رسول اکرم کو اللہ رب العزت نے ہر لحاظ سے یکتا ئے روزگا پیدا فرمایاہے اورآپ سے منسوب ہرہر شئی کوانفرادی طرز پر خلق فرمایا تھا۔آپ کے جسم نازنیں میں سے ایک عضوِ کامل واکمل آپ کی ناک مبارک ہے۔جو اپنی ہیئت و کیفیت ور اعتدال وموزونیت میں آپ کے ہر عضو کی طرح بے نظیر تھا۔آپ کی ناک مبارک بلندی مائل تھی جس پر ایک قسم کی چمک و نورانیت تھی ۔ ناک کا بلند اور نمایاں ہونا ہمیشہ سے عزت وعظمت کی علامت رہا ہے ۔حضور کی نورانی ناک بھی اونچی، پتلی اور لمبی تھی اور یہ تینوں صفات آپس میں انتہائی متوازن ومتناسب انداز میں یکجا تھیں جس کی وجہ سے ناک مبارک نہایت پر ُ نور ،خوبصورت اور دلآویز دکھائی دیتی تھی ۔آپ کےحسن میں مزید اضافہ اس نور سے ہوجاتا تھا جو آپ کی ناک پر ہر وقت چھایا رہتا تھا اسی نور کی وجہ سے آپ کی ناک مبارک نمایاں طور پر بلند اور طویل نظر آتی تھی۔ چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:
كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اقنى العرنین له نور یعلوه یحسبه من لم یتامله اشم و لیس باشم.1
رسول اﷲ کی ناک مبارک لمبی، باریک اور درمیان سے قدرے بلند تھی اس پر ہمہ وقت نور کی برسات رہتی (اس نور کی شعاع کے پیش نظر) بنظرِ غائر نہ دیکھنے والے کو ناک مبارک بلند دکھائی دیتی حالانکہ فی الواقع بلند نہ تھی۔
اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب میں اسی طرح ذکر کرتے ہیں۔2
حضرت علی ناک مبارک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دقیق العرنین.3
آپ کی ناک مبارک حسنِ تناسب کے ساتھ باریک تھی۔
ابن جوزی اس کی شرح میں ذکر فرماتے ہیں:
العرنین: الأنف. والقنى: أن یكون فى عظم الأنف احدیداب فى وسطه. والأشم: الذى عظم أنفه طویل إلى طرف الأنف. 4
عرنین کا معنی ہے ناک اور قنی کامطلب ہے کہ ناک کی ہڈی کا درمیان سے نفاست کے ساتھ ہموار ہونااور اشم اس ناک کو کہتے ہیں کہ جو بلند ہو اور ناک کےکنارہ لمبی ہو۔
اسی طرح قنی کا معنی بیان کرتے ہوئے امام صالحى فرماتے ہیں:
والقنى فیه طوله ودقة ارنبته مع ارتفاع فى وسطه.5
اقنی اس ناک کو کہا جاتا ہے جو لمبی اور نرم ہو اور اس کا درمیانی حصہ بلند ہو۔
یعنی ناک مبارک کمال موزونیت اور حسنِ اعتدال کی آئینہ دار اور اعلیٰ درجہ کے حسن تناسب کا شاہکار تھی محض جلوہ نور کی وجہ سے بادی النظر میں بلند محسوس ہوتی تھی۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اقنی کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
تفسیر كرده انداقنى رابسائل الحاجبین مرتفع الوسط وسائل از سیلا نت بمعنى ھموار با نوعى از طول و دقیق العرنین نیر آمدہ و دقت نزدیك بمعنى سیلانست و مراد نفى غلو است.6
