غزوہ خندق مدینہ منورہ میں 5 ہجری کو شوال کے آخر میں وقوع پذیر ہوا۔ 1 اس غزوہ میں رسول اللہ کے ساتھ 3000 صحابہ کرام نے شرکت فرمائی۔ 2 غزوہ خندق کو قرآن کریم میں "احزاب" کا نام بھی دیا گیا ہے۔ 3 اس غزوہ میں اہل مکہ نے یہود کے گٹھ جوڑ سے مکہ کے آس پاس کے قبائل کو اپنے ساتھ شامل کرکے مسلمانوں کی بیخ کنی کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ کو جب اس حملہ کی خبر ملی تو آپ نے اہل مدینہ کے مشورہ سے مدینہ کےاندر رہ کر ہی لڑنے کا فیصلہ فرمایا اور اس مقام کو خندق کھود کر محفوظ کیا۔ 4 اہل مکہ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو اپنے سامنے خندق کھُدی دیکھ کر دنگ رہ گئے کیوں کہ اہل عرب کے لیے یہ جنگی چال بالکل نئی تھی۔ بالآخر ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد لشکر کفار خائب و خاسر ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ 5
اس غزوہ کا اصل محرک یہ بنا کہ مدینہ کے یہودی قبیلے بنونضیر کو اس کی شرارتوں کی وجہ سے مدینہ سے نکال دیا گیا اور خیبر کی طرف بھیج دیا گیا۔ بنونضیر اس بات کا غم و غصہ اپنے دل میں لیے ہوئے تھے جس کو وجہ بنا کر ان کے چند سردار مثلاً حی ابن اخطب، کنانہ بن ابو الحقیق، ہَوذہ ابن قیس وائلی اور ابو عامر فاسق مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور وہاں جاکر ابو سفیان سے ملاقات کی اور اس کو اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ ابوسفیان جو کئی بار کی شکست کے بعد ذلت سے دوچار تھا، یہودیوں کی اس سازش اور دعوت نے اس کے حوصلہ کو جلا بخشی۔ ابوسفیان نے ان کے ساتھ مل کر جنگ کی حامی بھرنے سے پہلے ان کو جانچنے کے لیے ان سے کچھ سوالات کیے، جس میں ایک سوال یہ تھا کہ ہم زیادہ افضل ہیں یا محمد () کیوں کہ ہم بیت اللہ کو آباد کرتے ہیں، حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں اور بتوں کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہودی وفد نے یوں دیا کہ:
اللّٰهم أنتم أولى بالحقّ منه، إنكم لتعظّمون هذا البيت، وتقومون على السّقاية، وتنحرون البدن، وتعبدون ما كان يعبد آباؤكم، فأنتم أولى بالحقّ منه. 6
یقیناً تم لوگ ہی ان سے زیادہ حق کے قریب ہو۔ تم لوگ بیت اللہ کی تعظیم کرتے ہو اور پانی پلانے کی خدمت کرتے ہو اور اونٹ ذبح کرتے ہو اور اسی کی عبادت کرتے ہو جس کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے تھے، لہذا تم لوگ ان سے زیادہ بہتر ہو۔
باوجود اس کے کہ یہود اہل کتاب تھے اور وہ قطعی طور پر یہ جانتے تھے کہ مشرکین مکہ حق پر قائم نہیں اوریہ بُت پرست ہیں پھر بھی ضد اور عناد کی وجہ سے انہوں نے ان کی خوشامد کرتے ہوئے نہ صرف ان کی تائید کی بلکہ ان کی خوب تعریف بھی کی۔ ان کے اس کتمان حق پر اللہ تعالی نے اُن پراِن الفاظ میں لعنت فرمائی:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا 51 أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا 52 7
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (آسمانی) کتاب کا حصہ دیا گیا ہے (پھر بھی) وہ بتوں اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت یہ (کافر) زیادہ سیدھی راہ پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، اور جس پر اللہ لعنت کرے تُو اس کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائے گا۔
اس کے بعد مشرکین مکہ اور یہود نے بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر اس بات پر قسمیں کھائیں اور اتفاق کیا کہ وہ مل کر مسلمانوں پر حملہ کریں گے۔ یہودی سرداران نے مشرکین مکہ کے علاوہ قبیلہ غطفان اور قبیلہ بنوسلیم کو بھی اس جنگ پر آمادہ کیا اور ان کو بھی ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ان تمام قبائل نے دارالندوہ میں جمع ہوکر جنگ كے لئےنکلنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ 8
اہل مکہ نے جب جنگ كی تیاریاں شروع کیں تو قبیلہ بنو خزاعہ نے اپنا ایک سوار رسول اللہ کی طرف روانہ کیا جو 4 دن میں مدینہ پہنچا اور رسول اللہ کو قریش مکہ کے ارادوں سے باخبر کیا۔ رسول اللہ نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور ان سے دفاعی سلسلے میں مشورہ طلب فرمایا۔ حضرت سلمان فارسی نے عرض کیا:
يا رسول اللّٰه!إنا كنا بأرض فارس إذا تخوفنا الخيل خندقنا علينا.
