Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکی داڑھی مبارک

اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اشرف و افضل مخلوق بنایا گیا ہے 1 اورجس کی ساخت و قوام بھی سب سے زیادہ حسین و جمیل پیدا کیےگئے ہیں۔2 اس کے ساتھ ساتھ اس کا مکمل جسم انتہاء درجہ کے اعتدال کے ساتھ تخلیق کر کے اس کودنیا میں بھیجا گیا ہے۔3 جب یہ نوع انسانی کے افراد کی عمومی حالت ہے تو وہ قدسی جماعت جو ان انسانوں کے لیے رہبر ورہنما بناکر بھیجی گئی ہے ا س مقدس جماعت انبیاء کرام کے حسن و خوبصورتی کا کیا عالم ہوگا؟اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حسن یوسف کو دیکھا تو دیکھنے والیاں پکا ر اٹھیں کے قسم بخدا یہ انسان نہیں بلکہ معزز فرشتہ ہیں۔4جب حسن یوسف کا یہ عالم ہے تو سرور انبیاء خاتم النبیین کے حسن کا اندازہ لگانا یقینا عقل سے بالا تر ہے۔جس کے عجز کا اظہار آپ کو دیکھنے والوں نے ان الفاظ سے کیا کہ نہ آپ سے پہلے کبھی اتنا حسین دیکھا گیا اور نہ ہی آپ کے بعد دیکھا جا سکتا ہے۔5 سرورِ عالم حضور اکرم حسن کامل و اکمل کا پرتو تھے جو بے نظیر تھا۔اسی طرح آپ کے جسم اقدس کے تمام خدو خال بھی انفرادی طور پر یکتا حسن کے حامل تھے اور جب جسم اطہر کی صورت میں ان کی مجموعی حالت کسی انسان کی بصار ت میں اپنا جلوہ دکھاتی تو وہ آپ کی حقانیت و صادقیت کی بر ملا گواہی دیتا۔انہی اعضاء جسم نبوی میں سے آپ کی داڑھی مبارک بھی تھی جو گھنی، گنجان اور خوش منظر تھی۔ ایسی بھری ہوئی نہ تھی کہ پورے چہرے کو ڈھانپ لے اور نیچے گردن تک چلی جائے۔داڑھی مبارک کے بال بالکل سیاہ تھے ۔ عمر مبارک کے آخری حصہ میں کل سترہ یا بیس بال ریشِ مبارک میں سفیدہوگئے تھے لیکن یہ سفید بال عموماً سیاہ بالوں میں چھپے رہتے تھے، آپ ریشِ مبارک کے بالوں کو طول و عرض سے برابر کٹوادیا کرتے تھے تاکہ بالوں کی بے ترتیبی سے شخصی وقار اور وجاہت متاثرنہ ہو۔6

داڑھی کا وسیع اور کشادہ ہونا خوشنمائی کی علامت ہوتاہے۔ جن لوگوں کی داڑھی صرف ٹھوڑی پر ہوتی ہےوہ خوشنما نہیں ہوتی اور اس سے چہرے کا بھی حسن نہیں کھلتا جبکہ لمبی اور چوڑی داڑھی سے چہرہ کا حسن نمایاں ہوتا ہے اور چہرہ پروقار اور وجیہ معلوم ہوتا ہے۔7

آپ ﷺکی مبارک داڑھی معتدل اورگھنی تھی

شمائل حبیب کےبارے میں وارد احادیث مبارکہ اس کوخوب واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ چنانچہ حضرت علی سے مروی ہے :

  كان رسول اللّٰهٍ صلى اللّٰه علیه وسلم : ضخم الرأس واللحیة.8
  حضور اعتدال کے ساتھ بڑے سر اور بڑی داڑھی والے تھے۔ 9

امام ابوبکر الاجری لکھتے ہیں کہ حضرت ھند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم...كث اللحیة.10
  آپ کی داڑھی مبارک گنجان تھی۔

اس حدیث میں موجود لفظ الکث کا معنی بیان کرتے ہوئے امام بیہقی فرماتے ہیں:

الکث کا مطلب ہوتاہے کہ بالوں کے اُگنے کا وہ سرا جو ایک دوسرے سے ملا ہوا ہو۔11

ا سی طرح امام شامی صالحی لکھتے ہیں:

  وقال جبیر بن مطعم كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم اللحیة.12
  حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ حضور کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔

مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ سے آپ کی داڑھی مبارک کا تذکرہ ان الفاظ میں سنا کہ حضرت نافع بن جبیر سے روایت ہے:

  قال: وصف لنا على النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ، فقال: كان ضخم الھامة عظیم اللحیة.13
  حضرت علی نے ہمیں نبی کا حلیہ بیان کرتےہوئےفرمایا: آپ کی داڑھی مبارک اعتدال کے ساتھ لمبی تھی اور سرِ اقدس بڑا تھا۔

سینہ اقدس کو ریش مبارک نے جو زینت بخشی تھی صحابہ کرام اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

  كث اللحیة تملأ صدره.14
  حضور نبی کریم کی مبارک داڑھی گھنی اور سینے کو پُر کیے ہوئے تھی۔

اسی حوالہ سے حضرت اُم معبد فرماتی ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كثیف اللحیة.15
  آپ کی داڑھی مبارک کے بال الجھے ہوئے نہ تھے۔

حضرت انس سے آپ کے بارے میں منقول ہے:

  كانت لحیة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد ملات ھھنا الى ھھنا وامر یدیه على خدیه.16
  دونوں ہاتھوں سے اپنے رخساروں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی داڑھی مبارک یہاں سے یہاں تک تھی۔

حضرت جھضم بن الضحاک بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مقامِ رخیخ پر ٹھہرا تھا تو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس نے نبی کریم کی زیارت کی ہے:

  فاتیته فقلت رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال نعم رایته رجلا مربوعا حسن السبلة.17
  میں اسی وقت اس شخص کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ نے محبوبِ خدا کی زیارت کی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں آپ کاقد مبارک نہایت خوبصورت تھا نہ زیادہ طویل نہ ہی پست اور آپ کی داڑھی نہایت خوش منظر تھی۔

"السبلۃ" سامنے والی ڈاڑھی کو کہتے ہیں۔ لحیہ کے وہ سامنے والے بال جو سینہ پر لٹکے ہوتے ہیں یعنی نچلی ٹھوڑی والے بال ۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے داڑھی مبارک گنجان ،سینہ تک بھری ہوئی اور سلجھی ہوئی تھی۔

آپ ﷺکی داڑھی کی رنگت

رسول اکرم کی داڑھی مبارک انتہائی گہری سیاہ تھی۔چنانچہ امام بیہقی اس بارے میں روایت نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اسود اللحیة.18
  آپ کی داڑھی مبارک خوب سیاہ تھی۔

حضرت سعید بن مسیب کی اسی روایت کو ابن عساکرنے بھی ان الفاظ میں بیان کیاہے:

  كان اسود اللحیه حسن الشعر.19
  حضور نبی اکرم کی ریش مبارک سیاہ اور خوبصورت تھی۔

حضرت سعد بن ابی وقاص سے ان کے خادم زیاد نے آپ ﷺ کی داڑھی مبارک کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

  وكانت لحیته حسنة....شدید سواد الراس واللحیة.20
  آپ کی داڑھی مبارک نہایت خوبصورت تھی یعنی داڑھی اور سر اقدس کے بال خوب سیاہ تھے۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہےکہ رسول اکرم کی داڑھی مبارک کے بال گہرے سیاہ تھے۔یہ سیاہی مکمل داڑھی مبارک کے بالوں کی شان تھی سوائے آخری عمر میں چند بالوں کے کہ ان میں کچھ سفیدی مزید چار چاند لگانے کے لیے در آئی تھی۔

حضور اکرم ﷺکی داڑھی مبارک مرقّع حسن تھی

حضور اکرم کی داڑھی مبارک مرقع حسن تھی۔دین الہٰی کی اشاعت و تبلیغ کی وجہ سے جب داڑھی مبارک بڑھ جاتی تھی تو آپ اس کو سنوار تے تھے۔چنانچہ اس بارے میں حضرت عبداﷲ بن عمر و بن العاص سے روایت ہے:

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یاخذ من لحیته من عرضھا و طولھا.21
  آپ داڑھی مبارک کے طول و عرض کو برابر طور پر کاٹ دیتے تھے۔

آپ کے اس عمل سے یہ واضح ہورہا ہے کہ داڑھی میں زینت و حسن کا قائم رکھنا ضروری ہے۔اسی طرح سیدنا صدیق اکبر کے والدِ گرامی حضرت ابو قحافہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھی منتشر تھی جس کو دیکھ کرآپ نے ارشاد فرمایا:

  لو اخذتم واشار بیده الى نواحى لحیته.22
  داڑھی مبارک کے دونوں اطراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئےآپ نے فرمایا کہ کاش آپ اسے درست کرلیتے۔

تو معلوم ہوا کہ رسول اکرم کی سنت ہے کہ آپ داڑھی مبارک کو سنوارتے تھے اور اسی طرح سنوارنے کاحکم صحابہ کرام کو بھی دیاکرتے تھے۔اسی لیے صحابہ کا معمول تھا کہ وہ قبضۂ دست سے زائد داڑھی کٹوادیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر کا معمول تھا جب آپ حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے توداڑھی کی مناسب تراش خراش کرتےچنانچہ ان کےبارے میں منقول ہے:

  قبض على لحیته فما فضل اخذه.23
  داڑھی مبارک کو مشت میں لیتے جو اس سے زائد ہوتی اسے کٹوادیتے۔

اور امام نسائی اپنی سند کے ساتھ حضرت مروان بن سالم المنقطع سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں:

  رایت ابن عمر قبض على لحیته فقطع ما زاد على الكف.24
  میں نے ابن عمر کو دیکھا کہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے جو حصہ مٹھی سے زائد ہوتا اسے کاٹ دیتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ کا بھی یہی معمول تھاچنانچہ ان کےمتعلق روایت میں منقول ہے:

  یقبض على لحیته ثم یاخذ ما فضل عن القبضه.25
  آپ داڑھی مبارک پر مٹھی رکھتے جو اس سے زائد ہوتی اسے ترشوا دیتے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اکرم اپنی گنجان داڑھی مبارک ترشواتے تھے اور آپ کی سنت مبارک کی وجہ سے صحابہ کرام کا بھی طریقہ رہا کہ وہ اپنی داڑھیوں کو ایک مشت پکڑ کر زائد بالوں کو کٹوادیا کرتے تھے۔

حضور اکرمﷺکاداڑھی مبارک میں خوشبو لگانا

حضور نبی کریم اپنے سر کے بالوں پر اور داڑھی مبارک میں خوشبو لگاتے تھے ۔چنانچہ امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے :

  باب الطیب فى الراس واللحى.
  سر میں اور داڑھی میں خوشبو لگانا۔

اور اس کے تحت حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ سے ایک روایت نقل کی ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ اس حوالہ سے فرماتی ہیں:

  كنت اطیب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم باطیب ما یجد حتى اجد وبیص الطیب فى راسه ولحیته.26
  میں نبی کریم کو وہ خوشبو لگاتی تھی جو مجھے میسر ہونے والی خوشبوؤں میں سب سے بہترین تھی حتیٰ کہ میں خوشبو کی چمک آپ کے سر اور داڑھی میں پاتی۔

اس حدیث مبارکہ میں "وبیص الطیب" کا ذکر ہے اس کا معنی خوشبو کی چمک اور اس کی شعائیں ہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم داڑھی مبارک میں خوشبو کا استعمال فرماتے تھے۔

چہرہ پر داڑھی کاحصہ

داڑھی تین جگہوں پر ہوتی ہے۔(1)قلموں سے نیچے کنپٹیوں پر ۔(2)جبڑوں پر۔(3)ٹھوڑی پر۔کانوں پر یا گالوں پر اُگنے والے بال داڑھی میں شامل نہیں لہٰذا ان کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔چنانچہ اس حوالہ سے علامہ احمد رضا خانلکھتے ہیں :

  داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں، ٹھوڑی پر جمتی ہے اور عرضاً اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ ہوتا ہے۔ جس طرح بعض لوگوں کے کانوں پررونگٹے (بال) ہوتے ہیں وہ داڑھی سے خارج ہیں۔یوں ہی گالوں پر جو خفیف بال کسی کے کم کسی کے آنکھوں تک نکلتے ہیں وہ بھی داڑھی میں داخل نہیں۔ یہ بال قدرتی طور پر موئے ریش سے جدا وممتاز ہوتے ہیں۔ اس کا مسلسل راستہ جو قلموں کے نیچے سے ایک مخروطی شکل پر جانب ذقن (ٹھوڑی کی جانب) جاتا ہے یہ بال اس راہ سے جدا ہوتے ہیں۔ ان میں موئے محاسن کے مثل قوت نامیہ (بڑھنے کی طاقت) ہے،ان کے صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بسا اوقات ان کی پرورش باعثِ تشویہ خلق وتقبیح صورت ہوتی ہےجو شرعاً پسندیدہ نہیں۔27

داڑھی انبیاء کرامﷺکی سنتِ متواترہ ہے

داڑھی رکھنا حضور سید عالم اور جمیع انبیاء ومرسلین کی سنت قدیمہ ومتواترہ ہے حضورنبی کریم کے بعد خلفائے راشدین، جمیع صحابہ کرام ائمہ عظام ،محدثین ،فقہاء کرام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم کا اس پر دوامی واستمراری عمل رہا ہے اور کسی سے اس کے خلاف منقول نہیں ہے۔

عبیداﷲ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ حضور کی خدمت میں ایک مجوسی آیا اس نے داڑھی منڈائی ہوئی تھی اور مونچھیں لمبی رکھی ہوئی تھیں۔ حضور نے اس سے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ہمارے دین میں ہے۔ حضور نے فرمایا ہمارے دین میں یہ ہے کہ ہم مونچھیں کم کرائیں اور داڑھی بڑھائیں۔ 28

تمام فقہاء امت اس پر متفق ہیں کہ داڑھی کی مقدار قبضہ سے کم کرنا جائز نہیں اور یہ اجماع خود ایک مستقل دلیل ہے۔ امت محمدیہ کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہےاور داڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام و گناہ ہے۔چنانچہ اس کا حکم بیان کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:

  حلق كردن لحیه حرام است وروش افرنج وھنود وجوقیان است كه ایشاں را قلندریه گویند آں بقدر قبضه واجب است.29
  داڑھی منڈوانا حرام ہے اور فرنگیوں(یورپیوں) اور ہندوؤں کا طریقہ ہے اور جوگی لوگ کہ جنہیں قلندریہ کہتے ہیں ان کی عادت ہے ۔داڑھی مٹھی بھر لمبی رکھنا واجب ہے۔

داڑھی کی حد

داڑھی کا ایک مشت ہونا سنت کی آخری حد ہے۔ اس سے کم کرنا جائز نہیں اور اس سے اگر کچھ زیادہ ہوجائے تو جائز بلکہ اولیٰ ہے اور اس قدر لمبی چوڑی رکھنا کہ حد شہرت تک پہنچ جائے اور تمسخر کا سبب بن جائے مکروہ ہے۔چنانچہ علامہ احمد رضا خان لکھتے ہیں:

  حضور اقدس ، حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت ابوہریرہ وغیرہم، صحابہ وتابعین کے افعال و اقوال اور ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ ومحرر مذہب امام محمد وعامہ کتب فقہ وحدیث کی تصریح سے داڑھی کی حد ایک مشت ہے۔ اس سے کم کرنا کسی نے حلال نہ جانا، قبضہ(مٹھی) سے زائد کا قطع ہمارے نزدیک مسنون ہے بلکہ نہایہ میں بلفظ وجوب تعبیر کیا ہے۔ 30

داڑھی مبارک میں سفیدی

حضور نبی کریم کے سرِمبارک اور داڑھی مبارک کے بال سیاہ تھے جیسا کہ ابتداء میں بیان ہوا۔ تاہم آخری عمرِ مبارکہ میں کچھ بال مبارک سفید بھی ہوگئے تھے ۔آپ کی ٹھوڑی مبارک کے اوپری بال سفید تھےاور سرِ مبارک اور داڑھی مبارک کے دوسرے حصوں میں سفید بال بہت کم تھے جو حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں سفید ہوئےتھے۔ چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت وہب بن ابو جحیفہ بیان کرتے ہیں:

  رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ورایت بیاضا من تحت شفته السفلى العنفقة.31
  میں نے حضور کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ کے لب ِ اقدس کے نیچے کچھ بال سفید تھے۔

اس کی شرح کرتے ہوئے امام بیہقی تحریر کرتے ہیں:

العنفقۃ:نچلے ہونٹ کے نیچے کے بالوں کے گرد کے بال سفید تھے۔ایسا لگتا تھا جیسے یہ سفید موتی ہیں ۔۔۔ یہاں تک کہ وہ داڑھی کے اصل بالوں پر پڑتے اس طرح کہ جیسے وہ داڑھی میں سے ہیں۔32

ٹھوڑی کے بال

اسی طرح امام بخاری بیان کرتے ہیں:

  عن وھب أبى جحیفة السوائى، قال: رأیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ورأیت بیاضا من تحت شفتھا لسفلى العنفقة.33
  وہب ازابی حجیفہ السوائی وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے نچلے ہونٹ کے نیچے ٹھوڑی کے کچھ بال سفید تھے۔

اس حدیث میں"عنفقہ" کا لفظ ہے ۔نچلے ہونٹ کے نیچے جو چند بال ہوتے ہیں ان کو "عنفقہ "کہتے ہیں ۔ اردو میں اس کو بچہ داڑھی کہتے ہیں۔34

امام بخاری سے ہی روایت ہے:

  سأل عبد اللّٰه بن بسر صاحب النبي صلى اللّٰه علیه وسلم ، قال: أرأیت النبي صلى اللّٰه علیه وسلم كان شیخا؟ قال: كان فى عنفقته شعرات بیض.35
  حضرت عبد اللہ بن بسر سے سوال کیاگیا جو نبی کے صحابی تھے : کیا آپ نے نبی کی زیارت کی (جب) آپ بوڑھے تھے؟ انہوں نے کہا کہ(ہاں اور) آپ کے نچلے ہونٹ کے نیچے چند سفید بال تھے۔36

ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم کی ریش مبارک میں لب اقدس کے نیچے اور گوش مبارک کے ساتھ گنتی کے چند بال ہی سفید تھے اور اس کے علاوہ باقی تمام کے تمام بال گہرے سیاہ تھے۔

داڑھی مبارک کے سفید بالوں کی تعداد

سفید بالوں کی تعداد کتنی تھی ا ن میں مختلف روایات سیرت کی کتب میں مروی ہیں ۔حضرت عبداﷲ بن بسر کی حدیث کا مقتضی یہ ہے کہ آپ کے دس سے زائد سفید بال نہ تھے کیونکہ انہوں نے قلت کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ کی داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے اور حضرت حمید نے اپنی ٹھوڑی کے اوپر اشارہ کرکے بتایا کہ سترہ بال سفید تھے۔

