اللہ نے اپنے حبیب کریم کوعظیم تخلیق بناکر بھیجا اللہ رب العزت نے رسول اللہ کی شخصیت میں اپنی شان کو ظاہر کیا۔اللہ رب العزّت نے آپ کے سراپا کو ممتاز و مشرف اور ایک جداگانہ حیثیت میں اس دنیا میں خلق فرمایا۔ آپ کے جسد اقدس کا ہر عضو اور ہر حصہ اپنی مثال آپ تھا۔اسی طرح آپ ﷺکے کندھے مبارک بھی آپ کے باقی اعضاء جمیلہ و حسینہ کی طرح بے نظیر اور اپنی بناوٹ میں حسن کا اعلی شاہکار تھے۔روایت میں منقول ہے کہ آپ ﷺکےکندھے مبارک بڑے تھے اور کندھوں کے اوپر بال تھے ۔
کتب سیر واحادیث میں جلیل القدر صحابہ کرام حضرت علی ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت ہند بن ابی ہالہ اور حضرت براء بن عازب سے حضور نبی کریم کے مبارک کندھوں کے فاصلے کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے:
كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مربوعا بعید ما بین المنکبین.1
حضور نبی کریم میانہ قد کے تھے، دونوں کاندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔
امام ابن جوزی نےبھی اس حدیث کو اسی طرح بیان کیا ہے۔ 2
حبیب پاک کے مبارک کندھوں میں مناسب فاصلہ تھا۔ یہاں لفظ منکب وارد ہے جس سے مراد بازو اور شانہ کا محل اجتماع ہے۔3
امام بیہقی رسول اکرم کے کاندھوں کی بناوٹ بیان کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں:
وكان عظیم المنكبین اشعرھما.4
رسول اکرم کے دونوں شانے کشادہ تھے اور پر از بال تھے۔
ابن سبع اور رزین نے آپ کے خصائص میں ذکر کیا ہے۔
انه كان اذا جلس یكون كتفه اعلى من جمیع الجالسین.5
کہ جب آپ لوگوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ کا کندھا مبارک سب سے اونچا ہوتا۔
ملا علی قاری حضور کی اس صفتِ عالیہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
كان اذا جلس یكون كتفه اعلى من الجالس.6
آپ جب کسی مجلس میں تشریف فرماہوتے تو آپ کے کندھے تمام اہلِ مجلس سے بلند نظر آتے۔
حضور کے مضبوط کندھوں کے جوڑ نہایت ہی خوبصورت اور اعتدال کے ساتھ بڑے تھے۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ اس کےبارے میں فرماتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ... عظیم مشاش المنکبین.7
حضور کے کندھوں کے جوڑتوانا اور بڑے تھے۔
اسی حوالہ سے حضرت علی فرماتے ہیں:
جلیل المشاش والكتد.8
آپ کے تمام بدن کے جوڑ اور دونوں کاندھوں کا درمیانی حصہ نہایت مضبوط تھا۔
امام بیہقی ہند بن ابی ہالہ کی ایک روایت نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وكان...ضخم الكرادیس والكرادیس: عظام المنكبین والمرفقین والوركین والركبتین.9
رسول اکرم کے کاندھوں کے جوڑ موٹے تھے۔کرادیس کندھوں کی ہڈیوں ،کہنیوں کی ہڈیوں، کولہوں کی ہڈیوں، گھٹنوں کی ہڈیوں کو کہتے ہیں۔
اس رواہیت سےو اضح ہواکہ آپ کے کندھے مبارک کیے جوڑ موٹے تھے۔10
صحابہ کرام جب بھی نبی اکرم کی زیارت سے مشرف ہوتے تو آپ کی زیارت سے سکون و اطمینان پاتے اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے اس وقت کی حالت کو اپنے قلب و دماغ میں راسخ کرتے تھے۔ بعض دفعہ آپ کی زیارت کے دوران کبھی کوئی ادا رونما ہوتی تو اس کو بھی اپنے ساتھیوں سے بیان کرتے تھے۔ چنانچ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور کے مبارک کاندھوں سے کپڑاسرکتاتوظاہر ہوتاتوان کی کیفیت یوں ہوتی:
فكانه سبیكة فضة.11
تو یوں معلوم ہوتا جیسے چاندی کے ڈھلے ہوئے ہیں۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی دیہاتی آکر حضور کی قمیص کھینچ لیتا تو آپ کے کندھے مبارک چمکتے نظر آتے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:
فكانما انظر حین بدا منكبه الى شقة القمر من بیاضه صلى اللّٰه علیه وسلم.12
دوش اقدس سفیدی اور چمک کے باعث یوں نظر آتے جیسے ہم چاند کا ٹکڑا ملاحظہ کررہے ہوں۔
حضور نبی اکرم کے مبارک کندھے مضبوط اور قدرے فربہی لیے ہوئے تھے، بالکل پتلے شانے نہ تھے بلکہ خاص گولائی میں تھے، دونوں شانوں کی ہڈیوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا، جس نے سینہ اقدس کو فراخ اور دراز کردیا تھا13 آپ کے کندھے اور دوش مبارک نہایت مضبوط اور خوبصورت ، شانے ذرفربہ ،جلالت ووہیبت کامظہرِ اتم اور قوت وتوانائی کی عظیم علامت تھے۔14
کندھے مبارک آپ کی اعلی شان کےمظہر تھے جس نے بھی آپ کے کندھوں کو دیکھاتو بے ساختہ کہہ اُٹھتاکہ چاندسے زیادہ چمکتے تھے۔کسی نے کہا کہ میں نےایسے کندھے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے۔کسی نے اس طرح بیان کیا کہ اُونچے تھے، دونوں کاندھوں کے درمیان فاصلہ تھا ۔کسی نے چاند کے ٹکڑے سے تشبی دی الغرض یہ کہ آپ کی شخصیت کے ہر پہلو سے ربِ کائنات کی شان نظرآتی اوربندوں کو رب کی عظمت وبزرگی کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ کوئی نہیں اُس کے ذات سوا وہی واحدہ لاشریک ہےجو بڑی عظمت وقدرت والا ہے۔