما اور وه (بهی ) شہید كردیے گئے، پهر ابن رواحہ نے جهنڈا تهاما اور وه (بهی) شہید كردیے گئے۔"(یہ سب بیان کرتے ہوئے )آپ کی چشمان مبارک سے آنسو جاری تھے: یہاں تک کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(حضرت خالد بن ولید ) نے جھنڈا تھاما، اور اللہ نے (مسلمانوں) کو فتح عطا فرمائی۔
اس حدیث کےتحت حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:
واختلف أهل النقل في المراد بقوله: "حتى فتح اللّٰه عليه". هل كان هناك قتال فيه هزيمة للمشركين أو المراد بالفتح انحيازه بالمسلمين حتى رجعوا سالمين. 63
اہلِ نقل اس بات میں اختلاف کرتے ہیں کہ ”حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فتح عطا کی“ سے کیا مراد ہے؟ کہ آیا میدان جنگ میں باقاعدہ قتال کے ذریعہ مشرکین کو شکست ہوئی تھی یا مراد یہ ہے کہ (تین ہزار) مسلمانوں کا (دو لاکھ کفّار ) کے چنگل سے صحیح سلامت نکل آنا فتح کے مترادف ہے۔
پھر دونوں طرف کے دلائل ذکر کرنے کے بعد آخر میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
...أو يمكن الجمع بأن يكونوا هزموا جانبا من المشركين وخشي خالد أن يتكاثر الكفار عليهم فقد قيل إنهم كانوا أكثر من مائة ألف فانحاز بهم حتى رجع بهم إلى المدينة. 64
۔۔۔اور ان دونوں باتوں کو یوں جمع کرنا اس طرح ممکن ہے کہ : (مسلمانوں ) نے مشرکین کے ایک گروہ کو شکست دی ہو اور حضرت خالد بن ولید کو خدشہ ہوا کہ کفار مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تعداد (میں حملہ آور ہو جائیں گے )، انہوں نے کہا کہ یہ ہم سے ایک لاکھ سے زیادہ ہیں تو وہ مسلمانوں کو لے کر پیچھے ہٹ گئے اور انہیں مدینہ واپس لے آئے۔
غرضیکہ مسلمانوں کا اتنی قلیل تعداد میں دو لاکھ کے لشکر کو ان کے علاقہ میں جاکر للکارنا اور پھر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ، یہاں تک کے کفّار کے ایک حصہ کے سپہ سالار مالک بن زافلہ کو قتل کردینا، 65 دشمن کے لشکر کے ایک حصہ کو باقاعدہ میدان جنگ میں شکست دے دینا اور پھر صرف 12 افراد کی شہادت کے ساتھ بقیہ فوج کو بحفاظت واپس لے آنا کسی واضح فتح سے کم نہیں تھا۔
غزوہ مؤتہ میں مسلمانوں کی طرف سے 12افراد نے جام شہادت نوش کیا، جن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں: