Encyclopedia of Muhammad

لعاب مصطفٰی ﷺ

نبی اکرم سراپا اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عالمین کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کا ہر لمحہ خلق خداوند سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت و برکت کا امین ہے۔جس کی سب سے واضح دلیل قرآن مجید میں موجود سورۃ الانفال کی آیت کریمہ ہے۔1 لہٰذا جو ذات قدسی اس شرف و عظمت کی حامل ہو اس کی ذات مقدس سر تاپا امن وسکون ،سلامتی و راحت کا باعث ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم کا لعاب دہن بھی حیرت انگیز کمالات وبرکات کا حامل تھا۔

لعاب (آب دہن) ایک قسم کا فضلہ ہے جو زبان کی جڑ کے نیچے کے دو سوراخوں سے منہ میں آتا رہتا ہے تاکہ زبان اور منہ ہر وقت تر رہے۔ ہر چند کہ یہ ایک فضلہ ہے لیکن نہایت کار آمد ہے۔ چونکہ یہ زبان کی جڑ سے پیدا ہوتا ہے اور پیغمبران خدا کی زبان ،وحی الٰہی کی مبلغ ہوتی ہے اس لئے اس میں یمن وبرکت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تسبیح و تہلیل ،ذکر واذکار، تلاوتِ قرآنِ مجید اور درود شریف میں مشغول رہنے، خطبہ وتذکیر، خلق اﷲ کو ارشاد وہدایت اور تفسیر و حدیث کی تدریس میں لگے رہنے سے بزرگان دین کے لعاب و دم میں بھی برکت پیدا ہوجاتی ہے اور ان سے بیمار شفا پاتے ہیں۔جب یہ اولیاء امت کا حال ہے تو نبیِ امت سید الانبیاء کے لعاب اقدس کی برکات و ثمرات و خیرات کا اندازہ بلاشبہ قیدِ بیان سے وراء ہے۔

آپ کا لعاب دہن زخمیوں اور بیماریوں کے لیے شفاء اور زہروں کے لیے تریاق اعظم تھا۔آپ کا لعاب ِدہن خوشبو دار اور نہایت ہی مہک دار تھا اسے اگر مریض استعمال کرتا تو شفا پاتا اور اگر غمگین شخص اس سے برکت حاصل کرتا تو غم خوشی سے بدل جاتا، زخم پر لگانے سے زخم مندمل ہوجاتا، جس کے منہ میں وہ جاتا اس سے خوشبوآتی، جس پانی کو اس سے برکت حاصل ہوجاتی تو اگر وہ کھارا ہوتا تو میٹھا ہوجاتا اور اس میں خوشبو ومہک پیدا ہوجاتی ۔آپ کے لعابِ دہن کی برکات کے واقعات بلامبالغہ سینکڑوں ہیں۔ مثلاحضرت ابوبکر صدیق کے پاؤں مبارک میں غارثور کے اندر سانپ نے کاٹا اور اس کا زہر آپ کے لعاب دہن مبارک سے اتر گیا اور زخم اچھا ہوگیا۔2 حضرت علی کے آشوب چشم کے لیے یہ لعابِ دہنِ مبارک شفاء العین بن گیا۔3 حضرت خبیب بن فدیک کی آنکھوں کی روشنی اس لعاب ِ رسول کی وجہ سے واپس لوٹ آئی۔4

مہکتا لعابِ مبارک

اگر انسان مسواک نہ کرے تو اس کے منہ سے سانس کی صورت میں جو ہوا باہر آتی ہے وہ ہر بدبو سے زیادہ بدبو دار ہوتی ہے، اور اگر مسواک کی پابندی کرے تو اگرچہ اس کے منہ سے بدبو نہیں آتی تاہم خوشبو بھی نہیں آتی۔ کیونکہ مسواک کا کام صرف بدبو کو ختم کرنا ہے خوشبو پیدا کرنا نہیں۔ لیکن رسول اﷲ کے دہن اقدس سے نکلے ہوئے سانس اور لعاب کی خوشبو بہتر سے بہتر عطر سے بھی زیادہ عمدہ تھی۔ چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں:

  صحبت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عشر سنین وشممت العطر كله فلم اشم نكھة اطیب من نكھة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.5
  میں دس برس حضور کی صحبت میں رہا ہوں اور میں نے ہر قسم کا عطر سونگھا ہے لیکن آپ کے منہ مبارک کی مہک سے زیادہ عمدہ مہک نہیں سونگھی۔

آپ تو سراپا خوشبو تھے اسی وجہ سے آپ کا لعاب مبارک بھی اسی صفت کا حامل تھا۔کتبِ سیر و احادیث میں اَمراض کی شفاء کےمتعلق کثیر تعدادمیں روایات موجود ہیں کہ کس طرح حضور نبی کریم کی بارگاہ سے صحابہ کرام فیضیاب ہوا کرتے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے حضور کے لعاب دہن کو بھی امت کے لیے باعثِ شفاء بنادیا۔اور اس سے بڑھ کر عظمت ِمصطفی کیا ہوسکتی ہے کہ حضور کی بارگاہ میں تشریف لانے والے صحابہ کرام کی بیماریاں اور پریشانیاں تو مختلف تھیں لیکن ان بیماریوں اور پریشانیوں کا علاج آپ ﷺنے اﷲ تعالیٰ کی عطا سے ایک ہی دواء یعنی لعاب دہن سے فرمادیا۔

حضور کا لعاب مبارک ہر درد کی دواء

رسول ِاکرم کا لعاب دہن ہر مرض کے لیے سب سے بڑھ کر اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :

  ان النبن صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقول للمریض: بسم للّٰه تربة ارضنا بریقة بعضنا یشفى سقینا باذن ربنا. 6
  نبی کریم مریض کے لیے اس طرح دعا کرتے تھے:اﷲ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی سے جو ہمارے بعض کے لعابِ دہن کے ساتھ مخلوط ہے، ہمارے بیمار کو شفاء ملتی ہے ہمارے رب کے حکم سے۔

امام نووی اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  معنى الحدیث انه اذا اخذ من ریق نفسه على اصبعه السبابة ثم وضعھا على التراب فعلق به شىء منه ثم مسح به الموضع العلیل ا والجریح قائلا الكلام المذكورفى حالة المسح.
  اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنا لعاب دہن اپنی انگشتِ شہادت پر لگاتے اور پھر اس کو مٹی7 کے اوپر رکھتے،جب مٹی اس کے ساتھ لگ جاتی تو پھر اس انگلی کو بیمار کی جگہ پر رکھتےیا زخم کی جگہ پر رکھتے اور انگلی رکھتے وقت یہ دعا فرماتے۔

حدیث میں موجود عاء کے الفاظ میں لفظ ارضنا کے حوالہ سےتشریح کرتے ہوئے علامہ نووی فرماتے ہیں:

  قیل المراد بارضنا ارض المدینة خاصة لبركتھا وبعضنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لشرف ریقه فیكون ذلك مخصوصا.8
  ہماری زمین سے مراد ہے مدینہ کی زمین کیونکہ اس کی خاص برکت ہے اور آپ نے فرمایا :ہم میں سے بعض کا لعاب دہن اس سے مراد ہے رسول اﷲ کا لعاب دہن کیونکہ آپ کا لعاب دہن بہت عظیم ہے لہٰذا یہ دعا رسول اﷲ کے ساتھ مخصوص ہے۔

مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم اپنا لعاب دہن مریض کے مرض والے حصہ پر لگاتے تاکہ لعاب دہن کی وجہ سے مرض مکمل ٹھیک ہوجائے اور فی الواقع وہ مرض نہ صرف ٹھیک ہوتا بلک اس کے اثرات تا دیر قائم بھی رہتے۔

لعاب مبارک سے حضرت علی کی شفایابی

رسول اکرم کے لعابِ اقدس سے حضرت علی کی آنکھیں بھی جنگ خیبر کے دوران صحت یاب ہوئی ہیں۔جب خیبر کے لیے لشکر تیا ر ہورہا تھا تو حضرت علی ابتداء میں شامل نہ ہوسکے تھے۔پھر جب آپ نے اس حوالہ سے سوچا تو آپ بعد میں لشکر میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت سلمہ بن اکوع بیان کرتے ہیں :

  كان على قد تخلف عن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى خیبر وكان به رمد فقال: انا اتخلف عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخرج على فلحق بالنبى صلى اللّٰه علیه وسلم.9
  حضرت علی آشوبِ چشم کی تکلیف کے باعث جنگ خیبر کے لیے روانہ ہونے والے لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور سے پیچھے رہ گیا ہوں تو پھر آپ نکلے اور حضور نبی کریم سے جاملے۔

پھر جب حضرت علی المرتضٰی پہنچے تو آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تبھی آپ جنگ میں تشریف نہیں لا سکے تھے۔دوسری طرف دوسر ے دن بھی معرکہ بے نتیجہ رہا۔تو اس وقت رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ کل میں اسے علم دونگا جو اللہ اور اس کے رسول کا محب ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا محبوب بھی ہے اور ۔چنانچہ ااسی حوالہ سے امام محمد بن سعد لکھتے ہیں:

  قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم خیبر: لادفعن الرایة الى رجلاً یحب اللّٰه ورسوله ویحبه اللّٰه ورسوله و یفتح علیه.10
  حضور نے خبیر کے دن فرمایا: میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جواﷲ عزوجل اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اور اﷲ اور اس کے رسول اسے دوست رکھتے ہیں اور وہ محصور یہود کے قلعہ کوفتح کرے گا۔

امام ابن ہشام سے اس طرح منقول ہے:

  فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : لاعطین الرایة غداً رجلاً یحبه للّٰه ورسوله یفتح للّٰه على یدیه لیس بفرار.11
  حضور نے فرمایا :میں کل ایسے آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائے گا وہ بھاگنےوالا نہیں۔

امام نسائی کی روایت میں جو انہوں نے فضائل الصحابۃ میں نقل فرمائی ہے اس میں فتح کی بشارت کا بھی ذکر ہے۔چنانچہ اس میں یوں منقول ہے:

  قال یوم خیبر:لاعطین ھذه الرایة غدا یفتح اللّٰه على یدیه یحب اللّٰه ورسوله ویحبه اللّٰه ورسوله.12
  حضور نے فرمایا :کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا یا وہ شخص جھنڈا پکڑے گا جس سے اﷲ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں یافرمایا :جو اﷲ اوراس کے رسول سے محبت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا۔

جب تیسرے دن کا طلوع آفتاب ہوا تو صحابہ کرام کو اس محب و محبوب مرد ہونے کی تمنا تھی چنانچہ حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے:

  فلما اصبح الناس غدوا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كلھم یرجون ان یعطاھا فقال: این على بن ابى طالب؟ فقالوا :ھو یا رسول اللّٰه یشتكى عینیه قال: فارسلوا الیه فاتى به فبصق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى عینیه ودعا له فبرأ حتى كان لم یكن به وجع فاعطاہ الرایة.13
  پس جب صبح ہوئی تو تمام لوگ رسول اﷲ کے پاس جمع ہوگئے۔ ان میں سے ہر ایک کی امید تھی کہ پرچم اسے عطا کیا جائے گا لیکن آپ نے فرمایا :علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا :یا رسول اﷲ ! علی کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپ نے فرمایا: انہیں لے آؤ اورپھر انہیں لایا گیا تو رسول اﷲ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا فرمائی تو وہ ٹھیک ہوگئیں پھر آپ نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔

اس روایت کو امام مسلم نے بھی نقل کیا ہے۔ 14 اسی طرح حضرت ابوہریرہ اس روایت کو بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

  فقالوا یشتكى عینیه قال فبصق نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى كفیه ومسح بھما عینى على ودفع الیه الرایة ففتح للّٰه على یدیه.15
  صحابہ کرام نے کہا: ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے: حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: پس اﷲ کے نبی نے اپنی ہتھیلیوں میں لعاب دہن لگایا اور دونوں ہتھیلیوں کو حضرت علی کی آنکھوں پر پھیرااورپرچم ان کو عطافرمایاتو اﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح عنایت فرمائی۔

یعنی حضرت علی المرتضیٰ کے آشوبِ چشم کا مرض رسول اکرم کے دہنِ اقدس کے لعاب ِ سے ٹھیک تو ہواہی اور ساتھ میں سریع الاثر بھی رہا کہ آپ فورا میدان ِجنگ میں جانے کےلیے تیا رہوگئے۔اسی طرح امام حافظ ابوبکراحمدبن حسین بیہقی نے بھی اس روایت کو تحریر کیا ہے۔ 16

اس کی مزید توضیح و تشریح درج ذیل روایت سے ہوتی ہے جس کےراوی حضرت بریدہ اسلمی ہیں۔چنانچہ آپ سے مروی ہے:

  حاصرنا خیبر فاخذ اللواء ابوبكر ولم یفتح له واخذ من الغد عمر فانصرف ولم یفتح له واصاب الناس یومئذ شدة وجھد فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: انى دافع لوائى غدا الى رجل یحب للّٰه ورسوله ویحبه للّٰه ورسوله لا یرجع حتى یفتح له وبتنا طیبة انفسنا ان الفتح غدا فلما اصبح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صلى الغداة ثم جاء قام قائما ودعا باللواء ورمى اللواء والناس على مصافھم فما منا انسان له منزلة عند الرسول صلى اللّٰه علیه وسلم الا وھو یرجو ان یكون صاحب اللواء فدعا على بن أبى طالب وھو أرمد فتفل فى عینیه، ومسح عنه، ودفع إلیه اللواء، ففتح اللّٰه له، قال: أنا فیمن تطاول لھا.17
  ہم نے خیبر کامحاصرہ کیا تو حضرت ابوبکر صدیق نے پرچم تھاما اور ان پرخیبر فتح نہ ہوا۔پھر دوسرے روز حضرت عمر نے پرچم تھاما تو وہ بھی لوٹ آئے اور ان پر بھی خیبر فتح نہ ہوا اور اس دن لوگوں کو بہت شدت اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اﷲ نے فرمایا: کل میں اپنا پرچم ایک ایسے شخص کو دوں گا جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں ۔ وہ فتح حاصل کیے بغیر واپس نہیں لوٹے گا تو ہم نے اطمینان سے رات بسر کی کہ کل ضرور فتح نصیب ہوگی۔ پس جب رسول اﷲ نے صبح فرمائی تو نماز فجر پڑھائی، پھر آکر قیام فرمایا اور پرچم اٹھایا اور لوگ اپنی صفوں میں تھے ۔پس ہم میں سے جس شخص کی بھی رسول اﷲ کے ہاں کچھ اہمیت تھی وہ امید کرتا رہا کہ وہی پرچم تھامنے والا ہوگالیکن آپ نے حضرت علی بن ابی طالب کو بلایا حالانکہ وہ آشوب ِچشم میں مبتلا تھے۔ پھر آپ نے انہیں لعاب مبارک لگایا اور ان کی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا۔ پھر پرچم تھمایا اور اﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے فتح عطا فرمائی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو پرچم کے امید وار تھے۔

حضرت بریدہ اسلمی کی دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت یوں وارد ہوئی ہے:

  فدعا على وھو ارمد فتفل فى عینیه ونھض معه من الناس من نھض فلقى اھل خیبر فاذا مرحب یرتجز وھو یقول:
قد علمت خیبر انی مرحب
شاکی السلاح بطل مجرب
اذا اللیوث اقبلت تلھت
اطعن احیانا وحینا اضرب.18
  آپ نے حضرت علی کو بلایا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تو آپ نے ان کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا اور حضرت علی کے ساتھ کچھ لوگ تیار ہوگئے ۔حضرت علی اہل خیبر کے سامنے ہوئے تو مرحب یہ اشعار پڑھتے ہوئے سامنے آیا:
اہل خیبر جانتے ہیں کہ میں مرحب ہوں!
ہتھیار بند، بہادر اور تجربہ کار ہوں۔
جب میرے سامنے شیر آئیں تو غبار ہوجاتے ہیں۔
کبھی میں زخمی کرتا ہوں اور کبھی گردن اُڑا دیتا ہوں۔
پھر حضرت علی اور اس کے درمیان دو دو ہاتھ ہوئے،پھر اچانک حضرت علی نے اس پر ایسا وار کیا کہ آپ کی تلوار نے اس کے سر کو چیر کر رکھ دیا جس سے اُس کے دماغ کی سفیدی ظاہر ہوگئی اور پورے لشکر نے آپ کی ضربِ کاری کی آواز سنی۔ پس ابھی آپ کے لشکر کی آخری صف کی نوبت بھی نہ آئی کہ اﷲ تعالیٰ نے پہلی ہی صف والوں کو فتح عطا فرمادی۔

سیدہ اُم موسی فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت علی کو فرماتے ہوئے سنا:

  لارمدت ولا صدعت مذ دفع الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الرایة یوم خبیر.19
  جب سے خیبر والے دن رسول اﷲ نے مجھے جھنڈا عطا فرمایا، اس دن سے نہ کبھی مجھے آنکھوں میں تکلیف ہوئی ہے اور نہ کبھی میرے سر میں درد ہوا ہے۔

اس حدیث مبارکہ کو دس سے زیادہ صحابہ کرام نے روایت کیا ہے چنانچہ اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانیفرماتے ہیں:

  وفى الباب عن اكثر من عشرة من الصحابة سردھم الحاكم فى الاكلیل وابو نعیم والبھیقى فى الدلائل.20
  اس باب میں دس سے زیادہ صحابہ کرام سے حدیث منقول ہے جسے امام حاکم نے اپنی کتاب الاکلیل میں امام ابو نعیم نے (حلیۃ الاولیاء میں) اور امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ذکر کیا ہے۔

آپ کے لعاب مبارک کا حضرت علی پر اثر

حضور کے لعاب مبارک کا صرف یہ ہی اثر نہ ہوا کہ آپ کی دکھتی آنکھیں اچھی ہوگئیں بلکہ لعابِ مبارک کے اور بھی کافی اثرات رونما ہوئے ۔مثلا اس لعابِ دہن کی برکت سے اس دن سے آخری عمر تک انہیں کبھی سردی اور گرمی محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی آنکھیں خراب ہوئیں۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت ابو لیلیٰ سے مروی ہے:

  انه قال: لعلى وكان یسیر معه ان الناس قد انكروا منك شیئا انك تخرج فى البرد بالملائتین وتخرج فى الحر فى الخشن والثوب الغلیظ؟ فقال: لم تكن اولم تكن معنا بخیبر. قال: بلى. قال: بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بعث ابابكر وعقد له لواء فرجع وبعث عمر وعقد له لواء فرجع بالناس. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: لاعطین الرایة رجلا یحب للّٰه ورسوله ویحبه للّٰه ورسوله لیس بفرار فارسل الى وانا ارمد فتفل فى عینى فقال: اللھم اكفه اذى الحر والبرد.قال: ما وجدت حرا بعد ذلك ولا بردا.21
  انہوں نے حضرت علی سے عرض کیا جبکہ وہ آپ کے ساتھ چل رہے تھے کہ لوگ آپ کی ایک عادت پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ موسم سرما میں نرم وملائم لباس پہن کر نکلتے ہیں اور موسم گرما میں موٹا اور سخت لباس؟ آپ نے فرمایا: کیا تم خیبر میں ہمارے ساتھ نہیں تھے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں؟ (تھے) تو فرمایا: رسول اﷲ نے حضرت ابوبکر صدیق کو بھیجا اور ان کے لیے ایک پرچم مقرر کیا لیکن وہ لوٹ آئے پھر حضرت عمر کو بھیجا اور ان کے لیے ایک پرچم باندھا تو وہ بھی لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ آئے پھر رسول اﷲ نے فرمایا: میں ایسے شخص کو پرچم عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں وہ فرار ہو نےوالا نہیں ہے۔ پھر آپ نے مجھےبلانےآدمی بھیجا جبکہ میں آشوب چشم میں مبتلا تھا تو آپ نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا پھر فرمایا: اے اﷲ! اس کو گرمی اور سردی کی اذیت سے محفوظ فرما ۔سیدناعلی نے فرمایا :اس کے بعد میں نے کبھی گرمی اور سردی کو محسوس نہیں کیا۔

حضور کے لعاب ِ دہن کی برکات

غزوہ ذی قرد جو محرم 7ہجری میں پیش آیا تھا اس میں حضرت ابو قتادہ انصاری کے چہرے پر تیر لگنے سے زخم ہوگیاتھاتو وہ حضور نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔حضور نبی کریم نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ابوقتادہ انصاری فرماتے ہیں:

  ادركنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم ذى قرد فنظر الى وقال اللّٰھم بارك له فى شعرہ وبشره وقال: افلح وجھك قتلت مسعدة قلت: نعم. قال: فما ھذا الذى بوجھك؟ قلت: سھم رمیت به قال: فادن منى فدنوت منه فبصق علیه .فما ضرب على قط ولا قاح.22
  نبی کریم نے غزوہ ذی قرد میں مجھے پایا تو میری طرف دیکھا اور دعا فرمائی۔ اے اﷲ! ان کے بالوں اور چہرے میں برکت عطا فرما۔پھر فرمایا: اﷲ تمہارے چہرے کو تروتازہ رکھے تم نے مسعدہ کو قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا:جی یا رسول اﷲ توفرمایا: یہ تمہارے چہرے پر کیسا نشان ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ تیر کا زخم ہے۔ فرمایا :میرے قریب ہوجاؤ تو میں آپ کے قریب آگیا۔ آپ نے اس کے اوپر لعاب دہن لگایا تو کوئی نشان باقی نہ رہا ،نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔

حضرت ابو قتادۃ آخری عمر تک صحت یاب ہی رہے۔کسی بھی قسم کا ضعف آپ میں نہیں تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام واقدی فرماتے ہیں:

  قال: فما ھذا الذى بوجھك؟ قلت :سھم رمیت به یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. قال: فادن منى. فدنوت منه فبصق علیه فما ضرب على قط ولا قاح. فمات ابو قتادة وھو ابن سبعین سنة وكانه ابن خمسة عشرة سنة.23
  نبی کریم نے فرمایا :یہ تمہارے چہرے پر کیا نشان ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ تیر کا زخم ہے یا رسول اﷲ تو فرمایا: میرے قریب ہوجاؤ تو میں آپ کے قریب آگیا ۔آپ نے اس کے اوپر لعاب دہن لگایا تو کوئی نشان باقی نہ رہا نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔ حضرت ابوقتادہ نے ستر سال کی عمر میں وفات پائی مگر دعائے رسول کی برکت سے پندرہ سال کے لگتے تھے۔

اسی طرح قاضی عیاض فرماتے ہیں:

  وبصق على اثرسھم فى وجه ابى قتادة فى یوم ذى قرد قال: فما ضرب على ولا قاح.24
  غزوہ ذی قرد کے موقع پر حضرت ابو قتادہ کے چہرے پر تیر لگنے سے زخم ہوگیا تو وہ حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے حضور نے زخم پر لعاب دہن لگایا تو نہ درد کی شکایت رہی اور نہ ہی اس میں پیپ پڑی۔

لہٰذا معلوم ہو اکہ رسول اکرم کا لعاب دہن نہ صرف انتہائی متبرک ہے بلکہ اس سے بڑھ کرشفاءِ عاجلہ اور اس سے بھی بڑھ کر شفاء ِ مستقلہ ومستمرہ کا اکسیرِ اعظم ہے۔

لعاب دہن سانپ کے زہر کا تریاق

سیدنا صدیق ِ اکبر کو ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں جب سانپ نے ڈسا تو اس وقت بھی نبی اکرم کا لعاب دہن ہی تھا جس نے یارِ غار کو اس موذی و مہلک مرض سے چھٹکارا دلوایا۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت فاروق اعظم بیان کرتے ہیں:

  ذكره عنده ابوبكر فبكى وقال: وددت ان عملى كله مثل عمله یوما واحدا من ایامه ولیلة واحدة من لیالیه اما لیلتة فلیلة سا رمع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى الغار فلما انتھیا الیه قال: واللّٰه لا تدخله حتى ادخل قبلك فان كان فیه شىء اصابنى دونك فدخل فكسحه ووجد فى جانبه ثقبا فشق ازاره وسدھا به وبقى منھا اثنان فالقمھما رجلیه ثم قال: لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ادخل فدخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ووضع راسه فى حجره فنام فلدغ ابوبكر فى رجله من الحجر ولم یتحرك مخافة ان ینتبه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: مالك یا ابا بكر؟ قال: لدغت فداك ابى وامى فتفل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فذھب ما یجده ثم انتقض علیه وكان سبب موته واما یومه فلما قبض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارتدت العرب وقالوا: لا نؤدى زكوة. فقال: لو منعونی عقالا لجاھدتھم علیه. وقلت: یا خلیفة رسول اللّٰه! تالف الناس وارفق بھم. فقال: لى اجبار فى الجاھلیة وخوار فى الاسلام انه قد انقطع الوحى وتم الدین اینقص وانا حى.25
  ان کے سامنے حضرت صدیق اکبر کا تذکرہ ہوا تو وہ روپڑے اور فرمانے لگے: میں چاہتا ہوں کہ کاش میری پوری زندگی کے اعمال (قدر وقیمت کے اعتبار سے) حضرت ابوبکر صدیق کے صرف ایک دن کے عمل کے برابر ہوجاتے۔ یا ان کی ایک رات کے عمل کے برابر ہوجاتے یہ ان کی اس رات کا ذکر ہے جس میں وہ رسول اﷲ کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے اور غار ثور ان کی پہلی منزل بنا تھا جب وہ دونوں اس غار پر پہنچے اور حضور نبی کریم نے غار میں داخل ہونا چاہا تو حضرت ابوبکر صدیق نے کہا: خدا کے واسطے آپ اس غار میں ابھی داخل نہ ہوں، پہلے میں اندر جاتا ہوں تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز (جیسے سانپ بچھو وغیرہ) ہو تو وہ مجھے ضرر پہنچائے نہ کہ آپ کو اور (یہ کہہ کر) آپ (حضور سے پہلے) غار میں داخل ہوگئے اسے صاف کیا۔ انہوں نے غار کی ایک جانب سوراخ دیکھے ان میں سے بیشتر سوراخوں کو انہوں نے اپنے تہبند سے چیتھڑے پھاڑ کر بند کردیا اور دو سوراخ (اس وجہ سے) باقی رہ گئے (کہ ان کو بند کرنے کے لئے تہبند کے چیتھڑوں میں سے کچھ نہیں بچا تھا)ان کے منہ پر انہوں نے اپنے دونوں پاؤں رکھ دئیے (تاکہ کسی زہریلے اور موذی جانور کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ رہے) پھر انہوں نے رسول اﷲ سے عرض کیا کہ اب اندر تشریف لے آئیے! چنانچہ آپ غار میں داخل ہوئے اور اپنا سر مبارک حضرت ابوبکر صدیق کی گود میں رکھ کر سوگئے۔ اسی دوران ایک سوراخ کے اندر سے سانپ نے حضرت ابوبکر صدیق کے پاؤں میں کاٹ لیا لیکن (وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور) اس ڈر سے اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کی کہ کہیں رسول اﷲ بیدار نہ ہوجائیں۔آخرکار (شدت تکلیف سے) ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے اور رسول اﷲ کے چہرہ مبارک پر گرے (جس سے آپ کی آنکھ کھل گئی) آپ نے ( ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو) پوچھا: ابوبکر ! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے (کسی زہریلے جانور یعنی سانپ نے) کاٹ لیا ہے۔ آپ نے (یہ سن کر) اپنا لعاب دہن مبارک (ان کے پاؤں پر کاٹی ہوئی جگہ پر) لگادیا اور (تکلیف واذیت کی) جو کیفیت ان کو محسوس ہورہی تھی وہ فوراً جاتی رہی۔ اسی سانپ کا وہ زہر تھا جو حضرت ابوبکر صدیق پر دوبارہ اثر انداز ہوا اور اسی کے سبب ان کی موت واقع ہوئی۔ایک ان کا وہ دن (کہ جس کے بارے میں میری آرزو ہے کہ کاش میری زندگی بھر کے اعمال ان کے صرف اس دن کے عمل کے برابر قرار پائیں) وہ دن تھا جب رسول اﷲ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی اور بعض عرب قبائل مرتد ہوگئے تھے ان (قبائل کے) لوگوں نے کہا تھا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقکا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ (زکوۃ میں اونٹ کے پاؤں کے باندھنے کی بقدر) رسی بھی دینے سے مجھے انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے (ان کا یہ فیصلہ سن کر) عرض کیا تھا: اے خلیفہ رسول اﷲ (یہ بڑا نازک موقع ہے) آپ کو لوگوں سے الفت اور نرمی کا سلوک کریں۔ حضرت ابوبکر صدیق نے (بڑے تیکھے لہجہ میں) مجھے جواب دیا تھا تم زمانہ جاہلیت میں تو بڑے غیور و بہادر اور قوی و غصہ ور تھے؟ اور اب اپنے زمانہ اسلام میں بزدل وپست ہمت ہوگئے ہو؟ اس حقیقت کو نہ بھولو کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور دین مکمل ہوچکا ہے ۔ ایسی صورت میں دین کمزور و ناقص ہوجائے، ایسا میں اپنی زندگی میں ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم کا لعاب دہن موذی سے موذی اور خطرناک سے خطرناک مرض کے لیے شفاء ہے خواہ وہ مرض کتنا ہی زیادہ سریع الاثر ہی کیوں نہ ہو اس کے اثر سے پہلے رسول اکرم کا لعاب مبارک اپنی برکات کو اس مرض پر طاری کردیتا ہے۔

حضرت خالد بن ولید پر لعاب دہن کا فوری اثر

حضرت خالد بن ولید کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے اسلام کے لیے آپ کی بے شمار خدمات ہیں۔ آپ نے اسلام لانے کے بعد ساری زندگی جہاد کے میدانوں میں گزاری۔ہر میدان میں آپ نے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے اور اسی بہادری پر آپ کو حضور کی طرف سے سیف اﷲ کا لقب ملا۔حضرت سیدنا صدیق اکبر نے حضرت خالد بن ولیدکو جنگ کا پرچم عطا کیا اور فرمایا :

  انى سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول: نعم عبد اللّٰه واخو العشیرة خالد بن الولید سیف من سیوف اللّٰه سله اللّٰه على الكفار.26
  میں نے رسول اﷲ کو فرماتے سنا کہ اﷲ تعالیٰ کا بہترین بندہ اور خاندان کا فرد خالد بن ولید ہے یہ اﷲ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے کافروں کے لیے سونتا ہے۔

غزوہ حنین کے موقع پر بھی آپ بڑی بہادری کے ساتھ لڑے یہاں تک کہ آپ بہت سخت زخمی ہوگئے۔چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن ازہر بیان کرتے ہیں

  ان خالد بن الولید بن المغیرة جرح یومئذ وكان على الخیل خیل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال ابن الازھر: قد رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بعدما ھزم اللّٰه الكفار ورجع المسلمون الى رحالھم یمشى فى المسلمین ویقول: من یدل على رحل خالد بن الولید ؟قال: فمشیت او قال: فسعیت بین یدیه وانا محتلم. اقول: من یدل على رحل خالد ؟حتى حللنا على رحله فاذا خالد بن الولید مستند الى مؤخرة رحله فاتاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنظر الى جرحه.قال الزھرى: وحسبت انه قال: ونفث فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.27
  حضرت خالد بن ولید زخمی ہوگئے تھے وہ نبی کریم کے گھوڑے پر سوار تھے، کفار کی شکست کے بعد میں نے نبی کریم کو دیکھا کہ آپ مسلمانوں کے درمیان جوکہ جنگ سے واپس آرہے تھے چلتے جارہے ہیں اور فرماتے جارہے ہیں کہ: خالد بن ولید کے خیمے کا پتہ کون بتائے گا؟ وہ کہتےہیں: میں نے حضور کے آگے یہ پکارتےہوئےچلناشروع کردیا: خالد بن ولید کے خیمے کا پتہ کون بتائے گا؟ یہاں تک کہ ہم ان کے خیمے پر جاپہنچے۔ وہاں حضرت خالد بن ولید اپنے کجاوے کے پچھلے حصے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ اتنے میں نبی کریم نے آکر ان کا زخم دیکھا۔امام زہری فرماتے ہیں: میراگمان ہےکہ راوی نے کہاکہ پھر اس پر حضور نبی کریم نے اپنا لعاب دہن لگادیا۔

امام ابو عوانہ بھی اسی حوالہ سے روایت کرتے ہیں:

  فاتاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنظر الى جرحه.قال الزھرى: وحسبت انه قال ونفث فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.28
  نبی کریم نے آکر حضرت خالد بن ولید کا زخم دیکھا۔امام زہری فرماتے ہیں : میراگمان ہےکہ راوی نے فرمایا : پھر اس پر حضور نبی کریم نے اپنا لعاب دہن لگادیا۔

اسی طرح امام بن حبان نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ 29 حضرت عبدالرحمن بن ازہر اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:

  ان خالد بن الولید جرح یوم حنین فتفل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى جرحه فبرأ.30
  حضرت خالد بن ولید جنگ حنین میں زخمی ہوگئے تورسول کریم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب ِمبارک لگادیا تو وہ اچھے ہوگئے۔

اس روایت کوامام مغلطائی یوں نقل فرماتے ہیں:

  وسماہ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سیف اللّٰه ولما جرح یوم حنین نفث النبى صلى اللّٰه علیه وسلم على جراحه فبرئت.31
  رسول اللہ نے حضرت خالد بن ولید کا نا م سیف اللہ رکھا اور جب حضرت خالد بن ولید حنین کے موقع پر زخمی ہوئے تو نبی کریم نے ان کے زخم پر لعابِ دہن لگایا تو وہ ٹھیک ہوگئے۔

متذکرہ بالا احادیث سے معلوم ہواکہ رسول اکرم کا لعابِ دہن مرض کے لیے اکسیر تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سریع الاثر بھی تھا جس سے مرض فورا ٹھیک ہوجاتا تھا۔

لعاب ِ رسول اور حارث بن اوس

حضرت حارث بن اوس بن معاذ بن نعمان انصاری یہ جلیل القدر صحابی رسول حضرت سعد بن معاذ کے بھتیجے ہیں۔ جب کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لیے چند صحابہ کرام روانہ ہوئے تو حضرت سعد بن معاذ نے ان سے فرمایا میرے بھتیجے حارث بن اوس کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام محمد بن سعد بصری لکھتے ہیں:

  شھد الحارث بن اوس بدراً وكان فیمن قتل كعب بن الاشرف واصابه بعض اصحابه تلك اللیلة بسیفه وھو یضربون كعبا فكلمه فى رجله فنزف الدم فاحتمله اصحابه حتى اتو به الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وشھد بعد ذلك احدا قتل یومئذ شھیداً فى شوال على راس اثنین وثلاثین شھرا وكان یوم قتل ابن ثمان وعشرین سنة.32
  حارث بن اوس جنگ بدر میں شریک ہوئےاوران لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کیا۔ اس رات جب ان کے کچھ ساتھیوں نے کعب بن اشرف پر حملہ کیا تو ان کی تلوار سے آپ کی ٹانگ زخمی ہوگئی۔ آپ کے ساتھی نے آپ کی توجہ دلائی کہ خون بہہ رہا ہے اورپھر آپ کے ساتھی آپ کو حضور کے پاس لے آئے۔ اس کے بعد آپ جنگ احد میں شریک ہوئے جو شوال میں 32 ماہ بعد ہوئی آپ اس جنگ میں شہید ہوئے اس وقت آپ کی عمر 28 برس تھی۔

آپ بدر میں شریک تھے۔کعب بن اشرف یہودیوں کا بہت بڑا سردار تھا۔کعب بن اشرف ہر وقت اپنے اشعار میں سرکار دو عالم ﷺاور صحابہ کرام اجمعین کی ہجو کرتا تھا۔ اسی وجہ سے اس یہودی کو واصل ِ جھنم کیا گیا۔چنانچہ امام محمد بن سعد بصری لکھتے ہیں:

  ثم سریة قتل كعب بن الاشرف الیھودى وذلك لاربع عشرة لیلة مضت من شھر ربیع الاول على راس خمسة و عشرین شھراً من مھاجر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وكان سبب قتله انه كان رجلاً شاعراً یھجو النبى صلى اللّٰه علیه وسلم واصحابه ویحرض علیھم ویؤذیھم فلما كانت وقعة بدر كبت وذل وقال: بطن الارض خیر من ظھرھا الیوم.33
  اس کے بعد کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا سریہ رسول اﷲ کی ہجرت کے پچیسویں مہینے 14 ربیع الاول کو ہوا ۔وہ شاعر تھا حضور نبی کریم اور آ پ کے اصحاب کی ہجو کرتا تھا مخالفت پر لوگوں کو برانگیختہ کرتا اور ایذادیتا تھا غزوہ بدر ہوا تو وہ ذلیل وسرنگوں ہوگیا اور کہا کہ آج زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہے۔

اس کی مزید تفصیل اس روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت جابر بیان کرتے ہیں :

  قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: من لكعب بن الأشرف، فإنه قد آذى اللّٰه ورسوله؟ فقام محمد بن مسلمة فقال: یا رسول اللّٰه! أتحب أن أقتله؟ قال: نعم قال: فأذن لى أن أقول شیئا قال: قل فأتاه محمد بن مسلمة فقال: إن ھذا الرجل قد سألنا صدقة، وإنه قد عنانا وإنى قد أتیتك أستسلفك، قال: وأیضا واللّٰه لتملنه، قال: إنا قد اتبعناه، فلا نحب أن ندعه حتى ننظر إلى أى شىء یصیر شأنه، وقد أردنا أن تسلفنا وسقا أو وسقین... فقال: نعم، ارھنونى، قالوا: أى شىء ترید؟ قال: ارھنونى نساءكم، قالوا: كیف نرھنك نساءنا وأنت أجمل العرب، قال: فارھنونى أبناءكم، قالوا: كیف نرھنك أبناءنا، فیسب أحدھم، فیقال: رھن بوسق أو وسقین، ھذا عار علینا، ولكنا نرھنك اللأمة قال سفیان: یعنى السلاح ، فواعده أن یأتیه، فجاءہ لیلا ومعه أبو نائلة، وھو أخو كعب من الرضاعة، فدعاھم إلى الحصن، فنزل إلیھم، فقالت له امرأته: أین تخرج ھذہ الساعة؟ فقال إنما ھو محمد بن مسلمة، وأخى أبو نائلة، وقال غیر عمرو، قالت: أسمع صوتا كأنه یقطر منه الدم، قال: إنما ھو أخى محمد بن مسلمة ورضیعى أبو نائلة إن الكریم لو دعى إلى طعنة بلیل لأجاب، قال: ویدخل محمد بن مسلمة معه رجلین . قیل لسفیان: سماھم عمرو؟ قال: سمى بعضھم ، قال عمرو: جاء معه برجلین، وقال: غیر عمرو: أبو عبس بن جبر، والحارث بن أوس، وعباد بن بشر، قال عمرو: جاء معه برجلین، فقال: إذا ما جاء فإنى قائل بشعره فأشمه، فإذا رأیتمونى استمكنت من رأسه، فدونكم فاضربوه، وقال مرة: ثم أشمكم، فنزل إلیھم متوشحا وھو ینفح منه ریح الطیب، فقال: ما رأیت كالیوم ریحا، أى أطیب، وقال غیر عمرو: قال: عندى أعطر نساء العرب وأكمل العرب، قال عمرو: فقال أتأذن لى أن أشم رأسك؟ قال: نعم، فشمه ثم أشم أصحابه، ثم قال: أتأذن لى؟ قال: نعم، فلما استمكن منه، قال: دونكم، فقتلوه، ثم أتوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فأخبروه.34
  حضور نبی کریم نے فرمایا کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا کیونکہ اس نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کو (بہت زیادہ) ایذاء دی ہے۔ پس حضرت محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اﷲ ! کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کو قتل کردوں؟ آپ نے فرمایا ہاں! انہوں نے کہا پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں (اس کو خوش کرنے کے لیے) کچھ باتیں کہوں؟ آپ نے فرمایا: تم کہہ دینا ۔حضرت محمد بن مسلمہ اس کے پاس پہنچے اور اس سے کہا: یہ شخص ہم سے صدقہ کا سوال کرتا ہے اور اس نے ہم کو تھکادیا ہے اور میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ تم ہمیں کچھ قرض دو۔ اس نے کہا: ابھی دیکھنا یہ شخص تم کو ملال اور اکتاہٹ میں مبتلا کردے گا۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا: بے شک ہم نے اس کی پیروی کی ہے اور ہم اس کو اس سے پہلے چھوڑنا نہیں چاہتے حتیٰ کہ ہم دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں ایک وسق یا دو وسق(چھ من یا بارہ من) اناج قرض دو ۔۔۔کعب بن اشرف نے کہا: ہاں! (مگر) تم میرے پاس کچھ گروی رکھو۔ میں نے پوچھا: تم کیا گروی رکھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: تم اپنی عورتیں گروی رکھو۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا: ہم اپنی عورتیں تمہارے پاس کیسے گروی رکھ سکتے ہیں؟ حالانکہ تم حسین ترین مرد ہو۔ اس نے کہا: پھر تم اپنے بیٹے گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا: ہم تمہارے پاس اپنے بیٹے کیسے گروی رکھ سکتے ہیں؟ پھر کوئی شخص ان میں سے کسی کو طعنہ دے گا کہ یہ ایک من یا دو من اناج کے عوض گروی رکھا گیا تھا اور یہ بات ہم پر باعثِ عار ہوگی۔ لیکن ہم تمہارے پاس لامہ گروی رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ: اس سے مراد ہتھیار ہیں۔ پھر اس نے ان سے ملاقات کا وعدہ کر لیا پس وہ اس کے پاس رات کو آئے اور ان کے ساتھ کعب کا رضاعی بھائی ابونائلہ بھی تھا اس نے ان کو قلعہ کی طرف بلالیا پس وہ ان کی طرف جانے لگاتواس کی بیوی نے اس سے کہا: تم اس وقت کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا: یہ صرف محمد بن مسلمہ ہے اور اس کے ساتھ میرا بھائی ابو نائلہ ہے۔ عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے بیان کیا: اس کی بیوی نے کہا: میں ایسی آواز سن رہی ہوں جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے کہا: یہ صرف میرا بھائی محمد بن مسلمہ ہے اور میرا دودھ شریک بھائی ابو نائلہ ہے۔ شریف آدمی کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ چلا جاتا ہے۔ راوی نے کہا: اس نے محمد بن مسلمہ کو اور ان کے ساتھ دو اور مردوں کو داخل کرلیا۔سفیان سے پوچھا گیا :کیا عمرو نے ان دو مردوں کا نام لیا تھا؟ انہوں نے کہا: بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو نے کہا تھا: ان کے ساتھ دو مرد آئے اور عمرو کے علاوہ ابو عبس بن جبر اور حارث بن اوس ۔ باد بن بشر نے بیان کیا کہ: عمرو نے کہا کہ: ان کے ساتھ دو مرد آئے پس انہوں نے ان کو سمجھایا کہ جب وہ آئے گا تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا پس جب تم یہ دیکھو کہ میں نے اس کے سر پر قابو پالیا ہے تو تم اس کو پکڑ کر مار ڈالنا۔ اور ایک مرتبہ یہ کہا کہ پھر میں اس کا سرسونگھوں گا۔ پھر کعب ان کی طرف چادر لپیٹے ہوئے آیا اور اس سے بہت عمدہ خوشبو آرہی تھی محمد بن مسلمہ نے کہا: میں نے آج تک اتنی نفیس خوشبو نہیں پائی۔ عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے بتایا کہ کعب نے کہا: میرے پاس عرب کی سب سے حسین اور کامل عورت ہے جو ہر وقت خوشبو میں بسی رہتی ہے۔ عمرو نے بتایاکہ محمد بن مسلمہ نے کہا: کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں تمہارے سر کوسونگھ لوں؟اس نے کہا: ہاں! پھر انہوں نے سونگھا پھر انہوں نے اپنے اصحاب کو سونگھایا۔ پھر کہا: کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں! پس جب انہوں نے اس کے سر پر قابو پالیا تو کہا: اب اس کو پکڑ کر مارڈا لو۔ سو انہوں نے اس کو قتل کردیا۔ پھر انہوں نے حضور نبی کریم کے پاس آکر اس کے قتل کی خبر دی۔

گويا ان خوش نصيب صحابہ كرام ميں جنهوں نے كعب بن اشرف كو قتل كيا حارث بن اوس بهي شامل تهے اور بقيہ افراد کا ذکر درج ذیل ہے:

  1. حضرت محمد بن مسلمہ
  2. حضرت ابو نائلہ سلکان بن سلامہ بن وقش
  3. عباد بن بشر بن وقش اشہلی
  4. ابو عبس بن جبر حارثی

امام طبری نے بھی ان صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے۔35 محدث کبیر امام بدر الدین عینی اس یہودی کے قتل کے دوران حضرت حارث بن اوس کو لگنے والے زخم اور پھر بارگاہ رسالت میں پہنچ کر لعاب دہنِ رسول اکرم سے صحتیابی کا تذکرہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

  وفى روایة عروة وضربه محمد بن مسلمة فقتله واصاب ذباب السیف الحارث بن اوس واقبلوا حتى اذا كانوا بجرف بعاث تخلف الحارث ونزف فلما افتقدہ اصحابه رجعوا فاحتملوه ثم اقبلوا سرعا حتى دخلوا المدینة.وفى روایة الواقدى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تفل على جرح الحارث بن اوس فلم یؤذه.36
  عروہ کی روایت ہے کہ حضرت محمد بن مسلمہ نے اس پر تلوار ماری اور اس کو قتل کردیا اور حضرت الحارث بن اوس کو تلوار کی نوک لگی۔ حتیٰ کہ جب وہ مقام جرف بعاث پر پہنچے تو حضرت حارث کے زخم سے بہت خون نکلا اور وہ پیچھے رہ گئے ۔ جب ان کے اصحاب نے ان کو گم پایا تو وہ واپس گئے اور ان کو اٹھا کر لائے اور جلدی جلدی روانہ ہوئے یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے۔امام واقدی کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم نے حضرت الحارث بن عوف کے زخم پر لعابِ دہن ڈالا پھر ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

اس کی مزید تشریح امام بیہقی یوں فرماتے ہیں:

  ان الحارث بن اوس اصابه بعض اسیافھم فجرح فى راسه ورجله قالوا: فاحتملناه فجئنا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم آخر اللیل وھو قائم یصلى فسلمنا علیه فخرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الینا فاخبرناہ بقتل عدو للّٰه فتفل على جرح صاحبنا فرجعنا الى اھلینا.37
  حضرت حارث بن اوس کو ان کے بعض ساتھیوں کی تلوار لگ گئی تھی جس سے ان کے سر میں اور پیر میں زخم آگیا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ اس کو رات کے آخری حصے میں اٹھاکر رسول اﷲ کے پاس لے آئے تھے جبکہ حضور کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ پھرہم نے حضور کو سلام کیا تو حضور ہمارے پاس باہر تشریف لائے۔ ہم نے ان کو اﷲ کے دشمن کے قتل کی خبر دی حضور نے ہمارے زخمی ساتھی کے زخم پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور ہم اپنے اپنے گھروں میں واپس چلے گئے تھے۔

اسی طرح امام محمد بن عمر واقدی لکھتے ہیں:

  فتفل فى جرحه فلم یؤذه.38
  حضور نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا اس کے بعد زخم میں تکلیف نہ رہی۔

امام سیوطی نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔39 امام ابن حجر عسقلانی نے اسی حوالہ سے ایک مرسل روایت بھی ذکر کی ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  وفى روایة الواقدى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تفل على جرح الحارث بن اوس فلم یؤذه. وفى مرسل عكرمة فبزق فیھا ثم الصقھا فالتئمت.40
  امام واقدی کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم نے حضرت الحارث بن عوف کے زخم پر لعابِ دہن لگایا پھر ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔اور حضرت عکرمہ کی مرسل روایت میں ہے کہ آپ نے اس زخم والی جگہ پر لعاب اطہر لگاکر اس کو چمٹا دیا تو وہ زخم فوراً بھر گیا اور ٹھیک ہوگیا۔

ان مذکورہ بالا احادیث سے جہان یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم نے ہجو کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم فرمایا اور صحابہ کرام نے اسے قتل بھی کردیا وہیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس دوران جس صحابی کو تلوار کا زخم لگا اسے صحابہ کرام جلد از جلد بارگاہ رسالت مآب میں لے آئے اور اس کا زخم رسول اکرم کے لعاب دہن سے فورا شفایاب ہوگیا۔

حضرت حبیب بن فدیک کی بصارت پر لعاب مبارک کے اثرات

لعاب دہنِ رسول ِ اکرم کی اسی برکت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت حبیب بن فدیک ایک مروی روایت میں ذکر فرماتے ہیں:

  خرج به الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وعیناه مبیضتان لا یبصر بھما شیئا فساله مااصابه قال: كنت امرن جملا لى فوقعت رجلى على بیض حیة فاصیب بصرى فنفث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى عینیه فابصر قال: فرایته یدخل الخیط فى الابرة وانه لابن ثمانین سنة وان عینیه لمبیضتان.41
  ( ان کے والد )انہیں لیکر حضور نبی کریم کی طرف نکلے۔ ان کی دونوں آنکھیں بے نور ہوچکی تھیں اور انہیں ان آنکھوں سے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ نبی کریم نے دریافت فرمایا :تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا :میں اپنا اونٹ سدھا رہا تھا کہ ایک سانپ کے انڈوں پر میرا پاؤں پڑگیا تو میری نظر جاتی رہی۔ پس نبی کریم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا تو ان کی بصارت لوٹ آئی۔حضرت خبیب فرماتے ہیں:میں نے انہیں اسی سال کی عمر میں سوئی میں دھاگا ڈالتے ہوئے دیکھا جبکہ ان کی دونوں آنکھیں سفید تھیں۔

یعنی ان کی آنکھوں کی روشنائی نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوئی بلکہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید تیزی آتی گئی اسی لیے 80 سال کی عمر میں بھی وہ اس قدر باریک کام کے بجا لانے میں کسی خارجی مدد کے محتاج نہ تھے۔

اسی طرح امام سیوطی فرماتے ہیں:

  فكان لا یبصر بھما شیئا فنفث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى عینیه فابصر فرایته یدخل الخیط فى الابرة وھو ابن ثمانین.42
  انہیں دونوں آنکھوں سے کچھ بھی نظر نہ آتا تھا تو حضور نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر ڈالا اور وہ بینا ہوگئے۔ سب کچھ نظر آنے لگا۔ میں نے انہیں اسی سال کی عمر میں سوئی میں دھاگا ڈالتےتھے۔

اسی حوالہ سے امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ایک باب بھی باندھا ہے :

  باب ماجاء فى نفثه فى عینین كانتا مبیضتین لا یبصر صاحبھما بھما حتى ابصر.43
  حضور کے لعاب دہن کی برکت سے ایک آدمی کی سفید شدہ آنکھوں کی بینائی ٹھیک ہوجانےکاباب۔

جس میں امام بیہقی نے اسی حوالہ سے کئی راوایات کا تذکرہ کیا ہے۔

صحابی کےزخمی کندھے پرلعاب مبارک کا اثر

رسول اکرم سرتاپا باعث رحمت و امن و سکون تھے اور ساتھ ہی ساتھ آپ کا لعابِ دہن بھی انتہائی متبرک تھا ۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام کی زندگی میں کئی حادثات میں اس لعابِ پاک کی وجہ سے بہاریں آئیں۔چنانچہ اس حوالہ سے ایک روایت منقول ہے جس میں حضرت خبیب بن یساف ذکر فرماتےہیں:

  اتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم انا ورجل من قومى فى بعض مغازیه فقلنا: انا نشتھى معك مشھدا. قال: اسلمتم. قلنا: لا.قال: فانا لا نستعین بالمشركین على المشركین. قال: فاسلمت وشھدت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاصابتنى ضربة على عاتقى فخانتنى فتغلقت یدى فاتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فتفل فیھا والزقھا فالتامت وبرات وقتلت الذى ضربنى ثم تزوجت ابنة الذى ضربته فقتلته و حدثتنى فكانت تقول: لا عدمت رجلا وشحك ھذا الوشاح فاقول: لاعدمت رجلا عجل اباك الى النار.44
  ایک غزوہ کے موقع پر میں اور میری قوم کا ایک شخص حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ۔ ہم نے عرض کی کہ ہم آپ کے ساتھ جہاد میں یعنی میدان شہادت میں جانا چاہتے ہیں ۔آپ نے پوچھا : کیا تم مسلمان ہوچکے ہو؟ ہم نے بتایا: نہیں۔ حضور نے فرمایا: ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد نہیں لیتے۔ کہتے ہیں:میں مسلمان ہوگیا اور رسول اﷲ کے ساتھ حاضر ہوگیا ۔ وہاں میرے کندھے پر زخم آگیا جس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔ میں نے اس کو ہاتھ سے بند کرلیا اور حضور کے پاس آیا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن مبارک لگایا اور چپکا دیا لہٰذا وہ زخم مندمل ہو گیا اور درست ہوگیا ۔پھرمیں نے اس کو قتل کردیا جس نے مجھے زحم لگایا تھا اس کے بعد میں نے اس کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرلیا جس کو میں نے قتل کیا تھا۔ایک مرتبہ اس نے مجھ سے بات کرتے ہوئےکہا: افسوس کی بات ہے تم نے اس مرد کو گم کردیا جس نے آپ کو یہ ہار پہنایا ۔میں نےجواب دیا: افسوس تیرے باپ نےجہنم کی جانب جانے میں جلدی کی۔

امام قاضی عیاض مالکی اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنگ بدر میں حضرت خبیب بن یساف کے مونڈھے پر ایک ایسی ضرب لگی جس سے مونڈھے کی ایک کروٹ لٹک پڑی جس کو رسول اکرم نے اپنے لعاب دہن لگاکر ٹھیک کردیا۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  فردہ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ونفث علیه حتى صح.45
  تو رسول اﷲ نے اس لٹکی ہوئی کروٹ کو اس کی جگہ پر رکھ کر اوپر اس پر اپنا لعاب مبارک لگا دیاتو وہ مونڈھا بالکل صحیح ہوگیا۔

آبِ دہن مبارک عجیب نسخہ جامعہ تھا کہ ہر مرض کی دوا اور محتاج کا درمان تھا۔ غور کیجئے جب صحابہ کرام لعاب مبارک کی تاثیرات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے تو ان کے نزدیک اس لعاب مبارک کی وقعت اور شان کیا ہوگی؟ اسی وجہ سے وہ ان برکات کے حصول کے ہر وقت طالب رہتے تھے جو اﷲ تعالیٰ نے حضور کے لعابِ مبارک میں رکھی تھیں۔

لعابِ مبارک سے کاندھے کی شفایابی

حضرت خبیب بن عبد الرحمن سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر والے دن حضرت خبیب بن عدی کو شدید ضرب لگی جس کی وجہ سے ان کا کندھا ایک جانب سےنیچے کی طرف جھک گیا۔جس کا علاج انہوں نے بارگاہ نبوی ﷺمیں آکر کروایا۔چنانچہ اس حوالہ سے روایت میں مذکور ہے:

  فتفل علیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولامه ورده فانطبق.46
  پھر اس جگہ پر حضور نبی کریم نے لعاب دہن لگایا اور اس زخم کو باندھ کر اس کندھے کو اپنی جگہ لوٹا دیا تووہ پہلے کی طرح پیوست ہوگیا۔

یہ خاصیت صرف رسول اکرم سیدنا محمد رسول اللہ کے لعاب دہن کی ہے کہ اس لعاب دہن سے نرم اشیاء تو صحیح و سالم ہوتی ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مضبوط اور ٹھوس اشیاء بھی صحیح و سالم ہوجاتی ہیں۔ایسا لگتا ہے گویا کہ یہ کبھی خراب ہوئی ہی نہ تھیں۔

لعابِ نبی اور زخمی ہاتھ

حضرت معاذ بن عمرو بن الجموح اور حضرت معوذ ان دونوں بھائیوں نے مل کر جنگ بدر میں ابوجہل کو قتل کیا تھا۔چنانچہ امام حافظ طبرانی لکھتے ہیں:

  معاذ بن عمرو بن الجموح الانصارى ثم الخزرجى بدرى وھو قاتل ابى جھل بن ھشام.47
  معاذ بن عمر وبن جموح انصاری خزرجی بدری،جنہوں نے ابو جہل ابن ہشام کو قتل کیا تھا۔

اسی طرح امام ابن اسحاق فرماتے ہیں:

  ان ھذا معاذ بن عمرو قتل ابا جھل.48
  بلاشبہ معاذ بن عمر و نے ابو جہل کوقتل کیا تھا۔

اس کی مزید تفصیل امام بخاری حضرت عبد الرحمن بن عوف سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

  بینا انا واقف فى الصف یوم بدر فنظرت عن یمینى وشمالى فاذا انا بغلامین من الانصار حدیثة اسنانھما تمنیت ان اكون بین اضلع منھما فغمزنى احدھما فقال: یا عم ھل تعرف ابا جھل؟ قلت: نعم! ما حاجتك الیه یا ابن اخى؟ قال: اخبرت انه یسب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم والذى نفسى بیده لئن رایته لا یفارق سوادى سوادہ حتى یموت الاعجل منا. فتعجبت لذلك فغمزنى الاخر. فقال: لى مثلھا فلم انشب ان نظرت الى ابى جھل یجول فى الناس قلت: الا ان ھذا صاحبكما الذى سالتمانى فابتدراه بسیفیھما فضرباه حتى قتلاه ثم انصرفا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخبراه. فقال: ایكما قتله؟ قال كل واحد منھما: انا قتلته. فقال: ھل مسحتما سیفیكما؟ قالا: لا. فنظر فى السیفین فقال: كلا كما قتله سلبه لمعاذ بن عمرو الجموح. وكانا معاذ بن عفراء ومعاذ بن عمرو بن الجموح.49
  غزوۂ بدر کے دن جب میں صف میں کھڑا ہوا تھا تو میں نے اپنی دائیں اور بائیں جانب دیکھا تو اس وقت انصار کے دو کمسن نوجوان لڑکے تھے۔ اس وقت میں نے یہ تمنا کی کہ کاش! میں ان سے زیادہ قوی لڑکوں کے ساتھ ہوتا ۔پھر ان دونوں میں سے کسی ایک نے مجھے اشارہ کرکے کہا :اے چچا! کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! تمہیں اس سے کیا کام ہے اے میرے بھتیجے؟ اس نے کہا :مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ رسول اﷲ کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے اگر میں نے اس کو دیکھ لیا تو میں اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا حتیٰ کہ ہم میں سے جس کی موت پہلے مقدر کی گئی ہے وہ مر نہ جائے۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوا تواتنے میں دوسرے نے مجھے اشارہ کیا اوراس نے بھی اسی طرح کہا ۔پھر تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے دیکھا کہ ابوجہل لوگوں کے درمیان گھوم رہا تھا ۔میں نے کہا سنو! جس شخص کے متعلق تم نے سوال کیا تھا وہ یہ رہا ۔پس وہ دونوں اپنی اپنی تلواریں لے کر جھپٹے اور اس پر وار کیے حتیٰ کہ ان دونوں نے اس کو قتل کردیا۔ پھر دونوں نے رسول اﷲ کے پاس جاکر آپ کو اس کے قتل کی خبر دی توآپ نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس کو قتل کیا ہے؟ تو ان میں سے ہر ایک نے کہاکہ میں نے اس کو قتل کیا ہے۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تلواروں کو صاف کرلیا ہے؟ ان دونوں نے کہاکہ نہیں۔ پس آپ نے ان دونوں کی تلواروں کو دیکھا پس فرمایا: تم دونوں نے اس کو قتل کیا ہے۔ اور اس سے چھینا ہوا سامان معاذ بن عمرو بن الجموح کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان حضرت معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن الجموح تھے۔

اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں:

  وشھد معاذ ھذا العقبة وبدرا وھو احد من قتل ابا جھل. وقال ابن اسحاق فى المغازى: حدثنى ثور عن عكرمة عن ابن عباس قال: قال معاذ بن عمرو الجموح: سمعت القوم یقولون: ابو الحكم لایخلص الیه. فجعلته من شانى فصمدت نحوه فحملت علیه فضربته ضربة فاطنت قدمه… الخ.وفى المغازى ایضا ان عكرمة بن ابى جھل ضرب معاذ بن عمرو فقطع یده فبقیت معلقة حتى تمطى علیھا فالقاھا وقاتل بقیة یوم.50
  حضرت معاذ بیعت عقبہ میں شریک تھے اور غزوہ بدر میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ ابو جہل کے قتل کرنے والوں میں سے بھی ہیں۔ابن اسحاق مغازی میں فرماتے ہیں کہ ثور نے مجھے بتایا کہ عکرمہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن عمرو بن جموح نے کہا : میں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سناکہ اس تک پہنچنا بہت مشکل لیکن میں اس کی تاک میں رہا ۔آخر میں اس کی طرف لپکا اور ایسی زبردست ضرب لگائی کہ اس کے پاؤں کٹ گئے۔مغازی میں یہ بھی اضافہ ہے کہ پھر ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے معاذ بن عمرو پر حملہ کیا اور ان کا ہاتھ کٹ گیا لیکن ابھی ساتھ ہی لٹک رہا تھا کہ انہوں اس پر پاؤں رکھ کر اس زور سے کھینچا کہ اس کو بدن سے جدا کردیا اور پھر جہاد و لڑائی میں مصروف ہوگئے۔

آپ کی وفات حضرت عثمان ذوالنورین کی خلافت میں ہوئی۔چنانچہ امام ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:

  مات زمن عثمان.51
  آپ کی وفات حضرت عثمان ذوالنورین کی خلافت میں ہوئی۔

جب آپ کا بازو کٹ گیا تو آپ اس بازو کو اٹھاکر حضور کی بارگاہ میں آئے حضور نبی کریم نے اس پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور اسے اپنی جگہ چمٹادیا سو وہ اپنی جگہ جڑگیا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام قاضی عیاض فرماتے ہیں:

  وقطع ابو جھل یوم بدر معوذ بن عفراء فجاء یحمل یده فبصق علیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم والصقھا فلصقت.52
  غزوہ بدر کے موقع پر ابو جہل نے سیدنا معوذ بن عفراء کا ہاتھ (بازو) کاٹ دیا پھر وہ اپنا بازو اٹھائے ہوئے حاضر خدمت بارگاہ مصطفی ہوئے۔تو حضور نبی کریم نے اس پر لعاب اقدس لگایا اور اسے اپنی جگہ چپکادیا سو وہ اپنی جگہ دوبارہ جم گیا۔

اسی طرح امام ابن سید الناس فرماتے ہیں:

  فجاء یحمل یده فبصق علیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم والصقھا فلصقت.53
  اپنا بازو اٹھائے ہوئے حاضر خدمت بارگاہ مصطفی ہوئے۔تو حضور نبی کریم نے اس پر لعاب اقدس لگایا اور اسے اپنی جگہ چپکادیا سو وہ اپنی جگہ جم گیا۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم کا لعاب دہن ہر مرض کے لیے شفاء کا باعث تھااورجس سے مرض انتہائی سرعت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا تھا۔

لعاب ِ حضور سے زخمی سینہ شفایاب ہوگیا

حضرت کلثوم بن حصین ابو رھم غفاری کی کنیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ بیت رضوان میں شریک تھے اور فتح مکہ کے موقعہ پر حضور نبی کریم نے انہیں مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام بغوی فرماتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مضى لسفره یعنى فى غزوة الفتح واستخلف على المدینة.54
  فتح مکہ کے موقعہ پر حضور نبی کریم نے انہیں مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔

اسی طرح امام محمد بن سعد بصری فرماتے ہیں:

  وشھد معه احدا ورمى یومئذ بسھم فوقع فى نحره فجاء الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فبصق علیه فبراء.55
  وہ جنگ احد میں نبی کریم کے ساتھ شریک ہوئے اس روز ان کے گلے میں تیر لگا تو وہ رسول اللہ کی بارگاہ میں آئے تو آپ نے لعاب مبارک لگا دیا تو آپ صحت یاب ہوگئے۔

اسی طرح امام ابن عبد البر مالکی 56، قاضی عیاض،57 امام سخاوی58 اور ابن حجر عسقلانی ان سب نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ 59

آپ کے لعاب مبارک سے زخمی انکھ کی شفایابی

حضرت قتادہ بن نعمان ابن زید ابن عامر اوسی آپ حضرت ابو سعید خدری کے ماں شریک بھائی ہیں اور ان دونوں کی ماں انیسہ بنت قیس نجاریہ ہے۔آپ کی کنیت ابو عبداﷲ ہے۔آپ تمام غزوات میں حضور کے ساتھ شریک ہوئے اور پینسٹھ (65) سال کی عمر میں حضرت فاروق اعظم کے دور خلافت میں وفات پائی اور فاروق اعظم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ امام سہیلی حضرت قتادہ بن نعمان کے بارے میں فرماتے ہیں:

یہ حضرت ابو سعید خدری کے اخیافی بھائی ہیں یعنی ماں شریک بھائی ۔آپ ہی وہ شخص ہیں جنہیں رسول اﷲ نے بار بار سورہ اخلاص پڑھتے دیکھا تو فرمایا واجب ہوگئی (یعنی جنت )آپ کا واقعہ مؤطا شریف میں مذکور ہے۔ 60

جنگ بدر ،اُحد یا جنگ خندق میں حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ زخمی ہوگئی اور اس کا ڈھیلہ بہہ کر رخسار پر آگیا۔ آپ اسے ہاتھ میں لے کر نبی کریم کی بارگاہ اقدس میں آئے توحضور نبی کریم نے اس پر اپنا لعاب مبارک لگاکراس ڈھیلہ کو اپنی جگہ پر رکھ دیا۔اس کے بعد وہ بالکل صحیح ہوگئی اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی کونسی آنکھ میں زخم آیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن عبد البر مالکی فرماتے ہیں:

  شھد بدرا والمشاھد كلھا واصیبت عینه یوم بدر وقیل یوم الخندق وقیل یوم احد فسالت حدقته فارادوا قطعھا ثم اتوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فدفع حدقته بیده حتى وضعھا موضعھا ثم غمزھا براحته وقال: اللّٰھم اكسھا جمالا فجاء ت وانھا لاحسن عینیه وما مرضت بعده.61
  حضرت قتادہ بن نعمان غزوہ بدر میں حاضر تھے اور اس کے بعد تمام مشاہد (جنگوں)میں حاضر رہے۔ غزوہ بدر میں ان کی آنکھ نکل گئی تھی، دوسرا قول ہے کہ غزوہ خندق میں نکلی تھی، تیسرا قول ہے کہ غزوہ احد میں نکلی تھی۔ان کی آنکھ کا ڈھیلہ آنکھ سے نکل کر ٹکا ہوا تھاتو صحابہ کرام نے ارادہ کیا کہ اس کو کاٹ دیں۔ پھر وہ نبی کریم کے پاس آئےتوآپ نے ان کی آنکھ کے ڈھیلہ کو اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور اس کی جگہ پر رکھا دیا اورپھر اپنی ہتھیلی سے اس کو دبایا اور دعا کی: اے اﷲ! اس آنکھ کو حسن وجمال عطا فرما۔ پس ان کی وہ آنکھ دونوں آنکھوں میں سے زیادہ خوبصور ت ہوگئی اور اس کے بعد ان کی آنکھ میں کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔

حضرت نعمان بن قتادہ اس حوالہ سے خود فرماتے ہیں کہ میں احد کے روز نبی کریم کے سامنے کھڑے ہوکر آپ کا تیروں سے دفاع کررہا تھا کہ ایک تیر میری آنکھ میں لگا جس سے میری آنکھ کا حلقہ باہر آپڑا۔ میں اسے ہاتھ میں لیکر نبی کریم کی طرف بھاگا اور رسول اکرم کی بارگاہ بے کس پناہ میں پہنچ گیا۔چنانچہ مروی ہے:

  فلما راه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى كفى دمعت عیناه فقال: اللّٰھم ان قتادة قد اوجه نبیك بوجھه فاجعلھا احسن عینیه واحدھما نظرا فكانت احسن عینیه واحدھما نظرا.62
  جب آپ نے اسے میری ہتھیلی پردیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ نے دعا مانگی، اے اﷲ! قتادہ کو بچا جس طرح اس نے تیرے نبی کے چہرے کا دفاع کیا اس کی آنکھ کو زیادہ خوبصورت اور تیز فرما۔ چنانچہ آپ کی دعا کا یہ اثر ہوا ہےکہ وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی۔

امام حاکم نیشاپوری نے اس روایت کو یوں بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہیں:

  وشھد قتادة بن النعمان العقبة مع السبعین من الانصار وكان من الرماة المذكورین من اصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شھد بدرا واحد ورمیت عینه یوم احد فسالت حدقته على وجنته فاتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ان عندى امراة احبھا وان ھى رات عینى خشیت تقذرھا فردھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بیده فاستوت ورجعت وكانت اقوى عینیه واصحھما بعد ان كبر وشھد ایضا الخندق والمشاھد كلھا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وكانت معه رایة بنى ظفر فى غزوة الفتح.63
  حضرت قتادہ بن نعمان نے ستر انصاری صحابہ کرام کے ہمراہ عقبہ میں شرکت کی تھی۔ جنگ بدر و احد میں شرکت کی اور جنگ احد میں تیر اندازوں میں بھی یہ شامل تھے۔ جنگ احد کے موقع پر ان کی آنکھ پر تیر لگا جس کی وجہ سے ان کی آنکھ باہر آگئی تھی۔ یہ رسول اﷲ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اﷲ ! میری بیوی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔ اگر اس نے میری یہ پھوٹی ہوئی آنکھ دیکھ لی تو مجھے خدشہ ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگ جائے گی۔رسول اﷲ نے ان کی آنکھ اس کے مقام پر لگا کر درست فرمادی توان کی بینائی لوٹ آئی بلکہ اس آنکھ کی بینائی دوسری سے زیادہ ہوگئی اور بڑھاپے کے عالم میں بھی یہ آنکھ سلامت رہی۔ آپ جنگ خندق اور تمام غزوات میں رسول اﷲ کے ہمراہ شریک ہوئے اور فتح مکہ کے موقع پر بنی ظفر کا جھنڈا انہی کے ہاتھوں میں تھا۔

سہیلی نے حضرت جابر بن عبداﷲ سے اس کو یوں روایت کیاہے:

  اصیبت عین رجل منا یوم احد وھو قتادة بن نعمان حتى وقعت على وجنته فاتینا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: ان لى امراة احبھا واخشى ان راتنى ان تقذرنى فاخذھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بیده وردھا الى موضعھا وقال: اللّٰھم اكسبه جمالا. فكانت احسن عینیه واحدھما نظرا وكانت لاترمد اذا رمدت الاخرى.64
  اُحد کے روز ہمارے ایک ساتھی حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ زخمی ہوگئی حتیٰ کہ آنکھ کا ڈھیلا آپ کے رخسار پر لٹکنے لگا۔ ہم آپ کو رسول اﷲ کی بارگاہ میں لے آئے۔ آپ نے عرض کی: مجھے اپنی زوجہ سے محبت ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ جب وہ مجھے ایک آنکھ کے بغیر دیکھے گی تو نفرت کرے گی۔ یہ سن کر رسول اﷲ نے آنکھ کا ڈھیلا اپنے دست اقدس سے پکڑ کر دوبارہ اپنے مقام پر رکھا اور دعا فرمائی: اے اﷲ !اسے حسن وجمال عطا فرما۔ (آپ کی اس دعا کی برکت سے) وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ روشن تھی۔ جب دوسری آنکھ کو آشوبِ چشم ہوتا تو یہ تندرست رہتی۔

اسی طرح حضرت ابو سعید خدری اپنے بھائی حضرت قتادہ بن نعمان سے روایت کرتے ہیں:

  اصیبت عیناى یوم بدر فسقطتا على وجنتى فاتیت بھما النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاعادھما مكانھما وبزق فیھما فعادتا تبرقان.65
  بدر کے روز میری آنکھیں باہر نکل گئی تھیں میں اسی حالت میں نبی کریم کے پاس حاضر ہوا آپ نے اپنا لعاب مبارک لگاکر انہیں اپنی جگہ رکھ دیا اس کے بعد وہ بالکل صحیح ہوگئی تھیں۔

امام بیہقی حضرت قتادہ بن نعمان سے ا س کو یوں روایت کرتے ہیں:

  رمیت بسھم یوم بدر ففقئت عینى فبصق فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ودعا لى فما اذانى منھا شى.66
  غزوہ بدر والے دن مجھے تیر لگا اور اس نے میری آنکھ پھوڑ کر شگاف کردیا، پھر سیدنا رسول اﷲ نے اس میں لعاب مبارک لگایا اور میرے لیے دعا فرمائی، لہٰذا اس میں سے کسی شئی نے مجھے تکلیف نہیں پہنچائی۔

امام ابویعلی نے جنگ ِ بدر کے دوران اس کے وقوع ہونے کا ذکرکیا ہے۔چنانچہ وہ روایت کرتے ہیں:

  عن قتادة بن النعمان انه اصیبت عینه یوم بدر فسالت حدقته على وجنته فارادوا ان یقطعوھا فسأل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: لا. فدعا به فغمز حدقته براحته فكان لا یدرى اى عینیه اصیبت.67
  حضرت نعمان بن قتادہ سے روایت ہے کہ غزوہ بدر میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی اور اس کا ڈھیلہ بہہ کر رخسار پر آگیا۔ لوگوں نے چاہا کہ اسے کاٹ کر الگ کردیں تو انہوں نے اس سلسلہ میں رسول کریم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: نہیں (ایسا نہ کرو) ۔پھر آپ نے حضرت قتادہ کو بلاکر اپنی ہتھیلی سے ان کی آنکھ کا ڈھیلا اس کی جگہ پر دبادیا تو انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی کونسی آنکھ میں زخم آیا تھا۔

امام ابن عبد البر اس واقعہ کا زمانہ و مقام بتاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  قال ابو عمر: الاصح وللّٰه اعلم ان عین قتادة اصیبت یوم أحد.68
  ابو عمر نے فرمایا: اللہ ہی بہترجانتا ہے درست یہ کہ جنگ اُحد میں حضرت قتادہ کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی۔

امام بیہقی نے اس پر باقاعدہ ایک باب باندھا ہے جس میں اس روایت کو ذکر کیا ہے۔چنانچہ آپ نے یوں باب باندھا:

  من وقوع عین قتادة بن النعمان على وجنته ورد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عینه الى مكانھا وعودھا الى حالھا.69
  قتادہ بن نعمان کی آنکھ کو اپنی جگہ درست کردینا اوراس کا اپنی اصلی حالت پرآجانا باوجودیکہ آنکھ کی پُتلی اس کے چہرے پر بہہ گئی تھی۔

اسی حوالہ سے عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت ہے:

  ان قتادة بن النعمان سقطت عینه على وجنته یوم احد فردھا رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فكانت احسن عینیه واحدھا.70
  حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ جنگ احد میں زخمی ہوگئی تو نبی کریم نے اسے واپس اٹھاکر رکھ دیا تو وہ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت ہوگئی۔

ٹھیک ہونے کے بعد اس آنکھ کی حالت کو امام واقدی یوں بیان فرماتے ہیں:

  وكان یقول بعد ان اسن: ھى وللّٰه اقوى عینى وكانت احسنھما.71
  حضرت قتادۃ اپنی عمر کے آخری حصہ میں فرمایا کرتے تھے : قسم بخدامیری دونو ں آنکھوں میں وہ آنکھ(جس کو رسول اکرم نے لعاب دہن سے ٹھیک کیا تھا) زیادہ قوی اور حسین ہے۔

ایک روایت میں اس طرح آتا ہے:

  فردھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاستوت ورجعت وكانت اقوى عینیه واصحھما بعد ان كبر.72
  پھررسول اللہ نے اس ڈھیلے کو اس کی جگہ لوٹا دیا جس کی وجہ سے وہ درست اور صحیح ہوکر اپنی جگہ لوٹ گئی اور دونوں آنکھوں میں سے یہ آنکھ زیادہ صحیح اور قوی ہوگئی تھی حالانکہ آپ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔

حضرت قتادۃ کی اولاد سے ایک شخص چند لوگوں کی معیت میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس حاضر ہوا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے جواباً یہ شعر کہے:

  أنا ابن الذى سالت على الخد عینه... فردت بكف المصطفى أیما رد فعادت كما كانت لأول أمرھا ... فیا حسن ما عین ویا حسن ما خد.73
  میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کی آنکھ اس کے رخسار پر بہہ گئی پھر محمد مصطفی کے دست اقدس کے ذریعے اسے اپنے اصلی مقام پر لوٹا دیا گیا۔جب وہ آنکھ اپنے مقام پر واپس آئی تو پہلے کی طرح صحیح و سالم تھی اور کیا ہی اس حسن وجمال کی شان تھی جو آپ کی آنکھ اور رخسار پر ظاہر ہوگیا۔

یہ شعر سن کر حضرت عمر بن عبد العزیز نےایک شعر کہاجس کا ترجمہ ہے کہ وہ خوبیاں کوئی ایسی نہ تھیں کہ دودھ کے دوبڑے پیالے ہوں جن میں پانی ملا ہوا ہو پھر وہ بعد میں پیشابوں کی شکل اختیار کرجائیں۔پھر حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا اور گراں قدر انعام سے نوازا۔74

متذکرہ بالا حوالہ جات سے واضح ہو اکہ مرض کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو بس اس کو رسول اکرم کے لعاب دہنِ اقدس سے لمس پانے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ صحت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اب انہی روایات کا بغور مطالعہ فرمائیں تو واضح ہوگا کہ ایک وہ آنکھ جو ظاہری طور پر بالکل ہی بہہ گئ ہے اور جس کے صحیح ہونے کا امکان تک ختم ہوگیا ہے اس کو رسول اکرم نے اپنے لعاب دہن لگا کر ایسا ٹھیک کیا کہ وہ بینائی اور حسن میں اس آنکھ سے بھی بڑھ گئی جو آنکھ پہلے سے ٹھیک اور اپنی اصلی حالت پر تھی ۔ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ لعاب دہن رب تبارک وتعالیٰ کے اس محبوبِ اکرم کا ہے جس کے منہ مبارک کی شان کو خود خالق کائنات قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے۔75

حضرت ابو ذر کی انکھ پر لعاب مبارک کااثر

سیدنا ابو ذر غفاری کا شمار مشہور صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنگ اُحد میں آپ کی بھی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اور حضور نے اپنے لعاب مبارک لگاکر اس کو ٹھیک کردیا تھا۔چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن حارث اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:

  اصیبت عین ابى ذر یوم احد فبزق فیھا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فكانت اصح عینیه.76
  غزوہ اُحد میں حضرت ابوذر غفاری کی آنکھ زخمی ہوگئی، تو نبی کریم نے اس میں لعاب دہن لگایا جس کی وجہ سے وہ دوسری آنکھ سے زیادہ صحیح ہوگئی۔(یعنی اس کی بینائی دوسری آنکھ کے مقابلے میں زیادہ تیز ہوگئی)

دنیا میں آنکھوں کی روشنی اور بینائی کے لیے استعمال ہونے والی ادویات صرف گرتی ہوئی بینائی کو روکنے کا کام کرتی ہیں ۔ آج تک کسی بھی ایسی دواء کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کے استعمال سے بینائی پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوگئی ہو سوائے اس کے کہ آنکھوں کی سرجری ہوجائے اور اس میں بھی اس بات کا امکان ہی رہتا ہے کہ آنکھ کی بینائی تیز ہو۔ واضح رہے کہ یہ لگی ہوئی آنکھ یا آنکھوں کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ نکلی ہوئی اور بھی پھٹ اور بہہ کر نکلی ہوئی آنکھوں کی بات ہورہی ہے جس کو لعاب مصطفیٰ کی برکت نصیب ہوتی تو وہ اپنی روشنی اور بینائی میں پہلے سے زیادہ تیز بلکہ ہمیشہ کے لیے صحت مند اور تندرست ہوگئیں۔

تیر لگی ہوئی انکش پر لعاب مبارک کا اثر

حضرت رافع بن مالک انصاری کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا اور خزرج میں سب سے پہلے اسلام آپ ہی لائے تھے۔ آپ جنگ بدر میں شریک ہوئے اور جنگ کے دوران آپ کی آنکھ زخمی ہوگئی جس پر حضور نبی کریم نے اپنا لعاب دہن مبارک لگایا اور وہ بالکل ٹھیک ہوگئی۔اسی حوالہ سے حضرت رافع بن مالک فرماتے ہیں:

  لما كان یوم بدر تجمع الناس على امیة بن خلف فاقبلت الیه فنظرت الى قطعة من درعه قد انقطعت من تحت ابطه فطعنته بالسیف فیھا طعنة فقتلته ورمیت بسھم یوم بدر ففقئت عینى فبصق فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ثم دعا لى فما آذانى فیھا شىء.77
  جنگ بدر کے دن کافی سارے لوگوں نے امیہ بن خلف کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔میں اس کی طرف متوجہ ہوا تومیں نے اس کی زرہ کو دیکھ لیا کہ اس کی بغل کے نیچے ایک جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ چنانچہ میں نے تلوار کا وہیں پر وار کیا اور اس کو قتل کر ڈالا۔پھر جنگ بدر میں میری آنکھ میں ایک تیر آکر لگا جس کی وجہ سے میری آنکھ ضائع ہوگئی۔ رسول اﷲ نے اس آنکھ میں اپنا لعاب دہن لگایا اور دعا فرمائی مجھے کسی قسم کا کوئی درد وغیرہ محسوس نہیں ہوا۔

حضور کا لعاب مبارک غذاء بھی ہے

بعض اوقات اہل بیت نبوی جب بھوک سے نڈھال ہوجاتے تو آپ سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین کے منہ میں لعاب دہن ڈالتے یا اپنی زبان ان کے منہ میں رکھ دیتے جس سے ان کی بھوک پیاس ختم ہوجاتی۔چنانچہ حضرت ابو جعفر سے روایت ہے :