علامہ بلقینی نے ان تمام ر وایات کو جمع کیا ہے۔ ساری روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی۔چنانچہ حضرت انس بالوں کی سفیدی کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

  لیس فى راسه ولحیته عشرون شعرة بیضاء.37
  حضور نبی کریم کے سر اقدس اور داڑھی مبارک میں بیس سے زائد بال سفید نہ تھے۔

بعض روایات میں سترہ یا اٹھارہ کا بھی ذکر موجود ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ داڑھی مبارک کے تمام بال سفید نہ تھے۔

بالوں کا کونسا حصّہ سفید تھا؟

جہاں صحابہ کرام نے آپ کے سفید بالوں کی تعداد بیان فرمائی ہے وہاں انہوں نے ان مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں سفیدی درآئی تھی۔ وہ دو مقامات تھے ایک ہونٹ اور ٹھوڑی کا درمیانی حصہ اور دوسرا آنکھ اور کان کا درمیانی حصہ تھا۔چنانچہ جب قتادہ نے حضور کے خادمِ خاص حضرت انس سے آپ کے خضاب استعمال کرنے کے بارے میں سوال کیا توخادم خاص حضرت انس نے فرمایا:

  لا انما كان شىء فى صدغیه.38
  نہیں!آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔

"کنپٹیوں" یعنی آنکھ اور کان کے درمیان کچھ سفیدی تھی باقی اس کے علاوہ تمام داڑھی مبارک گہری سیاہ تھی۔اسی حوالہ سے امام احمد بن حنبل شیبانی روایت کرتے ہیں:

  عن حریز بن عثمان قال: كنا غلماناً جلوساً عند عبدللّٰه بن بسر و كان من اصحاب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ولم نكن نحسن نساله فقالت اشیخاً كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال كان فى عنفقته شعرات بیض.39
  حضرت حریز بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ ہم چند بچے حضرت عبداﷲ بن بسر جو حضور کے صحابی تھے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ہمیں صحیح طرح سوال کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا حضوربوڑھے ہوگئے تھے انہوں نے فرمایا کہ حضور کے نچلے ہونٹ کے نیچے بال سفید تھے۔

نیز امام احمد بن حنبل شیبانیروایت کرتے ہیں:

  عن ابى جحیفة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھذه منه واشار الى عنفقته بیضاء فقیل لابى جحیفة و مثل من انت یومئذ قال ابرى النبل واریشھا.40
  حضرت ابوجحیفہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور کو دیکھا کہ آپ کے یہ بال( اشارہ نچلے ہونٹ کے نیچے والے بالوں کی طرف تھا ) سفید تھے کسی نے ابو جحیفہ سے پوچھا کہ اس زمانے میں آپ کیسے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں تیر تراشتا اور اس میں پر لگاتا تھا۔

حضرت ابو جحیفہ بیان کرتے ہیں:

  رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فرایت بیاضا من تحت شفته السفلى مثل موضع اصبغ العنفقة.41
  میں نے رسول اﷲ کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ کے نیچے والے مبارک ہونٹ کے نیچے سفید بال تھے۔

بالوں کی سفیدی میں چاندی کی چمک

آپ کے سر اقدس اور داڑھی مبارک میں جو چند بال سفید تھے یہ سفید بال مبارک گویا کہ چاندی کے دھاگے تھے جو سیاہ بالوں کے سامنے چمکتے تھے۔ جب ان بالوں کو زردی سے رنگ دیا جاتا تھا تو وہ یوں چمکتے تھے گویاکہ سامنے کے سیاہ بالوں میں سونے کے دھاگے چمک رہے ہوں۔چنانچہ اسی حوالہ سے امام شامی صالحی لکھتے ہیں:

  وكان شیبه كانه خیوط الفضة یتلالا بین ظھرى سواد الشعر الذى معه اذا مس ذلك الشیب الصفرة.42
  آپ کے سفید بال مبارک گویا کہ چاندی کے دھاگہ تھے جو آپ کے سیاہ بالوں کے بیچ میں چمکتے تھے جب ان سفید بالوں کو مہندی لگتی تھی۔

