Encyclopedia of Muhammad

آپ کی مبارک ایڑیاں

آپ کے شمائل میں سے کسی بھی پہلو کا ذکراللہ کی عظیم تخلیق کوواضح کرتا ہے کیونکہ آپ سراپا شاہکار ربوبیت تھے۔آپ کےجسم اقدس کو دیکھنا تو انتہائی عظیم و رفیع شرف ہے،مگراس کا ذکر کرنابھی باعث تقویت ِ ایمان ہے کہ اس ذکر سے اللہ رب العز ت کی تخلیق کا ذکر جڑ ا ہواہے۔جس طرح آپ کا مکمل جسم اطہر تمام مخلوقات میں ممتاز و مشرف حیثیت کا حامل ہےبالکل اسی طرح آپ کا ہر ہر حصہ بدن انفرادی طور پر لاثانی تھا۔ اسی طرح ان حصوں میں سے ایک حصہ آپ کی ایڑیاں مبارک بھی تھیں اورآپ کی ایڑیاں مبارک بھی رب کی تخلیق کا شاہکارتھیں۔حضور کے قدمین شریفین کی ایڑیاں بھی مرقعِ حسن و جمال تھیں اور ایڑیوں پر گوشت کم تھا۔چنانچہ اس کوبیان کرتے ہوئے حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم منھوس العقبین.1
  رسول اکرم کی مبارک ایڑیوں پر گوشت کم تھا۔

امام محمد بن يوسف الصالحی الشامی نے بھی اس حدیث کو اسی طرح ذکر فرمایا ہے۔ پھر حدیث میں موجود لفظ منھوس کی شرح بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  منھوس: أى قلیل لحم العقب.2
  منہوس لفظ کا معنی ہے ایڑھیوں پر گوشت کا کم ہونا۔

امام ابن جوزی 3اور امام بغوی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔4غلام رسول سعیدی صاحب نے بھی یہی مذکورہ معنی نقل کیاہے۔5 تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس کی ایڑیاں موٹی اور پُر گوشت نہیں تھیں 6 بلکہ آپ کی ایڑیوں میں گوشت کم تھا، 7 ایڑیاں اور پنڈلیاں ہلکی تھیں 8 اور یہ آدمی کےحسن و جمال میں اضافے کا باعث ہے۔9

نبی اکرم کے پور ے جسم مبارک کی طرح آپ کی ایڑی مبارک بھی پُرازگوشت نہ تھیں بلکہ حسن و جمال کا مرقع تھیں۔ اس طور پر کہ نہ وہ اپنے پاؤں کی اصل حدسے بڑھی ہوئی تھیں اور نہ ہی پاؤں کی ضخامت میں دبی اور چھپی ہو ئی تھیں۔ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں ایڑیاں اپنے حسن سے محروم رہتی ہیں اور انسانی پاؤں عجیب وغریب نظر آتا ہے۔جس کی طرف میلانِ التفات کو فطر ت اباء کر تی ہے ۔خوبصورت معتدل ا یڑی کی ایک شا ن اور بھی ہے کہ وہ پاؤں کو اس کی اصل حالت میں رکھنے اور چلنے میں مدد دیتی ہے، اس لیے معمولی سی پاؤں کی اصل ہیئت و کیفیت سے اُ ٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ایڑی کی یہ اٹھان خدانخواستہ انسانی جوتے کی ایڑی کی طرح اٹھی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ نہایت اعتدال کے ساتھ صرف تلوے اور ایڑیوں کےفرق پرمشتمل ہی یہ اونچ نیچ ہواکرتی ہے۔

الغرض حضور اکرم کی ایڑی مبارک آپ کے جسم مبارک کی طرح معتدل، حسین و جمیل اورچمکتی ہوئی نظرآیا کرتی تھی۔ جو دیکھنے والے کو اپنی طرف فوری ملتفت کرلیا کرتی۔ جس طرح آپ کا باقی پورا جسم مبارک حسین تھا بالکل ویسے ہی آپ کی ایڑیاں بھی حسن و جمال کا مرقع تھیں۔

 


  • 1 مسلم بن الحجاج القشيرى ، صحيح مسلم، حدیث:2339، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشروالتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 1421 ھ ،ص:1029
  • 2 محمد بن يوسف الصالحى الشامي، سبل الهدى والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان 1414 ھ ،ص:78
  • 3 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا) ص:59
  • 4 ابو محمد الحسين بن مسعودالبغوى،الأنوار فى شمائل النبى المختارﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار المكتبى، دمشق، السوریۃ، 1416ھ، ص:144
  • 5 علامہ غلام رسول سعیدی،شرح صحیح مسلم ،ج-6،مطبوعہ: فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان،2014ء،ص:797
  • 6 عبدالقیوم حقانی،شرح شمائل ترمذی،ج-1، مطبوعہ: مطبع عربیہ ،لاہور، پاکستان،2002ء، ص:176
  • 7 محمد بن سعد،طبقات ابن سعد (مترجم: علامہ عبداللہ العمادی)،ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی،پاکستان، 1389ھ،ص:135
  • 8 مولانا صفی الرحمن مبارکپوری،تجلیاتِ نبوت:مطبوعہ:دارالسلام، لاہور ،پاکستان، (سن اشاعت ندارد) ،ص:397
  • 9 شیخ ابراہیم بن عبداللہ الحازمی، الرسول کانّک تراہ (مترجم:عبداستار،مسعود عالم)،مطبوعہ :دی اعجاز پرنٹر،کلکتہ،انڈیا، (سن اشاعت ندارد) ،ص:46