رسول اکرم کو اللہ تبارک وتعالی نے تمام نوع انسانی کے لیے رسول بناکر مبعوث فرمایا ہے۔اسی وجہ سے آپ کو ہرلحاظ سے کامل و اکمل ،ارفع واعلی اور احسن واجمل اشیاء عطا فرمائی گئی ہیں۔اسی طرح آپ کا جسم اطہر بھی تمام اجسام کائنات میں سب سے بڑھ کر حسین و جمیل ہے۔اس جسم اقدس کا ہر عضو اور ہر حصہ اپنی آب و تاب اور چمک میں ممتاز ومشرف ہے۔انہی اعضاء بدنی میں سے ایک عضو مبارک آپ کا شکم (پیٹ مبارک)ہے۔رسول اکرم کا شکم اطہر سینہ اقدس کے برابر تھا،بڑھا ہوا نہ تھا ۔ریشم کی طرح نرم وملائم اور چاندی کی طرح سفید تھا ۔یہی وہ شکم تھا جو اپنے مولیٰ کی رضا کی خاطر کئی کئی دن تک خالی رہتا اورآپ کبھی اس پر پتھر باندھ لیتے تاکہ کمر سیدھی رہے۔
نبی اکرم کا شکم مبارک سینہ ا قدس سے بڑھا ہوا نہیں تھا جو کہ مردانہ حسن و وجاہت کے لیے اہم ترین شئی سمجھی جاتی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سےحضرت ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سواء البطن والصدر.1
حضور کا شکم مبارک اور سینہ مبارک برابر تھے۔
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مفاض البطن.2
آپ کا شکم مبارک آپ کے سینہ سے باہر نہیں تھا۔
علماء اس برابری کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سینہ اور شکم مبارک دونوں اس طرح ایک دوسرے کے برابر تھے کہ ان میں سے کوئی ابھرا ہوا نہ تھایعنی نہ تو پیٹ سینہ سے زائد تھا اور نہ ہی سینہ پیٹ سے۔
اسی حوالہ سے امام الاجری فرماتے ہیں:
وقوله سواء البطن والصدر یعنى ان بطنه غیر مستفیض فھو مساو لصدره وان صدره عریض فھو مساو لبطنه.3
راوی کے قول میں سواء البطن والصدر کا مطلب ہے کہ آپ کا شکم مبارک بڑھا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ سینہ کے برابر تھا اور آپ کا سینہ اقدس کشادہ تھا تو وہ شکم کے برابر تھا۔
اسی طرح حضرت اُم معبد بیان کرتی ہیں کہ آپ کا شکم مبارک ایسے بڑھا ہوا نہیں تھا کہ برا محسوس ہو۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:
لم تعله ثجلة ولم تزر به صعلة.4
شکم مبارک بڑھا ہوا نہ تھا اور آپ کا پہلو نہایت پتلا اور باریک تھا۔
نبی اکرم کے شکم مبارک کے حوالہ سے حضرت اُم ہانی آپ کے شکم مبارک کے بارے میں فرماتی ہیں:
مارایت بطن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قط الا ذكرت القراطیس المثنیة بعضھا على بعض.5
میں نے حضور نبی کریم کے شکم مبارک کو ہمیشہ لپٹے ہوئے کاغذ کی طرح تہ بہ تہ نازک اور لطیف دیکھا۔
آپ کے شکم مبارک کے تین سلوٹ (یا شکن) تھے ان میں سے دوکو تہہ بند چھپالیتا تھا اور ایک ظاہر رہتا تھا یہ سلوٹ سفید سوتی کپڑے کی تہہ (لٹھے کے سفید کپڑے کی تہہ) سے زیادہ سفید تھی اور چھونے میں نرم تھی۔ حافظ ابوبکر احمد بن ابی خیثمہان مبارک تہوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ تین تھیں ان میں سے ایک تہبند ڈھانپ لیتا اور دو ظاہر رہتیں اور بعض روایات میں ہے کہ دو کو تہبند ڈھانپ لیتا اور ایک ظاہر رہتی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:
تلك العكن ابیض من القباطى المطواة والین مسا.6
وہ تینوں تہیں لپٹے ہوئے ریشمی کپڑے سے زیادہ سفید اورچھونےمیں بہت نرم تھیں۔
آپ کے جسم اطہر پر کاندھوں اور بازوؤں کے علاوہ کسی مقام پر بال نہ تھےالبتہ سینہ اقدس کے اوپر سے لے کر ناف مبارک تک بالوں کا ایک خوبصورت خط تھا جس نے آپ کے شکم مبارک کے حسن کو دوبالا کر رکھا تھا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ نے انہی بالوں کے خط کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انور المتجرد موصول ما بین اللبة والسرة بشعر یجرى كالخط عارى الثدیین والبطن مما سوى ذلك.7
آپ کا (جسم اطہر) سراپا نور اور حُسن کا پیکر تھا حلق(اقصٰى) کے نیچے سے لے کر ناف تک بالوں کی باریک لکیر تھی ،باقی سینہ اور شکم مبارک بالوں سے خالی تھا۔
حضرت علی اس کی حسن طوالت کو یوں بیان کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم طویل المسربة.8
آپ ﷺکے شکم مبارک پر بالوں کی لکیر طویل تھی۔
حضرت علی سے مروی دوسری روایت میں ہے:
كان لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شعر یجرى من لبته الى سرته كالقضیب لیس فى صدره ولا بطنه شعر غیره.9
نبی کریم کے سینہ اقدس کے اوپر سے ناف تک ایک خوبصورت باریک شاخ کی طرح بالوں کی لکیر تھی جس کے علاوہ آپ کے سینہ اقدس اور شکم مبارک پر بال نہ تھے۔
اسی طرح حضرت فاروق اعظم بھی فرماتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دقیق المسربة له شعرات من لبته الى سرته كانھن قضیب مسك اذفر ولم یكن فى جسده ولا صدره شعرات غیرھن.10
حضور نبی کریم کے سینہ اقدس کے اوپر سے لے کر ناف تک بالوں کا ایک خط بنا ہوا تھا گویا کہ وہ مشک اذفر کی ایک سطر تھی۔ آپ کے جسم اطہر اور سینہ مبارک پر ان کے علاوہ اور بال نہ تھے۔
آپ کے شکم مبارک کی دونوں اطراف نہایت ہی خوبصورت اور سفید تھیں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابیض الكشحین.11
رسول اﷲ کے دونوں پہلو سفید تھے۔
نبی کریم سراپا برکت ہیں اوراسی طرح آپ کے ہر عضو مبارک کی بھی اپنی برکت ہے۔اسی حوالہ سے روایت میں منقول ہےکہ حضرت اسید بن حضیر بیان کرتے ہیں:
عن اسید بن حضیر رجل من الانصار قال: بینما ھو یحدث القوم وكان فیه مزاح بینا یضحكھم، فطعنه النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فى حاضرته بعود فقال: اصبرنى قال: اصطبر قال: ان علیك قمیصا ولیس على قمیص. فرفع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عن قمیصه فاحتضنه وجعل یقبل كشحه. قال: انما اردت ھذا یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .121314151617181920
حضرت اسید بن حضیر بیان کرتے ہیں : ایک انصاری ایک دن لوگوں کو مزاح والی باتیں کرکے ہنسا رہا تھا تو حضور نبی کریم نے لکڑی کے ساتھ اس کے پہلو میں چوکا لگایا تو اس نے کہا :میں اس پر صبر کرلوں؟ (یعنی میں آپ کو معاف کردوں اور بدلہ نہ لوں) حضور نبی کریم نے فرمایا :بدلہ لے لو۔اس نے کہا: آپ کے بدن پر قمیص ہے اور میرا بدن بغیر قمیص کے تھا۔ حضور نبی کریم نے قمیص اٹھادی تو وہ آپ سےلپٹ گیا اور آپ کے پہلو کو چومنے لگا اور کہا: اے اﷲ کے رسول ! میرا تو صرف یہی (آپ کا بدن مبارک چومنے کا) ارادہ تھا۔
اس روایت کو امام ابن ہشام اس طرح نقل کرتے ہیں:
قال ابن اسحاق و حدثنى حبان بن واسع بن حبان عن اشیاخ من قومه ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عدل صفوف اصحابه یوم بدر وفى یده قدح یعدل به القوم فمر بسواد بن غزیة حلیف بنى عدى بن النجار...مستنصل من الصف فطعن فى بطنه بالقدح وقال: استو یا سواد. فقال: یا رسول اللّٰه ! اوجعتنى وقد بعثك اللّٰه بالحق والعدل. قال: فاقدنى. فكشف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بطنه وقال: استقد. قال: فاعتنقه فقبل بطنه. فقال: ما حملك على ھذا یا سواد؟ قال: یا رسول اللّٰه! حضر ما ترى فاردت ان یكون اخر العھد بك ان یمس جلدى جلدك. فدعا له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بخیر.21
امام ابن اسحاق نے کہا: مجھ سے حبان بن واسع بن حبان نے اپنی قوم کے بعض شیوخ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اﷲ بدر کے روز اپنے صحابہ کرام کی صف بندی کررہے تھے۔ آپ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس کے اشارہ سے اپنی قوم کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے۔ حضور بنی عدی بن نجار کے حلیف حضرت سواد بن عزیہ کے پاس سے گزرے جبکہ وہ صف سے آگے نکلے کھڑے تھے۔ حضور نے اس تیر سے ان کے شکم پر ہلکی سی چوٹ لگائی اور فرمایا:اے سواد! سیدھے ہوجاؤ۔ وہ کہنے لگے: یا رسول اﷲ ! مجھے درد ہوا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ پس مجھے اس چوٹ کا بدلہ دیجئے۔ رسول اﷲ نے فوراً اپنے شکم اقدس سے قمیص اٹھادی اور فرمایا: آؤ بدلہ لے لو۔ انہوں نے لپک کر حضور کو گلے لگالیا اور پیٹ مبارک کو چوم لیا۔ حضور نبی کریم نے پوچھا اے سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟ "انہوں نے عرض کی:یا رسول اﷲ ! جو مرحلہ ہمیں درپیش ہے وہ حضور ملاحظہ فرمارہے ہیں۔ میری یہ آرزو تھی کہ اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت میری جلد حضور کی جلد مبارک سے مس ہوجائے۔اس پر رسول اﷲ نے انہیں دعائے خیر سے سرفراز فرمایا۔
امام عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی صحابی رسول حضرت سواد بن غزیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ھذا ھو عامل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم علی خیبر الذى جاء ه بتمر جنیب ذكرہ مالك فى المؤطا ولم یسمه.22
یہ سواد خیبر کے علاقہ میں رسول اﷲ کے عامل تھے جو جنیب کھجوریں حضور کی خدمت میں لے کر آئے۔ اسے امام مالک نے المؤطا میں ذکر کیا لیکن نام ذکر نہیں کیا۔
امام ابو نعیم اصفہانی حضرت عبداﷲ بن عباس سے طویل حدیث روایت کرتے ہوئے نقل فرماتےہیں:جب سورت"اذا جاء نصر اﷲ والفتح" نازل ہوئی تو نبی کریم نے فرمایا اے جبرائیل میری وفات کی آواز لگ گئی ۔حضرت جبریل نے فرمایا آخرت آپ کے لئے دنیا سے بہتر ہے اور عنقریب آپ کا رب عطا کرے گا تو آپ راضی ہوجائیں گے۔ تو نبی کریم نے حضرت بلال کو حکم فرمایا کہ نماز کے لئے اذان دیں۔ چنانچہ مہاجرین وانصار مسجد میں جمع ہوگئے توآپ نے نماز پڑھائی اور پھر منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا جس سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ پھر آپ نے فرمایا:
مسلمانوں کی جماعت! میں تمہیں اﷲ کے واسطے سے اور اس حق کے واسطے سے جو میرا تم پر ہے کہتا ہوں کہ میری طرف سے کسی سے کوئی زیادتی ہوگئی ہو تو قیامت میں بدلہ لینے سے پہلے یہیں لے لے۔لیکن کوئی شخص کھڑا نہ ہوا آپ نے دوسری مرتبہ فرمایا تو پھرکوئی کھڑا نہ ہوا۔ پھرجب آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا تومسلمانوں میں سے ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا، جنہیں عکاشہ کہا جاتا تھا ۔وہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا نبی کریم کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگاکہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ اگر آپ ہمیں اﷲ کا واسطہ نہ دیتے تو میں آگے سے کچھ نہیں کہتا۔ ہم آپ کے ساتھ ایک غزوہ سے واپس ہورہے تھے توواپسی میں میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے برابر آگئی میں اترا کہ آپ کی ران کا بوسہ لے لوں مگر آپ نے اچانک لکڑی اٹھائی اور وہ میرے پہلو میں چبھ گئی مجھے نہیں معلوم کہ وہ جان بوجھ کر تھا یا نادانستہ ہوگیا۔
آپ نے فرمایا: میں اﷲ کے جلال کی پناہ لیتا ہوں کیا اﷲ کا رسول جان بوجھ کر تجھے مارے گا؟ پھر آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا: جاؤ فاطمہ سے وہ لکڑی لے آؤ۔ حضرت بلال گئے اور دروازہ کھٹکھٹا کر بولے: اے اﷲ کے رسول کی بیٹی! آپ کی وہ لکڑی دے دو، حضرت فاطمہ بولیں کہ: اس لکڑی کی ضرورت کیا ہے ؟نہ تو حج ہے اور نہ حج کا وقت؟ حضرت بلال نے فرمایا :کیا آپ کو علم نہیں رسول کریم دنیا اور ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اب وہ قصاص دینا چاہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا: کیا رسول اﷲ سے بھی کوئی انتقام لے گا؟ یہ حسن حسین ہیں انہیں لے جاؤ اور اس سے کہو ان سے انتقام لے لے۔ یہ دونوں نبی کریم سے انتقام لینے نہیں دیں گے۔ بہر حال وہ واپس آئے اور وہ لکڑی آنحضرت کے دست مبارک میں دے دی۔ حضور نبی کریم نے وہ لکڑی حضرت عکاشہ کو دے دی کہ انتقام لے لو۔چنانچہ منقول ہے:
فقال النبی صلى اللّٰه علیه وسلم : یا عكاشة اضرب ان كنت ضاربا فقال: یا رسول اللّٰه! ضربتنى وانا حاسر عن بطنى فكشف عن بطنه صلى اللّٰه علیه وسلم وصاح المسلمون بابكاء وقالوا: اترى عكاشة ضاربا بطن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما نظر عكاشة الى بیاض بطن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كانه القباطى لم یملك ان اكب علیه فقبل بطنه وھو یقول: فداك ابى وامى ومن تطیق نفسه ان یقتص منك؟ فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : اما ان تضرب واما ان تعفو. فقال: قد عفوت عنك رجاء ان یعفو اللّٰه عنى یوم القیامة. فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: من اراد ان ینظر الى رفیقى فى الجنة فلینظر الى ھذا الشیخ. فقام المسلمون فجعلوا یقبلون مابین عینیه ویقولون: طوباك طوباك نلت درجات العلى ومرافقة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمرض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من یومه.23
حضور نبی کریم نے فرمایا: اے عکاشہ! اگر مارنا ہے تو مارلے۔ اس نے کہا :یا رسول اﷲ! جس وقت مجھے لکڑی لگی تھی میرا پیٹ کھلا تھا۔ آپ نے اپنا پیٹ کھول دیا مسلمان زور زور سے رونے لگے کہ کیا ہم عکاشہ کو نبی کریم کے پیٹ پر مارتے دیکھیں گے؟ جب عکاشہ نے نبی کریم کے پیٹ مبارک کی رنگت سفیدی دیکھی تو گویا وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائےاورجھپٹ کر انہوں نے حضور کے پیٹ مبارک پر بوسہ لیا اور کہتے جاتے: میرے ماں باپ آپ پر قربان کس کی مجال ہے جو آپ سے بدلہ لے؟ حضور نبی کریم نے فرمایا:یا تو مار لو یا معاف کردو۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ کو قیامت میں اپنی معافی کی امید پر معاف کردیا۔نبی کریم نے فرمایا :جو شخص چاہتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ساتھی کو دیکھے تو وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے۔ چنانچہ مسلمان کھڑے ہوکر عکاشہ کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لینے لگے اور مبارک ہو مبارک ہو کہتے جاتے: تم نے بڑا بلند درجہ پالیا ہے اور رسول کریم کا ساتھ پالیا ہے۔ اسی دن نبی کریم بیمار ہوگئے۔
حضور صحابہ اور تابعین میں سے سلف صالحین نے سادہ زندگی اختیار کی اور فقر اور فاقہ کی تلخی پر صبر کیا غنیٰ کی حلاوت کو ترک کردیا اور صرف اتنی مقدار خوراک پر گزارہ کیا جس سے ان کی کمر سیدھی رہ سکے اور رمقِ حیات قائم رہے ۔خود حضور نبی کریم اس کے لیے دعا بھی فرماتے :
اللّٰھم اجعل رزق آل محمد قوتا.24
اے اﷲ محمد کی آل کا رزق بقدر روزی بنا۔ (یعنی بقدر قوت لایموت بنا)
نیزحضور نبی کریم کئی کئی دن بھوکے رہتے تھے اور بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھ۔ زندگی کی سختی کو ترجیح دیتے تھے اور اس پر صبر کرتے تھے حالانکہ آپ کو یقین تھا کہ اگر آپ اپنے رب سے یہ سوال کریں کہ وہ آپ کے لیے مکہ کے پہاڑوں کو سونا بنادے اور چاندی بنادے تو اﷲ تعالیٰ ضرور ایسا کرتا ۔لیکن آپ نے فقر کو ترجیح دی۔چنانچہ امام بخاری اس حوالہ سے روایت نقل کرتے ہیں:
عن عائشة قالت: ما شبع آل محمد صلى اللّٰه علیه وسلم منذ قدم المدینة من طعام بر ثلاث لیال تباعا حتى قبض.25
اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں : جب سے حضور نبی کریم مدینہ آئے کبھی آل محمد نے مسلسل تین دن گندم کا کھانا (روٹی) سیر ہوکر نہیں کھایا حتیٰ کہ آپ دنیا سے پروہ فرماگئے۔26
کبھی کبھی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے آپ شکم مبارک پر پتھر باندھ لیتے۔ حسب ضرورت کبھی ایک اور کبھی دو۔چنانچہ حضرت ابو طلحہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر صحابہ کرام نے بھوک کی وجہ سے اپنے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیے۔جب بھوک سے نڈھال ہوگئے تو تمام نے حضور نبی کریم کی بارگاہ میں شکایت کی کہ حضور بھوک نے بہت پریشان کر رکھا ہے اور ساتھ اپنے بندھے ہوئے پتھر بھی دکھائے ۔ اس کے بعد حضور نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا ہٹایا تو صحابہ حیران رہ گئے کہ آپ نے ایک کے بجائے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:
شكونا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الجوع ورفعنا عن بطوننا عن حجر حجر فرفع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بطنه عن حجرین.27
ہم نے حضور نبی کریم کی خدمت میں بھوک کی شکایت کرتے ہوئے اپنے اپنے پیٹ پر باندھے ہوئے پتھر دکھائے آپ نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا اٹھایا تو آپ نے دو پتھر باندھ رکھے تھے۔
آپ نے اپنی تمام ظاہری زندگی حالت فقر میں بسر کی۔ کسی شخصیت کا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے وہ دوسروں کو ترجیح دے اور اپنی ذات کو دنیوی زینت و آرائش سے مبرا کرلے ۔اگر کوئی انسان حالت مجبوری میں فقر اختیار کرتا ہے تو اس میں کمال والا پہلو نہیں ہوسکتا ۔ یہاں کتاب و سنت کے چند واضح ارشادات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دونوں جہاں کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں اور آپ جیسا غنی کائنات میں کوئی نہیں۔
قرآن مجید نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی حالت فقر کو حالت غنا سے تبدیل فرمادیاہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَوَجَدَك عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى828
اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لئے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو (جوّاد و کریم) پایا تو اس نے (آپ کے ذریعے) محتاجوں کو غنی کر دیا۔ان دونوں تراجم میں یَتِیماً کو فَاٰوٰی کا، ضآلًّا کو فَھَدٰی کا اور عائِلًا کو فَاَغنٰی کا مفعولِ مقدم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی) ۔
جس ذات کو اﷲ تعالیٰ غنی فرمادے وہاں فقر کا کوئی تصور نہیں رہ سکتا۔ حضرت ابوامامہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے رب کریم نے فرمایا:اے محبوب اگر آپ چاہیں تو آپ کے لیے میں مکہ کی تمام زمین سونے کی بنادوں لیکن میں نے عرض کیا :
لا یا رب ولكن اشبع یوما واجوع یوما او نحو ذلك فاذا جعت تضرعت الیك وذكرتك واذا شبعت حمدتك و شكرتك.29
ربِّ کریم میں یہ نہیں چاہتا بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن کھاؤں پس جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری طرف تضرع کروں اور تجھے یاد کروں اور جب میں سیر ہوجاؤں تو تیرا شکر و حمد کروں۔
اسی حوالہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
لو شئت لسارت معى جبال الذھب.30
اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں۔
اسی طرح ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
فواللّٰه لو شئت لاجرى اللّٰه معى جبال الذھب والفضة.31
اﷲ کی قسم! اگر میں چاہوں تو اﷲ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ کردے۔
کتاب وسنت کے ان واضح ارشادات کی روشنی میں ائمہ نے یہ تصریح کی ہے کہ آپ کا فقر اختیاری تھا اضطراری نہیں۔ چنانچہ یحییٰ بن ابوبکر بن محمد عامری لکھتے ہیں:
ان فقره صلى اللّٰه علیه وسلم كان فقر اختیار لا فقر اضطرار لانه صلى اللّٰه علیه وسلم فتحت علیه الفتوح وجلبت الیه الاموال.32
بلا شبہ نبی کریم کا فقر اختیاری تھا نہ کہ فقرِ اضطراری کیونکہ آپ پر تو تمام خزانوں کے منہ کھول دیے گئے تھے اور اموال کا مالک بنادیا گیا تھا۔
ملا علی قاری فرماتے ہیں:
اعلم ان فقره صلى اللّٰه علیه وسلم كان اختیاریا لاكرھا واضطراریا.33
آپ کا مبارک فقر اختیاری تھا اضطراری نہ تھا۔
شیخ ابراہیم بیجوری فرماتے ہیں:
اعلم ان ضیق عیشه صلى اللّٰه علیه وسلم لیس اضطرارایا بل كان اختیاریا قد عریضت علیه بطحاء مكة ان تكون ذھبا فاباه.34
واضح رہے کہ تنگی آپ کی مجبوری نہ تھی بلکہ یہ اختیاری معاملہ تھا۔ آپ پر تو اس بات کی پیش کش کی گئی تھی کہ مکہ کی زمین سونے کی بنادی جائے تو آپ نے اس سے انکار فرمایا۔
کائنات کے سب سے بڑے انسان حضور اکرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو حسن بے مثال عطا فرمایا تھا وہیں جسم مبارک میں توازن اور اعتدال میں بھی آپ یکتا و منفرد تھے۔ جسمانی اعتدال ایک طرف آپ کا معجزہ تھا تو دوسری طرف آپ کی جسمانی مشقت، محنت، ریاضت اور جدوجہد بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کسی ایک جگہ بیٹھ کر تن کوشی کے ساتھ آرام کرنے کے عادی نہ تھے اور آپ کھانے پینے کی کثرت کو بھی ناپسند فرماتے چہ جائیکہ وہ مرغن و لمحیات سے بھرپور کھانوں کا استعمال فرماتے۔ آپ کا جسم مبارک حد درجہ تناسب اور متوازن اور معتدل تھا جس کی وجہ سے آپ جسمانی طور پر بھی مکمل طور پر چاک و چوبند اور جسمانی قوت و وجاہت کا شاہکار تھے۔