نبی اکرم کے موئے مبارک آپ کی نسبت وتعلق کی بناء پر انتہائی عظمت و شرف کے حامل ہیں اور صحابہ کرام کی زندگی سے ان کی حفاظت و زیارت کا ثبوت ملتا ہے1 اور ان سے امراض کی شفایابی کے لیے ان کی طرف مراجعت بھی ثابت ہے۔2حضور کے موئے مبارک کی تاریخ بالکل واضح ہے کہ کب، کہاں اور کیسے آپ نے اپنے موئے مبارک صحابہ کرام میں تقسیم فرمائے اور پھر یہ موئے مبارک نسل در نسل انتہائی ادب و احترام کے ساتھ بطورِ تبرکات کے منتقل ہوتے ہوئے ہمارے دور تک پہنچے۔ صحابہ کرام نے ان موئے مبارک کو سرمایہءِ سعادت و ذریعہ نجات سمجھا اور زندگی کے بعض اہم مراحل میں ان موئے مبارکہ کےذریعےرب تعالیٰ کی بارگاہ میں طلب و التجا اور دعا کی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنے حبیب پاک کے ان موئے مبارک کو وسیلہ ءِظفر اور باعثِ شفا بناکر اہل ایمان پر اپنا فضل و کرم فرمایا۔ 3
نبی اکرم کے موئے مبارک صحابہ کرام کے مابین تقسیم کیے جاتے تھے اور اس کا حکم بذاتِ خود سید الانبیاء دیا کرتے تھے۔چنانچہ امام مسلم نقل فرماتے ہیں:
عن أنس بن مالك:أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أتى منى، فأتى الجمرة فرماھا، ثم أتى منزله بمنى ونحر، ثم قال للحلاق خذ وأشار إلى جانبه الأیمن، ثم الأیسر، ثم جعل یعطیه الناس...وفى روایة فقسم شعره بین من یلیه، قال: ثم أشار إلى الحلاق وإلى الجانب الأیسر، فحلقه فأعطاه أم سلیم.4
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ وادی منیٰ میں تشریف فرما ہوئے، پھر جمرہ کے پاس تشریف لے کر رمیِ جمار کیا پھر منیٰ اپنی قیام گاہ پر تشریف لاکر قربانی کی۔ پھر حجام سے فرمایا کہ دائیں طرف سے میرا سر مونڈنا شروع کرو، پھر بائیں جانب سے۔ اس کے بعد آپ نے موئے مبارک لوگوں کے درمیان اپنے دست ِمبارک سے تقسیم فرمائے۔۔۔ایک اور روایت میں یوں ہے کہ اپنے قریب موجود لوگوں کے درمیان ان بالوں کو تقسیم فرمایا ۔پھر حلّاق سے فرمایا کہ بائیں جانب سے کاٹو اور انہیں ام سلیم کو عطا فرمایا۔
اسی طرح امام مسلم نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں موئے مبارک کی تقسیم کا حکم حضرت ابو طلحۃ کو دیا ہے۔چنانچہ مروی روایت میں مذکور ہے:
عن أنس بن مالك، قال:لما رمى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الجمرة ونحر نسكه وحلق ناول الحالق شقه الأیمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصارى فأعطاه إیاه، ثم ناوله الشق الأیسر، فقال:احلق فحلقه، فأعطاه أبا طلح، فقال:اقسمه بین الناس.5
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ جب جمار اور قربانی فرماچکے تو حلق فرمایا۔ حجام کی طرف اپنے سرمبارک کا دایاں حصہ کرتے ہوئے اسے مونڈنے کا حکم دیا اور ابوطلحہ انصاری کو طلب کرکے انہیں موئے مبارک عنایت فرمائے۔ پھر حجام کو حکم دیا کہ وہ آپ کے سرمبارک کا بایاں حصہ مونڈے تو اس نے سرمونڈا اور آپ نے موئے مبارک ابوطلحہ انصاری کو عنایت فرمائے اور حکم عطا فرمایا کہ اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کردو۔
اسی طرح امام ترمذی 6 اورابنِ سعد7نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہےجس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے موئے مبارک باعث تبرک ہیں اور ان کو تقسیم فرمانا رسول اللہ کی سنت ہے۔
رسول اللہ کے موئے مبارک سے برکت کاحصول کوئی نیا کام نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام کا طریقہ کار ہے۔چنانچہ شارح ِصحیح مسلم امام نووی رسول اكرم کے بال مبارک سے صحابہ کرام کی محبت وتعظیم اور ان سے تبرک حاصل کرنے کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وبیان ما كانت الصحابة علیه من التبرك بآثاره صلى اللّٰه علیه وسلم وتبركھم بشعره الكریم وإكرامھم إیاه أن یقع شىء منه إلا فى ید رجل سبق إلیه.8
(ان احادیث میں) رسول اللہ کےآثار سے صحابہ کرام کے تبرک حاصل کرنے کا بیان ہے۔۔۔۔اورنبی اکرم کے بال مبارک سے صحابہ کرام کے برکت حاصل کرنے کا اوران مبارک بالوں کی اس طرح تعظیم و تکریم کرنے کا بیان ہے کہ کوئی بھی بال صرف اس صحابی کے ہاتھ پر ہی آتا جو اس کی طرف بڑھتاتھا (یعنی نیچے نہیں آتاتھا)۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم کے موئے مبارک سے برکت حاصل کی جاتی تھی اور حصول برکت کے لیے موئے مبارک کو چُن کر اسے محفوظ رکھنا باعث برکت ہے۔اسی حوالہ سے امام زرقانی تحریر فرماتے ہیں:
وانما قسم شعره فى اصحابه لیكون بركة باقیة بینھم وتذكرة لھم وكانه اشار بذالك الى اقتراب الاجل.9
رسول اللہ نے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں اس لیے تقسیم فرمائے تاکہ وہ ان میں بطور برکت اور یادگار رہیں اور اسی سے گویا آپ نے قربِ وصال کی طرف اشارہ فرمادیا۔
یعنی رسول اکرم کے بال مبارک سے تبرکات کا ثبوت اور حصول یہ متفقہ اور مسلمہ ہے۔ امام نووی نے اس کے بعد میں مزید لکھاہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حجام کون تھے؟ ان کے نام کے سلسلے میں محدثین کا اختلاف ہے اورمشہور ہے کہ وہ معمر بن عبداللہ العدوی تھے۔10سنن ترمذی میں موجود اس واقعہ11 کی شرح کرتے ہوئے انور شاہ کشمیری تحریر فرماتے ہیں:
(أقسمه بین الناس إلخ) أى للتبرك، وھذا یدل على أخذ التبركات.12
رسول اللہ کے فرمان کہ "ان بالو ں کو لوگوں میں تقسیم کردو" کا مطلب تبرک کے لیے تقسیم کرنا ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تبرکات کا لینا جائز ہے۔