اقنی کی تفسیر "سائل الحاجبین" یعنی مرتفع الوسط سے کی گئی ہے۔ سائل سیلان سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ناک کی لمبائی اور باریکی میں یک گونہ ہمواری کے بھی منقول ہیں اور لفظ دقت (باریکی) سیلان کے ہم معنی بھی آتا ہےجس کا مطلب ناک کے موٹاپے کی نفی کرنا ہے۔ 7
اسی طرح مزید آپ تحریر فرماتے ہیں:
عرنین انف آنحضرت رانورى مشتعل بود كه گمان مى برد كسیكه نیك تامل نمى كرد كه بلند است و بلند نبود و آن بلندى نور بود كه بالا مید و ید و آن رانیز نشان نیك بختى و سعادت مندى مى دارند.8
حضور اکرم کی بینی مبارک ایسی نورانی تھی کہ دیکھنے والا جب تک بغور نہ دیکھے یہی گمان کرتا تھاکہ آپ کی بینی شریف بلند ہے حالانکہ بلند نہ تھی بلکہ یہ بلندی نور کی تھی جو ہر ایک شے کو نمایاں کرتا تھا۔ نیز اس خوبی میں نیک بختی اور سعادت مندی کی نشانی بھی ہے۔9
حضور اکرم کی ناک مبارک خوبصورت تھی جس طرح حضور کے جسم اطہر کے دوسرے اعضاء مبارک حسن وجمال میں انتہائی نفیس دیدہ زیب اور خوب روتھے ایسے ہی آپ کی ناک مبارک بھی بے حد جاذب نظرآتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ آپکی ناک یعنی بینی مبارک پر نور درخشاں رہتا تھا جو ناک مبارک کے حسن کو دوبالا کرتا تھا۔ناک مبارک اپنی بناوٹ میں فطری طور پر انتہائی موزون اور دلکش تھی۔10
چپٹی ناک چہرہ کے حسن میں کمی کردیتی ہے۔اور جو زیادہ پھیلی ہوئی نہ ہونیز اوپر کو اٹھی ہوئی ہوتو چہرہ کے جمال کو دوبالا کردیتی ہے۔11 نبی اکرم کی ناک مبارک کا حال یہی تھا کہ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔
اللہ نے اپنے نبی کی ذات میں حسن کے کمالات کوچھپایا جومختلف انداز سے ظاہر ہوتا رہا۔اور تمام انسانیت کو رب کی شان کی طرف اشارہ کرتا رہاآپ کی بینی (ناک مبارک)بھی حسن کا عظیم شاہکار تھی۔
آپ کے روشن چہرہ مبارک پر آپ کی خوبصورت،پُرنور اور باوقار بینی مبارک آپ کے جمال وکمال ہی کا روشن تاج تھا جس کی موزوں بلندی اور حسن تناسب نے آپ کے پورے جسم مبارک اور بالخصوص چہرہ انور کے جمال وکمال کو چار چاند لگایا تھا۔انسان کے چہرہ پر اگر ناک سیدھی ہونے کے بجائے ٹیڑھی ،بلند ہونےکے بجائے پست اور دبی ، متناسب ہونے کے بجائے موٹی یا نہایت باریک اور روشن ہونے کے بجائے شرمندگی کا شکار ہوتوانسانی چہرہ مرجھاجاتا ہےاور اس کی شخصیت کا وقاروتمکنت ختم ہوکر رہ جاتی ہے،ہر حسن وجمال اور مقناطیسی شخصیت کے خواص میں سے ایک خاصہ ناک کے حسن وجمال بھی جس کا عکسِ جمیل پورےچہرہ اور یہ پورے وجود پر جھلکتا تھے۔بالفاظ دیگر جس قدر ناک خوبصورت ہوتی ہے اتناہی چہرہ خوبصورت ہواکرتا ہے اللہ کے رسول سراپا آئینہ جمال خداوند ی ہیں اور آپ کے جمال مبارک کا کمال آپ کی بینی مبارک کا آئینہ دار تھا اسی لیے رب تعالی نے آپ کی بینی مبارک کو آپ کی شخصیت کی عظمت کا شاہکاار بنایاتھا۔