Encyclopedia of Muhammad

آپﷺ کی زبان مبارک

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو تخلیق فرماکر اسے چند قوتیں بھی عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ سے انسان اس زندگی کو بہتر انداز سے جیتا ہے۔ان قوتوں کے ذریعہ ہی سے وہ علم وعرفان کی دولت سے بھی نوازا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالہ سے قرآن ِ مجید میں ایک مقام پرارشاد فرمایا:

  وَاللّٰه اَخْرَجَكمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّھتِكمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۙ وَّجَعَلَ لَكمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَة ۙ لَعَلَّكمْ تَشْكرُوْنَ781
  اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حالت میں) باہر نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔

اس آیتِ مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا میں آتے ہوئے لا علم تھا پھر اسے علم کے لیے کان،آنکھ اور دل دیے گئے تاکہ ان سے وہ علم حاصل کرے۔پھر جب وہ علم حاصل کرتا ہے تو اب اس کے اظہار کے لیے اسے زبا ن جیسی عظیم المرتبت نعمت سے نوازا گیا ہے اور پھر نہ صرف ایک زبان بلکہ کئی زبانیں اسے سکھائی گئیں ہیں۔چنانچہ اس بات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا ہے:

  وَمِنْ اٰیتِه خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكمْ وَاَلْوَانِكمْ ۭ اِنَّ فِى ذٰلِك لَاٰیتٍ لِّــلْعٰلِمِینَ222
  اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں۔

اس آیت مذکورہ میں اللہ ربُّ العزّت نے زبانوں کے مختلف ہونے کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے اور اہل علم کے لیے مرکزِ غور وفکر بھی بیان کیا ہے جس کا مطلب یہ ہےکہ زبان،قوتِ تکلم اور اس کا اختلاف انسانی زندگی کےلیے لازمی جز ہے جس سے انسانی معاشرہ ارتقائی سفر طے کرتا ہوا ترقی کی طرف گامزن رہتا ہے۔ یہ تو عمومی طور پر زبان کے حوالہ سے بات تھی۔خصوصی طور پر قارئین اس طرف توجہ کریں کہ نبی اکرم کی زبان مبارک کا حال اس سے کہیں زیادہ بلند وبالا ہے۔آپ کی زبان ِ اقدس مھبطِ وحی الہٰی ہے اور اس زبان مبارک ہی کے ذریعہ سے انسانیت کا راستہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اسلام اور اس کے احکامات سے جڑتا ہے۔ حضور نبی کریم کی مبارک زبان نہایت پاکیزہ، علم وادب، فصاحت وبلاغت، حق وصداقت اور لطف ومحبت کا منبع ومظہر تھی۔ آپ کا کلام شیریں، حق و باطل میں فرق کرنے والا، واضح و مبین اور ہر قسم کے عیوب یعنی افراط وتفریط، جھوٹ، غیبت، بدگوئی اور فحش کلامی وغیرہ سے منزہ اور پاک تھا گویا آپ کا کلام لڑی کے موتی تھے جو سطح زمین کی طرف گرتے ہوئے انتہائی دلنشین و سحر نگین محسوس ہوتے تھے۔

آپ کی زبان مبیّنِ وحی الہٰی

آپ کی زبان اقدس ہی امت کے لیے وہ عطیہ ربانی ہے جس کے وسیلہ وواسطہ سے امتِ محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتسلیم اپنے رب کریم کی معرفت سے عارف بنی اور اسی زبان اطہر کے طفیل اس تک اللہ ربُّ العزّت کا کلام بے نظیر پہنچا۔اس کلام کو یاد کرنےاور امت تک پہنچانے کے لیے نبی کریم کافی مشقت برداشت فرماتے اور دوران وحی الہٰی اس کو محفوظ کرنے کے لیے اس کی تلاوت میں جلدی فرماتے تھے۔چنانچہ اس بات کو ایک مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:

  وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یقْضٰٓى اِلَیك وَحْیه وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا114 3
  اور آپ قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کریں قبل اس کے کہ اس کی وحی آپ پر پوری اتر جائے، اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی بات کا ذکر فرمایا ہے کہ نبی اکرم وحی کی حفاظت کے خاطر وحی الہٰی کے دوران ہی اس کویاد کرنے میں جلدی فرمایا کرتے تھے۔پھر اس جلدی کی وضاحت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک دوسرے مقا م پر بیان فرمائی ہے کہ اس وحی الہٰی کو یا دکرنے کے خاطر آپ اپنی زبان اقدس کو جلدی جلدی حرکت دیتے تھے جس سے آپ کو روکا گیا۔چنانچہ اللہ تبارک وتتعالیٰ نے اس کا ذکر قرآنِ مجید میں پھر یوں فرمایا ہے:

  لَا تُحَرِّكْ بِه لِسَانَك لِتَعْجَلَ بِه164
  (اے حبیب!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں۔

اس آیت ِ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس جلدی کی وضاحت یوں بیان فرمائی ہے کہ آپ دوران وحی الہٰی اپنی زبان اطہر کو جلد از جلد حرکت نہ دیا کریں ۔اس کی تفسیرمیں امام رازی رقمطراز ہیں:

  كان الرسول صلى اللّٰه علیه وسلم یظھر التعجیل فى القراءة مع جبریل، وكان یجعل العذر فیه خوف النسیان، فكأنه قیل له: إنك إذا أتیت بھذا العذر لكنك تعلم أن الحفظ لا یحصل إلا بتوفیق اللّٰه وإعانته فاترك ھذا التعجیل واعتمد على ھدایة اللّٰه تعالى، وھذا ھو المراد من قوله.5
  نبی کریم حضرت جبریل کے ساتھ پڑھنے میں جلدی فرمایا کرتے تھے اور اس میں آپ کا جلدی فرمانا نسیان کے عذ ر کے اندیشہ کی وجہ سے تھا تو آپ سے ارشاد فرمایا گیا کہ اگرچہ کہ آپ اس عذ رکی بناء پر جلدی قرات فرماتے ہیں لیکن اس بات کو جان لیجیے کہ حفظ کرنا اللہ کی توفیق و مددکے ساتھ ہی ممکن ہے لھذا آپ ( )اس عجلت کو ترک فرمائیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی (حفظ کے لیے)رہنمائی پر اعتماد فرمائیں۔باری تعالیٰ کے اس فرمان مبارک کا یہی مطلب ہے۔

یعنی نبی اکرم وحی الہٰی کو حفظ کرنے کے لیے ضرورتًا تعجیل فرمایا کرتے تھے کہ مبادا کہیں بھول نہ جائیں تو اللہ ربُّ العزّت نے تعجیل سے روکا اورمذکورہ اندیشہ کے پیشِ نظر آپ کو اطمینان و تسلّی دیتے ہوئے اس سے اگلی آیت میں ارشادفرمایا کہ اس وحی کو جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ کرم پر ہے۔ 6

آپ کی زبان مبارک پتلی تھی

مذکورہ آیاتِ بیّنات سے جہاں مذکورہ بالا معروضات واضح ہوتی ہیں وہیں نبی اکرم کی زبان اطہر کی ساخت بھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ کی زبان مبارک کی ساخت کے حوالہ سے کتب ِ سیر و احادیث میں صاف اور واضح روایات منقول و مذکور نہیں ہیں کہ جن سے اندازہ ہوسکے کہ آپ کی زبان مبارک کی ہیئت و کیفیت کس طرح کی تھی کیونکہ یہ جسم ِ مبارک کا پوشیدہ حصہ تھا جس کو زیادہ دیر تک دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔لیکن مذکورہ بالا آیت کریمہ کے تناظر میں ایک بات یہ واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم اپنی زبان کو جلد از جلد یاد کرنے کےلیے حرکت دیا کرتے تھےاور یہ جلد از جلد حرکت دینا اسی صور ت میں ممکن ہے کہ جب آپ کی زبان مبارک پتلی ہوکیونکہ موٹی زبان سریع الحرکت نہیں ہوتی بلکہ اس میں کچھ لکنت پیدا ہوجاتی ہے اور الفاظ کی ادائیگی میں دشوار ی ہوتی ہے۔یہ مشاہداتی بات ہے کہ جتنے بھی لکنت والے اشخاص ہیں ان میں اکثریت کی زبان موٹی ہوتی ہے۔

آپ کی زبان اقدس کی رنگت

رسولِ اکرم کی زبان مبارک بالکل آپ کے جسمِ اطہر کی طرح پاکیزہ و شفاف تھی اور آپ کے دہن مبارک کی پاکیزگی کی بنا پر آپ کی زبان مبارک کی نظافت بھی انتہائی اعلی درجہ کی تھی یہی وجہ ہے کہ زبان اطہر کی رنگت سرخی مائل تھی۔چنانچہ کئی روایات میں منقول ہے کہ آپ اپنی زبان مبارک اہلِ بیت کو چسوایا کرتے تھے اور بالخصوص ایک موقع پر حضرت امام حسنِ مجتبٰی کو آپ نے اپنی زبان مبارک چسوائی ۔چنانچہ حضرت ابو ہریرۃ سےروایت میں منقول ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لیدلع لسانه للحسن بن على فیرى الصبى حمرة لسانه فیبھش الیه.7
  رسول اکرم حضرت حسن بن علی کے لیے اپنی زبان مبارک کو دہن اقدس سے باہر نکالتے تھے تو حضرت حسن آپ کی زبان مبارک کی سرخی کو دیکھتے اور اس کی طرف جھپٹتے۔

