Encyclopedia of Muhammad

آپ کا دہن مبارک

رسول اکرم در حقیقت رب کائنات کی وحدانیت کی اعلی و ارفع دلیل ہیں کہ جو مخلوق ہو کر بے مثل ہو اس کے خالق کی کوئی مثل کیسے ممکن ہے؟یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے آپکی تخلیق کو ممتاز و جداگانہ حیثیت سے خلق فرمایا۔چونکہ آپ اللہ تبارک وتعالی کی بے مثل تخلیق ہیں اسی لیے آپ کا ہر ہر جزوِبدن بے نظیر ہے۔اسی طرح حضور کا دہن (منہ) مبارک بھی انتہائی درجہ کا حسین اورموزونیت کی اپنی مثال آپ تھا۔روایت میں منقول ہے کہ آپ کا دہن مبارک فراخ، موزوں اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا ۔آپ کا منہ مبارک نہ صرف مصدرِ وحی الٰہی اور مخرجِ علم وحکمت تھا بلکہ اپنی ساخت کے اعتبار سے اعتدال اور موزونیت کا کامل واکمل آئینہ دار بھی تھا۔

چنانچہ رسول اکرم کے دہن مبارک کی صفت کو بیان کرتے ہوئے حضرت ہندبن ابی ہالہ فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضلیع الفم.1
  حضور ﷺکا منہ مبارک فراخ تھا۔

دہن مبارک کی اسی صفت کو حضرت جابر بن سمرہ نے بھی ذکر کیا ہے۔2 اسی طرح حضرت جمیع سے مروی ہے :

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضلیع الفم مفلّج الأسنان. 3
  رسول اکرم کا منہ مبارک ذرا فراخ اور دانت مبارک باہم مکمل طور پر ملے ہو ئے نہیں تھے بلکہ ان میں ذرا ذرا فاصلہ تھا اور کشادگی تھی۔4

امام ابن اثیر "ضلیع الفم" کی تشریح میں فرماتے ہیں:

  ضلیع الفم اى عظیمه وقیل: واسعه والعرب تمدح عظم الفم وتذم صغره.5
  ضلیع الفم کا معنی منہ کا باعظمت ہونا ہے بعض علما نے اس کا معنی فراخ بھی کیا ہے (لیکن یہ واضح رہے) کہ عرب تنگ منہ کو برا محسوس کرتے اور فراخ کو پسند کرتے تھے۔

ابن جوزیخود اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں:

  قوله: ( ضلیع الفم) أى كبیر، و( الفلج) تباعد مابین الثنایا والرباعیات.6
  راوی کا قول ضلیع الفم کا معنی ہے کہ دہن مبارک کشادہ تھا اورفلج کا معنی ثنائی اور رباعی دانتوں کے درمیان کا فاصلہ ہے۔

دہن مبارک چہرہ انور کے حسن و جمال کو دوبالا کرتا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ کے دہن مبارک سے جو کلمہ ادا ہوتا حق ہوتا، حق کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ یہ علم وحکمت کا چشمہ آبِ رواں تھا جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  وَمَا ینْطِقُ عَنِ الْھوٰى3 اِنْ ھوَاِلَّا وَحْى یوْحٰى4 7
  اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے ۔

سیاق کلام اس مفہوم پر دلالت کرتا ہے کہ جو کچھ بھی آپ دین کے متعلق گفتگو فرماتے تو یہ خالص وحی الٰہی ہوتی جو انہیں بھیجی جاتی۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی دینی امور کے متعلق ارشاد فرماتے تھے وہ وحی الٰہی کے تحت فرماتے ہیں اپنی منشا ومرضی کے تحت نہیں اور نہ ہی اپنی رائے سے کچھ کہتے ہیں بلکہ ان کا ارشاد وحی خالص ہوتا تھا۔ اس کی بابت مزید وضاحت درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہےجس میں حضرت عبد اللہ بن عمر نے اپنا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔چنانچہ ابن عمر بیان فرماتے ہیں:

  عن عبداللّٰه بن عمرو قال: كنت اكتب كل شىء اسمعه من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارید حفظه فنھتنى قریش وقالوا: اتكتب كل شىء تسمعه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بشر یتكلم فى الغضب والرضا؟ فامسكت عن الكتاب فذكرت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاوما باصبعه الى فیه فقال: اكتب فوالذى نفسى بیدہ ما یخرج منه الا حق.8
  حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں میں یاد کرنے کے ارادے سے ہر اس بات کو لکھ لیا کرتا جو رسول اﷲ سے سنتا پس قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا اور کہا کہ: آپ ہر اس بات کو لکھ لیتے ہیں جو کہ سنتے ہیں حالانکہ رسول اﷲ بھی بشر ہیں جو ناراضگی اور رضا مندی میں بھی کلام فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور حضور سے اس بات کا ذکر کیا تو حضور نے انگشت مبارک سے دہن اقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر حق۔

یعنی جو کچھ بھی رسول اللہ نے فرمایاہے وہ زبان صدق وصفاہے اور وہ ہو کر رہے گا پھر وہ ہوا بھی ویسے جیسے کی حضور اقدس نے فرمایا۔۔۔ ایک توجیہ یہ بھی کی گئی کہ حضور اقدس ادائے کلام اور ادائے مخارج میں صحیح اور موزوں تر لمحہ رکھتے تھے۔9

آپ کے الفاظ مبارک مثل نور کے موتی

گفتگو کے وقت آپ کے دہن مبارک سے جو نور کی جھڑیاں لگتی تھیں ان کے بارے میں حضرت ابوقرصافہ سے مروی ہے:

  بایعنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انا وامى وخالتى فلما رجعنا قالت امى وخالتى: یا بنى ما راینا مثل ھذا الرجل احسن وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.10
  جب میں، میری والدہ اور خالہ حضور نبی کریم کے دست اقدس پر بیعت کے بعد گھر لوٹے تو میری خالہ اور والدہ مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں: اے بیٹا ہم نے آج تک چہرہ کے لحاظ سے حسین، نظافت لباس اور نرمی کلام کے اعتبار سے اس ہستی جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کرتے وقت آپ کے مبارک منہ سے نور کی جھڑی لگ جاتی۔

دہن مبارک کی خوشبو

رسول اﷲ کے دہن اقدس سے نکلے ہوئے سانس اور لعاب وغیرہ کی خوشبو بہتر سے بہتر عطر سے بھی زیادہ عمدہ تھی۔ چنانچہ اس حوالہ سے حضرت انس بیان کرتے ہیں:

  شممت العطر كله فلم اشم نكھة اطیب من نكھة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.11
  میں نے ہر قسم کا عطر سونگھا ہے لیکن آپ کی مبارک مہک سے زیادہ عمدہ مہک نہیں سونگھی۔

مذکورہ بالا حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کا دہن مبارک ان تمام تر رعنائیوں اور کامل اوصاف کا حامل تھا جو کہ دہن اقدس کے لیے لازم ہیں ۔ خواہ وہ دہن اقدس کی کشادگی ہو یا دہن اقدس سے علم و حکمت کے غازن و منابع کا اخراج ہو۔ یا رسول اکرم کے دہن اقدس کی مہکی مہکی اور بھینی بھینی خوشبو میں سے آپ کے کلام کو سننے والے شخص کی طبیعت سماعت کی طرف مزید راغب ہو۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کا دہن اقدس مخرج و مصدروحی الٰہی بھی تھا جس دہن کے ذریعہ نوع انسانیت نے اپنی تمام تر ترقیوں کے راستوں کو عبور کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہےگے، کامیاب وہ لوگ ہیں جو اس مخرجِ و ماخذِ ہدایت و حکمت کے مطابق اپنی زندگی گزار لیتے ہیں۔

 


  • 1 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، الحدیث :7 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان 1988ء، ص:11-13
  • 2 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الجامع الصحیح للترمذی ، الحدیث :3647 ، ج -6، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص :33
  • 3 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىٰ ﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 4 امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی) ، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی ،لاہور ، پاکستان،2002ء،ص:445-446
  • 5 ابو السعادات مبارک بن محمد ابن الاثیر جزری، النھایۃ فی غریب الاحدیث والاثر، ج -3 ، مطبوعۃ: المکتبۃ العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1979ء، ص: 67-96
  • 6 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوز ى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص-45
  • 7 القرآن،سورۃ النجم53: 3-4
  • 8 سلیمان بن الاشعث السجستانی، سنن ابوداؤد، حدیث :3643، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 9 عبدالقیوم حقانی،شرح شمائل ترمذی،ج-2،مطبوعہ:مطبع عربیہ ،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:123
  • 10 احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ،ج-2،مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:20
  • 11 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان، 1990ء، ص:286