اللہ تبارک وتعالی کی مخلوقات میں سے جو حسن و جمال رسول اکرم کو رب العزت نے عطا فرمایا ہے وہ حسن وجمال کسی اور کے حصہ میں نہیں آیا۔اسی وجہ سے آپ کو پہلی نظر دیکھنے والا ہی آپ کی تصدیق بالرسالۃکرکے مشرف و ممتاز ہوجاتا تھا۔آپ کا ہرحصہ بدنی تواز ن و اعتدال کا اعلی ترین شاہکار تھا ۔اسی طرح حضور کا سینۂ اقدس بھی باکمال و باجمال تھا۔آپ سواء البطن والصدر تھے یعنی آپ کا شکم اقدس اور سینۂ اطہر ہموار وبرابر تھا ۔ سینۂ اقدس کسی قدر ابھرا ہوا اور چوڑا تھا ۔سینۂ اقدس کے درمیان بالوں کا ایک باریک خط تھا جو ناف تک تھا اور سینۂ اقدس کے اوپر دونوں طرف بال نہ تھے۔
رسول اکرم کا سینۂ مبارک کشادہ تھا اوراس کا رنگ بھی آپ کے جسمِ اقدس کی طرح سفید وصاف تھا۔چنانچہ امام بیہقی فرماتے ہیں:
وكان عریض الصدر ممسوحه كانه المرایا فى شدتھا و استواءھا لا یعدو بعض لحمه بعضا على بیاض القمر لیلة البدر.
حضور نبی کریم کا سینۂ مبارک چوڑا تھا، صاف تھاسخت نرم ہونے اور برابر ہونے میں اس طرح آئینہ کی طرح تھا کہ اس کا گوشت بعض ،بعض سے بڑھا ہوا اور متجاوز نہیں تھا بلکہ سفید تھاجو چودہویں رات کے چاند کی طرح تھا۔1
رسول اکرم کے سینۂ اقدس کی کشادگی کو بیان کرتے ہوئےحضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ...عریض الصدر.2
حضور کا۔۔۔ سینۂ مبارک وسیع تھا۔
ایک دوسری روایت میں ہے :
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسیح الصدر.3
رسول اﷲ کے مبارک سینے میں وسعت پائی جاتی تھی۔
نبی اکرم کا سینۂ اقدس بالکل ہموار تھا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سواء البطن والصدر.4
حضور کا پیٹ مبارک اور سینۂ مبارک برابر تھے۔
علماء اس برابری کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سینہ اور پیٹ مبارک اس طرح ایک دوسرے کے برابر تھے کہ ان میں سے کوئی ابھرا ہوا نہ تھا، نہ پیٹ سینہ سے زائد تھا اور نہ ہی سینہ پیٹ سے۔چنانچہ امام الاجری فرماتے ہیں:
وقوله سواء البطن والصدر یعنى ان بطنه غیر مستفیض فھو مساو لصدرہ وان صدرہ عریض فھو مساو لبطنه.5
راوی کا قول سواء لبطن والصدرکا مطلب ہے کہ آپ کا شکم مبارک بڑھا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ سینہ کے برابر تھا اور آپ کا سینۂ اقدس کشادہ تھا تو شکم کے برابر تھا۔
سینۂ مبارک سے ناف تک بالوں کی خوبصورت لمبی لکیر کے ساتھ ساتھ آپ کے دونوں بازوؤں، کاندھوں اور سینۂ مبارک کے اوپر والے حصہ میں بال تھے۔چنانچہ اس کوبینا کرتے ہوئے حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اشعر الذراعین والمنکبین و اعالى الصدر.6
حضور نبی کریم کے مبارک بازو، کاندھوں اور سینۂ مبارک کے اوپر والے حصہ میں بال تھے۔
ان کے علاوہ کہیں اور جسم اطہر پر بال نہ تھے۔ چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت علی فرماتے ہیں:
لیس فى صدره ولا بطنه شعر غیره.7
آپ کے بقیہ سینے اور پیٹ پر بال نہ تھے۔
اسی طرح حضرت فاروق اعظم بھی فرماتے ہیں:
ولم یكن فى جسده ولا صدره شعرات غیرھن.8
آپ کے جسم اطہر اور سینۂ مبارک پر ان کے علاوہ اور بال نہ تھے۔
مذکورہ روایت کو امام بیہقی نے بھی نقل کیا ہے۔ 9 اس حدیثِ مبارکہ سے واضح ہوا کہ نبی اکرم کے جسمِ اطہر کے بالائی حصّہ پر بال نہیں تھے اور یہ حصّہ بالوں سے صاف وشفاف تھا۔
مختلف اوقات میں اسرار و حکم ودیعت کرنے کے لیے آپ کا سینۂ مبارک چار دفعہ چاک کیا گیا۔ اس سے بعض چیزیں خارج کی گئیں اور بعض رکھ کر اس کو سی دیا گیا۔ اس سلنے کا نشان سینۂ مبارک پر نظر آتا تھا۔اسی کو بیان کرتے ہوئےحضرت انس فرماتے ہیں:
وكنت ارى اثر المخیط فى صدره.10
میں آپ کے سینۂ مبارک پر سلنے کے نشان کی زیارت کیا کرتا تھا۔
یہ سینے کے نشانات بطور عیب کے نہیں تھے بلکہ آپ کے وجود مقدس پراس ملکوتی جراحت کے الہامی اثرات تھے جو اس سے قبل کسی دوسرے انسان کوبطور شرف و سعادت کے حاصل نہیں ہو پائے۔جراحت (Operation) کے ان اثرات کاسبب کوئی انسان نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل ہیں۔جنہوں نے بامرِخداوندی آسمانوں سے آپ کی خدمت عالیہ میں حاضر یہ خدمت بجا لائی تاکہ رہتی دنیا تک کے لیے یہ معاملہ حجت ودلیل بن جائے اور اس سے نبی کریم کا اختصاص مزید مضبوط ومستحکم ہو کرلوگوں کے علم میں آسکے۔ انسان کی معلوم تاریخ میں یہ پہلاقلبی آپریشن (Cardiac Surgery) تھا جس کی روشنی میں 20، 21صدی میں پیدا ہونے والے انسانوں نے قلبی امراض کے علاج کے لیے (Open Heart Surgery) کا تصورلیااور آج بحمد اللہ تعالیٰ انسان کامیابی کے ساتھ اس طریقۂ علاج یعنی جراحت سے دل کےامراض سے شفایابی حاصل کررہا ہے۔یہ وہ اثرات ہیں کہ جن کی گواہی کئی صحابہ کرام نے دی ہے اور یہ کوئی عام سا مسئلہ نہیں ۔ورنہ رب تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ ان نشانات کو مٹا دیتا لیکن اس کی قدرت کو منظور نہ تھا کیونکہ یہ جراحت کے نشانات خود آپ کی نبوت کے معجزات میں سے ایک معجزہ اور اس کی سچائی کی دلیل تھے کہ مکہ مکرمہ ،بالخصوص عرب اور اس زمانہ کی کُل دنیا میں قلب کی جراحت کا تصور تک نہیں تھا۔لیکن وہیں ایک ذات ایسی بھی تھی جن کا کامیاب قلبی آپریشن ہوچکا تھا ، بالکل صحتمند بھی تھی اور وہ نشانات جو زخموں کے تھے اس میں سے کوئی خون وغیرہ بھی نہیں نکلتا تھا۔ آج بھی آپریشن ہوجانے کے بعد دل کے امراض میں مبتلا انسان مہینوں جراحت کی تکالیف کو سہتا ہے اور ان نشانات کو اٹھائے پھرتا ہے جس میں اکثر و بیشترتکلیف بھی رہتی ہے لیکن آقائے کریم کے سینے اقدس پر ان نشانات میں ایسی کوئی بات نہ تھی بلکہ یہ صرف ثبوت جراحت کے طور پر باقی تھے ورنہ رب تعالیٰ ان نشانات کوتبدیل کرسکتا تھا اور حضور اکرم خود اپنا دست اقدس ان نشانات پرپھیرکران کو دور فرما سکتےتھے۔