اس روایت کو امام بغوی8 اور امام قسطلانی9 دونوں ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔مجمع الزوائد میں بھی اس حوالہ سے ایک روایت منقول ہے جس میں زبان کےساتھ ساتھ ہونٹ چوسنے کا بھی ذکر ہے۔ 10مذکورہ روایت کی مزید تشریح درج ذیل روایت سے ہوتی ہے جو حضرت ابو ہریرہ سے ہی مروی ہے:

  قال: لا أزال أحب ھذا الرجل: یعنى الحسن بعدما رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصنع به ما یصنع قال: رأیت الحسن فى حجر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھو یدخل أصابعه فى لحیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، والنبى صلى اللّٰه علیه وسلم آ یدخل لسانه فى فمه، أو لسان الحسن فى فمه، ثم قال: اللھم إنى أحبه، فأحبه وأحب من یحبه.11
  حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ اس شخص یعنی حضرت حسن سے محبت کرتاہوں جب سے میں نے رسول اللہ کو ان کے ساتھ وہ کرتے دیکھا جو میں نے دیکھا۔آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن مجتبی کو (بچپن میں) نبی اکرم کی گود مبارک میں اس حال میں دیکھا کہ حضرت حسن اپنی انگلیوں کو نبی کریم کی داڑھی مبارک کے درمیان ڈال رہے تھے او رنبی اکرم (پیار بھرے انداز میں )اپنی زبان مبارک کو ان کے منہ میں ڈال رہے تھے یا ان کی زبان کو اپنے منہ مبارک میں ڈا ل رہے تھے ۔پھر نبی اکرم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ بلا شبہ میں اِن سے محبت کرتا ہوں تو آپ بھی اس سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے بھی محبت فرمائیں جو اِس سے محبت رکھے۔

اس روایت کو ابن المقرئ12 اور یوسف الصالحی الشامی 13دونوں ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے اوراس روایت سے مذکورہ بالا روایت کی تفصیلی وضاحت ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم کی زبان سرخ تھی اور آپ اس کو اپنے نواسے حضرت حسن ِمجتبی کو چسوایا بھی کرتے تھے ۔اسی طرح رسولِ اكرم نے اپنی زبان مبارک حضرت حسین کو بھی چسوائی ہے اور اس طرح آپ بھی نبی کریم کی زبان مبارک سے فیضیاب ہوئے ہیں۔چنانچہ مروی ہےکہ ایک مرتبہ نبی کریم حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء کے گھر کے پاس سے گزرے تو حضرات حسنین کریمین کی رونے کی آواز سنی تو وجہ دریافت فرمائی۔سیّدہ نے عرض کی کہ پیاس کی وجہ سے روتے ہیں تو آپ نے پہلے حضرت حسن کو باہر بلوایا اور سینے سے لگا کر اپنی زبان اطہر چسوائی جس وہ پر سکون ہوگئے۔ مروی روایت میں حضرت ابوہریرہ مزید فرماتے ہیں:

  والآ خر یبكى كما ھو یسكت فقال صلى اللّٰه علیه وسلم ناولینى الآخر فناولته ایاه ففعل به كذالك.14
  اور دوسرے(حضرت حسین )بھی رونے لگے جیساکہ وہ (پہلے)چپ تھے تو نبی کریم نے سیّدہ فاطمۃ الزہراء سے فرمایا کہ دوسرے کو بھی مجھے دیں تو آپ نے حضرت حسینکو آپ کو دیا تو رسول اللہ نے انہیں بھی اپنی زبان مبارک چسوائی۔

بہر کیف روایت سابقہ میں مذکور لفظ حمرۃ لسانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زبان اطہر سرخ تھی اور زبان کی سرخی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپ اس کی پاکیزگی و نظافت کا انتہائی اہتمام فرمایا کرتے تھے كیونکہ آپ کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ مسواک شریف سےمکمل دہن مبارک صاف فرماتے تو ساتھ ساتھ اپنی زبان اطہر کو بھی مسواک کے ذریعہ سے صاف فرمایا کرتے تھے۔ 15

آپ کی زبان مبارک کی مٹھاس

حضور نبی کریم نےاپنی زبان مبارک نہ صرف حضرت حسنِ مجتبی کو چسوائی ہے بلکہ بعد از ولادت حضرت علی المرتضیٰ کو اور حضرت خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہراء کو بھی چسوائی ہےجس سے مقصود محبت وپیار کا اظہار ہے اور یہ اظہارِ محبت صرف اہلِ بیت کرام ہی کے ساتھ فرمایا اور کسی کے ساتھ نہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس طرح کا اظہارِ محبت صرف اہل ِ بیت کے ساتھ ہی خاص تھا نہ کہ عام جیسا کہ بعض نا عاقبت اندیشوں کا خیاِلِ فاسدہ ہے۔بہر کیف حضرتِ علی المرتضیٰ کے حوالہ سے روایت میں منقول ہے:

  وفى خصائص العشرة للزمخشرى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تولى تسمیته بعلى وتغذیته ایاما من ریقه المبارك بمصه لسانه فعن فاطمة بنت أسد أم على رضى اللّٰه تعالى عنھا أنھا قالت: لما ولدته سماه علیا وبصق فى فیه، ثم إنه ألقمه لسانه، فما زال یمصه حتى نام، قالت: فلما كان من الغد طلبنا له مرضعة فلم یقبل ثدى أحد، فدعونا له محمدا فألقمه لسانه فنام، فكان كذلك ما شاء اللّٰه عز وجل.16
  علامہ زمخشری کی کتاب خصائص میں یہ منقول ہے کہ بلا شبہ نبی کریم نے ہی حضرت علی المرتضٰی کا نام علی رکھا اور کئی روز تک انہیں اپنی زبان کے چسوانے کے ذریعہ اپنے لعابِ دہن مبارک سے غذا دی ۔چنانچہ امّ علی حضرت فاطمہ بنت اسد سے مروی ہے کہ آپ فرماتی ہیں:جب میں نے حضرت ِ علی کو جنا تو نبی کریم ﷺنے آپ کا نام علی رکھا اور آپ کے منہ میں لعاب مبارک ڈالا ۔پھر نبی کریم ﷺنے آپ کو اپنی زبان مبارک چسوائی تو حضرت علی اس زبان ِ اقدس کو مسلسل چوستے رہے یہاں تک کہ آپ سوگئے۔حضرت فاطمہ بنت اسد فرماتی ہیں کہ اگلا دن جب آیا تو ہم نے آپ کے لیے چند دائیوں کو تلاش کیالیکن کسی ایک کا بھی پستان آپ نے قبول نہیں کیا ۔پھر ہم نے آپ کے لیے نبی کریم کو بلایا تو آپ نے ایک بار پھر اپنی زبان مبارک کو حضرت علی کے منہ میں ڈالا تو آپ چوس کر سوگئے ۔ایساتب تک رہا جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ نے چاہا۔

یعنی حضرت علی المرتضیٰ کو گھٹّی میں نبی کریم نے اپنی زبان اطہر چسوائی اور آپ بھی اس مقدس زبان کو چوستے رہے یہاں تک کہ سوگئے۔ اسی طرح نبی کریم نے اپنی زبان مبارک حضرت خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہراء کو بھی چسوائی تھی اور یہ اعزاز آپ کی بیٹیوں میں صرف حضرت فاطمۃ الزہراء کو ہی حاصل ہے۔چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشۃ سے روایت منقول ہے :

  كان یمص اللسان اى یمص لسان حلائله وكذا ابنته فقد جاء فى حدیث انه كان یمص لسان فاطمة ولم یرو مثله فى غیرھا من بناته.17
  نبی کریم اپنی زبان مبارک چسوایا کرتے تھے یعنی اپنے نواسوں کو اور اسی طرح اپنی بیٹی کو بھی ۔پس حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء کو اپنی زبان مبارک چسوایا کرتے تھے اور آپ کے علاوہ کسی اور بیٹی کے بارے میں اس طرح کی روایت منقول نہیں ہے۔

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم کی زبان مبارک سے حضراتِ اہل بیت کرام نے خو ب فیض حاصل کیا ہے اور یہ صرف خاصہ اہلِ بیت ہے۔

ہر عیب سے پاکیزہ زبان مبارک

حضور کی مبارک زبان فضول اور لایعنی باتوں سے پاک تھی اس لیے کہ زبان اقدس وحی الہٰی کا ماخذ و مصدر تھی اسی لیے اس زبان مبارک میں سرے سے غلطی اور خطا کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔چنانچہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  وَمَا ینْطِقُ عَنِ الْھوٰى3 اِنْ ھوَاِلَّا وَحْى یوْحٰى4 18
  اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے، اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے ۔