بعض روایات حدیث و سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ نے رسول اکرم کے بال کاٹنے کی سعادت حج یا عمرے کے موقع پر پائی تھی اور انہوں نے موئے مبارک اور اس کے ساتھ ساتھ ناخن کے تراشوں کو سعادتِ دارین سمجھ کر محفوظ کرلیا تھا۔ پوری زندگی ان کے پاس حضور کے یہ تبرکات موجود رہے۔ 15رجب 60ہجری میں انہوں نے وصیت کی کہ ان بالوں اور ناخن کے تراشوں کو پیس کر ان کی آنکھوں، ناک، کان اور منہ میں رکھ دیا جائے اور پھر انہیں ارحم الراحمین کے سپرد کردیا جائے۔ 13
نبی اکرم کے موئے مبارک سے صحابہ کرام برکت حاصل کرتے تھے اور ا ن کو اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن زید کو رسول اللہ کی جانب سے موئے مبارک حاصل ہوئے تھےتو انہوں نے بھی ان کو بحفاظت رکھا تھا۔چنانچہ مسند احمدمیں اس حوالہ سے منقول ہے:
عن محمدِ بنِ عبد اللّٰه بن زیدٍ أن اباہُ حدثه أنه شھد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عندَ المنحر ھو ورجل من قریشٍ وھو یقسم الأضاحى، فلم یصبه شىءٌ ولا صاحِبَه، فحَلَقَ رسولُ اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلمرأسَه فى ثوبه فأعطاه فقسّم منه علٰى رجالٍ، وقَلَمَ اظفارَه فأعطاه صاحِبَه قال: فانَّه عندنا مخضوبٌ بالحناءوالكتمِ یعنى شعرَه.14
محمد بن عبد اللہ بن زید سے مروی ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن زید نے ان سے بیان کیا کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منحرکے پاس نبی کے قریب موجود تھے دراں حال کہ آپ قربانی کے جانور تقسیم فرمارہے تھے اور ان کو اور ان کے ساتھی کو کوئی جانور نہیں ملا ۔پھرآپ نے اپنے سرِمبارک کا حلق اس طرح کرایا کہ موئے مبارک آپ کے کپڑوں میں گریں۔آپ نے انھیں موئے مبارک عنایت فرمائے اور کچھ موئے مبارک دوسرے لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ آپ نے اپنے ناخن مبارک تراشے تو وہ ان کے ساتھی کو دیے۔ راوی فرماتے ہیں کہ وہ موئے مبارک ہمارے پاس ہیں جو حناء اور ایک خاص قسم کے پودے کے رنگ سے رنگین ہیں۔“
امام نووی حضرت عمر بن عبد العزیز کی رسول اکرم کے موئےمبارک کے بارے میں وصیت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وذكر النووى فى كتاب تھذیب الصفات أوصى عمر بن عبد العزیز أن یدفن معه شىء كان عنده من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وأظفار من أظفاره وقال: إذا مت فاجعلوه فى كفنى ففعلوا ذلك.15
اورامام نووی نےاپنی کتاب تہذیب الاسماء واللغات میں ذکرفرمایا: حضرت عمر بن عبد العزیز نے وصیت کی کہ ان کے ساتھ(تبرکات نبوی میں سے)کچھ دفن کیاجائے۔ان کےپاس حضور کے موئےمبارکہ میں سےایک بال مبارک اورناخنوں میں سےایک ناخن تھا۔ انہوں نےفرمایا: میں مرجاؤں تو اس کو میرےکفن میں رکھ دینا۔پس ایسا ہی کیاگیا۔
اسی طرح حضرت معاویہ کےبھی متعلق منقول ہے۔ 16اِسی طرح صحابہ کرام اپنے وارثین کو اپنی وصیت میں اس بات کا حکم دیتے تھے کہ وصال کے بعد اُن کے مدفن میں موئے مبارک مصطفٰی رکھ دیے جائیں۔ اس سے اُن کا مقصد رسول اکرم کے موئے مبارک سے تبرک حاصل کرنا ہوتا تھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام ابن حبان تحریر فرماتے ہیں:
قال الإمام الحافظ ابن حبان فى قسمة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم شعره بین أصحابه، أبین البیان بأن شعر الإنسان طاھر، إذ الصحابة إنما أخذوا شعره صلى اللّٰه علیه وسلم لیتبركوا به، فبین شادّ فى حجزته، وممسك فى تكته، وآخذ فى جیبه، یصلون فیھا، ویسعون لحوائجھم وھى معھم، وحتى إن عامة منھم أوصوا أن تجعل تلك الشعره فى أكفانھم، ولو كان نجسا لم یقسم علیھم صلى اللّٰه علیه وسلمالشىء النجس، وھو یعلم أنھم یتبركون به.17
امام حافظ ابن حبان نے بیان فرمایا: نبی اکرم کااپنے بال مبارک کواپنے اصحاب میں تقسیم کرنے میں مکمل وضاحت ہےکہ انسان کےبال پاک ہیں۔کیونکہ صحابہ کرام نے آپ ﷺکےموئے مبارک بطورتبرک حاصل کیےتھے۔ پس ان میں بعض نے اپنے وسط میں باندھ لیے،بعض نے ازار میں اُڑس لیےاورکچھ اپنے ساتھ جیب میں ہی لیےرہتےاوراسی حالت میں نماز پڑھتے، انہیں ساتھ لےکراپنی حاجات کے لیے نکلتے، یہاں تک کہ ان میں کئی لوگوں نے وصیت کی کہ اس موئے مبارک کو ان کےکفن میں رکھاجائے۔اگر یہ ناپاک ہوتے تو حضور نبی کریمان میں ناپاک شےتقسیم نہ فرماتے۔آپ جانتےتھےکہ صحابہ کرام ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہو اکہ نبی اکرم کے موئے مبارک انتہائی عظمت و شرف والے ہیں جن سے مرنےکے بعد بھی برکت کا حصول کیا جاتارہاہے۔
رسول اللہ کےموئے مبارک سے امراض سے شفایابی بھی حاصل کی جاتی تھی۔چنانچہ منقول ہےکہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس بھی جورسول اللہ کے موئے مبارک محفوظ تھے ان سے لوگ شفایابی حاصل کیا کرتے تھے۔اگر کسی کو نظرِ بدلگتی، یاکوئی بیمار ہوتا تو وہ پانی بھیجتے، موئے مبارک اس میں ڈال دئیے جاتے، لوگ وہ پانی استعمال کرتےتو ان کی برکت سے شفاء مل جاتی تھی۔صحیح بخاری میں اس حوالہ سے روایت منقول ہے:
عن عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: أرسلنى أھلى إلى أم سلمة زوج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح من ماء... من قصة فیه شعر من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وكان إذا أصاب الإنسان عین أو شىء بعث إلیھا مخضبه.18
