Encyclopedia of Muhammad

آپ کی معطّر بغلیں

رسول اکرم سر تاپا حسن وجمال کا مظہر اتم تھے اور اسی طرح ہر ہر عضو مبارک بھی اپنی بناوٹ کے اعتبار سے رفیع و عظیم تھا۔اسی طرح حضور کی مبارک بغلیں بھی بے نظیر و بے مثال تھیں۔بالکل سفید، صاف وشفاف اور نہایت خوشبودار تھیں۔ آپ کی مبارک بغلیں دوسرے لوگوں کی طرح نہ تھیں ۔آپ کی بغلوں کا رنگ جسم کے دوسرے حصوں سے مختلف نہیں بلکہ یکساں تھا اور مبارک بغلیں بے بال بھی تھیں جس کے بارے میں کتب احادیث میں صحابہ کر ام سے متعدد احادیث مروی ہیں۔

رسول اکرم کی بغل مبارک کی رنگت

ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ نے حضور نبی کریم کے لیے وضو کا پانی پیش کیا توآپ نے مبارک ہاتھوں کو بلند فرمایا اور آپ نے خوش ہوکر انہیں دعا دی ۔وہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں:

  ورایت بیاض ابطیه.1
  میں نے حضور کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔

حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ کبھی کبھی حضور دربار خداوندی میں اتنے بلند ہاتھ کرکے دعا کرتے کہ آپ کی مبارک بغلیں نظر آنے لگتیں ۔ایک دفعہ نمازِ استسقاء کے موقع پر جو منظر دیکھا اسے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یرفع یدیه فى الدعاء حتى یرٰى بیاض ابطیه.2
  میں نے رحمت دوجہاں کو دعا ءِ(استسقاء) کے وقت اس قدر بلند ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھا کہ آپکی بغلوں کی سفیدی نظر آرہی تھی۔

اس حدیث کو امام محمد بن یوسف صالحی شامی نے بھی ذکر کیا ہے۔3

حضر ت جابر بن عبداﷲ سے رسول اکرم کی سجدہ کی حالت کی روایت مروی ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا سجد یرى بیاض ابطیه.4
  حضور جب سجدہ کرتے تھے تو آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی۔

امام محمد بن یوسف صالحی شامی نے اس حدیث کو اسی طرح ذکر کیا ہے۔5

مبارک بغلوں سے خوشبو

انسانی جسم کا وہ حصہ جس سے عموماً پسینہ کی وجہ سے ناپسندیدہ بو آتی ہے ایسا حصہ بھی حضور کے جسم اطہر کے حسن وجمال میں اضافے کا موجب بنا کیونکہ وہ بھی خوشبودار اور صاف وشفاف تھا۔ آپ کی مبارک بغلوں کے خوشبودار ہونے کے حوالے سے بنی حریش کا ایک شخص اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے والد گرامی کے ساتھ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا۔اس وقت حضرت ماعز بن مالک کو ان کے اقرار ِجرم پر سنگسار کیا جارہا تھا مجھ پر خوف سا طاری ہوگیا۔ممکن تھا کہ میں بے ہوش ہوکر گرپڑتالیکن ایسا نہیں ہوا جسکی وجہ ان کی روایت میں مروی ہے:

  فضمنى الیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسال على من عرق ابطه مثل ریح المسك.6
  پس رسول کریم نے مجھے اپنے ساتھ لگالیا ۔(گویا گرتے دیکھ کر مجھے تھام لیا) اس وقت آپ کی مبارک بغلوں کا پسینہ مجھ پر ٹپکاجو مشك کی خوشبو کی مانند تھا۔

امام محمد بن یوسف اصالحی الشامی نےاس حدیث کو اسی طرح ذکر فرمایا ہے۔7

آپ کی پاکیزہ بغلوں کی شفّافیت

نبی اکرم کی بغل مبارک کا رنگ بھی آپ کے جسم اطہر کی طرح سفید تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے حافظ محب الدین الطبری فرماتے ہیں:

  من خصائص النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ان الابط من جمیع الناس متغیر اللون غیره صلى اللّٰه علیه وسلم.8
  یہ حضور کی خصوصیت ہے کہ دیگر لوگوں کی بغلوں کا رنگ متغیر ہوتا ہے سوائے رسول اکرم کے۔(کہ آپ کی بغلوں کی رنگت متغیر نہ تھی بلکہ جسم کے دیگر حصوں کی طرح سفید وروشن تھی ۔)

آپ کی مبارک بغلوں کی انفرادیت

رسول اکرم کی بغلیں مبارک بے بال تھیں۔امام قرطبی اور امام اسنوی نے شیخ طبری کی مذکورہ رنگت کے متعلق تائید کرتے ہوئے اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں:

  انه لا شعر علیه.9
  آپ کی بغلوں میں بال نہیں تھے۔

امام جلال الدین سیوطی نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  وابطه ابیض غیر متغیر اللون ولا شعر علیه.10
  آپ کی مبارک بغلیں نہایت سفید تھیں ان کا رنگ متغیر نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی ان پر بال تھے۔

حضرت ملا علی قاری نے ان دونوں اقوال میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا کہ بال تھے مگر کثیر نہ تھے تو جن لوگوں نے نفی کی ہے ان کا مقصد کثرت کی نفی ہے۔ 11

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی مبارک بغلیں بہت خوبصورت تھیں۔ایک عظیم نورسے مزین تھیں جواُن میں بہترین چمک پیداکرتاتھا۔ربِ کائنات کی تخلیق کا حسن حضورکے ہر اعضومبارک سے جھلکتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ آپ کی بغلیں مبارک بھی بے مثال تھیں ۔عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ پسینہ اور نمی کی وجہ سے بغلوں میں سے ناخوشگوار بُوآتی ہےلیکن چونکہ رسول اللہ کو اللہ نے بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا اسی وجہ سے آپ کی مبارک بغلیں بھی عام بغلوں سے ہر لحاظ سے ممتاز تھیں ۔یہی وجہ تھی کہ آپ کی بغلوں میں بال کی کثرت نہیں تھی اور عمومی طور کے برعکس آپ کی بغلوں میں سے خوشبو آتی تھی نہ صرف اتنا بلکہ پہلو اور ہاتھ کے ملے رہنے کی وجہ سے بغلیں عام طور پر کالی ہوجاتی ہیں لیکن رسول اللہ کی بغلیں مبارک سفید(چمکدار) تھیں ۔ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کوہر لحاظ سے یکتا ومنفرد پیدا فرمایاتھا اور یہ کیوں نہ ہو کہ آپ (من جانب اللہ)خلق خدا کے لیے حجتِ کامل و اکمل تھے۔

 


  • 1 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 6020، ج -5، مطبوعۃ: دار القلم بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2345
  • 2 ابوداؤد سلیمان بن داؤ دالطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 2160 ، ج -3 ، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:529
  • 3 محمد بن یوسف اصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1971ء، ص:75
  • 4 محمد بن سعد بصری ، طبقات ابن سعد ،ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:324
  • 5 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد، ج-2،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1971ء، ص:75
  • 6 عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی ، سنن الدارمی، حدیث: 64، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی ، بیروت، لبنان،1407ھ، ص:34
  • 7 محمد بن یوسف اصالحی الشامی ،سبل الھدی والرشاد ،ج-2،مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1971ء، ص:75
  • 8 محمد بن یوسف الصالحی شامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:75
  • 9 ایضًا
  • 10 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، انموذج اللیب فی خائص الحبیب، مطبوعۃ : وزارۃ الاعلام، جدۃ، السعودیۃ، 1406ھ، ص:211
  • 11 نور الدین بن سلطان القاری ، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج -1، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع ،کراچی، پاکستان(شن اشاعت ندارد) ، ص:41