Encyclopedia of Muhammad

سماعت مصطفٰیﷺ

اﷲ ربُّ العزّت کے ان بے پایاں الطاف واکرام میں سے ایک فضل عظیم جو اس نے اپنے حبیب کریم کو عطا فرمائی وہ یہ ہے کہ اﷲ تبارک وتعالی نے آپ کی سماعت کے دائرہ کار کو وسیع فرمادیا۔ مشرق ومغرب، شمال وجنوب اور تحت وفوق کی وسعتوں کو سماعت مصطفیٰ کے لیے محدود فرمادیا ۔ آقا کریم جس طرح قریب کی آواز کو سماعت فرماتے اسی طرح باذن اﷲ دور کی آواز کو سماعت فرماتے۔ اﷲ رب العزت نے جس طرح آپ کو ذات اور ہر صفت میں یکتا،منفرد، بے مثل وبے نظیر اور شان اعجازی کا حامل بنایا اسی طرح آپ کو صفت سماعت میں بھی منفرد بنادیا تھا۔1

آپ کی قوتِ سماعت

رسول اکرم کی قوتِ سماعت عام قوتوں سے مختلف اورجداگانہ حیثیت کی حامل تھی۔چنانچہ ایک روایت میں اس حوالہ سےیہ فرمان نبوی ملتاہےکہ کیا جو کچھ میں سنتا ہوں وہ تم بھی سنتے ہو؟ چنانچہ اس حوالہ سے حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے :

  قال بینما رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى اصحابه اذ قال لھم: تسمعون ما اسمع؟ فقالوا: ما نسمع من شى. قال: انى لاسمع اطیط السماء ولا تلام ان تئط وما فیھا موضع شبر الا وعلیه ملك ساجد او قائم.2
  کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صحابہ کرام میں تشریف فرماتھے۔ اچانک صحابہ سے فرمایا :کیا جو کچھ میں سنتا ہوں وہ تم بھی سنتے ہو؟ صحابہ بولے ہم کچھ بھی نہیں سنتے۔ ارشاد فرمایا: بے شک میں آسمان سے نکلنے والی چرچراہٹ کی آواز سن رہا ہوں اور اس آواز کے نکلنے پر آسمان ملامت کا سزا وار نہیں کیونکہ آسمان پر ایک بالشت کے برابر بھی خالی جگہ نہیں مگر یہ کہ ہر جگہ کوئی فرشتہ سجدے کی حالت میں ہے اور کوئی قیام کی حالت میں ہے۔

امام ابن ابی عاصم بھی روایت کرتے ہیں:

  تسمعون ما اسمع؟ فقالوا: ما نسمع من شى. قال: انى لاسمع اطیط السماء.3
  کیا جو کچھ میں سنتا ہوں وہ تم بھی سنتے ہو؟ صحابہ بولے: ہم کچھ بھی نہیں سنتے۔ ارشاد فرمایا: بے شک میں آسمان سے نکلنے والی چرچراہٹ کی آواز سن رہا ہوں۔

معلوم ہوا کہ حضور اﷲ کی عطا سے وہ کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں جو عام لوگ نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ پھر حضور نے خود وضاحت بھی فرمادی کہ وہ کیا دیکھتے اور کیا سنتے ہیں؟ آسمان جو زمین سے لاکھوں میل کی مسافت پر ہے حضور زمین پر تشریف فرماہوتے ہوئے بھی وہاں کی آوازیں سنتے اور وہاں کے حالات کو دیکھتے ہیں۔

جہنم میں گرنے والے پتھر کی آواز کا سننا

رسول اکرم کی قوت ِسماعت کا کئی ایک احادیث میں تذکرہ ہوا موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ کے ساتھ تھے کہ آپ نے گڑ گڑاہٹ کی آواز سنی۔ آپ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے یہ آواز کیسی تھی؟ ہم نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ اس حوالہ سے امام مسلمروایت کرتے ہیں:

  قال :ھذا حجر رمى به فى النار منذ سبعین خریفا فھو یھوى فى النار الآن حتى انھى الى قعرھا.4
  آپ نے فرمایا: یہ پتھر ہے جس کو ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا گیا تھا۔ یہ اب تک اس میں گررہا تھا اور اب اس کی گہرائی میں پہنچا ہے۔

اس حدیث پاک سے کئی امور معلوم ہوئے۔حضور اقدس نے فرشِ زمین پر تشریف فرماہوکر جہنم کی تہہ میں گرنے والے پتھر کی آواز کو سماعت کیا۔ جہنم کی ابتداء تحت الثری سے ہے اور سطح زمین سے جہنم کی تہہ تک ہزاروں بلکہ لاکھوں سال کی مسافت ہے جس کے درمیان سخت حجابات وموانع ہیں لیکن یہ سماعتِ اقدس کا اعجاز ہے کہ ہزارھا رکاوٹوں اور مزاحمتوں کے باوجود اس آواز کو سماعت فرمایا۔

آسمانوں کی آواز کو سماعت فرمانا

رسول اللہ فرشِ زمین پر بیٹھے کئی لاکھوں میل دور کی آواز کو سماعت فرمالیا کرتےتھے۔چنانچہ حضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں :

  قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: انى ارى مالا ترون واسمع ما لاتسمعون اطت السماء وحق لھا ان تئط ما فیھا موضع اربع اصابع الا وملك واضع جبھته ساجدا للّٰه، وللّٰه! لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قلیلا و لبكیتم كثیرا.5
  حضور نبی کریم نے فرمایا: بے شک میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔(دلیل یہ ہے) کہ آسمانوں سے چر چرانے کی آواز آئی ہے اور حق بھی یہ ہے کہ وہ چر چرائے کیونکہ اس میں ایک چار انگل کے برابر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ اﷲ رب العزت کے حضور سجدہ ریز نہ ہو۔ خدا عزوجل کی قسم! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو ضرور کم ہنسو اور زیادہ روگے۔

امام احمد بھی روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم نے فرمایا:

  انى ارى مالا ترون واسمع مالا تسمعون.6
  میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔

اس روایت کو امام محمد بن یزید ابن ماجہ نے 7اور حضرت انس سے جلال الدین عبد الرحمن السیوطینے نقل کیا ہے۔8

صحابہ کرام میں سے کسی نے اس آواز کو نہیں سنا لیکن حضور نے فرش زمین پر تشریف فرماہوکر تمام آسمانوں کے چر چرانے کی آواز کو سماعت فرمالیا۔ حالانکہ زمین سے آسمان تک سینکڑوں سال کی مسافت ہے تو جو محبوب زمین پر تشریف فرما ہوکر سیکڑوں سال دور کی آواز کو سماعت فرماتے ہیں وہ چند ہزار میل دور مدینہ طیبہ میں تشریف فرماہوکر اپنے امتی کا صلوٰۃ وسلام بھی سماعت کرسکتے ہیں۔

آپ کا یہودیوں کے عذاب قبر کو سننا

اسی طرح آپ کی قوتِ سماعت کونقل کرتے ہوئے حضرت ابوایوب انصاری بیان کرتے ہیں :

  خرج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وقد وجبت الشمس فسمع صوتا فقال: یھود تعذب فى قبورھا.9
  نبی کریم باہر تشریف لائے اس وقت سورج غروب ہوچکا تھا پس آپ نے آواز سنی تو فرمایا :یہود کو ان کی قبروں میں عذاب ہورہا ہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور نے حضرت ابوایوب انصاری سے پوچھا اے ابوایوب!

  اتسمع ما اسمع قلت: اللّٰه ورسوله اعلم. قال: اسمع اصوات الیھود یعذبون فى قبورھم.10
  کیا تم وہ آواز سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا:اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: میں یہودیوں کی آوازیں سن رہا ہوں جن کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہا ہے۔

اسی طرح کا واقعہ حضرت بلال کے متعلق بھی منقول ہے۔چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں:

  یا بلال! ھل تسمع ما اسمع؟ قال: لا وللّٰه یا رسول اللّٰه ما اسمعه. قال: الا تسمع اھل القبور یعذبون.11
  اے بلال! کیا تو سنتا ہے جو میں سنتا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اﷲ‘ میں نہیں سنتا۔ فرمایا: کیا تو نہیں سنتا؟ ان قبر والوں (یہودیوں) کو عذاب ہورہا ہے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عام لوگ قبر کے عذاب کو نہیں سن پاتے لیکن حضور نے قبر کے عذاب کو سماعت فرمایا ۔آپ کی قوتِ سماعت کا یہ کمال ہےکہ دنیا تو کجاعالم برزخ کی آوازیں سن رہے ہیں۔

جنت و اہل جنت کی آوازوں کو سننا

اسی حوالہ سےحضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :

  ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال لبلال عند صلاة الفجر یا بلال حدثنى بأرجى عمل عملته فى الاسلام فانى سمعت دف نعلیك بین یدى فى الجنة؟ قال: ما عملت عملا ارجى عندى انى لم اتطھر طھورا فى ساعة لیل او نھار الا صلیت بذلك الطھور ما كتب لى ان اصلى.12
  حضور نبی کریم نے صبح کی نماز کے وقت حضرت بلال سے فرمایا:مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے اسلام میں جو عمل کیے ہیں ا ن میں تم کو کس عمل پر اجر کی زیادہ توقع ہے؟ کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتیوں سے چلنے کی آہٹ سنی ہے۔ حضرت بلال نے کہا :میں نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس پر مجھے زیادہ اجر ملنے کی توقع ہو۔ البتہ میں جب بھی دن یا رات کے کسی وقت میں وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے اتنی نماز پڑھتا ہوں جو میرے لیے مقدر کی گئی ہے۔

پہلے احادیث میں فرش زمین پر بیٹھ کر آسمانوں کی آواز سننے کی صراحت تھی اور اس حدیث میں تصریح ہے کہ حضور نے جنت جوکہ چھٹے آسمان میں ہے اور زمین سے لاکھوں نوری سال (Light years) دور اس کی ابتدا ہے وہاں سے حضرت بلال کے قدموں کی آہٹ کو سماعت فرمالیا ۔معلوم ہوا کہ یہ آسمان اپنی سختی وصلابت اور دوری وبعد کے باوجود بھی سماعت مصطفیٰ میں رکاوٹ اور حجاب نہیں بنتے اور حضور زمین پر ہوں تو آسمان کی آواز کو آسانی سے سماعت فرماتے ہیں اور آسمان پر ہوں تو زمین کی آواز کو آسانی سے سماعت فرماتے ہیں۔

اسی حوالہ سےام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:

  دخلت الجنة فسمعت فیھا قراء ة فقلت من ھذا؟ قالوا حارثة بن النعمان.13
  میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس میں قرآن کی قراء ت سنی، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کی حارثہ بن نعمان ۔

جب حضور نبی کریم فرش زمین پر کھڑے ہوکر اپنا دست پاک جنت تک پہنچاسکتے ہیں تو جنت میں ہوکر زمین کی آواز کو کیوں نہیں سماعت فرماسکتے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں:

  خسفت الشمس على عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فصلى قالوا: یا رسول اللّٰه رایناك تناول شیئا ثم رایناك تكعكعت؟ قال: انى رایت الجنة فتناولت منھا عنقودا ولو اخذته لا كلتم منه ما بقیت الدنیا.14
  رسول اﷲ کے عہد زریں میں سورج کو گرہن لگا تو حضور نے نماز پڑھی ۔صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اﷲ : ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، پھر دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں؟آپ نے فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا پس میں نے اس میں سے انگوروں کا ایک خوشہ پکڑا اور اگر میں اس کو لیتا تو تم اس وقت تک کھاتے رہتے جب تک دنیا رہتی۔

دوسرے شہر کے ضرورت مند کی دہائی کا مدینہ میں سننا

حضور کا سننا اور دیکھنا دوسرے انسانوں کے مثل نہیں ہےبلکہ تمام صفتوں کی طرح آپ کی سمع وبصر کی قوت بھی بے مثال اور ایک معجزانہ شان رکھتی ہے ،دور دور کی آواز سن لینا یہ آپ کے مقدس کانوں کا مشہور معجزہ ہے۔چنانچہ حضرت میمونہ بیان فرماتی ہیں :

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بات عندھا فى لیلتھا فقام یتوضا للصلاة فسمعته یقول فى متوضئه: لبیك لبیك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا فلما خرج قلت: یارسول اللّٰه سمعتك تقول فى متوضئك لبیك لبیك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا كأنك تكلم انسانا فھل كان معك احد؟ فقال: ھذا راجز بنى كعب یستصرخنى ویزعم ان قریشا اعانت علیھم بنى بكر. ثم خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فامر عائشة ان تجھزه ولا تعلم احدا قالت: فدخل علیھا ابوبكر فقال: یا بنیة ما ھذا الجھاز؟ فقالت: وللّٰه ما ادرى. فقال: وللّٰه ما ھذا زمان غزو بنى الاصفر فاین یرید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟ قالت: وللّٰه لاعلم لى. قالت: فاقمنا ثلاثا ثم صلى الصبح بالناس فسمعت الراجز ینشده...فقال: رسول اللّٰه لبیك لبیك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا… الخ.15
  نبی اکرم نے ایک رات میر ے ہاں قیام کیا آپ وضو کے لیے اٹھے تو میں نے آپ کو وضو کے دوران ارشاد فرماتے ہوئے سنا :میں حاضر ہوں ،مددکو پہنچا ،تمہاری مدد کردی گئی ہے۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ میں نے آپ کو حالت وضو میں تین بار لبیک لبیک نصرت نصرت کہتے ہوئے سنا ہے۔ گویا آپ کسی انسان سے گفتگو فرمارہے تھے۔ کیا آپ کے ساتھ کوئی تھا؟ فرمایا:ہاں! بنی کعب کا راجز مجھے مدد کے لیے پکارہا تھا۔ اور یہ گمان کررہا تھا کہ قریش نے ان کے خلاف بنی بکر کی مدد کردی ہے۔پھر رسول کریم تشریف لے گئے اورسیدہ عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ ان کی تیاری کروادیں لیکن کسی کو بتانا نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق سیدہ عائشہ صدیق کے پاس آئے اور پوچھا! اے بیٹی کس چیز کی تیاری کررہی ہو؟ انہوں نے کہا : اﷲ کی قسم مجھے معلوم نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے کہا :اﷲ کی قسم! یہ بنی اصفر کے ساتھ جنگ کرنے کا وقت تو نہیں ہے تو اﷲ کے رسول کہاں کا ارادہ فرمارہے ہیں؟ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا: اﷲ کی قسم! مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ آپ فرماتی ہیں: ہم تین دن وہاں ٹھہرے ۔ پھر ایک دن آپ نے فجر کی نماز پڑھائی پھر میں نے اسےشعر پڑھتے ہوئے سنا۔۔۔پھر رسول اﷲ نے تین مرتبہ لبیک لبیک کہا پھر تین مرتبہ نصرت، نصرت کہا ۔

امام الاصبھانی نے بھی اس روایت کو نقل کیاہے۔16اسی طرح امام ابن ہشاملکھتے ہیں:

  فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم نصرت یا عمرو بن سالم.17
  حضور نے فرمایا: اے عمرو بن سالم !تمہاری مدد کردی گئی۔

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری 18 اور امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی 19نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ وہ راجز مکہ میں تھا اور حضور اقدس مدینہ میں تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ صلح حدیبیہ میں بنی بکر قریش کی طرف سے ذمہ دار تھے اور خزاعہ حضور کی طرف سے سے ذمہ دار تھے۔ یہ ذمہ داری اس عہد پر تھی کہ آئندہ سال میں باہمی جنگ نہ ہوگی مگر قریش نے عہد اور شرائط کو توڑ دیا اور بنی بکر وغیرہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔اس وقت حضرت عمرو بن سالم راجز نے مکہ سے فریاد کی اور حضور سے مدد مانگی جس کے جواب میں حضور نبی کریم نے تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماکر اس کی مدد فرمائی چنانچہ بعد ازاں حضور نے قریش پر چڑھائی کی اور مکہ فتح ہوگیا۔ گویا ظاہری اور باطنی امداد کا ظہور ہوا۔اس حدیث کی شرح میں علامہ زرقانی فرماتے ہیں:

  ففى اخباره قبل قدومه علم من اعلام النبوة باھر فاما انه اعلم بذلك بالوحى وعلم ما یصوره راجز فى نفسه اویكله به اصحابه فاجابه بذك وانه كان یرتجز فى سفره واسمعه للّٰه كلامه قبل قدومه یثلاث ولا یعد فى ذلك فقد روى ابو نعیم مرفوعا انى لا سمع اطیط السماء وما تلام ان تئط.20
  نبی کریم کے عمرو بن سالم کے پہنچنے سے قبل اس کے متعلق خبر دینے میں نبوت کے معجزات میں سے واضح معجزہ اور امتیازی علامت ہے۔ پس یا تو آپ کو وحی کے ذریعے اس کی اطلاع دے دی گئی اور آپ نے اس کو جان لیا جو رجز خوان اپنے دل میں فریاد کے لیے مضمون تیار کررہا تھا اور سوچ رہا تھا یا اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کے متعلق کلام کررہا تھا تو آپ نے اس کے استغاثہ اور فریاد کا جواب دیا ۔وہ دوران سفر یہ رجزیہ اشعار پڑھتا آرہا تھا اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس کا کلام اس کے پہنچنے سے تین دن پہلے سنوا دیا اور اس میں کوئی استحالہ(ناممکن)، بُعد اور حیرانگی کی بات نہیں کیونکہ ابو نعیم نے مرفوع روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: بے شک میں آسمان کی چر چراہٹ سنتا ہوں اور اس کے چر چرانے پر اس کی ملامت نہیں کی جاسکتی۔

علامہ زرقانی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب حضور زمین پر تشریف فرما ہوکر ہزاروں سال دور آسمانوں کی آواز کو سماعت فرماتے ہیں تو مدینہ میں تشریف فرما ہوکر مکّہ مکرّمہ میں فریاد کرنے والے امتی کی آواز کو کیونکر سماعت نہیں فرماسکتے۔ اسی طرح امام ابن عبدالبرمالکی لکھتے ہیں:

  حیث خرج مستنصراً من مكة الى المدینة.21
  (یہ فریاد کرنے والے صحابی رسول سیدنا عمرو بن سالم بن کلثوم خزاعی حجازی تھے) انہوں نے مدد طلب کرتے ہوئے مکہ سے مدینہ منورہ کا سفر کیا۔

یعنی فریاد کرتے وقت یہ مکہ میں تھے اور حضور مدینہ منورہ میں تھے۔ معلوم ہوا کہ حضور راجز کو دیکھ بھی رہے تھے ان کی آواز بھی سن رہے تھے اور نصرت نصرت فرما کر ان کی مدد فرما رہے تھے۔

حضور کا درود و سلام سننا

اﷲ تعالیٰ نے حضور کے کان مبارک میں یہ اعجازو کمال رکھا ہے کہ وہ ہمہ وقت سب کا درود سنتے ہیں ۔ حضور سے محبت کرنے والے مسلمان اگرچہ لاکھوں میل دور شرق میں ہوں یا غرب میں، جنوب میں ہو ں یا شمال میں، عرب میں ہو ں یا عجم میں،پاکستان میں ہو ں یا ایران میں، سوڈان میں ہو ں یا افغانستان میں، صحراء میں ہو ں یا سمندر میں،آبادی میں ہو ں یا ویرانے میں،پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہو ں یا گہرے غاروں میں،الغرض کسی بھی مقام پر ہوحضور نبی کریم اس کے درود کو سن لیتے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے حضرت ابودرداء فرماتے ہیں :

  قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم :اكثرو الصلوة على یوم الجمعة فانه یوم مشھور تشھده الملائكة لیس من عبد یصلى على الا بلغنى صوته حیث كان، قلنا: وبعد وفاتك؟ قال: وبعد وفاتى ان اللّٰه حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبیاء.22
  حضور نے فرمایا مجھ پر روز جمعہ زیادہ درود پڑھاکرواس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں تم میں سے کوئی بھی شخص مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے چاہے وہ آواز جہاں کہیں کی بھی ہو۔ ہم نےعرض کیا: آپ کے وصال کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا کہ میرے وصال کے بعد بھی کیونکہ اﷲ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔

اسی طرح امام عبد الرحمن صفوری لکھتے ہیں:

  قال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: اكثروا من الصلوة على یوم الجمعة ولیلة الجمعة فان فى سائر الایام تبلغنى الملائكة صلاتكم الالیلة الجمعة ویوم الجمعة فانى اسمع صلاة من یصلى على باذنى.23
  حضور نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے دن اور شبِ جمعہ کو زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ دیگر تمام دنوں میں تمہارا درود مجھ تک فرشتے پہنچاتے ہیں مگر جمعہ کی رات اور دن کو میں تمہارا درود اپنے کانوں سے سنتا ہوں۔

اسی حوالہ سےحضرت سید محمد بن سلیمان الجزولی الشاذلی نقل کرتے ہیں:

  وقیل لرسوللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم:ارایت صلاة المصلین علیك ممن غاب عنك ومن یاتى بعدك ما حالھما عند ك فقال: اسمع صلاة اھل محبتى واعرفھم وتعرض على صلاة غیرھم عرضا.24
  حضور سے عرض کیا گیا کہ ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمائیں جو آپ سے دور ہیں اور آپ پر درود پڑھتے ہیں اور وہ لوگ جو آپ کے ظاہری زندگی کے بعد آئیں گے ان لوگوں کا آپ کے نزدیک کیا حال ہے؟ تو حضور نے فرمایا : اہل محبت کا درود تو میں خود سنتا ہوں اور ان کو پہنچانتا ہوں اور غیر محبت والوں کا درود مجھے فرشتے پہنچاتے ہیں۔

یہ ہے حضور کے گوش مبارک کا بے مثال اعجاز۔ حضور نے کتنی وضاحت وصراحت کے ساتھ اپنی صفت سماعت کو بیان فرمایا کہ میرا جو غلام بھی مجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے۔ آپ کی خدمت اقدس میں یکے بعد دیگرے جو فرشتے درود شریف پہنچانے کے لیے مقرر ہیں ان کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں :

  قال رسول اللّٰه : ان للّٰه وكل بقبرى ملكا اعطاه اسماع الخلائق فلا یصلى على احد الى یوم القیامة الا ابلغنى باسمه واسم ابیه ھذا فلان بن فلان قد صلى علیك.25
  رسول اﷲ نے فرمایا : بے شک اﷲ نے ایک فرشتے کو تمام مخلوق کی سماعت عطا کی ہے اور جب میری وفات ہوگی تو وہ قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا پس میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا وہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر کہے گا: اے محمد()! فلاں بن فلاں شخص نے آپ پر درود پڑھا ہے۔ پھر اﷲ عزوجل اس کے ہر درود کے بدلہ میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

درود شریف کی سماعت کے متعلق حضرت صدیق اکبر نبی اکرم کا فرمان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  اكثروا الصلوة على فان للّٰه تعالى و كل لى ملكا عند قبرى فاذا صلى على رجل من امتی قال ذلك الملك: یا محمد! ان فلان بن فلان یصلى علیك الساعة.26
  مجھ پر درود بہت بھیجو کہ اﷲ تعالیٰ نے میری قبرپر ایک فرشتہ متعین فرمایا ہے۔ جب کوئی میرا امتی مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھ سے عرض کرتا ہے یا رسول اﷲ :فلاں بن فلاں نے ابھی ابھی آپ پردرودپڑھا ہے۔

امام زرقانی اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  اى قوة یقتدربھا على سماع ما ینطق به كل مخلوق من انس وجن وغیرھما.27
  یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتے کو ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ انسان اور جن اور اس کے سوا تمام مخلوق الٰہی کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے اس کو سنتا ہے۔

امام عبدالرؤف المناوی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

  اى قوة یقتدربھا على سماع ما ینطق به كل مخلوق من انس وجن وغیرھما.28
  یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتے کو ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ انسان اور جن اور اس کے سوا تمام مخلوق الٰہی کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے اس کو سنتا ہے۔

یہ قوتِ سماعت ایک ایسے فرشتے کی ہے جو قرب ِمصطفی میں حاضر ہے۔ جب قربِ مصطفی سے وابستہ ایک فرشتے کا یہ حال ہے تو وہ محبوب ﷺجن کو اﷲ رب العزت نے اپنے قربِ خاص سے نوازا ہو ان کی قوتِ سماعت کا کیا عالم ہوگا۔

قبر ِانور پر فرشتے کی سماعت کس قدر وسیع اور کامل ہے کہ روئے زمین پر جو بھی جن یا انسان جس وقت اور جہاں سے نبی کریم کی ذات پر درود وسلام پڑھتا ہے تو وہ فرشتہ اس درود وسلام کو سماعت کرتا ہے اور پھر اس کو بارگاہ مصطفی میں پیش کرتا ہے۔

قمر کی آواز سننا

رسول اکرم کی قوتِ سماعت کا عالم نہ صرف جوانی میں ایسا تھا بلکہ بچپن کی حالت میں بھی اسی طرح تھا۔چنانچہ حضرت عباس بن عبد المطلب نے فرمایا:

  یا رسول اللّٰه دعانى الى الدخول فى دینك امارة لنبوتك رایتك فى المھد تناغى القمر وتشیر الیه باصبعك فحیث اشرت الیه مال قال: انى كنت احدثه ویحدثنى ویلھینى عن البكاء واسمع وجبته حین یسجد تحت العرش.29
  یا رسول اﷲ ! مجھے تو آپ کی نبوت کی نشانیوں نے آپ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی ۔میں نے دیکھا کہ آپ گہوارے میں چاند سے باتیں کرتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند جھک جاتا تھا ۔حضور نے فرمایا: میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آواز کو سنا کرتا ہوں۔

حضور نے فرمایا کہ میں چاند کے زیر عرش سجدہ کرنے کے دھماکے کو سنتا ہوں۔امام عبد الرحمن بن سلام الصفوری فرماتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبد المطلب سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا:

  والذى نفسى بیده لقد كنت اسمع صریر القلم على اللوح المحفوظ وانا فى ظلمة الاحشاء.30
  اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک میں لوح محفوظ پر چلتی قلم کی آواز سنتا تھا حالانکہ میں اماں جان کے شکم اطہر میں تھا۔

حضور کا جنتیوں کی آواز سننا اور سنانا

جس طرح حضور پر احوال برزخ و احوال جنت ودوزخ پوشیدہ نہیں ہیں اور کائنات کا ہر ذرہ حضور پر منکشف ہے۔ اسی طرح آپ میں یہ بھی طاقت ہے کہ جس کو چاہیں، زمین پر ہی جنت دکھادیں اور جنت میں رہنے والوں کی آوازیں سنوادیں۔

چنانچہ حضرت فاطمہ بنت حسین بیان کرتی ہیں کہ جب حضور نبی کریم کے فرزند حضرت قاسم کا انتقال ہوا تو حضرت خدیجہ نے عرض کیا کہ میری آرزویہ تھی کہ رب تعالیٰ قاسم کو اتنے دن اور زندہ رکھتا تاکہ ان کے ایام رضاعت پورے ہوجاتے۔ یہ سن کر نبی کریم نے فرمایا:

حضرت قاسم کے ایام رضاعت جنت میں پورے ہوں گے لیکن حضرت خدیجہ نے پھر وہی کلمات دھرائے جس پر حضور نبی کریم نے فرمایا:

  ان شئت دعوت للّٰه یسمعك صوته؟ قالت: بل صدق للّٰه ورسوله.31
  خدیجہ! اگر تم کہو تو میں دعا مانگو اور تم اس(حضرت قاسم )کی آواز سن لو؟ عرض کی: نہیں اﷲ اور رسول اﷲ نے سچ فرمایا۔