  بینما الحسن مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذ اعطش فاشتد ظماه فطلب له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ماء فلم یجد فاعطاه لسانه فمصه حتى روى.79
  رسول اﷲ کے پاس حضرت امام حسن موجود تھے کہ انہیں پیاس لگی اور تشنگی بڑھتی رہی پانی اس وقت موجود نہ تھا چنانچہ حضور نبی کریم نے اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں دے دی انہوں نے اس کو چوسا حتیٰ کہ وہ سیراب ہوگئے اور تشنگی رفع ہوگئی۔

اسی طرح حضور نبی کریم کے غلام حضرت اسحاق بن ابی حبیبہ بیان کرتے ہیں:

  أن مروان بن الحكم أتى أبا ھریرة فى مرضه الذى مات فیه، فقال مروان لأبى ھریرة: ما وجدت علیك فى شىء منذ اصطحبنا إلا فى حبك الحسن والحسین. قال: فتحفز أبو ھریرة فجلس، فقال: أشھد لخرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، حتى إذا كنا ببعض الطریق سمع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صوت الحسن والحسین وھما یبكیان وھما مع أمھما، فأسرع السیر حتى أتاھما، فسمعته یقول لھا: ما شأن ابنى؟ فقالت: العطش. قال: فأخلف رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى شنة یبتغى فیھا ماء، وكان الماء یومئذ أغدارا، والناس یریدون الماء، فنادى: ھل أحد منكم معه ماء؟ فلم یبق أحد إلا أخلف بیده إلى كلابه یبتغى الماء فى شنة، فلم یجد أحد منھم قطرة، فقال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: ناولینى أحدھما. فناولته إیاه من تحت الخدر... فأخذه فضمه إلى صدره وھو یطغو ما یسكت، فأدلع له لسانه فجعل یمصه حتى ھدأ أو سكن، فلم أسمع له بكاء، والآخر یبكى كما ھو ما یسكت، فقال: ناولینى الآخر. فناولته إیاه ففعل به كذلك، فسكتا فما أسمع لھما صوتا، ثم قال: سیروا. فصدعنا یمینا وشمالا عن الظعائن حتى لقیناه على قارعة الطریق، فأنا لا أحب ھذین وقد رأیت ھذا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟.80
  مروان بن حکم، حضرت ابوہریرہ کے پاس اس بیماری میں آئے جس میں آپ نے وصال فرمایا۔ مروان نے حضرت ابوہریرہ سے کہا: جب سے ہماری ملاقات ہوئی ہے میں نےآپ کے پاس سوائے حسن اور حسین کی محبت کے کوئی شے نہیں پائی۔حضرت ابوہریرہ نے حرکت کی اور اس کے بعد بیٹھ گئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم رسول اﷲ کے ساتھ نکلےابھی ہم آدھے راستے میں تھے کہ نبی کریم نے امام حسن اور امام حسین کے رونے کی آواز سنی۔دونوں اپنی والدہ کے پاس تھےتوحضور تیزی سے چلے اور دونوں کے پاس آئے۔ میں نے آپ کوفرماتے ہوئے سنا: میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ حضر ت سیدہ نے عرض کی: ان کو پیاس لگی ہے۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: حضور ایک مشکیزہ کی طرف پانی تلاش کرنے کے لیے گئے اور ان دنوں پانی نہیں مل رہا تھااورلوگ بھی پانی چاہتے تھے۔ حضور نبی کریم نے بلند آوازسےفرمایا: کیا تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟ کسی کے پاس پانی نہیں تھاسوائے اس کے جو پیچھے چھوڑ آئے تھے،ان میں سے کسی سے پانی کا قطرہ تک نہ ملا۔ حضور نبی کریم نے فرمایا: ان دونوں میں سے ایک مجھے دو۔ حضرت سیدہ نے پردے کے نیچے سے آپ کو پکڑایا۔۔۔۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: آپ نے پکڑا اور سینے سے لگایا پھر بھی وہ خاموش نہیں ہورہے تھے۔ حضور نبی کریم نے اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں داخل کی اور وہ چوسنے لگے یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئےپھر میں نےان کے رونے کی آواز نہ سنی۔جب یہ خاموش ہوگیاتو دوسرا رونے لگاتو حضور نے فرمایا: دوسرا مجھے پکڑاؤ! حضرت سیدہ نے پکڑایا تو آپ نے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ دونوں خاموش ہوگئے اوردونوں کے رونے کی آواز نہ سنی پھر فرمایا: چلو! ہم آپ کی سواری کے دائیں اور بائیں جانب چلنے لگے یہاں تک کہ ہم آپ کو راستے کے آخر میں ملے۔ حضرت ابوہریرہ نے مروان سے کہا: میں ان دونوں سے محبت نہ کروں؟ جبکہ میں نے رسول اﷲ کو یہ کرتے دیکھا ہے۔

اسی طرح اس روایت کو محدث امام یوسف مزیٔ نے بھی روایت کیا ہے۔ 81

حضور کے لعاب مبارک سے شفایابی

رسول اکرم کے لعاب دہن کی کئی برکات ہیں جو بے شمار ہیں۔اسی برکت کے حوالہ سے حضرت جابر بن عبداﷲ ذکر کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں :

  خرجنا فى غزوة ذات الرقاع حتى اذا كنا بحرة واقم عرضت امراة بدویة بابن لھا فجاء ت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت: یا رسول اللّٰه ! ھذا ابنى قد غلبنى علیه الشیطان. فقال: ادنیه منى. فادنته منه. فقال: افتحى فمه. ففتحته فبصق فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ثم قال: اخسا عدو للّٰه وانا رسول اللّٰه . قالھا ثلاث مرات ثم قال: شانك بابنك لیس علیه باس فلن یعود الیه شىء مما كان یصیبه.82
  ہم غزوہ ذات الرقاع میں نکلے یہاں تک کہ جب ہم سخت گرمی میں تھے تو ایک بدوی عورت اپنے بیٹے کو لے کر ملی۔ وہ رسول کریم کی بارگاہ میں آئی اور عرض کی: اے اﷲ کے رسول ! یہ میرا بیٹا ہے اس پر شیطان کا غلبہ ہے۔آپ نے فرمایا: اس کو میرے قریب کر۔ اس نے آپ کے قریب کیا تو آپ نے فرمایا: اس کا منہ کھولو۔اس نے اس کا منہ کھولا رسول کریم نے اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا پھر فرمایا: اے اﷲ کے دشمن نکل جا! میں اﷲ کا رسول ہوں۔ آپ نے یہ کلمات تین بار کہےپھر فرمایا: تیرے بیٹے کے ساتھ تیرے کام کااس پر کوئی گناہ نہیں سو اس کو جو تکلیف پہنچ چکی وہ پہنچ چکی اب اس کی طرف سے کوئی چیز ہرگز نہ لوٹے گی۔

اسی طرح امام ابن ابی شیبہ نے اس روایت کوان الفاظ میں ذکر کیاہے:

  فعرضت لنا امراة معھا صبى لھا فقالت: یارسول اللّٰه! ان ابنى ھذا یاخذه الشیطان كل یوم مرارا. فوقف بھا ثم تناول الصبى فجعله بینه وبین مقدم الرحل ثم قال: اخسا عدو للّٰه انا رسول اللّٰه ثلاثا ثم دفعه الیھا.83
  ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ ہمارے سامنے آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ میرے اس بیٹے کو شیطان ہر روز کئی کئی بار پکڑلیتا ہے۔ بس حضور اس عورت کے پاس ٹھہر گئے اور بچے کو لے کر اپنے اور اپنے کجاوہ کے اگلے حصہ کے درمیان کرلیا پھر تین بار فرمایا: اے اللہ کے دشمن دور ہوجا میں اللہ کا رسول ہوں ۔ پھر اسے اس کی ماں کو لوٹا دیا۔

اس کو مزید تفصیل سے بیان کرتے ہوئےامام سیوطی روایت کرتے ہیں:

  واخرج البزار والطبرانى فى الاوسط وابو نعیم عن جابر قال: خرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى غزاة ذات الرقاع حتى اذا كنا بحرة واقم عرضت امراة بدویة بابن لھا فقالت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ! ھذا ابنى قد غلبنى علیه الشیطان ففتح فاه فبزق فیه وقال: اخس عدو للّٰه انا رسول اللّٰه ثلاثا ثم قال: شانك بابنك لن یعود الیه شىء مما كان یصیبه فلما رجعنا جاء ت المراة فسالھا عن ابنھا فقالت: ما اصابه شىء مما كان یصیبه.84
  امام بزار، امام طبرانی اور امام ابو نعیم رحمہم اﷲ نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ہم رسول اﷲ کے ہمراہ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے جب ہم حرہ اوراَقم کے مقام پر پہنچےتو ایک بدو عورت اپنا بچہ لیکر حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے اس بچے پر جن کا غلبہ ہے پس نبی کریم نے اس کا منہ کھول کر اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تین بار فرمایا: اے دشمن خدا! دور ہو میں اﷲ کا رسول ہوں۔ پھر فرمایا: اپنے بچے کو لے جاؤ اب وہ جن دوبارہ نہیں آئے گا۔ جب ہم جنگ سے لوٹےتو وہ عورت حاضر ہوئی،حضور نے اس عورت سے اس کے بچے کے متعلق دریافت فرمایا تو اس نے کہا : نبی کریم کے لعاب دہن لگانے کے بعد وہ جن دوبارہ نہیں آیا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت یعلی بن مرہ سےبھی مروی ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  ان امراةاتت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بابن لھا فقالت: ان ابنى ھذا قد اصابه لمم. فتفل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى فیه ثم قال: بسم للّٰه محمد رسول اللّٰه اخسا عدو للّٰه. قال: فلم یضره شىء بعد.85
  ایک صحابیہ رسول اﷲ کے پاس اپنے بیٹے کو لے کر آئیں انہوں نے کہا :میرے بیٹے کو جنون طاری ہوگیا ہے ۔آپ نے اس بچے کے منہ میں لعاب دہن ڈالا پھر یہ (کلمات ارشاد) فرمائے: اﷲ تعالیٰ کے نام سے محمد اللہ کے رسول ہیں اےاﷲ تعالیٰ کے دشمن دفع ہوجا۔ راوی فرماتے ہیں کہ: اس کے بعد اس بچے کو کسی چیز نے نقصان نہیں پہنچایا۔

اسی طرح امام حلبی فرماتے ہیں:

  وفى ھذه الغزوة جاء ته صلى اللّٰه عليه وسلم امراته بدویة بابن لھا فقالت: یا رسول اللّٰه! ھذا ابنى قد غلبنى علیه الشیطان. ففتح فاه فبزق فیه وقال: اخسا عدو للّٰه انا رسول اللّٰه. ثم قال صلى اللّٰه عليه وسلم : شانك بابنك لن یعود الیه شىء مما كان یصیبه اى فكان ذلك.86
  اسی غزوہ میں رسول اﷲ کے پاس ایک بدوی عورت اپنے بیٹے کو لے کر آئی اور کہنے لگی:یا رسول اﷲ! یہ میرا بیٹا ہے اس پر شیطان کا غلبہ ہے!حضور نے اس کا منہ کھولا اور اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا۔ پھر فرمایا: اے دشمن خدا! دور ہو میں اﷲ کا رسول ہوں۔پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا:تمہارا بیٹا ٹھیک ہوگیا اس کو جو کچھ روگ تھا اب کبھی نہیں ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

ان روایات سے معلوم ہواکہ رسول اکرم کا لعاب اقدس ہر بیماری کے لیے شفاء ہے خواہ وہ آسیب زدہ ہی کیوں نہ ہو۔

حضور کا لعاب مبارک حافظہ کا نسخہ اعظم

اس لعاب اقدس کی برکت کے حوالہ سےحضرت عثمان بن ابی العاص بیان کرتے ہیں:

  شكوت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سوء حفظى للقرآن قال ذلك شیطان یقال له: خنزب. ادن منى یا عثمان ثم تفل فى فمى فوضع یده على صدرى فوجدت بردھا بین كتفى. فقال: یا شیطان اخرج من صدر عثمان. قال: فما سمعت شیئا بعد ذلك الا حفظته.87
  میں نے نبی کریم سے اس بات کی شکایت کی کہ قرآن حکیم میرے سینے سے نکل جاتا ہے (یعنی یاد نہیں رہتا) تو آپ نے فرمایا :یہ شیطان ہے جسے خنزب کہتے ہیں۔ تم میرے قریب آؤ اے عثمان! پھر آپ نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور میرے سینے پر دست مبارک رکھ دیا ۔میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی پھرآپ نے فرمایا: اے شیطان عثمان کے سینے سے نکل جا ۔کہتے ہیں کہ پھر میں جو چیز بھی سنتا مجھے یاد رہتی۔

اسی طرح امام ابن ماجہ حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت کرتے ہیں:

  لما استعملنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على الطائف جعل یعرض لى شىء فى صلاتى حتى ما ادرى ما اصلى فلما رایت ذلك رحلت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: ابن ابى العاص؟ قلت: نعم یا رسول اللّٰه. قال: ماجاء بك؟ قلت: یا رسول اللّٰه! عرض لى شىء فى صلواتى حتى ما ادرى ما اصلى. قال: ذاك الشیطان ادنه فدنوت منه فجلست على صدور قدمى. قال: فضرب صدرى بیده وتفل فى فمى وقال: اخرج عدو للّٰه. ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال: الحق بعملك. قال: فقال عثمان: فلعمرى ما احسبه خالطنى بعد.88
  رسول اﷲ نے جب مجھے طائف کا گورنر بنایا تو میرے دل میں اس قسم کے خیالات آنے لگے کہ مجھے یہ بھی یاد نہ رہتا کہ کتنی نمازیں پڑھنی ہیں۔ جب میں نے یہ حالت دیکھی تو سفر کرکے حضور کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے مجھے دیکھ کر کہا :ابو العاص کے بیٹے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔آپ نے فرمایا: کیسےآناہوا؟ میں نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی تو آپ نے سن کر فرمایا:آگے آؤ۔میں ادب سے دو زانو سامنے بیٹھ گیا تو آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک رکھا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تین بار ارشاد فرمایا :اے اﷲ کے دشمن نکل جا۔ اس کے بعد فرمایا:اے عثمان اپنے کام پر جاؤ۔ حضرت عثمان کہتے ہیں: اﷲ کی قسم اس روز سے اس قسم کے شیطانی وسوسے میرے دل میں کبھی پیدا نہ ہوئے۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم کا لعاب دہن نہ صرف ظاہری امراض کے لیے شفاء کا اکسیر اعظم ہے بلکہ باطنی و نفسیاتی امراض کے لئے بھی ا س کا درجہ اکسیرِ اعظم ہی کا ہے۔

حضور کا لعاب مبارک نسخہ کیمیاء

جس طرح رسول اکرم کی ذات عالیہ تمام تر برکات و ثمرات کی جامع ہے اسی طرح آپ کا لعاب دہن بھی ہر طرح کے امراض کے لیے کلی شفاء ہے۔چنانچہ اس پر مزید روشنی درجِ ذیل روایت سے پڑتی ہے جس کو حضرت اسامہ بن زید روایت کرتے ہیں:چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

  خرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الى الحجة التى حجھا حتى اذا كنا ببطن الروحاء نظر الى امراة تومه فحبس راحلته فلما دنت منه قالت: یا رسول اللّٰه! ھذا ابنى والذى بعثك بالحق ما افاق من یوم ولدته الى یومه ھذا. قال: فاخذه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم منھا فوضعه فیما بین صدره وواسطة الرحل ثم تفل فى فیه وقال اخرج یا عدو للّٰه فانى رسول اللّٰه. قال: ثم ناولھا ایاه وقال: خذیه فلا باس علیه. قال اسامة: فلما قضى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حجته انصرف حتى اذا نزل بطن الروحاء اتته تلك المراة بشاة قد شوتھا فقالت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم! انا ام الصبى الذى لقیتك به فى مبتدئك. قال: وكیف ھو ؟قال: فقالت: والذى بعثك بالحق ما رابنى منه شیء بعد.89
  ہم لوگ رسول اﷲ کے ساتھ حج کے لئے نکلے جب آپ نے حج کیا تھا حتیٰ کہ جب ہم بطن وادی ورحاء میں پہنچے توآپ کو ایک عورت آتی ہوئی نظر آئی ۔ آپ نے اپنی سواری روک لی پھر جب وہ آپ کے قریب آئی تو بولی: یا رسول اﷲ ! یہ میرا بیٹا ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، جس دن سے میں نے اس کو جنم دیا ہے تب سےآج تک یہ صحیح طرح سے ہوش میں نہیں آیا۔ راوی کہتے ہیں : رسول اﷲ نے عورت سے اس کو لے لیا اور اس بچہ کو اپنے سینے اور پالان کے درمیانی لکڑی کے درمیان رکھ دیا۔ پھر آپ نے اس بچہ کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور آپ نے فرمایا: نکل جا اے اﷲ کے دشمن میں اﷲ کا رسول ہوں۔کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ نے وہ بچہ اس عورت کو دے دیا اور فرمایا: اس کو اب اس پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔حضرت اسامہ فرماتے ہیں: حضور جب اپنا حج پورا کرچکے تو لوٹ آئے حتیٰ کہ جب آپ وادی روحاء میں پہنچے تو وہ عورت ایک بھنی ہوئی بکری لے کر حضور کے پاس آئی اور بولی :یا رسول اﷲ! میں اس بچے کی ماں ہوں جو آپ کو شروع میں ملی تھی۔ آپ نے پوچھا کہ وہ بچہ کیسا ہے؟ اس نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے بعد تو مجھے اس کی بیماری (یا جن وغیرہ) کا شک بھی نہیں گزرا۔

حضور کے لعاب مبارک سے جنون کا خاتمہ

لعاب دہن اقدس کی اس برکت کے اظہارکے بارے میں حضرت اُم جندب فرماتی ہیں:

  رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عند جمرة العقبة راكبا ووراء ه رجل یستره من رمى الناس فقال: یا ایھا الناس لا یقتل بعضكم بعضا ومن رمى جمرة العقبة فلیرمھا بمثل حصى الخذف. قالت: ورایت بین اصابعه حجرا قالت: فرمى ورمى الناس. قالت: ثم انصرف فجاء ت امراة ومعھا ابن لھا به مس قالت: یا نبى للّٰه ابنى ھذا فامرھا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فدخلت بعض الاخبیة فجاء ت بتور من حجارة فیه ماء فاخذه بیده فمج فیه ودعا فیه واعاده فیه ثم امرھا. فقال: اسقیه واغسلیه فیه. قالت: فتبعتھا فقلت: ھیتى لى من ھذا الماء. فقالت: خذى منه فاخذت منه حفنة فسقیته ابنى عبدللّٰه فعاش فكان من بره ماشاء للّٰه ان یكون قالت: ولقیت المراة فزعمت ان ابنھا برى وانه غلام لا غلام خیر منه.90
  میں نے حضور نبی کریم کو جمرہ عقبہ پر دیکھا کہ آپ سواری پر سوار تھے اور ان کے پیچھے آدمی تھا جو ان کو چھپا رہا تھا لوگوں کی رمی سے۔حضور نے فرمایا تھا: اے لوگو! تم میں سےکوئی ایک دوسرے کو قتل نہ کرے اور جو شخص جمرہ عقبہ کی رمی کرے اس کو چاہئے کہ وہ ٹھیکری کی مثل چھوٹی کنکری سے کرے۔ کہتی ہیں: میں نے ان کی اُنگلیوں کے درمیان پتھر دیکھا۔مزید کہتی ہیں: حضور نے رمی کی پھر لوگوں نے بھی رمی کی پھر آپ لوٹ آئے۔ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا اس کو کوئی بیماری تھی (یا اس پر اثر تھا) اس نے کہا :یا رسول اﷲ میرا یہ بیٹا بیمار ہے۔ حضور نے اس کو حکم دیا تو وہ بعض خیموں میں سے ایک پتھر کا برتن لے آئی اور اس میں پانی لائی۔ حضور نے اس میں سے ہاتھ سے پانی لے کر کلی کرکے اس میں ڈال دی اور دعا کرکے وہ ہاتھ اس میں ڈال دئیے پھر اس سے کہا: اس کو پلائے اور اس سے نہلائے۔ کہتے ہیں: میں اس عورت کے پیچھے پیچھے گئی میں نے کہا: مجھے بھی اس میں سے تھوڑا سا پانی دیجئے۔ اس نے کہا : اس میں سے لےلو۔ میں نے اس میں سے لے لیا میں نے اپنے بیٹے عبداﷲ کو پلایا وہ زندہ رہا اور نیک بنا۔کہتی ہے :میں اس عورت سے ملی میں نے گمان کیا کہ اس کابیٹا صحت یاب ہوگیا اور وہ ایسا لڑکا بن گیا کہ اس سے بہتر کوئی نہیں تھا۔

ایک سال کے بعد بچہ کی کیاحالت ہوئی؟ اس حوالہ سے امام ابو نعیم کی روایت میں یوں ذکر ہے:

  قالت: فلقیت المراة من الحول فسالتھا عن الغلام، فقالت: برا وعقل عقلا لیس كعقول الناس.91
  حضرت اُم جندب فرماتی ہیں:میں ایک سال بعد اس عورت سے ملی اور بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا :اسے شفاء مل گئی اور وہ ایسا عقل مند اور دانا ہے کہ اس کی عقل عام لوگوں کی عقلوں کی طرح نہیں ہے۔

محمد بن یوسف صالحی کی روایت میں مزید جملہ یوں مذکور ہے:

  وعقل عقلا لیس كعقول الناس.92
  اور وہ ایسا عقل مند اور دانا ہے کہ اس کی عقل عام لوگوں کی عقلوں کی طرح نہیں ہے۔

یعنی کہ رسول اکرم کے لعاب دہن سے مریض صحت یاب تو ہوتا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ لعاب دہن کی برکات کی وجہ سے وہ جگہ اپنی قوّت و توانائی اور حسن میں بھی شدید تر ہوجاتی تھی جیساکہ ماقبل تمام روایات سےواضح ہوجاتا ہے۔

لعاب مبارک سے ناسور کا کامیاب علاج

رسول اکرم کی برکت کی وجہ سے آپ کالعابِ دہن اتنا با برکت ہوگیا تھاکہ آپ جس مقصد کے لیے استعمال فرمانا چاہتے تو فرمالیتے۔چنانچہ اسی برکت کو بیان کرتے ہوئے محمد بن ابراہیم سے مرسلاً روایت ہے:

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم اتى برجل برجله قرحة قد اعیت على الاطباء فوضع اصبعه على ریقه ثم رفع طرف الخنضر فوضع اصبعه على التراب ثم رفعھا فوضعھا على القرحة ثم قال:باسمك اللّٰهم ریق بعضنا بتربة ارضنا لیشفى سقیمنا باذن ربنا. باسمك اللّٰهم ریق بعضنا بتربة ارضنا لیشفى سقیمنا باذن ربنا.93
  نبی کریم کی خدمت اقدس میں ایک شخص لایا گیا جس کے پاؤں پر پھوڑا تھا اور اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے تھے ۔حضور نبی کریم نے چھنگلی پر لعاب دہن لگایا اور پھر اسے زمین پر رکھ کر اس کے پھوڑے پر رکھا اور یہ دعا ارشاد فرمائی: اے اللہ ! ہم میں سے بعض کے لعاب ، ہماری زمین کی مٹی کے ذریعے ہمارے بیماروں کو شفا ملے ہمارے رب کے حکم سے۔

امام ابن النجار ی کی روایت میں یوں مذکورہے:

  ثم وضع اصبعه التى تلى الابھام على التراب بعد ما مسھا بریقه.94
  پھر آپ نے انگوٹھے کے بعد والی (شہادت کی ) انگلی اپنے لعاب مبارک میں مس کرنے بعد مٹی پر رکھی۔

یعنی رسول اکرم نے اپنا لعاب دہن اپنی انگشتِ مبارک پر لگا کر اس پر مٹی لگائی اور پھر اس کو مریض کی مرض والی جگہ پر رکھا اور دعا فرمائی جس سے اس کا مرض ٹھیک ہوگیا۔

لعاب مبارک جلے ہوئے ہاتھ کا مرہم

حضور اکرم کا لعاب دہن جس زخم یا مرض پر لگتا اسے بالکل اسی طرح ٹھیک کردیتا جیسا کہ وہ پہلے صحیح و سالم تھا ۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت محمد بن حاطب فرماتے ہیں:

  وقعت على یدى القدر فاحترقت فانطلقت بى امى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فجعل یتفل علیھا ویقول :اذھب الباس رب الناس واحسبه قال: واشف انت الشافى.95
  میرے ہاتھ پر ہانڈی گری تو وہ جل گیا پھرمیری والدہ مجھے رسول اﷲ کے پاس لے آئیں تو آپ نے اس پر لعاب دہن لگایا اور یہ دعا پڑھی:اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما اور شفاء عطاء فرما کہ تو ہی شفاء دینے والا ہے۔

اسی طرح حضرت محمد بن حاطب کی والدہ حضرت اُم جمیل کہتی ہیں:

  اقبلت بك من ارض الحبشة حتى اذا كنت من المدینة على لیلة او لیلتین طبخت لك طبیخا ففنى الحطب فخرجت اطلبه فتناولت القدر فانكفات على ذراعك فاتیت بك النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقلت: بابى وامى یا رسول اللّٰه ھذا محمد بن حاطب فتفل فى فیك ومسح على راسك ودعا لك وجعل یتفل على یدیك ویقول: اذھب الناس رب الناس واشف انت الشافى لا شفاء الا شفاؤك شفاء لا یغادر سقما فقالت فما قمت بك من عنده حتى برات یدك.96
  ایک مرتبہ میں تمہیں (یعنی حضرت محمد بن حاطب کو) سرزمین حبشہ سے لے کر آرہی تھی۔جب میں مدینہ منورہ سے ایک یا دو راتوں کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے تمہارے لئے کھانا پکانا شروع کیااور اسی اثناء میں لکڑیاں ختم ہوگئیں۔ میں لکڑیوں کی تلاش میں نکلی تو تم نے ہانڈی پر ہاتھ مارا اور وہ اُلٹ کر تمہارے بازو پر گرگئی پھر میں تمہیں لے کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ محمد بن حاطب ہے ۔نبی کریم نے تمہارے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تمہارے سر پر ہاتھ پھیر کر تمہارے لئے دعاء فرمائی ۔نبی کریم تمہارے ہاتھ پر اپنا لعاب دہن ڈالتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرمااور شفاء عطاء فرما کہ تو ہی شفاء دینے والا ہے ا ورتیرے علاوہ کسی کی شفاء نہیں ہے، ایسی شفاء عطاء فرما جو بیماری کا نام ونشان بھی نہ چھوڑے ۔میں تمہیں نبی کریم کے پاس سے لے کر اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہوگیا۔

امام ابن حبان نے 97 اور امام بیہقی 98 نے بھی اس روایت کو یوں ہی ذکر کیا ہے۔

آپ کے لعاب مبارک سے رسولی کا فوری طور پر ختم ہوجانا

عموما ہوتا یہ ہے کہ مرض کسی دواء سے ختم تو ہوجاتا ہے لیکن اس کا نشان ختم نہیں ہوتا اور بعض دفعہ تو وہی نشان ایک بار پھر مرض کی شکل اختیا ر کرلیتا ہے۔لیکن آپ کا لعاب دہن جس مرض پر لگ جاتا تو وہ مرض ختم تو ہوتاہی تھا لیکن ساتھ ساتھ اس کا نشان بھی ایسا ختم ہوتا تھاکہ مریض خود اس جگہ کو دیکھ کر اندازہ نہیں لگا پاتا کہ ا س جگہ کبھی کوئی مرض بھی تھا۔رسول ِ اکرم کے لعابِ دہن کی اسی برکت کو حضرت شرحبیل جعفی یوں بیان فرماتے ہیں:

  اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وبكفى سلعة فقلت: یارسول اللّٰه ھذه السلعة قد آذتنى تحول بینى وبین قائم السیف ان اقبض علیه عنان الدابة. فقال: ادن منى.فدنوت منه. فقال لى: افتح كفك. ففتحتھا ثم قال: اقبضھا فقبضتھا ثم قال: ادن منى فدنوت منه فقال: افتحھا ففتحتھا فنفث فى كفى ووضع كفه على السلعة فما زال یطحنھا بكفه حتى رفعھا عنھا وما ادرى این اثرھا.99
  میں رسول اﷲ کے پاس آیا جب کہ میرے ہاتھ پر رسولی نکلی ہوئی تھی ۔میں نے کہا: یا رسول اﷲ ! یہ رسولی مجھے بہت تکلیف دے رہی ہے اس کی وجہ سے میں تلوار کا دستہ نہیں پکڑسکتا اورجانور کی باگ نہیں پکڑسکتا ۔فرمایا :میرے قریب آؤ۔میں آپ کے قریب ہوا فرمایا: ہاتھ کو کھولو ۔میں نے کھول دیا پھر فرمایا : بند کرو۔ میں نے بند کیا پھر کہا: میرے قریب ہو۔ میں قریب ہوا فرمایا: کھولو۔ میں نے کھولا آپ نے میری ہتھیلی میں دم کیا اورتھتکارا (جس سے آپ کا لعاب دہن قطرہ قطرہ ہوکراس پر گرا) اور آپ نے اپنی ہتھیلی رسولی پر رکھ لی اور اس کو ہتھیلی سے رگڑتے رہے۔ پھر آپ نے اپنی ہتھیلی اس کے اُوپر سے اُٹھالی میں نہیں جانتا کہ اس کا اثر کہاں تھا (گویا کہ رسولی کا نشان ہی باقی نہ رہا)۔

امام طبرانی کی روایت میں بھی اسی طرح ذکر ہے۔ 100 اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم نے رسولی والی جگہ پر لعاب دہن لگا کر اس پر اپنا ہاتھ بھی پھیرا یہاں تک کہ رسولی کا نام ونشان فورا بغیر کسی تاخیر کے ختم ہوگیا۔

آپ کے لعاب مبارک کا ایک مشرک پر اثر

مذکورہ بالا روایات پڑھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ لعابِ اقدس کی رحمتیں اور برکتیں صرف مسلمانوں کے لیے ہی خاص تھیں بلکہ اس کی برکات و ثمرات غیر مسلوں کے لیے بھی اسی طرح جاری تھی جس طرح ایک مسلمان کے لیے۔چنانچہ ملاعب الاسنہ نامی شخص کے پیٹ میں سخت درد رہتا تھا۔ اس نے ایک شخص کو نبی کریم کے پاس بغرضِ شفا بھیجا۔ حضور نے ایک ڈھیلا زمین سے لے کر اس پر تھوکا اور فرمایا کہ اس کو پانی میں گھول کر پلادو ۔جب اسے وہ پانی پلایا گیا تو فوراً صحت یاب ہوگیا۔ چنانچہ امام ابو نعیم اصفہانی بئرمعونہ کے واقعہ میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  وفى ھذه القصة قال: واقبل ابو براء سائرا وھو شیخ ھرم فبعث بابن اخیه لبید بن ربیعة بھدیة فرس فرده النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقال: لا اقبل ھدیة مشرک ولو قبلت لقبلت ھدیة ابى براء. فقال لبید: ما كنت اظن ان احدا من مضر یرد ھدیة ابى براء قال: قد بعث یستشفیك من وجع كانت به الدبیلة فتناول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حبوة من الارض اى مدرة فتفل فیھا ثم ناوله ایاھا فقال: دفھا بماء ثم اسقھا ایاہ ففعل فبرأ.101
  اسی قصہ بئر معونہ میں یہ بھی ہے کہ ابوبراء (عامر بن مالک ملاعب الاسنہ) جو کہ بہت بوڑھا تھا، چلتا ہوا آیا اور اپنے بھتیجے لبید بن ربیعہ کے ہاتھ نبی کریم کے پاس ایک گھوڑا بطور ہدیہ بھیجا ۔آپ نے اسے لوٹا دیا اور فرمایا: میں کسی مشرک کا ہدیہ نہیں لیتا اور اگر لیتا ہوتا تو ابوبراء کا ہدیہ ضرور لے لیتا۔ لبید نے کہا: میں یہ گمان نہیں کرسکتا کہ بنو مضر کا کوئی شخص ابوبراء کا ہدیہ لوٹادے پھر لبید نے آپ سے کہا: ابوبراء نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اپنے پیٹ (معدہ) کی تکلیف میں مبتلاء ہے اور آپ سے اس کی دواء چاہتا ہے ۔نبی کریم نے زمین سے مٹھی بھرخاک اٹھائی اور اس میں کچھ لعاب دہن ڈالا پھر اسے دیتے ہوئے فرمایا: اسے پانی میں ملانا اور اسے پانی پلادینا ۔اس نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہوگیا۔

اسی حوالہ سے امام سیوطی روایت کرتے ہیں:

  واخرج الواقدى وابو نعیم عن عروة انه ملاعب الاسنة ارسل الى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یستشفیه من وجع كان به الدبیلة فتناول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مدرة من الارض فتفل فیھا ثم ناولھا ایاه فقال دفھا بماء ثم اسقھا ایاه ففعل فبرا ویقال انه بعث الیه بعكة عسل فلم یزل یعلقھا حتى برأ.102
  امام واقدی اور امام ابو نعیم بحوالہ عروہ نقل کرتے ہیں کہ ملاعب الاسنہ نے نبی کریم کی خدمت میں درد سے شفا حاصل کرنے کے لئے پیغام بھیجاکیونکہ اسے پھوڑانکلاہوا تھا ۔آپ نے مٹی کا ایک ڈھیلا لیکر اس میں لعاب دہن ملایا پھر اس کے حوالے کردیا اور فرمایا: اس میں پانی ملاکر اسے پلاؤ۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا تو اسے درد سے نجات مل گئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ نبی کریم نے اس کی طرف شہد کی ایک کپی بھیجی جو اس نے پوری استعمال بھی نہ کی کہ اس کو شفا ہوگئی۔

اسی طرح احمد بن علی بن عبد القادر تقی الدین المقریزی بھی نقل کرتے ہیں:

  ارسل الى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یستشفیه من وجع كان به الدبیلة فتناول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مدرة من الارض فتفل فیھا ثم ناوله وقال: دفھا بماء ثم اسقھا ایاه ففعل فبرأ.103
  آپ نے مٹی کا ایک ڈھیلا لیکر اس میں لعاب دہن ملایا پھر اس کے حوالے کردیا اور فرمایا : اس میں پانی ملاکر اسے پلاؤ چنانچہ ایسے ہی کیا گیاتو اسے درد سے نجات مل گئی۔

اسی طرح اس روایت کوامام واقدینے بھی ذکر کیا ہے۔104 مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ لعاب مبارک میں خاص قسم کی تاثیر تھی اسی وجہ سے حضور نے اس کے پہنچانے کی یہ تدبیر کی کہ پہلےڈھیلے پر اپنا لعاب ڈالا وہ ڈھیلے میں جذب ہوگیا پھر وہ ڈھیلا پانی میں گھول کر پلایا گیا تو اس کی تاثیر یہ ہوئی کہ ایک مضر بیماری جاتی رہی۔

لعاب مبارک سے کچلی ہوئی پنڈلی کی فوری صحتیابی

اس حوالہ سے حضرت معاویہ بن الحکم سلمی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

  كنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فانزل اخى على بن الحكم فرسه خندقا فقصرت الفرس فدق جدار الخندق ساقه فاتینا به النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على فرسه فمسح ساقه فما نزل عنھا حتى برأقال معاویة بن الحكم فى قصیدة له:
فأنزلها علي وهي تهوي
هوي الدلو مقرعة لسدل
فقال محمد صلى عليه
مليك الناس هذا خير فعل
لعالك فاستمر بها سويا
وكانت بعد ذاك أصح رجل.105

  ہم رسول اﷲ کے ہم رکاب تھے میرے بھائی علی بن حکم نے اپنے گھوڑے کو خندق پر سے چھلانگ لگوائی مگر وہ کود نہ سکاتو خندق کی دیوار سے ان کی پنڈلی کچل گئی۔ ہم ان کو گھوڑے پر اٹھاکر نبی کریم کی خدمت میں لائےتو نبی کریم نے ا ن کی پنڈلی پر اپنا دست مبارک پھیراتو وہ گھوڑے سے اترنے سے پہلے ہی اچھے ہوگئے۔حضرت معاویہ بن حکم نے اس واقعہ کو اپنے قصیدے میں یوں بیان کیا ہے:

علی نے گھوڑے کو کدوایا تو وہ اس طرح گراجیسے بھرا ہوا ڈول گرتا ہے۔
فرمایا نبی کریم نے جوکہ لوگوں کے تاجدار ہیں یہ تو بہت اچھا فعل ہے۔

تم اپنے اس حسن عمل پرکار بند رہواور اس کے بعد ان کا یہ پاؤں دوسرے پاؤں سے زیادہ صحیح رہا۔
امام ابن عبد البر مالکیان اشعار میں یہ شعر بھی لکھتے ہیں:

  فعصب رجلہ فسما علیھا
سمو الصقر صادف یوم ظل.106
  آپ نے اس کے پاؤں کو پٹی باندھی تو وہ گھوڑے پر یوں چڑھا جیسے ابر آلود دن میں باز بلندی کی طرف اٹھتا ہے۔

اس مرض کی فورا شفایابی کے حوالہ سے امام بیہقی ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وما نزل عن فرسه فمسحھا وقال: بسم للّٰه فما آذاه منھا شىء.107
  ابھی گھوڑے سے نہیں اترا تھا حضور نے اس پر ہاتھ مبارک پھیر دیا اور پڑھا بسم اﷲ لہٰذا اس کو اس سے کوئی ایذاء باقی نہ رہی۔

اسی طرح امام ابو عبداﷲ محمد بن موسیٰ مراکشی فرماتے ہیں:

  وكذلك نفث على ساعد على بن الحكم یوم الخندق لما انكسرت فبرى مكانه وما نزل عن فرسه.108
  اور اسی طرح غزوہ خندق والے دن حضور نے حضرت علی بن حکم کی کلائی پر جب وہ ٹوٹ گئی تھی لعاب دہن مبارک لگایا تو فی الفور ٹھیک ہوگئی اور وہ گھوڑے سے بھی نہیں اترے تھے۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ لعاب دہن رسول اکرم سے ہر قسم کا مرض اور ہر قسم کا زخم ٹھیک ہوجاتا ہے۔

لعاب مبارک کا اونٹ پر فوری اثر

روایت میں آتا ہے کہ حضرت خلاد بن رافع اور ان کے بھائی حضرت رفاعہ ایک لاغر اونٹ پر سوار ہوکر بدر کی طرف روانہ ہوئے اور نیت یہ کی کہ اس کو وہاں پہنچ کر قربان کردیں گے۔راستہ میں رسول اکرم سے ملاقات ہوئی تو معاملہ عرض کیا۔چنانچہ روایت میں اس طرح منقول ہے:

  فلما انتھیا الى قرب الروحاء برك البعیر قال: فقلنا: اللّٰھم لك علینا ان انتھینا الى بدر ان ننحره فرآنا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: ما بالكما؟ فاخبرناه فنزل النبی صلى اللّٰه عليه وسلم فتوضا ثم بزق فى وضوئه ثم امرھما ففتحا فم البعیر فصب فى جوفه ثم على راسه ثم على عنقه ثم على غاربه ثم على سنامه ثم على عجزه ثم على ذنبه ثم قال: صلى اللّٰه عليه وسلم اللّٰھم احمل رفاعة وخلادا. فقمنا نرحل: فادركنا اول الركب فلما انتھینا الى بدر برك فنحرناه وتصدقنا بلحمه.109
  جب روحاء کے قریب پہنچے تو اونٹ بیٹھ گیا حضرت خلاد نے منت مانی کہ اگر ہم بدر تک پہنچ گئے تو اے اﷲ! ہم یہ اونٹ تیری رضا کے لئے قربان کردیں گے۔ نبی کریم نے ہمیں دیکھ کر فرمایا:تمہیں کیا معاملہ درپیش ہے؟ تو ہم نے آپ کو ساری صورتحال عرض کی پھر آپ سواری سے اتر آئے۔آپ نے وضو فرمایا پھر وضو کے پانی میں لعاب دہن ڈال کر انہیں حکم دیا (کہ وہ پانی اونٹ کے منہ میں ڈالیں) چنانچہ انہوں نے اونٹ کا منہ کھول کر پانی اس کے پیٹ تک پہنچایانیز اس کے سر اور گردن پر بھی ڈالا، پھر اس کی پیٹھ، کوہان اور پچھلے حصہ پر ڈالا۔ اس کے بعد نبی کریم نے یہ دعا فرمائی: اے اﷲ! خلاد اور رفاعہ کو اس اونٹ پر سوار ہونے کی توفیق عطا فرما۔بعد ازاں ہم نے کوچ کیا اور اس اونٹ کی سرعت رفتاری کے باعث کارواں کے پہلے حصے کو جالیا جب بدر پہنچے تو اونٹ بیٹھ گیا پس ہم نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کردیا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ بدر سے واپسی کے مقام پر اس اونٹ کو ذبح کیا۔اسی حوالہ سے امام واقدی فرماتے ہیں:

  فقلنا یا رسول اللّٰه !برك علینا فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بماء فتمضمض وتوضا فى اناء ثم قال: افتحا فاہ ففعلنا ثم صبه فى فیه ثم على راسه ثم على عنقه ثم على حاركه ثم على سنامه ثم على عجزه ثم على ذنبه ثم قال: اركبا. ومضى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فلحقناه اسفل المنصرف وان بكرنا لینفربنا حتى اذا كنا بالمصلى راجعین من بدر برك علینا.110
  پس ہم نے کہا: یا رسول اللہ ! ہمارا اونٹ بیٹھ گیا تو حضور نے پانی منگوایا اور برتن میں کلی کرکے وضو فرمایا پھر فرمایا: اس کا منہ کھولو اور ہم نے ایسا ہی کیا ۔پھرآپ ﷺنے اس کے منہ میں پانی ڈالا پھر اس کے سر پر پھر گردن پر پھر اس کی پیٹھ پر پھر کوہان پر پھر اس کے پچھلے حصہ پراور پھر اس کی دم پر پانی ڈالا پھر فرمایا :دونوں سوار ہوجاؤ۔ رسول اللہ روانہ ہوگئے پس ہم ان سے مضرف کے قریب جاملے ، جبکہ ہمارا جانور تیز دوڑنے لگا یہاں تک بدر سے واپس میں نماز کی جگہ پہنچے تو وہ بیٹھ گیا۔

لعابِ مبارک سے لکنت کی شفایابی

حضرت ابو الیمان بشیر بن عقربہ جہنی جن کے والد حضرت عقربہ جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تھےجیساکہ روایت میں ہے:

  وقتل ابوه عقربة مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.111
  حضرت بشیر کے والد حضرت عقربہ حضور کے ساتھ (جنگ اُحدمیں شامل تھے ) شہید ہوگئے تھے۔

آپ ہی وہ خوش نصیب صحابی ِرسول ہیں جن کو روتے ہوئے جب حضور نبی کریم نے دیکھا تو فرمایا:

  اما ترضى ان اكون انا ابوك وعائشة امك.112
  تمہیں پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ بنوں اور عائشہ تمہاری ماں ؟

امام بخاری نے بھی اس کو روایت کیا ہے ۔113 اس پر مزید روشنی اس روایت سے پڑتی ہے جسے حضرت بشیر بن عقربہ سے ابن عساکر نے نقل کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہیں:

  لما قتل ابى یوم احد اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وانا ابكى فقال: یا حبیب ما یبكیك اما ترضى ان اكون انا ابوك وعائشة امك؟ فمسح على راسى فكان اثر یده من راسى اسود وسائرہ ابیض وكانت بى رتة فتفل فیھا وقال لى: مااسمك؟ قلت: بحیر. قال: بل انت بشیر.114
  جب میرے والد جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تو میں روتا ہوا نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے فرمایا :تم کیوں رو رہے ہو ،کیا تمہیں پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ بنوں اور عائشہ ( ) تمہاری ماں؟ اس کے بعد رسول اﷲ نے میرے سر پر اپنا دست کرم پھیرا جس کا اثر یہ ہوا کہ میرے سر کے وہ بال سیاہ رہے جہاں نبی کریم نے دست مبارک رکھا تھا اور باقی بال سفید ہوگئے۔ میری زبان میں گرہ تھی تو نبی کریم نے اس پر اپنا لعاب دہن ڈالاجس سے گرہ کھل گئی نیز آپ نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: میرا نام بحیر ہے۔ فرمایا:بلکہ تمہارا نام بشیر ہے۔

امام علی بن حسام الدین ہندی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ 115 لعاب دہن کی تاثیر کے بارے میں خود حضرت بشیر فرماتے ہیں:

  فكانت فى لسان عقدة فنفث النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى فى فانحلت من لسانى.116
  میری زبان میں لکنت تھی حضور نبی کریم نے میرے منہ میں لعاب دہن مبارک ڈالا تو فوری طور پر میری زبان کی لکنت ختم ہوگئی۔

آپ کے لعاب مبارک سے حضرت بشیر کی جو گرہ کھل گئی یہ کوئی نئی بات نہ تھی اس قسم کی عقدہ کشائیاں ہمیشہ ہوا کرتی تھیں۔ آپ نے ان کا نام اس لیے بدل دیا کہ بحیر کے معنی بدی اور عیب کے ہیں اور آپ کو ایسا نام پسند نہ تھا جس کے معنی برے ہوں۔

لعاب مبارک کی گھٹی سےمالداری

حضرت عبداﷲ بن عامر بن کریز ہجرت کے چار سال کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بار ے میں امام حاکم لکھتے ہیں:

  استعمله عثمان بن عفان على البصرة وعزل ابا موسى الاشعرى فقال ابو موسى: قد اتاكم فتى من قریش كریم الامھات والعمات والخالات یقول: بالمال فیكم ھكذا وھكذا او كان كثیر المناقب وھو الذى افتتح خراسان واحرم من نیسابور شكراً اللّٰه تعالى وعمل السقایات بعرفة.117
  حضرت عثمان نے بصرہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو معزول کرکے ان کو وہاں کا عامل بنایا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے (اپنے معزولی کے حکم کے بعد) فرمایا تھا :اے لوگو! تمہارے پاس قریش کا ایسا جوان آیا ہے جس کا ننھیال اور ددھیال سب شرفاء ہیں۔ مال سے ان کو دلچسپی نہیں ہےاور بہت فضیلتوں کے مالک ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جس نے خراسان کو فتح کیا اور نیشاپور سے احرام باندھا اور عرفات میں حاجیوں کو پانی پلایا کرتاتھا۔

اسی حوالہ سے امام ابن سعد لکھتے ہیں:

  فلما كان عام عمرة القضاء سنة سبع وقد م رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مكة معتمراً حمل الیه ابن عامر وھو ابن ثلاث سنین فحنكه فتلمظ وتثاء ب فتفل رسول اللّٰه فى فیه وقال: ھذا ابن السلمیة؟ قالوا: نعم. قال: ھذا ابننا وھو اشبھكم بنا وھو مسقى. فلم یزل عبد للّٰه شریفا وكان سخیا كریما كثیر المال والولد.118
  7ہجری میں جب عمرہ قضاء ہوا اور رسول کریم عمرہ کے لیے تشریف لائے تو ابن عامر کو جو تین سال کے تھے آپ کے پاس لایا گیا ۔حضور نبی کریم نے کھجور چبا کر ان کے تالو میں لگادی انہوں نے زبان سے نکال کر اسے چاٹا اور اپنا منہ کھول دیا حضور نبی کریم نے اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں ڈال دیا اور فرمایا : یہ سلمیہ کا بیٹا ہے؟ لوگوں نے عرض کی: جی ہاں۔ فرمایا:یہ ہمارا بیٹا ہے اور تم سب سے زیادہ ہمارا مشابہ ہے اور وہ سیراب ہوگا۔ حضرت عبداﷲ ہمیشہ شریف رہے اور سخی،کریم اور بہت مال واولاد والے تھے۔

امام بیہقی نے تو ا س بات کو بیان کرنے کے لیے باقاعدہ یوں باب باندھا ہے:

  باب ماجاء فى تفله فى فم عبدللّٰه بن عامر بن كریز وما اصابه من بركته.
  باب حضور کا عبداﷲ بن عامر بن کریز کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالنا اور اس کو اس کی برکت پہنچنا۔

اس باب میں امام بیہقی نے ایک روایت ذکر کی ہے جس میں حضرت ابو عبیدہ نحوی بیان کرتے ہیں:

  ان عامر بن كریز اتى بابنه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو ابن خمس سنین او ست سنین فتفل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى فیه فجعل یزدرد ریق النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ویتلمظ فقال النبی صلى اللّٰه عليه وسلم: ان ابنك ھذا مسقى. قال: فكان یقال: لو ان عبدللّٰه قدح حجرا اماھه یعنى خرج من الحجر الماء من بركته.119
  حضرت عامر بن کریز اپنے بیٹے کو حضور نبی کریم کے پاس لے آیا جب وہ پانچ یا چھ سال کا تھا۔ حضور نبی کریم نے اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا ۔وہ نبی کریم کے منہ کے پانی کو پینے اور مزہ لینے یعنی چٹخارے لینے لگا تونبی کریم نے فرمایا :بے شک تیرا یہ بیٹا سیراب ہوگا ۔کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا اگر حضرت عبداﷲ بن عامر پتھر پر تیر مارتا تھا تو اس کو پگھلادیتا تھا یعنی پتھر میں سے پانی نکلتا تھااور یہ سب حضور کی برکت سےتھا۔

اسی طرح حضرت حنظلہ بن قیس بیان کرتے ہیں:

  ان عبدللّٰه بن عامر بن كریز اتى به النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو صغیر فقال: ھذا شبھنا وجعل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یتفل علیه ویعوذه فجعل عبدللّٰه یتسوع ریق رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم : انه لمسقى فكان لا یعالج ارضا الا ظھر له الماء.120
  حضرت عبداﷲ بن عامر بن کریز کو بچپن میں رسول اﷲ کی بارگاہ میں پیش کیا گیاتو آپ نے فرمایا :یہ تو ہمارے ہی جیسا ہے پھر رسول اﷲ نے اپنا لعاب دہن ان کے جسم پر مل کر دعا فرمائی۔ حضرت عبداﷲ نے رسول اﷲکا لعاب دہن مبارک نگل لیا نبی کریم نے فرمایا:یہ سیراب ہوگا چنانچہ وہ کسی بھی جگہ کھدائی کرتے، وہاں سے پانی نکل آتا۔

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا لعاب دہن نہ صرف مرض کی شفاء یابی کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے بلکہ آپ کا لعابِ مبارک باعثِ برکت ورحمت بھی ہے کہ جس کو اس سے حصہ نصیب ہوگیا اس کا مقام و مرتبہ معاشرہ میں کسی نہ کسی درجہ میں ممتاز و مشرف رہا۔

آپ کے لعاب مبارک سے بقرار ماں کو قرار

حضرت حارثہ بن سراقہ انصاری یہ انصار میں سے پہلے صحابی ہیں جو اُحد میں شہید ہوئے۔ چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے:

  ان حارثة ابن الربیع جاء نظارا یوم احد وكان غلاما فاصابه سھم غرب فوقع فى ثغرة نحره فقتله فجاء ت امه الربیع فقالت: یا رسول اللّٰه ! قد علمت مكان حارثة منی فان یكن من اھل الجنة فساصبر والا فسترى ما اصنع. قال: یا ام حارثة! انھا لیست بجنة واحدة ولكنھا جنان كثیرة وھو فى الفردوس الاعلى قالت: فساصبر.121
  حضرت حارثہ بن ربیع اُحد کے دن آئے، یہ ابھی کم سن تھے کہ ان کو گلے میں تیر لگا اور یہ شہید ہوگئے ۔حضرت حارثہ کی والدہ آئیں اورعرض کی: یا رسول اﷲ ! آپ حارثہ کا مقام مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اگر وہ جنتی ہے تو میں صبر کرتی ہوں اور اگر وہ جنتی نہیں تو پھر دیکھیے گا کہ میں کیا کرتی ہوں۔ حضور نبی کریم نے فرمایا: اے اُم حارثہ ! وہ ایک جنت میں نہیں بلکہ کئی جنتوں میں ہے اور وہ فردوس اعلیٰ میں ہے۔اس پر آپ کی والدہ نے کہاپھر تو میں صبر کرتی ہوں۔

اس پر روشنی ڈالتے ہوئے امام واقدی لکھتے ہیں:

  ودعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم باناء من ماء فغمس یده فیه ومضمض فاہ ثم ناول ام حارثة فشربت ثم ناولت ابنتھا فشربت ثم امرھمافنضحتا فى جیوبھما ففعلتا فرجعتا من عند النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وما بالمدینة امرأتان أقر أعینا منھما ولا أسر.122
  اس کے بعد حضور نبی کریم نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا۔ اس میں اپنا ہاتھ ڈبویا پھر کلی کرکے اس میں ڈالی اور وہ برتن ام حارثہ کے حوالے کیا۔ اس نے اس میں سے پی کر اپنی بیٹی کو دیا تو اس نے بھی پیا۔پھر انہیں حکم دیا کہ اس پانی کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی جب وہ رسول کریم کے پاس سے لوٹیں تو پورے مدینہ منورہ میں ان سے زیادہ کوئی ٹھنڈی آنکھ والی عورت نہ تھیں۔

لعاب مبارک کی برکت سے بے حیائی کا ازالہ

حضرت ابوامامہ سے مروی ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک خاتون تھی جس کا وطیرہ یہ تھا کہ جو منہ میں آتا کہہ دیتی تھی۔ حیا اس میں ذرہ بھر بھی نہ تھی اورلوگ اس سے تنگ تھے۔ایک دن وہ رحمت دو عالم کے پاس آئی اورآپ اس وقت خشک کیا ہوا گوشت تناول فرمارہے تھے۔اس نے کہا کہ آپ اس میں سے مجھے بھی کچھ دیں تو آپ نے اس میں سے اسے کچھ دیا مگر اس نے یہ کہتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کردیاکہ نہیں بس وہی لوں گی جو آپ کے منہ مبارک میں ہے۔آپ نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے اپنے مبارک منہ سے کچھ حصہ نکال کر اسے دیا جو اس نے کھالیا۔ اس کے شکم میں لعابِ مبارک جانے کی دیر تھی کہ اس کی کیفیت ہی بدل گئی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

  فلم یعلم من تلك المراة بعد ذلك الا مر الذى كانت علیه من البذاء والذرابة.123
  پس اس خاتون میں فحش گوئی اور بے حیائی کا کوئی نام و نشان تک نہ رہا۔

امام طبرانی نےبھی اس روایت کو اسی طرح نقل کیا ہے ۔124 اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت ابوامامہ نے بھی بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہیں :

  جاء ت امراة بذیئة اللسان الى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو یأكل قدیدا فقالت: الا تطعمنى؟ فناولھا مما بین یدیه فقالت: لا الا الذى فى فیك. فاخرجه فاعطاھا فالقته فى فمھا فأكلته فلم یعلم منھا بعد ذلك الامر الذى كانت علیه من البذاء والذرابة.125
  ایک فحش گو عورت حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئی اورآپ اس وقت خشک گوشت تناول فرمارہے تھےتو اس نے عرض کی: کیا آپ مجھے نہیں کھلائیں گے؟ آپ نے اسے اپنے سامنے سے عطا فرمایا۔ اس نے کہا: نہیں! مجھے وہ عطا فرمائیں جو آپکے منہ میں ہے۔ آپ نے اپنے منہ مبارک سے نکالا اور اسے عنایت فرمایا۔ اس نے اسے اپنے منہ میں ڈال لیا اور کھاگئی۔ اس کے بعد اس کی ساری بے حیائی اور فحش گوئی ختم ہوگئی۔

اس روایات سے بخوبی واضح ہوا کہ رسولِ اکرم کا لعابِ دہن نہ صرف ظاہری و باطنی امراض کے لیے شفاء بلکہ اس سے بڑھ کر یہ حیاء و پاکدامنی کے لیے بھی اکسیر تھا۔

حضرت عبداﷲ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر حضرت عبداﷲ بن عباس کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دیتے تھے حتیٰ کہ بزرگوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کو اپنے قریب بٹھاتے۔ایک روز حضرت عمر نے حضرت عبداﷲ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا:

  انى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم دعاك یوما فمسح راسک وتفل فى فیك فقال: اللّٰھم فقھه فى الدین وعلمه التاویل.126
  ایک دن میں نے دیکھا کہ رسالت مآب نے تجھے بلایا تیرے سر پر ہاتھ پھیرا اور تیرے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈال کر یہ دعا فرمائی: اے اﷲ اسے دین میں بصیرت اور تاویل کا علم عطا فرما۔

یہی وہ وقت تھا جس کے بعد سے عبداللہ ابن عبّاس کو قرآنی علوم کے ماہرین میں شامل کیا جانے لگا اور ان کا سینہ قرآن پاک کے لئے کھول دیا گیا۔رسول اکرم کا لعاب دہن نہ صرف امراض ظاہرہ وباطنہ کے لیے مفید ہے بلکہ معنوی لحاظ سے بھی انتہائی بابرکت و رحمت ہے۔جس کااندازہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی قرآن دانی سے بدرجہ اتم واضح ہوجاتا ہے۔

لعاب مبارک سے صحابی کے سر کی حفاظت

خیبر کا یہودی یسیر بن رزام جنگ کرنے کے لیے بنوغطفان کو جمع کرتا تھا ۔حضور نے حضرت عبداﷲ بن رواحہ کو ایک جماعت کے ساتھ اس کی طرف بھیجا۔ ان میں حضرت عبداﷲ بن انیس بھی تھے۔چنانچہ امام ابن ہشام فرماتے ہیں:

  وضربه الیسیر بمخرش فى یده من شوحط فأمَّه ومال كل رجل من اصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على صاحبه من یھود فقتله الا رجلا واحدا أفلت على رجلیه، فلما قدم عبد للّٰه بن انیس على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم تفل على شجته فلم تقحْ ولم تؤذه.127
  یسیر بن رزام نے شوحط کی ایک شاخ سے حضرت عبداﷲ بن انیسپر حملہ کردیا جو اس کے ہاتھ میں تھی اور آپ کے سر کو زخمی کردیا۔ صحابہ کرام یہودیوں پر پل پڑے اور انہیں قتل کردیا مگرایک آدمی پیدل ہی بھاگ گیا ۔جب حضرت عبداﷲ بن انیس رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے زخم پر لعاب دہن لگایا تو ان کے زخم میں نہ پیپ پڑی اور نہ ہی زخم نے انہیں کوئی تکلیف دی۔

اسی حوالہ سے امام ابو نعیم فرماتے ہیں:

  ولم یصب من المسلمین احد وقدموا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبصق فى شجة عبد للّٰه فلم تقح ولم تؤذه.128
  مسلمانوں میں سے کوئی بھی شہید نہ ہوا پھر یہ صحابہ کرام رسول اللہ کے پاس آئے اورآپ نے حضرت عبداﷲ بن انیس کے زخمی سر پر اپنا لعاب دہن لگایا تو نہ اس میں پیپ پڑی اور نہ درد والم کا احساس رہا۔ (زخم جلد درست ہوگیا)۔

امام بیہقی نے تو باقاعدہ اس پر یوں باب بھی باندھا ہے:

  باب ذكر سریة عبد للّٰه بن رواحة الى یسیر بن رزام الیھودى وما ظھر فى شجة عبد للّٰه بن انیس من الصحة ببركة بصاق النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیھا.
  عبداﷲ بن رواحہ کا یسیر بن رزام یہودی کی طرف سریہ کاذکر اور اس کی طرف سے حضرت عبداﷲ بن انیس کو زخمی کرنے پھر اس پر نبی کریم کے لعاب دہن لگانے سے برکت کا ظہورکے ذکر میں باب ۔

اور پھر اس باب میں ایک روایت ذکر کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں:

  عن ابن شھاب قال: بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عبد اللّٰه بن رواحة فى ثلاثین راكبا فیھم عبد للّٰه بن انیس السلمى الى الیسیر ابن رزام الیھودى حتى اتوہ بخیبر وبلغ رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم انه یجمع غطفان لیغزوه بھم فاتوہ فقالوا: ارسلنا الیك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لیستعمك على خیبر فلم یزالوا به حتى تبعھم فى ثلاثین رجلا مع كل رجل منھم ردیف من المسلمین فلما بلغوا قرقرةثبار وھى من خیبر على ستة امیال ندم الیسیر فاھوى بیده الى سیف عبد اللّٰه بن انیس ففطن له عبد اللّٰه فزجر بعیره ثم اقتحم یسوق بالقوم حتى اذا استمكن من الیسیر ضرب رجله فقطعھا واقتحم الیسیر وفى یده مخرش من شوحط فضرب به وجه عبد اللّٰه شجة مامومة كل رجل كل رجل من المسلمین على ردیفه فقتله غیر رجل واحد من الیھود اعجزھم شدا ولم یصب من المسلمین احد وقدموا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبصق فى شجة عبد اللّٰه بن انیس فلم تقح ولم توذه حتى مات.129
  امام ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں : رسول اﷲ نے عبداﷲ بن رواحہ کو یسیر بن رزام یہودی کی طرف تیس سواروں کے ساتھ بھیجا ان میں عبداﷲ بن انیس سلمی بھی تھے۔ یہ لوگ اس کے پاس خیبر میں آئے ۔ رسول اﷲ کو خبرملی تھی کہ وہ یہودی قبیلہ غطفان کو جمع کررہا ہے تاکہ وہ یہودی ان کے ساتھ مل کر رسول اﷲ سے جنگ کرے۔ یہ لوگ اس کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا :ہمیں تیرے پاس رسول اﷲ نے بھیجا ہے تاکہ تجھے خیبر پر عامل مقرر کردیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اس کے ساتھ اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ وہ ان کے تابع اور پیچھے ہولیا ۔تیس آدمیوں میں سے ہر آدمی کے ساتھ سواری پر ایک مسلمان پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔حتیٰ کہ جب وہ لوگ مقام قرقرہ ثبار پر پہنچےجو خیبر سے کچھ میل کے فاصلے پر تھا تویسیر نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ حضرت عبداﷲ بن انیس کی تلوار کی طرف جھکایا حضرت عبداﷲ نے سمجھ لیا۔ اس نے اپنے اونٹ کو جھڑکا اور سواروں میں گھس گیا حتی کہ جب اس کو موقع ملا اس نے تلوار مارکر یسیر کی ٹانگ کاٹ دی یسیر سواروں میں گھس گیا مگر اس کے ہاتھ میں ایک کھونٹی یا بیت تھا۔ اس نے اسے عبداﷲ کے منہ پر مارا جس سے اس کے سر میں گہرا زخم لگ گیا اس کے بعد شدید جنگ شروع ہوئی۔ ان مسلمانوں نے ان سب یہودیوں کو قتل کردیا جو ایک ایک کے پیچھے سوار تھے۔ صرف ایک آدمی یہودی بچ گیا مگر مسلمانوں میں کوئی ایک بھی قتل نہیں ہوا۔ یہ لوگ رسول اﷲ کے پاس لوٹ آئے تو رسول اﷲ نے حضرت عبداﷲ بن انیس کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا جس کی وجہ سے نہ زخم خراب ہوا اور نہ ہی اس کو ایذا ہوئی حتیٰ کہ اپنے وقت پر ہی ان کا انتقال ہوا۔

ان روایات سے واضح ہو ا کہ سر پر لگنے والا گہرا زخم لعاب دہن کی تاثیر اور اعجاز وکمال سے وہ فوراً اچھا ہوگیا۔

لعاب کی برکت نے روزہ دار بنا دیا

حضرت رُزینہ یہ حضور نبی کریم کی خادمہ تھیں اور حضور نبی کریم کی زوجہ حضرت صفیہ کی باندی تھیں۔چنانچہ امام ابو نعیم فرماتے ہیں:

  رزینة مولاة صفیة زوج النبى صلى اللّٰه عليه وسلم.130
  رزینہ نبی کریم کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ کی باندی ہیں۔

اسی حوالہ سے امام بیہقی باب باندھتے ہیں:

  باب ماجاء فى تفله فى افواہ المرتضعین یوم عاشوراء فتكفوا به الى اللیل
  حضور کا یوم عاشوراء میں شیرخواروں کے منہ میں لعاب دہن ڈالنا کہ وہ رات تک اسی پر رُکے رہتے تھے۔

اس میں ایک روایت کا ذکر کرتےہوئے آپ نقل فرماتے ہیں:

  عن امھا امیمة قالت: قلت لامة للّٰه بنت رزینة مولاة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: یا امة للّٰه! اسمعت امك رزینة تذكر انھا سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یذكر صوم یوم عاشوراء؟ قالت: نعم! كان یعظمه ویدعو برضعائه ورضعاء ابنته فاطمة ویتفل فى افواھھم ویقول للامھات لا ترضعنھن الى اللیل.131
  حضرت امیمہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے امۃ اﷲ بنت رزینہ حضور کی باندی سے کہا: اے امۃ اﷲ!کیا آپ نے اپنی ماں رزینہ سے ا س بارے میں کچھ سنا تھا کہ انہوں نے رسول اﷲ کو صوم یوم عاشوراء کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہو؟ وہ بولی: جی ہاں! حضور نبی کریم یوم عاشوراء کو عظمت دیتے تھے اور دودھ پیتےبچوں کو بلواکر ان کے منہ میں لعاب دہن ڈالتے اوران کی ماؤں سے کہتے تھے کہ ان کو رات تک دودھ نہ پلائیں۔

اسی کو امام ابو نعیم اس طرح روایت کرتے ہیں:

  فقلت لھا: اما سمعت من امك تذكر فى صوم عاشوراء اشیاء؟ فقالت: نعم! حدثتنى ام رزینة انھا سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یعظمه حتى ان كان لیدعو بصبیانه وصبیان فاطمة المراضیع فى ذلك الیوم فیتفل فى افواھھم ویقول لامھاتھم: لاترضعوھم الى اللیل.132
  پس میں نے ان سے کہا :کیا آپ نے اپنی والدہ سے عاشورہ کے روزہ کے بارے میں کوئی چیز سنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں! مجھے ام رزینہ نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ یوم عاشوراء کی تعظیم فرماتے تھے یہاں تک کہ اگر کسی کے بچے ہوتے تو بچوں سمیت انہیں بلاتے اور حضرت سیدہ فاطمہ کے بچوں کو بھی بلاتے جو ان دنوں میں دودھ پیتے تھے۔ آپ ان بچوں کے منہ میں لعاب دہن ڈالتے اور ان کی ماؤں سے فرماتے انہیں رات تک دودھ نہ پلائیں۔

امام ابن ابی عاصم شیبانی نے بھی اس روایت کو ذکرکیا ہے۔133 امام طبرانی کی روایت میں یوں منقول ہے:

  ویتفل فى افوافھم فكان ریقه یجزئھم.134
  ان بچوں کے دہنوں میں اپنا لعاب دہن ڈالتے اورحضور کا لعاب دہن ان کے لیےکافی ہوجاتا۔

اسی حوالہ سےامام سیوطی فرماتے ہیں:

  واخرج البیھقى وابو نعیم عن رزینة مولاة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم عاشوراء كان یدعو برضعائه ورضعاء ابنته فاطمة فیتفل فى افواھھم ویقول للامھات: لاترضعنھم الى اللیل فكان ریقه یجزیھم.135
  امام بیہقی اور ابو نعیم نے رسول اﷲ کی باندی رزینہ سے روایت کی کہ حضور نے یوم عاشوراء کو شیر خوار بچوں اور سیدہ فاطمہ کے بھی شیر خوار بچوں کو بلاتےاور ان کے دہنوں میں اپنا لعاب دہن ڈالتے اور ان کی ماؤں سے فرماتے: رات تک انہیں دودھ نہ پلانا پس حضور کا لعاب دہن ان کے لیےکافی ہوجاتا۔

متذکرہ بالا روایات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم کا لعاب دہن انسانی غذاء کے لیے بھی کافی و وافی ہے کہ جن بچوں کے منہ میں آپ اپنا لعاب ِدہن ڈالتے تو وہ رات تک دودھ کے لیے نہیں روتے تھے۔

آپ کے پاکیزہ لعاب نے بدبو کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا

رسول اکرم کا لعاب دہن انتہائی سرعت کے ساتھ اپنے اثرات کو اپنے سے لمس پانے والی اشیاء کی طرف منتقل کردیاکرتا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت عمیرہ بنت مسعود سے روایت ہے :

  دخلت على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ھى واخواتھا یبایعنه وھن خمس فوجدنه وھو یاكل قدیدا فمضع لھن قدیدة ثم ناولنى القدیدة فمضغتھا كل واحدة منھن قطعة فلقین للّٰه وما وجدن لافواھھن خلوفا.136
  وہ خود اور ان کی بہنیں رسول اﷲ کے پاس بیعت کے لئے حاضر ہوئیں جو پانچ بہنیں تھیں تو انہوں نے حضور نبی کریم کو قدید (سُکھایا ہوا گوشت) کھاتے پایا ۔آپ نے چپایا ہوا تھوڑا سا قدید آپ کو عنایت فرمایا تو(آپ فرماتی ہیں)ہم سب نے اس میں سے بانٹ کر کھالیا ۔اب بجز میرے وہ سب بہنیں اگرچہ وفات پاچکی ہیں پر کسی کے منہ میں کبھی بدبونہ پائی گئی۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم کا لعاب دہن جب کسی انسان کے منہ میں جانے کے بعد اپنا یہ اثر ظاہر کرے کے زندگی بھر کے لیے اس کے منہ سے بدبو ختم کردے تو خود سرورِ عالم حضور نبی اکرم کے منہ مبارک کا کیا عالم ہوگاجو اس لعاب دہن کا منبع و ماخذ ہیں اور جہاں یہ لعاب بنتا تھا۔

لعاب دہن کا اثر محمد بن ثابت پر

اس لعاب مبارک کے اُس اثر و برکت کو بیان کرنے کے لیے جس کا ظہور محمد بن ثابت بن قیس پر ہوا امام بیہقی نے یوں باب باندھا ہے:

  باب :ماجاء فى تحنیكه محمد بن ثابت بن قیس بن شماس وبزاقه فى فیه وما ظھر فى ذلك ببركته من الاثار.
  باب: حضور کا محمد بن ثابت بن قیس بن شماس کی تحنیک کرنا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالنا اور اس کی برکت کے آثار کا ظاہر ہونا۔

اور اس باب میں ایک روایت کو نقل کرتے ہوئے امام بیہقی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت محمد بن ثابت بیان کرتے ہیں:

  ان اباہ ثابت بن قیس فارق جمیلة بنت عبد اللّٰه بن ابى وھى حامل بمحمد فلما ولدته حلفت ان لا تلبنه من لبنھا فدعا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبزق فى فیه وحنكه بتمر عجوة وسماہ محمداً وقال: اختلف به فان اللّٰه رازقه فاتیته الیوم الاول والثانى والثالث فاذا امراة من العرب تسال عن ثابت ابن قیس فقلت لھا: ما تریدین منه؟ انا ثابت .فقالت: رایت فى منامى ھذه اللیلة كانى ارضع ابنا له یقال له :محمداً. فقال :فانا ثابت وھذا ابنى محمد. قال :واذا درعھا بنعصر من لبنھا.137
  ان کے والد حضرت ثابت بن قیس نے جمیلہ بنت عبداﷲ بن اُبی کو طلاق دے دی تھی اور وہ حاملہ تھی (محمد ان کے پیٹ میں تھے)۔ جب اس نےمحمد بن ثابت کو جنم دیا تو قسم کھائی کہ اس کو اپنادودھ نہیں پلائے گی۔ رسول اﷲ نے اس بچے کو منگواکر اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور عجوہ کھجور چبا کر اس کے تالو پر لگائی اور بچے کا نام محمد رکھا اور فرمایا :اس کے پاس آنا جانا رکھو بے شک اﷲ تعالیٰ اس کو رزق دینے والا ہے۔ لہٰذا میں آج پہلے دن اور دوسرے اور تیسرے دن اس کے پاس آیا۔ اچانک ایک عورت عرب میں پوچھتی پھر رہی تھی ثابت بن قیس کے بارے میں۔ میں نے اس عورت سے پوچھا : تم اس سے کیوں ملنا چاہتی ہو؟ میں ثابت ہوں۔ وہ بولی : میں نے آج رات خواب میں دیکھا گویا میں اس کے بیٹے کو دودھ پلارہی ہوں جس کا نام محمد ہے۔ انہوں نے بتایا : میں ہی ثابت ہوں اور یہ ہے میرا بیٹا محمد۔کہتے ہیں: یہ سنتے ہی اس عورت کی قمیص یا دوپٹے سے دودھ نچڑ کر ٹپکنے لگا۔

اس طرح امام حاکم نے بھی اس روایت کو بیان کرتے ہوئے یوں ذکر کیا ہے:

  فدعا به رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فبزق فى فیه وحنكه بتمر عجوة وسماه محمداً.138
  رسول اﷲ نے اس بچے کو منگواکر اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور عجوہ کھجور چپا کر اس کے تالو پر لگائی اور بچے کا نام محمد رکھا۔

حضور کا لعاب مبارک زخمی پنڈلی کا مرہم

حضرت سلمہ بن اکوع بہت انتہائی طاقتور تھے اور آپ کا شمار بہادر صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  وكان من الشجعان ویسبق الفرس عدوا وبایع النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عند الشجرة على الموت.139
  بہادروں میں آپ کا شمار ہوتا تھااور اپکی دوڑ کی رفتار اتنی تیز تھی کہ گھوڑے سے آگے نکل جاتے۔ نبی کریم کے ہاتھ پر درخت کے پاس جان قربان کرنےکی بیعت کی تھی۔

غزوہ خیبر میں آپ کی پنڈلی زخمی ہوگئی توآپ حضور کی بارگاہ میں آئے تو حضور نے تین مرتبہ لعاب دہن اس زخم پر لگایا تو آپ فی الفور ٹھیک ہوگئے۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت یزید بن ابوعبید بیان کرتے ہیں:

  رایت اثر ضربة فى ساق سلمة فقلت: یا ابا مسلم ما ھذه الضربة؟ فقال: ھذه ضربة اصابتنى یوم خیبر. فقال الناس: اصیب سلمة فاتیت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فنفث فیه ثلاث نفثات فما اشتكیتھا حتى الساعة.140
  میں نے حضرت سلمہ بن اکوع کی پنڈلی مبارک پر ضرب (چوٹ) کا نشان دیکھا تو میں نے کہا اے ابو سلمہ یہ چوٹ کیسی ہے؟ سیدنا سلمہ نے فرمایا: غزوہ خیبر میں یہ چوٹ مجھے لگی تھی، تو لوگوں نے کہا سلمہ زخمی ہوگیا ۔پھر میں حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ نے اس جگہ پر تین مرتبہ لعاب دہن لگایا اور اس دن سے ابھی تک مجھے اس میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔

امام بیہقی نے اس واقعہ کو درج ذیل باب میں بھی ذکر کیا ہے:

  باب ماجاء فى نفث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى جرح سلمة بن الاكوع یوم خیبر وبروہ ذلك.141
  نبی کریم کا سلمہ بن اکوع کے زخم پر (اپنا لعاب دہن) تُھتکارنا خیبر والے دن اور اس کا ٹھیک اور تندرست ہوجانا۔

صحابی کے جسم پرلعاب مبارک کا اثر

طبرانی میں حضرت عتبہ بن فرقد جنہوں نے حضرت فاروق اعظم کے عہد مبارک میں موصل کو فتح کیاتھا ان کے بارے میں ان کی اہلیہ ام عاصم سے مروی ہے کہ ہم عتبہ کی چار بیویاں تھیں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے خاوند کی خاطر ایک دوسری سے زیادہ اور اچھی خوشبو استعمال کرتیں۔ لیکن اس کے باوجود عتبہ کے جسم کی خوشبو ہماری خوشبو پر غالب رہتی اسی طرح جب عتبہ کسی محفل یااجتماع میں جاتے تو لوگ ان سے پوچھتے کہ آپ یہ خوشبو کہاں سے لاتے ہیں؟ ایسی خوشبو تو یہاں میسر نہیں۔ ایک دن ہم تمام خواتین نے ان سے پوچھا کہ ہم خوشبو لگانے میں مبالغہ سے کام لیتی ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کے جسم کی خوشبو بغیر خوشبولگائے اس پر غالب آجاتی ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟ اس پر حضرت عتبہ نے یہ واقعہ سنایا۔

  اخذنى الشرا على عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاتیته فشكوت ذلك الیه فامرنى ان اتجرد فتجردت وقعدت بین یده والقیت ثوبى على فرجى فنفث فى یده و مسح ظھرى وبطنى فعقب بى ھذا الطیب من یومئیذ.142
  میرے جسم پر رسالت مآب کی ظاہری حیات میں پھنسیاں نکل آئیں تو میں نے آپ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر ان کے بارے میں عرض کیا۔ آپ نے مجھے کپڑے اتارنے کا حکم دیا میں کپڑے اتارکر اور ستر ڈھانپ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۔آپ نے اپنے دست مبارک پر دم فرماکر میری پشت اور پیٹ پر پھیرا جس دن سے میرے آقا نے دست مبارک پھیرا ہے اسی دن سے میرا جسم اس عمدہ خوشبو سے لبریز رہتا ہے۔

یہاں مقصود ان کی پھنسیوں کا علاج تھا مگر آپ کے لعاب اقدس نے ان کے جسم پر ایسا اثر کیا کہ نہ صرف ان کو پھنسیوں اور بیماری سے نجات ملی بلکہ جسم کو ہمیشہ کے لیے خوشبودار بنادیا ۔حالانکہ اعلیٰ سے اعلیٰ خوشبو بھی استعمال کرنے سے اس کا اثر دوچار روز باقی رہتا ہے اس کے بعد اس کا ازالہ ہوجاتا ہے مگر لعاب دہن مصطفویٰ کی تاثیر دیکھئے کہ اس نے جسم کو ہمیشہ کے لیے معطر کردیا۔

آپ کا لعاب مبارک باعث برکت

رسول اکرم کا لعاب دہن ہر اس برکت و فائدہ کے لیے کارگر اور مفید تھا جس کے لیے رسول اکرم اس کو استعمال کرنے کا ارادہ فرماتے۔جیسا کہ ما قبل میں مختلف نوعیتوں کی کئی ایک روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں۔اسی طرح جب یہ لعاب دہن کھانے کی اشیاء میں ملایا جاتا تو وہ بابرکت ہوجاتیں۔چنانچہ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں:

  لما حفر الخندق رایت بالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم خمصا شدیدا فانكفات الى امراتى فقلت: ھل عندك شیء ؟فانى رایت برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خمصا شدیدا. فاخرجت الى جرابا فیه صاع من شعیر ولنا بھیمة داجن فذبحتھا وطحنت الشعیر ففرغت الى فراغى وقطعتھا فى برمتھا ثم ولیت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت:لاتفضحنى برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وبمن معه فجئته فساررته فقلت: یا رسول اللّٰه! ذبحنا بھیمة لنا وطحنا صاعا من شعیر كان عندنا فتعال انت ونفر معك. فصاح النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: یا اھل الخندق! ان جابرا قد صنع سورا فحى ھلا بكم. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لا تنزلن برمتكم ولا تخبزن عجینكم حتى اجىء. فجئت وجاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یقدم الناس حتى جئت امراتى. فقالت: بك وبك. فقلت: قد فعلت الذى قلت فاخرجت له عجینا فبصق فیه وبارك ثم عمد الى برمتنا فبصق وبارك ثم قال: ادع خابزة فلتخبز معك واقدحی من برمتكم ولا تنزلوھا وھم الف فاقسم باللّٰه لقد اكلوا حتى تركوه وانحرفوا وان برمتنا لتغط كما ھى وان عیننا لیخبز كما ھو.143
  جب خندق کھودی گئی تومیں نے نبی کریم میں شدید بھوک دیکھی۔ میں اپنی بیوی کےپاس آیااور اس سے کہا :کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اﷲ میں شدید بھوک کا اثر دیکھا ہے۔ پس اس نے میری طرف اپنا تھیلا نکالا جس میں ایک صاع (چار کلو گرام) جَو تھے اور ہمارے پاس ایک بکری کا بچہ تھا۔ سو میں نے اس کو ذبح کیا اور (میری بیوی نے) جَو کو پیسا۔پھر میری بیوی بکری کے بچے کو ذبح کرتے ہوئے جَو پیس کر فارغ ہوگئی اور میں نے گوشت کے ٹکڑے کرکے اس کو دیگچی میں ڈالا۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا: مجھے رسول اﷲ اور آپ کے اصحاب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا۔ سو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور چپکے سے کہا: یا رسول اﷲ ! میں نے اپنے بکری کے بچہ کو ذبح کیا ہے اور ہم نے ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔سو آپ تشریف لائیں اور چند اصحاب آپ کے ساتھ ہوں۔ تب نبی کریم نے بلند آواز سے فرمایا: اے اہل خندق! جابر نے تمہارے لیے کچھ تیار کیا ہے۔ سوتم آؤ! پھر رسول اﷲ نے فرمایا: تم دیگچی کو (چولہےسے) نہ اتارنا اور نہ روٹی پکانا شروع کرنا حتیٰ کہ میں پہنچ جاؤں۔ پھر میں آیا اور رسول اﷲ بھی لوگوں کے ساتھ آگئے حتیٰ کہ میں اپنی بیوی کے پاس آیاتو اس نے کہا: اﷲ تمہارے ساتھ بُرا کرے! (تم اتنے لوگوں کو لے کر آگئے اور کھانا تھوڑا ہے!) میں نے بتایا کہ میں نے وہی کیا تھا جو تم نے کہا تھا۔ میری بیوی آپ کے سامنے گوندھا ہوا آٹا لائی آپ نے اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور برکت کی دعا کی۔ پھر آپ نے ہماری دیگچی کا قصد کیا اور اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور برکت کی دعا کی۔پھر فرمایا: روٹی پکانے والی کو بلاؤ جو تمہارے ساتھ روٹیاں پکائے اور اپنی دیگچی سے پیالہ میں سالن ڈالو اور دیگچی کو چولہے سے نہ اتارنا۔ وہ (اہل خندق) ایک ہزار تھے پس میں اﷲ کی قسم کھاکر بتاتا ہوں کہ ان سب نے کھانا کھالیا حتیٰ کہ بچادیا اور وہ واپس چلے گئے اور ہماری دیگچی میں سالن پہلے کی طرح اُبل رہا تھا اور ہمارے گوندھے ہوئے آٹے سے اسی طرح روٹیاں پک رہی تھیں۔

