Encyclopedia of Muhammad

حضرت محمد ﷺ کے بچپن کا سفر

قریش مکہ کے تجارتی قافلے سردی اور گرمی میں سامانِ تجارت لیکر یمن اور شام کی طرف روانہ ہوتے تھے۔1 یہی تجارت اہلِ مکہ کی تمام ضروریات کی فراہم کا ذریعہ تھی اور اسی پر ان کا معاشی انحصار تھا۔ 2 عرب کے اس دستور مطابق ابوطالب بھی تجارت کی غرض سے شام جایا کرتے تھے۔ 3 جب نبی کریم کی عمر مبارک 9 یا 12سال تھی، 4 آپ نے اپنا پہلا سفر حضرت ابو طالب کے تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی طرف کیا جہاں آپ کی ملاقات بحیری نامی راہب سے ہوئی۔

حضرت ابو طالب اور آپ ﷺ کا سفر ِشام

اہلِ مکہ کے تاجروں کے قافلے کےساتھ حضرت ابو طالب شام کی طرف روانہ ہونے کے لئے تیار ہوئے تو آپ نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔5حضرت ابو طالب آپ کو ساتھ لےجانے کا ارادہ پہلے نہیں رکھتے تھے کیونکہ آپ کی عمر مبارک اُس وقت محض 9 یا 12 سال تھی 6 اور سفر طویل اور مشکل تھا لیکن جب قافلے کی روانگی کا وقت آیا تو آپ روتے ہوئے آئے، حضرت ابوطالب کی اُونٹنی کی مہار تھامی اورساتھ جانے کے لئے اصرار کیا۔ 7 آپ کے اصرار پرحضرت ابو طالب کا دل نرم ہوگیا اور انہوں نے آپ کو ساتھ لےجانے کا فیصلہ کیا۔8چنانچہ وہ رسول اللہ کو اپنے ساتھ لے کر شام کی طرف روانہ ہوگئے۔9

شام کے عیسائی راہب و علماء

عیسائیوں نے اپنے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تجارتی راستوں پرصومعہ (کلیسا) تعمیر کیے ہوئے تھے جن میں عیسائی راہب تبلیغی فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ یہ راہب امور دنیا سے اپنے آپ كو الگ تهلگ ركھ کرخداکی عبادت کرتےاورعیسائیت کے علوم و معارف حاصل کرتے۔اس بات کے قوی قرائن موجود ہیں کہ وہ نبی آخرالزماں کی علامات ِنبوت کے بارے میں اپنی کتب کی تعلیمات و بشارات کی روشنی میں بھرپورآگاہی رکھتے تھے ۔انہیں اس بات کا علم تھاکہ یہ نبی شفقتِ پدری سے محروم یتیم ہوں گے، انہیں مہر نبوت سے سرفراز کیا گیا ہوگااورمعجزات و کرامات کا بکثرت ان سے صدور ہوگا۔یہ راہب اس بات سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ اس نبی محتشم کو یہود کی طرف سےدشمنی کاسامنااس لئے کرناپڑےگا کہ یہود کی خواہش یہ تھی کہ نبوت اُن کے درمیان ہی رہے اور آخری نبی انہی میں سے ہوں۔ 10

قافلہء قریش اور بحیریٰ

بیت المقدس کے شمال اور دمشق کے قریب ایک چھوٹی سی تجارتی منڈی بُصریٰ کے نام سے واقع تھی۔ 11 یہاں آکراکثر تجارتی کارواں قیام کیا کرتے تھے۔ قریش کا یہ قافلہ جب بصریٰ کے مقام پر پہنچا تو وہاں ایک راہب اقامت گزیں تھاجس کا نام جرجيس یاسرجيس تھا۔ 12 ابو القاسم سہیلی کی تحقیق کے مطابق اس کا نام سرجِس تھا 13 مگر مشہور بحیریٰ کے نام سے تھا اور عیسائیت کا بہت بڑا عالم مانا جاتا تھا۔ بعض سیرت نگاروں کے مطابق حضرت عیسیٰ کے حواریوں کو جو خصوصی علوم عطا کیے گئے تھے وہ نسل در نسل چلے آرہے تھے، اس زمانے میں ان علوم کا امین یہی بحیریٰ راہب تھا۔ 14 بحیریٰ کے علاوہ دیگر علمائے نصاریٰ بھی اسی صومعہ میں رہتے تھے اور درسِ کتاب یعنی انجیل ِمقدس کا درس دیتے تھے۔ 15 عمومی طور پر یہاں سے تجارتی قافلے اکثر گزرا کرتے تھے لیکن بحیریٰ اُن کی طرف توجہ نہیں دیا کرتا تھا لیكن جب قریش کا قافلہ آیا جس میں نبی کریم بھی موجود تھے تو خلاف عادت یہ راہب اُن کی طرف خود چل کر اس وقت آیا جب وہ اپنی سواریوں کودرخت کے نیچے سائے میں باندھ رہے تھے۔ 16

بحیریٰ کے آنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس نے دیکھا کہ بادلوں کا ایک ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے تھا۔ 17 قافلہ جب ایک درخت کے نیچے قیام پذیر ہوا تو بادل کے ٹکڑے نے پورے درخت کو گھیرلیا۔ 18 جب اہل قافلہ اترے تو قافلہ کے معزز افراد پہلے ہی درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو درخت کے سایہ میں کوئی جگہ بیٹھنے کے لئے باقی نہ رہی تھی۔ جب مجمع سے باہر آپ دھوپ میں بیٹھے تو درخت نے فوراًجھک کراپنا سایہ آپ پر پھیلا دیا۔ 19 یہ وہ غیر معمولی معاملات تھے جن کا بحیریٰ نےاپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اس لئے وہ مجبور ہوکر قافلے کی طرف آیا اور اہلِ مکہ کے قافلہ کو ضیافت كی پیشكش كی۔ اس پر قریش کے ایک شخص نے اس پر تکلف اہتمام کی وجہ جاننا چاہی کیونکہ اس سے پہلے بھی ان کے قافلے اس مقام سے کئی بار گزر چکے تھے لیکن کبھی بھی بحیری نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی تھی۔ بحیری نے فقط اتنا کہا کہ وہ ان کی دعوت کرنا چاہتا ہے لہذا وہ اس کی دعوت قبول کریں۔ قافلہ نے ان کی دعوت قبول کی اور نبی کریم کو صِغَر سنی کی وجہ سے درخت کے نیچے سواریوں کی رکھوالی کی غرض سے چھوڑ دیا۔

بحیری کی دعوت کا اصل مقصد

جب اہل قافلہ کلیسا پہنچ گئے تو بحیری نے دیکھا کہ جس شخص سے ملاقات کی غرض سے اس نے یہ دعوت رکھی تھی وہ قافلہ میں موجود نہ تھا۔ لہذا اس نے اہل قریش سے افراد کے حوالے سے استفسار کیا جس پر ایک شخص نے کہا کہ قافلہ کے تمام لوگ موجود ہیں سوائے ایک کم عمر بچہ کے، جس کو ساز و سامان کی حفاظت کی غرض سے پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ بحیری نے اس بچے کو بھی بلانے کا کہا 20 اور اس بات کا اہل قریش کو بھی احساس ہوا کہ انہوں نے اس بچے کو پیچھے چھوڑ کر اچھے رویہ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ اس بچے کا نسب پاک اور اعلی ہے، وہ ابو طالب کا بھتیجا اور عبد المطلب کی اولاد میں سے ہے 21 اور یہ کتنی بری بات ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے سے رہ جائے۔

یہ ساری باتیں سُن کر آپ کے چچا حارث بن عبدالمطلب جلدی سے اُٹھے اور آپ کو لے آئے اور دیگر افراد کے ساتھ لاکر کھانے پربٹھا دیا۔ 22 جب آپ اپنے چچا حارث کے ساتھ کھانا کھانے کے لئے اپنی جگہ سے اُٹھ کر روانہ ہوئے تو بادل بھی آنحضرت کےسر مبارک پرسایہ کیے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ جب بحیریٰ نے یہ منظر دیکھا تو وہ آپ کو مزید غور اور توجہ سے دیکھنے لگا اور ساتھ ساتھ آپ کے جسم ِ اقدس میں وہ علاماتِ نبی آخرالزماں تلاش کرنے لگا جو اُس کے مطابق آپ میں ہونی چاہیے تھیں۔ 23 اس نے حضور میں نبوت کے تمام مطلوب اوصاف پالیے۔ 24 یہی وجہ تھی کہ اُس محفل میں بحیریٰ کی نگاہوں کا مرکز آپ کی ذاتِ اقدس بن گئی تھی۔

بحیریٰ کی حضرت محمد ﷺ سے ملاقات

جب کاروان کے لوگ کھانے سے فارغ ہوکر ادھر اُدھر ہوگئے تو بحیریٰ راہب آپ کے پاس آیا اورآپ کو لات و عزیٰ کی قسم دے کر کچھ چیزیں جاننا چاہیں کیونکہ اس نے اہل عرب کو یہ قسمیں کھاتے دیکھا تھا اور اس کا گمان یہ تھا کہ اگر ان بتوں کے واسطے سے سوال پوچھے گا تو اس کو سچ جواب ملیں گے۔ اس پر نبی کریم نے فرمایا کہ ان کے نزدیک لات و عزیٰ کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ ان دونوں بتوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ 25 اس پر بحیری نے آپ کو اللہ تعالی کی قسم دے کر یہ وعدہ لیا کہ آپ صرف سچا جواب دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ جو سوال کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ پس بحیری نے آپ کے شخصی احوال،آپ کی پسند نا پسند،آپ کی کیفیات اور دیگر اُمور کے بارے میں آپ سے استفسار کیا۔ حضور نے بھی اُس کے سوالات کےجوابات دینا شروع کئے۔ حضور کے جوابات اُس علم کے عین مطابق تھے جو بحیریٰ کے پاس نبی آخرالزماں کی ذات و صفات سے متعلق موجود تھا۔

اس گفتگو کے بعد بحیریٰ نے آپ کی پیٹھ کی طرف دیکھا جہاں اس کو دونوں کاندھوں کے درمیان مہر نبوت نظر آئی۔ یہ وہ علامت تھی جوبحیریٰ کے پاس موجود مقدس کتاب میں موجود تھی۔ 26 مہر نبوت سینگی کے نشان یا کبوتری کے انڈے کی طرح تھی۔ 27 اس نے حضور سےسوالات کے جوابات سُن کر اور آپکے شانہ اقدس پرمہر نبوت دیکھ کر آپ کے چچا ابوطالب سے آپ کا رشتہ جاننا چاہا۔ انہوں نے حضور کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت کی وجہ سے بحیریٰ کو بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ سن کر بحیریٰ بولاکہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اس لڑکے کا باپ زندہ ہو۔ اس کے جواب میں حضرت ابو طالب نے کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے اور جب یہ اپنی والدہ کے بطن میں تھا تو اُس وقت اِن کے والد یعنی میرے بھائی عبداللہ کا وصال ہوگیا تھا۔ اس کے جواب میں بحیریٰ نے کہا کہ اب آپ نے بالکل سچ اور صحیح کہا ہے۔ 28

بحیریٰ کی حضرت ابو طالب کو نصیحت

اس مکالمہ کے بعد بحیریٰ نے حضرت ابو طالب سے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ آپ ان کو واپس اپنے شہر لے جائیں اور یہود سے ان کی حفاظت کیجئے کیونکہ اگر یہود نے ان کو پہچان لیا تو وہ ضرور اِن کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ 29 بحیریٰ ابھی یہ بات بمشکل مکمل ہی کرپایا تھاکہ اس نے مڑکر دیکھا تو وہاں 7 آدمی روم کے فرستادے موجود تھے۔ راہب نے ان سے یہاں آنے کی وجہ دریافت کی جس پر انہوں نے کہا کہ اس ماہ میں ایک نبی خروج کرنے والا ہے لہذا ہر راستے پر پہرے متعین کردئے گئے ہیں اور ان کو اس مقام پر بھیجا گیا ہے۔ بحیری کے استفسار پر انہوں نےیہ بھی بتایا کہ یہ 7 افراد سب سے زیادہ بہتر گردانے گئے تھے اور اسی وجہ سے ان کو بحیری کی طرف بھیجا گیا ہے۔ یہ سب سن کر بحیریٰ نے کہا کہ تم اس بات کو جان لو کہ اللہ تعالی کسی کام کا ارادہ فرمالے تو کسی میں اتنی مجال نہیں کہ وہ اس میں دخل دے سکے لہذا کوئی بھی اس نبی آخر الزماں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ 30

بعض روایات کے مطابق اس سفر میں 3 اہلِ کتاب بھی حضرت ابوطالب کے ہمراہ تھے جن کے نام زریرا ،تمّام اور دریس تھے 31 اور ابن اسحاق کی روایت کے مطابق اس میں زریر کے بجائے "زبیر" نام کا شخص موجود تھا 32اور یہ تینوں مذہباً یہودی تھے۔ انہوں نے بھی حضور کو اسی نظر سے دیکھا تھا جس انداز سے بحیریٰ راہب نے آپ کو دیکھا تھا اور انہوں نے بھی آپ کو تکلیف اور نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ بحیریٰ نے انہیں بھی اس کام سے سختی سے منع کیا اور وہ تمام باتیں انہیں یاد دلائیں جو ان کی مقدس کتاب میں حضور کے اوصاف و تذکرے کے بارے میں بیان کی گئی تھیں اور انہیں یہ حقیقت ذہن نشین کروائی کہ اگر وہ سب مل کر بھی حضور کو کوئی ضرر یا نقصان پہنچانا چاہیں تو پھر بھی ایسا کرنا ان کے لئے ممکن نہ ہوسکے گا۔ بحیریٰ نے اپنی اس بات پر اس قدر اصرار کیا کہ وہ لوگ اس بات کو بخوبی سمجھ گئے جو بحیریٰ انہیں ذہن نشین کروانا چاہتا تھا۔ بالآخر انہوں نے اُس بات کی تصدیق کی جس کی بحیریٰ نے خود بھی تصدیق و تائید کی ہوئی تھی اوروہ آپ کو چھوڑکر واپس لوٹ گئے۔33 اس موقع پر بحیریٰ نے حضرت ابو طالب کو قسمیں اور واسطے دے کر انہیں شام جانے کے بجائے راستے سے ہی واپس کردیا۔ اس موقع پر بحیریٰ نے واپسی كے سفر كے لئے اپنی طرف سے میدہ، دودھ اور شکر سے تیارکردہ روٹی جو کعک کہلاتی تھی بطور زادِ راہ کے حضور كے لئے پیش کی۔ 34

 


  • 1 أبو سعيد عبد الله بن عمر الشيرازي البيضاوي، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، ج: 5، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1418 ھ، ص: 340
  • 2 أبو عبد الله محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي، الجامع لأحكام القرآن المعروف بالتفسير القرطبي، ج: 20، مطبوعۃ: دار الكتب المصرية، القاهرة، 1964م، ص: 204
  • 3 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃابن ہشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م ، ص: 144
  • 4 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج: 1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 314
  • 5 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ ابن ہشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م ، ص: 144
  • 6 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج: 1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 314
  • 7 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون الشھیر بالسیرۃ الحلبیۃ، ج: ۱، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ،ص: 171
  • 8 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃابن ہشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 144
  • 9 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، تاريخ الرسل والملوك،ج: 2، مطبوعۃ: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387ھ، ص: 277
  • 10 أحمد أحمد غلوش، السيرة النبوية والدعوة في العهد المكي، مطبوعۃ: مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 208
  • 11 UNESCO World Heritage Convention (Online): https://whc.unesco.org/en/list/22/ Retrieved: 06-03-2024
  • 12 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون الشھیر بالسیرۃ الحلبیۃ، ج: ۱، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 172
  • 13 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج: 1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 314
  • 14 پیرمحمدکرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج: 2،مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان ،2013ء، ص: 107
  • 15 الإمام أبو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزي، الوفاء بأحوال المصطفى (ﷺ)، ج-1، مطبوعة: المؤسسة السعيدية بالرياض، لیس التاریخ موجوداً، ص: 218
  • 16 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ ، ج: 2، مطبوعۃ: دارلکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 24
  • 17 امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج: 1، مطبوعۃ: دارلکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 122
  • 18 ابوالفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج: 2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 345
  • 19 پیرمحمدکرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج: 2،مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان ،2013ء، ص: 107
  • 20 أبو عبد الله محمد بن سعد البصري، الطبقات الكبرى، ج: 1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1968م، ص: 154
  • 21 الإمام أبو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزي، الوفاء بأحوال المصطفى (ﷺ)، ج-1، مطبوعة: المؤسسة السعيدية بالرياض، لیس تاریخ موجوداً، ص: 219
  • 22 الإمام أبو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزي، الوفاء بأحوال المصطفى (ﷺ)، ج-1، مطبوعة: المؤسسة السعيدية بالرياض، لیس تاریخ موجوداً، ص: 219
  • 23 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 173
  • 24 أبو إبراهيم محمد إلياس عبد الرحمن الفالوذة، الموسوعة في صحيح السيرة النبوية، مطبوعۃ: مطابع الصفا، مكة، السعوديۃ، 1423 هـ، ص: 113
  • 25 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃابن ہشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 145
  • 26 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج: 2، مطبوعۃ: دارلکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 28
  • 27 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ ابن ہشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 145
  • 28 ابو الحسن علی بن محمد الشھیر بابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، ج: 1، مطبوعة: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، 1997م، ص: 638
  • 29 ایضاً
  • 30 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، تاريخ الرسل والملوك، ج: 2، مطبوعۃ: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387 هـ،ص:278-279
  • 31 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ ابن ہشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 145
  • 32 امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دارلکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 124
  • 33 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ ابن ہشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:145
  • 34 الإمام أبو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزي، الوفاء بأحوال المصطفى (ﷺ)، ج-1، مطبوعة: المؤسسة السعيدية بالرياض، لیس تاریخ موجوداً، ص: 222