حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے1جو ہر صاحب استطاعت مسلمان کے لئےاس طور پر فرض ہے2کہ وہ زندگی میں اسے کم از کم ایک بارضرور ادا کرے۔ 3اس فریضہ کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ انسانوں کے لئے کثیر دنیاوی و اخروی منفعت رکھی ہوئی ہے ۔4حج کے کثیر فضائل نصوص میں مذکور ہیں جن کے مطابق حاجی کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں 5اوراس کی تمام دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔6حج کی برکت سے فقر ختم ہوجاتا ہے 7اور جو شخص حج کے سفر میں ایک روپیہ خرچ کرے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سو روپیہ خرچ کرنے کے برابر ہے۔ 8خواتین کے لیے یہ جہاد کی مانند ہے۔9حاجی چاہے مرد ہو یا عورت دونوں كے لئے حج کے سفر میں ہر قدم کے عوض سات سو گنا نیکیوں کا وعدہ ہے۔10
صاحب استطاعت مسلمان جب حج کی ادائیگی کی نیت کرتا ہے تو وہ اپنے ذمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ کی ادائیگی کےلیے کمر بستہ ہوجاتا ہے اور دوسری طرف رب تعالیٰ کے بابرکت گھر کی زیارت سے مشرف ہونے کےلیے قریب وبعید سے عازم سفر ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ حاجی جو صحیح طریقہ سے حج کے تمام قوائد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے حج کو ادا کرے تو اس کے لئے تمام گناہوں سے بخشش کا مژدہ سنایا گیا ہے۔اس حوالہ سے حضرت عمر و ابن العاص اپنا واقعہ یوں نقل فرماتے ہیں:
۔۔۔فلما جعل الله الإسلام في قلبي أتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله ابسط يمينك لأبايعك، فبسط يده، فقبضت يدي، فقال: «ما لك يا عمرو؟» قال: أردت أن أشترط قال: «تشترط ماذا؟» قال: أن يغفر لي. قال: «أما علمت يا عمرو أن الإسلام يهدم ما كان قبله، وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها، وأن الحج يهدم ما كان قبله.11
جب اللہ تعالیٰ نے اسلام میرے دل میں پیوست کردیا تو میں نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے، تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ نبی اکرم نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ نبی اکرم نے فرمایا، عمرو کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: تم کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا ( اپنےگزشتہ) گناہوں کی مغفرت کی۔ تب آپ نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام (میں داخل ہونا) گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے، ہجرت گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔
یہ حدیث جہاں نو مسلم خواتین وحضرات اور اپنے دین وایمان کی تحفظ کے خاطر ہجرت کی مشقتیں برداشت کرنے والوں کےلیے خوشخبری ہے وہیں حج کرنے والے مسلمان کےلیے بھی معصومیت یعنی ان کے گناہوں کو مٹا دیے جانے کی خوشخبری ہے۔ مزید یہ کہ جو شخص حج کی ساری سختیاں صابر بن کر برداشت کرے اور کسی کو بھی تکلیف پہنچائے بغیر حج کے تمام فرائض و آداب بجا لائےتو اس کے لئے بشارت ہے کہ وہ ایسی حالت میں لوٹے گا گویا کہ اس کی ماں نے اسے اسی وقت جنا ہو۔ حضرت ابو ہریرہ آپ کا ارشاد گرامی نقل فرماتےہیں:
من حج لله فلم يرفث، ولم يفسق، رجع كيوم ولدته أمه.12
جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب ہو تو وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔
مذکورہ روایت میں رسول کریم نے نومولود بچے کی مثال دے کر یہ بتلایا ہے کہ جس طرح ننھا بچہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوتا ہے بالکل اسی طرح اپنے حج کو ممنوعات اور محرمات کے ارتکاب سے بچانے والا حاجی بھی ہر قسم کے صغائر وکبائر سے پاک وصاف ہوکر از سر نو نومولود بچے کی مثل ہوجاتا ہے ۔ حج کی کامل ادائیگی صرف گناہوں سے بخشش کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ جنت کے ملنے کا وعدہ بھی ہے۔13
حج اورعمرہ کرنے والامسلمان جب گھر سے حج اور عمرہ کے ارادہ سے نکلتا ہے تو اس کے سفر کی غایت نہ تو دنیا کی طلب ہوتی ہے او رنہ ہی سیر سپاٹے کےلیے گھومنا پھرنا ہوتا ہے بلکہ وہ محض اپنے رب کو راضی کرنے کےلیے گھر والوں اور اپنے دنیاوی کام کاج کو چھوڑ کر مناسک حج وعمرہ کی ادائیگی کےلیے گھر سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے نکل پڑتا ہے۔اس کےاللہ تعالیٰ پراس مضبوط ایمان ویقین کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کی طلب اور چاہت کے موافق اسے اپنی رحمت وبخشش سے نواز دیتا ہے۔ اس حوالہ سے رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے:
