رمضان المبارک کا مہینہ اسلامی جنتری و تقویم کے حساب سے نواں مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں قرآن کریم کو نازل کیا گیا اور مسلمانوں پر روزے فرض کئے گئے 1 جس کی وجہ سے اس ماہ کو دیگر مہینوں پر فضیلت دی گئی ہے۔ گذشتہ اقوام وملل پر روزہ کسی نہ کسی شکل میں فرض تھا تاکہ وہ بھی مخصوص ایام ولمحات میں اللہ تعالی کی رضا کے حصول اور اپنی بخشش ومغفرت کےلیے صِدقِ دل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہو سکیں اور تقویٰ کی لازوال دولت سے بہرہ مند ہوسکیں۔ 2
روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں جسکے لغوی معنی ہیں الامساک 3 یعنی رکنا، کسی چیز سے پرہیز کرنا اور اسے ترک کرنا ۔ شرعی اصطلاح میں روزہ کی تعریف فقہاء نے یوں کی ہے:
والصوم هو الإمساك عن الأكل والشرب والجماع نهارا مع النية . 4
روزہ (دن کے وقت) نیت کے ساتھ کھانے پینے اور مباشرت سے رکنے کو کہتے ہیں۔
رمضا ن المبارک کے روزے ہر عاقل، بالغ، مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہیں۔ 5 اس کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں رہتا ۔ 6 وہ شخص جو جان بوجھ کر اس ماہ مبارک کے روزوں کو نہ رکھے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہے۔7 وہ افراد جو کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں جو روزے کی حالت میں ان کےلیے نقصان دہ اور تنگی کا باعث ہو یا شرعی مسافر ہوں تو ان کےلیے رخصت یہ ہے کہ رمضان کے جتنے روزے ان سے چھوٹ جائیں وہ ان تمام روزوں کی قضا بقیہ مہینوں میں کریں۔ 8 اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بھی روزہ قضا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ 9 وہ اشخاص جو اپنی عمر کی زیادتی اور جسمانی ضعف کے سبب روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے انہیں شریعت کی اصطلاح میں شیخ فانی کہا جاتا ہے، وہ فدیہ دینے کے پابندہوتے ہیں۔ 10 ایک روزہ کافدیہ ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا نصف صاع گندم یعنی 2 کلو چکی کا آٹا یا اسکی قیمت صدقہ کرناہے۔ 11
روزے کی فرضیت ہجرت مدینہ کے دوسرے سال ماہ رمضان المبارک میں ہوئی۔ 12 اللہ تعالی نے قرآن کریم میں روزوں کی فرضیت کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 183 13
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
اس حوالہ سے ابن القیم جوزی زاد المعاد میں تحریر فرماتے ہیں:
وكان فرضه في السنة الثانية من الهجرة، فتوفي رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وقد صام تسع رمضانات. 14
(رمضان المبارک) ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا، رسول اللہ نے دنیا سے پردہ فرمانے سے پہلے نو (سال مسلسل ) رمضان المبارک کے روزے رکھے۔
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالی نے فرض روزوں کی ادائیگی اور اپنی آخری کتاب کےنزول کےلیے منتخب فرمایاہے۔ 15 اس ماہ کے روزےکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر عملِ خیر کااجر وثواب متعین شدہ ہے لیکن روزہ کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ میں خود اپنے طور پر اس کا بدلہ جیسے چاہوں گا ویسے دوں گا۔ جیسا کہ مسند امام احمد میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہے:
يقول اللّٰه عز وجل: كل عمل ابن آدم له، إلا الصيام، فهو لي، وأنا أجزي به، إنما يترك طعامه وشرابه من أجلي، فصيامه لي وأنا أجزي به، كل حسنة بعشر أمثالها، إلى سبع مائة ضعف، إلا الصيام، فهو لي، وأنا أجزي به. 16
اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم کاہر عمل اس کےاپنےلیے ہے سوائے روزوں کے۔ وہ میرے لیے ہیں اور میں خود ان کی جزا دوں گا کیوں کہ وہ میری خاطر ہی اپنا کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اس کا روزہ میرے لیے ہی ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیوں سے سات سو نیکیاں (بلکہ اس کے) دگنے تک ہوتا ہے سوائے روزہ کے، وہ میرے لیے ہے تو میں خود ہی اس کی جزا دوں گا۔
اللہ تعالی نے روزوں کے علاوہ ہر خاص نیکی کے بدلہ مطلقاً جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے لیکن رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت کی وجہ سے روزہ داروں کےلیے الگ سے جنت میں ”الرَّیَّان“ نامی ایک دروازہ مختص کیا ہےجس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ اس حوالہ سے حضور نے ارشاد فرمایا :
ان في الجنة بابا یقال لہ الریان یدخل منہ الصائمون یوم القیامۃ لا یدخل منہ احد غیرہم یقال این الصائمون، فیقومون لایدخل منہ احد غیرہم فاذا دخلوا اغلق فلم یدخل منہ احد. 17
بے شک جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ''الریان'' کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اس دروازہ سےاور کوئی اس میں نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ۔ ان کے سواکوئی اور اس سے اندر نہیں جا پائے گا اور جب یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر ان کے بعد اس سے کوئی اندر داخل نہ ہو سکے گا۔
