چہرہ انسانی حسن کا عکاس ہوتاہےجس میں آنکھیں، ناک ، ہونٹ،ابرو، رخساروغیرہ کےنقوش حسن کوچار چاند لگاتےہیں۔یہ جس قدر خوبصورت ہوتے ہیں چہرہ اتنا ہی حسین ہوتاہے۔حضورپرنور کی جبین، آنکھیں، ابرو،ناک اوردیگراعضاء انتہائی حسین تھے۔حضور نبی کریم حسنِ ظاہری کی نظافت ولطافت کا اہتمام بھی فرماتےتھے۔ جیسےگیسوئےمبارک میں کنگھاکرنا،داڑھی مبارک میں تیل یا خوشبولگاناوغیرہ۔اس کی وجہ واضح ہے کہ چہرہ پرداڑھی یا مونچھوں کے بال بڑھ جاتےہیں جوبسااوقات قباحت کا سبب بنتے ہیں۔ اسی لیے حضور نبی کریم جمعۃ المبارک کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے اپنے ناخن اور مونچھیں کاٹتے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں:
رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یحفى شاربه.1
میں نے حضور کی زیارت کی اس وقت آپ اپنی مونچھیں ترشوارہے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن بسر بیان کرتے ہیں:
رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یطر شاربه طراً.2
میں نے اﷲ کے رسول کو مونچھیں مونڈتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت اُم عیاش فرماتی ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یحفى شاربه.3
حضور اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔
عبد الرحمن بن زیاد نے اپنے شیوخ سے روایت کیا:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یاخذ الشارب من اطرافه.4
حضور اطراف سے اپنی مونچھیں ترشوادیتے تھے۔
مذكوره احادیث مبارکہ سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہےکہ آقائے کریم کی مونچھیں بھری ہوئی اور مکمل تھیں اسی لیے وہ دائیں بائیں اور اوپر نیچے سے بڑھ جایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ان کو آقا کریم تر شوا لیا کرتے تھے۔ کیونکہ آپ اپنےظاہری حسن و جمال کوآنےوالےلوگوں کی تعلیم کی غرض سےخوب مدّنظررکھتے تھےورنہ آپ ظاہری وباطنی حسن وجمال سےآراستہ وپیراستہ تھے۔ جسم اور بالخصوص چہرہ اقدس پر اضافی بالوں کے بڑھنے کی صورت میں دوبارہ حالت اعتدال میں لے آتے تاکہ زیب و زینت کی مثال اعلى وارفع رہے۔
مونچھیں کاٹنے کواحادیث میں فطرت بتلایا گیا ہے۔حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں کہ:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: من الفطرة حلق العانة وتقلیم الاظفار وقص الشارب.5
حضور نے فرمایا: زیر ناف بالوں کو صاف کرنا، ناخن کاٹنا اور مونچھیں تراشنا فطرت سلیمہ کا حصہ ہیں۔
دوسری روایت میں ہے حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: الفطرة قص الاظفار واخذ الشارب وحلق العانة.6
رسول اﷲ نے فرمایا: ناخن تراشنا ،مونچھیں کترنا اور زیر ناف بال مونڈنا فطرت ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:
عن النبی صلى اللّٰه علیه وسلم قال: الفطرة خمس او خمس من الفطرة الختان والاستحداد و تقلیم الاظفار وتنف الابط وقص الشوارب.7
رسو ل اﷲ نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں:ختنہ کرنا، زیرناف بال صاف کرنا ،ناخن کاٹنا، بغل کے بال نوچنا اور مونچھیں تراشنا۔
حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: من الفطرة المضمضة والاستنشاق والسواك وقص الشارب وتقلیم الاظفار ونتف الابط والاستحداد و غسل البراجم والانتضاح والا ختتان.8
حضور نے فرمایا یہ کام فطرت میں سے ہیں۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا، مونچھوں کا کتروانا، ناخن کاٹنا، بغلوں کے بال صاف کرنا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، جوڑوں کا میل صاف کرنا، شلوار پر پانی چھڑکنا اور ختنہ کرنا۔
اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: عشر من الفطرة ! قص الشارب واعفاء اللحیة والسواك واستنشاق المآء وقص الاظفار وغسل البراجم ونتف الابط و حلق العانة وانتقاص المآء.قال زكریا: قال مصعب: ونسیت العاشرة الا ان تكون المضمضة.9
حضور نے فرمایا: دس چیزیں فطرت(سلیمہ میں سے) ہیں مونچھیں ترشوانااورداڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، جوڑوں کا دھونا، بغل کے بال نوچنا، زیر ناف بال صاف کرنا، استنجاء کرنا، راوی دسویں چیز بیان کرنا بھول گیا لیکن اس کا خیال ہے کہ وہ کلی کرنا ہے۔
فطرت ان چیزوں کو کہا جاتا ہے کہ انسا ن کی طبیعت سلیمہ پیدائشی طور پر ان کو پسند اور قبول کرتی ہو اور انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام بھی لازما اختیار اور پسند کرتے ہیں اس لئے امور فطرت ایسے کاموں کو بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ جن پر تمام انبیاء اور رسولوں کا عمل ہو اور جو سب کا متفق علیہ طریقہ ہو اور ساتھ ہی ہم کو ان پر عمل کرنے کا بھی حکم ہو۔
ناخن کاٹنے کو فطرت اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ انسان کی فطرت اور پیدائش میں داخل ہے یعنی انسان کی فطرت سلیمہ (سلامتی والی فطرت) ناخن کاٹنے کا تقاضا کرتی ہے اور جب فطرت کے ساتھ شریعت کا بھی حکم ہو تو اس کی تاکید اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
امام عینی فرماتے ہیں:
وارد بالفطرةالسنة القدیمة التى اختارھا الانبیاء علیھم السلام واتفقت علیھا الشرائع فكانھا امر جلى فطروا علیه.10
اور فطرت سے مراد قدیم (وپرانا) طریقہ ہے جس کو تمام انبیاء نے اختیار کیا ہے اور اس پر تمام شریعتیں متفق رہی ہیں گویا کہ یہ ایسا واضح حکم ہے کہ جس پر انبیاء کو پیداکیا گیا ہے۔
مونچھیں کاٹنا ہمارے پیارے آقا کی سنت کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم کی بھی سنت ہے،حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں:
كان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم یقص او یاخذ من شاربه... قال: وكان ابراھیم خلیل الرحمن یفعله.11
حضور اپنی مونچھیں کتراتے یا نوچ لیتےتھے۔فرمایا:اور حضرت ابراہیم خلیل الرحمن یہ عمل کیا کرتے تھے۔( یعنی وہ بھی مونچھیں کترتے تھے)۔
نیز دوسری روایت حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یجز شاربه وكان ابراھیم النبی صلى اللّٰه علیه وسلم یجز شاربه.12
حضور اپنی مونچھیں کاٹتے تھے اور حضرت ابراہیم بھی اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔
امام احمد بن حنبل شیبانی کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقص شاربه وكان ابو كم ابراھیم من قبله یقص شاربه.13
حضور اپنی مونچھوں کو تراشا کرتے تھے اور ان سے پہلے تمہارے باپ ابراہیم بھی اپنی مونچھوں کو تراشتے تھے۔
امام سعید فرماتے ہیں:
كان ابراھیم اول الناس قص شاربه.14
سب سے پہلے حضرت ابراہیم نے مونچھیں کاٹی تھیں۔
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰھیمَ رَبُّه بِكلِمٰتٍ فَاَتَـمَّھنَّ 12415
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں۔
حضرت عبداﷲ بن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ابتلاه اللّٰه عزوجل بالطھارة خمس فى الراس وخمس فى الجسد، فى الراس قص الشارب والمضمضة والاستنشاق والسواك وفرق الراس، وفى الجسد تقلیم الاظفار وحلق العانة والختان ونتف الابط وغسل مكان الغائط والبول بالماء.16
اﷲ تعالیٰ نے انہیں طہارت کے ساتھ آزمایا ہے پانچ کا تعلق سر سے ہے اور پانچ کا جسم سے ہے سر والی یہ ہیں:(1)مونچھیں کاٹنا ، (2) کلی کرنا ، (3)ناک میں پانی چڑھانا، (4) مسواک کرنا، (5)مانگ نکالنا اور جسم والی یہ ہیں: (6) ناخن کاٹنا، (7) زیر ناف بال مونڈنا، (8) ختنہ کرنا، (9) بغلوں کے بال اکھیڑنا، (10) قضائے حاجت اور پیشاب کی جگہ کو پانی سے دھونا۔