یعنی جو کچھ بھی آپ دینی امور میں گفتگو فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی سے بیان کرتے ہیں۔تو جو زبان اللہ ربُّ العزّت کی وحی کا مھبط ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ زبان مبارک ہر قسم کے عیب و بد سے مبراءو منزہ ہوگی۔اس کی تائید اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ اس زبان سے صرف حق و سچ ہی نکلتا ہے۔چنانچہ امام ابو داؤداس حدیث ِ مبارکہ کو نقل فرماتے ہیں:

  عن عبداللّٰه بن عمرو قال: كنت اكتب كل شىء اسمعه من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارید حفظه فنھتنى قریش وقالوا: اتكتب كل شىء تسمعه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بشر یتكلم فى الغضب والرضا؟ فامسكت عن الكتاب فذكرت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاوما باصبعه الى فیه فقال: اكتب فوالذى نفسى بیده ما یخرج منه الا حق.19
  حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں: میں یاد کرنے کے ارادے سے ہر اس بات کو لکھ لیا کرتا جو رسول اﷲ سے سنتا پس لوگوں نے مجھے منع کیا اور کہا کہ :آپ ہر اس بات کو لکھ لیتے ہیں جو کہ سنتے ہیں حالانکہ رسول اﷲ بھی بشر ہیں جو ناراضگی اور رضا مندی میں بھی کلام فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور حضور سے اس بات کا ذکر کیا تو حضور نے انگشت مبارک سے دہن اقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر حق۔

اسی طرح حضرت علی نے بھی اسی تناظر کے تحت ارشاد فرمایا ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخزن لسانه الا فیما یعنیه.20
  نبی کریم زبان اقدس کو لا یعنی باتوں سے محفوظ رکھتے تھے۔

یعنی رسول اکرم کی زبان مبارک سے حق و سچ ہی نکلتا تھا جو کہ منصبِ نبوت و رسالت کا عین تقاضہ ہے اوراس حق وسچ کے علاوہ لایعنی کوئی کلام آپ بالکل نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح آپ کی زبان اقدس ہر طرح کےعیوب ونقائص سے بالکل پاک و صاف تھی ۔

رسول اللہ کی زبان کی خصو صیّت

آپ کی زبان مبارک ہی وہ کامل و اکمل زبان اطہر ہے کہ جس کوربُّ العزّت نے اپنے کلام کے صدور کے لیے منتخب فرمایا ہے اور قرآن مجیدمیں بھی اس کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا ہے:

  بِلِسَانٍ عَرَبِى مُّبِینٍ195 21
  (اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے،

نہ صرف یہ بلکہ نبی مکرم بھی اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ منقو ل ہے کہ ایک دفعہ صحابہ کرام نے نبی اکرم کی فصاحت ِ لسان کے بارےمیں خدمت ِعالیہ میں حاضر ہوکر عرض کیا :

  یا رسول اللّٰه ما رأینا الّذى ھو أفصح منك، قال: وما یمنعنى، وإنما أنزل القرآن بلسانى لسان عربى مبین.22
  یا رسول اللہ !ہم نے آپ سے زیادہ فصیح اللسان نہیں دیکھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:مجھے اس فصاحت ِ لسانی میں کون روک سکتا ہے ؟حالانکہ قرآن مجید میری ہی زبان یعنی واضح عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔

یہ زبان ِ رسالت کی خصوصیّت اور آپ کا شرف وامتیاز ہے کہ انسانیت کے لیے آخری ہدایت نامہ اللہ ربُّ العزّت کی جناب مقدسہ سےآپ کی زبان میں نازل فرمایا گیا ہے۔

نبی اکرم کا ایک خصوصی نام "اللّسان"

نبی اکرم کی زبان کی روانی ،الفاظ کی ادائیگی،مفہوم کی وضاحت اور سامعین کی دلچسپی کی بنیا د پر آپ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام"اللسان " بھی ہے۔اس کے متعلق وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے امام یوسف الصالحی الشامی تحریر فرماتے ہیں:

  ویطلق على الرسالة وعلى المتكلم عن القوم... واللسن بالفتح الفصاحة والبلاغة، وسمي به صلى اللّٰه علیه وسلم لأنه لشدة بلاغته وفصاحته كان مجموعة لسان.23
  اور(لسان کا)اطلاق پیغام پر اور قو م کی طر ف سے بات کرنے والےپر کیا جاتا ہے۔۔۔لسن (سین کے)زبر کے ساتھ فصاحت و بلاغت کو کہتے ہیں اور یہ نبی کریم کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ اپنی فصاحت ِلسانی و بلاغت کی شدت کی وجہ سے اس کا مجموعہ تھے۔

