رسول اکرم کی خلقت اپنی مثال آپ ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس خلقت پر تو خود خالق کائنات کو ناز ہے جس کی دلیل قرآن مجید فرقان حمید کی وہ آیات ِ مبارکہ ہے جس میں رب کائنات نے اپنی قسم ایک منفردانداز میں اٹھائی ہے۔چنانچہ باری تعالیٰ وہ منفرد کلام نازل کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:
فَلَا وَرَبِّك لَا یؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یحَكمُوْك فِیمَا شَجَــرَ بَینَھمْ ثُمَّ لَا یجِدُوْا فِى اَنْفُسِھمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَیسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا65 1
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔
اس کی تفسیر میں امام ماتریدی نے کہا ہے کہ اس میں حضور کی تمام نوع انسانی پر افضلیت کی دلالت موجود ہے کیونکہ اس میں رب کی اضافت صرف آپ کی طرف ہے جس سے خصوصیت کے ساتھ آپ کاشرف معلوم ہوتاہے۔2
بہر کیف اللہ تبارک وتعالی نے خود اپنی قسم آپ کے رب ہونے کے طور پر بیان فرمائی ہے جس سےاس بات کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے کہ خود رب کائنات کو آپ کے رب ہونے کا ذکرکرنا کتنا پسندیدہ ہے۔جس طرح آپ کی ظاہری وباطنی خلقت عا لمین میں یکتا ومنفرد ہے اسی طرح آپ کے جسم اطہر کی ہر چیز بے مثل و ممتاز ہے۔اسی طرح آپ کے جسم اطہر کے فضلات مبارکہ بھی منفرد و جداگانہ طور پر ممتاز ہیں جیساکہ تفصیل آئیندہ سطور میں مذکور ہے۔
صحابۂ کرام جنہیں اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب کی صحبت سے مشرف فرمایا، ان کے دیدۂ بیدار اور چشمِ حقیقت کشاء کا فیصلہ ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم کو کبھی بھی بشریت کے محدود ظاہری پیمانوں سے پرکھنے کی کوشش نہیں کی۔ صحابۂ کرام نے اپنے پیارے محبوبکے لعاب مبارک کو جان لیوا بیماریوں اور اذیت ناک آبلوں وغیرہ کے لیےتریاق سمجھا۔ بڑے شوق اور سعادت سے آپ کے خوشبودار پسینہ کو حاصل کیا اور اپنے مشامِ جاں کو معطر کیا۔ آپ کے جسم معطر سے مس ہوکر آنے والے پانی کے لیے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ آپ کے موئے مبارک کو حرزِجاں بنایا،ان سے شفایاب ہوئے اور انہیں توشۂ آخرت قرار دیتے ہوئے اپنی قبروں میں رکھنے کی وصیت کی۔ آپ کے فضلات طاہرہ کو نوشِ جاں کیا، ان کے طیب و طاہر اور نظیف ولطیف ہونے کا اعلان واقرار بھی کیا اور کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوئے۔
قدرت نے شہد کی مکھی کے جسم میں وہ نظام رکھا ہے کہ جو کچھ اس کے مرحلۂ انہضام سے گزرجاتا ہے انسانیت کے لیے فیض بخش وفیض رساں ہوجاتا ہے! ریشم کی ملائمت اور حسن سے متاثر ہونے والوں نے اور اس کی بے ساختہ تحسین کرنے والوں نے کبھی سوچا ہے کہ قدرت نے اس معجزہ نظامی کا ذریعہ بھی ایک ننھے سے کیڑے کو بنایا ہے اور یہ پھلدار درخت اور قوت بخش خوراک کا ذریعہ بننے والے پودے زمین سے جو کچھ کشید کرتے ہیں اسے خوش ذائقہ اور خوشبودار پھلوں کی صورت میں ہمارے حوالے کردیتے ہیں۔ اگر صحابۂ کرام کا فہم اﷲ کی سب سے ارفع و اعلیٰ اور طیب و طاہر تخلیق کے جسد ناز سے وابستہ ہونے والے اور مرحلہ انہضام سے گزر کر آنے والے تبرکات کو شہد سے زیادہ شفا بخش، پھلوں سے زیادہ مفید اور پھولوں سے زیادہ سامانِ فرحت وطراوت سمجھتا تھا تو اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہ تھی۔
