Encyclopedia of Muhammad

آپ کی رفتار مبارک

کائنات کی ہر چیز اللہ کی عظمت ،رفعت وبلندی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔آپ تخلیق خلقت کا سب سے اعلیٰ وارفع نمونہ تھے۔ خالق کائنات نے اپنی کمال خالِقیّت کاواضح اظہار حضور اقدس کی تخلیق کی صورت میں فرمایا۔حضور اکرم اللہ کی تخلیق کا ایک بے مثال شاہکار تھے۔ہم حضور کے جس فعل وعمل کوبھی دیکھتے ہیں تووہ اپنی مثال آپ ہے۔آپ کا ہر عمل حسن ِاعتدال کامرقع تھا لیکن بسا اوقات کچھ معاملات ومعمولات آپ ایسے بھی سر انجام فرمایا کرتے تھے کہ جس سے آپ کی جسمانی قوت کا بھرپور اظہار ہواکرتا تھا۔ آپ کے چلنے میں تیزرفتاری یہ (روحانی)قوت کے کمال کی وجہ سے تھی نہ کہ قصداََ محنت ومشقت کی وجہ سے ۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ :

  مارأیت شیئا أحسن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، كان كأن الشمس تجرى فى جبھته، ومما رأیت أحدا أسرع فى مشیته من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، كأنما الأرض تطوى له، إنا لنجھد أنفسنا وإنه لغیر مكترث.1
  میں نے نبی سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویاسورج آپ کی پیشانی میں چمک رہا ہے اور میں نے نبی سے زیادہ کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا زمین ان کے لیے لپیٹ دی گئی ہے،ہم اپنے آپ کو بڑی مشقت میں ڈال کر نبی کے ساتھ چل پاتے ،لیکن نبی پر مشقت کا کوئی اثر نظر نہ آتا تھا۔ 2

امام ابو عيسى محمد بن موسى الترمذی بھی اس حدیث کو اسی طرح بیان کرتے ہیں ۔3

یہ شان رفتار تھی کہ زمین گویاآپ کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی(یعنی ابھی چند منٹ ہوئے یہاں تھے اورکچھ ہی دیر کے بعدکہیں دورسبک خرامی کرتے ہوئےنازنین مہ جبین کی طرح شمس وقمر کی مثل طلوع وظہور فرماتے)ہم لوگ آپ کے ساتھ چلنے میں مشقت سے آپ کا ساتھ دیتے تھے اور خود آپ گویااپنی معمولی رفتار سے چلتے تھے۔ لفظ تطوي کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے عبدالقیوم حقّانی فرماتے ہیں کہ تطوی یعنی لپٹی جاتی ہے یاسمیٹ دی جاتی لنجهد ای نتعب أنفسنا یعنی ہم اپنے آپ کو تھکا لیتے تھے۔ غير مكترث : ای غیر مبال بجھدنا، آپ ہماری تکلیف اور مشقت کی پرواہ نہ کرتے،یاآپ بلاتکلف چلتے۔4

آپ کے چلنے کی کیفیت میں یہ صفات ہمیشہ نمایاں رہتی تھیں:

  1. تیزی سے چلتے۔
  2. آگےکی طرف جھک کرچلتے۔
  3. قدم اُٹھاکرچلتے۔

حضور اکرم کی رفتار مبارک میں یہ تینوں اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے یہ تینوں صفات عجزوانکساراورتواضع وعبدیت پردلالت کرتی ہیں۔ آپ کی رفتار مبارک میں غروریاتکبرکاشائبہ تک نہ ہوتاتھا بلکہ کشادہ کشادہ قدم اُٹھاتے،سینہ تان کراکڑکرنہ چلتے،نہایت ہی باوقار،عزت مندانہ اور پسنددیدہ چال چلتے تھے ۔ 5

ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی تحریرکرتے ہیں:

  إذا مشى كأنما ینحط من صبب، وإذا التفت التفت جمعا .6
  جب قدم رکھتے تو جمال کے ساتھ،جب چلتے تو نرمی کے ساتھ،رفتار تیز ہوتی تھی۔جس وقت چلتے تھے توایسا لگتاکہ جیسے اُونچائی سے نیچے آتے ہیں۔ 7

حضرت يزيد بن مثرد سے روایت ہے:

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم إذا مشى أسرع حتى یھرول الرجل وراءه فلا یدركه.8
  رسول اللسب سے زیادہ تیز رفتار تھے،ہم لوگ کوشش کرتے تھے کہ آپ کو پالیں اور آپ بے ساختہ چلتے تھے۔ 9

حضرت جابرسے روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لا یلتفت إذا مشى. وكان ربما تعلق رداؤه بالشجرة أو بالشىء فلا یلتفت. وكانوا یضحكون وكانوا قد أمنوا التفاته.10
  رسول اللہ جب چلتے تھے تو ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے اکثر آپ کی چادر درخت یا کسی اور چیز میں اٹک جاتی تھی مگر آپ پلٹتے نہ تھے ،لوگ ہنستے تھے اور آپ کے پلٹنے سے بے خوف تھے۔11

حضرت ابو ہريرہ روایت کرتے ہیں:

  كنت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى جنازة. فكنت إذا مشیت سبقنى. فالتفت إلى رجل إلى جنبى فقلت: تطوى له الأرض وخلیل إبراھیم.12
  میں ایک جنازے میں رسول اللہ کے ہمراہ تھا تو آپ میرے آگے ہوجاتے تھے،میں ایک شخص کی طرف متوجہ ہوا جو میرے پہلو میں تھےاور کہا کہ آنحضرت اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ سلام کے لئے زمین لپیٹ دی جاتی تھی۔

محمد بن یوسف صالحی شامیاس حدیث کو اسی طرح ذکر کرتے ہیں.13

حضرت سيار ابی الحكم سے مروی ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إذا مشى مشى مشى السوقى لیس بالعاجز ولا الكسلان.14
  کہ رسول اللہ جب چلتے تو بازار والے کی طرح چلتے تھے نہ تو تھکے ہوئے معلوم ہوتے تھے اور نہ اکتاہٹ سے چلتے تھے۔

آپ کے چلنے کی چال مبارک اور اُس کی کیفیت کو ابن قیم نے ماقبل کی پیش کردہ حدیث کی روشنی میں اس طرح بیان کیا ۔

  بسكینة ووقار من غیر تكبر ولاتماوت، وھى مشیة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، فاِنه مع ھذه المِشیة كان كاَنما ینحط من صبب، وكانماالارضُ تُطوى له،حتى كان الماشى معه یجھدُ نفسه.15
  تکبّر اور لاغری کے بجائے وقار اور رعونت کے ساتھ چلنا حضور کی چال کا انداز تھا، اس خوبصورت چال سے جب بھی آپ چلتے تو ایسے لگتا جیسے ڈھلان سے نیچے اتر رہے ہیں اور جیسے زمین ان کے لئے لپیٹ دی گئی ہو۔ آپ کے ساتھ چلنے والا (ساتھ ساتھ ) مشقت سے چل پاتا۔

عبدالقیوم حقانی ابن قیم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رفتارِ"ھون"کامعنی یہ ہے کہ سکون ووقار کے ساتھ بلاتکبرکے اور بلا کندھے ہلائےچلے ۔ 16 صمد ریالوی ابن الجوزی نےاپنے استدلال کے لیے جس دلیل کا سہارالیا ہے وہ یہ ارشاد باری تعالی (يمشون على الأرض هونا) اسکا بھی یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس طرح چلناکہ چال میں سکون ووقارہواورکبرونخوت نہ ہو۔17

آپ تیزرفتاری کے ساتھ چلتے تھے سست چال نہ چلتےاورآپ کے لیے زمین کو سکیڑ دیا جاتا تھا۔ معمولی رفتار سے بھی چلتے تو مسافت زیادہ طے ہوتی یہ آپ کا معجزہ تھا کہ آپ ﷺاس طورپردوسروں سے آگے نکل جاتے دوڑتے ہوئے اصحاب بھی آپکے ساتھ شریک نہ ہوپاتے تھے ۔

حضرت علی نے آنحضرت کی صفت مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:

  قال: كان إذا مشى تقلع كأنما ینحط من صبب .18
  جب آپ چلتے توقوت کے ساتھ چلتے،گویاکہ آپ کسی بلندی سے ڈھلوان کی طرف اتررہے ہیں ۔
  ویمشى ھونا، ذریع المشیة إذا مشى كأنما ینحط من صبب، وإذا التفت التفت جمیعا خافض الطرف، نظره إلى الأرض أطول من نظره إلى السماء، جل نظره الملاحظة یسوق أصحابه.19
  اور وقار سے چلتے سبک روی ایسی تھی کہ لگتا ڈھلا ن سے اتر رہے ہو۔اگر پلٹے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹے- نگاہیں نیچی رہتی۔ نظر مبارک آسمان کی جانب کم اور زمین کی جانب زیادہ رہتی۔ آپ کی ساری نظر اتنی بلند ہوتی تھی کہ اپنے صحابہ کو مدِ نظر رکھتے۔

آپسریررفتار تھے جب کبھی صحابہ کرام کے ساتھ یا تنہا اپنے قدمین شریفین پر چلاکرتے توبھرپورقوت وطاقت کے ساتھ،قدموں کو زمین پر مضبوطی کے ساتھ گاڑ کر چلاکرتے اور اس کا سبب اس کے سوااورکچھ نہیں تھاکہ آپ قوت وطاقت کا مجسم تھے اوراس کا اظہارآپ کی سبک خرامی اور چال ڈھال کی مضبوطی سے بخوبی کیاجاسکتا تھا۔

 


  • 1 امام أحمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، حدیث: 8604، ج-8، مطبوعہ: دار الحديث، القاهرة، مصر، 1416ھ، ص:392
  • 2 امام احمد بن حنبل، مسند امام احمد بن حنبل(مترجم:مولانا محمد ظفراقبال)، مطبوعہ: مکتبہ رحمانیہ ، لاہور ،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:385
  • 3 محمد بن عیسیٰ ترمذى،الشمائل المحمدية، حدیث: 116، ج-1، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:86
  • 4 مولاناعبدالقیوم حقانی، شرح شمائل ترمذی،ج-1،مطبوعہ:مطبع عربیہ ، لاہور،پاکستان،2002 ء،ص:518
  • 5 محمد اسلم زاہد،حضرت محمدﷺ کا عہدشباب،مطبوعہ:ادارت الاسلامی، لاہور،پاکستان ، 2016ء، ص:24
  • 6 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1405ھ،ص:287
  • 7 ابو بکراحمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوۃ (مترجم:مولانا اسماعیل الجاروی)، ج-1، مطبوعہ: دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان ، 2009،ص:614
  • 8 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410 ھ ،ص:287
  • 9 محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد (متر جم:عبداللہ العماد ی)،ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 1389ھ،ص:130
  • 10 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410 ھ ،ص:287
  • 11 محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد(متر جم:عبداللہ العماد ی)، ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ، کراچی،پاکستان ، 1389ھ،ص:111
  • 12 محمد بن سعد،بصری طبقات ابن سعد، ج-1،مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410 ھ ،ص:287
  • 13 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993 ء، ص:90
  • 14 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1410ھ،ص:287
  • 15 احمد بن ابی بکرالزرعی الدمشقی، زادالمعاد فی ھدی خیرالعباد، مطبوعۃ: مؤسسۃ السالۃ، بیروت، لبنان، 1425ھ ، ص:161
  • 16 مولاناعبدالقیوم حقانی،شرح شمائل ترمذی،ج-2،مطبوعہ:مطبع عیربیہ ، لاہور،پاکستان،2002 ء،ص:90
  • 17 عبدالصمدریالوی و منیر احمد وقار، خصائل نبوی (اردو شرح شمائل ترمذی)، مطبوعہ:انصارالسنہ پبلکیشنز ،لاہور، پاکستان،ص:882
  • 18 محمد بن عیسیٰ الترمذى، الشمائل المحمدية، ج- 1، مطبوعہ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :86
  • 19 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:414، ج-22، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1415 ھ، ص:155