یہی تو وجہ ہے کہ نبی کریم بھی اپنی فصاحتِ لسانی اور بلاغتِ کلامی کی امتیازیت کو بیان فرماتے تھے24اور خصوصًا صحابہ کرام اور عمومًا اہلِ عرب اس بات کے معترف تھے۔25

لسانِ رسول کی کمالِ گفتگو

آپ جب لسانِ رسالت سےگفتگو فرماتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے آپ کے مبارک منہ سے نور کی جھڑی لگ گئی ہو ۔مجلس کے حسب حال گفتگو فرماتے، نہ اس میں زیادہ اختصار ہوتا اور نہ ہی طوالت، بڑے بڑے فصحاء آپ کی گفتگو سن کر ششدررہ جاتے اور پکار اٹھتے کہ واقعی اس منہ سے وحی الہٰی کا ہی ظہور ہوتا ہے۔حضو رنبی کریم اکثر طور پر امت کے بارے میں متفکر رہتے تھے ، آپ نے مصروفیات اور عظیم ذمہ داریوں کی وجہ سے کبھی راحت نہیں پائی۔ آپ زیادہ تر خاموش رہتے تھے اوربلاضرورت گفتگو نہ فرماتے ،ابتدائے کلام سے انتہائے کلام تک مکمل اور پورے الفاظ اور فقرے ادا فرماتے ،نوک زبان سے کوئی لفظ نہ کاٹتے گفتگو کرتے وقت جامع کلمات استعمال کرتے۔چنانچہ اسی بارے میں ایک روایت میں منقول ہے:

  كلامه فصل لا فضول ولا تقصیر.26
  آپ کی گفتگو انتہائی صاف اور واضح ہوتی۔ ضرورت سے زائد نہ ہوتی اور نہ ہی ادائیگی مقصود میں کوئی کمی ہوتی۔

حضرت ام معبد نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا:

  فصل لا نزر ولا هذر.27
  آپ کا کلام فصیح و بلیغ ہوتا نہ اس میں کمی ہوتی نہ کثرت۔

امام بیہقی"لانزر ولا ھذر" کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  ترید انه وسط لیس بقلیل ولا كثیر.28
  حضرت امِّ معبد کی مراد یہ ہے کہ آپ کا کلام خوبصورت اور متوسط ہوتا تھا ،نہ قلیل تھا نہ کثیر تھا۔

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت اُ م معبد آپ کے حسن ِتکلم کا بیان اپنے ان الفاظ میں کرتی ہیں:

  اذا صمت فعلیه الوقار واذا تكلم سما وعلاه البھاه ...حلوا لمنطق.29
  جب آپ خاموشی اختیار فرماتے تو چہرہ اقدس سے وقار وعظمت جھلکتی اور جب کلام فرماتے تو اہل مجلس پر چھا جاتےاورآپ کا حسن دوبالاہوجاتا ۔۔۔ آپ کی گفتگو شہد کی طرح میٹھی ہوتی تھی۔

اصحاب سیر آپ کی پیاری گفتگو کے بارے میں لکھتے ہیں:

  اعذبھم كلاما...حتى كان كلامه یاخذ بالقلوب.30
  آپ کا کلام اتنا میٹھا ہوتا تھا کہ دلوں میں اتر جاتا۔

شیخ عبد اﷲ سراج الدین شامیآپ کی مبارک گفتگو کی حلاوت کے بارے میں لکھتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حلوا لمنطق حسن الكلام اذا تكلم اخذ بمجامع القلوب وسبی الارواح والعقول.31
  آپ کی گفتگو نہایت ہی خوبصورت اور شیریں ہوتی جب آپ کلام فرماتے تو دلوں کو تسکین ہوتی اور روح وعقل اس میں گرویدہ وگرفتار ہوجاتے۔

فی الحقیقت کلام ہی زبان جیسے پوشیدہ جسمانی حصہ کا آئینہ و ترجمان ہوتا ہے اوراس میں رسول اکرم کی زبان مبارک تمام آئینوں پر سبقت رکھتی ہے۔

لسانِ رسالت کا اندازِ بیاں

اسی طرح آپ گفتگو اتنی ٹھہر ٹھہر کر فرماتے کہ ہر سامع اسے اچھی طرح محفوظ کرلیتا تھا۔ بعض اوقات اہم یا غیر واضح بات کو تین دفعہ بھی دہراتے۔اُم المومنین عائشہ صدیقہ آپ کی مبارک گفتگو کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ جلدی جلدی کلام نہیں فرماتے تھے اور آپ کی گفتگو بڑی واضح اور صاف ہوتی تھی۔ اگر کوئی شخص آپ کی گفتگو کے الفاظ کو شمار کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا۔اسی حوالہ سے آپ مزید فرماتی ہیں:

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یحدث حدیثا لو عده العاد لاحصاه.32
  رسالت مآب اتنا ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے کہ شمار کرنے والا اسے شمار کرسکتا تھا۔

دوسرے مقام پر سیّدہ عائشہ صدیقہ ہی سے مروی ہے کہ آپ اس طرح سمجھا کر گفتگو فرماتے کہ اہل مجلس میں سے اسے ہر کوئی محفوظ کرلیتا تھا:چنانچہ روایت میں اس طرح منقول ہے:

  ما كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یسر د سردكم ھذا ولكنه كان یتكلم بكلام بینة فصل یحفظه من جلس الیه.33
  آپ کا طریقہ جلدی جلدی گفتگو کرنے کا نہ تھا بلکہ انتہائی واضح اور صاف گفتگو فرماتے اورآپ کے پاس بیٹھنے والا اسے یاد کرسکتا تھا۔

آپ کے حسنِ کلام کے حوالہ سے حضرت جابر بن عبداﷲ فرماتے ہیں:

  كان فى كلام رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ترتیل وترسیل.34
  آپ کے کلام میں نہایت خوبصورت نظم اور ٹھہراؤ تھا۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا صفاتی نام" اللسان"فی الحقیقت آپ ہی کے لیے مناسب و نمایاں ہے اوریہ کمال بھی آپ ہی کی زبان مبارک کو حاصل ہے کہ اس سے نکلنے والا ہر کلام ہی حق و صداقت اور انسانیت کے لیے رہنمائی کا علمبردار تھا ۔ 35

لسان رسول سے کف اللّسان کی نصیحت

نبی اکرم اپنی امت کی خیر خواہی کے لیے ان سے زیادہ حریص تھے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید36 میں بھی بیان فرمایا ہے اوراسی نصیحت کے پیشِ نظر آپ بعض دفعہ اپنی زبان مبارک کو اپنے دہنِ اقدس سے باہر نکال پھر اس کو اپنے دستِ اطہرسے پکڑ کر اشارہ فرماتے تھے تاکہ سننے والا نصیحت کی اہمیت کو دل میں جاں گزیں کر کے اس پر عمل پیرا ہوجائے اور کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔چنانچہ اسی طرح کی ایک روایت میں منقول ہےکہ ایک صحابی حضرت سفیان بن عبد اللہ نے نبی کریم سے عرض کیا:

  فما أكثر ما تخاف على؟ قال: فأخذ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بلسان نفسه ثم قال: " ھذا ".37
  آپ میرے لیے کس چیز کو زیادہ باعث خوف جانتے ہیں تو رسول اللہ نے اپنی زبانِ مبارک کو پکڑا اور پھر فرمایا:اس کو۔

اس روایت کو امام ابن حبان نےبھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔38اس روایت کے علاوہ بھی کئی دیگر روایات میں مختلف مواقع پر آپ کے اس طرح اپنی زبان مبارک کو پکڑ کرنصیحت فرمانے کا ذکر ہے ۔اس سے جہاں ایک طرف یہ اندازہ ہوتاہے کہ نبی اکرم امت کے لیے انتہائی حریص ہیں وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ زبان پکڑ کر نصیحت فرمانا بھی آپ کا مقدس طریقہ رہا ہے۔

آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے تمام مخلوقات کے لیے رحمتِ خداوندی بنائے گئے ہیں اور خصوصا نوعِ انس و جن کے لیے رسول بنا کر مبعوث فرمائے گئے ہیں جس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کلیۃً اپنے امتیوں سے بڑھ کر مشرف وممتا زہوں ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی مکرم کو جہا ں ہر طرح کی خصوصیات میں اعلی و ارفع درجہ عطا فرمایا ہے وہاں حسن وجمال میں بھی یکتائے زمانہ اور سب سے اجمل واکمل واحسن بنایا تھا۔یہ حسن و خوبصورتی آپ کے ہر عضو میں نمایاں تھی اور آپ کی زبان مبارک میں بھی اس کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔آپ کی زبان مبارک اعتدال و موزونیت کا شاہکار تھی اور ساتھ ہی ساتھ سرخ و پتلی بھی تھی کہ جس سے نظافت و لطافت اور حسن کلام کی صفت کا معلوم ہوتا ہے۔اسی زبان مبارک سے انس و جن کے لیے کامیابیوں اور کامرانیوں کے در واہوئے تھے اور ہو رہے ہیں۔اگر انس و جن اپنے تمام تر معاملاتِ زندگانی میں اسی زبانِ رسالتِ مآب کی رہنمائی کو اپنالے اور اس پر عمل ِ پیہم استقامت سے شروع کردیں تو یقینی طور پر امنِ عالم اور سکونِ انس وجن سے تمام عالم پر سکون ہوجائےگا ۔ا س کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اللہ ربُّ العزّت اس زبانِ اطہر کی رہنمائی کے مطابق زندگی گزارنے والوں کو اعلیٰ مقامات ومناصب پر جلوہ گر فرمائے گا۔ جو ایک طرف زبان ِ رسالت کی ماننے والوں کے لیےباعِث عزت و شرف ہوگا تو دوسری طرف تکذیب کرنے والوں اورنا فرمانوں کے لیے ندامت وحسرت کا موجب ہوگا۔

