حضور نبی کریم کے قلب مبارک کی وسعتوں اور گہرائیوں کا اندازہ لگانا اوراس بارے میں لب کشائی کی جرات کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ آپ کا قلب مبارک اﷲ تعالیٰ کی خصوصی تجلیات وانوار اور علوم و معارف کا مرکز تھا ۔سب سے اعلیٰ وحی کے نزول کا محل اور مرکز یہی قلب اطہر بنا جوتمام کائنات کے دلوں سے پاکیزہ ، بہتر، نرم رقیق، وسیع وقوی اور تقویٰ و نظافت کا سرچشمہ تھا ۔ آپ کا قلب اقدس کئی صفات سے متصف تھا مثلاً آپ کا قلب مبارک صرف حالت بیداری میں نہیں بلکہ حالت نیند میں بھی بیدار رہتا تھا۔آپ کے قلب اطہر ہی کے انوار و کمالات سے تمام کائنات آج تک فیضیاب ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہےگی۔
یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس مرتبہ کمال پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم کو فائز فرمایا ہے کسی اور کے لئے یہ منزلت رفیعہ ثابت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز اور اخلاص کا مقام دل کو بنایا ہے ۔اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس بندے کے دل کو چن لیتا ہے اس کو اپنے راز کا امین بنالیتا ہے اور سب سے پہلے جس مبارک دل کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز کا امین بنایا وہ قلب مبارک سید الخلق رحمۃ للعالمین محمد مصطفی ہے کیونکہ حضور خلق میں سب سے پہلے ہیں اور ظہور میں سب انبیاء سے آخر میں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی حکمت نے اجسام وقوالب کے اخلاق کو دلوں میں مخفی رازوں کی علامت اور نشانی بنایا ہے ۔پس جس کے دل میں راز خداوندی متحقق ہوگیا اس کے اخلاق میں بڑی وسعتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس کی شفقت کا سایہ کسی ایک نوع اور جنس کے ساتھ مخصوص نہیں رہتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی ساری مخلوق، خواہ اس کا تعلق نباتات سے ہو، جمادات سے ہو یا حیوانات سے ہو، سب پر یکساں رہتا ہے۔ وہ نوع انسانی میں ہر فرد کے ساتھ ایسے اخلاق سے پیش آتا ہے جس سے اس کا بگاڑ دور ہوتا ہے اور اس میں خوبیاں نمودار ہوتی ہیں۔ اور اسی شفقت کے پیش نظر کبھی اس کو سختی سے بھی پیش آنا پڑتا ہے ۔بلکہ بعض اوقات اس کی خیر خواہی کے لیے اس پر حدود بھی نافذ کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر نرمی اور سختی ہر پیار اور ہر شدت میں اس کی بہتری ملحوظ ہوتی ہے۔1
قرآن کریم کی بعض آیات اور الفاظ حضور نبی کریم کے قلب مبارک سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔امام ثعلبی ، امام خازن اور امام بغوی رحمہما اﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس نے حضرت کعب سے کہا کہ مجھے مثل نورہ کمشکوۃ (الایۃ) کے بارے میں بتائیے کہ اس سے کیا مراد ہے؟تو حضرت کعب نے جواب دیا:
ھذا مثل ضربه اللّٰه سبحانه لحمد صلى اللّٰه علیه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیه النبوة توقد من شجر مباركة ھى سجرة النبوة.2
(آیت مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب کے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکوۃ سے آپ کا سینہ اقدس مراد ہے زجاجۃ سے مراد آپ کا قلب اطہر ہے جبکہ مصباح سے مراد وہ صفت نبوت ہے جو شجرہ نبوت سے روشن ہے۔
امام ابو حاتم رازی اپنی سند کے ساتھ اس کو ان الفاظ میں روایت کرتے ہیں:
عن شمر بن عطیة قال جاء ابن عباس الى كعب الاحبار فقال حدثنى عن قول اللّٰه فیھا مصباح والمصباح قلبه یعنى قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم و عن ابى بن كعب فى قوله المصباح فى زجاجة فذلك النور فى زجاجة والزجاجة قلبه.3
شمر بن عطیہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس کعب الاحبار کے پاس آئے توفرمایا کہ مجھے اللہ تبارک وتعالی کے فرمان: فیھامصباح کے بارے میں بتائیں تو (انہوں نے کہا) مصباح سے مراد آپ ﷺکا قلب انور ہے۔حضرت ابی بن کعب سے باری تعالی کے فرمان: المصباح فی الزجاجۃ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ نور شیشی میں ہے اور شیشی سے مراد آپ ﷺکا قلب انور ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے حضور ﷺکے مبارک سینے کو انوار و معارف الٰہیہ کا خزینہ بنایا تھا۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالنَّجْمِ اِذَا ھوٰى14
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔
امام جعفر صادق سے "والنجم اذا ھویٰ" کے بارے میں منقول ہے کہ النجم سے مراد حضور ﷺکا قلب انور ہے۔قاضی عیاض نے ان کا قول ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔
ھو قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم .5
نجم سے مراد حضرت محمد مصطفی کا قلب انور ہے۔
شیخ احمد شہاب الدین خفاجی اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ان انوار سے وہ ربانی تجلیات مراد ہیں جو علوم و حکم اور کمالات ومشاہدات کی صورت میں آپ ﷺکو حاصل ہوئیں اس کے بعد قلب اقدس کو نجم کہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وتشبیه قلبه صلى اللّٰه علیه وسلم بالنجم لا یخفى ظھوره لا شراقه بنور ربه.6
قلب انور کی نجم کے ساتھ تشبیہ واضح ہے کیونکہ آپ کا قلب اقدس رب کریم کے انوار سے روشن ہے۔
قلب نبوی تمام بندوں کے دلوں سے افضل و اعلیٰ ہے اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کا دل تمام نوع انسانی سے بہتر ہے ۔چنانچہ امام ابوداؤد الطیالسی روایت کرتے ہیں:
عن عبداللّٰه قال ان اللّٰه عزوجل نظر فى قلوب العباد فاختار محمداً فبعثه برسالاته وانتخبه بعلمه ثم نظر فى قلوب الناس بعده فاختارله اصحابه فجعلھم انصار دینه ووزاء نبیه صلى اللّٰه علیه وسلم فما راه المومنون حسنا فھو عنداللّٰه حسن وما راه المومنون قبیحا فھو عنداللّٰه قبیح.7
سیدنا عبداﷲ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ اﷲ عزوجل نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو حضرت محمد کے دل کا انتخاب کیا۔پس آپ کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا اور اپنے علم کے ساتھ منتخب کیا۔ پھر اپنے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو آپ کے اصحاب کرام کا انتخاب کیاتو انہیں اپنے دین کا مددگار بنایا اور انہیں اپنے نبی کا وزیر بنایا۔ سو جس کو مؤمنین اچھا خیال کریں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کو مؤمنین برا سمجھیں وہ اﷲ کے ہاں بھی برا ہوتا ہے۔
امام احمد بن حنبل نے اس حدیث مبارکہ کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے:
عن عبداللّٰه بن مسعود قال ان اللّٰه نظر فى قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم خیر قلوب العباد فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته ثم نظر فى قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب اصحابه خیر قلوب العباد فجعلھم وزراء نبیه یقاتلون على دینه فما راى المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن وما راوا سیئا فھو عنداللّٰه سیئى.8
حضرت عبداﷲ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ اﷲ نے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھاتو حضور کے قلب اقدس کو سب سے افضل پایا لہٰذا انہیں اپنی ذات کے لئے منتخب کرتے ہوئے رسالت کے لیے مبعوث فرمایا۔ پھر حضور نبی کریم کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو آپ کے اصحاب کا دل تمام سے افضل پایا پس انہیں اپنے پیارے نبی کی معیت وصحبت عطا کی۔ انہوں نے آپ کے مشن کی خاطر خوب قربانی دی پس جس عمل کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان برا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی برا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے دلوں کو اپنے راز ونیاز اور اخلاص کا محل بنایا ہے اور اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اپنے لیے منتخب فرمالیتا ہے ۔سب سے اولین دل جو اﷲ کے خصوصی رازوں کا محل ومرکز بنا وہ حضور کا قلب انور ہی تھا۔ اس حوالہ سے امام قسطلانی فرماتے ہیں:
اول قلب اودعه الیه قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم لانه اول خلق.9
سب سے پہلا دل جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز کا مرکز بنایا وہ قلب مصطفوی ہے کیونکہ آپ کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی۔
اسی حوالہ سےشیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ امام لغت حضرت اصمعی سے ایک شخص نے پوچھا حضور کے فرمان "انہ لیغان علی قلبی" (میرے دل پر بعض اوقات بوجھ آتا ہے) سے کیا مراد ہے تو انہوں نے فرمایا:
اگر از غیر قلب رسول ا للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وغین اومى پرسیدید مگیفتم انچه میدانستم اما ایں جادم نتوانم زركه حقیقت آنرا جز علام الغیوب كسے نداند.10
اگر حضور کے علاوہ کسی کے قلب اور اس پر بوجھ کے بارے میں سوال ہوتا تو اس پر گفتگو کرتا مگر یہاں میں دم نہیں مارسکتا کیونکہ آپ کے قلب انور کے معاملہ کو سوائے اﷲ تعالیٰ کے کوئی نہیں جان سکتا۔
قلب نبوی سب سے بڑھ کر تقویٰ کے زیور سے آراستہ تھاکیونکہ خود آپ کا ارشاد گرامی ہے:
اما واللّٰه انى لاخشاكم للّٰه واتقاكم له.11
سنو بخدا میں تم سب سے زیادہ اﷲ سے خشیت اور اﷲ سے تقویٰ رکھنے والا ہوں۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اﷲ نے اپنے صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا تم میں سے کوئی دوسرے کے بارے میں مجھے کوئی چیز نہ پہنچائے:
فانى احب ان اخرج الیكم وانا سلیم الصدر.12
میں پسند یہ کرتا ہوں کہ میں تمہاری طرف اس حال میں آؤں کہ میرا سینہ بالکل صاف ہو۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اﷲ! لوگوں میں افضل ترین کون شخص ہے؟ آپ نے فرمایا ہر وہ شخص جو مغموم القلب اور صدوق اللسان ہو ۔عرض کیا یا رسول اﷲ ! ہم صدوق اللسان (سچ کہنے والا) کا معنی جانتے ہیں مگر مغموم القلب کے بارے میں نہیں جانتے تو آپ نےفرمایا : اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا دل متقی اور اس طرح صاف ہو کہ اس میں کوئی گناہ ،سرکشی،کھوٹ اور حسد نہ ہو۔13
اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے قلبِ انور کو اسی طرح بیداری عطا فرمائی تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا تھا۔ نہ تو اس پر نیند کا غلبہ ہوسکتا تھا اور نہ ہی اس پر غفلت طاری ہوسکتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم کا خواب بھی سراپا وحی تھا اور آپ کی نیند وضو میں خلل واقع نہیں کرتی تھی۔چنانچہ امام بخاری اور دیگر کئی محدثین روایت کرتے ہیں:
حدثنا عبداللّٰه ابن مسلمة عن مالك عن سعید المقبرى عن ابى سلمة بن عبد الرحمن انه سال عائشة كیف صلوة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى رمضان قالت ما كان یزید فى رمضان ولا غیره على احدى عشرة ركعة یصلى اربع ركعات فلا تسال عن حسنھن وطولھن ثم یصلى ثلاثاً فقلت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تنام قبل ان توتر قال تنام عینى ولا ینام قلبى.14151617181920
ام المومنین عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا گیا کہ رسول اﷲ رمضان المبارک میں کتنی نماز پڑھا کرتے تھے انہوں نے جواب دیا کہ آپ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ جب چار رکعتیں پڑھتے تو ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کچھ نہ پوچھیے۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے اور ان کی درستی و درازی کی کیا ہی بات ہے۔ (تہجد کی آٹھ رکعت) اس کے بعد تین رکعت (وتر) پڑھتے میں عرض گزار ہوئی یا رسول اﷲ ! وتر پڑھنے سے پہلے تو آپ سوگئے تھے؟ فرمایا میری آنکھ سوتی ہے لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
حضرت ملا علی قاریاور امام عبد الرؤف مناوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
انما فعلت ذلك لانى لا اخشى فوت الوتر وھذا من خصائص الانبیاء علیھم السلام لحیاة قلوبھم واستغراق شھود جمال الحق المطلق.21
میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے وتروں کی قضا کا اندیشہ نہیں ( کہ میرا دل بیدار رہتا ہے اور) یہ انبیاء کا خاصہ ہے کہ ان کے مبارک دل ہر وقت ہر حال میں بیدار اور جمال حق اﷲ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مستغرق رہتے ہیں۔
اس حوالہ سے امام دارمی روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے آپ کے پیٹ مبارک کو چیر دیا پھر حضرت جبریل نے فرمایا:
قلب وكیع فیه اذنان سمیعتان وعینان بصیرتان محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم المقفى الحاشر خلقك قیم ولسانك صادق ونفسك مطمئنة.قال ابو محمد وكیع یعنى شدیدا.22
یہ بہت زبردست دل ہے ،اس میں دو کان ہیں جو سن لیتے ہیں اوردو آنکھیں ہیں جو دیکھ لیتی ہیں ۔حضرت (سیدنا)محمد اﷲ کے رسول ہیں جوسب سے آخر میں تشریف لائے ہیں، یہی جمع کرنے والے ہیں (اےسیدنا محمد ) آپ کے اخلاق مضبوط ہیں، آپ کی زبان سچی ہے اور آپ کا نفس مطمئن ہے۔امام دارمی فرماتے ہیں کہ "وکیع" کا مطلب شدید اور زبردست ہے۔
مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا قلب مبارک جماعتِ انبیاء کرام میں سے بھی سب سے قوی اور مضبوط تھا۔یہی وہ دل اقدس تھا کہ جس کو اللہ رب العزت نے سب سے پہلے اپنے اسرار کا راز داں بنایا اور پھر اسی قلب مبارک کے وسیلہ سے دوسرے قلوب کو اپنی معرفت کا محل بنایا۔