الحاج والعمار وفد الله، إن دعوه أجابوه، وإن استغفروه غفر لهم.14
حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کا وفد ہیں۔ اگر وہ اس سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ انہیں بخش دے۔
حج کی غرض وغایت ہی اللہ تعالیٰ کا فضل وقرب پانا ہے لہذا حاجی جب اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل وکرم اور بخشش طلب کرتا ہے تو حج کی عبادت اور مناسک کے صدقہ میں اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
حج اور عمرہ کو حضور نے رب تعالیٰ کی ہمہ جہت رحمت ونعمت سے تعبیر کیا ہے ۔اس میں ایک طرف مسلمان گناہوں کی باطنی کثافت سے پاک وطاہر ہوجاتا ہے دوسری طرف اسے یہ بھی تسلی دی گئی ہے کہ حج وعمرہ کےلیے جاتے وقت کاروبار وتجارت کو عارضی طور پر ترک کرنے ،گھروالوں کےلیے اپنی غیر حاضری میں نان ونفقہ کا انتظام کرنے اور خود اپنے لیے زاد راہ اور شدّرحال کے اخراجات کے بارے میں فکر مند ہونے کے بجائے اس با ت کا پختہ یقین رکھنا لازم ہے کہ اس کے حصہ کا رزق اس کو نہ صرف مل کر رہے گا بلکہ اللہ تعالیٰ غربت اور ضرورت کی صورت میں اس کی حاجت روائی بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر فرمادے گا۔حاجی ومعتمر کےلیے یہ بشارت رسول اللہ سے اس طرح منقول ہے:
تابعوا بين الحج والعمرة، فإنهما تنفيان الفقر والذنوب، كما ينفي الكير خبث الحديد والذهب والفضة. وليس للحجة المبرورة ثواب دون الجنة.15
پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک، یہ دونوں (حج وعمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ اور برائیوں سے پاک حج کی جزا سوائے جنت کے اور کچھ نہیں ۔
اس حدیث میں ایک طرف گناہوں کی بخشش کا ذکر ہے جبکہ دوسری طرف حاجی کو بھی تسلی اور بشارت دی گئی ہے کہ حج کی بدولت اللہ تعالیٰ اسے فقر اور غریبی سے محفوظ رکھے گا۔
حج کے سفر میں خرچ کرنے والے کے لئے حضور نے سات سو گنا اجرکا وعدہ فرمایاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حاجی جو حج کے سفر میں پیش آنے والے اخراجات پر کھلے دل سے لیکن ضرورت کے مطابق اس طرح خرچ کرے کہ اس کی خرچ کردہ رقم پر اس کے دل میں کوئی کڑھن اور رنج نہ ہو بلکہ وہ خوش دلی کے ساتھ اللہ کی رضا کی خاطر یہ خرچ کررہا ہو تواسے یہ اجر ضرور ملے گا۔نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
النفقة في الحج كالنفقة في سبيل الله سبعمائة ضعف.16
حج (کے سفر)میں خرچ کرنا(اجر کے حساب سے)اللہ تعالیٰ کے راستہ میں سات سو گنا خرچ کرنے کی طرح ہے۔
ایک رائے کے مطابق حدیث میں سات سو گنا اجر کے وعدہ سے مراد کوئی خاص سات سو کا عدد نہیں ہے بلکہ عربی مُحاورہ کے اعتبار سے اس سے مراد کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو حسنات اور اجر سے نوازنا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عبادت اور عمل خیر میں اخلاص بڑھتا چلا جائے گا اس کا اجر بھی انسانوں کی سوچ کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور چاہت کے اعتبار سے بندہ کو عطا کیا جائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی مثل کسی عدد اورحساب وکتاب کا پابند نہیں ہے بلکہ وہ جسے چاہتا ہے اسے بڑھا چڑھا کر نیکی اور اچھائی کا بدلہ عطا فرمادیتا ہے۔
حضور نے حج کی فضیلت واہمیت خواتین کےلیے جہاد کے برابر قرار دی ہے کیوں کہ مسلمان فوج اگر جہاد کےلیے پیش قدمی کرتی ہے تو بلاضرورت خواتین کا اس میں شامل ہونا ہر گز مطلوب نہیں ہے ۔جہاد میں عدم شمولیت بعض خواتین کے دلوں میں جہاد کے اجر سے محرومی کا داعیہ پیدا کرسکتی ہے لہذا رسول کریم نے جہاد میں شرکت کے بدلہ میں خواتین کو حج اور عمرہ کی تلقین فرما کر انہیں اس بات کی تسلی دی ہے کہ انہیں رب تعالیٰ کی طرف سے ان عبادتوں کی کما حقہ ادائیگی پر وہی اجر دیا جائے گا جو مجاہدین کو جہاد میں شرکت کی وجہ سے دیا جاتا ہے ۔اس حوالہ سے سیّدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
قلت: يا رسول الله على النساء جهاد؟ قال: "نعم، عليهن جهاد، لا قتال فيه: الحج والعمرة.17
میں (ام المؤمنین سیّدہ عائشہ ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن ان پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ہے اور وہ حج اور عمرہ ہے۔
