Encyclopedia of Muhammad

حج کا مسنون طریقہ

حج کے لغوی معنی ”قصد“ اور ”ارادہ “کرنے کے ہیں ۔1شریعت میں حج کی ادائیگی کی خاطر بیت اللہ شریف کا سفر ‏کرنا حج کہلاتا ہے۔یہ ان مخصوص اعمال کی ادائیگی کا نام ہے جنہیں مخصوص زمانہ میں مخصوص مقام پر مخصوص انداز سے ادا ‏کیا جاتا ہے ۔2حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور بقدر استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر زندگی میں ‏ایک بار فرض ہے۔ وہ شخص جو حج کی فرضیت کا منکر ہو دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔3 ہر سال مسلمان حج کی ادائیگی ‏‏آٹھ (8)ذی الحج کو میقات یااس سے پہلےاپنی جائے سکونت سے حج کا احرام پہن کر شروع کرتے ہیں جس کا اختتام بارہ (12) ذی الحج کو ‏طوافِ وداع پر ہوتا ہے۔

میقات سے پہلےکے اعمال ‏‎ ‎

حاجی جب حج کے لیے گھر سے نکلنے کا ارادہ کرے توغسل یا وضو کرے، ناخن تراشے، زیر ناف اور زیر بغل بال ‏صاف کرے، تیل لگائے، خوشبو لگا کر اِحرام کی دو چادریں پہنے اور دو رکعت نفل احرام کی نماز پڑھ کران الفاظ سے نیت ‏کرے:‏

  اللَّهُمَّ إنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ فَيَسِّرْهُ لِي وَتَقَبَّلْهُ مِنِّي.4
  اے اللہ میں حج کا ارادہ کرتا ہوں پس تو اس کو میرے لیے آسان بنا کر قبول فرما۔

اس کے بعد تلبیہ ان الفاظ کے ساتھ پڑھے:‏

  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَك.5
  اے اللہ میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں ،میں تیری چوکھٹ ‏پر حاضرہوں، اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ہے، تمام تعریفیں تیرے لیے ہی ہیں اور تمام نعمتیں تیری ‏بارگاہ سے ہی عطاہیں اور سارے جہاں کی بادشاہت تیرے لیے ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ ‏

تلبیہ پڑھنے کے بعد اب اس پر احرام کی پابندیاں شروع ہوجائیں گی۔ اب وہ فضول باتیں اور لڑائی جھگڑا نہیں ‏کرے گا،‎ ‎بیوی کے قریب بقصد مباشرت نہیں جائے گا،6 سلے ہوئے کپڑے بھی نہیں پہنے گا، سر کو بھی نہیں ڈھانپے ‏گا،خوشبو نہیں لگائےگا اور نہ جسم کا کوئی بال تراشے گا ۔7 جو حاجی آفاقی یعنی حدود حرم سے باہر کا رہنے والا ہووہ میقات ‏گزرنے سے پہلے پہلے احرام باندھ کر نیت کرے گا ۔8

طواف قدوم ‏

‏ حاجی نے اگر حج افراد اور حج قران کی نیت کر کے احرام پہنا ہے تو اس کےلیے بیت اللہ پہنچ کر سب سے پہلے عمرہ ‏مکمل کرنا اوراس کے بعد حج کے افعال شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ دوبارہ طواف کرنا مسنون ہے جو کہ طواف قدوم ‏کہلاتا ہے۔9 البتہ وہ حاجی جو حج تمتع کی نیت سے احرام پہن کر بیت اللہ پہنچتے ہیں انہیں صرف عمرہ کی ادائیگی کرنی ہوگی ان ‏کےلیے طواف قدوم شرط نہیں ہے ۔10

مکّہ مکرّمہ پہنچ کر عمرہ کی ادائیگی ‏

جب حاجی مکّہ مکرّمہ پہنچ جائے تو احرام کی حالت میں مسجد حرام میں جا کر بیت اللہ پر پہلی نظر ڈال کر تکبیر ‏(اللہ اکبر ) وتہلیل (لاالہ الااللہ ) کرے‎ ‎اور حجراسود کے پاس جاکر اگر موقع ملے تواسے چومے ورنہ استلا م(دونوں ہاتھوں ‏سے حجر اسود کی طرف چومنے کی نیت سے اشارہ کرنا) کرکے اپنے دائیں کندھے سے احرام کو ہٹا دے جس کو اضطباع کہتے ‏ہیں۔اس کے بعد بیت اللہ کا طواف شروع کرے جو کہ طواف قدوم کہلاتا ہے۔طواف کے پہلے تینوں چکروں میں رمل یعنی ‏اکڑ کر بھی چلے لیکن یہ جب ہے جب بھیڑ نہ ہو۔ جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرے ۔11 ‏دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد صفا مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کرے،اس کےبعد حلق یا قصر کرے یعنی سر کے ‏بالوں کو منڈھوائے یا کم کرے ۔12

حج کے پانچ دنوں میں مناسک کی ادائیگی کا طریقہ ‏
حج کا پہلا دن ( 8 ذی الحج )‏

آٹھ (8)ذی الحج کو حاجی مکّہ مکرّمہ سے صبح منیٰ کی طرف روانہ ہو کیوں کہ رسول للہ نے آٹھ (8) ذی الحج کی فجر مکّہ مکرّمہ ‏میں ادا کی اور زوال کے بعد منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔13حاجی جب منیٰ پہنچ جائے تو یہ دعا مانگے:‏

  اللَّهُمَّ هَذَا مِنًی وَهَذَا مِمَّا دَلَلْتنَا عَلَيْهِ مِنْ الْمَنَاسِكِ فَمُنَّ عَلَيْنَا بِجَوَامِعِ الْخَيْرَاتِ ‏وَبِمَا مَنَنْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ خَلِيلِكَ وَمُحَمَّدٍ حَبِيبِكَ وَبِمَا مَنَنْتَ عَلَى أَوْلِيَائِكَ وَأَهْلِ ‏طَاعَتِكَ فَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَاصِيَتِي بِيَدِكَ جِئْتُ طَالِبًا لِمَرْضَاتِكَ.14
  اے اللہ یہ منیٰ ہے او ر اس کا مناسک میں سے ہونا تو نے بتایا ہے، پس تو ہم پر تمام بھلائیوں کے ذریعہ ‏سے احسان فرما،جیسا کہ تو نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم پر اور اپنے محبوب حضرت محمد پر ‏احسان فرمایا ،اور جیسے تو نے اپنے دوستوں اور نیکی والوں پر احسان فرمایا۔ پس میں بھی تیر ابندہ ہوں ‏میری پیشانی بھی تیرے سامنے ہے اور میں بھی تیری رضا کا طالب بن کر آیا ہوں۔

حاجی منیٰ میں آٹھ (8) ذی الحج کی نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاء ادا کرے ۔15 رسول اللہ نے بھی آٹھ (8) ذی الحج سے ‏اگلے دن نو (9) ذی الحج کی فجر تک ساری نمازیں منیٰ میں ہی ادا فرمائی تھیں۔16

منیٰ میں قیام کے دوران حاجی کے لیے اس دعا کا اہتمام کرنا بھی مستحب ہے جسے امام نووی نے ذکر فرمایا ہے:‏

  اللَّهُمَّ إيَّاكَ أَرْجُو، وَلَكَ أَدْعُو، فَبَلِّغْنِي صَالِحَ أَمَلِي، واغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَامْنُنْ عَليَّ بِما ‏مَنَنْتَ بِهِ عَلَى أَهْلِ طَاعَتِكَ إنَّكَ على كل شی ئِِ قَدِير.17
  اے اللہ میں تیرے ہی فضل وکرم کا امیدوار ہوں اور تجھ سے ہی دعا والتجا کرتا ہوں، تو مجھے میری نیک ‏تمناؤں اور امیدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد فرما اور میرے گناہوں کو معاف فرما ،اور مجھ پر ‏ایسے ہی لطف و احسان فرما جیسا تواپنے نیک اور اطاعت گزار بندوں پر کرتا ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ‏ہے۔

منیٰ میں مسجد خیف میں نمازادا کرنا ممکن ہوتو ادا کرے کیوں کہ اس مسجد کی فضیلت کے متعلق رسول اللہ نے ‏ارشاد فرمایا :‏

  حج خمسة وسبعون نبيا، كلهم قد طاف بالبيت، وصلى في مسجد منى، فإن استطعت ‏أن لا تفوتك صلاة في مسجد منى فافعل.18
  پچھتر (75) انبیاء نے حج ادا کیا ہے ۔ان سب نے بیت اللہ کا طواف کیا اور پھر منیٰ میں( مسجد خیف ‏‏) میں نماز ادا فرمائی اگر تم یہ قدرت پاؤ کہ مسجد خیف میں تمہاری نماز قضا نہ ہو تو یہ ضرور کرنا (کہ وہاں ‏نماز ادا کرو)۔‏