یا رسول اللہ! ہم جب فارس میں دشمن کا خوف محسوس کرتے تو اپنے اردگرد خندق کھود لیتے تھے۔
یہ ایک شاندار دفاعی تدبیر تھی جو مدینہ منورہ کے محل وقوع کے لحاظ سے بھی بہت موزوں تھی، چنانچہ یہ رائے متفقہ قرار پائی گئی اور اس پر عملی طور پر کام شروع کردیا گیا۔ 9
لشکر کفار تقریباً 10،000 کی سپاہ کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا 10 جن میں کفار مکہ کے 4000 جنگجو، 300 گھوڑے اور 1500 اونٹ تھے۔ مرالظہران میں ان کے لشکر میں بنوسلیم اپنے 700 جنگجو لے کر شامل ہوئے، بنو فزارہ 1000 کے لشکر کے ساتھ، قبیلہ اشجع 400 سواروں کے ساتھ اور قبیلہ بنومرہ بھی 400 جنگجوؤں کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے کے لئے شامل ہوئے۔ مدینہ منورہ کا محل وقوع دفاعی لحاظ سے صرف شمالی طرف سے پُرخطر تھا باقی اطراف میں سے مشرقی جانب میں حرہ واقِم اور مغربی جانب میں حرہ وبَرَہ واقع تھا جس کے نوکیلے پتھروں کی وجہ سے وہاں سے لشکر کی صورت میں گزرنا محال تھا۔ اس کے علاوہ اطراف میں کھجوروں کے گھنے باغات کی وجہ سے مدینہ منورہ قدرتی طور پر محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ شمالی جانب جس طرف اُحد پہاڑ واقع ہے وہ مقام خالی تھا جس کے سبب وہاں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 11 خندق کی کھدائی کے لئے دس دس لوگوں کی ٹولیاں بنائی گئیں اور ہر ٹولی کو 40 ہاتھ (گز) خندق کھودنے کا کام سونپا گیا۔ 12 خندق کھودنے کا سامان یہود مدینہ سے عاریۃ لیا گیا۔ 13
پھر رسول اللہ کے لئے سرخ چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا اورخندق کھودنے کا کام شروع کیا گیا۔ صبح سے شام تک مسلمان خوب دل جمعی سے محنت کرتے تھے جبکہ رسول اللہ خود بھی بنفس نفیس ان کے ساتھ شریک عمل تھے۔ کچھ لوگ کھدائی میں مصروف تھے اور کچھ مٹی اٹھانے میں۔ رسول اللہ کا جسم مبارک بھی راہ جہاد میں غبار آلود تھا۔ مسلمان سخت سردی اور بھوک کی حالت میں محوِ عمل تھے۔ کھانے پینے کے سامان کی حد درجہ قلت تھی۔ لشکر اسلام کے لئے مٹھی بھر جَو پرانی بدمزہ چربی میں بنا کر پیش کی جاتی جو حلق سے اترتی نہ تھی لیکن مجبوری میں نگلنا پڑتی تھی۔ اس حالت میں کھدائی کے دوران آپ ترنم کے ساتھ کبھی تو یہ اشعار پڑھتے:
لولا انت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا
فأنزل السكينة علينا وثبت الاقدام ان لا قينا
ان الالى قد بغو ا علينا اذا ارادو فتنة ابينا 14
(اے اللہ ) اگر تیری رحمت نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ ہم صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے، پس تو ہم پر سکون نازل فرما اور اگر ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ، بے شک ان لوگوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے، جب انہوں نے فتنہ (میں ڈالنے کا) ارادہ کیا تو ہم نے انکار کیا۔
اور کبھی یہ فرماتے:
اللهم لا عيش الا عيش الاخرة فاغفر للانصار والمهاجرة.
اے اللہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے۔ سو تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔
اس کے جواب میں مہاجرین وانصار زوردار انداز میں یہ فرماتے:
نحن الذين بايعوا محمدا على الاسلام ما بقينا ابدا. 15
ہم نے محمد سے بیعت کی ہے۔ تا حیات اسلام پر (قائم رہنے پر)۔
اسی اثناء میں رسول اللہ کے پاس صحابہ کرام تشریف لائے اور ایک چٹان نما پتھر کے بارے میں بتایا کہ ہمارے اوزار ٹوٹ گئے لیکن وہ پتھر نہیں ٹوٹتا۔ اس وقت آپ ایک جبہ زیب تن کئے ہوئے تھے اور بھوک کی وجہ سے شکمِ مبارک پر پتھر باندھا ہوا تھا۔ آپ یہ سن کر وہاں سے حضرت سلمان فارسی کے ہمراہ اس مقام پر تشریف لائے اور ان سے کھدائی کا آلہ لیا، بسم اللہ پڑھ کر ایک ضرب لگائی جس سے اس چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ جس وقت رسول اللہ نے اس چٹان پر ضرب لگائی تواس سے ایک روشنی کا شعلہ نمودار ہوا۔ آپ نے بآواز بلند تکبیر لگا کر ارشاد فرمایا:
أعطيت مفاتيح اليمن، إني لأبصر أبواب صنعاء من مكاني الساعة.
یمن کی کنجیاں عطا کردی گئیں، میں اپنی جگہ سے یمن میں صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔
اس کے بعد دوسری ضرب لگائی جس سے اس چٹان کا دوسرا آدھا حصہ بھی ٹوٹ گیا۔ اس بار پھر آپ نے تکبیر بلند فرمائی اور فرمایا:
أعطيت مفاتيح الشام، واللّٰه إني لأبصر قصورها الحمر.
مجھے شام کی کنجیاں عطا کردی گئیں، خدا کی قسم میں اس کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں۔
پھرتیسری ضرب پر بعینہ اسی کیفیت کے ساتھ آپ نے ارشاد فرمایا:
أعطيت مفاتيح فارس، واللّٰه إني لأبصر قصور الحيرة ومدائن كسرى. 16
مجھے فارس کی کنجیاں عطا کردی گئیں، خدا کی قسم میں اپنی جگہ سے مقام حیرہ اور مدائنِ کسریٰ کے محلات دیکھ رہا ہوں۔
ان بشارتوں کے بعد آپ نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی آپ کی امت کو یہ سب عطا فرمائے گا۔ منافقین یہ دیکھ کر مذاق اڑانے لگے اور کہنے لگے دیکھو ان کا نبی ان کو کیسی امیدیں دلارہا ہے، ان کو قیصر وکسری کے محلات کے خواب دکھا رہا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہےکہ کم کھانے کی وجہ سے یہ بول وبراز کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ 17 اس پر اللہ تعالی نے ان کی مذمت میں یہ آیت نازل فرمائی:
وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا 12 18
اور جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (کمزورئ عقیدہ اور شک و شبہ کی) بیماری تھی، یہ کہنے لگے کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے صرف دھوکہ اور فریب کے لئے (فتح کا) وعدہ کیا تھا۔
اس آیت کے ذریعے اللہ تعالی نے ان اعتراض کرنے والوں کو نا صرف منافق کہہ کر پکارا بلکہ ان کے اعتراض کو ان کے باطنی مرض کا نتیجہ قرار دیا۔ اس کے بعد منافقین جھوٹے بہانے بنا کر وہاں سے نکل جاتے اور جان بوجھ کر دیر لگاتے تاکہ خندق کھودنے کا کام سست روی کا شکار ہو اور مشرکین مسلمانوں کے سروں پر آپہنچیں جبکہ اہل ایمان اللہ کے نبی سے اجازت لیتے اور جلدی سے حاجت پوری کرکے واپس خندق کھودنے آجاتے۔ 19 اہل ایمان کو اللہ تعالی کی طرف سے اس آنے اور جانے کی خاص اجازت عطا فرمائی گئی تھی اور ان کی تعریف میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ 62 20
ایمان والے تو وہی لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول () پر ایمان لے آئے ہیں اور جب وہ آپ کے ساتھ کسی ایسے (اجتماعی) کام پر حاضر ہوں جو (لوگوں کو) یکجا کرنے والا ہو تو وہاں سے چلے نہ جائیں (یعنی امت میں اجتماعیت اور وحدت پیدا کرنے کے عمل میں دل جمعی سے شریک ہوں) جب تک کہ وہ (کسی خاص عذر کے باعث) آپ سے اجازت نہ لے لیں، (اے رسولِ معظّم!) بیشک جو لوگ (آپ ہی کو حاکم اور مَرجَع سمجھ کر) آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی لوگ اللہ اور اس کے رسول () پر ایمان رکھنے والے ہیں، پھر جب وہ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے (جانے کی) اجازت چاہیں تو آپ (حاکم و مختار ہیں) ان میں سے جسے چاہیں اجازت مرحمت فرما دیں اور ان کے لئے (اپنی مجلس سے اجازت لے کر جانے پر بھی) اللہ سے بخشش مانگیں (کہ کہیں اتنی بات پر بھی گرفت نہ ہوجائے)، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
اس کے بر عکس منافقین رسول اللہ کو مصروف عمل پاکر چوری چپکے بلا اجازت خندق سے کھسک جاتے تھے۔21 منافقین کی اس حرکت پر اللہ تعالی نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
...قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 63 22
بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول () کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔
نبی کریم کی قیادت میں صحابہ کرام خندق کھودنے میں کئی دن تک مصروف رہے اور اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جب کھدائی مکمل ہوئی تو خندق کی لمبائی تقریبا 3000 میٹر، چوڑائی 9 میٹر جبکہ گہرائی 5 میٹر بنتی تھی۔ 23
جس وقت خندق کی کھدائی ہورہی تھی اس وقت مسلمان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ جسموں پر مکمل لباس نہیں تھا، کھانے کے بقدر ضرورت طعام دستیاب نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ اس کے باوجود ایمان کا عالم یہ تھا کہ تکبیر کی گونجوں میں قیصر وکسری کے محلات دکھائی دے رہے تھے اور ایمان واسلام پر شکر گزاری سے لب تر تھے۔ اسی دوران حضور کے ہاتھ سے معجزات کے ظہور نے ان کی ہمت کو اور بھی دوبالا کردیا۔ حضرت نعمان بن بشیر کی ہمشیرہ فرماتی ہیں کہ مجھے میری والدہ نے لَپ (دونوں ہاتھوں میں) بھر کھجوریں دیں کہ میں اپنے ماموں عبداللہ بن رواحہ اور اپنے والد کو دے کر آؤں۔ میں ان کوکھجوریں دینے کے لیے روانہ ہوئی تووہاں مجھے رسول اللہ نے دیکھ کر بلایا اور ان کھجوروں کے متعلق دریافت کیا جو میرے ہاتھ میں تھیں۔ میرے بتانے پر آپ نے مجھ سے وہ کھجوریں لے لیں اور ایک کپڑے پر ڈال دیں۔ وہ مٹھی بھر کھجوریں آپ کی برکت سے اتنی زیادہ ہوگئیں کہ وہ کپڑے سے باہر گرنے لگیں۔ آپ نے بآواز بلند سب صحابہ کرام کو اپنے پاس جمع ہونے کا حکم فرمایا۔ جب سب صحابہ کرام آپ کے پاس جمع ہوئے تو آپ نے ان کھجوروں کو ان میں تقسیم کرنا شروع کردیا یہاں تک کے سب صحابہ کرام ان کو کھاتے رہے یہاں تک کہ تمام اہل لشکر کے کھانے کے بعد بھی وہ بچ گئیں۔ 24
اسی طرح حضرت جابر کے بارے میں آتا ہے کہ خندق کی کھدائی کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب آپ نے دیکھا کہ آپ نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا تھا کیونکہ آپ نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ حضرت جابر نے حضور سے اجازت لی اور گھر جاکر اپنی زوجہ کو سارا ماجرا بتایا۔ اس وقت آپ کے گھر میں صرف ایک بکری کا بچہ تھا اور کچھ جَو کے دانےتھے۔ آپ نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور جَو پیس کر آٹا گوندھنے کا کہہ کر واپس خندق چلے گئے تاکہ رسول اللہ کو اپنے ساتھ کھانے کے لئے لا سکیں۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت ان کی زوجہ نے ان کو خبردار کیا کہ کھانے کے بقدر لوگوں کو لانا۔ جب یہ وہاں پہنچے تو رسول سے عرض کی کہ وہ چند اصحاب کو لے کر ان کے گھر کھانا کھانے کے لئے تشریف لائیں۔ آپ نے تمام اصحاب سے فرمایا کہ وہ حضرت جابر کے گھر چلیں کیونکہ انہوں نے سب کے لئے کھانے کی دعوت کا اہتمام کیا ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے دس دس لوگوں کو حضرت جابر کے گھر میں داخل ہونے کا حکم دیا اور ہنڈیا سے خود سالن ڈال کر اس میں روٹی توڑ کر پیش کرتے رہے یہاں تک کہ تمام اہل خندق نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا اور اس کے بعد آپ نے حضرت جابر سے فرمایا کہ خود بھی کھالیں اور اہل خانہ کو بھی کھلائیں۔ 25 وہ تھوڑا سا کھانا تمام اہل خندق کو کفایت کرگیا اور سب آپ کے ہاتھوں کی برکتوں سے مستفیض ہوئے۔