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ آٹے اور سالن میں جب حضور اکرم نے اپنا لعاب مبارک ڈالا تو قلیل مقدار میں ہونے کے باوجود کھانا بہت زیادہ لوگوں کے لیے کافی ہوگیا اور چند آدمیوں کا کھانا ایک ہزار آدمیوں نے کھایا لیکن پھر بھی کھانا بچ گیا۔جہاں یہ واضح ہوا وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ کی نبوت کی نشانی بھی تھی۔

آپ کے لعاب مبارک سے سخت چٹان کا نرم ہوجانا

لعاب دہن کی برکت و ثمرات کا اندازہ لگانا واقعی ایک مشکل امر ہے۔لعاب دہن کثیر الفوائد ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب خصوصیات کا بھی حامل ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحاق بیان کرتے ہیں:

  وكان فى حفر الخندق احادیث بلغتنى فیھا من اللّٰه تعالى عبرة فى تصدیق رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتحقیق نبوته عاین ذلك المسلمون.فكان مما بلغنى ان جابر بن عبد اللّٰه كان یحدث انه اشتدت علیھم فى بعض الخندق كدیة فشکوھا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فدعا باناء من ماء فتفل فیه ثم دعا بماء شاءاللّٰه ان یدعو به ثم نضح ذلك الماء على تلك الكدیة فیقول من حضرھا: فوالذى بعثه بالحق نبیا لا نھالت حتى عادت كالكثیب ما ترد فاسا ولا مسحاة.144
  خندق کی کھدائی کے متعلق مجھ تک ایسے واقعات پہنچے ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رسول اﷲ کی تصدیق اور آپ کی نبوت کی حقانیت کا ثبوت ہے اورمسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا۔(اس خندق کے حوالے سے مجھے جو کچھ پہنچا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ) سیدنا جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں : خندق کھودنے کے دوران ایک سخت چٹان آگئی اور اس کو توڑنا صحابہ کرام کے لئے بہت مشکل ہوگیا تو صحابہ کرام نے حضور نبی کریم کی بارگاہ میں اس کےمتعلق عرض کی۔ پس حضور نبی کریم نے پانی کا ایک برتن منگوایا پھر اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا پھر جتنا اﷲ تعالیٰ نے چاہا دعا فرمائی۔ پھر اس پانی مبارک کو اس سخت چٹان پر ڈال دیا۔وہاں موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا :اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا وہ چٹان سراب کی طرح ہوگئی اور ریت کے ٹیلے کی طرح بہہ گئی، نہ کلہاڑی چلانی پڑی اور نہ بیلچہ اور کدال مارنی پڑی۔

امام بیہقی نے بھی اس روایت کو امام ابن اسحاق کے حوالے سے بیان کیاہے۔ 145حضرت داؤد کا یہ معجزہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں لوہے کو موم کردیا تھا۔جیساکہ باری تعالی کا ارشاد مقدس ہے:

  وَاَلَنَّا لَه الْحَدِیدَ10146
  اور ہم نے اُن کے لئے لوہا نرم کر دیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے لعاب میں یہ تاثیر رکھدی کہ انتہائی مضبوط ترین چٹان کو آپ کے لعاب دہن کے ذریعہ پگھلادیا۔

آپ کے لعاب کی دشمنوں پر ہیبت

آپ کے لعاب مبارک میں وہ روحانی اثر تھا کہ اس کی برکت سے تمام شیطانی اثرات ختم ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ دشمن بھی اس لعاب مبارک سے ڈرتے تھے۔چنانچہ امام ابن اسحاق بیان کرتے ہیں:

  یلقى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة فیقول: یا محمد !ان عندى العوذ فرسا اعلفه كل یوم فرقا من ذرة اقتلك علیه. فیقول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : بل انا اقتلك ان شاء اللّٰه. فلما رجع الى قریش وقد خدشه فى عنقه خدشا غیر كبیر فاحتقن الدم. قال: قتلنى واللّٰه محمد. قالواله: ذھب واللّٰه فؤادك واللّٰه ان بك من باس. قال: انه قد كان قال لى بمكة: انا اقتلك، فوللّٰه لو بصق على لقتلنى. فمات عدواللّٰه بسرف وھم قافلون به الى مكة.147
  ابی بن خلف جب مکہ میں رسول اﷲ سے ملتا تو کہا کرتا: اے محمد ( ) میرے پاس ایک عود نامی گھوڑا ہے جسے میں روزانہ ایک فرق (تین صاع) مکئی کے دانے کھلاتا ہوں۔میں اس پر سوار ہوکر (معاذ اللہ)تمہیں قتل کروں گا۔ اس کی یہ بڑائی سن کر حضور فرماتے: تو نہیں بلکہ میں تجھے موت کے گھاٹ اتاردوں گا ان شاء اﷲ۔ چنانچہ (اُحد میں حضور کے ہاتھوں) یہ بدبخت زخمی ہوکر قریش کی طرف لوٹا تو بظاہر اس کی گردن پر ایک معمولی سی خراش آئی تھی جس کا خون بھی رک گیا تھا لیکن اس نے قریش سے کہا: قسم بخدا! مجھے محمد ( ) نے قتل کردیا ہے۔ لوگ اسے کہنے لگے: بخدا! تم نے ہمت ہاردی ہے تجھے کوئی زخم تو لگانہیں بس معمولی سی خراش آئی ہے۔ وہ کہنے لگا: انہوں نے مجھے مکہ میں کہا تھا: میں تجھے قتل کروں گا۔ اس لئے خدا کی قسم!اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو وہ تھوک ہی مجھے ہلاک کردیتا۔چنانچہ کفار قریش کا لشکر مکہ واپس آرہا تھا تو سرف کے مقام پر اس دشمن خدا کی موت واقع ہوئی۔

لعاب رسول سے معذور ہاتھ کی فوری شفایابی

حضرت جرھد الاسلمی اہل صفہ میں شامل تھے اور مدینہ منورہ میں یزید کی حکومت کے آخری ایام میں وفات پائی۔آپ سے ہی یہ روایت مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو حضور نبی کریم کے سامنے کھانا رکھا تھا ۔آپ نے مجھ سے فرمایا:

  یا جرھدكل فمد یده الشمال لیاكل وكانت الیمین مصابة فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: كل بالید الیمنى. فقال: انھا مصابة فنفث علیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فما اشتكیتھا بعد حتى مات.148
  اے جُرھد کھانا کھاؤ۔ تو آپ نے اپنا بایاں ہاتھ کھانے کے لئے بڑھایا کیونکہ دایاں ہاتھ زخمی تھا تو حضور نے ارشاد فرمایا:دائیں ہاتھ سے کھاؤ آپ نے عرض کی وہ زخمی ہے۔ حضور نے اس پر لعاب اقدس لگایا اس کے بعد وصال تک مجھے تکلیف نہیں ہوئی۔

اسی طرح اس لعاب مبارک کے اثر و برکت کو بیان کرتے ہوئےحضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں:

  عوذنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بفاتحة الكتاب تفلا.149
  سیدنا رسول اﷲ نے سورہ فاتحہ شریف پڑھ کر لعاب دہن لگاکر مجھے اﷲ تعالیٰ کی پناہ میں دیا۔

لعاب رسول سے متبرک کنویں

جن کنوؤں کو رسول اﷲ نے مشرف اور متبرک فرمایا ان کی تعداد بہت ہے۔ جن میں سے سات اس وقت بھی موجود ہیں ۔ یہ وہ مقدس کنوئیں ہیں جنہیں یہ شرف ملا ہے کہ حضور ان پر تشریف لے گئے،وضو فرمایا، لعاب ِدہن ڈالا اور اس کا پانی پیا۔

بیر بضاعہ :یہ کنواں مدینہ منورہ کے شامی باب کے نزدیک واقع ہے۔ جب کوئی سیدنا حمزہ بن مطلب کے مزار کے راستے پر چلے تو چلنے والے کے داہنی جانب واقع ہوگا۔ حضور نبی کریم بیر بضاعہ پر آئے اور ایک ڈول پانی طلب فرماکر وضو کیا اوربقیہ پانی مع لعابِ دہن مبارک کنوئیں میں ڈال دیا۔ جس دن سےاس کنویں میں نبی اکرم نے اپنا لعاب دہن ڈلا تھا اس دن سے وہ پانی شفا بخش ہوگیا تھا ۔چنانچہ امام رویانی لکھتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں:

  وان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم برك فى بئر بضاعة وبصق فیه.150
  بے شک نبی نے بضاعۃ کے کنویں کو بابرکت بنایا اور اس میں لعاب مبارک ڈالا۔

حضرت مروان بن ابی سعید المعلی سے روایت ہے :

  وبصق فیھا وبرك.151
  حضور نبی کریم نےبئر بضاعۃ میں لعاب مبارک ڈالا اوراسےبابرکت بنایا۔

حضرت سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم نزل فى بٔر بضاعة وبصق فیھا.
  حضور نبی کریم بئر بضاعۃ میں اترے اور اس میں لعاب دہن ڈالا۔

حضرت ابو اسید الساعدی سے روایت ہے :

  انه له بئرا بالمدینمة یقال لھا بئر بضاعة قد بصق فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فھى یتبرك بھا ویتیمن بھا.153
  مدینہ طیبہ میں ان کا ایک کنواں تھا جسے بئربضاعۃ کہا جاتا تھا آ پ نے اس میں لعاب دہن ڈالا تھا جس کی وجہ سے یہ سراپا برکت بن گیا تھا ،اس سے برکت حاصل کی جاتی تھی۔

صحابہ کرام میں جب کوئی بیمار ہوتا تو اس کو اس پانی سے غسل دیا جاتا تو شفا یاب ہوجاتا تھا۔چنانچہ حضرت عباس بن سہل ساعدی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

  سمعت عدة من اصحاب النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیھم ابو اسید وابو حمید وابى سھل بن سعد یقولون: اتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بئر بضاعة فتوضا فى الدلو وردہ فى البئر ومج فى الدلو مرة اخرى وبصق فیھا وشرب من مائھا وكان اذا مرض المریض فى عھده صلى اللّٰه عليه وسلم یقول: اغسلوہ من ماء بضاعة فیغسل فكانما حل من عقال.154
  رسول اﷲ بضاعہ کے کنوئیں پر آئے اور ایک ڈول میں وضو فرماکر کنوئیں میں ڈال دیا دوسری بار ڈول میں کلی فرمائی اور لعاب دہن ڈالا اور اس میں سے پانی پیا آپ کے عہد مبارک میں جب کوئی بیمار ہوتا تو فرماتے : اس کو بضاعہ کے پانی سے غسل دے دو۔پس اسے غسل دیا جاتا تو یوں معلوم ہوتا گویا اس کی (بیماری کی) رسی کھول دی گئی ہے۔

اسی طرح اس حوالہ سے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق بیان کرتی ہیں کہ:

  كنا نغسل المرضى من بئر بضاعة ثلاثة ایام فیعافون.156
  ہم بیماروں کو بئربضاعۃکے پانی سے مسلسل تین دن نہلاتے تو اﷲ کے فضل وکرم سے بیمار صحت یاب ہوجاتے۔

آپ کے لعاب مبارک سے کنویں کے پانی میں خوشبو کا پیدا ہوجانا

نبی اکرم جن کنوؤں میں لعاب ِمبارک ڈالتے تو ان میں آپ کے لعاب اقدس کی وجہ سے مہک پیدا ہوجاتی ۔ چنانچہ اس حوالہ سے حضرت وائل بن حجر بیان کرتے ہیں:

  اتى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بدلو من ماء فشرب من الدلو ثم مج فى الدلو ثم صب فى البئر ا و شرب من الدلو ثم مج فى البئر ففاح منھا مثل ریح المسك.157
  حضور نبی کریم کے پاس پانی کا ایک ڈول لایا گیا آپ نے اس ڈول سے پانی پیا اس کے بعد آپ نے ڈول میں کلی ڈال دی پھر اس کو کنویں میں انڈیل دیا یا یوں کہا : ڈول سے آپ نے پانی پیا پھر کلی کنوئیں میں ڈال دی لہٰذا اس کنویں سے ایسی خوشبو مہکی جیسے مشک کی خوشبو ہوتی ہے۔

اسی حوالہ سے امام طبرانی لکھتے ہیں:

  ففاح منھا مثل ریح المسك.158
  اس کنویں سے ایسی خوشبو مہکی جیسے مشک کی خوشبو ہوتی ہے۔

مدینہ المنورۃ کا سب سے شیریں کنواں

اس حوالہ سے حضرت انس فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یصلى فیطیل القیام وان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بال فى بئر فى دارہ قال: فلم یكن فى المدینة بئر اعذب منھا. قال: وكانوا اذا حضروا استعذب لھم منھا وكانت تسمى فى الجاھلیة البرود.159
  حضور نبی کریم نماز ادافرماتے توطویل قیام فرماتے اورنبی کریم نے ان کے گھر کے کنویں میں بول مبارک فرمایا ۔ جب سے مدینہ طیبہ میں اس کنویں سے زیادہ شیریں پانی کسی جگہ کا نہ تھا۔انہوں نے کہا: اورجب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان کےلیےاس میں سے پانی نکالا۔جاہلیت میں یہ البرود کہلاتاتھا۔

اسی طرح امام قاضی عیاض فرماتے ہیں:

  وبزق فى بئر كانت فى دار انس فلم یكن بالمدینة اعذب منھا.160
  اور حضرت انس کے کنوئیں میں آپ نے لعاب دہن مبارک ڈالا جو ان کے گھر میں تھا سو مدینہ میں اس سے بڑھ کر کوئی کنواں زیادہ میٹھا نہ تھا۔

لعاب مبارک سے پانی میں مٹھاس

آپ کے لعاب مبارک کی شان تو اپنی جگہ، صرف آپ کی زبان مبارک سے کھارے کنویں کا نام تبدیل ہونے ہی سے کنواں شیریں ہوجاتا تھا۔چانچہ اس حوالہ سے امام زبیر بن بکار روایت کرتے ہیں:

  مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى غزوة ذى قرد على ماء یقال له بیسان فسال عنه فقیل: اسمه یا رسول اللّٰه بیسان وھو مالح. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لابل ھو نعمان وھو طیب. قال: فغیر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم اسمه فغیره للّٰه تبارك و تعالى ببركته صلى اللّٰه عليه وسلم فاشتراه طلحة بن عبیدللّٰه ثم تصدق به.161
  نبی کریم غزوہ ذی قرد میں ایک پانی (کے چشمے) پر سے گزرے،اس کا نام بیسان تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو بتایا گیا کہ اس کا نام بیسان ہے اور یہ نمکین ہے۔ آپ نے فرمایا: نہیں یہ نعمان ہے اور اس کا پانی شیریں وعمدہ ہے۔ پس آپ نے اس کا نام بدل دیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس پانی کا ذائقہ تبدیل کردیا۔ بعد ازاں حضرت طلحہ نے اسے خرید کر راہ خدا میں صدقہ کردیا۔

اسی طرح امام سلیمان بن موسیٰ حمیری لکھتے ہیں:

  فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لا بل اسمه نعمان وھو طیب. فغیر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الاسم وغیر للّٰه تعالى الماء.162
  حضور نبی کریم نے فرمایا :نہیں یہ نعمان ہے اور اس کا پانی شیریں وعمدہ ہے۔ پس آپ نے اس کانام بدل دیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس پانی کا ذائقہ تبدیل کردیا۔

اسی چشمے کو صدقہ کرنے سے حضرت طلحہ کو حضور کی بارگاہ سے فیاض کا لقب ملا ۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

  فغیر اسمه فاشتراه طلحة ثم تصدق به فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: ما انت یا طلحة الا فیاض.فبذلك قیل له طلحة الفیاض.163
  آپ نے ان کا نام تبدیل کردیا حضرت طلحہ نے اسے خرید کر وقف کردیا جس پر رسول اﷲ نے فرمایا:طلحہ تم تو بڑے فیاض ہو۔چنانچہ اسی وجہ سے انہیں "طلحہ فیاض"کہا جانے لگا۔

یمن کے کنویں کی شیرینی

حضرت ھمام بن نفیل السعدی بیان کرتے ہیں کہ میں یمن سے رسالت مآب کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! ہم نے پانی کے لیے ایک کنواں کھودا ہے مگر اس کا پانی نہایت ہی کھارا اور نمکین ہے جو پینے کے قابل نہیں ہے۔تو رسول اکرم نے اس کاحل یوں فرمایا:

  فدفع الى ادواة فیھا ماء فقال: صبه فیھا فصببته فعذبت فھى اعذب ماء بالیمن.164
  مجھے(حضرت ھمام )آپ نے برتن دیا جس میں پانی تھا اور حکم دیا اسے کنویں میں ڈال دینا جب وہ پانی ہم نے کنویں میں ڈالا تو وہ اتنا شیریں ہوگیا کہ یمن کے تمام کنوؤں سے اس کا پانی مٹھاس میں بڑھ گیا۔

مدینہ کے کنووں میں برکت

مذکورہ کنووں کے علاوہ بھی چند دیگر کنویں ہیں جن میں بیرارِیس بھی شامل ہے۔ یہ کنواں یہودیوں میں سے ایک شخص کے نام سے منسوب ہے جس کا نام اریس تھا ۔یہ مسجد قبا کے قریب مغرب کی جانب ہےاوراس کا پانی نہایت لطیف و شیریں ہے۔ متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ حضور نے جس وقت اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا تھا اسی وقت سے اس کے پانی میں لطافت اور شیرینی پیدا ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے یہ شیریں نہ تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے ابراہیم بن طہمان سے مروی ہے کہ انہیں یحیا بن سعد نے بتایا :

  ان انس بن مالك اتاھم بقباء فساله عن بئر ھناك فدللته علیھا فقال: لقد كانت ھذه وان الرجل لینضح حماره فتنزح فیستخرجھا له فجاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فامر بذنوب للسقى فاما ان یكون توضا منه او تفل فیه ثم امر به فاعید فى البئر فما نزحت بعد.165
  ان کے ہاں قباء میں تشریف لائے انہوں نے وہاں موجودکنویں کے بارے میں پوچھا میں انہیں وہاں لے گیا انہوں نے فرمایا :یہاں کنواں تھا اس میں اتنا قلیل پانی تھا کہ ایک شخص اپنے گدھے کو پانی پلاتا تو اس کا پانی ختم ہوجاتا آپ نے پینے کے لیے ایک ڈول پانی منگوایا۔ اس سے وضوء کیا یااس میں لعاب دہن ڈالاپھر وہ پانی کنویں میں پھینک دیا گیا اس کے بعد کبھی اس کا پانی ختم نہ ہوا۔

ایک اور کنواں بئیر بنی خطمہ کے بارے میں بھی اسی طرح روایت میں ذکر ہے ۔چنانچہ ابن زبالہ بیان کرتے ہیں:

  اتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بنى خطمة فصلى فى بیت العجوز ثم خرج منه فصلى فى مسجد بنى خطمة ثم مضى الى بئرھم ذرع فجلس فى قفھا فتوضا وبصق فیھا.166
  حضور بنو خطمۃ کے ہاں تشریف لائے ایک بڑھیا کے گھر نماز پڑھی پھر وہاں سے باہر تشریف لائے مسجد بنی خطمۃ میں نماز پڑھی۔ پھر ان کے کنویں کی طرف گئے اس کی بلندی پر بیٹھ گئے وہاں وضو فرمایا اور اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔

ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بصق فى بئر بنى خطمة.167
  حضور نبی کریم نے بئر بنی خطمہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا۔

ایک اور کنویں کے بارے میں محمد بن حارثہ انصاری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم سمى بئر بنی امیة من الانصار الیسیرة وبرك علیھا وتوضا وبصق فیھا.168
  بلاشبہ نبی کریم نے انصار کے بنو امیہ نامی کنویں کا نام تبدیل فرماکر یسیرہ رکھا اور برکت کی دعا فرمائی اور وضوء فرمایا اور اس میں اپنا لعاب دہن بھی ڈالا۔

اسی طرح حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں :

  انھم كانو مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الحدیبیة الفا واربعمائة او اكثر فنزلوا على بئر فنزحوھا فاتوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاتى البئر وقعد على شفیرھا ثم قال: ائتونى بدلو من مائھا فاتى به فبصق فدعا. ثم قال: دعوھا ساعة فارووا انفسھم وركابھم حتى ارتحلوا.169
  حدیبیہ کے روز رسول اﷲ کے ہمراہ چودہ سو افراد یا اس سے بھی کہیں زیادہ تھے پس ہم نے ایک کنوئیں کے پاس پڑا ؤ ڈالا۔ جب ہم اس کنوئیں کا سارا پانی نکال چکے تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے پس حضور کنوئیں پر تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے اس کے بعد حضور نے فرمایا : پانی کا ایک ڈول لاؤ۔ پس وہ حضور کی خدمت میں پیش کردیا گیا۔ حضور نے اس میں لعاب دہن مبارک ڈالا پھر دعا کی اس کے بعد فرمایا : ایک ساعت ٹھہرے رہو ۔اس کے بعد سب نے خود بھی پیاس بجھائی اور سواریوں کو بھی پانی پلایا یہاں تک کہ روانہ ہوئے ۔

اسی طرح حضرت عمرو بن شقیق بن عبداﷲ بن عمیر سدوسی فرماتے ہیں :

  جاء باداوة من عند النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد غسل النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیھا وجھه ومضمض فیه وبزق فى الماء وغسل یده وذراعیه ثم ملا الاداوة وقال :لاتردن ماء الا ملات الاداوة على ما بقى فیھا فاذا اتیت بلادك فرش به تلك البقعة واتخذه مسجدا. قال: فاتخذوه. قال عمرو: وقد صلیت انا فیه.170
  وہ نبی کریم کے پاس ایک برتن لے کر آئے تو نبی کریم نے اس میں اپنا چہرہ مبارک دھویا اور پانی میں کلی کی اور پانی میں لعاب ڈالا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں کلائیاں دھوئیں پھر وہ برتن بھر گیا اور فرمایا: اس برتن سے پانی بھراہی رہے گا جو اس میں باقی ہے۔ پس جب تو اپنے شہر میں آئے اس کو ایک جگہ پر بہانا اور اس جگہ کو مسجد بنانا ۔کہا :انہوں نے وہاں مسجد بنائی حضرت عمرو فرماتے ہیں میں نے اس جگہ میں نماز پڑھی ہے۔

حضرت ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

  اشارة الى ان ما اصاب بدنه علیه السلام لایطرقه تغیر بل ھو باق على غایة كماله الذى حصل له بواسطة ملامسته لتلك الاعضاء الشریفة فكل ما مسه اكسبه طیبا… الخ.قال ابن حجر وفیه التبرك بفضله علیه السلام ونقله الى البلاد ونظیرہ ماء زم زم فانه علیه السلام كان یستھدیه من امیر مكة لیتبرك به اھل المدینة ویوخذ من ذلك ان فضله وارثیه ان العلماء والصالحین كذلك.171
  اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضور نبی کریم کے بدن مبارک سے جو جو چیز ملی ہو اس پر تغیر طاری نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اپنے اس انتہائی کمال پر باقی رہتا ہے جو اس کو اعضاء شریف کے ساتھ ملامست کی وجہ سے حاصل ہوا تھا پس ہر وہ چیز کہ جس کو حضور نبی کریم نے چھوا ہو تو یہ چھونا اس میں پاکیزگی اور اچھائی ہی کو پیدا کرتا ہے۔۔الخ

امام ابن حجر نے فرمایا ہے: اس حدیث میں حضور نبی کریم کے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرنا ثابت ہے اور دوسرے شہروں میں اس کو نقل کرنا بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کی نظیر زم زم کا پانی ہے بے شک حضور نبی کریم امیر مکہ سے زم زم ہدئیے میں طلب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعے اہل مدینہ تبرک حاصل کریں اور اس حدیث سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺکے وارثین علماء و صلحاء کا بچا ہوا بھی اسی طرح ہے۔

شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

  دریں حدیث استحباب تبرك است به بقیه آب وضوئے وپس مانده آں حضرت ( صلى اللّٰه عليه وسلم)و نقل آں ببلاد ومواضع بعیده مانند آب زمزم وآں حضرت ( صلى اللّٰه عليه وسلم)چوں در مدینه مى بود آب زمزم را ازحاكم مكه مى طلبید وتبرك مى ساخت وفضله وارثانِ اوكه علماء وصلحاء اند وتبرك بآثار وانوار ایشاں ھم بریں قیاس است.172
  اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی اور پس خوردہ سے تبرک حاصل کرنا اور اس کو دور دراز ممالک میں منتقل کرنا آبِ زمزم کی طرح جائز ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام جب مدینہ میں تھے تو مکہ کے حاکم سے آبِ زمزم طلب فرمایا اور تبرک حاصل کیا آپ کے وارثین علماء و صلحاء کے آثار وتبرکات وانوار کو اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔

اب تک کی مذکورہ روایات تمام کی تما م دور رسالت مآب سے پیش کی گئیں ہیں۔اب چند دیگر روایات دور رسالت مآب کے بعد کی پیش کی جارہی ہیں جن سے یہ واضح ہوگا کہ نبی اکرم کی اپنی امت پر شفقت و رحمت بعد از وصال بھی قائم و دائم ہے۔اسی طرح آپ کی ہر چیز بھی اب بھی اسی طرح فیّاض ہے جس طرح آپ کی ظاہری زندگی میں تھی۔

لعاب رسول اور شیخ عبد القادر جیلانی

چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن الملقن طبقات الاولیاء میں حضور شیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

  ان الشیخ عبد القادر الجیلى قال: رایت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قبل الظھر فقال لى: یا بنى لم لا تتكلم؟ قلت: یا ابتاه انا رجل اعجمى كیف اتكلم على فصحاء بغداد؟ فقال لى: افتح فك. ففتحته فتفل فیه سبعا وقال: تكلم على الناس وادع الى سبیل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة. فصلیت الظھر وحبست وحضرنى خلق كثیر فارتج على فرایت علیا قائما بازائى فى المجلس .فقال: یا بنى لم لا تتكلم؟ فقلت: یا ابتاه قد ارتج على. فقال: افتح فك. ففتحته فتفل فیه ستا قلت: لم لاتكملھا سبعا؟ قال: ادبا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ثم توارى عنى فتكلمت.173
  سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں :میں نے ایک مرتبہ ظہر کی نماز سے پہلے حضور نبی کریم کی زیارت کی (بیداری میں)تو آپ نے مجھ سے فرمایا: اے میرے بیٹے! تم گفتگو اور وعظ ونصیحت کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کی :ابو جان !میں ایک عجمی شخص ہوں بغداد کے فصحاء کے سامنے کیسے گفتگو کرسکتا ہوں؟ تو آپ نے مجھے ارشاد فرمایا: اپنا منہ کھولو۔ سو میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے دہن میں سات مرتبہ لعاب اقدس ڈالا اور ارشاد فرمایا: اب تم لوگوں کے سامنے گفتگو (وعظ ونصیحت) کرو اور حکمت اور خوبصورت وعظ ونصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلاؤ۔ چنانچہ میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھ گیا اور مخلوق کا ایک جم غفیر میرے پاس وعظ سننے کے لیے حاضر ہوا تو میری طبیعت بوجھل سی ہونے لگی اور مجھے گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔ سو اسی دوران میں نے اسی مجلس میں اپنے مقابل سیدنا علی کو دیکھا آپ حالت قیام میں موجود تھے تو آپ نے مجھے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: اے میرے بیٹے! وعظ کیوں نہیں کرتے؟ تو میں نے عرض کی: ابو جان! مجھ پر گھٹن سی چھاگئی ہے۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا :اپنا منہ کھولو۔ سو میں نے منہ کھولا تو آپ نے چھ مرتبہ میرے منہ میں لعاب اقدس ڈالا۔ میں نے حضرت علی سے عرض کی: آپ مکمل سات بار اپنا لعاب اقدس میرے منہ میں کیوں نہیں ڈال رہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: بیٹا کہیں حضور نبی کریم کی ذات اقدس کے ساتھ برابری نہ ہوجائے۔بعد ازاں حضرت علی میرے سامنے سے روپوش ہوگئے اور میں خوب وعظ ونصیحت کرنے لگا۔

آپ کے لعاب کا اثر علامہ تفتازانی پر

اسی طرح امام شہاب الدین ابن العماد حنبلی شیخ الاسلام سید البلغاء حضرت سعد الدین تفتا زانی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

  وحكى بعض الافاضل ان الشیخ سعد الدین كان فى ابتداء طلبه بعید الفھم جدا ولم یكن فى جماعة العضد ابلد منه ومع ذلك فكان كثیر الاجتھاد ولم یویسه جمود فھمه من الطلب وكان العضد یضرب به المثل بین جماعته فى البلاد فاتفق ان اتاه الى خلوته رجل لا یعرفه فقال له: قم یا سعد الدین لنذھب الى السیر. فقال: ما للسیر خلقت انا لا افھم شیئا مع المطالعة فكیف اذا ذھبت الى السیر ولم اطالع؟ فذھب وعاد وقال له: قم بنا الى السیر. فاجابه بالجواب الاول ولم یذھب معه. فذھب الرجل وعاد وقال له مثل ما قال اولا. فقال: ما رایت ابلد منك. الم اقل لك ما للسیر خلقت؟ فقال له: رسول للّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یدعوك. فقام منزعجا ولم ینتعل بل خرج حافیا حتى وصل به الى مكان خارج البلد به شجیرات، فرأى النّبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى نفر من أصحابه تحت تلك الشجیرات فتبسم له، وقال:نرسل إلیك المرّة بعد المرّة ولم تأت. فقال: یا رسول اللّٰه ما علمت أنك المرسل وأنت أعلم بما اعتذرت به من سوء فھمى وقلة حفظى، وأشكو إلیك ذلك. فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: افتح فمك وتفل له فیه ودعا له، ثم أمره بالعود إلى منزله وبشّره بالفتح فعاد وقد تضلع علما ونورا. فلما كان من الغد اتى الى مجلس العضد وجلس مكانه فاورد فى اثناء جلوسه اشیاء ظن رفقته من الطلبة انھا لا معنى لھا لما یعھدون منه فلما سمعھا العضد بكى وقال: امرك یا سعد الدین الى فانك الیوم غیرك فى ما مضى ثم قام من مجلسه فیه وفخم امره من یومئذ.174
  بعض افاضل نے یہ حکایت بیان کی ہے کہ شیخ سعد الدین شروع زمانہ طالب علمی میں انتہائی کُند ذہن تھے اور علامہ عضد الدین کے تلامذہ میں ا ن سے زیادہ کُند ذہن کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود وہ طلب علم میں کوشاں رہتے تھے اور آپ کو طلب علم سے آپ کے فہم کا جمود مایوس نہ کرتا تھا ۔اور علامہ عضد الدین اپنے تلامذہ کے درمیان آپ ہی کی کُند ذہنی کی مثال دیتے تھے۔اتفاقا ایک دن تنہائی میں آپ کے پاس ایک ایسا شخص آیا جسے آپ پہنچانتے نہ تھے، اس نے آپ سے کہا: اے سعدالدین! اٹھو ہم سیر کے لئے چلتے ہیں۔ حضرت سعد الدین نے عرض کی: مجھے سیر کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ باوجود مطالعہ کرنے کے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تو اس وقت میرا کیا حال ہوگا جب میں مطالعہ کئے بغیر آپ کے ساتھ سیر کو چل پڑوں گا؟ وہ شخص چلا گیا اور پھر واپس لوٹ آیااور حضرت سعد الدین سے کہا: اٹھو ہمارے ساتھ سیر کرنے کے لیے چلو۔آپ نے انہیں پہلا جواب دیا اور ان کے ساتھ نہ گئے۔وہ شخص چلا گیا اور واپس لوٹ آیا اور اس نے علامہ سعد الدین سے پہلے کی طرح کہا۔ تو علامہ سعد الدین نے فرمایا: تم سے بڑا کُند ذہن میں نے نہیں دیکھا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا کہ مجھے سیر کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ تو اس شخص نے علامہ سے فرمایا: تمہیں سیدنا رسول اﷲ بلارہے ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت سعد الدین بے قراری کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور جوتا بھی نہ پہنا بلکہ ننگے پاؤں چل پڑے۔ یہاں تک کہ شہر کے باہر ایسی جگہ جا پہنچے جہاں درختوں کا جھنڈ تھا۔تو ان چند درختوں کے جھنڈ کے نیچے انہوں نے حضور کو صحابہ کرام کی ایک جماعت میں دیکھا۔ حضر ت سعد الدین کو دیکھ کر حضور مسکرا پڑے۔ اور ارشاد فرمایا:ہم بار بار تمہیں بلارہے ہیں اور تم آتے ہی نہیں۔حضرت سعد الدین نے عرض کی: یارسول اﷲ ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ مجھے بلارہے ہیں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے اپنے کم حافظہ اور بدحافظہ ہونے کی وجہ سے معذرت کی ہے اور میں اس چیز کی جناب کے سامنے شکایت بھی کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضور نے انہیں ارشاد فرمایا: اپنا منہ کھولو پھر سیدنا رسول اﷲ نے ان کے منہ میں لعاب اقدس ڈالا اور ان کے لئے دعا فرمائی۔پھر ان کو اپنے گھر کی طرف جانے کا حکم ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی ان کو کامیابی کی نوید بھی سنادی۔ چنانچہ علامہ سعد الدین جب واپس لوٹے آپ علم ونور میں کامل واکمل ہوچکے تھے۔ اگلے دن جب آپ عضد الدین کی مجلس میں آئے اور اپنی نشست پر بیٹھے اور ادھر ہی بیٹھے بیٹھے چند اعتراضات دقیقہ وارد کئے۔ آپ کے ساتھی طلبہ یہ سمجھنے لگے کہ یہ بے تکّے اعتراضات ہیں کیونکہ وہ پہلے سے جانتے تھے کہ یہ کُند ذہن ہیں، لیکن جب شیخ عضد الدین ﷫نے ان اعتراضات کو سنا تو روپڑے اور فرمایا :اے سعد الدین! تمہارے اعتراضات کا حل میرے ذمہ ہے، بلاشبہ جو تم کل تھے اس طرح آج نہیں ہو۔ پھر علامہ عضد الدین اپنی مسند تدریس سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس جگہ علامہ سعد الدین کو بٹھادیا اور اس دن سے علامہ سعد الدین کی علامہ عضد الدین ایجی خوب تعظیم وتکریم کرنے لگے۔

سید احمد انصاری مالکی نے شرح علی صلوات القطب الدردیر میں لکھا ہے کہ دلائل الخیرات شریف کی تالیف کا سبب یہ ہے کہ اس کے مؤلف شیخ محمد بن سلیمان الجزولی نے ایک مرتبہ نماز پڑھنے کا ارادہ فرمایا۔ وضو کرنے کے لیے اٹھے مگر کنویں سے پانی نہ پایا، اسی دوران وہ ادھر ہی کھڑے تھے کہ ایک چھوٹی سی بچی نے ان کو اونچے مکان سے دیکھ لیا بچی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ نے اپنے بارے میں جب اسے بتایا تو بچی کہنے لگی آپ کے تو ہر طرف خیر کے چرچے ہیں مگر آپ کنویں سے پانی نکالنے میں حیران وپریشان کھڑے ہیں۔اس بچی نے کنویں میں تھوک ڈال دی سو اس کا پانی سطح زمین پر کثرت کے ساتھ بہنے لگا۔ سیدی شیخ محمد بن سلیمان جزولی نے وضو فرماکر اس بچی سے دریافت فرمایاکہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں! بتاؤ یہ مرتبہ تمہیں کس وجہ سے ملا ہے؟تو وہ بچی کہنے لگی:

  بكثرة الصلاة على من كان اذا مشى فى البئر الاقفر تعلقت الوحوش باذیاله صلى اللّٰه عليه وسلم.175
  اس ذات اقدس پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے سے مجھے یہ مرتبہ ملا ہے جو بے آب وگیاہ میدان میں جب چلتے ہیں تو وحشی جانور بھی ان کے دامن رحمت کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔

اس کے بعد شیخ محمد بن سلیمان جزولی نے حلف اُٹھالیا کہ میں ضرور حضور کی ذات اقدس پر درود شریف پڑھنے کی فضیلت پر ایک عمدہ کتاب تحریر کروں گا۔پھر انہوں نے دلائل الخیرات شریف تالیف فرمائی۔

حضور کا لعاب دہن دواء، شفاء اور تبرک ہے جو ہر زخم کا مرہم اور ہر غم کا مداوا ہے۔ انسانی لعاب کے بارے میں انسانی تصورات اگرچہ کہ نہایت محدود ہیں کہ وہ صرف انسانی دہن میں پیدا ہونے والا سیال ہے جو زبان کو تر اور کھانے کو چبائے جانے کے بعد حلق سے معدہ کی طرف اتارنے میں مددگارو معاون مادہ ہے۔ رہی یہ بات کے اس میں کوئی کرامت و براکات ہوسکتی ہیں تو شاید یہ سب کچھ انسانی علم و تجربہ کے لحاظ سے عجیب بات ہے۔ آج بھی ہر خاص و عام انسان کا لعابِ دہن وہ کمال نہیں دکھا سکتا جو اعجاز حضور ختمی المرتبت کے لعابِ دہن میں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رب تعالیٰ نے آپ کے جسم مبارک کے ہر ہر عضو کو سراپا سلامتی اور شفاء بنایا تھا۔ اسی طرح آپ کا لعاب مبارک بھی وہ منبع خیرو برکات تھا کہ پانی کم ہو اور اس میں مل جائے تو زیادہ ہوجائے، پانی کھاریٰ ہو تو آپ کا لعاب مبارک کے ملنے سے میٹھا ہوجاتا، ٹوٹی ہوئی ہڈی جڑ جاتی۔ نکلی ہوئی آنکھ کا ڈھیلا پہلے سے زیادہ مضبوط اور روشن ہوجاتا، کٹے ہوئے بازو پر لعاب مبارک کے لگنے کی دیر ہوتی تو وہ ایسا جڑ جاتا گو یا کہ کبھی مقطوع ہوا ہی نہ ہو بلکہ پہلے سے زیادہ اس میں قوت و طاقت آجاتی یہی حالت ٹوٹے ہوئے پاؤں اور پنڈلی کی تھی جہاں جہاں لعابِ دہن اور دست اقدس کا لمس پہنچتا وہاں وہاں صحت، تندرستی اور شفاء ساتھ ساتھ پہنچتی۔ اسی لیے امی جان سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ"جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم نے اپنا لعابِ دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفا یابی کے لیے یہ مبارک الفاظ دھراتے بسم اللّٰه، تربۃ أرضنا، بریقۃ بعضنا، یشفی سقیمنا، باذن ربنا ۔ کبھی کبھار صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اسم مبارک لے کر براہ راست مجروح و مقطوع جگہوں پر لگا کر اس کو جوڑدیتے تو وہ جگہیں فوراً جڑ جایا کرتی تھیں۔ صلی اللّٰه علیہ و آلہ وسلم ۔

 


  • 1 القرآن،سورۃ الانفال33:08
  • 2 ولی الدین محمد بن عبداﷲ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح ، حدیث: 6034، ج-3،مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:1700-1701
  • 3 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:1807، ج- 3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :143-144
  • 4 ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، حدیث:31804، ج- 6،: مکتبۃ الرشد ،الریاض،السعودیۃ، 1409ﻫ، ص:328
  • 5 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:286
  • 6 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 5745، ج -7، مطبوعۃ: دار طوق النجاۃ، دمشق، السوریۃ،1422 ھ ، ص:133
  • 7 مٹی سے اشارہ ہے حضرت آدم کی پیدائش کی طرف کیونکہ وہ مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور لعاب دہن سے اشارہ ہے نطفہ کی طرف ہے۔گویا کہ آپﷺ نے یوں کہا کہ اے اﷲ! تو نے پہلے اس بندہ کو مٹی سے پیدا کیاپھر ذلیل پانی سے پیدا کیا یعنی نطفہ سے تو تجھ پر آسان ہے کہ تو اس کو اسی دنیا میں شفاء دے دے۔(محمود بن احمد بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،ج -21، حدیث: 5745،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :270-296)
  • 8 محمود بن احمد بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، حدیث: 5745، ج -21، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،ص :270-269
  • 9 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 3499، ج- 3، مطبوعہ دارابن کثیر، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:1357
  • 10 محمد بن سعد ،طبقات الکبری ، ج-2، مطبوعۃ: دا رصادر،بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:110
  • 11 عبدالملک بن ہشام ،السیرۃ النبویہ المعروف سیرت ابن ہشام ، ج- 4،مطبوعۃ: دارالجیل، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:305
  • 12 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی،السنن الکبریٰ، حدیث :46 -48،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 2001،ص :15-16
  • 13 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:2406، ج- 4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:1872
  • 14 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:1807، ج- 3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :1433-1434
  • 15 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ ،حدیث :8349، ج -7، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء،ص:413
  • 16 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:206
  • 17 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ، حدیث :8346، ج -7، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء، ص:412
  • 18 ایضاً
  • 19 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:213
  • 20 احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت،لبنان، 1379ھ، ص:476
  • 21 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ، حدیث :8345، ج- 7، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء، ص:411
  • 22 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -1،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:416
  • 23 محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان،1989ء، ص:545
  • 24 قاضی عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج- 1،مطبوعۃ:دار القیحاء، عمان، 1407ھ، ص:618
  • 25 ولی الدین محمد بن عبداﷲ خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح ، حدیث: 6034، ج-3،مطبوعۃ: المکتب الاسلامی ، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:1700-1701
  • 26 شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث :2206، ج -2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:217-216
  • 27 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 16811، ج- 27، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان،2001ء، ص:366
  • 28 ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ، مستخرج ابی عوانۃ، حدیث:6750-6751، ج- 4، مطبوعۃ:دار المعرفۃ ، بیروت، لبنان،1998ء، ص :277-278
  • 29 محمد بن حبان ، صحیح ابن حبان، حدیث: 7090، ج-15، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1988ء، ص:565
  • 30 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:450
  • 31 علاؤالدین مغلطائی بن قلیج، اکمال تہذیب الکمال، حدیث: 1346، ج- 4، مطبوعۃ: الفاروق الحدیثۃ للطباعۃ والنشر، القاهرة، مصر، 2001ء، ص:155
  • 32 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج- 3،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان، 1990ء، ص:334
  • 33 محمد بن سعد بصری ، الطبقات الکبیر ، ج- 2 ،مطبوعہ مکتبۃ الخانجی بالقاھرۃ، القاهرة، مصر،2001مء، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :28-29
  • 34 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، ج- 5، حدیث: 4037، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:90
  • 35 ابو جعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ الطبری ،ج -2، مطبوعۃ: دار المعارف ، القاہرۃ، مصر ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:489
  • 36 محمود بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،ج -17، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، ص:133
  • 37 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:399
  • 38 محمد بن عمر الواقدی، کتاب المغازی، ج- 1،مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء، ص:190
  • 39 ایضاً
  • 40 احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج- 7،مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت،لبنان،1379ھ، ص:340
  • 41 ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، حدیث:31804، ج- 6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ، 1409ﻫ، ص:328
  • 42 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:115
  • 43 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص:173
  • 44 ایضًا، ص:178
  • 45 عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج- 1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:622
  • 46 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-3،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:98
  • 47 سلیمان بن احمد طبرانی، طبرانی کبیر ،ج -20، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص:177
  • 48 ابو الحسن علی بن ابی المکرم ابن اثیر ،اسد الغابۃ ، حدیث: 4962، ج -4،مطبوعۃ: دار الفکر, بیروت،لبنان، ص:426
  • 49 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 3141، ج -4، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:91
  • 50 احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، حدیث: 8069، ج -6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ﻫ،ص :113-114
  • 51 عبد الرحمن بن محمد ابن ابی حاتم ،الجرح والتعدیل ،ج -8 ،مطبوعۃ: حیدر آباد دکن ہندوستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:245
  • 52 عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ،ج-2 ،مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ھ، ص:622
  • 53 محمد بن محمد ابن سید الناس، عیون الاثر، ج -1،مطبوعۃ: دار القلم ، بیروت،لبنان، 1993ء، ص:304
  • 54 ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی، معجم الصحابۃ ،ج -5،مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:140
  • 55 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان، 1990ء، ص:184
  • 56 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ، حدیث: 2209، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1327
  • 57 عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ،ج-2، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ﻫ، ص:620
  • 58 شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی، التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ ، حدیث:3542، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:397
  • 59 احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، حدیث: 9907، ج -7،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1415ﻫ، ص:119
  • 60 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج-6،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:7
  • 61 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر مالکی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث: 2107، ج- 3، مطبوعۃ: دار الجیل بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1275
  • 62 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:12،مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ،القاھرۃ ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:8
  • 63 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم،مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 5281، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990 ء، ص:334
  • 64 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج-6،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:7-8
  • 65 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، حلیۃ الاولیاء ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1409ء، ص:337
  • 66 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:100
  • 67 ابویعلی احمد بن علی موصلی، مسند ابو یعلی، حدیث:1549 ، ج- 3، مطبوعۃ: دار المامون للتراث، دمشق، السوریۃ، 1984ء،ص:120
  • 68 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر مالکی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث: 2107، ج- 3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت،لبنان، 1992ء، ص:1275
  • 69 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان1405ھ، ص :251-252
  • 70 ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، حدیث:32364، ج- 6،مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ،الریاض،السعودیۃ، 1409ھ، ص:400
  • 71 محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء،ص:242
  • 72 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:253
  • 73 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج-6،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:7-10
  • 74 ایضاً
  • 75 القرآن، سورۃ النجم3:53-4
  • 76 ابویعلی احمد بن علی موصلی، مسند ابو یعلی ، حدیث:1550، ج- 3، مطبوعۃ: دار المامون للتراث، دمشق، السوریۃ، 1984ء،ص: 122-121
  • 77 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط ، حدیث:9124، ج- 9، مطبوعۃ: دار الحرمین ،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:59
  • 79 علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تاریخ دمشق الکبیر، ج- 13،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت،لبنان، 1995ء، ص:221
  • 80 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،ج-3 ، حدیث: 2656،مطبوعۃ: مكتبة ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:50
  • 81 یوسف بن عبد الرحمن المزی ، تہذیب الکمال ، حدیث: 1248، ج -6،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1980ء، ص:231
  • 82 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط ، حدیث: 9112، ج-9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :52-53
  • 83 ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث:31754، ج -6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ، 1409ﻫ، ص:321
  • 84 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:373
  • 85 احمد بن محمد بن اسحاق الدینوری ، عمل الیوم واللیلۃ ، حدیث:633، مطبوعۃ: دار القبلۃ للثقافۃ الاسلامیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:587
  • 86 علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ ،ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،1427ھ، ص:371
  • 87 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ۔ ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت،لبنان، 1986ء، ص :466
  • 88 ابو عبداﷲ محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی، سنن ابن ماجہ، حدیث:3548، ج- 2، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص :1174
  • 89 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص :25
  • 90 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -5،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ﻫ، ص :444
  • 91 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ،ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس ،بیروت، لبنان،1986ء، ص :464
  • 92 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد،ج -10،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:34
  • 93 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت ، لبنان،1405ﻫ، ص :170
  • 94 محب الدین محمد بن محمود ابن النجار ، الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ ،مطبوعۃ: دار الارقم بن ابی الارقم، ص:42
  • 95 سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 1290، ج-2، مطبوعۃ : دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:518
  • 96 احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 15453، ج- 24،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :191
  • 97 محمد بن حبان بستی، صحیح ابن حبان، ج-7، حدیث: 2977،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، لبنان،1993ء، ص :242-243
  • 98 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان ،1405ﻫ،، ص :175
  • 99 ایضًا،ص :176
  • 100 سلیمان بن احمد طبرانی ، المعجم الکبیر ، حدیث: 7215، ج- 7، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :306
  • 101 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ،ج-2، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت،لبنان، 1986ء، ص :514-513
  • 102 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -2،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:118
  • 103 احمد بن علی بن عبد القادر تقی الدین المقریزی ،امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج -1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999ء، ص :184
  • 104 محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1 ،مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء، ص :350
  • 105 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ، حدیث: 4958، ج -4،مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1998ء،ص :1974
  • 106 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث:2433، ج-3، مطبوعۃ: دار الجیل بیروت،لبنان،1992ء، ص:141
  • 107 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،1405ﻫ، ص :185
  • 108 ابوعبداﷲ محمد بن موسیٰ المزالی المراکشی، مصباح الظلام فی المستغیثین یخیر الانام ،مطبوعۃ: نوریہ رضویہ، لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص :152
  • 109 کمال الدین محمد بن موسیٰ دمیری، حیاۃ الحیوان الکبریٰ ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1424ھ، ص :193-194
  • 110 محمد بن عمر الواقدی، المغازی ،ج-1، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1989ء، ص :25
  • 111 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ،ج -1،مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 1998ء،ص :399
  • 112 ابو عبداﷲ محمد بن اسحاق ابن مندہ ، معرفۃ الصحابۃ لابن مندہ، مطبوعۃ: جامعۃ الامارات العربیۃ المتحدۃ،الامارات العربیۃ المتحدۃ، 2005ء، ص :252
  • 113 محمد بن اسماعیل بخاری ، تاریخ الکبیر، حدیث: 1751، ج-2، مطبوعۃ: دائرۃ المعارف الاسلامیۃ، ہند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 78
  • 114 علی بن حسن ابن عساکر دمشقی ، تاریخ دمشق الکبیر، ج -10،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1995ء، ص :300
  • 115 علاؤالدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال، حدیث: 36862، ج -13، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1981ء، ص :298
  • 116 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 10،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1993 ء، ص :19
  • 117 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین ، حدیث: 6696، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:741
  • 118 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-5،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:33
  • 119 ابوبکر احمد بن الحسین بیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،1405ﻫ، ص :225
  • 120 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین ، حدیث: 6697، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:741
  • 121 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 3234، ج-3، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:231
  • 122 محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دار الاعلمی، بیروت،لبنان، 1409ء، ص :94
  • 123 نور الدین علی بن ابوبکر ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: 14138، ج-8 ، مطبوعۃ: مکتبۃ القدسی، القاھرۃ، 1994ء، ص:312
  • 124 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، ج- 8، حدیث: 7903،مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ،ص :231
  • 125 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1993ء، ص:31
  • 126 ابوبکر محمد بن حسین الاجری بغدادی، الشریعۃ، حدیث: 1748، ج- 5، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض،السعودیۃ، 1999ء، ص:2266
  • 127 عبد الملک بن ہشام معافری ، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ،ج-2 ،مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاہرۃ، مصر، 1955ء، ص:619
  • 128 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ، حدیث: 444، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس ،بیروت،لبنان، 1986ء، ص :516
  • 129 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-4 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،1405ﻫ، ص:293 -294
  • 130 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، ج- 6،مطبوعۃ: دار الوطن الریاض،السعودیۃ،1998 ء، ص :3334
  • 131 ایضاً
  • 132 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ، حدیث: 7645، ج- 6، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض،السعودیۃ، 1998ء ، ص :3334-3335
  • 133 ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی، الاحاد والمثانی، حدیث: 3437، ج- 6،مطبوعۃ: دار الرایۃ، الریاض،السعودیۃ، 1991ء، ص :207
  • 134 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 2568، ج- 3، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص :84
  • 135 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص،الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :105
  • 136 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 852، ج-24، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :341
  • 137 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-6 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص:227
  • 138 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 2838، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:228
  • 139 احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث: 3401، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415 ھ، ص:127
  • 140 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4206 ، ج-5 ، مطبوعۃ: دمشق، 1422 ﻫ، ص :133
  • 141 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان 1405ھ، ص :251
  • 142 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث: 98، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم الموصل، عراق، 1983ء، ص:77
  • 143 محمد بن اسماعیل بخاری ، صحیح البخاری، حدیث: 4102، ج- 5، مطبوعۃ: دمشق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:108-109
  • 144 عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویۃ ،ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی مصر، 1955ء، ص:218
  • 145 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ،ج-3،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ﻫ، ص:415
  • 146 القرآن،سورۃ سبا10:34
  • 147 عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویۃ، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاہرۃ، مصر، 1955ء، ص:84
  • 148 علاؤالدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال ، حدیث: 35373، ج -12،مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1981ء، ص:368
  • 149 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط ، حدیث: 6761، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ،ص:115
  • 150 ابوبکر محمد بن ہارون الرویانی، مسند الرویانی، حدیث:1101، ج- 2،مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ ، مصر، 1416ﻫ، ص:228
  • 151 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1990ء، ص:390
  • 153 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ،ج -7،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:225
  • 154 عبد الملک بن محمد نیسابوری، شرف المصطفیٰ ،ج -3،مطبوعۃ : دار البشائر الاسلامیۃ، مکۃ، السعودیۃ، 1424ھ، ص:432
  • 156 علی بن عبداﷲ بن احمد سمہودی، خلاصۃ الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ،ج-2، مطبوعۃ: مصر،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:430
  • 157 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 18838، ج-31، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:134
  • 158 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، ج-22، حدیث: 119،مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:51
  • 159 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 366، ج-1،مطبوعۃ: دار النفائس، بیروتء، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ص:444
  • 160 قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -1،مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ﻫ، ص:639
  • 161 عبد الملک بن محمد نیسابوری، شرف المصطفیٰ، ج- 3،مطبوعۃ : دار البشائر الاسلامیۃ، مکۃ،السعودیۃ، 1424ﻫ، ص:430
  • 162 سلیمان بن موسیٰ حمیری، الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اﷲ ﷺ والثلاثۃ الخلفاء ،ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب، العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1420ﻫ، ص:453
  • 163 احمد بن علی ابن حجر، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، حدیث:4285، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415 ھ، ص:430
  • 164 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین سیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:76
  • 165 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ،ج- 7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993 ء، ص:222
  • 166 ایضًا، ص:227
  • 167 ایضًا
  • 168 عمر بن شبہ بصری، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ ،ج-1،مطبوعۃ: مطبع جدۃ، جدۃ،السعودیۃ،1399ﻫ، ص:161
  • 169 محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری، حدیث: 4151، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 2005ء، ص:1018
  • 170 سلیمان بن احمدطبرانی، طبرانی الاوسط، حدیث: 1957، ج- 2، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :271-272
  • 171 نورالدین علی بن سلطان القاری ، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث :716، ج-2،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002ء، ص:603
  • 172 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، اشعۃ اللمعات، ج-1،مطبوعہ: نو لکشور، لکھنؤ،ہند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:331
  • 173 یوسف بن اسماعیل نبہانی، سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علی سید الکونین ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:388
  • 174 شہاب الدین ابن العماد حنبلی ، شذرات الذھب فی اخبار من ذھب، ج- 8،مطبوعۃ: دار ابن کثیر، دمشق، السوریۃ، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:548
  • 175 یوسف بن اسماعیل نبہانی، سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علی سید الکونین، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:159