مذکورہ بالا تمام روایات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم کی قوتِ سماعت تمام مخلوقات میں سے سب سے اعلی و اقوی ہے جس کی سماعت میں یہ دنیا و آسمان گم ہیں۔اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بھی امتی کہیں سے بھی دورود شریف پڑھتا ہے تو اس درود شریف کو آپ سماعت فرماتے ہیں۔

 


  • 1 آج کے دور میں سائنس کا دائرہ ارتقاء نقطہ کمال پر ہے ۔جدید ٹیکنالوجی اور سائنس نے بہت سے معاملات جن کو چند سال پہلے ناممکن اور محال سمجھا جاتا تھا ان کو نہ صرف یہ کہ ممکن ثابت کیا بلکہ تجرباتی اور مشاہداتی سطح پر اس حقیقت کو وقوع پذیر کرکے دکھایا۔ آج سے تقریباً دو صدی پہلے سماع عن البعید یعنی دور سے سننے کا عقل انسانی تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ آج موبائل، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سٹیلائیٹ کے ذریعے مشرق کی آواز کو شمال تک پہنچانے میں کوئی (استحالہ) رکاوٹ نہیں۔ انسان اپنے گھر میں بیٹھے امریکہ اور برطانیہ میں موجود دوسرے انسانوں سے بآسانی کلام کرتے ہیں باوجودیہ کہ ہزاروں حجابات وموانع ہیں۔ایک بہت بڑا سمندر ہے، ریگستان وریگزار ہیں لیکن وہاں پر آواز اس طرح صاف پہنچتی ہے جیسے آمنے سامنے بالکل قریب بیٹھ کر بات کررہے ہوں۔ اسی طرح گھر بیٹھے ٹیلی ویژن کے ذریعے برطانیہ، ساؤتھ افریقہ، انڈیا وغیرہ میں ہونے والا کرکٹ میچ بآسانی دیکھتے ہیں وہاں کی آواز کو سنتے ہیں حالانکہ ہمارےاور اس میدان کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ سائنس دان جب اپالو 11کے ذریعے چاند پر پہنچے تو انہوں نے چاند پر پہنچ کر امریکہ میں اپنے مرکز کے ساتھ رابطہ کیا۔ انہوں نے وہاں سے کلام کیا لوگوں نے انہیں یہاں پر سنا لوگوں نے یہاں سے کلام کیا تو سائنس دانوں نے وہاں پر سنا۔جبکہ زمین اور چاند کے درمیان دو لاکھ چالیس ہزار میل کا فاصلہ ہے ۔ وہ انسان جس کی حقیقت ایک مشت خاک اور نطفہ آب سے بڑھ کر نہیں اگر یہ انسان اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت اور استعداد اور عقل و شعور کے ذریعے اتنا کمال دکھاسکتا ہے تو کیا اﷲ جل مجدہ کسی انسان کی دور کی آواز سنانے پر قادر نہیں؟ اس سے بڑھ کر خدا کی قدرت کی بے قدری اور کفرو ارتداد کیا ہوگا کہ بندہ اﷲ رب العزت کو دور کی آواز سنوانے سے عاجز سمجھے العیاذ باﷲ تعالیٰ ۔جس ذات نے محض اپنے امرِکن سے زمین وآسمان، عرش وکرسی، لوح وقلم، جنت و دوزخ، بروبحر، کوہ وکوہسار، اشجار وجبال، جنات، انسان، ملائکہ اور بے شمار مخلوق کو پیدا فرمایا، ان کے ارزاق اور سامان معیشت اس قدر فراوانی سے پیدا فرمائے،سمندروں کو مسخر کیا، زمین و آسمان کے درمیان اتنا بڑا سورج، چاند اور بے شمار ستارے مسخر ومعلق فرمائے، سوچئیے! ایسے قادر مطلق کی قدرت کاملہ سے کیا بعید ہے کہ وہ اپنے کسی بندہ کو دور کی آواز سننے کی طاقت وقوت عطا فرمائے؟ چنانچہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اﷲ رب العزت نے انسانوں کو اپنی مخلوقات ومصنوعات سے اپنی قدرت کے کمال کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔چنانچہ ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. (القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 284)
    ترجمہ:  اور اﷲ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
    یہ ایک حقیقت ہے کہ مادی قوت وطاقت کے مقابلے میں روحانی قوت و طاقت بہت زیاداس آیتِ کریمہ میں "قدیر" مبالغہ کا صیغہ ہے جس میں قدرت کے کمال اور ہر نقص و عجز سے منزہ ہونے کی طرف اشارہ ہے اور "شیء" نکرہ ہے جس میں عموم پایا جاتا ہے اور لفظ "کل" میں بھی عموم ہے جب "کل" کی اضافت نکرہ کی طرف کی جاتی ہے تو اس تعمیم میں شمول اور تاکید پیدا ہوجاتی ہے۔ "کل شیء" کے عموم میں اسماع عن البعید بھی شامل ہے تو معلوم ہوا کہ اﷲ ربُّ العزّت دور کی آواز سنوانے پر مکمل قادر ہے۔
    ہ ہے کیونکہ مادی دنیا میں تو بجلی، ٹیلیفون، ریڈیو،ٹیلویژن وغیرہ کے بغیر نہیں سناجاسکتا لیکن روحانی دنیا میں تو ان میں سے کسی کی بھی احتیاج نہیں ہے۔ اہل جنت وجہنم کا دو رسے سننا:قرآن مجید فرقان حمید میں متعلقہ پہلو کے حوالہ سے کئی مقامات پر رہنمائی فرمائی گئی ہے۔انہیں مقامات میں سے ایک مقام قرآن کریم میں درج ذیل ہے جس میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے:
    فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ. قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ اِنِّىْ كَانَ لِيْ قَرِيْنٌ. يَّقُوْلُ اَىِٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِيْنَ.  ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِيْنُوْنَ. قَالَ ہَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ. فَاطَّلَعَ فَرَاٰہُ فِيْ سَوَاۗءِ الْجَحِيْمِ.  قَالَ تَاللہِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِيْنِ. وَلَوْلَا نِعْمَۃُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ.  (القرآن، الصافات 37: 50-57)
    ترجمہ:  پھر وہ (جنّتی) آپس میں متوجہ ہو کر ایک دوسرے سے (حال و احوال) دریافت کریں گے۔ ان میں سے ایک کہنے والا (دوسرے سے) کہے گا کہ میرا ایک ملنے والا تھا (جو آخرت کا منکِر تھا۔ وہ (مجھے) کہتا تھا: کیا تم بھی (ان باتوں کا) یقین اور تصدیق کرنے والوں میں سے ہو۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہمیں (اس حال میں) بدلہ دیا جائے گا۔ پھر وہ (جنّتی) کہے گا: کیا تم (اُسے) جھانک کر دیکھو گے (کہ وہ کس حال میں ہے۔ پھر وہ جھانکے گا تو اسے دوزخ کے (بالکل) وسط میں پائے گا اس سے) کہے گا: خدا کی قسم! تو اس کے قریب تھا کہ مجھے بھی ہلاک کر ڈالے۔ اور اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں (بھی تمہارے ساتھ عذاب میں) حاضر کیے جانے والوں میں شامل ہو جاتا۔
    امام عبد الرحمن بن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر ابن ابی حاتم میں درجِ ذیل واقعہ نقل کیا ہے:
    بنی اسرائیل میں دو شخص ایک دوسرے کے شریک تھے ان میں سے ایک مومن تھا اور دوسرا کافر تھا۔ ان دونوں کو چھ ہزار دینار مل گئے ان میں سے ہر ایک اپنے حصے کے تین ہزار دینار لے کر الگ ہوگیا ۔کچھ عرصہ کے بعد دونوں کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے سے احوال پوچھے کافر نے بتایا کہ اس نے ایک ہزار دینار میں زمین، باغات اور نہر کو خریدا۔ مومن نے رات کو اٹھ کر نماز پڑھی اور ایک ہزار دینار سامنے رکھ کر دعا کی اے اﷲ ! میں تجھ سے ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں زمین، باغات اور نہر خریدتا ہوں۔ پھر اس نے صبح کو اٹھ کر وہ ایک ہزار دینار مساکین میں تقسیم کردیے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کی دوبارہ ملاقات ہوئی توکافر نے بتایا کہ اس نے ایک ہزار دینار کے غلام خرید لیے جو اس کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ مومن نے اس رات کو نماز کے بعد ایک ہزار دینار سامنے رکھ کر دعا کی کہ اے اﷲ عزوجل! میں ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں غلام خریدتا ہوں اور اس نے صبح کو ایک ہزار دینار مساکین میں تقسیم کردیے۔ کچھ عرصہ بعد پھر ان کی ملاقات ہوئی۔ کافر نے بتایا کہ اس نے ایک ہزار دینار خرچ کرکے ایک بیوہ عورت سے شادی کرلی۔ مومن نے اس رات نماز کے بعد ایک ہزار دینار اپنے سامنے رکھے اور دعا کی کہ اے اﷲ عزوجل! میں ان ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں بڑی آنکھوں والی حور سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور پھر صبح اٹھ کر اس نے ایک ہزار مساکین میں تقسیم کردیے۔ دوسری صبح کو مومن اٹھا تو اس کے پاس کچھ نہ تھا اس نے ایک شخص کے مویشیوں کو چارا ڈالنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر ملازمت کرلی۔ ایک دن اس کے مالک نے جانور کو پہلے سے دبلا پایا تو اس پر الزام لگایا کہ تم اس کا چارا بیچ کر کھاجاتے ہو اور اس کو ملازمت سے نکال دیا۔ اس نے سوچا کہ میں اپنے سابق شریک کے جاتا ہوں اور اس سے ملازمت کی درخواست کرتا ہوں۔ اس نے اس سے ملنا چاہا مگر اس کے ملازموں نے اس سے ملاقات نہ کروائی اور اس کے اصرار پر کہا کہ تم یہاں راستہ پر بیٹھ جاؤ وہ اس راستہ پر سواری سے گزرے گا تو تم ملاقات کرلینا۔ وہ کافر شریک اپنی سواری پر نکلا تو اس مومن کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا کہ کیا تمہارے پاس میری طرح مال نہ تھا پھر تمہارا اس قدر گیا گزرا حال کیوں ہے؟ مومن نے کہا کہ اس کے متعلق سوال نہ کرو۔ کافر نے پوچھا کہ تم اب کیا چاہتے ہو اس نے کہا تم مجھے دو وقت کی روٹی اور دو کپڑوں کے عوض محنت مزدوری پر ملازم رکھ لو، کافر نے کہا میں تمہاری اس وقت تک مدد نہیں کروں گا جب تک تم مجھے یہ نہیں بتاؤ گے کہ تم نے ان تین ہزار دینار کا کیا کیا؟ مومن نے کہا میں نے وہ کسی کو قرض دے دئیے ہیں۔ کافر نے پوچھا کس کو؟ مومن نے کہا کہ ایک وعدہ وفا کرنے والے غنی کو۔ کافر نے پوچھا وہ کون ہے؟ مومن نے کہا اﷲ (جل مجدہ)! کافر نے فوراً مسلمان سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور کہا کہ کیا تم آخرت اور قیامت کی تصدیق کرنے والے ہو؟ کیا جس وقت ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو اس وقت ہم کو ان کاموں کی جزادی جائے گی؟ پھر کافر اس کو چھوڑ کر اپنی سواری پر بیٹھ کر چلاگیا۔ وہ مومن بڑے عرصے تک تنگی اور ترشی کے ساتھ وقت گزارتا رہا۔ اور کافر عیش وطرب میں اپنی زندگی گزارتارہا۔ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ نے اس مومن کو جنت میں داخل کردیا اور اس کو زمین، باغات، پھل اور نہریں دکھائیں۔ اس نے پوچھا یہ کس کی ہیں؟ فرمایا تمہاری ہیں۔ اس نے کہا سبحان اﷲ! میرے تھوڑ سے عمل کی کیا اتنی عظیم جزا ہے؟ پھر اس کو بے شمار غلام دکھائے۔ اس نے پوچھا یہ کس کے ہیں؟ فرمایا تمہارے ہیں؟ اس نے کہا سبحان اﷲ! میرے معمولی عمل کا اتنا بڑا ثواب ہے ۔پھر اس کو بڑی آنکھوں والی حور دکھائی گئی تو اس نے پوچھا یہ کس کے لیے ہے؟ فرمایا تمہاری ہے اس نے کہا سبحان اﷲ! میرے اس حقیر عمل کا ثواب یہاں تک پہنچا ہے ۔پھر اس کو کافر شریک یاد آیا۔ اس نے کہا کہ دنیا میں میرا ایک صاحب تھا جو کہتا تھا کیا تم آخرت کی تصدیق کرنے والے ہو؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے اس وقت ہم کو ہمارے کاموں کا بدلہ دیا جائے گا۔ پھر اﷲ تعالیٰ اس کو اس کا کافر شریک دکھائے گا جو دوزخ کے درمیان میں پڑا ہوگا۔ مومن اس کو دیکھ کر کہے گا اﷲ (جل مجدہ) کی قسم! قریب تھا کہ تو مجھے بھی ہلاک کردیتا اگر مجھ پر میرے ربّ کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں پڑا ہوتا۔(عبد الرحمن بن ابی حاتم، تفسیر ابن ابی حاتم، ج -10، مطبوعۃ: نزار مصطفی، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 3213-3215)
    قرآن مجید کی نص قطعی سے معلوم ہوگیا کہ جنتی اس جہنمی کے احوال کا مشاہدہ کرے گا اور اس سے یہ خطاب کرے گا اور یہ خطاب اس کافر کے لیے باعث حسرت وندامت تب بن سکتا ہے جب وہ اس خطاب کوسنے تو گویا اس کافر نے وسط جہنم میں ہونے کے باوجود اس جنتی کے کلام کو سنا اور جنت کی ابتداء چھٹے آسمان سے ماورا ہے اور مختار قول میں جہنم تحت الثری میں ہے ، جنت اور جہنم کے درمیان لاکھوں میل کا فاصلہ ہے لیکن خالق جل وعلا کی کمال قدرت دیکھیئے کہ جس نے ایک جنتی کے اکرام واعزاز کے لیے اس کی رویت وبصارت کو اس قدر وسیع کردیا کہ وہ لاکھوں میل دور اس جہنمی کے احوال وعذاب کا مشاہدہ کررہا ہے اور جہنمی کے حسرت وندامت کے لیے اس کی سماعت کو اتنا وسیع کردیا کہ اس نے لاکھوں میل دور جنتی کی آواز کو وسط جہنم میں سنا۔
    اس حوالہ سےامام رازی ﷫فرماتے ہیں:
    ولا یجوز ان یسمع بعضھم خطاب بعض ویراہ علی بعد الا بان يقوی ﷲ ابصارھم واسماعھم واصواتھم۔
    ترجمہ:  یہ جائز نہیں کہ وہ دور سے ایک دوسرے کا خطاب سنیں یا دور سے ایک دوسرے کو دیکھیں مگر اس صورت میں کہ اﷲ رب العزت ان کی نگاہوں، سماعتوں او ر آوازوں کو قوی کردے۔ (فخر الدین رازی، تفسیر الکبیر، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان (لیس التاریخ موجوداً)، ص :127)
    اسی طرح ایک اور مقام پر اﷲ رب العزت نے اہل جنت کی ،اہل جھنم سے گفتگو کو بیان کرتے ہوئے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرمایا:
    وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۭ قَالُوْا نَعَمْ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيْنَہُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللہِ عَلَي الظّٰلِــمِيْنَ۝۴۴  (القرآن،سورۃ الاعراف7: 44)
    ترجمہ:  اور اہلِ جنت دوزخ والوں کو پکار کر کہیں گے: ہم نے تو واقعتاً اسے سچّا پالیا جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے فرمایا تھا، سو کیا تم نے (بھی) اسے سچّا پایا جو وعدہ تمہارے ربّ نے (تم سے) کیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کے درمیان ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہے۔
    اسی طرح اہل جھنم کی ،اہل جنت سے گفت گو کو اسی سورۃ اعراف میں یوں ارشاد فرمایا:
    وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ اَفِيْضُوْا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاۗءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ۝۰ۭ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ حَرَّمَہُمَا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ.  (القرآن، سورۃ الاعراف 7 : 50)
    ترجمہ:  اور دوزخ والے اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں (جنّتی) پانی سے کچھ فیض یاب کر دو یا اس (رزق) میں سے جو اﷲ نے تمہیں بخشا ہے۔ وہ کہیں گے: بیشک اﷲ نے یہ دونوں (نعمتیں) کافروں پر حرام کر دی ہیں۔
    ان آیات میں واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ اہل جنت، اہل جہنم کو پکاریں گے اور اہل جہنم،اہل جنت کو پکاریں گےاور دونوں فریقوں کے درمیان لاکھوں میل کی مسافت ہوگی۔ اہل جنت نے بھی دور سے یہ سمجھ کر پکارا کہ اہل جہنم ہماری پکار وندا کو سماعت کریں گے اور اہل جہنم نے بھی یہ سمجھ کر دور سے ندا کی کہ اہل جنت ہماری پکار و ندا کو سماعت کریں گے۔اسی حوالہ سے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    کل فریق من اھل الجنۃ ینادی۔
    ترجمہ:  یعنی اہل جنت کا ہر گروہ اہل جہنم کو پکارے گا۔  (فخر الدین رازی، تفسیر الکبیر، ج-14، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي ، بيروت،لبنان، 1420 هـ،ص:245)
    ایک سوال کا جواب :علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے "التذکرۃ" میں اس آیت پر وارد ہونے والے سوال اور پھر اس کے جواب کو نقل کیا ہے۔چنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریر کرتے ہیں:
    السوال: ولعلک تقول کیف یری اھل الجنۃ اھل النار واھل النار اھل الجنۃ؟ وکیف یسمع بعضھم کلام بعض وبینھم ما بینھم من المسافۃ وغلظ الحجاب؟الجواب: فیقال لک لا تقل ھذا، فان ﷲ تعالیٰ یقوی اسماعھم وابصارھم حتی یری بعضھم بعض ویسمع بعضھم کلام بعض، وھذا قریب فی القدرۃ۔
    ترجمہ:  شاید تو کہے کہ اہل جنت، اہل جہنم کو اور اہل جہنم، اہل جنت کو کیسے دیکھیں گے اور وہ ایک دوسرے کا کلام کس طرح سنیں گے حالانکہ ان کے درمیان بہت مسافت اور سخت حجاب ہوں گے؟ پس تجھے جواب دیا جائے گا کہ تو یہ بات نہ کر اس لیے کہ بے شک اﷲ تعالیٰ ان کی سماعتوں اور بصارتوں کو قوی کردے گا حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے بھی اور ایک دوسرے کا کلام سنیں گے بھی اور یہ اﷲ رب العزت کی قدرت کے قریب ہے۔  (ابو عبداﷲ محمد بن احمد قرطبی، التذکرۃ باحوال الموتیٰ وامور الاخرۃ، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)،ص:347)
    جب اہل جنت اور اہل جہنم کی سماعت و بصارت کے پیمانے آخرت میں اتنے وسیع ہوں گے اور ہزاروں، لاکھوں میل بھی ان کی رویت وسماعت میں مانع وحجاب نہیں بنیں گے تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ اﷲ رب العزت اپنے پیاروں اوربالخصوص اپنے حبیب کریم ﷺ کے خصوصی مقام اور آپ ﷺ کی وہ وجاہت ومنزلت جواﷲ عزوجل کی بارگاہ میں ہے اس کے پیش نظر اﷲ عزوجل مذکورہ سماعت سے بھی قوی واکمل سماعت سے آپ ﷺ کو اسی دنیا میں نوازدے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اﷲ رب العزت تمام مومنین کو آخرت اور جنت میں اپنی ذات کا دیدار عطا فرمائے گا لیکن اپنے حبیب کریمﷺ کی انفرادی، اعجازی اور اختصاصی حیثیت کے پیش نظر آپ ﷺکو اسی دنیا کی زندگی میں اپنے دیدار سے شاد کام فرمایا۔
    چیونٹی کاکلا م سننا:
    اسی طرح قرآن مجید میں ایک واقعہ مذکور ہوا ہے۔اس واقعہ میں حضرت سلیمان کا 3میل کی مسافت سے چیونٹی کا کلام سننے کا ذکر ہوا ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
    حَتّٰٓي اِذَآ اَتَوْا عَلٰي وَادِ النَّمْلِ ۙ قَالَتْ نَمْــلَۃٌ يّٰٓاَيُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ ۙ وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ. فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِہَا۔  (القرآن، سورۃ النمل27: 18-19)
    ترجمہ:  یہاں تک کہ جب وہ (لشکر) چیونٹیوں کے میدان پر پہنچے تو ایک چیونٹی کہنے لگی: اے چیونٹیو! اپنی رہائش گاہوں میں داخل ہو جاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہوتو وہ (یعنی سلیمان علیہ السلام) اس (چیونٹی) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے.
    اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام مقاتل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    وقد سمع قولھا من ثلاثۃ امیال۔
    ترجمہ:  حضرت سلیمان نے چیونٹی کی بات تین میل کی مسافت سے سن لی۔ (حسین بن مسعود بغوی، معالم التنزیل، ج-3، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:405)
    اس کی مزید تفسیر کرتے ہوئے حضرت محمود آلوسی فرماتے ہیں:
    والسمع من سلیمان منھا غیر بعید لان الریح کما جاء فی الاثار توصل الصوت الیہ اولأن ﷲ تعالیٰ وھبہ اذ ذاک قوۃ قدسیۃ سمع بھا۔
    ترجمہ:  حضرت سلیمان کا اتنے فاصلہ سے چیونٹی کی آواز سن لینا بعید نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ آثار میں ہے کہ ہوا نے آپ تک آواز پہنچا دی تھی یا اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسی قوت قدسیہ عطا کی تھی جس سے انہوں نے یہ بات سن لی۔ (محمود آلوسی بغدادی، روح المعانی ،ج- 19، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجود اً)، ص:231)
    اگر کوئی بہت اونچی آواز والا انسان 3میل کی دوری سے ہمیں پکارے تو ظاہر ہے کہ ہم اس کی آواز سننے سے عاجز ہیں چہ جائے کہ ایک چیونٹی کی آواز 3میل سے سنیں۔ جس کو اگر ہم اپنے کان میں بھی رکھ دیں تو اس کی آواز نہیں سن پاتے۔لیکن حضرت سلیمان کا باذن اﷲ کمال اور قوت سماعت دیکھئے کہ آپ نے انسان یا جن نہیں بلکہ چیونٹی کی آواز کو سنا اور قریب سے نہیں بلکہ 3میل کی دوری سے سنا۔
