Encyclopedia of Muhammad

آپﷺکی پنڈلیاں مبارک

رسول اللہ حسن ِ بے مثال و لاثانی کا مظہر اتم و اکمل ہیں۔آپ کی زندگی میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ کو ایک نظر دیکھنے والا آپ کے پیغام کی حقانیت و صداقیت کا اظہار نہ بھی کرسکے تو کم از کم دل میں اقرار لازمی کرتا۔اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ کا جسم اطہر اور اس پر ہونے والی انوار و تجلیاتِ ربانی کی بارش سامنے والے کے دل پر اثر انداز ہوتی اور وہ ایک گھڑی سوچنے پر مجبور ضرور ہوتا کہ اس بے داغ و بے عیب اور حسن ِ کامل کے یکتا شخص کی بات میں صداقت ضرور ہے۔

حضور کی مبارک پنڈلیاں

رسول اکرم کا حسن ِ جسمانی مجموعی طور پر بھی الگ شان رکھتا تھا اور انفرادی طور پر بھی ہر عضو کی اپنی ہی شان تھی۔انہیں اعضاء جسمانی میں سے ایک عضو ِ مبارک آپ کی پنڈلیاں مبارک بھی ہیں۔جو اپنی بناوٹ میں حسن کا اعلی شاہکار تھیں۔کیونکہ آپ کی پنڈلیاں مبارک پتلی تھیں جو کہ مردانہ حسن کے لیے ازبس ضروری چیز ہے۔چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے:

  كان فى ساقى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حموشة.1
  حضور کی مبارک پنڈلیاں پتلی تھیں۔

ابن کثیر "حموشۃ" کا معنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  اى لم یكونا ضخمین.2
  آپ کی پنڈلیاں مبارک موٹی نہ تھیں۔

امام ابن جوزی نے بھی اس حدیث مبارکہ کو نقل کیا ہے اور اس میں موجود لفظ حموشۃ کامعنی بیان کر تے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  قال المصنف: الحموشة: دقة الساقین.3
  مصنف (ابن جوزی)کہتےہیں: الحموشہ کامطلب ہےپنڈلیوں کانفاست سےپتلاہونا۔4

آپ کی پنڈلیوں کی چمک

صحابہ کرام حصولِ برکت اور اظہار محبت کے لئے آقا کی مبارک پنڈلیوں کو مس کرتے اور ان کا بوسہ لینے کا اعزاز حاصل کرتے۔ جن جن صحابہ کرام نے مبارک پنڈلیاں دیکھیں، وہ جب بھی تذکرہ کرتے تو انہیں ان کی چمک دمک یاد آجاتی اور وہ پکار اٹھتے کہ میں آج بھی اس چمک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔5

اسی حوالہ سے حضرت ابوحجیفہ سے روایت ہےکہ ایک روز آقائے محتشم اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے تو مجھے حضور کی مبارک پنڈلیاں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چشم ِتصور میں آج بھی اس منظر کی یاد اسی طرح تازہ ہے:آپ بیان فرماتے ہیں:

  كانى انظر الى وبیص ساقیه.6
  گویا میں آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔

اسی روایت کو نقل کرتے ہوئے ابوبکر احمد بن حسین بیہقی ذکر فرماتے ہیں:

  فلما دنوت منه وھو على ناقته، جعلت انظر الى ساقه كانھا جمارة.7
  پس جب میں حضور کے قریب ہوا اورآپ اونٹنی پر سوار تھے تومجھے آپ کی پنڈلی مبارک کی زیارت ہوئی، یوں لگا جیسے کھجور کےدرخت کا گوندہو۔

امام ابن جوزی اسی حوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں:

  أن أخاه سراقةأخبره قال: دنوتُ من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو على ناقته، فرأیت ساقیه فى غَرْزھا كأنھما جُمَّارة.8
  (روای کہتے ہیں کہ) انہیں ان کے بھائی حضرت سراقہ نے بتلایا کہ میں نےحبیب خدا کو قریب سے دیکھا ۔(جب آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ کی طرف جارہے تھے) آپ اونٹنی پر سوار تھے اور پاؤں مبارک غرز(رکاب) میں تھے۔ تو آپ کی پنڈلیاں (اپنی سفیدی اور چمک و دمک کی رو سے) یوں معلوم ہورہی تھیں جیسے کھجور کےدرخت کا گوند ہوں۔9

اس کی تشریح کرتے ہوئے ابن کثیر لکھتے ہیں:

  كانھا جمارة اى جمارة النخل من بیاضھما.10
  یہ تشبیہ کھجورکے گوند کے ساتھ سفیدی اور چمک میں ہے۔

آپ کی پنڈلی کی سفیدی

اس حوالہ سے امام بغوی روایت کرتے ہیں:

  عبد اللّٰه بن أبى سقبة الباھلى قال: جئت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى حجة الوداع فألفیته واقفا على بعیر كان ساقه فى غرزة الجمارة فاحتضنتھا فقر على بالسوط فقلت: القصاص یا رسول اللّٰه فدفع إلى السوط فتثنیت فقبلت ساقه ورجله صلى اللّٰه علیه وسلم.11
  حضرت عبداﷲ بن ابی سبقہ باہلی فرماتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ اپنے اونٹ پر سوارکھڑے تھے اورآپ کی پنڈلی مبارک رکاب میں تھی جو کھجورکےگوندکی مانند لگ رہی تھی ۔میں محبت وپیار کی وجہ سے اس کے ساتھ چمٹ گیا۔ آپ نے مجھے چھڑی لگائی تومیں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ! میں تو آپ سے قصاص لوں گا۔ آپ نے چھڑی میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا: لو قصاص لے لو۔ مجھے موقع مل گیا میں نے آپ کی مبارک پنڈلی اور پاؤں کا بوسہ لے لیا۔

ابن کثیر نے بھی حضرت عبداﷲ بن ابی سبقہ باہلی کی اس روایت کو اسی طرح بیان کیا ہے۔ 12اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانی روایت کرتے ہیں:

  قال: انى لفى حجة الوداع خماسى او سداسی فاخذ ابى بیدى حتى انتھینا الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بمنى یوم النحر فرایته یخطب على بغلة شھباء فقلت لابى من ھذا؟ فقال: ھذا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فدنوت حتى اخذت بساقه ثم مسحتھا حتى ادخلت كفى فیما بین اخمص قدمه والنعل فكانى اجد بردھا على كفى.13
  فرمایا: میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر اپنے والد کے ساتھ ہاتھ پکڑے ہوئے شریک ہوا اور میری عمر پانچ یا چھ برس ہوگئی تھی۔ یہاں تک کہ ہم لوگ نحر کے روز منی میں رسول اﷲ تک پہنچ گئے تومیں نے دیکھا آپ سرخی مائل خچر پر خطاب کررہے تھے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا :یہی رسول اﷲ ہیں۔ تو میں آپ کے قریب ہوتا گیا یہاں تک کہ میں نے آپ کی پنڈلی مبارک پکڑی اور اسے (بطور تبرک) مس کیا اور اپنی ہتھیلی آپ کے نعل اور قدم مبارک کے درمیان رکھ لی مجھے ابھی تک آپ کے تلوے کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا روایات سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺانتہائی شفیق و کریم تھے تو وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا تعلق رسول اللہ ﷺسے بے انتہاء قوی ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بعد از وصال بھی آپ ﷺکی ہر ہر اداء اور ہرہر عضو مبارک کی رعنائی صحابہ کرام کو یاد تھی جس کا ذکر وہ تادم وصال کرتے رہتے تھے۔

آپ ﷺ کی رانیں مبارک

 


  • 1 محمد بن عیسیٰ ترمذی، جامع الترمذی، حدیث: 3645، ج- 5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص :603
  • 2 ابو الفداء إسماعيل بن عمر الدمشقى، البدایۃ والنھایۃ، ج- 6 ۔مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص: 26
  • 3 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:55
  • 4 امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی) ، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی ، لاہور ، پاکستان، 2002ء،ص:44
  • 5 مُفتی محمد خان قادری، شاہکار ربُوبیّت، مطبوعہ: کاروانِ اسلام پبلیکشنز، لاہور، پاکستان،2005 ء،ص:398
  • 6 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث :3373، ج -3، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 1307
  • 7 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص :207
  • 8 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:55
  • 9 امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی) ، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی ، لاہور ، پاکستان،2002ء، ص:442
  • 10 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:55
  • 11 ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی ،معجم الصحابة، حدیث:1718، ج -4، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:217
  • 12 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي، جامع المسانید والسنن، حدیث :6710 ، ج -5، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:391
  • 13 ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمیيز الصحابۃ، حدیث: 4079، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 190