چھ دن کی انتھک محنت ومشقت کے بعد رسول اللہ جب خندق کی کھدائی سے فارغ ہوئے تو آپ نے عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل فرما دیا۔ پھر پیر کے دن آپ نے 3000 جانثار صحابہ کرام کے لشکر کےساتھ خندق کی طرف جانے کا اعلان فرمایا اور علم برداروں کا بھی انتخاب کیا۔ مہاجرین کا جھنڈاحضرت زید بن حارثہ کو اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ کے حوالہ کیا۔ جب آپ اس لشکر کو لے کر محاذ پر پہنچے تو جبلِ سلع کو اپنی پشت کی جانب رکھ کر لشکر کو جنگ کے لئے ترتیب دیا۔ اسی مقام پر آپ کے لیے ایک خیمہ بھی نصب کیا گیا اور مسلمانوں کا جنگی خفیہ کلمہ حم لاینصرون مقرر کیا گیا۔ 26
دوسری طرف کفار کا لشکر بھی مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ لشکر کفار کو اپنی بڑی تعداد کے سبب 2 حصوں میں تقسیم ہوکر پڑاؤ ڈالنا پڑا۔ قریش اور ان کے حلیف مجمع الاسیال میں ٹھہرے جن کی تعداد تقریباً 4000 تھی جبکہ قبیلہ غطفان اور ان کے ساتھ اہل نجد وغیرہ نے جبلِ اُحد کے پاس پڑاؤ کیا 27 جن کی تعداد تقریباً 6000 تھی۔ کفار جب مدینہ منورہ پہنچے تو اپنے سامنے خندق کو دیکھ کر بری طرح سٹپٹا گئے اور مسلمانوں کے اس دفاعی نظام سے حیران وششدر رہ گئے کیوں کہ اس دفاعی تدبیر سے اہل عرب نا واقف تھے۔ 28
لشکر کفار کی قیادت اس بار بھی ابو سفیان کے پاس تھی۔ اس نے خندق کا معائنہ کرنے کے بعد یہود کے پاس مدد کے لئے پیغام بھیجا۔ حیی بن اخطب جویہودی قبیلہ بنو نضیرکا سردار تھا، کعب بن اسد قرظی کے پاس گیا جس کا تعلق قبیلہ بنو قریظہ سے تھا۔ قبیلہ بنو قریظہ بھی اپنی اصل کے اعتبار سے یہودی ہی تھا لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ میں بندھا ہوا تھا اور اس کی مکمل پاسداری بھی کررہا تھا۔ اس قبیلہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے لوگ ایک قلعہ نما علاقہ میں رہتے تھے جو مدینہ طیبہ کے اندر واقع تھا۔ ابو سفیان اور حیی بن اخطب یہ چاہتے تھے کہ یہ کسی طرح اندر سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں تاکہ باہر سے خندق کو پار کرکے ان کو مدینہ میں داخل ہونے کا موقع مل جائے اور دو طرفہ حملہ مسلمانوں کو شکست سے دوچار کردے۔
حیی بن اخطب جب کعب بن اسد قرظی سے ملنے اس کے قلعہ گیا تو کعب بن اسد نے اس سے ملنے سے انکار کردیا اور تنبیہ کی کہ قلعہ کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ حیی بن اخطب نے بالآخر اس کو یہ طعنہ دیا کہ وہ مہمان نوازی سے بچنے کے لئے ملنے سے کترا رہا ہے۔ کعب اس طعنہ کو برداشت نہ کرسکا اور مجبوراً دروازہ کھلوادیا۔ دروازہ کھلتے ہی حیی بن اخطب کہنے لگا: تیرا ناس ہو، میں تیرے پاس ایک امڈتے ہوئے سمندر جیسا لشکر لایا ہوں جو تمام معزز قبائل پر مشتمل ہے اور انہوں نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس بار مسلمانوں کی بیخ کنی کرکے ہی دم لیں گے اور تو ہے کہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا۔ یہ بات سن کر کعب بن اسد کہنے لگا کہ تو میرے پاس جو لشکر لایا ہے وہ زمانہ بھر کی ذلتیں اٹھائے ہوئے ہے اور اس لشکر میں سوائے گرجنے کے اور کوئی دم نہیں لہذا مجھے میرے عہد پر قائم رہنے دو کیونکہ میں نے محمد () میں امانت وصداقت ہی دیکھی ہے۔ لیکن حیی بن اخطب مستقل کعب بن اسد کو سبز باغ دکھاتا رہا یہاں تک کہ کعب بن اسد اس شرط پر اس کی بات ماننے کو تیار ہوگیا کہ اگر قریش اور غطفان مسلمانوں کو نقصان پہنچائے بغیر واپس لوٹ گئے تو حیی بن اخطب اپنے آپ کو ان کے ساتھ قلعہ بند کرے گا اور جو فیصلہ بنو قریظہ کے بارے میں ہوگا وہ اس پر بھی نافذ ہوگا۔ اس شرط پر کعب وحیی کے درمیان بات طے ہوگئی۔ 29
رسول اللہ کو یہودیوں کی اس سازش کا علم ہوا تو آپ نے حضرت سعدبن معاذ ،سعد بن عبادہ، عبداللہ بن رواحہ اور خوّات بن جبیر کو اس واقع کی تحقیق کے لیے روانہ فرمایا اور ان کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر یہ خبر جھوٹی ہو تو مجمع عام میں اس کا تذکرہ کرنا اور اگر سچی ہو تو صرف آپ کو ہی خبر کرنا۔ جب یہ حضرات یہود کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان کے تیور بدلے ہوئے پائے جس پر ان حضرات نے یہود کو سمجھایا اور وہ معاہدہ بھی یاد دلایا۔ اس بات کو سنے کے باوجود کعب بن اسد نے اس معاہدہ کی پاسداری سے انکار کردیا اور کہا کہ انہوں نے یہ معاہدہ جوتے کے تسمہ کی طرح توڑدیا ہے (نعوذ باللہ)۔ اس خبر کو لے کر یہ حضرات واپس رسول اللہ کے پاس گئے اور اشاروں میں آپ کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ 30
اس بات کو عام مسلمان بھی سمجھ گئے تھے اور سخت بے چینی کا شکار ہورہےتھے کیوں کہ سامنے کفار کا کئی گنا بڑا لشکر تھا اور پیٹھ پیچھے کے یہود بھی عہد شکن ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کے سخت اضطراب کی اس کیفیت کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا:
إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا 10 هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا11 31
جب وہ (کافر) تمہارے اوپر (وادی کی بالائی مشرقی جانب) سے اور تمہارے نیچے (وادی کی زیریں مغربی جانب) سے چڑھ آئے تھے اور جب (ہیبت سے تمہاری) آنکھیں پھر گئی تھیں اور (دہشت سے تمہارے) دل حلقوم تک آپہنچے تھے اور تم (خوف و امید کی کیفیت میں) اللہ کی نسبت مختلف گمان کرنے لگے تھے،اُس مقام پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور انہیں نہایت سخت جھٹکے دئیے گئے۔
اس امتحان کی گھڑی میں مسلمان اپنے مورچے سنبھالے ہوئے تھے جبکہ منافقین کا حال یہ تھا کہ کچھ تو پہلے ہی بہانے بنا کر نکل چکے تھے اور باقی اپنے گھروں کو یہود کے حملے سے بچانے کے بہانے چلے گئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس حرکت کو یوں بیان فرمایا:
وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَاأَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا 13 32
اور جبکہ اُن میں سے ایک گروہ کہنے لگا: اے اہلِ یثرب! تمہارے (بحفاظت) ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں رہی، تم واپس (گھروں کو) چلے جاؤ، اور ان میں سے ایک گروہ نبی اکرم () سے یہ کہتے ہوئے (واپس جانے کی) اجازت مانگنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں، حالانکہ وہ کھلے نہ تھے، وہ (اس بہانے سے) صرف فرار چاہتے تھے۔
رسول اللہ یہود کی عہد شکنی کی خبر سن کر رخِ انور پر کپڑا ڈھانپ کر لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد آپ نے رخِ زیبا سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا کہ میں تمھیں اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کی بشارت دیتا ہوں۔ 33
مدینہ منورہ میں یہود نے اس وعدہ خلافی کے بعد اپنے قلعوں سے نکل کران مقامات کا جائزہ لینا شروع کردیا جہاں مسلمانوں کی خواتین اور بچے موجود تھے۔ اسی اثنا میں حضرت صفیہ ( جو رسول اللہ کی پھوپھی تھیں) نے ایک یہودی کو دیکھا جو اس جگہ میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا جہاں مسلمانوں کی خواتین اور بچے موجود تھے۔ آپ نے حضرت حسان بن ثابت کو اس یہودی کو بھگانے کے لیے کہا لیکن جب ان کو اس حوالے سے کمزور پایا تو خود ایک مضبوط شہتیر لے کر اس یہودی کے سر پر دے مارا جس سے وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔ 34 اس کے بعد آپ نے اس کا سر کاٹ کر یہودیوں کی طرف اچھال دیا جس سے وہ یہ سمجھنے لگے کہ یہاں بھی مسلمان محافظ موجود ہیں۔ اپنے ایک ساتھی کے قتل کے بعد وہ اپنے ناپاک ارادوں سے بازآگئے۔ 35
خندق کے اُس پار کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ غصے سے تلملا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح سے خندق پار کرلیں۔ ان میں جو بڑے بڑے جنگجو تھے انہوں نےباقائدہ باریاں مقرر کیں کہ وہ کسی طرح خندق کو پار کرلیں۔ ایک دن ابو سفیان کوشش کرتا، ایک دن خالد بن ولید اور ایک دن ضرار بن خطاب فہری۔ ان سب نے اپنےمختلف وقتوں اور ایّام میں کئی کئی سوار کے ساتھ جا کر خندق پار کرنے کی کوششیں کیں لیکن مسلمان فوج کے مضبوط دفاع نے ان کو پسپا کردیا۔ 36 مسلمان ایک طرف تو ان سے نبرد آزما تھے دوسری جانب رسالت مآب کے خیمہ کی مسلح پہرہ داری بھی رکھے ہوئے تھے جبکہ رسول اللہ خود بھی سخت سردی میں تشریف لاتے اور حالات و واقعات کا مشاہدہ فرماتے۔
ایک رات آپ حضرت امِّ سلمہ کے خیمہ میں نمازکی ادائیگی میں مشغول تھے کہ اچانک آپ باہر تشریف لائے اور حضرت زبیر بن عوام اور عباد بن بشر جو پہرہ داری میں کھڑے تھے، ان سے فرمایا: وہ دیکھو مشرکین کے گھوڑے خندق پار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جاؤ اور ان کو روکو۔ حضرت عباد بن بشر فوراً وہاں پہنچے تو ابو سفیان مشرکین کی ایک ٹولی کے ساتھ مل کر خندق عبور کرنے کی کوشش میں تھا، انہوں نے فوراً ان پر تیر اندازی اور سنگ باری شروع کردی اور وہاں سے بھگا دیا۔ 37
اسی طرح محاصرہ کو 20 دن گزر گئے۔ ایک دن مشرکین کا ایک مضبوط شہسوار عمروبن عبدود خندق کا معائنہ کرتا رہا اور اس بات کو جانچ لیا کہ خندق ایک جگہ سے تنگ ہے۔ اس نے اپنے گھوڑے کے ساتھ اس جگہ پر زور آزمائی کی اور بالآخر خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ خندق پار کرتے ہی عمرو نے مسلمانوں کو مبارزت کی دعوت دی جس پرحضرت علی نے آپ سے مقابلہ میں جانے کی اجازت طلب کی۔ رسول اللہ نے ان کو عمامہ پہنا کر، تلوار دے کر روانہ کیا اور اللہ تعالی سے ان کی مدد کی دعا فرمائی۔ 38
حضرت علی جب اس کے سامنے پہنچے تو آپ نے اس سے مخاطب ہو کر اس کو اسلام کی دعوت دی۔ عمرو بن عبدود نے اس بات کو نظر انداز کردیا جس پر حضرت علی نے ان کو واپس لوٹنے کا کہا اور نہ لوٹنے کی صورت میں جنگ کے لئے تیار رہنے کا کہا۔ اس پر عمرو نے کہا کہ وہ کسی چھوٹے بچے کا خون بہانا پسند نہیں کرتا لہذا کسی بڑے بندے کو لڑنے کے لئے بھیجا جائے۔ اس کے جواب میں حضرت علی نے فرمایا کہ وہ عمرو کا خون بہانا پسند کرتے ہیں۔ اِس پرعمرو نے طیش و غضب میں اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں اوربجلی کی تیزی سے تلوار نکالی اور حضرت علی پر وار کیا جس کو انہوں نے اپنی ڈھال سے روک کر اس مشرک پر ایسا وار کیا جو اس کے آر پار ہو گیا۔ تکبیر کی گونج سن کر رسول اللہ نے فرمایا کہ علی نے اس کو قتل کردیا۔ یہ حالت دیکھ کراس کے ساتھ آئے ہوئے باقی کفار بھاگنے لگے۔ حضرت زبیر بن عوام نے ان میں سے نوفل بن عبداللہ کا پیچھا کیا اور اس پر اپنی تلوار سے وار کرکے دوٹکڑے کردیے۔ 39