قدرت کی کاریگری یہ ہے کہ وہ ایک جنگلی ہر ن کے نافے میں مشک جیسی قیمتی خوشبو پیدا کردیتی ہے جو ایک جنتی خوشبو ہے، جس کے بارے میں حدیث پاک میں آیا ہے:
والمسك اطیب الطیب.3
مشک تمام خوشبوؤں سے بہتر خوشبو ہے۔
علامہ قزوینی، علامہ دمیری اور ابن فضل اﷲ العمری نے ’’غزال المسک‘‘ یعنی مشک والے ہرن کا مفصل ذکر کیا ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے جسم میں یہ خوشبو کس طرح پیدا ہوتی ہے، او ر وہ کب اور کیسے اس مشک کو باہر نکالتا ہے اور اس کو حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔4الغرض جس رب عزوجل نے اپنی ادنیٰ مخلوقات میں لا محدود خوبیاں رکھی ہیں اور اس کے لیے یہ بعید و مشکل نہیں تھا کہ وہ مصطفی کریم کے فضلات شریفہ کو طاہر اور خوشبودار بنادے۔
جب حضرت آدم جنت سے زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے جسم شریف کو انجیر کے پتوں سے چھپایا ہوا تھا، وہ اس وقت بہت اداس تھے، اﷲ تعالیٰ نے کچھ جنگلی ہرنوں کو اُن کی طرف بھیج دیا جو اُن کے ارد گرد منڈلانے لگے۔ وہ ان سے مانوس ہوئے اور کچھ انجیر کے پتے انہیں کھلادئیے۔ جن کی برکت سے اﷲ تعالیٰ نے ان کے جسم میں مشک پیدا کردی اور ان کو ظاہری حسن وجمال بھی عطا فرمایا۔ جب یہ ہرن اس خوشبواور حسن وجمال کے ساتھ واپس جنگل میں پہنچے تو جنگل کے دوسرے ہرن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور وہ بھی دل میں طمع لے کر اگلے روز اُن کے ساتھ حضرت آدم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے ان کو بھی چند پتے کھلادئیے مگر ان کے جسم میں خوشبو پیدا نہ ہوئی، البتہ ظاہری حسن و جمال اُنہیں بھی مل گیا۔ اس فرق کو بیان کرتے ہوئےصاحب الکبیر امام رازی اس کی توضیح میں لکھتے ہیں:
لان الاولى جاء ت الى آدم لاجله لا لاجل الطمع والطائفة الاخرى جاء ت الیه ظاھرا و للطمع باطنا فلا جرم غیر الظاھر دون الباطن.5
اس لیے کہ ہرنوں کا پہلا ٹولہ فقط حضرت آدم کیلیے آیا تھا انہیں اپنی کوئی غرض اور لالچ نہ تھی اور دوسرا ٹولہ ظاہراً تو حضرت آدم کے لیے آیا تھا، مگر ان کے باطن میں لالچ تھی سو ان کا ظاہر تبدیل ہوا باطن نہیں۔
گویا ہرنوں کے جسم میں خوشبو پیدا ہونے کی وجہ حضرت آدم کے معطر ہاتھوں کا پھرنا تھا ورنہ انجیر کے پتے تو اب بھی موجود ہیں لیکن مشک صرف خاص ہرنوں کی اسی نسل کے نافے میں پیدا ہوتا ہے جس نسل کے اوّلین ہرنوں پر حضرت آدم نے اپنا دستِ شفقت پھیرا تھا۔
اگر ایک ہرن کے وجود میں قربِ آدم اور پتے کھلانے کی وجہ سے مشک جیسی خوشبو پیدا ہوگئی تھی تو قربِ رب کی وجہ سے کسی انسانی جسم میں بھی خوشبو کا پیدا ہونا بلا شبہ بعید از قیاس نہیں۔پھر قرب بھی وہ کہ جس کے بارے میں خود خالقِ کائنات یوں بیان فرمائے:
فَكانَ قَابَ قَوْسَینِ اَوْ اَدْنٰى96
پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)۔
پھر یہ قرب ایک مرتبہ کا نہیں بلکہ فرمایا :
ابیت عند ربى یطعمنى ویسقینى.7
میں اپنے رب کے ہاں رات گذارتا ہوں وہی مجھے کھلاتا او ر پلاتا ہے۔
خود رب تعالیٰ جس کو اپنے قریب کر کے کھلاتا پلاتا ہے، حق یہ ہے کہ اس ہستی کی خوشبو کی شان کما حقہ زبان قلم سے بیان نہیں کی جاسکتی۔ صحابۂ کرام نے بھی آخر میں یہی کہا تھاکہ ہم نے کسی مشک و عنبر وغیرہ کو حضور کی خوشبو کی مانند نہیں پایا۔
