Encyclopedia of Muhammad

آپ کا دَست مبارک

رسول اکرم کی ہر چیز خواہ ادنی درجہ کے تعلق میں ہی کیوں نہ ہووہ دیگر اشیاء سے ممیز و ممتاز ہوتی تھی۔اسی طرح آپ کا جسم اطہر بھی تمام اجسام ِعالم میں علیحدہ اور جداگانہ حیثیت کا حامل تھا۔آپ کے جسم اطہر کاہر حصہ مبارک بھی منفرد واعلی تھے اور اسی جسمِ اقدس کا ایک متبرّک حصّہ آپ کے ہاتھ مبارک تھے۔حضور کے دست مبارک انتہائی نرم ، ملائم اور شبنم کے قطروں سے بھی نازک تھے، ہاتھ مبارک سے ہمہ وقت خوشبوئیں لپٹی رہتیں، مصافحہ کرنے والا آپ کے دست مبارک کی ٹھنڈک محسوس کرتا تھا۔

دستِ اقدس کی نزاکت و نفاست

حضور کے مبارک ہاتھ نہایت ہی خوبصورت اور ریشم سے بھی زیادہ نرم تھے ۔چنانچہ امام حافظ سلیمان بن احمد طبرانیروایت کرتے ہیں:

  عن المستورد بن شداد عن ابیه قال: اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخذت بیده فاذا ھى الین من الحریر وابرد من الثلج.1
  حضرت مستورد بن شداد اپنے والد گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں: میں حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا پس میں نے حضور کا ہاتھ تھام لیا حضور کے دست اقدس ریشم سے زیادہ نرم و گداز اور برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے۔

امام ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔2 اسی طرح امام ابن عبد البر مالکیروایت کرتے ہیں:

  ماریة قالت: صافحت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم ار كفا الین من كفه صلى اللّٰه علیه وسلم.3
  (ام المؤمنین) حضرت ماریہ بیان کرتی ہیں: میں نے حضور کے مبارک ہاتھ سے بڑھ کر کسی کے ہاتھ کو نرم نہیں پایا۔

دستِ مبارک خوشبو کی پوٹلی

حضور کے تمام جسمِ اطہر کی طرح ہاتھ مبارک ہمیشہ خوشبودار رہتے ۔بلکہ جو شئ بھی آپ کے ہاتھ مبارک کو مس کرتی اس سے بھی کافی دیر تک خوشبو آتی رہتی۔چنانچہ حضرت وائل بن حجر بیان کرتے ہیں :

  لقد كنت اصافح النبی صلى اللّٰه علیه وسلم او یمس جلدى جلده فاتعرقه فى یدى بعد ثالثة اطیب ریحا من المسك.4
  میں حضور سے مصافحہ کرتا یا میرے جسم کی کھال آپ کی کھال سے مس کرتی پھر میرے ہاتھ پر پسینہ آتا تو تین دن کے بعد تک ہاتھ سے مشک کی خوشبو آتی رہتی تھی۔

اسی حوالہ سے امام ابو عیسیٰ ترمذی روایت کرتے ہیں:

  عن انس قال: خدمت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عشر سنین فما قال لى: اف قط وما قال لشى: صنعته ولا لشى تركته ولم تركته وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من احسن الناس خلقا ولا مسست خزا قط ولا حریرا ولا شیئا كان الین من كف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولا شممت مسكا قط ولا عطرا كان اطیب من عرق النبى صلى اللّٰه علیه وسلم .5
  حضرت انس بیان کرتے ہیں: میں نے دس سال رسول اﷲ کی خدمت کی حضور نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میں نے کوئی کام کیا ہو تو آپ نے یہ نہیں فرمایا :تم نے یہ کام کیوں کیا اور کبھی کسی کام کو چھوڑدیا ہو تو یہ نہیں فرمایا: تم نے اس کو کیوں چھوڑ دیا اور رسول اﷲ کا اخلاق تمام لوگوں سے زیادہ اچھا تھا اور کوئی ریشم رسول اﷲ کے ہاتھ سے زیادہ ملائم نہیں تھا اور رسول اﷲ کے پسینہ سے کوئی مشک اور عطر خوشبودار نہیں تھا۔

آپ کے ہاتھ مبارک کی خوشبو بیان کرتے ہوئے حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے:

  صلیت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صلاة الاولى ثم خرج الى اھله وخرجت معه فاستقبله ولدان فجعل یمسح خدى احدھم واحدا واحدا قال: واما انا فمسح خدى. قال: فوجدت لیده بردا او ریحا كانما اخرجھا من جؤنة عطار.6
  میں نے ظہر کی نماز حضور نبی کریم کی معیت میں(ساتھ) ادا کی ادائیگی نماز کے بعد جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے تو میں بھی آپ کے ساتھ تھا مدینہ کےدو بچے آپ کے سامنے آئے تو آپ نے ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا۔میرے رخسار پر بھی آپ نے ہاتھ مبارک رکھا: تو میں نے آپ کے ہاتھ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی آپ کا ہاتھ مبارک اس طرح خوشبودار تھا جیسے ابھی عطار کی ڈبیہ سے نکالا ہو۔

دستِ مبارک سے مس ہونے والے ہاتھ

آپ کا ہاتھ مبارک اس طرح خوشبودار تھا کہ اگر کسی بھی شخص کا جسم آپ کے ساتھ مس ہوجاتا تو اس میں بھی مہک پیدا ہوجاتی۔ مثلاً اگر کسی نے آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی تو اس کے ہاتھوں میں خوشبو ہی خوشبو ہوتی ۔اگر آپ نے کسی کے جسم پر دست شفقت پھیر دیا تو اس کے جسم سے خوشبو آتی رہتی۔ جس بچے کے سر پر آپ اپنا مبارک ہاتھ رکھ دیتے وہ اس کی برکت سے آنے والی خوشبو کی وجہ سے اس طرح دوسروں سے ممتاز ہوجاتا کہ ہر کوئی کہتا اس کے سر پر رسول اﷲ نے ہاتھ پھیرا ہے۔یعنی حضور کےدست ِمبارک کی تاثیرعطارکے ڈبہ کی طرح تھی کہ جس کو جہاں جہاں یہ دست مبارک مس ہوتاوہاں وہاں خوشبو کی لپٹیں تھیں ۔

اسی حوالہ سےحضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں:

  وكان كفه كف عطار مسھا طیب او لم یمسھا به یصافحه المصافح فیظل یومھا یجد ریحھا ویضع یده على رأس الصبى فیعرف من بین الصبیان من ریحھا على رأسه.7
  آپ دنیوی خوشبو استعمال فرماتے یا نہ فرماتے آپ کے مبارک ہاتھ ہر وقت اس طرح خوشبو دار رہتے جس طرح کسی عطار کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کرلیتا تو تمام دن اس کے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی۔ اسی طرح اگر آپ کسی بھی بچے کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دیتے تو وہ بچہ اس کی خوشبو سے تمام بچوں سے ممتاز ہوجاتا۔

دستِ اقدس کی برودت

آپ سے مصافحہ کا شرف پانے والا ہر شخص آپ کے مبارک ہاتھوں سے ٹھنڈک محسوس کرتا۔حضور نبی کریم کی مبارک ہتھیلیوں میں نرماہٹ خنکی اور ٹھنڈک کا احساس آپ کا ایک منفرد وصف تھا صحابہ کرام قسم کھاکر بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم کی مبارک ہتھیلیوں سے بڑھ کر کوئی شے نرم اور ملائم نہ تھی رسول اکرم جب کسی سے مصافحہ فرماتے یا سر پر دست شفقت پھیرتے تو اس سے ٹھنڈک اور سکون کا یوں احساس ہوتا جیسے برف جسم کو مس کررہی ہو۔

اسی حوالے سے حضرت یزید بن اسود سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی کریم نے منیٰ میں قیام پر فجر کی نماز مسجد خیف میں پڑھائی ۔جب سلام پھیرا تو آپ نے دیکھا کہ دو آدمی لوگوں کی صفوں سے دور الگ بیٹھے ہیں اور وہ جماعت میں شریک نہیں ہوئے ۔آپ نے ان کو بلایا اور فرمایا کیا وجہ ہے تم جماعت میں شریک نہیں ہوئے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ہم اپنے خیموں میں نماز پڑھ کر آئے تھے اس لیے ہم جماعت میں شریک نہ ہوئے ۔آپ نے فرمایا اگر ایسا معاملہ ہوکہ ایک فرض نماز ادا کرچکا ہے اور پھر اس کے سامنے جماعت ہوئی ہے تو جماعت میں شریک ہوجانا چاہئیے اور یہ نماز اس کے لیے نفل ہوجائے گی۔ ان دونوں میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اﷲ میری بخشش کے لیے دعا فرمائیے آپ نے دعا فرمائی۔ اس کے بعد کا منظر ملاحظہ ہو:

  ونھض الناس الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ونھضت معھم واما یومئذ اشب الرجال و اجلدہ فما زلت ازحم الناس حتى وصلت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخذت بیده فوضعتھا اما على وجھى اوصدرى قال: فما وجدت شیئا اطیب ولا ابرد من ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.8
  لوگ ملاقات کے لیے آپ کی طرف بڑھے میں بھی ان کے ساتھ (لائن) میں کھڑا ہوگیا ۔ان دنوں میں نوجوان تھا اس لیے لوگوں کو ایک طرف کرتے کرتے میں حضور کے پاس پہنچ گیا ۔میں نے آپ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر اپنے چہرے یا سینے پر رکھا میں نے آج تک آپ کے ہاتھ مبارک سے بڑھ کر کوئی شے خوشبودار اور ٹھنڈی نہیں پائی۔

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

  ثم ثار الناس یاخذون بیده یمسحون بھا وجوھھم فاخذت بیده فمسحت بھا وجھى فوجدتھا ابرد من الثلج واطیب ریحا من المسك.9
  پھر ہرایک نے آپکے دست مبارک کو اپنے چہرے پر لگانا شروع کیا۔ میں نے بھی آپکے دست مبارک کو برف سے زیادہ ٹھنڈ اور مشک سے بڑھ کر خوشبو دار پایا ۔

حضرت ابوجحیفہ ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نے نماز ادا فرمائی، اس کےبعد:

  وقام الناس فجعلوا یاخذون یدیه فیمسحون بھما وجوھھم قال: فاخذت بیده فوضعتھا على وجھى فاذا ھى ابرد من الثلج واطیب رائحة من المسك.10
  لوگ کھڑے ہوئے اور آپ کا دست مبارک پکڑ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے ، میں نے بھی حضور کے دست اقدس کو پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا تو حضورکا مبارک ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈ ااور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھا ۔

امام حافظ سلیمان بن احمد طبرانی روایت کرتے ہیں:

  عن المستورد بن شداد عن ابیه قال: اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخذت بیده فاذا ھى الین من الحریر وابرد من الثلج.11
  حضرت مستورد بن شداد اپنے والد گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں: میں حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا پس میں نے حضور کا ہاتھ تھام لیا حضور کے دست اقدس ریشم سے زیادہ نرم و گداز اور برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن ہلال انصاری اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں:

مجھے میرے والد گرامی نے حضور کی خدمت مبارکہ میں حاضر کیا اور دعا کے لیے عرض کیا۔ آپ نے دعا فرمائی اور شفقت فرماتے ہوئے میرے سر پر اپنا دست اقدس پھیراتو:

  فما انسى وضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یده على راسى حتى وجدت بردھارواہ الطبرانی واسناده حسن.12
  سر پر حضور کے دست مبارک رکھنے سے جو حلاوت وٹھنڈک مجھے حاصل ہوئی وہ مجھے کبھی نہیں بھولتی ہے ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں بیمار پڑگیا حضور میرے پاس تشریف لائے تاکہ میری عیادت فرمائیں ۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

  یدى على جبھته فمسح وجھى وصدرى وبطنى... فما زلت یخیل الى بانى اجد برد یده على كبدى حتى الساعة.13
  آپ نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا میرے چہرے سینہ اور پیٹ کو مس فرمایا۔ مجھے آپ کے ہاتھوں کی ٹھنڈک آج تک سینے میں محسوس ہورہی ہے۔

آپ کی مبارک انگلیاں

رسول اکرم کی ہاتھ مبارک کی انگلیاں لمبی تھیں۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ہند بن ابی ہالہ سے روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ... سائل الاطراف.14
  آپ کی انگلیاں نہایت ہی خوبصورت اور لمبی تھیں۔

امام صالحی شامی ‘‘سائل’’کا معنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  یعنى انھا طوال لیست بمعقدة ولا منقبضة.15
  یعنی آپ کی انگلیاں لمبی تھیں نہ وہ کوتاہ تھیں اور نہ ہی خمیدہ۔

حافظ ابن ابی بکر ہیثمہ فرماتے ہیں:

  كان اصابعه قضبان الفضة.16
  آپ کی انگلیاں ایسی تھیں گویا کہ چاندی کی ڈالیاں ہوں۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم کے ہاتھوں کی انگلیاں مبارک چاندی کی ڈالی کی طرح لمب تھیں۔

دستِ اقدس کی سخاوت

رسول اکرم انتہائی فیاض و جواد تھےچنانچہ حضرت علی آپ کی سخاوت کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

  اجود الناس كفا.17
  حضور نبی کریم کا دست مبارک سب سے زیادہ سخی تھا۔

واقعۃً اس کائنات ہست وبود میں آپ سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں آپ نے اﷲ کی مخلوق فقراء، مساکین،بیوگان اور محتاجوں پر جس طرح خرچ فرمایا اس کی مثال نہیں بلکہ آپ کی ہی واحد ہستی ہے جس کی زبان پر کسی سائل کے سوال کےجواب میں ’’لا‘‘ (نہیں) کبھی نہیں آیا۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے ہاتھ مبارک انتہائی نرم وملائم تھے جن کی ٹھندک اور مہک سے صحابہ کرام ہمہ وقت لطف اندوز ہواکرتے تھے۔کسی سے مصافحہ کرتےوقت جب دو ہاتھ باہم ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں تواس وقت کچھ ہاتھ لمبے، کچھ چوڑے، کچھ چھوٹے، کچھ سیاہ، کچھ نیم سیاہ اورکچھ بالکل سفیدنظرآتےہیں۔ یہ سب خود انسان کی اپنی جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے ہی ہوا کرتا ہے۔ مردوں میں سرداراوررئیس لوگ جس طرح قد کاٹھ اوررنگت میں خوشنماہواکرتےہیں عموماً ویسے ہی ان کے ہاتھ بھی مردانہ شان کے آئینہ دارہوا کرتے ہیں ۔وہ جب دوسرے کسی انسان سے مصافحہ کرتے ہیں تومصافحہ کرنے والے کو بھی اس کی شخصیت کی قوت اورجسمانی طاقت کا اندازہ خود مصافحہ کی قوت سے ہوجایاکرتا ہے۔ رسول اکرم کے دست اقدس کی متوازن چوڑائی، لمبائی اورسفیدی بھی ایک طرف آپ کی جسمانی وجاہت کا شاہکارتھی تو دوسری طرف وہ آپ کی قوت بدنی کا پیمانہ بھی تھا جس کی نظیر تاریخ انسانیت میں ناپید ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ آپ کے دست اقدس سے ہمہ وقت خوشبو کی لپٹوں کا پھوٹنا اورمصافحہ کرنے والے اورمس ہونےوالی چیز یاجسم کے حصے کو خوشبو میں بسا لینا یہ آپ ہی کی شان نبوت تھی جوکسی دوسرے انسان کو تاریخ میں کبھی حاصل نہیں رہی۔ انسان کی پوری تاریخ میں ایسی ہستی کا ذکر سند اور تحقیق کی بنیاد پرناپید ہےجو حسی، جسمانی اورحقیقی طور پر نفاست و پاکیزگی کا انسانی فہم و ادراک سے مارواء مقام رکھتی ہو کہ وہ سراپا معطر و خوشبو ہو جیسا کہ حضور کی ذات پاک تھی۔

 


  • 1 سلیمان بن احمد طبرانی ،طبرانی الاوسط، حدیث: 9237، ج-9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا )،ص :97
  • 2 ابن حجر عسقلانی،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث: 3859، ج-3 ،مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا ) ،ص :323
  • 3 یوسف بن عبداﷲ بن محمد ابن عبدالبر قرطبی،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث: 4092 ، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا )، ص :1913
  • 4 سلیمان بن احمد طبرانی ،المعجم کبیر ، حدیث: 68، ج -22، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1984ء، ص:30
  • 5 محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث :2015، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1430ھ،ص :612
  • 6 مسلم بن الحجاج قشیری،صحیح مسلم، حدیث:2329، مطبوعۃ:دارالسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:1027
  • 7 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:85
  • 8 احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 17476 ، ج-29، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :21-22
  • 9 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث: 17478 ، ج-29، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :23-24
  • 10 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری،حدیث3553،ج-3،مطبوعۃ:دارالسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1419ھ ،ص: 596-597
  • 11 سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الاوسط، حدیث :9237، ج-9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :97
  • 12 نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، حدیث: 14057، ج -8، مطبوعۃ: مکتبۃ القدسی، القاھرۃ مصر، 1994ء، ص:383
  • 13 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 1474، ج-3 ، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 73-74
  • 14 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص: 11-13
  • 15 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:77
  • 16 ایضًا ، ص :73
  • 17 محمد بن سعد بصری ، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :315