Encyclopedia of Muhammad

قدمینِ مصطفٰی ﷺ

حضور کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبع فیوضات وبرکات تھے۔ اگر کسی بیمار کو لگ جاتے تو تندرست ہوجاتا، اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے وہ تیز رفتار ہوجاتا۔ پتھروں پر آجاتے تو وہ پتھر آپ کے پاؤں کے نیچے نرم ہوجاتے۔ جن مقامات نے آپ کے مبارک قدموں کو مس کیا انہیں وہ درجہ ملا جس کی مثال دنیا و آخرت میں نہیں ملتی۔

پائے اقدسِ حبیب

ایک دفعہ قریش اکٹھے ہوکر ایک کاہنہ کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم میں سے ہر ایک کا پاؤں دیکھ کر بتاؤ کہ ہمارے درمیان کون شخص صاحب نبوت ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ: زمین کو اچھی طرف صاف کرو تاکہ اس پر کوئی نشان نہ رہے اس کے بعد تم سب باری باری میرے سامنے چلو میں تمہارے قدموں کے نشانات دیکھ کر فیصلہ دوں گی۔ تمام قریش چلے اور اس نے ان کے نشانات دیکھے ان میں حضور بھی تھے۔

  فابصرت اثر محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: ھذا اقربكم شبھا به.
  کاہنہ نے جب حضور کے مبارک قدموں کے آثار دیکھے تو کہا: یہ پاؤں اس کےزیادہ مشابہ ہیں۔

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں:

  ان قریشا اتوا كاھنة فقالوا لھا: اخبرینا باقربنا شبھا بصاحب ھذا مقام؟ فقالت: ان انتم جررتم كساء على ھذه السھلة، ثم مشیتم علیھا انباتكم، فجروا ثم مشى الناس علیھا فابصرت اثر محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: ھذا اقربكم شبھا به. فمكثوا بعد ذلك عشرین سنة او قریبا من عشرین سنة او ماشاء اللّٰه ثم بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.1
  قریش ایک کاہنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا :ہمیں بتاؤ کہ ہمارے اندر کون شخص صاحبِ نبوت ہوسکتا ہے؟ اس نے جواب دیا زمین کو اپنی چادر سے صاف اور بے نشان کرکے اس پر چلو میں نقشِ قدم کو دیکھ کر بتادوں گی۔ انہوں نے زمین کو صاف کیا پھر اس پر چلے تو کاہنہ نے حضورنبی کریمکے نشانِ قدم کو دیکھ کر کہا: یہ شخص نبوت کا زیادہ مستحق ہے۔ اس کے بعد وہ انتظار کرتے رہے چنانچہ بیس سال یا تقریبا بیس سال یا جتناعرصہ اللہ نےچاہا کےبعدرسول اﷲ نے اعلان نبوت فرمایا۔

قدم مبارک کا اعجاز

حضور کے مقدس پاؤں جب پتھروں پر آجاتے تو وہ پتھر آپ کے پاؤں کے نیچے نرم ہوجاتے۔

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه واثرت.2
  جب حضور پتھروں پر چلتے تو آپ کے پاؤں مبارک اس میں دھنس جاتے اور قدم مبارک کے نشان ان پرظاہر جاتے۔

جس طرح پتھر پر حضرت خلیل الرحمن کے مبارک قدموں کے نشان ہیں اسی طرح بعض پتھروں پر اﷲ کے حبیب کے قدمین شریفین کے نشان بھی ہیں ان میں سے بعض آج تک مختلف مقامات پر مخلوق خدا کی زیارت گاہ ہیں۔

امام زرقانی فرماتے ہیں:

  وقد اشتھر فى المدائح قدیما وحدیثا ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه واثرت.3
  حضور کی مدح کرنے والے متقدمین ومتاخرین میں یہ مشہور ہے کہ آپ جب کسی پتھر پر قدم رکھتے توپاؤں مبارک اس میں دھنس جاتےاور اس میں قدم مبارک کانشان نظر آتا۔

امام قسطلانی فرماتے ہیں:

  انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه.
كما ھو مشھور قدیما وحدیثا على الالسنة ونطق به الشعراء فى منظومھم والبلغاء فى منثورھم مع اعتضاده بوجود اثر قدمى الخلیل ابراھیم فى حجر المقام المنوه به فى التنزیل فى قوله تعالى فى "فِیه اٰیتٌۢ بَینٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھیمَ". 974
  آپ جب کسی پتھر پر قدم رکھتے تو پاؤں مبارک اس میں دھنس جاتےاور اس میں قدم مبارک کانشان نظر آتا۔جیسا کہ ہر زمانے میں یہ بات زبان زدعام رہی ہے ۔شعراء نے اپنے نعتیہ قصائد میں اور بلغاء نے اپنے نثری شہ پاروں میں اس موضوع پر لب کشائی کی ہے۔ حرم پاک میں قدمین حضرت ابراہیم کے نقوش اس معجزہ کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ قرآن حکیم میں آیا ہے"مقام ابراہیم میں روشن نشانیاں ہیں"۔
  وھو البالغ تعیینه وانه اثره مبلغ التواتر.5
  یہ معجزہ تو درجہ تواتر تک پہنچا ہوا ہے۔

امام خفاجی فرماتے ہیں:کہ بیت المقدس اور مصر میں ایسے پتھر موجود ہیں جن پر آپ کے مبارک قدم کا نشان ہے۔

  انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان فى بعض الاحیان اذا مشى غاص قدمه فى الحجارة بحیث بقى ذلك الى الان وارتسم فیھا مثاله یعینه والناس تتبرك به وتزوره وتعظمه كما فى القدس ونقل منه فى مصر فى اماكن متعددة حتى قیل: ان السلطان قایتباى اشتراه بعشرین الف دینارا واوصى بجعله عند قبره ھو موجود الى الان.
  حضور جب کبھی ننگے پاؤں پتھروں پر چلتے تو پاؤں مبارک ان میں دھنس جاتےاور ان میں بعینہ نشان قدم مبارک پڑ جاتا۔ چنانچہ ان پتھروں کو تبرکا محفوظ کیا گیا ہے جو کہ اب بھی موجود ہیں۔ بیت المقدس اور مصر میں متعدد جگہ ایسے پتھرپائے جاتے ہیں اور لوگ ان کی زیارت و تعظیم کرتے ہیں یہاں تک کہ سلطان قایتبائی نے بیس ہزار دینار میں ایک پتھر خریدا تھا اور وصیت کی تھی کہ اسے میری قبر کے پاس نصب کیا جائے چنانچہ وہ اب تک وہاں موجود ہے۔

امام یوسف بن اسماعیل نبہانی فرماتے ہیں:

  وإنه صلى اللّٰه علیه وسلم إذا مشى على الرمل أحیاناَ لا یكون لقدمیه أثراَ.6
  اور حضور اگرکبھی ریت پرچلتے تو ریت پر قدمین شریفین کا کوئی نشان نہ رہتا ۔

یعنی سخت پتھر نرم ہوجاتے اور نرم زمین معتدل ہوجاتی تاکہ حبیب کریم کو چلتے ہوئے کوئی تکلیف نہ ہو۔

لوہے کا پگھلنا عجیب تر ہے یا پتھر کا؟

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  وَلَقَدْ اٰتَینَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭ یجِبَالُ اَوِّبِى مَعَه وَالطَّیرَ ۚ وَاَلَنَّا لَه الْحَدِیدَ107
  اور بیشک ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو اپنی بارگاہ سے بڑا فضل عطا فرمایا، (اور حکم فرمایا:) اے پہاڑو! تم اِن کے ساتھ مل کر خوش اِلحانی سے (تسبیح) پڑھا کرو، اور پرندوں کو بھی (مسخّر کر کے یہی حکم دیا)، اور ہم نے اُن کے لئے لوہا نرم کر دیا۔

حضرت داؤد کا یہ معجزہ کہ آپ کے ہاتھوں میں لوہا نرم ہوجاتا تھا اس میں شک نہیں کہ یہ آ پ کا بہت بڑا معجزہ ہے مگر حضور کے لیے پتھر کا نرم ہوجانا لوہے کے نرم ہونے سے بدرجہا افضل واقوی تھا۔ کیونکہ لوہا تو پگھلا کر بھی نرم کیا جاسکتا ہے، لیکن پتھر کے نرم ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس کے مقدس جسم میں پتھر کو نرم کردینے کی تاثیر ہو، اس کے لیے لوہے کو نرم کردینا کیا مشکل تھا۔

محدث کبیر امام ابو نعیم اصفہانی فرماتے ہیں:

  فان قیل: فقد لین اللّٰه تعالى لداؤد الحدید حتى سرد منه الدروع السوابغ، قلنا: قد لینت لمحمد صلى اللّٰه علیه وسلم الحجارة وصم الصخور فعادت له غارا استتر بھا من المشركین یوم احد مال صلى اللّٰه علیه وسلم براسه الى الجبل لیخفى شخصه عنھم فلین اللّٰه له الجبل حتى ادخل فیه راسه وھذا اعجب لان الحدید تلینه النار ولم نر النار تلین الحجر. وذلك بعد ظاھر باق یراه الناس وكذلك فى بعض شعاب مكة حجر من جبل اصم استروح فى صلاته الیه فلان له الحجر حتى اثر فیه بذراعیه وساعدیه وذلك مشھور یقصده الحجاج ویزورونه وعادت الصخرة ببیت المقدس لیلة اسرى به كھیئة العجین فربط به دابته البراق یلمسه الناس الى یومنا ھذا باق.8
  اگر کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت داؤد کے لیے لوہا نرم کردیا تھا۔ آپ اس سے بلاتکلف لمبی ڈھالیں بناتے تھے تو ہم کہیں گے کہ حضرت محمد کے لیے پتھر اور سخت چٹانیں نرم ہوگئیں اور انہوں نے غار کی شکل بنالی تاکہ نبی کریم اس میں مشرکین سے بچ کر چھپ سکیں۔ چنانچہ اُحد کے دن آپ نے پہاڑ کی طرف اپنا سر پھیرا تاکہ وہاں خود کو دشمن کی نگاہوں سے اوجھل کرسکیں تو اﷲ نے پہاڑ کو نرم کردیا اور آپ نے وہاں سرچھپالیا اور یہ از حد عجیب تر ہے کیونکہ لوہے کو تو آگ اکثر پگھلادیتی ہے مگر پتھر کو نہیں پگھلاسکتی اور میدان اُحد میں وہ جگہ آج تک زیارت گاہِ خلق خدا ہے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ کی گھاٹیوں میں سے ایک سخت مضبوط پہاڑ کی وہ گھاٹی بھی ہے جہاں نبی کریم نے نماز کے لیے جائے استراحت تلاش کی تھی۔تو وہاں پتھر نرم ہوگیا اور اس پر آپ کے ہاتھوں اور کلائیوں کے نشان بن گئے۔ اور یہ مشہور جگہ ہے جہاں حجاج کرام جاتے اور زیارت کرتے ہیں۔یونہی شب معراج میں بیت المقدس کا وہ بڑا پتھر گوندھے ہوئے آٹے کی طرح بن گیا (جس میں حضرت جبرائیل نے انگشت ڈال کر سوراخ کیا) اور آپ کا براق اس کے ساتھ باندھ دیا گیا آج کے دن تک لوگ اسے بطور تبرک ہاتھ لگاتے ہیں۔

ریاض الجنّۃ آپ کے قدمین کا صدقہ ہے

یہ ساری کائنات آپ کے مبارک قدموں کی برکت ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی گرد راہ کی صرف قسم ہی کھاکر اسے ممتاز وافضل نہیں فرمایا بلکہ جن مقامات نے آپ کے مبارک قدموں کو مس کیا انہیں وہ درجہ عظمت ملا جس کی مثال دنیا و آخرت میں نہیں ملتی۔

مسجد نبوی کا ہر مقام افضل ہے مگر اس کا وہ حصہ جسے ریاض الجنّہ کہا جاتا ہے مسجد نبوی کے دیگر مقامات سے افضل ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں آپ کا آنا جانا کثرت کے ساتھ تھا تو وہ جگہ جہاں حضور نبی کریمکے مبارک قدم کثرت کے ساتھ لگے وہ جنت کہلایا اس لیے آپ نے فرمایا:

  ما بین بیتى ومنبرى روضة من ریاض الجنة.9
  میرے گھر اور منبر کے درمیان جو جگہ ہے یہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

جس ذات پاک پر ایمان لاکر اس کی اتباع اور پھر اس ہستی کے ساتھ محبت اور ادب کا تعلق جنت کی ضمانت ہے کیونکہ رضائے الٰہی ہی رضائے مصطفیٰ ہے اور اتباع و محبت نبی ہی اتباع و محبت الٰہی ہے، چنانچہ آپ نے جن راہوں کو اپنی گزرگاہ کے طور پر استعمال فرمایا تھا وہ راہیں بھی متبرّک اور جن راہوں سے آپ کبھی کبھی گزرے وہ قابل قدر و عظمت ہیں لیکن وہ راستہ جس کو آپ سے روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ اپنی گذرگاہ کے طرز پر اختیار فرمایا ہو اور وہ بھی عبادات کی ادئیگی کے لئے ایسی راہ کی عظمت کے سامنے سونے اور چاندی سے مرصعّ حریر و کمخواب میں ملفوف کسی شاہی رستے کی بھی کیا اوقات ہوسکتی ہے کیونکہ دنیا کا ہر قیمتی صاف شفاف راستہ بہر حال دنیا ہی کی کسی منزل تک پہنچانے والا ہوتا ہے خواہ اس پر امیر کبیر سفر کرے ، سفیر ، وزیر عازم کی جولان گاہ ہو یا بادشاہ اور شہنشاہ اپنے قدمین نازنین کے لئے بطور گذرگاہ کے استعمال کرے، لیکن آقا کریم کا اعجاز و کمال یہ ہے کہ وہ راہ جس پر محبوبیت کے ساتھ بار بار سفر کیا اس پر قدم رکھنے والا شاہراہ جنّت پر عازم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اس گذرگاہ کو خود آقا کریم نے جنت کی کیاری فرما کر اس کی عظمت و شان کو جنّت کا مصداق بنا دیا۔

منبرنبوی اورحوض کوثر

حضور نے فرمایا:

  منبرى على حوضى.10
  میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔

گویا آپ نے واضح فرمادیا کہ جس جگہ حضرت اسماعیل کے مبارک قدم لگے وہاں آبِ زم زم کا چشمہ جاری ہوا اور جس جگہ محبوب خدا کے مبارک قد م پڑے وہاں سے حوض کوثر کا دریا جاری ہوگا جس سے قیامت کے دن تمام جنتی سیراب ہوں گے۔

یثرب سے دار الشفاء

مدینہ منورہ کی سرزمین کا سابقہ نام یثرب ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بستی بیماریوں کا مرکز ہے یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان اس کی طرف ہجرت کرکے گئے تو کفارِ قریش خوش ہوئے کہ یہ خود بخود وہاں بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے ۔صحابہ کرام نے یہ معاملہ آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا :اب یہ یثرب نہیں بلکہ یہ مدینۃ الرسول ہے گویا اب بیماریوں کا مرکز نہیں بلکہ شفاء کا مرکز ہے۔ آخر اس تبدیلی کا سبب کیا تھا؟ تو اس کا جواب فقط یہ ہے کہ اس سرزمین کو آپ کے قدم چومنے کا شرف مل گیا تھاجس کی وجہ سے یہ سرزمین رشک عرش بن گئی۔

خاکِ مدینہ

آپ کا ارشاد مبارک ہے:

  ترابھا شفاء من كل داء.11
  خاک مدینہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم غزوہ تبوک سے واپس لوٹے تو اس وقت گرد وغبار اڑرہی تھی بعض صحابہ کرام نے اپنے ناک منہ کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اس پر حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا:

  والذى نفسى بیده ان فى غبارھا شفاء من كل داء.12
  قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مدینہ کا غبار ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔

مدینہ کی عظمت

نبی کریم کا اﷲ تعالیٰ کے ہاں جو مقام ومرتبہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں اپنے پیارے حبیب کے زمانے، گفتگو، چہرہ، وزلف اور زندگی کی قسم کھائی ہے وہاں اس نے آپ کی خاکِ گزر کی بھی قسم کھائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ1 وَاَنْتَ حِـلٌّۢ بِھذَا الْبَلَدِ213
  میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں، (اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں، یہ ترجمہ "لا زائدہ" کے اعتبار سے ہے۔لا "نفئ صحیح"کے لئے ہو تو ترجمہ یوں ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قَسم نہیں کھاؤں گا (اے حبیب!) جب آپ اس شہر سے رخصت ہو جائیں گے۔

امام قرطبی لکھتے ہیں:

  والبلد ھى مكة اجمعوا علیه اى: اقسم بالبلد الحرام الذى انت فیه لكرامتك على وحبی لك. وقال الواسطى: اى: نحلف لك بھذا البلد الذى شرقته بمكانك فیه حیا وبركتك میتا. یعنى المدینة والاول اصح؛ لان السورة نزلت بمكة باتفاق.14
  اس پر اجماع ہے کہ اس شہر سے مراد مکہ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس حرمت والے شہر کی اس لیے قسم کھائی ہے کہ آپ اس شہر میں ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ مکرم ہیں اور اﷲ کو آپ سے بہت محبت ہے۔

علامہ واسطی نے کہا گویا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہم اس شہر کی قسم اس لیے کھاتے ہیں کہ آپ کے اس شہر میں رہنے کی وجہ سے جب تک آپ حیات ہوں یہ شہر مکرم ہے اور جب آپ کی وفات ہو تو یہ شہر برکت والا ہے یعنی مدینہ منورہ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ صورت بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی ہے۔

امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں:

  وانت من حل ھذه البلدة المعظمة المكرمة.15
  آپ اس شہر میں مقیم ہیں اور ٹھہرے ہوئے ہیں گویا کہ اﷲ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو اس وجہ سے مکرم قرار دیا ہے کہ آپ اس میں مقیم ہیں۔

امام خازن فرماتے ہیں:

  فكانه عظم حرمة مكة من اجل انه صلى اللّٰه علیه وسلم مقیم بھا.16
  گویاآپ کے یہاں مقیم وجلوہ افروز ہونے کی وجہ سے شہر مکہ کو عظمت ورفعت حاصل ہوئی ہے۔

کسی شہر کی قسم کھانے سے خاکِ پاہی مراد ہوتی ہے کیونکہ شہر سے مراد وہی سرزمین ہے جو اس شخصیت کے قدموں سے مس کررہی ہوتی ہے۔

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں سیدنا فاروق اعظم سے جو قول منقول ہے وہ نہایت ہی قابل توجہ ہے اور اہل ایمان ومحبت کے دل کی ٹھنڈک ہے، آپ اپنے پیارے آقا کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:

  بابى انت وامى یا رسول اللّٰه ! قد بلغت من الفضیلة عنده ان اقسم بتراب قدمیك. فقال: لا اقسم بھذا البلد.
  یا رسول اﷲ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اﷲ تعالیٰ کے ہاں آپ کا کتنا عظیم مرتبہ ہے کہ اس نے آپ کے قدموں کی خاک کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا ہے۔
  لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ1 17 18
  میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔

امام قسطلانی کے الفاظ یہ ہیں:

  لقد بلغ من فضیلتك عند اللّٰه ان اقسم بحیاتك دون سائر الانبیاء ولقد بلغ من فضیلتك عنده ان اقسم بتراب قدمیك فقال: لا اقسم بھذا البلد. 19
  اﷲ تعالیٰ کے ہاں آپ کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس نے آپ کی زندگی کی قسم کھائی باقی انبیاءکی حیات کی نہیں اور اس کے ہاں یہ فضیلت کی انتہا ہے کہ اس نے آپ کے قدموں سے مس ہونے والی مٹی کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :
  لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ120
  میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویپہلے یہ بیان کرکے اس آیت میں آپ کی خاک پاک کی قسم اٹھائی گئی ہے لکھتےہیں کہ بظاہر یہ معاملہ نہایت ہی سخت وعجیب ہے کہ اﷲ ربُّ العزّت آپ کی خاک پاکی قسم اٹھائے لیکن اگر غور وفکر کیا جائے تو معاملہ بڑا واضح ہے۔

  وتحقیق ایں سخن آنست كه سوگند خوردن حضرت رب العزت جل جلاله بچیزے كه غیر ذات وصفات بود برائے اظھار شرف وفضیلت و تمیز آں چیز است نزد مردم ونسبت بایشاں تابد انند كه آں امرى عظیم وشریف است نه آنكه اعظم است بوى تعالى.21
  اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا اپنی ذات وصفات کے علاوہ کسی بات کا قسم کھانا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ شے اﷲ تعالیٰ سے بڑی ہے بلکہ حکمت یہ ہوتی ہے کہ اس شے کی فضیلت وعظمت کو واضح کیا جائے تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ اس شے کی اﷲ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدر ومزلت ہے۔

حضرت ملا علی قاری آیت مذکورہ کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

  انه سبحانه وتعالى اقسم بالبلد الحرام وقیده بحلول رسوله علیه الصلوٰةوالسلام به اظھارا لمزید فضله واشعارا بان شرف المكان بشرف اھله.22
  اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم کھائی اور اسے آپکے وہاں تشریف فرما ہونے کے ساتھ مقید کیا تاکہ شہر مکہ کی عظمت مزید اجاگر ہو اور یہ واضح ہو کہ مکان کی عظمت صاحب مکان کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اُحد کا لرزہ

بعض اوقات جب آپ اپنے غلاموں کے ساتھ کسی پہاڑ پر تشریف فرما ہوتے تو وہ اس خوشی میں جھومنے لگ جاتا کہ آج مجھے آپ کے مبارک قدموں کا بوسہ نصیب ہوا ہے۔

ایک مرتبہ آپ اُحد پہاڑ پر تشریف فرما تھے آپ کے ساتھ اس موقعہ پر حضرت صدیق اکبر حضرت عمر حضرت عثمان بھی تھے۔ اُحد پہاڑنے خوشی ومسرت میں جھومتے ہوئے حرکت کی تو آپ نے اس پر اپنا پاؤں مارا اور فرمایا ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔

حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں :

  صعد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم احدا ومعه ابوبكر وعمر وعثمان فرجف بھم فضربه برجله وقال: اثبت احد فما علیك الا نبى او صدیق او شھیدان.23
  کہ ایک روز حضور نبی اکرم کوہ احد پر تشریف لے گئے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا۔آپ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: اے احد ٹھہرجا! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اورکوئی نہیں۔

امام جلال الدین سیوطی روایت کرتے ہیں:

  واخرج ابویعلى بسند صحیح عن سھل بن سعد ان احدا ارتج وعلیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وابوبكر وعمر وعثمان فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : اثبت احد فما علیك الا نبى او صدیق او شھیدان.24
  ابویعلی نے بسند صحیح سہل بن سعد سے روایت کی کہ کوہ احد لرزہ اس پر رسول اﷲ ابوبکر صدیق، عمر فاروق، اور عثمان ذوالنورین تشریف فرما تھے۔ رسول اﷲ نے فرمایا: احد قائم رہ۔ تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔

حضور کو معلوم تھا کہ حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذوالنورین شہید ہوں گے لہٰذا آپ نے ان کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی۔ 25

جنبشِ قدم مبارک

حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے ایک دفعہ آپ اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ مقامِ ذی المجاز میں تھے یہ مقام عرفات سے تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ حضرت ابو طالب نے آ پ سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا:

  عطشت ولیس عندى ماء فنزل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وضرب بقدمه الارض فخرج الماء فقال: اشرب.
  مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور نبی کریم اپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا ۔آپ نے فرمایا : پی لو۔26
  فركضھا ثانیة فعادت كما كانت وسافر.27
  جب انہوں نے پانی پی لیا تو آپ نے اسی جگہ قدم رکھا تو پانی بند ہوگیااورآپ روانہ ہوگئے۔

حضرت علی فرماتے ہیں: وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہوگئے رسول اﷲ نے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہوگئے :حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں:

  فضربنى برجله وقال : اللّٰھم اشفه اللّٰھم عافه. فما اشتكیت وجعى ذالك بعد.28
  پس حضور نےاپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہوگئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔

قاضی عیاض لکھتے ہیں:

  اشتكى على بن ابى طالب فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: اللّٰھم اشفعه او عافه. ثم ضربه برجله فما اشتكى ذلك الوجع بعد.29
  ایک دفعہ حضرت علی بن ابی طالب بیمار ہوگئے تو حضور نے یہ کہہ کر اے اﷲ !اسے شفا دے اور صحت بخش، اپنا پائے اقدس ان کو مارا تو انہیں اسی وقت صحت ہوگئی اور ازاں بعد کبھی بیمار نہ ہوئے۔

ٹھوکر کا اثر یہ ہوا کہ اسی وقت بیماری دور ہوگئی اور اس کے بعدکبھی بیمار نہ ہوئے۔ یہ تھی تاثیر ان کے مبارک قدموں کی۔

دوران سفر کسی مقام پر اگر کوئی سواری لاغروکمزور ہونے یا کسی اور وجہ سے سُست رفتار ہوجاتی تو آپ اسے پاؤں کی ٹھوکر لگاتے جس کی برکت سے وہ تمام دیگر سواریوں سے آگے گزرجاتی۔ اس پر متعدد واقعات موجود ہیں:

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور کی خدمت میں آکر اپنی اونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو:

  فضربھا برجله.والذى نفسى بیده لقد رایتھا تسبق القائد.30
  حضور نبی کریم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہوگئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔

حضرت جابر کے اونٹ کو بھی آپ نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہوگیا تھا ۔

  فضربه برجله ودعا له فسار سیرا لم یسر مثله.31
  آپ نے اپنے پائے مبارک سے اسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دعا فرمائی پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔

جب حضور نے دوبار ہ ان سے دریافت کیا کہ اب تیرے اونٹ کا کیا حال ہے تو انہوں نے عرض کیا:

  بخیر قد اصابته بركتك.32
  بالکل ٹھیک ہے اسے آپ کی برکت حاصل ہوگئی ہے۔

یہ آپ کی ٹھوکر کا اثر تھا کہ ایسے مردہ اور مریل قسم کے سست جانوروں کو زندہ اور چست و چالاک بنادیا۔ یوں تو ہر جانور مارنے اور اذیت پہنچانے سے تیز رفتار ہوجاتا ہے مگر اسی وقت تک کہ اس میں درد موجود رہے جس کا تعلق صرف جسم سے ہوتا ہے، لیکن حضور کا یہ فعل اس کے جسم تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی فطرت اور طبیعت پر اثر کرنے والا تھا۔

حضرت عبداﷲ بن ابی طلحہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم :

  ركب حمارا قطوفا لسعد بن عبادة فردھا ھملاجا لایسایر.33
  حضرت سعد بن عبادہ کے بہت سست رفتار گدھے پر سوار ہوئے، جب آ پ نے اس کو واپس کیا تو وہ ایسا تیز رفتارتھاکہ کوئی دوسرا گدھا اس کے ساتھ نہ چل سکتا تھا۔

امام سیوطی فرماتے ہیں:

  قال ابن سبع: من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم ان كل دابة ركبھا بقیت على القدر الذى كانت علیه ولم تھرم ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم.34
  ابن سبع لکھتے ہیں: نبی کریم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ نے جس جانورپر سواری فرمائی وہ آپ کی برکت سے بوڑھا نہ ہوا بلکہ تاحیات اپنی اسی حالت پر برقرار رہا۔

حضور کے قدمین شریفین کتنے مضبوط طاقتور اور حیات بخش تھے کہ جس جگہ اور جس چیز کو لگ جاتے زندگی کی لہردوڑادیتے۔ حرکت کو سکون اور سکون کو حرکت میں بدل دیتے، بیماری کو شفا اور کمزوری کو قوت میں بدلنے کا منبع تھے ۔ اگرجمادات و حیوانات کو بھی رسول خداکے قدم مبارک سے مس ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تو وہ بھی آپ کی چاہت کے موافق اپنے کو ڈھال لیتے تھے۔

 


  • 1 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 3072، ج -5، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 ء، ص :196
  • 2 ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب، ج -5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص :482
  • 3 ایضًا
  • 4 القرآن، سورۃ آل عمران3: 97
  • 5 احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتب التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :341
  • 6 یوسف بن اسماعیل النبہانی، حجۃ اﷲ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1426 ھ،ص :325
  • 7 القرآن،سورۃ سبا34: 10
  • 8 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث :539، ج-1،مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص :594-595
  • 9 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 1390، مطبوعۃ:دار السلام لنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:182
  • 10 ایضًا
  • 11 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:289
  • 12 مبارک بن محمد ابن اثیر جزری، جامع الاصول فی احادیث الرسول ، حدیث: 6962، ج -9،مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، بیروت، لبنان، 1972ء، ص:334
  • 13 القرآن،سورۃ البلد90: 1-2
  • 14 محمد بن احمد بن ابی بکر قرطبی ،الجامع لاحکام القرآن، ج -20، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :55
  • 15 ابوعبداﷲ محمد بن عمر فخر الدین رازی ،تفسیر الکبیر، ج- 31، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص :165
  • 16 علاؤ الدین علی بن محمد الخازن، تفسیر الخازن، ج -4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :429
  • 17 شہاب الدین احمد خفاجی، نسیم الریاض فی شرح شفاء، ج -1، مطبوعۃ: دار ابن رجب، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :196
  • 18 القرآن،سورۃ البلد90: 1
  • 19 احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :575
  • 20 القرآن،سورۃ البلد90: 1
  • 21 الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ،ج -1،مطبوعہ: منشی نو لکشور، ہند ، (سن اشاعت ندارد)، ص:65
  • 22 نور الدین علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص :85
  • 23 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:3483، ج-3، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1981ء، ص :1348
  • 24 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبری، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1971ء ، ص :206
  • 25 حضرت عمر بن الخطاب آپ کی شہادت23 ہجری میں ہوئی آپ کو مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولؤلؤ فیروز نامی شخص نے شہید کیا تھا۔ حضرت مغیرہ اس سے چکی بنانے کا کام لیتے اس کے عوض چار درہم روزانہ اسے دیتے تھے ایک دن ابولؤلؤ کی ملاقات سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق سے ہوگئی تو اس نے شکایت کی کہ مغیرہ میرے آقا نے مجھ پر زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے، آپ ان سے گفتگو کرکے میرے کام اور ڈیوٹی کو ہلکا کرادیجئے۔ سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے اس سے یہ کہا کہ تم اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے آقا کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو۔ اس پر ابولؤلؤ غصہ ہوگیا اور اس نے یہ کہا کہ کتنی تعجب کی بات ہے عدل وانصاف آپ نے میرے علاوہ دیگر تمام لوگوں کے ساتھ کیا ہے۔
    بس وہ اسی دن سے سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کے قتل کی خفیہ تدبیر کرنے لگا چنانچہ اس نے ایک دو رخا دو دھاری خنجر بنایا اور سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کی گھات میں لگ گیا۔ ایک دن سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نماز فجر کے لیے تشریف لائے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں بھی نماز پڑھ رہاتھا۔ میرے اور سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کے درمیان عبداﷲ بن عباس حائل تھے۔ اتنے میں آپ ؓ نے تکبیر کہی تھوڑی دیر میں کیا سن رہا ہوں کہ جس وقت ان کے خنجر لگا تو کہنے لگے مجھ پر کتے نے حملہ کردیا۔ قتل کرنے کے بعد وہ کافر چھری لے کر بھاگ گیا۔ وہ دو دھارا خنجر جس کسی کے دائیں یا بائیں سے گزرتا تو وہ لوگوں کو زخمی کردیتا۔ یہ خنجر تقریباً 13 صحابہ کے لگا جس میں سات صحابہ شہید ہوئے بعض نے نو شمار کرائے ہیں۔ کسی مسلمان نے جب اسے دیکھ لیا تو اس کے اوپر ایک چادر ڈال دی جس میں وہ الجھ گیا۔ جب اس قاتل نے یہ سمجھ لیا کہ اب میں پکڑ لیا جاؤں گا تو اس نے خود کو خنجر مار لیا۔
    سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے فرمایا اﷲ سے ہلاک کرے میں نے تو اسے نیک کاموں کا مشورہ دیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا خدا کا شکر ہے کہ میں کسی مسلمان کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا۔( ابولؤلؤ مجوسی غلام تھا۔ بعض لوگوں نے نصرانی کہا ہے۔ )
    امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین نے بلوائیوں کو لڑائی سے روکا۔ اس کے بعد بلوائی مکان کے عقب سے جس جانب عمرو بن الحرام کا مکان تھا سیڑھی لگاکر گھس آئے۔ ان لوگوں کو اس کی اطلاع تک نہ ہوئی جو حفاظت کی غرض سے دروازے پر تھے۔ ایک بلوائی امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین کے پاس جاتا اور خلع خلافت کی بابت گفتگو کرتا اور واپس آتا تھا۔ اس اثناء میں عبداﷲ بن سلام آئے انہوں نے بلوائیوں کو سمجھانا شروع کیا بلوائی لڑنے اور مارنے پر آمادہ ہوگئے۔ اس کے بعد محمد بن ابی بکر امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین کے پاس گئے اور دیر تک گفتگو کرتے رہے جس کے ذکر کی حاجت نہیں ہے پھر شرما کر چلے آئے۔ بعد ازاں کمینوں کا ایک گروہ پہنچا ان میں سے ایک نے آپ پر تلوار چلائی۔ نائلہ بنت الفراضہ آپ کی بیوی نے ہاتھ سے روکا۔ انگلیاں کٹ گئیں۔ دوسرے نے وار کیا خون کے قطرے مصحف کریم پر گرا اور آپ شہید ہوگئے۔
  • 26 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1978ء، ص:152-153
  • 27 علی بن ابراھیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:170
  • 28 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، سنن الکبریٰ، حدیث :10830، ج -9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 2001ء، ص :388
  • 29 عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407 ھ، ص:622-621
  • 30 ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق، مستخرج ابی عوانہ، حدیث: 4145، ج -3 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:44-45
  • 31 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 14195، ج -22، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :106-107
  • 32 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 2967، ج -4، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:51-52
  • 33 عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ھ، ص:637
  • 34 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -2،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1971ء ص:107