حج کا دوسرا دن( 9 ذی الحج) ‏

نو (9) ذی الحج یعنی حج کے دوسرے دن حاجی منیٰ میں نماز فجر ادا کر کے فوری طور پر میدان عرفات کےلیے روانہ ہوجائے جیسا کہ ‏عبد الله بن عمر کی روایت میں موجود ہے ۔ 19 وہاں پہنچ کر خیمہ وغیرہ جو بھی میسر ہو اس میں قیام کرے کیونکہ جب ‏آپ وہاں تشریف لے کر گئے تھے تو آپ کے لیے مسجد نمر ہ کے قریب خیمہ لگایا گیاتھا۔20

منیٰ سے عرفات جانے کے اعمال ‏

منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے تکبیرات کہنااور تلبیہ پڑھنا مسنون ہے ۔21 تکبیرات سے مراد:‏

  اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إلٰهَ إلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.

کا بلند آواز سے کہناہے اور تلبیہ سے مراد:‏

  لَبَّيْكَ ‌اللّهُمَّ ‌لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ .

پڑھنا ہے۔

وقوف عرفہ سے قبل میدان عرفات میں غسل کرنا مستحب ہے۔22 حاجی میدان عرفات میں ظہر اور عصر کی ‏نمازیں باجماعت ایک ساتھ ادا کرے گا کیوں کہ رسول اللہ ظہر کی نماز سے قبل حدود عرفات میں داخل ہوئے اور وہاں ‏ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائیں۔23میدان عرفات میں حاجی اگر انفرادی طورپر نماز ادا کرے تو ظہر اور عصر ‏کی نماز اپنے اپنے وقت میں ادا کرے ۔24 وقوف عرفہ کیونکہ حج کا اہم رکن ہے 25 لہذا حاجی زوال سے پہلے عرفات پہنچنے ‏کی کوشش کرے اور وہاں پہنچ کر یہ دعا مانگے:‏

  اللَّهُمَّ إلَيْك تَوَجَّهْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَجِهَةَ جَبَلِ الرَّحْمَةِ أَرَدْتُ فَاجْعَلْ ذَنْبِي مَغْفُورًا ‏وَحَجِّي مَبْرُورًا وَارْحَمْنِي وَلَا تُخَيِّبْنِي وَبَارِكْ لِي فِي سَفَرِي وَاقْضِ بِعَرَفَاتٍ حَاجَتِي بِذَلِكَ ‏فَإِنَّك عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.26
  اے اللہ میں تیرے دربارمیں حاضر ہوکر تیری طرف متوجہ ہوں اور تجھ پر ہی توکل کرتا ہوں ، اور جبل ‏رحمت پر حاضر ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں ،تو میرے گناہوں کو معاف فرما اور میرے حج کو مقبول فرما، مجھ پر ‏رحم فرما، اور مجھے ناکامی سے محفوظ فرما،اور میرے سفر حج میں برکت عطا فرما ،اور عرفات کی برکت سے ‏میری ضروریات اور حاجات پوری فرما،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

حاجی کا میدان عرفات میں افضل ترین عمل اللہ تعالی سے دعا و التجا کرنا ہے کیوں کہ رسول اللہ نے میدان ‏عرفہ پہنچ کر کافی دیر تک کھڑے ہو کر دعائیں مانگی تھیں۔ حضرت اسامہ بن زید آپ کی دعا کی کیفیت یوں بیان ‏فرماتے ہیں:‏

  فرفع يديه يدعو، فمالت به ناقته فسقط خطامها، فتناول الخطام بإحدى يديه وهو ‏رافع يده الأخرى.27
  آپ نے ہاتھ مبارک اٹھائے تو آپ کی اونٹنی ایک طرف جھک گئی جس سے اس کی مہار گر گئی ‏پھر آپ نے مہار ایک ہاتھ سے تھا می اور دوسرا ہاتھ دعا کےلیے بلند کیا (اور دعا مانگتے رہے)۔