 


  • 1 القرآن ، سورۃالنحل78:16
  • 2 القرآن ، سورۃالروم22:30
  • 3 القرآن، سورۃطٰہٰ114:20
  • 4 القرآن ، سورۃ القیامۃ 75: 16
  • 5 ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدین الرازی،التفسیر الکبیر،ج-30، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ،ص:727
  • 6 القرآن ، سورۃالروم23:30
  • 7 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ،حدیث : 330، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:160
  • 8 ابو محمد الحسين بن مسعود البغوى الشافعى، الأنوار فى شمائل النبى المختارﷺ، حدیث: 313، ج-1، مطبوعۃ: دار المكتبى، دمشق، السوریۃ، 1995ء،ص:254
  • 9 شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-2، مطبوعة: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، (ليس التاريخ موجودّا)، ص:686
  • 10 ابو الحسن علی بن ابی بکر الھیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: 15045، ج-9، مطبوعۃ:مکتبۃ القدسی،القاھرۃ، مصر، 1994ء، ص:177
  • 11 ابوسعید بن الاعرابی احمد بن محمد البصری، معجم ابن الاعرابی، حدیث: 1365 ، ج-2، مطبوعۃ: دار ابن جوزی،المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 1997ء،ص:680
  • 12 ابو بکر محمد بن ابراھیم الاصبھانی، المعجم لابن المقری، حدیث:631، مطبوعۃ:المکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1998ء،ص:201
  • 13 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد، ج-11، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:66
  • 14 ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر، حدیث: 2656، ج-3، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:50
  • 15 ابوعبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند احمد بن حنبل، حديث: 19737، ج-32، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001ء،ص:514
  • 16 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی،السیرۃ الحلبیۃ،ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ء، ص:382
  • 17 عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی، الشمائل الشریفۃ، مطبوعۃ: دار طائر العلم للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:371
  • 18 القرآن، سورۃالقیامۃ16:75
  • 19 سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی، سنن ابوداؤد، حدیث: 3646 ،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 20 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 330، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:160
  • 21 القرآن،سورۃ الشعراء195:26
  • 22 ابو العباس احمد بن علی المقریزی، امتاع الاسماع ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999ء،ص:261
  • 23 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الهدى والرشاد، ج-1، مطبوعة:دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1993، ص:500-501
  • 24 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبرٰی، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء،ص:91
  • 25 محمد طاھر بن محمدالتونسی، التحریر والتنویر، ج-1، مطبوعۃ:الدار التونسیۃ للنشر، التونس، مصر، 1984ء،ص:107
  • 26 ابو محمد عبد الله بن محمد الأصبهانى، أخلاق النبىﷺ وآدابه، حدیث: 184، ج-1، مطبوعۃ:دار المسلم للنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 1998ء،ص:491
  • 27 ابو نعیم احمد اصفہانی، دلائل النبوۃ ، ج -1، مطبوعۃ: دار النفائس،بیروت، لبنان، 1986ء، ص:337
  • 28 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:284
  • 29 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 3605 ، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 48
  • 30 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:131
  • 31 شیخ عبداﷲ سراج الدین شامی، محمد رسول اﷲ ﷺ، مطبوعۃ: حلب ،شام،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:40
  • 32 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 3493، مطبوعۃ: دارالسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ ، ص: 1297
  • 33 محی السنۃ حسن بن مسعود بغوی، الانوار فی شمائل النبی المختارﷺ،حدیث: 333، مطبوعۃ: دار المکتبی، دمشق، سوریا ، 1995ء، ص:265
  • 34 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:283
  • 35 سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی، سنن ابوداؤد، حدیث: 3646 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 36 القرآن،سورۃ التوبۃ 128:9
  • 37 ابوبکر احمد بن حسین البیھقی، شعب الایمان، حدیث: 4574، ج-7، مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2003ء، ص:9
  • 38 ابومحمد بن حبان بن احمد الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث: 5698، ج-13، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:5