عمروبن عبدود کے قتل کے بعد لشکر کفار کی طرف سے آپ کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ لاش حاصل کرنے کے لئے 10،000 درھم دینے کو تیار ہیں۔ نبی کریم نے اس قیمت کو رد کردیا اور فرمایا کہ تمام مشرکین کی میتیں وہ بغیر کسی قیمت کے لے جائیں۔ 40
کفار کو محاصرہ کئے ہوئے کئی دن ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان کے پاس سامانِ خوردونوش اور جانوروں کا چارہ ختم ہوگیا تھا۔ ابو سفیان نے حیی بن اخطب کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ ان کے لئے امداد بھجوائے۔ حیی بن اخطب نے کعب بن اسد کی اجازت سے ان کو 20 اونٹ بمع سامان کے جس میں کھجور، جَو اور جانوروں کا چارہ تھا، بھجوانے کا انتظام کیا۔ جب یہ لوگ سامان لے کر لشکر گاہ کی طرف چلے تو صفنہ کے مقام پر ان کا سامنا بنو عمر بن عوف سے ہوا جس میں ابو لبابہ بن عبد المنذر، عويم بن ساعدة اورمعن بن عدی شامل تھے۔ انہوں نے ان قریشیوں پر دھاوا بول دیا اور کفار کے اس قافلہ کے سردار ضرار بن خطاب نے اس سامان کو بچانے کی کوشش کی لیکن زخمی ہونے کے بعد ہتھیار ڈال دئے اور پورا سامان مسلمانوں کے حوالہ کرکے بھاگ گیا۔ بنو عمر و نے یہ سامان رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا جس کو رسول اللہ نے خندق کے محاصرہ کے دنوں میں استعمال کرنے کاحکم دیا اور جو بچ گیا وہ واپسی میں مدینہ منورہ ساتھ لے گئے۔ 41
عمرو ابن عبدود کے مارے جانے کے بعد کفار کے غیظ وغضب میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کفار کا لشکر ابھی تک مکمل خسارے میں تھا۔ اس لیے پوری قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی اور یہ طے پایا کہ اگلے دن سب مل کر ایک ساتھ مسلمانوں پرحملہ کریں گے۔ اس رائے پر اتفاق کے بعد انہوں نے اگلی صبح ہونے تک انتظار نہیں کیا اور مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ ادھررسول اللہ نے بھی صحابہ کرام کو ہوشیار کیا ہوا تھا۔ اس لئے جب کفار نے حملہ کیا تو مسلمانوں نے اس کا بھرپور دفاع کیا یہاں تک کہ صبح سے شام ہوگئی لیکن کوئی اپنی جگہ سے نہ ہٹا۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ سنبھالے ہوئے تھا یہاں تک کہ رات کا اندھیرا چھاگیا اور دونوں لشکر اپنی قیام گاہوں میں واپس ہوگئے۔ 42
اسی سخت محاصرہ کے دوران مسلمان لشکر کی ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں فوت ہوگئیں۔ ان نمازوں کے قضا ہونے کا آپ کو اس قدر دکھ تھا کہ آپ نے کفار کے لیے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:
ملأ اللّٰه قبورهم وأجوافهم ناراً. 43
اللہ ان کے قبروں اور گھروں کو آگ سے بھردے۔
اس کے بعد آپ نے تمام صحابہ کرام کو ان الفاظ کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی ترغیب دی:
أيّها النّاس: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسألوا اللّٰه العافية، فإذا لقيتموهم فاصبروا، واعلموا أنّ الجنّة تحت ظلال السّيوف. 44
اے لوگو! تم خود دشمن سے لڑنے کی تمنا نہ کرو، اور اللہ تعالی سے عافیت مانگتے رہو لیکن اگر دشمن کا سامنا ہوجائے تو ثابت قدمی دکھاؤ۔ یاد رکھو! جنت تلوار کے سائے میں ہے۔
خندق کا محاصرہ دونوں فریقین کے لئے سخت ہوتا جارہا تھا اور کوئی نتیجہ خیز معرکہ ابھی تک پیش نہیں آیا تھا۔ اسی اثناء میں نعیم بن مسعود جن کے تعلقات کا دائرہ بنو قریظہ وبنو نضیر سے لےکر قریش مکہ تک وسیع تھا، وہ رسول اللہ کے پاس حاضر ہوئے اور اسلام قبول فرمالیا۔ اس کے بعد انہوں نے آپ سے خصوصی اجازت طلب کی کہ وہ اس جنگ کے خاتمے کے لئے اپنی خدمات پیش کر سکیں۔ آپ نے ان کو اجازت عطا فرمائی تو وہ سب سے پہلے بنو قریظہ کے پاس گئے جو کہ ابھی تک ان کے اسلام لانے پر آگاہ نہیں تھے۔ نعیم بن مسعود بنو قریظہ کے پاس گئے اور انہیں تنبیہ کی کہ ان کے اور قریش کے درمیان ہونے والے معاہدے نے قبیلہ قریظہ کو مکمل طور پر نقصان میں ڈال دیا ہے کیونکہ اگر جنگ مسلمانوں کے حق میں ختم ہوئی تو قریش بنو قریظہ کی مدد نہیں کریں گے اور مکہ واپس چلے جائیں گے جس سے بنو قریظہ مسلمانوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اس مسئلہ کا حل آپ نے یہ تجویز کیا کہ بنو قریظہ قریش اور بنو غطفان سے یہ تقاضہ کرے کہ وہ اپنے معزز ترین آدمیوں کو بنو قریظہ کے قبیلہ میں بھیج دیں جو ضمانت کے طور پر وہیں رہیں گے۔ اس سے قریش کبھی بھی بغیر فتح کے واپس جانے کا نہیں سوچیں گے چاہے حالات کتنے بھی سنگین کیوں نہ ہوجائیں۔ بنو قریظہ نے متفقہ طور پر اس تجویز کو قبول کیا۔ اس کے بعد نعیم ابن مسعود نے قریش کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔ پھر نعیم ابن مسعود نے ان کے ساتھ خفیہ معلومات دینے کی پیشکش اس شرط پر کی کہ قریش کے قائدین اس کو خفیہ رکھیں گے۔ جب اہل قریش نے یہ شرط مان لی تو آپ نے ان کو آگاہ کیا کہ بنو قریظہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کررہے ہیں اور مسلمانوں سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اس صلح کے لئے اور اپنا کھویا ہوا اعتبار حاصل کرنے کے لئے انہوں نے قریش کے سرداروں کو حضور کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا لہذا اگر بنو قریظہ قریش سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنے معزز آدمیوں کو ضمانت کے طور پر ان کے پاس بھیجیں تو قریش اس پیشکش کو رد کردیں۔ اس کے بعد نعیم بن مسعود قبیلہ غطفان کے پاس گئے اور ان سے وہی باتیں کہیں جو قریش کے قائدین سے کی تھیں۔ 45