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے مروی ہے کہ میرے گھروالوں نے مجھے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس بھیجا ۔۔۔اس پیالہ کی وجہ سے جس میں رسول اللہ کے موئے مبارک تھے ۔جب کسی بھی شخص کو آشوب چشم یا بیماری پہنچتی تو وہ آپ کے پاس پیالہ بھیجتا (تاکہ موئے مبارک کی برکت سے شفاء حاصل ہوئے)۔
یعنی نبی کریم سے منسوب و متعلق مبارک اشیاء میں بھی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بھی لاجواب وبے مثال ہوجاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ نبی کریم کے مبارک بالوں سے امراض ختم ہوجاتے تھے۔
نبی کریم کے موئے مبارک سے دفع ِ بلیّات بھی ہوتا ہے۔چنانچہ ابن کثیر نے خلقِ قرآن کے مسئلہ میں حضرت امام احمد بن حنبل کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے نقل کیا ہےکہ معتصم کی خلقِ قرآن کی بات نہ ماننے پر اس نے کہا:
خُذُوه واخلعوه واسحبوه قال أحمد: فأخذتُ وسحبتُ وخلعتُ وجىء بالعقابین والسیاط وأنا انظر، وكان معى من شعراتِ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مصرورة فى ثوبى، فجردونى منه وصرت بین العقابى.19
ان کو پکڑو اور کھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑدو۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ مجھے پکڑکر کھینچا گیا اور میرے ہاتھ اکھیڑے گئےاور میری نظروں کے سامنے تازیانے لگانے کے لیے دو لکڑیاں اور کوڑے لائے گئے۔ میرے ساتھ نبی اکرم کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک تھے جو میرے کپڑے میں بندھے (رکھے) ہوئے تھے۔ انھوں نے وہ کپڑا میرے بدن سے اتارلیا اور میں دو لکڑیوں کے درمیان (معلق)ہوگیا۔
اسی حوالہ سے حافظ شمس الدین ذہبی مزید نقل فرماتے ہیں:
قال: وقد كانَ صار الى شعرٌ من شعرِ النبى َصلى اللّٰه علیه وسلم فى كمّ قمیصى، فوجَّه الى اسحاقُ بنُ ابراھیمَ، یقول: ما ھذا المصرور؟ قلت شعرٌ من شعر رسولِ اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وسعى بعضھم لیخرق القمیص عنّى، فقال المعتصم لاتخرقوه، فنزع، فظننت أنه انما دُرِى عن القمیصِ الخرقُ بالشعر.20
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نبی کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک مجھے حاصل ہوئے تھے جو میرے کُرتے کی آستین میں تھے۔اسحاق بن ابراہیم میرے پاس آکر کہنے لگا: یہ بندھی (رکھی) ہوئی چیز کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ کے چند موئے مبارک ہیں، خلیفہ کے آدمیوں میں سے ایک میرا کُرتا پھاڑنے کے لیے لپکا تو معتصم نے کہا: اس کو مت پھاڑو، پس کرتا اتارلیا گیا۔میرے گمان میں موئے مبارک کی برکت کی وجہ سے کرتا پھاڑے جانے سے محفوظ رہا۔
یعنی نبی اکرم کے موئے مبارک کی بدولت قمیص کی بے حرمتی نہیں کی گئی اور یوں قمیص پھٹنے اور خراب ہونے سےبچ گئی۔
رسول اللہ کے موئے مبارک صرف حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس ہی رہ کر نا پید و غائب نہیں ہوئے جیسا کہ عمومی طور پر تمام اشیاء کا حال ہوتا ہے بلکہ انہی صحابہ کرام نے بعد میں آنے والوں کے لیے اُنہیں رکھ چھوڑا اور یوں بعد والوں کو نبی اکرم کے موئے مبارک حاصل ہوئے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں اس حوالہ سے منقول ہے:
عَنِ ابنِ سیرینَ قال: قلت لعَبِیدة: عندنا من شعرِ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اَصبناه مِن قبلِ انس او من قبل أھل انس فقال: لأن تكون عندى شعرة منه أحب الى مِنَ الدنیا وما فیھا.21
حضرت محمد ابن سیرین سے مروی ہے کہ میں نے عبیدہ (سلمانی) سے کہا: ہمارے پاس نبی کے چند موئے مبارک ہیں جو ہمیں حضرت انس سے یا کہاکہ ان کے خاندان کی جانب سے حاصل ہوئے ہیں۔ عبیدہ سلمانی نے کہا: میرے پاس آپ کا ایک موئے مبارک ہونا مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ پسند ہوتا۔
اور اسی طرح موئے مبارک منتقل ہوتے ہوتے امتِ مسلمہ میں موجود رہے اور آج بھی ان موئے مبارک کی زیارت سے آنکھوں اور دل کو سکون بخشا جاتا ہے۔
اسی طرح حضرت خالد بن ولید نے پوری زندگی موئے مبارک کو انتہائی حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھا بلکہ اسے اپنے عمامہ کی ٹوپی میں سی دیا اور جنگ کے دوران وہ ہمیشہ اس ٹوپی کو اپنی حفاظت اور موئے مبارک سے مستقل حصول برکت کے لیے پہنے رہتے۔ دوران جنگ کبھی سرعت رفتار کی وجہ سے یا دائیں بائیں تیزی سے تحرک یا دشمن کی طرف سے شدید یلغار کی صورت میں آپ کے سر سے اگر یہ ٹوپی گر جاتی تو حضرت خالد میدان جنگ کے خونی حالات سے بے نیاز ہوکر سب سے پہلے اس ٹوپی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے تاکہ جنگ کے کسی بھی لمحے میں وہ حضور کے موئے مبارک کی برکتوں سے محروم نہ ہونے پائیں۔ حضرت خالد بن ولید نے عمرہ کے موقع پر رسول اللہ کے حاصل ہونے والے موئے مبارک اپنی ٹوپی میں سی کر رکھ دئیے تھے اور ان کی برکت سے جنگ میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی۔چنانچہ علامہ عینی فرماتے ہیں:
قد ذَكرَ غیرُ واحدٍ أن خالدَ بنَ الولیدِ رضى اللّٰه عنه كانَ فى قلنسوته شعراتٌ من شعره صلى اللّٰه علیه وسلم فلذلك كان لا یقدم على وجه الّا فتح له.22
کئی حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد بن الولید کی ٹوپی میں رسول کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ اسی وجہ سے حضرت خالد جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے تو اُنھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔
اسی حوالہ سے مجمع الزوائد میں منقول ہے:
أن خالد بن الولیدِ فقدقلنسوة له یوم الیرموك. فقال: اُطْلبوھا، فلم یَجدوھا. فقال: اُطْلبوھا، فوَجدوھا، فاذا ھى قلنسوة خَلِقة، فقال خالد: اعتمر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فحَلق رأسَه، فابتدرالناسُ جوانبَ شعره، فسبقتُم الٰى ناصیته، فجعلتُھا فى یذه القلنسوة، فلم أشْھدْ قتالا وھى معى الاّ رُزقتُ النصرة.23
حضرت خالد بن الولید کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی۔ اُنھوں نے لوگوں سے فرمایاکہ اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پرنہیں پائی تو حضرت خالد نے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا تو اب کی بار لوگوں نے پالی۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے۔ (اس کے باوجود جس اہتمام سے اسے تلاش کیا اور کروایاتو اس پر لوگوں کو تعجب ہوا۔ ان کے تعجب وحیرت کو ختم کرنے کے لیے) حضرت خالد نے فرمایا: رسول اللہ نے عمرہ ادا فرمایا اوراس کے بعد اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا تو لوگ آپ کے سرمبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے۔ پس میں نے آپ کے سرمبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیےاور اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا تو(موئے مبارک کی برکت سے)اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔
حضرت خالد بن ولید کے دوران جنگ اس طرح بظاہر معمولی نظر آنے والے کام کی شدید نکارت کرتے ہوئے صحابہ کرام اور پھر انہیں حضرت خالد بن ولید کی طرف سے دیے گئے تسلّی بخش جواب کا ذکر کرتے ہوئےقاضی عیاض الشفاء میں تحریر فرماتے ہیں:
كانتْ فى قلنسوة خالد بنِ الولیدِ شعراتٌ من شعرہ صلى اللّٰه علیه وسلم فسقطَتْ قلنسوتُه فى بعض حروبه، فشدَّ علیھا شدة انكر علیه أصحابُ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لكثرة من قتلٍ فیھا، فقال: لم اَفْعَلْھا بسببِ القلنسوة بل لما تضمنته من شعره صلى اللّٰه علیه وسلم لئلا اسلب (وفى نسخة: تسلب) بركتَھا وتقع فى أیدى المشركین.24
حضرت خالد بن الولید کی ٹوپی میں رسول اللہ کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ ایک جنگ میں آ پ کی ٹوپی گرگئی تو اس کے لیے انھوں نے سخت حملہ کیا (جو) نبی ﷺکے اصحاب (کو غیرمعمولی معلوم ہواتو اس لیے انھوں) نے ان پر نکیر کی کیوں کہ اس حملہ میں بہت آدمی قتل ہوئے۔ حضرت خالد نے فرمایاکہ میں نے یہ حملہ ٹوپی کی وجہ سے نہیں کیا تھابلکہ اس میں رسول اللہ کے موئے مبارک تھے تبھی کیاتھا کہ مبادا کہیں میں ان کی برکت سے محروم نہ ہوجاؤں اور یہ مبارک بال مشرکین کے ہاتھ میں پہنچ جائیں۔
اسی طرح خدانخواستہ اگر کبھی یہ ٹوپی اور عمامہ کسی وجہ سے گھر میں رہ جاتا یا آپ ہنگامی حالات کی وجہ سے اس کو پہننے سے قاصر رہ جاتے تو ایسی صورت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد کے طور پر ایسا انتظام کردیا جاتا کہ موئے مبارک سلی ہوئی ٹوپی والا عمامہ کسی نہ کسی ذریعہ سے آپ تک پہنچ جایا کرتا۔چنانچہ درج ذیل واقعہ میں پوری تفصیل مذکور ہے:
حضرت خالد بن ولید جب جبلہ کے لشکر کی طرف دس مجاہدین اسلام سواروں کو خفیہ طور پر لے کر گئے اور بدعہد و بے وفا والی قنسرین کو گرفتار کرکے قتل کردیا تو رومی لشکر نے اپنے سامنے اپنے سردار کا اس طرح کٹتا ہوا سر دیکھ کر برداشت نہ کیا،انہیں بے حد قلق ہوا اور وہ غصہ میں آپے سے باہر ہوگئے۔بالخصوص مرتد جبلہ بن ایہم نے غصہ سے مسلمانوں کو للکارتے ہوئے کہا اب تم ہمارے ہاتھوں سے بچ کر نہیں جاسکتے، اب تمہارا قتل ہم پر لازم ہے۔ اس مرتد نے نصرانی عربوں اور رومیوں کو جنگ کے لیے برانگیختہ کیا اور انہیں کہا کہ اب ان مسلمانوں میں سے کوئی بچ کر نہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت خالد بن ولید اور آپ کے دس ساتھیوں پر حملہ کردیا اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ مسلمان اس شدید کٹھن مرحلے میں بالکل نہیں گھبرائے، ثابت قدمی سے جم کر مقابلے میں ڈٹ گئے، بڑے ہی زور و شور سے جنگ شروع ہوگئی۔
حضرت ربیعہ بن عامر جو خود اس میں شریک تھے فرماتے ہیں خدا کی قسم جب رومیوں کا ریلہ ہماری طرف آتا اور ان کے سواروں کی کثرت سے ہم پر اژدھام ہوجاتا تو حضرت خالد بن ولید اپنی جنگی مہارت سے تلوار کے زور پر انہیں پسپا اور متفرق کردیتے۔ ہمارے اور ان کے درمیان اسی طرح معرکہ ہوتا رہا۔ بظاہر ہمیں جانیں بچانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کیونکہ ہم صرف گیارہ افراد ہزاروں کے لشکر کے گھیرے میں آچکے تھے۔ گرمی اور پسینے کے باعث شدت کی پیاس بھی تھی ہمیں موت قریب نظر آرہی تھی ہم سمجھ گئے اب جام ِ شہادت نوش کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگا، جنگ کے شعلے تیز سے تیز ہورہے تھے، تلواریں چمک چمک کر سروں پر پڑرہی تھیں، مشرکین ونصاریٰ کی نعشوں سے زمین بھرتی جارہی تھی مگر پھر بھی ہم ان کفار کے نرغے میں ایسے تھے جیسے ہم ان کے ہاتھ میں قیدی ہوں۔ ربِّ کریم کی شان دیکھیں کہ ان حالات کے باوجود ہم میں سے ہر شخص اپنے مقابل کے سامنے استقلال کا پہاڑ بن کر کھڑا تھا کہ ہمیں اپنے ربِّ کریم پر پورا یقین تھا۔
اس اثنا میں ہمیں ہاتف سے غیبی آواز سنائی دی ، کوئی کہہ رہا تھاکہ نڈر اور بے خوف ذلیل ہوگیا اور خوف کرنے والا مدد پاگیا۔ اے حاملان قرآن! رحمٰن و رحیم ربّ کریم کی طرف سے تمہارا مقصد تمہارے پاس آگیا اور صلیبیوں کے مقابلے میں تمہاری نصرت اور امداد کی گئی۔ حضرت خالد اورمسلمانوں کی مدد کے لیے پردۂ غیب سے نصرت و اعانت جس طرح کی گئی ، درج ذیل واقعہ سے اس کی تفصیل ظاہر ہوتی ہے۔