حج وعمرہ بظاہر جہاد وقتال سے یکسر مختلف ہیں کیوں کہ اس میں جنگ وجدال یا خون خرابہ اور دشمن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن اپنے اجر وثواب کے لحاظ سے خواتین کےلیے ان عبادات کی ادائیگی جہاد جیسی عظیم الشان عبادت کی مثل قرار دی گئی ہے کیوں کہ حرم مقدس میں مناسک کی ادائیگی کے دوران خواتین کو اپنے گھر اور مزاج کے برعکس ناموافق حالات کا سامنا اور بھیڑ بھاڑ کے درمیان اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ،تکالیف پر صبر کرنااور غیر مطلوب صورت حال میں مبتلا ہونا سمیت دوسرے کئی ایسے امور ہیں جنہیں برداشت کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے لہذا خواتین کےلیے حج وعمرہ کی عبادت ہی کو جہاد قرار دے کر انہیں اجر عظیم کی بشارت دی گئی ہے۔
جو عبادت جتنی پر مشقت ہوتی ہے اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ مسلمان جو حج کی خاطر ان تکالیف کو خندہ پیشانی سے صرف اللہ کی رضا کی خاطر برداشت کرتے ہوئے فریضہ حج کی ادائیگی کےلیے پیدل عازم سفر ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اپنی راہ میں اپنے ان بندوں کی مشقتوں بھرے سفر سے غافل نہیں ہوتا۔اس پر مشقت سفر کا اجر بغیر کسی تکلیف کے سفر کرنے والے کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ رکھا گیا ہے کیوں کہ پیدل سفر کرنے والےان مشقتوں کو اللہ کی خاطر جھیل رہے ہوتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ حج پیدل کرو کیوں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
إن للحاج الراكب بكل خطوة تخطوها راحلته سبعين حسنة، والماشي بكل خطوة سبع مائة حسنة.18
سواری پر حج کے کرنے والے کے لیے جانور کے ہر قدم پر ستر نیکیاں ہیں جبکہ پیدل جانے والے کے لیے اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں ہیں۔
یعنی اللہ کی راہ میں تکالیف سہنے والے بندے اگر اُس کی رضا کی خاطر مشقتوں اور پریشانیوں کو جھیلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ٰ بھی اُن کے جذبہ ٔاخلاص کی قدر دانی فرماتا ہے اور انہیں اُن کی نیت کے حساب سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ انعام اور اجروثواب عطا فرماتا ہے۔
حاجی جب احرام کی حالت میں ہو اور اس کا انتقال ہوجائے تو اس کےلیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعزاز وانعام یہ ہے کہ اس کا احرام ہی اس کا کفن بنادیا جاتا ہے۔ جب یہ بروز قیامت اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا تو یہ احرام کی حالت میں ہوگا اور اس کی زبان پر اللہ کی عظمت کا ترانہ تلبیہ کی صورت میں جاری ہوگا جو اس کے ایمان واسلام پر خاتمہ کی نشانی اور اہل جنت کے زُمرہ میں اس کی شمولیت کی علامت ہوگی۔ اس حوالہ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ آپ کے ساتھ ایک صحابی عازمِ سفر تھے جن کا اونٹنی سے گرنے کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ ان کے بارے میں آپ نے یہ تاکید فرمائی:
اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبيه، ولا تمسوه بطيب، ولا تخمروا رأسه، فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا.19
اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے (احرام کے)دونوں کپڑوں ہی میں کفن دو، نہ اسے خوشبو لگاؤ، اور نہ اس کا سر ڈھانپو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا۔
حضور نے احرام کی حالت میں وفات پاجانے والے حجاج کرام کے احرام کی حرمت کو زندہ حاجی کی طرح باقی رکھا ہے کیوں کہ بوقت کفن ودفن اس کا سر کھلا رکھنا اور اس کے احرام سے خوشبو کو دور رکھنے سے مراد یہ ہے کہ یہ مرحوم حاجی قیامت تک مناسک حج کی ادائیگی کی حالت میں ہے ۔لہذا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی حیثیت عام میت کی نہیں بلکہ حج ادا کرنے والے زندہ حاجی کی سی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا انتقال رب تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کے دوران ہوا ہے اسی لیے اسے مقام شہادت کی خلعت فاخرہ پہنا کر بہشت میں حیات جاویداں سے سرفراز کردیا جاتا ہے ۔
مسلمان کے لیےحج تعلق مع اللہ کے ساتھ ساتھ دین اور دنیاکی ہمہ جہت منفعت کا باعث ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس فریضہ کی ادائیگی کے دوران اہل ایمان کو اپنی بخشش اور مغفرت کی طلب کےساتھ20کاروباری اور تجارتی امور کی منفعت کے حصول کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔21حج کا سفر مقدس ومحترم بھی ہے کیونکہ بندہ مومن روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ معزز ومکرم گھر بیت اللہ کی زیارت سے شاداں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ انبیائے کرام بالخصوص حضرت ابراہیم ،حضرت اسماعیل اور حضور نبی کریم سے منسوب مقامات وشعائر کو اپنی نگاہ سے دیکھ کر ان سے متعلقہ مناسک ان ہی کے نقش قدم پر چل کر بجا لاتا ہے ۔