یہ ساری جنگی حکمت عملی تھی جس کے تحت انہوں نے تینوں قبائل کے اندر ایک دوسرے کے لیے دراڑیں پیدا کردیں اور تینوں قبائل ان کی بات پر اس لئے بھروسہ کر بیٹھے تھے کہ ابھی تک ان میں سے کسی کو بھی آپ کے اسلام لانے کا علم نہیں ہوا تھا۔ کفار مکہ جو پہلے ہی خندق، سخت سردی، بھوک اور جانوروں کا چارہ ہونے کی وجہ سے پریشان تھے، یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری۔ اب ان دونوں گروہوں نے عملی طور پر ایک دوسرے کو جانچنا شروع کیا۔ بنو قریظہ نے اپنا ایک نمائندہ غزال ابن سموال قریش کے پاس یہ کہلا کر بھیجا کہ تم لوگوں نے وعدہ کیا تھا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ مل کر ان مسلمانوں پر حملہ کرو گے لیکن اتنا زیادہ وقت گذرنے کے باوجود تم لوگوں نے کوئی کار آمد کاروائی نہیں کی۔ اب ہم لوگ تمہارا ساتھ اس وقت ہی دیں گے جب تم لوگ اپنے کچھ بندے ہمارے حوالے کردو گے کیوں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ تم لوگ ہمیں پھنسا کر خود مکہ بھاگ جاؤ گے۔ ابو سفیان نے اس کی بات سنی تو اس کو بغیر کچھ واضح جواب دئے وہاں سے چلتا کردیا اور اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہی ہوا جس کا اندیشہ نعیم بن مسعود نے ظاہر کیا تھا۔ نعیم بن مسعود قریش کے خیموں سے واپس بنوقریظہ کے پاس گئے اور ان سے کہنے لگے کہ جب تمہارا بندہ ابو سفیان کے پاس آیا تھا تومیں وہیں تھا۔ ابو سفیان نے تمہارے بندے کے واپس آنے کے بعد واضح طور پرکہا کہ اگر یہ مجھ سے ایک اونٹ کا بچہ بھی مانگیں گے تو میں ان کو وہ تک نہ دوں گا۔ یہ ہمارے بندے محمد () کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ پس تم ان کا ساتھ نہ دینا جب تک کہ یہ تمہاری بات نہ مان لیں۔ 46
ہفتہ کی رات کو ابو سفیان نے عکرمہ بن ابو جہل اور کچھ لوگوں کو بنو قریظہ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ قریش کے لشکر کی حالت بہت نازک ہے لہذا بنو قریظہ مسلمانوں کی پیٹھ سے حملہ کریں اور قریش کا لشکر سامنے سے حملہ کرے گا تاکہ مسلمانوں کا قصّہ تمام ہوجائے۔ بنو قریظہ نے یہ بات سنی تو جواب دیا کہ ہفتہ کا دن ہونے کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ پھر انہوں نے تقاضہ کیا کہ قریش اپنے کچھ معزز لوگ ان کے پاس ضمانت کے طور پر رکھوائے۔ اگر وہ یہ کام کریں گے تو بنو قریظہ ان کی مدد کرے گا ورنہ ان سے کسی چیز کی امید نہ رکھی جائے۔ جب یہ لوگ ناکام واپس ہوئے تو ابوسفیان اور غطفانی کہنے لگے کہ نعیم بن مسعود ٹھیک کہتا تھا کہ یہود کے ارادے بدل چکے ہیں، اب یہ ہمارا ساتھ دینے والے نہیں ہیں۔ 47
حالات دونوں طرف ناسازگار تھے اور دونوں فریقین طوالتِ جنگ سے تنگ آرہے تھے کہ اسی دوران قبیلہ غطفان کا ایک سردار رسول اللہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمیں مدینہ کی آدھی کھجوریں دینے کا اعلان فرما دیں نہیں تو ہم آ پ کے خلاف قریش مکہ سے مل کر لشکر کشی کریں گے۔ رسول اللہ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ یہ قبیلہ محض مالی مفاد کےلیے قریش کے ساتھ شامل ہوا ہے اس لیے آپ نے ان سے فرمایا کہ میں اس بارے میں مشورہ کروں گا۔ لیکن جب رسول اللہ نے مسلمانوں کو سخت پریشانی کے عالم میں دیکھا تو آپ نے ان کے سردار کو بلایا اور فرمایا کہ ہم تمہیں مدینہ کی ایک تہائی کھجور دیں گے پس تم اپنا لشکر لے کر یہاں سے روانہ ہوجاؤ۔ آپ اس معاہدہ کے ذریعےکفار کی قوت توڑنا چاہتے تھے۔ معاہدہ لکھتے وقت آپ کے پاس عباد بن بشر موجود تھے جو آپ کے اس فیصلہ پر عرض گزار ہوئے کہ اگر یہ آسمانی فیصلہ ہے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں لیکن اگر یہ محض ان کے لئے کیا جارہا ہے تو آپ ایسا ہرگز نہ کریں کیونکہ وہ ہر حال میں لڑنے کو تیار ہیں اور دشمن کو اپنی تلواروں سے سیدھا کردیں گے۔ آپ نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو بلوایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے آپ کی بات سنی تو وہی جواب دیا جو عباد بن بشیر نے دیا تھا۔ آپ نے صحابہ کرام کا یہ جذبہ دیکھ کر اس معاہدہ کو ختم فرمادیا اور غطفانی ناکام ہوکر لوٹ گئے۔ 48
لشکر کفار کو کسی بھی زاویے سے اپنی کامیابی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے بلکہ ہر طرف سے ان کو منہ کی کھانی پڑ رہی تھی۔ اسی اثناء میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی مدد ونصرت فرمائی اور اس سخت سردی کی رات میں طوفانی ہوائیں چلادیں جس سے لشکر کفار کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں، آگ بجھ گئی، رسیاں ٹوٹ گئیں اور اس قدر اندھیرا چَھا گیا کہ ہاتھ کو دوسرا ہاتھ سجائی نہیں دیتا تھا۔ اللہ تعالی نے اس مدد ونصرت کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا 49 49
اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب (کفار کی) فوجیں تم پر آپہنچیں، تو ہم نے ان پر ہوا اور (فرشتوں کے) لشکروں کو بھیجا جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔
رسول اللہ کو اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ اب لشکر کفار بھاگنے کی تیاری کرے گا۔ ان کی نقل وحرکت کو معلوم کرنے کے لیے آپ نے حضرت حذیفہ بن یمان کا انتخاب فرمایا، اوران کے لیے ان الفاظ میں دعا فرمائی :
اللّٰهم احفظه من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه، وعن شماله، ومن فوقه ومن تحته. 50
اے اللہ ان کی حفاظت فرما آگے پیچھے، دائیں بائیں اوپراور نیچے سے۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کے اثر سے ان کا ڈر بھی چلا گیا اور سخت ہواؤں میں بھی ٹھنڈ نہیں لگی۔ وہاں پہنچ کر حضرت حذیفہ بن یمان نے دیکھا کہ ابو سفیان کے اردگرد کچھ لوگ بیٹھے تھے اورلشکر میں واپس جانے کی باتیں چل رہی تھیں۔ اچانک کسی نے محسوس کیا کہ کوئی غیر لشکر میں داخل ہوگیا ہے۔ اس نے فوراً کہا کہ ہر شخص اپنے برابر والے کا ہاتھ پکڑلے۔ حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں کہ میرے برابر میں جو شخص تھا میں نے اس کا ہاتھ پہلے ہی پکڑلیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے تاکہ اس کو لگے کہ یہ ہمارے لشکر کا بندہ ہے۔ اسی دوران مجھے ابوسفیان پر تیر چلانے کا مکمل موقع ملا لیکن رسول اللہ کی ہدایت یاد آگئی اس لئے میں رک گیا۔ ابوسفیان نے اپنے لشکر سے کہا کہ تم نے دیکھا کہ کس قدر طوفانی جھکڑ چل رہے ہیں اور بنو قریظہ نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم واپس مکہ جارہے ہیں۔ اس کے بعد وہ جلدی میں اپنے اونٹ پر بیٹھا اور جلدی میں اونٹ کا پاؤں کھولنا بھی بھول گیا اور اس کو مارنے لگا۔ جیسے ہی ابوسفیان وہاں سے نکلا اس کا تمام لشکر بھی وہاں سے روانہ ہوا۔ یہ سب معاملات دیکھ کرحضرت حذیفہ رسول اللہ کے پاس آئے اور آپ کو تمام احوال پر آگاہ فرمایا جس پر آپ خوش ہوئے اور مسکرادیے۔ 51
اگلی صبح کا سورج مسلمانوں کے لیے فتح کی نوید لے کر طلوع ہوا۔ رسول اللہ نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور صحابہ کرام کو یہ نوید بھی سنائی کہ یہ مشرکین کا مسلمانوں کے خلاف آخری اقدامی غزوہ تھا۔ پھر آپ نے ان الفاظ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کیا:
لا إله إلا اللّٰه وحده، أعزّ جنده، ونصر عبده،وهزم الأحزاب وحده.
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے جس نے اپنے لشکر کو فتح بخشی اور اپنے بندہ کی مدد کی اور اکیلے لشکر کو شکست دی۔
جب سامنے کا میدان خالی ہوچکا تو آپ نے لشکر کو واپس ہونے کا حکم دیا اورصحابہ کرام کومنع فرمایا کہ یہود اور منافقین سے واپسی کو خفیہ رکھیں۔ ادھر منافقین مدینہ میں بیٹھ کر تبصرے کررہے تھے کہ مسلمان ابھی خندق کے محاصرہ میں ہیں اور اس بات پر خوشیاں منارہے تھے کہ شکر ہے ہم یہاں اپنے گھروں میں ہیں اور موت سے بچ گئے۔ 52 ان کی اس حالت کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا:
يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا وَإِنْ يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُمْ بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنْبَائِكُمْ وَلَوْ كَانُوا فِيكُمْ مَا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا 20 53
یہ لوگ (ابھی تک یہ) گمان کرتے ہیں کہ کافروں کے لشکر (واپس) نہیں گئے اور اگر وہ لشکر (دوبارہ) آجائیں تو یہ چاہیں گے کہ کاش وہ دیہاتوں میں جا کر بادیہ نشین ہوجائیں (اور) تمہاری خبریں دریافت کرتے رہیں، اور اگر وہ تمہارے اندر موجود ہوں تو بھی بہت ہی کم لوگوں کے سوا وہ جنگ نہیں کریں گے۔
ابوسفیان کو جب اس غزوہ میں بھی ناکامی ہوئی تو جاتے ہوئے اس نے ایک خط رسول اللہ کو لکھا کہ قسم ہے لات، عزیٰ، صف، نائلہ اور حبل کی۔ ہم تو لڑنے آئے تھے لیکن تم لوگ ہم سے نہ لڑے اور خندق کھود کے اس پار چھپ گئے۔ ابھی ہم جارہے ہیں لیکن ہم پھر آئیں گے اور اُحد کے دن کی طرح پھر ملیں گے۔ 54 رسول اللہ نے ابوسفیان کےاس خط کا جواب ان الفاظ میں لکھوایا کہ تم ابھی تک پرانے غرور میں مست ہو اور تم آئندہ آپاؤ گے یا نہیں یہ تو اللہ جانتا ہے۔ ہم نے خندق اس لیے کھودی کہ یہ اللہ تعالی نے ہماری مدد کی تاکہ تم ذلیل ورسوا ہوسکو، اور عنقریب وہ دن آئے گا کہ لات ومنات کو ہم روند دیں گےاور میں تمہیں یاد دہانی کراؤں گا کہ کیسے اللہ تعالی نے ہماری بات کو سچا کر دکھایا۔ 55
غزوہ خندق میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مثالی کامیابی عطافرمائی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کے شہداء کی تعداد 6 جبکہ کفار کے مقتولین کی تعداد 10 تھی۔ 56 اس مشکل غزوہ کا اختتام مسلمانوں کے حق میں ہوا۔ کفر اپنی تمام ترطاقت کے باوجود اللہ تعالی کی مدد ونصرت اور رسول اللہ کی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے المناک شکست سے دوچار ہوا۔