Encyclopedia of Muhammad

آپﷺ کا مادّہ تولید مبارک

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دنیاکو انسان کے ذریعہ آباد فرمایا ہے جس کا ذریعہ توالد و تناسل ہے اورحضرت آدم سے ہی نسلِ انسانی کو پھیلایا ہے۔جیساکہ باری تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

  یاَیھا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكمُ الَّذِى خَلَقَكمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَة وَّخَلَقَ مِنْھا زَوْجَھا وَبَثَّ مِنْھمَا رِجَالًا كثِیرًا وَّنِسَاۗءً وَاتَّقُوا اللّٰه الَّذِى تَسَاۗءَلُوْنَ بِه وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰه كانَ عَلَیكمْ رَقِیبًا11
  اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں جتنے بھی مردو عورتیں ہیں وہ تمام کی تمام ایک ہی جان یعنی حضرت آدم کی نسل سے ہیں۔

تخلیق کا جوہرِ اصلی

اس نسلِ انسانی کی تخلیق جس پانی سے ہوئی ہے اور جو اس تخلیق کا اصل الاصول جوہرہے اس کے بارے میں ذکرکرتے ہوئے قرآن مجید فرقان حمید یوں ارشاد فرماتا ہے:

  اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَة اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِىه فَجَعَلْنٰه سَمِیعًۢا بَصِیرًا212
  بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا فرمایا جسے ہم (تولّد تک ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف) پلٹتے اور جانچتے رہتے ہیں، پس ہم نے اسے (ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہے۔

یعنی تخلیقِ انسانی کےجوہرِ اصلی کو قرآنِ مجید نطفۂ امشاج سے تعبیر کررہا ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک مخلوط نطفہ سے اس انسان کی تخلیق وجود میں آئی ہے۔اس مخلوط نطفہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے قرآن ِ مجید ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

  فَلْینْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ5خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ6 یخْرُجُ مِنْۢ بَینِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗیبِ7 3
  پس انسان کو غور (و تحقیق) کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔وہ قوت سے اچھلنے والے پانی (یعنی قوی اور متحرک مادۂ تولید) میں سے پیدا کیا گیا ہے۔جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان (پیڑو کے حلقہ میں) سے گزر کر باہر نکلتا ہے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ماقبل مذکور نطفۂ امشاج کی تفصیل بیان فرمائی ہے جو ترجمہ سے واضح ہے۔اس سے معلوم یہ ہوا کہ انسان کی تخلیق اس پانی سے ہوئی جس کو عرف ِ عام میں مادّہ تولید کہا جاتا ہے۔یہی وہ پانی ہے جس سے نسلِ انسانی کی بقاء و نشو نما ہوتی ہے اور اسی پانی کی قوت و طاقت کی بنا پر والد ومولود کی قوت و طاقت کا انحصار ہوتا ہے۔

رسولِ اکرم کی جوہری تخلیق

رسول اکرم بھی حضرت آدم کی اولاد میں سے ہیں جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ آپ بھی بشر ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ چونکہ ایسے بشر ہیں جس پر وحی کی جاتی ہے4تو اس وصف سے اتصاف کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ آپ عام بشر تو درکنار اخصّ الخوّاص بشری جماعت کے فرد ہیں اور وہ بھی اعلیٰ و افضل ترین، ایسے کہ جن سے بڑھ کر کسی پر بھی عطاء خداوندی وانعامِ ایزدی نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔5

خواہ کوئی بھی معاملہ ہو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اکرم کو ہر لحاظ سے منفرد مقام عطا فرمایا ہے اور اس کی جھلک اور ملاحظہ کے لیے اتنا کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنےآخری رسول کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ صفاتی ناموں سے مخاطب فرمایا ہے کہیں بھی براہ راست نام لے کر مخاطب نہیں فرمایا ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابتداء ِ آفرینش ہی سے آپ کی جوہری تخلیق بھی نمایاں انداز سے فرمائی ہےچنانچہ مروی ہے:

  عن كعب الاحبارقال لما اراد اللّٰه تعالٰى ان یخلق محمدًاصلى اللّٰه علیه وسلم امر جبریل ان یا تیه فاتاہ بالقبضة البیضاء التى ھى موضع قبررسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فعجنت بماء التسنیم ثم غمست فى انھار الجنة وطیف بھا فى السموات والارض فعرفت الملائكة محمدًا وفضله قبل ان تعرف آدم ثم كان نور محمد صلى اللّٰه علیه وسلم یرٰى فى غُرة جبھة آدم وقیل له یاآدم ھذا سید ولدك من الانبیاء والمرسلین فلما حملت حواء بشیث انتقل عن آدم الى حواء وكانت تلد فى بطن ولیدین الا شیثا فانھا ولدته وحده كرامة لمحمد صلى اللّٰه علیه وسلم ثم لم ینزل ینتقل من طاھر الى طاھر الى ان ولد صلى اللّٰه علیه وسلم.6
  کعب احبار نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے(سیدنا) محمد ( ) کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا توحضرت جبرئیل امین کو حکم دیا کہ ایسی مٹی میرے پاس لے آؤ( جو میرے محبوب پاک کے جسم اقدس اور جسد اطہر کی ایجاد و تخلیق کے لائق ہو )تو وہ سفید مٹی کی ایک مٹھی روضہ اطہر والی جگہ سے لے کر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوئے تو (امر خداوندی سے) اس کو تسنیم کے پانی سے گوندھا گیا،جنت کی نہروں میں اس کو دھویا گیا پھر (نورِ نبوت اس میں رکھ کر) اس کو آسمانوں اور زمینوں میں پھرایا گیا ۔تب ملائکہ نے محمد مصطفیٰ اور ان کے شرف و فضل کو دریافت کرلیا جبکہ ابھی انہوں نے حضرت آدم کو نہ جانا تھا اور نہ پہچانا تھا۔ پھر نور محمدی (تخلیق آدم کے بعد ان کی پشت میں ودیعت کیا گیا جو کہ) آدم کی پیشانی سے جھلکنے والے انوار سے محسوس ہوتا تھا اور ان سے کہا گیا آدم یہ تیری نسل میں پیدا ہونے والے انبیاء و مرسلین کے سردار ہیں ۔جب حضرت حوّا کے بطن اطہر میں حضرت شیث منتقل ہوئے تو وہ نور بھی حضرت حوّا کے بطن اقدس کی طرف منتقل ہوگیا۔ وہ ہر دفعہ دو جڑواں بچوں کو جنم دیتی تھیں ماسوا حضرت شیث کے کیونکہ وہ آنحضرت کے جدّ امجد ہونے کی برکت سے تنہا پیدا ہوئے (اور سب بھائیوں سے مرتبہ و کمال کے لحاظ سے یکتا بنے) پھر نبی الانبیاء کا نورِ انور یکے بعد دیگر ے پاک پشتوں اور پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔7

مذکورہ روایت سے واضح ہوجا تا ہے کہ نبی اکرم کی جوہری تخلیق نمایاں انداز سے ہوئی ہے اور اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کا پیکرِ انور لطافت کے اعلی ترین درجہ پر ہو ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کا جسم اطہر انتہائی لطیف تھا اور جسمِ اقدس کی لطافت کی بنا پر آپ کا سایہ ہی نہیں تھا 8 کیونکہ لطافت و نورانیت کا کوئی جسم ہی نہیں ہوتا 9تو سایہ کیونکر ممکن ہو۔اس کی مزید تفصیل "جواھر البحار" 10 میں دیکھی جاسکتی ہے۔11 بہر کیف مذکورہ بالا کلام سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم سر تاپا "اخصّ الخوّاص" ہیں اسی وجہ سے آپ کی رحمِ مادر میں منتقلی اور پھر اس میں آپکی تخلیق بھی نمایاں انداز سے کی گئی تھی ۔ 12