حضور نبی کریم جمعۃ المبارک کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے اپنے ناخن اور مونچھیں کاٹتے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو بیان کرتے ہیں:
كان یاخذ اظفارہ وشاربه كل جمعة.17
نبی کریم ہر جمعۃ المبارک کو اپنے ناخن اور مونچھیں کترتے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن الاغر فرماتے ہیں:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقص شاربه ویاخذ من اظفاره قبل ان یروح الى صلاة الجمعة.18
رسول اﷲ ﷺنماز جمعہ ادا کرنے کے لئے جانے سے پہلے اپنی مونچھیں کاٹتے اور ناخن کترتے تھے۔
حضرت نافع فرماتے ہیں:
ان عبداللّٰه بن عمر كان یقلم اظفارہ ویقص شاربه فى كل جمعة. وروینا عن ابی جعفر مرسلا قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یستحب ان یاخذ من شاربه واظفاره یوم الجمعة.19
نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن عمر ہر جمعہ ناخن تراشتے اور مونچھیں کاٹتے تھے۔ امام ابو جعفر سے مرسل روایت منقول ہے کہ رسول اﷲ پسند فرماتے تھے کہ ہر جمعہ مونچھیں اور ناخن کاٹے جائیں۔
حضرت محمد بن حاطب سے روایت ہے کہ:
كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یاخذ من شاربه وظفره یوم الجمعة.20
نبی کریم جمعہ کے دن اپنی مونچھیں اور اپنے ناخن کاٹتے تھے۔
امام ابو الحسن بن ضحاک حضرت ابورمثہ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقص اظفاره وشاربه یوم الجمعة.21
کہ حضور نبی کریم بروز جمعۃ المبارک کو اپنے ناخن اور مونچھیں کاٹتے تھے۔
حضرت معاویہ بن قرہ فرماتے ہیں:
كان لى عمان قد شھدا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یاخذان من شواربھما واظفارھما كل جمعة.22
میرے دو چچاؤں نے حضور کو (ہمیشہ ) جمعہ کی دن مونچھیں اور ناخن کانٹتےہوئے دیکھا ۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے:
عن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم انه قیل له: یا رسول اللّٰه ! لقد ابطا عنك جبریل؟ فقال: ولم لا یبطى عنى وانتم حولى لاتستنون ولا تقلمون اظفاركم ولا تقصون شواربكم ولاتنقون رواجبكم.23
حضور نبی کریم سے عرض کیا یا رسول اﷲ جبریل نے آپ کے پاس خبر لانے میں دیر کردی رسول اﷲ نے فرمایا وہ میرے پاس آنے میں کیوں دیر نہ کرتے جب کہ تم میرے ارد گرد رہنے والے نہ مسواک کرتے ہو، نہ تم اپنے ناخن کاٹتے ہو، نہ تم اپنی مونچھیں کاٹتے ہو اور نہ تم اپنے ہاتھوں کے جوڑاندر سے صاف کرتے ہو۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں:
وكان شاربى وفَى فقصه لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على سواك. او قال: اقصه لك على سواك.24
میری مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں حضور نے ایک مسواک نیچے رکھ کر انہیں کتردیا۔یا فرمایا: میں انہیں مسواک پررکھ کر کتردیتاہوں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ سے ایک دوسری روایت میں اس طرح آتا ہے:
ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم راى رجلا طویل الشارب فدعا بسواك و شفرة فوضع السواك تحت الشارب فقص علیه.25
نبی کریم نے ایک آدمی کو دیکھا، اس کی مونچھیں بہت زیادہ لمبی تھیں، تو آپ نے مسواک اور ایک استرہ(بلیڈ) منگوایا، پس مسواک اس کی مونچھوں کے نیچے رکھی اور اس کی مونچھیں کاٹ ڈالیں۔
حضرت عبیداﷲ بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں:
جاء مجوسى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد اعفى شاربه واحفى لحیته فقال: من امرك بھذا؟ قال: ربى. قال: لكن ربى امرنى ان احفى شاربى واعفى لحیتى.