‏ جب میدان عرفات میں حاجی جبل رحمت کے قریب پہنچ جائے تو یہ دعا کرے:‏

  اللَّهُمَّ إلَيْك تَوَجَّهْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَوَجْهَكَ أَرَدْت اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ وَاعْطِنِي ‏سُؤَالِي وَوَجِّهْ لِي الْخَيْرَ أَيْنَمَا تَوَجَّهْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَاَللَّهُ ‏أَكْبَرُ.28
  اے اللہ میں تیرے دربارمیں دل وجان سے حاضر ہوا ہوں اور تجھ پر صدق دل سے توکل کرتا ہوں، اور ‏تیری ہی رضا کے حصول کا متلاشی ہوں، اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرمادے اور میری توبہ قبول ‏کر لے، میں جہاں جاؤں میرے ساتھ خیر کا معاملہ رکھ ،بے شک تیری ذات ہر عیب سے پاک ہے اور ‏تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں او رتو ہی سب سے بڑا ہے۔

حاجی میدان عرفا ت میں قیام کے دوران تلبیہ، ذکرواذکار،تلاوت قرآن کریم کو جاری رکھے اور ساتھ ساتھ خصوصی طور پر ‏اس دعا کو زیادہ سے زیادہ پڑھے:‏

  رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ.29
  اے اللہ مجھے دنیا میں بھی بھلائیاں عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائیاں عطا فرما اور مجھے آگ کے عذاب ‏سے محفوظ فرما۔

‏عرفہ کے دن کی ایک خاص دعا کے متعلق رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:‏

  خير الدعاء يوم عرفة، وخير ما قلت أنا والنبيون من قبلي: لا إِلهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لا ‏شَريكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ على كُلّ شی ئِِ قَدِيرٌ.30
  بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے، اور (اس دن مانگے جانی والی دعاؤں میں ) بہترین دعا وہ ہے ‏جومیں نے اور مجھ سے قبل انبیاء نے مانگی ہے، (وہ دعا یہ ہے)لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له ‏الملك وله الحمد وهو على كل شی ئ قدير۔ (ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا ‏کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیےسب تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔)‏

‏ حاجی میدان عرفات میں مستقل تلبیہ پڑھتا رہے کیوں کہ یہ مسنون عمل ہے ۔31 اس کے ساتھ ساتھ حاجی ‏کےلیےمیدان عرفات میں غروب آفتاب تک دعاؤں میں مشغول رہنا سنت عمل ہے ۔32

عرفات سے مزدلفہ کا سفر

حاجی میدان عرفات میں سورج غروب ہونے تک قیام کرے اس کے بعد وہاں سے مزدلفہ کے لیےنکلے کیوں کہ حضور کی سنت مبارکہ بھی یہ ہی تھی۔ حضرت انس اس حوالہ سے آپ کا عمل بیان فرماتے ہیں:‏

  فوقف على الموقف حتى غابت الشمس، ثم دفع حتى رجع إلى المزدلفة، فجمع بين ‏المغرب والعشاء بالمزدلفة وبات فيها حتى أصبح، ثم صلى الصبح بالمزدلفة، وسار ‏ورجع إلى منى.33
  وہ (آپ ) میدانِ عرفات میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، اس کے بعد آپ مزدلفہ ‏کی طرف لوٹے اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھیں اور وہیں رات گزاری۔ جب صبح ہوگئی تو ‏فجر اندھیرے میں پڑھ کر منیٰ کی طرف لوٹے۔

یعنی مزدلفہ میں حاجی مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھے کیوں کہ یہ ہی سنت عمل ہےاور رسول اللہ نے ‏اسی طریقہ پر مزدلفہ میں نماز ادا فرمائی تھی۔34مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کےبعد مزدلفہ میں قیام کےدوران ‏نمازوں کے علاوہ کوئی خاص عبادت لازم نہیں ہے البتہ درود شریف وغیرہ کا ورد کرنا بہتر ہے۔35واضح رہے میدان عرفات ‏سے مزدلفہ کی طرف جاتے ہوئے مغرب کی نمازمیدان ِعرفات اور راستہ میں پڑھنا منع ہے ۔36 مزدلفہ میں ذکرو اذکار ‏کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:‏

  لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا۟ فَضْلًۭا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَآ أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَـٰتٍۢ فَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ عِندَ ٱلْمَشْعَرِ ٱلْحَرَامِ ۖ وَٱذْكُرُوهُ كَمَا هَدَىٰكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ19837
  اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانۂ حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل (بھی) ‏تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اﷲ کا ذکر کیا کرو اور اس کا ‏ذکر اس طرح کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی، اور بیشک اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھے۔

مزدلفہ کی رات نہایت مہتم بالشان رات ہے اور اس رات کی عظمت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ رات لیلۃ العید ‏یعنی ”بقرہ عید“ کی رات ہے جس کے متعلق احادیث میں بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔38 مزدلفہ کی فضیلت کے بارے میں ‏احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اس رات اللہ تعالی حجاج کو دیکھ کر فرشتوں پر فخر فرماتےہیں39 اس لیےحاجی ذکر واذکار، ‏تلاوت قرآن کریم کے علاوہ مزدلفہ پہنچ کر اس دعا کا اہتمام بھی کرے:‏

  اللَّهُمَّ حَرِّم شَعرِي وَلَحمِي ودَمِي وَعَظْمِي، وجَوارِحِي عَلىَ النَّارِ يَا أَرحَمَ الرّٰحِمِين.40
  اے اللہ میرے بالوں،گوشت،خون، ہڈیوں اور اعضاء کو آگ پر حرام فرما۔ اے سب سے زیادہ رحم ‏فرمانے والے۔

مزدلفہ میں یہ دعا پڑھنا بھی امام نووی کے مطابق مستحب ہے:‏

  اللَّهُمَّ إني أَسأَلُكَ أنْ تَرْزُقَنِي في هَذَا المَكانِ جَوامِعَ الخَيْرِ كُلِّهِ، وَأَنْ تُصْلِحَ شأنِي كُلَّهُ، ‏وأَنْ تَصْرِفَ عَنِّي الشَّرَّ كُلَّهُ، فَإِنَّه لَا يَفْعَلُ ذلكَ غَيْرُكَ، وَلاَ يَجُودُ بِهِ إِلاَّ أَنتَ.41
  اے اللہ میں تجھ سے اس مقام پر سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے تمام بھلائیوں کامجموعہ عطا فرما اور میری ‏حالت بہتر فرما اور مجھ سے تمام شر کو پھیر دے۔ یہ سب تیرے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا،اور نہ تیرے ‏علاوہ یہ ساری نعمتیں کوئی اور عطا کرنے کی ہمت وقوت رکھتا ہے۔

مزدلفہ میں صبح صادق تک قیام کرنا واجب ہے۔42 حاجی مزدلفہ میں کہیں بھی قیام کرسکتا ہے سوائے وادی محسر ‏کے43 کیونکہ محسر مزدلفہ کے قریب ایک نشیبی جگہ ہے جہاں شیطان حسرت ویاس میں مبتلا ہوکر کھڑا ہوا تھا۔44حاجی کو ‏چاہیے کہ یہاں مزدلفہ سے کھجور کی گٹھلی کے برابر( تقریباً70 عدد) کنکریاں تھیلی میں جمع کر لے۔ ‏

حج کا تیسرا دن (10 ذی الحج)‏

حاجی حج کے تیسرے دن مزدلفہ میں فجر کی نماز ادا کرکے دعائیں کرتا ہوا اور ذکر واذکار، تکبیر وتہلیل کرتا ہوا منیٰ ‏کی طرف روانہ ہوجائے کیوں کہ یہ مسنون عمل ہے۔ 45 منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ(تیسرا /چھوٹا شیطان) کو کنکریاں مارے اور ‏ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھتا چلا جائے کیوں کہ اس موقع پر تکبیر پڑھنا مسنون ہے۔46 جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد سرکے ‏بال منڈھوانا اور قربانی کرنا یا کروانا مسنون عمل ہے ۔47

خواتین سر کے بالوں سےایک انگلی کے برابر کا قصر (بالوں کو چھوٹا کرنا)کرائیں گی جبکہ مردوں کےلیے حلق کروانا ‏مسنون و مستحب ہے ۔48 حلق یا قصر کروانے کے بعد حاجی یہ دعا مانگے:‏

  الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى مَا هَدَانَا وَأَنْعَمَ عَلَيْنَا۔ اللَّهُمَّ هَذِهِ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ فَتَقَبَّلْ مِنِّي وَاغْفِرْ لِي ‏ذُنُوبِي۔ اللَّهُمَّ اُكْتُبْ لِي بِكُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَةً وَامْحُ بِهَا عَنِّي سَيِّئَةً وَارْفَعْ لِي بِهَا دَرَجَةً، ‏اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِلْمُحَلِّقَيْنِ وَالْمُقَصِّرِينَ يَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ۔ آمِين.49
  تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت دی اور ہم پر احسان کیا ،اے اللہ میری ‏پیشانی تیرے قبضہ میں ہے۔ مجھ سے یہ(حج) قبول فرما اور میری مغفرت فرما ۔اےاللہ میرے ہر بال ‏کے بدلہ مجھے نیکی عطافرما ، میرےگناہ معاف فرما،اور میرے درجات بلند فرما، اے وسیع مغفرت والے ‏رب میری اور (دیگر)حلق کروانے والوں اور قصر کروانے والوں کی کامل مغفرت وبخشش فرما ۔ (آمین)‏

حلق یا قصر کرنے کے بعد حاجی کےلیے احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوجائیں گی سوائے بیوی کے ساتھ مباشرت ‏کرنے کے۔50اس کے بعد حاجی مکّہ مکرّمہ جائے اور طواف زیارت کرے جیسا کہ رسول اللہ نےطواف زیارت کیا ‏تھا۔51 اگر حاجی نے طواف قدوم میں سعی کی تھی تو اب صرف طواف ہی کرے گا سعی نہیں کرے گا۔اسی طرح وہ طواف ‏زیار ت کے دوران نہ رمل اور نہ اضطباع کرے ۔52 طواف زیارت کا وقت دس ذی الحج سے بارہ ذی الحج کی مغرب تک ہے ‏اس کے بعد اگر وہ یہ طواف کرے گا تو اس پر دم لازم آئے گا لیکن اس کا حج ادا ہوجائے گا ۔53 اس کے بعد حاجی منیٰ جاکر ‏ظہر کی نماز ادا کرے کیوں کہ اس نماز کا منیٰ میں پڑھنا مسنون ہے۔54 اگر رش کی وجہ سے مکّہ مکرّمہ میں تاخیر ہوجائے تو ‏ظہر کی نماز مکّہ مکرّمہ میں بھی ادا کرسکتا ہے۔ طواف زیارت کی ادائیگی کے بعد زم زم پینا بھی مسنون ہے ۔55

حج کا چوتھا دن( 11 ذی الحج)‏

حاجی جب طواف زیارت کرچکے تو اب واپس منیٰ آکر رات منیٰ میں گزارے کیوں کہ یہ مسنون طریقہ ‏ہے۔56 حج کے چوتھے دن یعنی گیارہ ذی الحج کو زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرے کیوں کہ یہ حج کے دوران چوتھے ‏دن کا مسنون عمل ہے۔ ‏

رمی جمرات کی ترتیب

حضور نے جمرات کی رمی اس ترتیب سے فرمائی کہ جمرہ اولی کو سات کنکریاں ماریں ،ہر کنکری کو شیطان کی ‏طرف پھینکتے ہوئے آپ تکبیر ‏(اللہ اکبر ) کہتے۔ جمرہ اولی پر سات کنکریاں مارنے کےبعد آپ تھوڑا سا اپنے جائے ‏قیام سے آگے تشریف لے جاتے اور نرم زمین پر کھڑے ہوکر قبلہ رخ ہوکر دیر تک دعائیں مانگتے اور دعا کے دوران اپنے ‏ہاتھوں کو بلند رکھتے۔ اس کے بعد جمرہ وسطی کی رمی بھی اسی طریقہ سے کرتے اور سات کنکریاں پھینکنے کے بعد کسی اونچی جگہ ‏پر تشریف لے جاتے جہاں قبلہ رخ ہوکر دیر تک خوب دعائیں مانگتے۔ پھر جمرہ عقبہ کے پاس تشریف لائے یہاں سات ‏کنکریاں مار کر پھر آپ بغیر رکے ہوئے روانہ ہوئے ۔57

‏ حاجی کے لیے گیارہ ذی الحج کو زوال کے بعد سے بارہ ذی الحج کی صبح صادق تک رمی جمرات کا وقت ہے، اگر زوال ‏کے بعد رش ہو تواگلے دن کی فجر تک کسی بھی وقت رات میں رمی کرسکتا ہے ۔58

حج کا پانچواں دن (12 ذی الحج) ‏

حج کے پانچویں دن یعنی بارہ ذی الحج کوبھی حاجی اسی طرح رمی کرے گا جس طرح اس نے گیارہ ذی الحج یعنی حج کے ‏چوتھے دن کی تھی۔59 اگر بارہ ذی الحج کو رمی کے بعدحاجی مکّہ مکرّمہ واپس آنا چاہے تو وہ واپس آسکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ‏تعالی ہے : ‏

  ......فَمَن تَعَجَّلَ فِى يَوْمَيْنِ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ...... 60
  ‏ ۔ ۔ ۔ پھر جس کسی نے (منیٰ سے واپسی میں) دو ہی دنوں میں جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔۔ ۔

البتہ اگر حاجی بارہ (12) ذی الحج کی رمی کےلیے منیٰ میں قیام کرنا چاہے تو یہ اس کے اختیار میں ہے چاہے تو منیٰ میں قیام کرے اور ‏چاہے تو مکّہ مکرّمہ واپس چلا جائے۔ لیکن اگر بارہ ذی الحج کا سورج اس پر منیٰ میں غروب ہوگیا تو اب 13 ذی الحج کی رمی بھی ‏اس پر واجب ہوجائے گی۔61

رمی جمرات کی تکمیل اور ما بعد کے اعمال

‏ تینوں جمرات کی رمی کرنے کےبعد حاجی اب مکّہ مکرّمہ کی طرف روانہ ہوجائےاور طواف وداع (الوداعی طواف) ‏کرے اور اس طواف میں بھی طواف زیارت کی طرح سعی اور رمل نہیں ہے۔ طواف وداع کرناواجب ہے۔62طواف ‏‎ ‎ادا ‏کرنے کے بعد حاجی دو رکعت نماز ادا کرے اور ملتزم سےچمٹ یا اس کے قریب ہوکر عاجزی سے دعائیں مانگے۔ اس کے ‏بعدآبِ زمزم پئے اور مکّہ سے واپسی کا رخت سفر باندھے63 کیوں کہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ طواف کے بعد زیادہ دیر ‏بیت اللہ میں نہ رہے بلکہ وہاں سے اپنی منزل مقصود کی طرف کوچ کر جائے۔64

‎‎

 


  • 1 محمد ابن محمد ابن عبدالرزاق الحسینی، تاج العروس من جواهر القاموس، ج-5، مطبوعۃ: دار الهداية، (بدون العنوان)، ‏‏(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 459‏
  • 2 علی بن محمد بن علی شریف الجرجانی، کتاب التعریفات، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت لبنان، 1983م، ص: 82‏
  • 3 ابو الفضل عبداللہ بن محمود الحنفی، الاختیار لتعلیل المختار، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الحلبی، القاہرۃ، مصر، 1937م، ص: ‏‏139‏
  • 4 حسن بن عمار الحنفي الشرنبلالي، مراقي الفلاح شرح متن نور الإيضاح، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریہ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 276‏
  • 5 محمد أمين الشھیر بابن عابدين الشامی، رد المحتار على الدر المختار، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2011م، ص: 491‏
  • 6 محمد بن أحمد السرخسي، المبسوط، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 6‏
  • 7 أبو عبد الله محمد بن محمدالبابرتی، العنایۃ شرح الھدایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 441-442 ‏
  • 8 ایضاً، ص: 427‏
  • 9 ایضاً، ص: 525‏
  • 10 علاء الدين أبو بكر بن مسعود الحنفی، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 150‏
  • 11 عبد الغني بن طالب، الحنفی، اللباب في شرح الكتاب، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة العلمية، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:184- 185‏
  • 12 أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص، شرح مختصر الطحاوی، ج-2، مطبوعۃ: دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 527- 528 ‏
  • 13 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، معرفة السنن والآثار، حدیث: 10057، ج-7، مطبوعۃ: جامعة الدراسات الإسلامية، كراتشي، باكستان، 1991م، ص: 280‏
  • 14 عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء تراث العربی، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص: 275‏
  • 15 أبو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجہ، حدیث: 3004، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:549‏
  • 16 ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث:879، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 285‏
  • 17 ابو زکریا یحیٰ بن شرف النووي، الاذکار، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 197‏
  • 18 ابو الولید محمد بن عبد اللہ الارزقی،اخبار مکۃ وماجاء فیھا من الآثار، ج-1، مطبوعۃ: دار الاندلس للنشر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 69‏
  • 19 ابو عبد الله مالک بن أنس المدنی، موطاامام مالک، حدیث: 1495، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان للأعمال الخیریۃ والإنسانیۃ، أبو ظھبی، ‏الإمارات، 2004 م، ص: 587‏
  • 20 ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی، السنن الکبرٰی، حدیث: 9438، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 180‏
  • 21 ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-8، حدیث: 4733، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 357‏
  • 22 عبد الغني بن طالب، الحنفی، اللباب في شرح الكتاب، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة العلمية، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:189‏
  • 23 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 511‏
  • 24 نظام الدین وجماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ج، 1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 252‏
  • 25 أبو جعفر أحمد بن محمد الطحاوی، شرح معانی الآثار، حدیث: 3945، ج-2، مطبوعۃ: عالم الكتب، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص:209‏
  • 26 عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر،ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء تراث العربی، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص: 275‏
  • 27 أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي، السنن الكبرى، حدیث: 3993، ج-4، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 158‏
  • 28 عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر،ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء تراث العربی، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص: 275‏
  • 29 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 201‏
  • 30 ابو زکریا یحیٰ بن شرف النووي، الاذکار، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 198‏
  • 31 أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، حدیث: 15077، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد،الریاض، السعودية، 1409 ھ، ص: 375‏
  • 32 أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي، السنن الكبرى، حدیث: 3992، ج-4، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 157‏
  • 33 صهيب عبد الجبار، المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة، ج-14، مطبوعۃ: بدون ناشر ، 2013م، ص: 285‏
  • 34 ابو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 8826، ج-8، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 345‏
  • 35 أبو المعالي برهان الدين الحنفی، المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2004م، ص: ‏‏429‏
  • 36 عبد الغني بن طالب، الحنفی، اللباب في شرح الكتاب، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة العلمية، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:190‏
  • 37 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 198‏
  • 38 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 3438، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 287‏
  • 39 أبو الحسن نور الدين الهيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: 5569، ج-3، مطبوعۃ: مكتبة القدسي، القاهرة، مصر، 1994م، ص: 257‏
  • 40 أبو المعالي برهان الدين الحنفی، المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2004م، ص: ‏‏429‏
  • 41 ابو زکریا یحیٰ بن شرف النووي، الاذکار، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 200‏
  • 42 عبد الغني بن طالب، الحنفی، اللباب في شرح الكتاب، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة العلمية، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:190‏
  • 43 ابو عبد الله مالک بن أنس المدنی، موطاامام مالک، حدیث: 1448، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان للأعمال الخیریۃ والإنسانیۃ، أبو ظھبی، ‏الإمارات، 2004 م، ص: 569-570‏
  • 44 أبو بكر بن علي الحنفي، الجوهرة النيرة، ج-1، مطبوعۃ: المطبعة الخيرية، القاہرۃ، مصر، 1322ھ، ص: 158‏
  • 45 أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة النيسابوري، صحیح ابن خزیمة، حدیث: 2856، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 270‏
  • 46 أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي، السنن الكبرى، حدیث: 4071، ج-4، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 187‏
  • 47 ایضاً، حدیث: 4087، ص: 194‏
  • 48 أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، حدیث: 12956، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد،الریاض، السعودية، 1409 ھ، ص: 151‏
  • 49 کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام، فتح القدیر، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 490‏
  • 50 أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، حدیث: 13808، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، 1409 ھ، ص: 238‏
  • 51 أبو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمي، الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، حدیث: 3884، ج-9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 196‏
  • 52 أبو عبد الله محمد بن محمدالبابرتی، العنایۃ شرح الھدایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 6‏
  • 53 ابو الفضل عبداللہ بن محمود الحنفی، الاختیار لتعلیل المختار، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الحلبی، القاہرۃ، مصر، 1937م، ص: 153- 154 ‏
  • 54 أبو بكر أحمد بن عمرو العتكي المعروف بالبزار، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، حدیث:5759، ج-12، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، ‏السعودیۃ، 2009م، ص: 158‏
  • 55 ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق النیسابوری الاسفرائیینی، مستخرج ابی عوانۃ، حدیث: 3278، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 319‏
  • 56 ابو الفضل عبداللہ بن محمود الحنفی، الاختیار لتعلیل المختار، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ الحلبی، القاہرۃ، مصر، 1937م، ص: 154‏
  • 57 محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:1751، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 282‏
  • 58 علاء الدين أبو بكر بن مسعود الحنفی، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 137- 138‏
  • 59 حسن بن عمار الحنفي، مراقي الفلاح شرح متن نور الإيضاح، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریہ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 278‏
  • 60 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 203‏
  • 61 حسن بن عمار الحنفي، مراقي الفلاح شرح متن نور الإيضاح، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریہ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 279‏
  • 62 محمد بن فرامرز بن علي الشهير بملا خسرو، درر الحكام شرح غرر الأحكام، ج-1، مطبوعۃ: دار إحياء الكتب العربية، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 231- ‏‏232‏
  • 63 محمد بن أحمد شمس الأئمة السرخسي، المبسوط، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 24‏
  • 64 ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، سنن الترمذي، حدیث:946، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 304- 305 ‏