چنانچہ اس حوالہ سے حضرت انس سے روایت ہے:
ولا شممت مسكة ولا عنبرة اطیب من رائحة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.8
میں نے رسول اﷲ سے زیادہ خوشبودار نہ کسی عنبر کو سونگھا نہ کسی مشک کو۔
آپ کا جسمِ اطہر اس طرح خوشبودار تھا کہ اگر کسی بھی شخص کا جسم آپ کے ساتھ مس ہوجاتا تو اس میں بھی مہک پیدا ہوجاتی مثلاً اگر کسی نے آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی تو اس کے ہاتھوں میں خوشبو ہی خوشبو ہوتی اگر آپ نے کسی کے جسم پر دست شفقت پھیر دیا تو اس کے جسم سے خوشبو آتی رہتی جس بچے کے سر پر آپ اپنا مبارک ہاتھ رکھ دیتے وہ اس کی برکت سے آنے والی خوشبو کی وجہ سے اس طرح دوسروں سے ممتاز ہوجاتا کہ ہر کوئی کہتا اس کے سر پر حضور نے ہاتھ پھیرا ہے۔اسی حوالہ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں:
وكان كفه كف عطار مسھا طیب او لم یمسھا به یصافحه المصافح فیظل یومھا یجد ریحھھا ویضع یده على راس الصبى فیعرف من بین الصبیان من ریحھا من رائحه.9
کہ آپ دنیوی خوشبو استعمال فرمائیں یا نہ فرمائیں آپ کے مبارک ہاتھ ہر وقت اس طرح خوشبو دار رہتے جس طرح کسی عطار کا ہاتھ ہوتا ہے اگر کوئی شخص آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کرلیتا تو تمام دن اس کے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی۔ اسی طرح اگر آپ کسی بھی بچے کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دیتے تو وہ بچہ اس کی خوشبو سے تمام بچوں سے ممتاز ہوجاتا۔
اﷲ نے مخلوقات میں اپنی قدرت کے عجیب کرشمے رکھے ہیں، کچھ مخلوق کثیف ہے اور کچھ لطیف۔ متضاد الجنس مخلوق کے مابین لطافت وکثافت کی تمیز کچھ مشکل نہیں ہے۔ گائے اور بھینس، بھیڑ اور بکری، اونٹ اور گھوڑے، ہرن اور بھیڑئیے، کوے اور کبوتر، طوطے اور چیل، فاختہ اور ہدہد کی نفاست اور کثافت میں جو فرق ہے اسے کون نہیں سمجھتا؟ لہٰذا متضاد الجنس جانداروں کے فرق سے قطع نظر کرتے ہوئے فقط ہم جنس جانداروں کے درمیان لطیف اور کثیف ہونے کے لحاظ سے جو فرق اس پر بھی انسان اگر غور کرے تو ا س پر کئی اقسام کے فرق بڑے واضح ہوجاتے ہیں۔ بیلوں کی کثرت میں، بھینسوں کے باڑے میں، بکریوں کے ریوڑ میں اور ہرن وغیرہ کے اژدہام میں غور کیا جائے تو ایک ہی جنس کے بعض جانور دوسرے جانوروں سے زیادہ لطیف ونفیس نظر آتے ہیں۔ پرندوں کی ایک جنس کے غول میں غور کیا جائے توتمام پرند ےیکساں لطیف یا یکساں کثیف نہیں ملیں گے۔علی ھذا القیاس غیر ذی روح مخلوق کی طرف دیکھا جائے اور درختوں، پھلوں، پھولوں اور نرم ونازک پودوں میں غور کیا جائےتو سب میں یکساں لطافت نہیں ہوتی۔ پتھروں کو ہی لیجئے! تمام پتھر نفاست و لطافت میں یکساں نہیں ہونگے۔ پہاڑوں کی وادیوں میں دیکھیں! جہاں بہت سے بیکار پتھر نظر آتے ہیں وہاں ایسا انمول ہیرا( Diamond)بھی مل جاتا ہے جس کی لطافت کے سامنے تمام پہاڑی سلسلہ پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔
اسی طرح انسانوں میں بھی نفاست، لطافت، نزاکت، نظافت اور ملائمت کے لحاظ سے بہت واضح اور نہایت نمایاں فرق ہوتا ہے جس کی وضاحت کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی پہچان آپ ہی ہوا کرتا ہے۔
بعض لوگوں کا اندرونی نظام اس قدر کثیف ہوتا ہے کہ ان کے اندر کی کثافت کے باعث ان کے ظاہری جسم سے ایک طرح کی عفونت محسوس ہوتی ہے۔ بعض مرتبہ ان کے قریب بیٹھنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو تمام انسانوں کے پسینے کی بویا بدبو یکساں محسوس نہیں ہوتی۔ بعض اشخاص چند گھنٹے شوز اور موزے استعمال کرنے کے بعد جب اُتارتے ہیں تو بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں اور کچھ اشخاص چند گھنٹے ہی نہیں سارا دن پہننے کے بعد بھی اتارتے ہیں تو کوئی بو محسوس نہیں ہوتی۔آخر یہ واضح فرق کیوں؟ وجہ ظاہر ہے کہ یہ فرق جسم کی اندرونی لطافت اور کثافت کے باعث ہوتا ہے۔
انسان جب ریاکاری سے بلند ہوجائےاس کا ظاہر و باطن یکساں ہوجائے اور وہ صدق واخلاص سے اعمالِ صالحہ پر ہمیشگی کرنے لگے تو پہلے آہستہ آہستہ اس سے جسمانی آلائشیں دور ہوتی ہیں ، اس کا قلب صاف اور پاک ہونے لگتا ہے، پھر بتدریج اس کے اندر نورانیت پھیلنے لگتی ہے، حتیٰ کہ اندر کی پاکیزگی اور نورانیت کے آثار بدن پر نمایاں ہونے لگتے ہیں۔
امام مناوی لکھتے ہیں کہ پاکیزہ اور زندہ دل سے خوشبوآتی ہے جیسا کہ خبیث اور مردہ دل سے مردار کی بدبو آتی ہے۔ اس لیے کہ دل اور روح کی بدبو ظاہر سے زیادہ باطن سے متصل ہوتی ہے اور پسینہ اس کو باطن سے ظاہر کی طرف لاتا ہے۔ پس اعلیٰ نفس کی خوشبو بہت قوی ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کے پسینہ سے مہکتی ہے حتی کہ جسم پر ظاہر ہوجاتی ہے اور خبیث روح کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔10
جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے تو مخلوقِ خدا اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
اِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیجْعَلُ لَھمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا9611
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو (خدائے) رحمان ان کے لئے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا۔
حضور اکرم اللہ رب العزت کی جمیع مخلوقات میں سب سے افضل واعلیٰ ہیں اس لیے آپ کے جسمِ اقدس سے خارج ہونےوالے جمیع فضلاتِ مبارکہ بھی عام انسانوں کے فضلات سے یکسر مختلف وبالا شان والے تھے۔جو چیز بھی آپ کے جسم اقدس کاحصہ رہ کرآپ سے جدا ہوئی اس کی بھی نرالی شان صحابۂ کرام نےبا کثرت ملاحظہ فرمائی جس کی تفصیلات آئندہ سطور میں یکے بعد دیگرے منقول ہیں۔
احادیث اور اقوال ائمہ و علماء کو پڑھتے ہوئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ نبی کریم کی ذاتِ پاک کی طرف اور آپ کے جسمِ اطہر کی نفاست و لطافت کی طرف مرکوز رکھے تاکہ اسے یہ تمام احادیث مبارکہ اور اقوالِ علماء سمجھ آسکیں۔ اگر قارئین نے اپنی توجہ اپنے عام جسم اور اس کی کثافت وکدورت کی طرف مرکوز رکھی اور حضور کے جسمِ اطہر کو اپنے جسموں پر قیاس کرلیا تو انہیں یہ احادیث سمجھ نہیں آئیں گی اور وہ ان احادیث کی تکذیب کے درپے ہوجائیں گے اور یہی وہ مقام ہے جہاں اکثر عقلیں پھسل جاتی ہیں۔ (نعوذ باﷲ) اگر تمام لوگ اپنی توجہ انبیاء کرام کی ذوات مقدسہ کی طرف مبذول رکھیں تو انہیں انبیاء کرام کے کمالات کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کا کوئی تامل نہیں ہوگا جو سراسر مبنی برحقائق ہیں۔