ایک مجوسی بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوا جس نے مونچھیں چھوڑرکھیں تھیں اور داڑھی کاٹ رکھی تھی۔ آپ نے اس سے پوچھا تمہیں یہ کس نے حکم دیا ہے؟اس نے عرض کی: میرے رب نے۔آپ نے فرمایا:مگرمیرےرب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی مونچھیں ترشواؤں اور داڑھی کو بڑھاؤں۔26
امام ابن حجر عسقلانی امام نوویکے حوالے سے فرماتے ہیں:
یستحب ان یبدا فى قص الشارب بالیمین.27
مونچھیں کاٹنے میں دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں:
وقت لنا فى قص الشارب وتقلیم الاظفار ونتف الابط و حلق العانة ان لا نترك اكثر من اربعین لیلة.28
رسو ل اﷲ نے ہمارے لیے مونچھیں ترشوانے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال صاف کرنے، زیرناف بال صاف کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر فرمائی ہے۔
ملا علی قاریفرماتے ہیں:
الافضل ان یقلم اظفارہ ویحفى شاربه ویحلق عانته وینظف بدنه بالاغتسال فى كل اسبوع مرة فان لم یفعل ذلك ففى كل خمسة عشر یوما ولا عذر فى تركه وراء الاربعین فالاسبوع ھو الافضل والخمسة عشر ھو الاوسط والاربعون ھو لابعد ولا عذر فیما وراء الاربعین ویستحق الوعید عندنا.29
افضل یہ ہے کہ آدمی یہ کام ہر ہفتہ میں ایک بار کرلیا کرے۔(1)اپنے ناخن کاٹنا(2) اپنی مونچھوں کو کاٹنا (3)اپنے زیر ناف بال مونڈنا(4) اپنے بدن کو غسل کرکے صاف کرنا۔اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر ہر پندرہ دن میں ایک بار کرے اور چالیس دن تک چھوڑنے میں کوئی عذر قبول نہیں ہوگا لہٰذا ایک ہفتہ کی مدت افضل ہے پندرہ دن کی درمیانی مدت ہے اور چالیس دن کی مدت انتہائی مدت ہے اور چالیس دن سے زیادہ مؤخر کرنے کے لیے کوئی عذر قبول نہیں ہوگا بلکہ ہمارے نزدیک وہ وعید کا مستحق ٹھہرے گا۔
حضورنے اپنی پوری حیات مبارکہ میں بڑی اور لمبی مونچھیں نہیں رکھیں بلکہ جب جب مونچھیں بڑھ کر لب مبارک پر آنے لگتی آپ اس کو فوری کتروا دیا کرتے تھے۔ کیونکہ آپ نہایت سلیم الطبع و نازک مزاج تھے اسی لیے آپ نہ خود بڑی اور بڑھی ہوئی مونچھوں کو پسند فرماتے اور نہ کسی اور کی اس طرح کی مونچھوں کو پسند فرماتے کیونکہ مونچھیں بار بار انسان کے منہ میں داخل ہوتی ہیں اور تمام کھانے پینے کی اشیاء میں شامل ہوکر اس کو آلودہ کر تی ہیں ۔ حضور نے ان معاملات میں طبعی نظامت و لطافت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی مونچھوں کو ترشوا اور بناکر، کم فرما دیا کرتے تھے۔