حضرت علامہ واقدی حضرت اسحاق بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں میں اجنادین وغیرہ کی ہر لڑائی میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح کے ساتھ رہا ہوں، قنسرین اور حلب کے میدانوں میں بھی آپ کے لشکر میں موجود تھا،میں نے ہر جگہ جہاد میں نصرت و مدد غلبہ اور بہتری ہی دیکھی۔ ہم ایک مقام پر پڑاؤ میں پڑے ہوئے تھے حضرت ابوعبیدہ بن جراح بھی اپنے خیمے میں سورہے تھے کہ اچانک آپ مسلمانوں کو آواز دیتے ہوئے اپنے خیمے سے باہر آئے۔ وہ بلند آواز سے مسلمانوں کو پکار کر کہہ رہے تھےکہ اے مسلمانو! اُٹھو اور فوراً چل پڑو مجاہدین اسلام گھیرے میں ہیں۔ مسلمان آپ کی آوازا پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی طرف دوڑے اور آپ سے پوچھنے لگے کہ حضرت کیا ہوا؟حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے فرمایا میں ابھی ابھی اپنے خیمے میں سویا ہوا تھا کہ رسول اللہ نے مجھے جھڑک کر جگایا اور سختی کے لہجے میں فرمایا:
اے ابن جراح کیا تم بزرگ قوم کی امداد و نصرت سے غافل سورہے ہو، اُٹھو اور جاکر خالد بن ولید کے ساتھ جاملو کیونکہ مردود قوم نے انہیں گھیر لیا ہے، مشیت ایزدی کے تحت ہے کہ تم ان سے جاملوگے۔ مسلمان مجاہدین نے ابوعبیدہ بن جراح سے یہ سنتے ہی ہتھیار، زِرہیں وغیرہ سنبھال لیے اور جلدی سے حضرت ابوعبیدہ کی طرف جانے لگے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح لشکر کے آگے جارہے تھے کہ اچانک آپ کی نظر ایک ایسے سوار پر پڑی جو سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے تمام لشکر سے آگے ہوا کی رفتار سے جارہا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کچھ سواروں کو حکم دیا کہ تیز رفتاری سے جاکر اس سوار کو پکڑو مگر بسیار کوشش کے باوجود کوئی سوار بھی اسے نہ پہنچ سکا تو حضرت ابوعبیدہ نے اس سوار کو آواز دی ۔ ان کی آواز پر وہ سوار رُک گیا۔ حضرت ابوعبیدہ اس سوار تک پہنچے مگر یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہ سوار تو حضرت خالد بن ولید کی زوجہ محترمہ حضرت ام تمیم ہیں، حضرت ابوعبیدہ نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا کہ تو اتنی تیز رفتاری سے ہمارے آگے آگے جارہی ہے۔ حضرت ام تمیم نے فرمایا۔
اے امیر! میں نے جس وقت آپ کی آواز سنی کہ حضرت خالد دشمنوں کے گھیرے میں پھنس گئے ہیں تو میرے دل میں آیا کہ ان کے پاس تو حضور نبی کریم رؤف الرحیم رحمۃ اللعالمین کے گیسوئے معنبر موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے وہ دشمنوں کے گھیرے میں کیسے آسکتے ہیں، مگر پھر میں نے وہ کلاہ مبارک جس میں انہوں نے اپنے محبوب پیغمبر کے بال مبارک سجائے ہوئے تھے خیمے میں رکھا ہوا دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ وہ اسے بھول کر چھوڑگئے ہیں، اسی لیے کفار کے گھیرے میں آگئے ہیں ورنہ ان کی برکت سے وہ ہمیشہ محفوظ رہے ہیں لہٰذا میں اس کلاہ کو جلد از جلد ان تک پہچانا چاہتی ہوں۔ حضرت مصعب بن محارب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا صلیب پرستوں کے قدم اُکھڑ چکے ہیں اور انہوں نے بھاگنا شروع کردیا ہے۔ حضرت خالد بن ولید ثابت قدمی سے اپنے گھوڑے پر سوار چاروں طرف نظریں دوڑا رہے تھے اور صلیبیوں کو بھاگتا ہوا دیکھ رہے تھے، نعرۂتکبیر بلند ہوتا ہوا سُن رہے تھے اور ساتھ ہی یہ جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ اچانک یہ صورتحال کیسے وقوع پذیر ہوئی۔ آپ نے دیکھا کہ ایک سوار رومیوں کی صفوں کو چیرتا ہوا گرد و غبار سے نکل کر ان کی طرف آرہا ہے حتیٰ کہ ہمارے اردگرد جتنے رومی تھے وہ سب کے سب اس نے تہ تیغ کرکے ہمارے سامنے میدان صاف کردیا۔ حضرت خالد بن ولید فوراً اس کی طرف بڑھے اور اسے کہا اے بہادر شیردل سوار تو کون ہے؟ اس نے کہا اے ابوسلیمان خالد بن ولید میں آپ کی بیوی ام تمیم ہوں، میں آپ کا وہ کلاہ مبارک لے کر حاضر ہوئی ہوں جس کے ذریعے آپ بارگاہِ الٰہی کی طرف توسل ڈھونڈتے اور جس کی وجہ سے آپ رب کائنات رب العالمین کی بارگاہ سے نصرت و مدد طلب کرتے ہو اور جس کے سبب اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔حضرت ام تمیم فرماتی ہیں کہ میں نے جس وقت یہ کلاہ شریف آپ کو دیا تو حضور پُرنور محمد رسول اللہ کے بال مبارک سے کوندتی ہوئی بجلی کی طرح نور چمکنے لگا۔ رسول اللہ کی زندگی کی قسم! حضرت خالد بن ولید نے اپنے اس کلاہ مبارک کو سرپر رکھا ہی تھا کہ آپ نے ایک ہی حملے میں دشمن کے دانت کٹھے کردیئے۔ 25
موئے مبارک کی برکات جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی نگاہوں سے دیکھتے اور حاصل کرتے رہے وہاں امّت کے اخلاف نے بھی کھلی آنکھوں سے اُن کی برکات کا مشاہدہ کیا، اور کبھی کسی شخص کے دل میں یہ وسوسہ یا دماغ میں شک پیدا ہوا کہ موئے مبارک اصلی ہیں یا نہیں تو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے اصلی موئے مبارک کو واضح براہین کے ذریعہ ظاہر فرمادیا گیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے والد ماجد کی بیماری اور حصولِ موئے مبارک کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ ایک بار مجھے بخار نے آلیا اور بیماری نے طول پکڑا یہاں تک کہ زندگی سے نااُمید ہوگیا۔اسی دوران مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ حضرت شیخ عبدالعزیز سامنے موجود ہیں اور فرمارہے ہیں کہ بیٹے حضرت محمد تیری بیمار پرسی کے لیے تشریف لارہے ہیں اور شاید پائنتی کی طرف سے تشریف لائیں، اس لیے چارپائی کو اس طرح رکھنا چاہیے کہ حضور کی طرف تمہارے پاؤں نہ ہوں۔ یہ سُن کر مجھے افاقہ ہوا لیکن قوت گویائی نہیں تھی کہ بات کرکے کسی کو سمجھا سکوں،چنانچہ حاضرین نے میرے اشارے پر چارپائی کا رُخ پھیردیا۔اس وقت پیارے آقا تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ "کیف حالک یا بنی" ( اے میرے بیٹے کیسے ہو) اس کلام کی لذّت اس طرح غالب ہوئی کہ مجھ پر آہ و بکا اوروجد و اضطراب کی عجیب و غریب کیفیت طاری ہوگئی۔ پیارے آقا نے مجھے اس انداز سے اپنے پہلو میں کیا کہ آپ کی داڑھی مبارک میرے سر پر تھی اور آپ کا جبہ مبارک میری آنکھوں سے تَر ہوگیا۔ پھر آہستہ آہستہ وجد و اضطراب کی کیفیت حالت سکوں میں بدل گئی۔ اس وقت میرے دل میں آیا کہ مدت سے موئے مبارک کے حصول کی آرزو رکھتا ہوں،کیا ہی کرم ہو کہ اس وقت تبرک عنایت فرمائیں۔ میرے اس خیال سے آپ مطلع ہوئے اور داڑھی مبارک پر ہاتھ رکھ کر دو مقدس بال میرے ہاتھ پر آپ نے رکھ دیئے پھر میرے دل میں یہ آیا کہ یہ دونوں مقدس بال عالم بیداری میں بھی میرے پاس رہیں گے یا نہیں؟ اس کھٹکے پر مطلع ہوکر آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں بال عالم ہوش و بیداری میں بھی باقی رہیں گے اس کے بعد آپ نے صحت کُلّی اور طویل عمر کی خوشخبری سنائی اسی وقت مرض سے افاقہ ہوگیا۔ میں نے چراغ منگوایا وہ دونوں مقدس بال اپنے ہاتھ میں نہ پائے تو میں غمگین ہوکر بارگاہِ عالی کی طرف متوجہ ہوا تو پیارے آقا مثالی صورت میں جلوہ فرما ہوئے اور فرمایا: اے بیٹے عقل و ہوش سے کام لو وہ دونوں بال احتیاطاً تیرے سرہانے کے نیچے رکھ دیے تھے وہاں سے لے لو۔ افاقہ ہوتے ہی وہ دونوں بال وہاں سے اٹھائے تعظیم و تکریم سے ایک جگہ محفوظ کرکے رکھ دیئے تھے اس کے بعد دفعتاً بخار ٹوٹا اور انتہائی ضعف و نقاہت طاری ہوئی، سر سے اشارہ کرتا رہا کچھ دیر بعد اصل طاقت بحال ہوئی اور صحت کُلّی نصیب ہوئی۔
حضرت شاہ ولی اللہ کے پاس موجود دو موئے مبارک کے خواص میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ آپس میں اکھٹے رہتے ہیں مگر جب درود پڑھا جاتاتو جدا جدا کھڑے ہوجاتے تھے۔
دوسرے یہ کہ ایک مرتبہ تاثیر تبرکات کے منکروں میں سے تین آدمیوں نے امتحان لینا چاہا۔ میں اس کی بے ادبی پر راضی نہ ہوا مگر جب بحث مباحثہ طویل ہوا تو کچھ عزیزان مقدس بالوں کو سورج کے سامنے لے گئے اس وقت بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا حالانکہ سورج بہت گرم تھا اور بادلوں کا موسم بھی نہ تھا ۔یہ واقعہ دیکھ کر منکروں میں سے ایک نے توبہ کی اور دوسرے نے کہا کہ یہ اتفاقی امر ہے، عزیز دوسری مرتبہ لے گئے اسی وقت بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا اس پر دوسرے منکر نے بھی توبہ کیا مگر تیسرے نے کہا کہ یہ اتفاقی بات ہے یہ سُن کر عزیزتیسری بار موئے مبارک کو سورج کے سامنے لے گئے۔ سہ بار بادل کا ٹکڑا ظاہر ہوا اور تیسرا بھی توبہ کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک بار موئے مبارک زیارت کے لیے باہر لے آئے، بہت بڑا مجمع تھا، ہر چند صندوق مبارک کا تالا کھولنے کی کوشش کی گئی لیکن نہ کھولا۔ میں اپنے دل کی طرف متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ فلاں آدمی ناپاک ہے جس کی ناپاکی کی شامت کے سبب یہ نعمت میسّر نہیں ہورہی ہے۔ عیب پوشی کرتے ہوئے میں نے ان سب کو تجدید طہارت کے لیے حکم دیا۔ وہ ناپاک آدمی بھی مجمع سے چلاگیا۔ اور اس وقت بڑی آسانی سے تالا کھولا گیا اور ہم سب نے زیارت کی۔حضرت والد ماجد نے آخری عمر میں جب تبرکات تقسیم فرمائے تو ان دونوں بالوں میں سے ایک کاتب الحروف کو عنایت فرمایا جس پر اللہ تبارک تعالیٰ کا شکر ہے۔26
اسی واقعہ کو اختصار کے ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ اپنی دوسری کتاب میں اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بتلایا ہے کہ انہیں بیماری کی حالت میں نبی اکرم کی زیارت کا خواب میں شرف حاصل ہوا اور آپ نے ارشاد فرمایا:اے میرے بیٹے تیرا کیا حال ہے؟ پھر نبی اکرم نے انہیں بیماری سے شفایابی کی خوشخبری دی اور اپنی داڑھی مبارک کے دو بال عنایت فرمائے جس کے بعد وہ فوراً صحت یاب ہوگئے۔ اور دونوں موئے مبارک بیداری کے بعد بھی ان کے پاس موجود تھے۔ والد نے ان میں سے ایک بال مجھے عنایت فرمایا جو اس وقت بھی میرے پاس ہے۔27
موئے مبارک کی تعظیم اسی طرح ہے جس طرح خود جسم اقدس کی تعظیم ہو، کیونکہ موئے مبارک بھی جسم اقدس کا حصّہ تھا۔ لہٰذا وہ اہلِ ایمان جو خلوص دل سے موئے مبارک کی تعظیم کرتے ہیں اُن پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اِس طور پر ہوا کرتا ہے کہ اُن کی دینی اور دنیاوی زندگی کامیابی کی منازل طے کرنے لگتی ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو ایمان کے دعوے دار ہونے کے باوجود موئے مبارک کے لیے ادب و احترام بجالانے سے محروم رہتے ہیں اُنہیں ہر خیر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم نے صرف ایک واقعہ کی تفصیلات پر اکتفا کیا ہےورنہ پورے عالمِ اسلام میں آج، اس دور میں سینکڑوں ایسے افراد موجود ہیں جنہیں اپنے گھروں میں موئے مبارک رکھنے کی سعادت حاصل ہے اور اس کی برکات سے اُن کے جملہ معاملات میں رب تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں کا نزول جاری رہتا ہے۔
نبی اکرم کے موئے مبارک نہ صرف دنیاوی حاجات و اخروی حاجات کے لیے مفید ہیں بلکہ اس کی تعظیم کرنے سے قربِ الہی کی بھی دولت نصیب ہوتی ہے۔چنانچہ اسی طرح کا واقعہ بلخ کے تاجر کےبارے میں نقل کرتے ہوئے شمس الدین سخاوی تحریر فرماتے ہیں:
ان بمدینة بلغ رجل تاجر كثیر المال وكان له ابنان فتوفى الرجل وقسم ابناه المال بینھما نصفين وكان فى المیراث الذى خلفه أبوھما ثلاث شعرات من شعره صلى اللّٰه علیه وسلم فأخذ كل واحد منھما شعرة وبقيت شعرة واحدة بینھما فقال أكبرھما نجعل الشعرة الباقیة نصفین فقال الآخر لا واللّٰه بل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم أجل من أن یقطع شعره صلى اللّٰه علیه وسلم فقال الكبیر للأصغر تأخذ ھذه الثلاث شعرات بقسطك من المیراث فقال نعم فأخذ الكبیر جمیع المال وأخذ الصغیر الشعرات فجعلھا فى جیبه وصال یخرجھا ویشاھدھا ویصلى على النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ویعیدھا إلى جیبه فلما كان بعد أیام فنى مال الكبیر وكثر مال الصغیر فعاش أیاماً وتوفى فرآه بعض الصالحین فى النوم ورأى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال له قل للناس من كانت له إلى اللّٰه تعالى حاجة فلیأت قبر فلان ھذا ویسأل اللّٰه قضاء حاجته فكان الناس یقصدون قبره حتى بلغ إلى أن كل من عبر على قبره راكباً ینزل ویمشى راجلاً. 28
بلخ شہر میں ایک بہت بڑا مالدار تاجر رہتا تھا۔ وہ فوت ہوگیا اس کے دو بیٹے تھے۔ ان دونوں نے وراثت کے مال کو آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرلیا اس تاجر کے پاس حضور نبی کریم کے تین بال مبارک بھی تھے ایک ایک بال تو ان دونوں نے آپس میں تقسیم کرلیا، ایک بال مبارک باقی رہ گیا بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے کہا اس بال مبارک کو درمیان میں کاٹ کر آدھا آدھا کرلیتے ہیں چھوٹے بھائی نے کہا خدا کی قسم! حضور نبی کریم رحمۃ اللعالمین کی شان بہت بلند وبالا ہے ہمیں یہ لائق نہیں کہ ہم آپ کے بال مبارک کو کاٹیں۔ بڑے بھائی نے جب حضور نبی کریم کے بال مبارک سے چھوٹے بھائی کی اس قدر محبت معلوم کی تو اس نے اسے کہا یوں کر باپ کی جائیداد سے آدھا حصہ جو تیرے حصہ میں آتا ہے وہ بھی مجھے دے دے اور یہ تینوں بال مبارک لے لےتو چھوٹے بھائی نے کہا مجھے منظور ہے ، چنانچہ چھوٹے بھائی نے تینوں بال مبارک لے لیے اور باپ کی جائیداد سے کوئی حصہ نہ لیا سب کی سب بڑے بھائی کو دے دی۔ اس نے وہ تینوں بال مبارک بڑی عزت و احترام سے سنبھال کر رکھ لیے ،جب چاہتا بڑے ادب و احترام سے ان کی زیارت کرتا اور بوقت زیارت محبوب پیغمبر پر درود شریف بھی پڑھتا ۔کچھ ہی عرصہ کے بعد بڑے بھائی کا مال تباہ و برباد ہوکر ختم ہوگیا اور وہ کنگال ہوگیا جب کہ چھوٹا بھائی بہت زیادہ مالدار ہوگیا ،آخر وقت اجل آگیا اور چھوٹا بھائی فوت ہوگیا ۔اس کے فوت ہونے کے بعد صالحین میں سے ایک شخص کو حضور نبی کریم ﷺکی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ چھوٹا بھائی بھی حضور نبی کریم کی خدمت اقدس میں موجود ہے۔ حضور نبی کریم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس صالح شخص کو فرمایا لوگوں سے کہہ دو کہ جس کسی کو کوئی حاجت ہو تو وہ اس کی قبر پر آئے اور وہاں بارگاہِ الٰہی میں اپنی حاجت روائی کے لیے دعا کرے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی برکت سے اس کی دعا قبول فرماتے ہوئے اس کی حاجت پوری فرمادے گا۔ لوگ اس کی قبر پر آنے لگ گئے۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ جو کوئی سوار بھی اس کی قبر کے پاس سے گزرتا تو احتراماً سواری سے اتر کر پیدل چلنے لگ جاتا۔
اسی طرح کا واقعہ امام صفوری نے بھی نقل کیا ہے۔29مذکورہ بالا روایات وعباراتِ کتب سے معلوم ہوا، کہ رسول اللہ نے اپنے موئے مبارک تقسیم فرمائے تھے، حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے۔پھر انہی سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئےاوراسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے کے افراد کے پاس پہنچے اور ان کے پاس آج بھی رسول اکرم کے موئے مبارک موجود ہیں۔
ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر توپ کاپے سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق مفتی محمد تقی عثمانی اپنے سفرنامۂ جہانِ دید میں تحریر فرماتے ہیں:
یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت کی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں لیکن مشہور یہ ہے کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں۔ ان میں سرورِ دوعالم کا جبہٴ مبارک، آپ ﷺکی دوتلواریں، آپ کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ غزوۂ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقش شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتوبِ گرامی اور آپ کی مہرِ مبارک شامل ہیں۔30
مولانا اشرف علی تھانوی موئے مبارک کے حوالہ سے ایک تنبیہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
حجۃ الوداع میں حضور نے اپنے سر کے موئے مبارک اتار کر تقسیم فرمائے تھے۔ ظاہر ہے کہ بال سرپر ہزاروں ہوتے ہیں، وہ کتنوں کے پاس پہنچے ہوں گے،پھراس میں ایک ایک بال کے کتنے حصے کرکے ایک ایک نے آپس میں تقسیم کیے ہوں گے اور کتنے حفاظت سے رکھے ہوں گے۔اس لیے اگر کسی جگہ موئے مبارک کا پتہ چلے تواس کی جلدی تکذیب نہ کرنا چاہیے۔31
اسی حوالہ سے فتاویٰ رحیمیہ میں مذکور ایک سوال مذکور ہے کہ یہ مشہور ہے کہ اکثر بڑے شہروں میں اور دیہات میں حضور پُرنور کے موئے مبارک ہیں، کیا یہ درست ہے؟اور کیا اس کی تعظیم کی جائے؟ اس کےجواب میں مفتی عبد الرحیم فرماتے ہیں کہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ نبی کریم نے اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کو تقسیم فرمائے تھے۔چنانچہ فتاویٰ ابن تیمیہ میں ہے: فان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم حَلَقَ رأسَہ واعطیٰ نصفَہ لأبی طلحةَ ونصفَہ قَسَّمَہ بینَ الناسِ (یعنی نبی کریم نے اپنے سر مبارک کا حلق کروایا اور اس کے نصف موئے مبارک حضرت ابو طلحہ کو دیے اور نصف کو لوگوں کے ما بین تقسیم فرمائے) تو اگر کسی کے پاس وہ موئے مبارک ہوں تو تعجب کی بات نہیں۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو تو اس کی تعظیم کی جائے۔ اگر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں تو خاموشی اختیار کی جائے نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے، نہ تعظیم کرے اورنہ اہانت کرے۔32
موئے مبارک اگر اصلی ہوں تو دیگر تبرکاتِ نبویہ علی صاحبہا الف الف صلاة وتحیۃ کی طرح اس کی زیارت باعثِ خیر وبرکت ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں افراط وتفریط نہ ہو، کوئی اعتقادی یا عملی خرابی نہ ہو، رسومِ بدعت اور بے پردگی نہ ہو، زیارت میں کوئی تاریخ ودن معین اور ضروری نہ سمجھا جائے۔
آج کل بعض اشخاص کا کہنا ہےکہ رسول اللہ کے موئے مبارک جن حضرات کے پاس ہیں، ان سے تصدیق حاصل کی ہوئی ہے کہ موئے مبارک سے دوسرے موئے مبارک پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً ایک تھا تو دو تین ہوگئے، کسی کے پاس تو ایک ہی تھا مگر ایک میں سے پیدا ہوتے ہوتے ایک سو بیس تک پہنچ گئے اوراس نے کئی آدمیوں کو دیے۔ مذکورہ بعض اشخاص کی رائے کے تجزیے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اوّلاً سائنٹفک طریقے سے کٹا یا اکھڑا ہوا بال بڑھ سکتا ہے یا نہیں اس کو کو زیر بحث لایا جائے۔
سائنس کہتی ہے کہ بال اگنے کا عمل غدود (Follicle) میں ہوتا ہے اور یہ غدود ہماری چمڑی میں ہوتا ہے۔ پھر بال مردہ قراتین خلیے (Cells Keratin, Protein)سے بنتا ہےاوراس کے بڑھنے کے لیے غدود میں خون کا سیلان وجریان ضروری ہے۔اس اعتبار سے ظاہر ہے کہ جب بال کَٹا یا اکھڑا ہوا ہو، تو وہ از خود بڑھ ہی نہیں سکتا کیوں کہ اس کے بڑھنے کے لیے بنیادی چیزیں چمڑی اور غدود ہی ندارد ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جن لوگوں کے پاس واقعتًا رسول اللہ کے موئے مبارک ہیں تو ان کا سائنٹفک طریقے سے بڑھنا توناممکن ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے خرقِ عادت کے طور پر بڑھنے کاجسے یا تو معجزہ کا نام دیا جائے یا کرامت کاکیونکہ علامہ شہاب خفاجینے ذکر کیا ہےکہ خرقِ عادت سے مقصود محض تشریف وتکریم ہو تو وہ کرامت ہے خواہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو یا ولی کے۔33 تو اس کے لیے بنیادی بات یہ معلوم کرنی ہےکہ رسول اللہ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے یا نہیں؟ بعد از وفات خوارق کے ظہور کے سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانوی نے کراماتِ امدادیہ میں تحریر فرمایا ہے جاننا چاہیے کہ بعض اولیاء اللہ سے بعد انتقال کے بھی تصرفات وخوارق سرزد ہوتے ہیں اور یہ امر معناً حدِّ تواتر تک پہنچ گیا ہے۔34
جب ولی سے انتقال کے بعد خوارق کا صدور ہوسکتا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی سے بطریقِ اولیٰ صدور ہوسکتا ہے۔چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب نےدربارِ نبوت کی حاضری کا ایک عجیب واقعہ (نبی کریم کا معجزہ بعد الوفات) کے زیر عنوان فیض الجود کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ سرورِ عالم کے معجزاتِ باہرہ کے سامنے یہ کوئی بڑی چیز نہیں لیکن اس سے یہ امر اور ثابت ہواکہ رسالت مآب جس طرح روضہٴ اقدس میں زندہ تشریف فرما ہیں، اسی طرح آپ کے معجزات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں، سیکڑوں کی تعداد میں امت کے ہر طبقے کو پیش آتے رہتے ہیں۔35
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے لہٰذا آپ کے موئے مبارک کے بڑھنے کا معجزہ یا کرامت مستبعد نہیں بلکہ آپ کے خوارقِ عظیمہ شہیرہ کے سامنے یہ تو ادنیٰ بات ہے۔ حضور کے موئے مبارک آج بھی پوری دنیا میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ سری نگر، کشمیر، حضرت بل کے علاوہ پھلواری شریف کی خانقاہ مجیبیہ میں بھی موئے مبارک محفوظ ہیں۔برصغیر پاک و ہند کے مشاہیر علمائے کرام اور مشائخ عظام کے اداروں، مدارس، خانقاہوں اور گھروں میں اِن موئے مبارک کا دیدار خاص مواقع بالخصوص ماہِ ربیع الاوّل میں انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ کرایا جاتا ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کا یہ مشاہدہ ہے کہ موئے مبارک جو تیز روشنی میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں کا سایہ نہیں ہوتا اور جب ان کے سامنے کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھا جاتا ہے تو ان میں ایک خاص قسم کی حرکت نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ موئے مبارک بڑھتے رہتے ہیں اور اِن کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