آپ کا پاکیزہ مادّہ تولید

جب آپ کی جوہری تخلیق بھی نمایاں ہوئی ہے اور پھر رحم مادر میں منتقلی اور ا س میں پرورش بھی نمایاں رہی تواسی طرح جس نطفۂ مبارک سے حضور نبی کریمکا جسدِ اقدس معرض ِ وجود میں آیا وہ بھی طاہر تھا۔چنانچہ علماء سیر نے اس بات کو وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ آپ جس نطفۂ مبارک سے خلق ہوئےوہ بھی پاکیزہ و مطہر تھا۔چنانچہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی عارف باللہ امام صاوی کے حوالہ سے رقمطراز ہیں کہ انہوں نے ایک درود شریف میں مذکور لفظ طاھر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے:

  معنى الطاھر المنزة عن الادناس الحسیة والمعنویة وقد نص العلماء على طھارة النطفة التى تكون منھا المصطفى صلى اللّٰه علیه وسلم واخرجوھا عن الخلاف الذى فى طھارة المنى كما ان جسده الشریف طاھر بعد الموت بالاجماع كاجساد الانبیاء فھم مستثنون من الخلاف فى طھارة الآدمى بعد الموت ونصوا على طھارة جمیع فضلاتھم الخارجة منھم فى الحیاة وبعد الممات.13
  "الطاھر" کا معنی یہ ہے کہ آپ حسی اور معنوی ہر قسم کے میل اور نجاست سے منزہ و پاک تھے۔ حضرات علماء کرام نے اس پر نص فرمائی ہے کہ آپ جس نطفہ سے پیدا کیے گئے، وہ پاک تھا اور علماء نے منی کے پاک یا پلید ہونے کے اختلاف سے اُس نطفۂ مبارکہ کو مستثنی رکھا ہے(یعنی کہ یہ نطفۂ مبارکہ بالاتفاق پاک ہے)۔ پھر آپ کا جسد اطہر انتقال کے بعد بھی بالا جماع طاہر ہےجیسا تمام انبیاء کرام کے اجسام پاک طاہر ہوتے ہیں۔ علماء میں جو یہ اختلاف ہے کہ عام آدمی کا جسم مرنے کے بعد پاک ہوتا ہے یا نہیں؟ اس اختلاف سے حضرات انبیاء کرام کے اجسام عالیہ مستثنیٰ ہیں۔ (یعنی بالاتفاق والا جماع یہ پاک ہیں) علماء نے یہ بھی بطور نص فرمایا ہے کہ تمام انبیاء کرام کے جسم سے خارج ہونے والے فضلات بھی طاہر ہیں خواہ وہ زندگی میں خارج ہونے والے ہوں یا بعد ازوصال۔ 14

اس عبارت سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم جس نطفۂ مبارک سے تولد ہوئے وہ بھی پاکیزہ تھا اور اسی طرح یہ بھی واضح ہوا کہ آپ کے تمام تر فضلات بھی پاکیزہ طاہر ہیں جس میں آپ کا مادّہ تولید بھی شامل ہے ۔

آپ کے مادّہ تولید کی قوّت

انسان کی جسمانی قوّت و طاقت کا دار ومدار ایک لحاظ سے اس کے مادّہ تولید پر بھی منحصرہوتا ہے اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ طاقتور والد کا مولود بھی طاقتور ہوتا ہے ۔طبی لحاظ سے بھی یہ مسلمہ بات ہے کہ والد کے خصائل و عادات کا پرتو اس کے مولود پر پڑتا ہےوالد کے مادّہ تولید کی وجہ سے ۔رسولِ اکرم کی قوت و طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے کئی واقعات کتبِ سیرمیں منقول ہیں جس میں مکّہ کے مشہور طاقتور " رکانہ" ا ور "ابوالاسود جمعی"پہلوانوں کو شکست دینا شامل ہیں۔15 اسی طرح خندق کے موقع پر بھوک کی شدت میں انتہائی سخت ترین چٹان کو ایک کدال مار کر ریزہ ریزہ کردینے16سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی جسمانی قوت بے انتہاء تھی اور اسی سے آپکے مادّہ تولید کی قوت و طاقت کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔اسی طرح آپ کے مادّہ تولید کی قوت کےبارے میں ایک روایت میں آپکا درجِ ذیل فرمان مروی ہے:

  أعطیت قوة أربعین فى البطش وانكاح.17
  مجھے (یعنی رسولِ اکرم کو)گرفت اور نکاح کے سلسلے میں چالیس(جنتی)مردوں کی قوت عطا کی گئی ہے۔

اس کی مزید توضیح اس روایت سے ہوجاتی ہے جس میں منقول ہے کہ ایک جنتی مرد کی طاقت دنیاوی کئ مردوں کے برابر ہے۔چنانچہ اس حوالہ سےروایت میں منقول ہے:

  قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم :إن الرجل من أھل الجنة لیعطى قوة مائة رجل فى الأكل والشرب والجماع والشھوة.18
  رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:بلا شبہ جنتی مرد کو کھانے، پینے،صحبت اور شہوت کے سلسلے میں (دنیاوی)سو مردوں جیسی طاقت عطا کی جائیگی۔

اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کی جسمانی طاقت اور قوّت باہ دنیاوی چار ہزار آدمیوں کے برابر تھی اور یہ صرف آپ کا امتیاز تھا۔ اس کے باوجود آپ عفت وعصمت کے اس کمال پر فائز تھے کہ آپ نے تقریبا اننچاس سال صرف ایک زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا خدیجۃ الکبرٰی کے ساتھ اپنی مکمل جوانی گزاردی۔پھر امت کی تعلیم اور وحیِ الہی کی تبلیغ کی خاطر زندگی کے آخری حصہ میں تقریبا چودہ سال تعلیم وتبلیغ کے مقصد سے آپ نے کئی نکاح فرمائے۔ایک اور بات جو قابلِ غور ہےوہ یہ کہ نبی اکرم اپنی زندگی کے آخری ایام میں ازواجِ مطھّرات رضوان اللہ علیھن کے پاس شب باشی بھی فرماتے ، تہجد کے لیے بھی تیار رہتے، پھر فجر کی امامت کے لیے بھی تشریف لاتے تھے ۔19 ان امور سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم جسمانی لحاظ سے اور قوتِ باہ کے لحاظ سے انتہائی طاقتور تھے۔

اواخرِ عمر میں آپ کے مادّہ تولید کی کیفیت

نبی اکرم کی جسمانی طاقت اور قوتِ باہ کا اندازہ ماقبل روایات سے واضح ہوجاتا ہے۔آپ کی عمر مبارک کے آخری عشرہ میں بھی آپ کی قوتِ باہ لاثانی تھی جس سے یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ آپ کامادّہ تولید اوائلِ عمر مبارک میں بھی لاثانی تھا۔اس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ رسول اکرم کی عمر مبارک کے تقریبا آخری عشرہ میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ آپ کے ساتھ رہی تھیں کیونکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ہجرت کے بعد رخصت ہوکر آپ کے گھر کی زینت بنیں اور اس وقت رسول اکرم کی عمر مبارک تقریباً 54 سال تھی۔ 20 اس لحاظ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی آپ کے مادہّ تولید کے بارے میں منقول روایت اسی عشرہ سے تعلق رکھتی ہےجس میں آپ فرماتی ہیں:

  وإنى لأحكه من ثوب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یابسا بظفرى.21
  بلاشبہ میں رسول اللہ کے مبارک کپڑوں سے(آپ کے)سوکھے( مادّہ تولیدکو)اپنے ناخنوں سے کھرچتی تھی۔

اب اس روایت کے الفاظ سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کا مادّہ تولید آپ کی آخری عمر مبارک میں بھی اتنا گاڑھا اور توانا تھا کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ اس کو اپنے ناخنوں سے کھرچتی تھیں۔اب قارئین خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جو چالیس ہزار مردوں کی قوت والی روایت ما قبل میں مذکور ہوئی ہے وہ یقینی طور پر قطعی علم کا فائدہ دیتی ہے اور ان مذکورہ تمام روایات سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم کا مادہ تولید اوائلِ عمر سے اواخر عمر مبارک تک لاثانی اور انتہائی توانا و طاقتور تھا۔

مستشرقین کا اعتراض اور اس کا جواب

اس موضوع پر گوہر فشانی کی وجہ یہ بنی کہ رسول اکرم کی پاکیزہ و منزہ سیرت ِ طیبہ پر کئی طرح کے بے بنیادالزامات لگائے گئے ہیں جن کی فی الواقع علمی جہاں میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔اسی طرح کا ایک سوال آپ کی بے عیب او ربے داغ شخصیت پر یوں کیا گیا ہے کہ آپ کی آخری عمر مبارک میں اولاد نہ ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ اس عمر میں آکر اولاد کو حاصل کرنے کی قوت سے (العیاذ باللہ)تہی دست ہوگئے تھےحالانکہ نبی اکرم کی قوت و طاقت اواخرِ عمر میں بھی اسی طرح اپنے بامِ عروج پر تھی جس طرح کہ اوئلِ عمر میں تھی جس کا تفصیلی ذکر ما قبل کے اوراق میں واضح کردیاگیا ہے اور اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ نبی اکرم کی سب سے آخری اولاد یعنی حضرت ابراہیم بن رسول اللہ سن آٹھ ہجری میں متولد ہوئے جس وقت نبی اکرم کی عمر مبارک تقریبًا ساٹھ سال تھی۔ 22

اب قارئین کرام ان جیسے سوالات کی حیثیت سے بخوبی آشنا ہوگئے ہوں گے کہ اس طرح مستشرقین آپ کی سیرت سے لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے ایسے بد دیانتی پر مشتمل سوالات اٹھاتے ہیں تا کہ لوگ رسول اکرم کی بے داغ سیرت طیبہ کو پڑھ کر آپ کے لائے ہوئے پیغام کو قبول نہ کرلیں لیکن ہر دور میں ان جیسے اعتراضات کا علمی و دیانت داری پر مشتمل جواب دیا جاتا رہا ہے اور دیا جاتا رہیگا۔(ان شاء اللہ )

اگر بالفرض حضرت ابراہیم بن رسو ل اللہ متولد نہ بھی ہوتے تب بھی اس میں کوئی مضائقہ والی بات نہ تھی کیونکہ قوت باہ کی توانائی اور طاقت کا اظہار صرف اولاد کہ نہ ہونے سے نہیں ہوتا ۔یہ تو مشاہداتی بات ہے کہ کتنے ہی تنو مند افرادکے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور کتنے ہی نا تواں افراد کے ہاں اولاد کی نعمت میسر آجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد کا ہونا نہ ہونا یہ مشیتِ باری پر منحصر ہے اس کا قوت باہ سےاصلًا کوئی تعلق نہیں ہے۔

خلاصۂ کلام

اس تمام تر گفتگو کو سمجھنے کے بعد ایک بات کی طرف توجہ کرنا انتہائی لازم ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی جسم اپنی بقاء کے لیے خوردونوش کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی موت بن جاتی ہے۔لیکن رسول اکرم کے صومِ وصال 23 سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم کامل بشر ہیں جو بے نظیر ہیں 24 اور آپ کو دنیاوی کھانوں اور مشروبات کی اس طرح حاجت نہیں جس طرح دیگر افرادِ انسانی کو ہے۔اس سے جہاں آپ کی اعلی و منفرد بشریت کی طرف اشارہ ملتا ہے وہاں یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ آپ کا جسم اطہر تمام نوع ِانسانی کے افراد سے منفرد و ممتاز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے شکم مبارک میں پہنچنے والی غذاء بجائے کثافت وغلاظت کے لطافت و طہارت کا نمونہ بن جاتی تھی اور جائے استراحت پر خوشبو کے علاوہ کسی چیز کا نشان موجود نہیں ہوتا تھا۔ 25 اس شکمِ مبارک میں سے ہوکر کچھ غذا مبارک خون اور کچھ مبارک مادّہ تولید میں تبدیل ہوجایا کرتی تھی۔ان تمام باتوں سے سمجھانا مقصود یہ ہے کہ نبی اکرم کا مادّہ تولید بھی آپ کے باقی فضلاتِ مبارکہ کی طرح تھا جس میں طہارت و لطافت و قوّت و انفرادیت تمام کمالات بدرجہ اتم موجود تھےاور حضرت عائشہ صدیقہ کا آپ کے مادّہ تولید کو کھرچنا ، ناپاکی کی وجہ سےنہیں تھا کیونکہ آپ کےتمام فضلات مبارکہ کی پاکی پر اجماع ہے26 بلکہ آپ کے اس حکم کی تعمیل تھی جو آپ نے صرف تربیتِ امت اور احکام شریعت پہنچانے کے لیےدیا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ انبیاء کرام کے اجسام تو جنتی اجسام کی طرح ہی بنائےگئے ہیں 27 جن میں رسول اکرم سید الاوّلین والاخرین کے مقام پر جلوہ افروز ہیں۔ 28

 


  • 1 القرآن، سورۃ النساء1:4
  • 2 القرآن، سورۃالدھر2:76
  • 3 القرآن، سورۃالطارق86 :7-5
  • 4 القرآن، سورۃالکھف110:18
  • 5 ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:2742، ج-4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:472
  • 6 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی، الوفا باحوال المصطفیٰﷺ، ج-1، مطبوعۃ:المؤسسۃ السعیدیۃ، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:70
  • 7 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی، الوفا باحوال المصطفیٰﷺ(مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:49
  • 8 قاضى عياض بن موسى مالكى، الشفا بتعريف حقوق المصطفىﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:731
  • 9 نور الدین علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ ، ص: 755
  • 10 شيخ يوسف بن اسماعيل نبهانى، جواهر البحار فى فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010ء، ص:41-44
  • 11 رسول اکرمﷺ کی جسمانی لطافت کا اندازہ آپﷺ کے صفاتی نام "مصطفیﷺ"سے بھی ہوجاتا ہے۔لفظ مصطفیٰ کا مادہ صفو یا صفا ہے جس کے معنی ہیں خلوص الشئی من الشوب (کسی شئے کا ملاوٹ سے بالکل پاک ہونا ) الصفا کا معنی الحجارة الصافیة (صاف ستھرا پتھر) کیا جاتا ہے اس سے الاصفاء ہے جس کے معنی استصفاء (تناول الصفو/ تناول صفو الشئی کسی شے کی انتہائی صاف حالت کو حاصل کرنا) کے ہیں جیسے الاختیار کے معنی تناول خیرالشئی کے آتے ہیں۔ یہاں ایک اہم نکتہ قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ لفظ مصطفی ٰ کا معنی منتخب اور اصطفاء کا معنی بھی منتخب کرنا ہے۔ لغت میں اجتباء کے بھی یہی معنی آتے ہیں۔ اس لحاظ سے مصطفی ٰاور مجتبیٰ کو بالعموم ہم معنی اور مترادف تصور کیا جاتا ہے مگر فی الحقیقت دونوں میں نہایت ہی لطیف فرق ہے جو ہم یہاں واضح کرنا چاہتے ہیں۔اجتباء اللہ العبد: کا معنی ہے" تخصیصہ ایاہ بفیض الہی یتحصل لہ بلا سعی العبد ( کسی شخص کو اس فیضان الٰہی کی بنا پر بطور خاص چن لینا جو بندے کی کوشش اور کسب کے بغیر ہو) اجتباء میں بندہ بغیر کسب کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی فیضان کی بنا پر منتخب کیا جاتا ہے اس انتخاب میں بھی عطا محض اور وہب خالصکار فرما ہوتی ہے مگر یہ انتخاب بندے کی زندگی میں کسی وقت بھی ہوسکتا ہے ضروری نہیں کہ شروع سے ہی ہو۔اس کے برعکس اصطفاء میں انتخاب تخلیق کے وقت سے ہی عمل میں آجاتا ہے۔اصطفاء اللہ العبد: کا معنی ہے۔ ایجادہ ایاہ صافیا عن الشوب الموجد فی غیرہ (کسی کو بوقت تخلیق ہی ہر اس قسم کی میل اور ملاوٹ سے پاک کردینا جو دوسروں میں پائی جاتی ہے)۔اصطفاء میں بھی انتخاب اور چناؤ بندے کے کسب اور کوشش کے بغیر محض وہب الٰہی کے طور پر ہوتا ہے مگر یہ بعد میں کسی وقت نہیں بلکہ تخلیق اور ایجاد کے وقت سے ہی ہوجاتا ہے۔ اس لیے اسے بوقت تخلیق ہی ہر قسم کے میل اور کثافت سے پاک و صاف کرلیا جاتا ہے اور وہ پیکر جب معرض وجود میں آتا ہے تو پہلے ہی سے ہر کثافت سے مصفی، ہر میل سے مزکی اور ہر عیب سے منزہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی تخلیق ہی پیکر صفا کے طور پر ہوتی ہے، اس لیے اسے مصطفیٰ کہا جاتا ہے اور یہ اصطفا اور انتخاب وقت ایجاد ہی سے ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضور نبی اکرمﷺکا خمیر بشریت تیار ہوا تو اسے پہلے ہی سے صفو یعنی صفائی،نظافت، اور لطافت کے اس مقام بلند تک پہنچا دیا گیا تھا کہ عالم خلق میں اس کی کوئی نظیر اور مثال نہ تھی بلکہ ملائکہ اور ارواح کو جو صفاء ، لطافت، تزکیہ اور نظافت اپنی نورانیت کے باعث نصیب ہوتی ہے وہ سب کچھ حضور ﷺ کے پیکر بشریت ہی کو عطا کردیا گیا۔ یہ آپﷺ کے مقام اصطفاء کا بنیادی تقاضا تھا۔بنا بریں ہمارا لعاب، پسینہ خون اور فضلات وغیرہ جو جسمانی کثافتوں کے باعث غلیظ، ناپاک یا بیماری کا باعث ہوتے ہیں، حضور ﷺ کے جسد اطہر کے لیے انھیں بھی پاک اور معطر بلکہ باعثِ شفا بنا دیا گیا جیسا کہ متعدد کتب حدیث و فضائل سے ثابت ہے۔( ڈاکٹر محمد طاہر القادری، انسان اور کائنات کی تخلیق و ارتقاء،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلیکشنز،لاہور، پاکستان، 1991ء،ص:30-29)
  • 12 شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-1، مطبوعة: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، (ليس التاريخ موجودًا)، ص: 73
  • 13 شيخ يوسف بن اسماعيل نبهانى، جواهر البحار فى فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010ء، ص:54
  • 14 علامہ محمد یوسف بن اسمعیل نبہانی، فضائل النبیﷺ(مترجم: مولانا احمد دین توگیروی)، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان،2008ء،ص:92
  • 15 شيخ احمد بن محد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحدية، ج-2، مطبوعة: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، (ليس التاريخ موجودًا)، ص: 132-134
  • 16 ولی الدین محمد بن عبد اللہ تبریزی، مشکاۃ المصابیح، حدیث:5877، ج-3، مطبوعۃ:المکتبۃ الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء،ص:1645
  • 17 ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:567، ج-1، مطبوعۃ:دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:178
  • 18 ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمٰن السمر قندی، سنن دارمی، حدیث: 2867، ج-3، مطبوعۃ:دار المغنی للنشر والتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 2000ء، ص:1865
  • 19 مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:289، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء، ص:135
  • 20 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3896، ج-5، مطبوعۃ: دار طوق النجاۃ، مصر، 1422ھ، ص:56
  • 21 مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:290، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء، ص:135
  • 22 محمد بن ابی بکر بن ایوب ابن جوزیۃ، زاد المعاد فی ھدی خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:101
  • 23 ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق السفرایینی، مستخرج ابی عوانۃ،حدیث: 2792، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:187
  • 24 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:6851، ج-8، مطبوعۃ: دار طوق النجاۃ، مصر،1422ھ، ص:174
  • 25 احمد بن علی بن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-8، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:308
  • 26 محمد امین الشھیر بابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011ء، ص:522-523
  • 27 احمد بن علی بن حجر العسقلانی، لسان المیزان، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:135
  • 28 ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن الشیبانی، فضائل الصحابۃ، حدیث: 599، ج-1، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1983ء، ص:394