    مزید اس حوالہ سےامام حاکم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں:
    اوحی ﷲ الیہ وھو یسیر بین السماء والارض انی قد زدت فی ملکک ان لا یتکلم احد من الخلائق بشیء الا جاء ت الریح فاخبرتک۔
    ترجمہ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر ا حال میں وحی فرمائی کہ آپ علیہ السلام زمین اور آسمان کے درمینا چل رہے تھے کہ (اے سلیمان) بے شک میں نے تمہاری بادشاہت میں یہ اضافہ کر دیا ہے کہ مخلوقات میں جو کوئی بھی جو بات کرے گا ہوا تجھے اس کے بارے میں بتا دے گی۔ (یعنی وہ بات آپ علیہ السلام کے سمع مبارک تک پہنچ جائے گی) (ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم ، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4141، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990ء، ص:644)
    روایت میں "احد "اور "شیء" کے الفاظ نکرہ ہیں جس کا مفاد عموم ہے۔ یعنی جن و انس خواہ وہ مشرق ومغرب اور شمال و جنوب کسی بھی خطہ زمین پر آباد ہوں اور جو بات بھی کریں تو ہوا وہ بات آپ علیہ السلام تک پہنچا دے گی اور واقعتاً اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ سے کچھ بعید نہیں کہ کسی کو اس قدر قوی سماعت عطا فرمادے۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کی قوت و سماعت کا یہ حال ہے تو حبیب کبریا ﷺ کی سماعت کا کیا عالم ہوگا؟
  • 2 ابونعیم احمدبن عبداﷲ اصفہانی ،حلیۃ الاولیاء، ج- 2 ،مطبوعۃ: دارالکتب العربی بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجود اً)، ص:217
  • 3 ابوبکر بن ابی عاصم ضحاک شیبانی، الاحاد والمثانی، حدیث: 597، ج -1، مطبوعۃ: دار الرایۃ، الریاض،السعودیۃ، 1991ء، ص :442
  • 4 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، ج-4،حدیث: 2844،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً ) ،ص :2184
  • 5 محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث:2312، ج -4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت،لبنان، 1998ء، ص: 134
  • 6 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، ج -5، مطبوعۃ: موسسۃ قرطبۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 173
  • 7 امام محمد بن یزید ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، ج- 2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجوداً) ، ص :1402
  • 8 عبد الرحمن بن ابی بکرجلال الدین السیوطی، الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج-4 ،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:256
  • 9 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث :1375،ج-2، مطبوعۃ: دمشق،1422ھ، ص :99
  • 10 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 3857،ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر،1994 ء، ص :120
  • 11 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 118، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان 1990ء، ص:98
  • 12 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 1149،ج-2، مطبوعۃ: دمشق،1422ھ، ص :53
  • 13 احمد بن حنبل شیبانی، مسند احمد، حدیث: 24080، ج-40، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :96
  • 14 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 748، ج-1، مطبوعۃ: دمشق،1422ھ، ص:150
  • 15 سلیمان بن احمدالطبرانی ،طبرانی صغیر، حدیث: 968، ج-2، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:167
  • 16 اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبھانی، دلائل النبوۃ، حدیث :59، مطبوعۃ: دار طیبۃ الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجود اً) ، ص: 73-74
  • 17 امام عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویہ المعروف سیرت ابن ہشام، ج- 5،مطبوعۃ: دارالجیل بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :49
  • 18 ابو جعفر محمد بن جریر طبری ، تاریخ الطبری، ج-2،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :153-154
  • 19 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی :دلائل النبوۃ،ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجوداً )،ص :7
  • 20 ابوعبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج- 3،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص :381
  • 21 ابو عمر البر بن عاصم النمرى القرطبي ، لاستيعاب فى معرفة الأصحاب ، حدیث:1916، ج -3، مطبوعۃ: دارالجیل، بیروت،لبنان، 1412ﻫ، ص :1175
  • 22 شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی، القول البدیع، مطبوعۃ: دار الریان للتراث، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً )، ص :164
  • 23 عبد الرحمن بن سلام الصفوری، نزھۃ المجالس، ج -2، مطبوعۃ:المطبعہ الکاستلیۃ، القاہرۃ، مصر، 1283ھ،ص :86
  • 24 سید محمد بن سلیمان الجزولی الشاذلی، دلائل الخیرات،مطبوعہ: نول کشور لکھنؤ،انڈیا،1309 ھ، ص :24
  • 25 احمد بن عمر بزار ،مسند البزار، حدیث: 1425-1426، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 254-255
  • 26 علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال، ج-1، حدیث: 2181، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1981ء، ص:494
  • 27 عبد الباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج -5،مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجوداً )، ص :336
  • 28 عبدالرؤف بن تاج العارف ین المناوی ،فیض القدیر شرح جامع الصغیر، ج -2، مطبوعۃ: دارالفکر الاسلامیہ، لاہور ،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص :483
  • 29 ایضاً
  • 30 عبد الحئی بن عبد الحلیم لکھنوی، مجموعۃ الفتاویٰ، ج- 2،مطبوعہ: یوسفی واقع لکھنؤ، انڈیا،(سن اشاعت ندارد) ، ص: 97
  • 31 ابو عبداﷲ محمد ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث: 1512، ج- 1، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجود اً) ،ص:484