روزہ کو یہ اہمیت بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمان روزہ دار کےلیے جہنم اور اس کے عذاب سے بچنے کی مضبوط ڈھال ہے ۔ نبی کریم نے ارشاد فرمایا :
الصيام جنة، وحصن حصين من النار. 18
روزہ(روزہ دار کےلیے) ڈھال اور آگ سے بچنے کےلیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔
روزہ کو قلعہ سے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ گارے، مٹی اور پتھر سے بنے ہوئے قلعہ میں انسان داخل ہوکر اپنے آپ کو ہر قسم کے دشمن اور اس کی ایذا رسانیوں سے محفوظ سمجھتا ہے حالانکہ ان اشیاء سے بنے ہوئے قلعے کسی بھی وقت منہدم کئے جاسکتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کا کسی عمل یا نیکی کو قلعہ قرار دینا اس عمل او ر اس کے دنیاوی واخروی ثمرات کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھانے کے مترادف ہے جو سب سے مضبوط قلعہ اور مضبوط ترین پناہ گاہ ہے۔
ماہ رمضان المبارک کے روزےانسان کی بشری خطاؤں کے ازالے کا سبب ہیں کیوں کہ انسان سے نہ چاہتے ہوئے بھی بسا اوقات ایسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے جسے وہ خود بھی پسند نہیں کرتا بلکہ اس پر دل وجان سے اللہ کے حضور شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ ایسے گناہوں کا کفارہ ماہ رمضان المبارک کے روزے بن جایا کرتے ہیں ۔حضور نے ایسے ہی سچے مسلمانوں کےلیے یہ بشارت دی ہے:
من صام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه. 19
جس شخص نےرمضان کے روزے ایمان اور احتساب)حصول اجر و ثواب کی نیت( کے ساتھ رکھے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
اس حوالہ سے ایک دوسرے مقام پر آپ کی خوشخبری ان روزہ داروں کےلیے ہے جو حدود اللہ کا پاس رکھتے ہوئےروزہ گزارتے ہیں:
عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، قال: من صام رمضان وعرف حدوده، وتحفظ ما ينبغي أن يتحفظ، كفر ما قبله. 20
نبی نے فرمایا: جس نے رمضان کا روزہ اس کی حدود (کی پابندی کےساتھ)اور ان امور کا لحاظ کرتے ہوئے رکھا جن کا لحاظ رکھنا ضروری تھا،اللہ تعالی(اس روزہ کو) اس مسلمان کے ماقبل کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے ۔
یعنی اگر کسی مسلمان سے احکام الہی اور واجبات دینیہ کا ترک صادر ہوجائے تو اس کےلیے ماہ صیام کے روزے بغیر کسی شک وشبہ کے باعث ازالہِ ذنوب بن جاتے ہیں ۔
رمضان المبارک کا روزہ ایک مستقل فرض عبادت ہے لیکن اس کے باوجود اسے زکوۃ سے تشبیہ دینا اس کی دوہری اہمیت وفرضیت کی طرف واضح اشارہ کرتاہے۔ خاتم النبیین نے ارشاد فرمایا :
لكل شيء زكاة، وزكاة البدن الصوم. 21
اللہ تعالی کی نگاہ میں روزہ دار کی قدر ومنزلت کا عالم یہ ہے کہ وہ خاص فرشتے جنہوں نے عرش الٰہی کو تھام رکھا ہے انہیں بھی ماہ رمضان المبارک میں ان کی مخصوص عبادات رکوا کر صرف اس کام پر مامور کردیا جاتا ہے کہ روزہ دار سحر وافطار سمیت روزہ کی حالت میں جس وقت بھی اللہ کے حضور کسی جائز کام کےلیے دعا کرے تو یہ فرشتے اس کی دعا پر اس کے روزے کے احترام میں آمین کہتے رہیں۔جیسا کہ حدیث قدسی میں مروی ہے:
إني آمر حملة العرش إذا دخل شهر رمضان أن يمسكوا عن العبادة وكلما دعا صائمو رمضان بدعوة أن يقولوا آمين، وإني أوجبت على نفسي أن لا أرد دعوة صائمي رمضان. 22
جب رمضان کا مہینہ داخل ہوجائے تو میں (اللہ تعالی) عرش کو تھامنے والے فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں کہ تم اپنی عبادت سے رک جاؤ اور روزہ دار کی دعا پر آمین کہتے رہو کیوں کہ میں نے اپنی ذات پر یہ واجب کرلیا ہے کہ رمضان کے روزہ رکھنے والوں کی دعا کو رد نہ کروں۔
رمضان المبارک میں صحت، اقامت اور تندرستی کے باوجود ایک روزہ بھی ترک کر دینا اتنا بڑا اور ناقابل تلافی نقصان ہے جسے حیات فانی کے بقیہ سارے لمحات خرچ کرکے بھی پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آپ کا ارشادِعظیم ہے:
من أفطر يوما من رمضان في غير رخصة رخصها اللّٰه لم يقض عنه صوم الدهر. 23
جس آدمی نےاس عذر کے بغیر جس کی اللہ تعالی نے اجازت دی ہے رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا تو عمر بھر روزہ رکھنے سےبھی اس ایک روزے کی تلافی نہیں ہوگی۔
ماہ رمضان المبارک مسلمانوں کےلیے ہر سال اعمالِ خیر کی بہار لے کر طلوع ہوتا ہے تاکہ شب و روز کے کاموں میں مشغول مسلمان اس ماہ مبارک میں عبادات بجا لا کردنیاوی فوز وفلاح اور اخروی نجات حاصل کر سکیں ۔ اللہ تعالی نے اس مہینہ میں کم عبادت پر بے حد وحساب اجر وثواب کا وعدہ کررکھا ہے البتہ اس ماہ میں رحمت ومغفرت الہی کے سیل رواں سے اپنے آپ کو جان بوجھ کر محروم رکھنے والا شخص دنیا وآخرت کے ہر خیر سے محروم کردیا جاتا ہے ۔