بالوں کی سفیدی کا چھپ جانا

سر اقدس میں اس قدر قلیل بال سفید تھے کہ بعض اوقات وہ نظر بھی نہ آتے تھے۔ خصوصاً جب بالوں کو تیل لگاتے تو اس وقت دکھائی نہیں دیتے تھے۔ حضرت جابر بن سمرہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کے سر اقدس کے بال سفید تھے؟ تو انہوں نے فرمایا:

  لم یكن فى راس رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شیب الا شعرات فى مفرق راسه اذا ادھن واراھن الدھن.43
  آپ کے سر اقدس میں صرف چند بال سفید تھے جب آپ تیل لگاتے تو وہ بھی اوجھل ہوجاتے تھے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ بالوں کی سفیدی خشیت الہٰی کی وجہ سے تھی کیونکہ ایک مرتبہ صحابہ کرام کے اس سوال پر کہ حضور آپ بوڑھے نظر آرہے ہیں تو آپ نے فرمایا مجھے سورۂ ھود اور اس طرح کی دیگر سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔روایات میں ہے کہ رسالت مآب کی یہ کیفیت دیکھ کرحضرت سیدنا ابوبکر صدیق روپڑتے تھے۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں مسجد نبوی میں منبر رسول کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں رسالت مآب اپنے دولت کدہ سے اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ اپنی داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔حضرت ابوبکر انتہائی نرم دل اور حضرت عمر کچھ سخت تھے تو حضرت ابوبکر نے دیکھتے ہی عرض کیاکہ یا رسول اﷲ ! میرے والدین آپ پر فدا ہوں،آقا اتنی جلدی آپ پر بڑھاپا آگیا ہے؟بس اتنی بات کہنا تھی کہ ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آیا۔اس پر آقائے دوجہاں نے فرمایا:ہاں مجھے ھود اور اس کی ہم مثل سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے ۔حضرت ابوبکر نے سوال کیا یا رسول اﷲ! ہم مثل سے کونسی سورتیں مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا :وہ سورتیں الواقعہ، القارعۃ، سَاَلَ سَآئِلٌ اوراِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ہیں۔44

ابو ایوب انصاری کا نبی اکرم ﷺکی داڑھی کا ادب کرنا

طبرانی میں حضرت ابوایوب انصاری کے بارے میں ایک روایت مذکور ہے ۔ جس میں منقول ہے کہ آپ کی داڑھی مبارک پر پرندے کا پر گرا تو حضرت ابو ایوب انصاری نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔چنانچہ روایت میں مروی ہے:

  فسقطت على لحیته ریشة فابتدر ابو ایوب فاخذھا لحیته.فقال صلى اللّٰه علیه وسلم نزع للّٰه عند ما تكره.45
  تو آپ کی داڑھی مبارک پر کسی پرندے کا پرگراتوابوایوب انصاری نے فی الفور اسے پکڑلیا۔اس پر سرورِ کونین نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ تجھ سے ہر وہ شے دور کردے جو تجھے ناپسند ہو۔

یعنی حضرت ابو ایوب انصاری نے رسولِ اکرم کی داڑھی مبارک کا اس طرح سے ادب کیا تو آپ نے ان کو دعا دی۔اسی طرح مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری نے اپنے آقا کی مبارک داڑھی کا ایک بال حاصل کرلیا اور سرور عالم کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا:

  لا یصییك السوء یا ابا ایوب.46
  اے ابوایوب تجھے کبھی کوئی تکلیف عارض نہ ہوگی۔

حضور اکرم ﷺکا داڑھی میں خضاب لگانا

حضور نبی کریم کے خضابِ مبارک کے بارے میں کتب احادیث میں دو طرح کی روایت مروی ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور نے خضاب نہیں لگایا جیسے کہ حضرت انس کی روایت میں ہے اور بعض روایات میں ہےکہ حضور ﷺنے خضاب لگایا ہے۔ ان روایات میں راجح یہی ہے کہ حضور نبی کریم نے خضاب لگایاہے۔ چنانچہ حضرت انس والی روایت اس طرح منقول ہے:

  ولم یختضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، انما كان البیاض فى عنفقته وفى الصد غین وفى الراس نبذ.47
  حضور نے کبھی خضاب نہیں لگایا، کیونکہ آپ کے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیو ں اور سر مبارک سے چند بال سفید تھے۔

اس روایت میں اگرچہ کہ خضاب کی ممانعت آئی ہے جس کا جواب آگے مذکور ہے۔لیکن اس روایت کے برعکس کئی روایات میں منقول ہے کہ آپ نے خضاب استعمال فرمایا ہے اورکئی صحابہ کرام نے اس کو ذکر کیا ہے۔ چنانچہ پہلے ان صحابہ کرام کی روایت پیش کرتے ہیں پھر حضرت انس والی روایت کا جواب ذکر کریں گے۔

حضرت ابوہریرہ کا بیان

حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہوئے امام ترمذی نقل کرتے ہیں:

  عن عثمان بن موھب قال: سئل ابوھریرة ھل خضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: نعم.48
  حضرت عثمان بن موہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ سے سوال کیا گیا، کیا رسول اﷲ نے خضاب لگایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

حضرت عبداﷲ بن بریدہ کا بیان

حضرت عبداﷲ بن برید ہ سے روایت کرتے ہوئے امام محمد بن سعد البصری لکھتے ہیں:

  عن عبدللّٰه ابن بریدة قال: قیل له: ھل خضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟ قال: نعم.49
  حضرت عبداﷲ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اﷲ نے خضاب لگایا تھا تو انہوں نے کہا:ہاں۔

حضرت عبداﷲ بن عمر کا بیان

حضرت عبداﷲ بن عمر سے روایت کرتے ہوئےامام ا بن ابی شیبہ نقل کرتےہیں:

  ان ابن جریج سال ابن عمر رایتك تصفر لحیتك بالورس فقال ابن عمر: اما تصفیرى لحیتی فانى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصفرلحیته.50
  ابن جریج نے حضرت ابن عمر سے سوال کیا میں دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی داڑھی کو زردرنگ سے رنگتے ہیں؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا:میں اپنی داڑھی زردرنگ سے اس لیے رنگتا ہوں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺکو زرد رنگ سے داڑھی کو رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس کا بیان

حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمینقل کرتےہیں:

  عن ابن عباس قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا ارادان یخضب اخذ شیئا من دھن وزعفران فرشه بیده ثم یمرسه على لحیته.51
  حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ جب خضاب لگانے کا ارادہ کرتے توکچھ تیل اور زعفران لے کر اپنےہاتھ پرمسلتے پھر اس کو اپنی داڑھی پر ملتے۔

ابن مالک، شعیب ، ناجیہ کا بیان

ان تمام سے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمی نقل کرتے ہیں:

  وعن انس بن مالك وشعیب بن عمرو وناجیة بن عمرو قالوا راینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب.52
  حضرت انس بن مالک، شعیب بن عمرو اورناجیہ بن عمرکہتےہیں: ہم نے رسول اللہ کو خضاب کرتے ہوئے دیکھا۔

دیگر راویوں کا بیان

حضرت جہذمہ سے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمی نقل کرتے ہیں:

  عن الجهدمة قالت: رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خرج إلى الصلاة ینفض رأسه ولحیته من ردع الحناء.53
  جہذمہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اﷲ نمازکےلیے گھر سے نکلے تو آپ کے سر اور داڑھی سےمہندی کےاثرات جھلکتے تھے۔

اسی طرح حضرت عبد الرحمن ثمالی سے روایت کرتے ہوئے امام محمد بن سعد البصری نقل کرتے ہیں:

  عن عبدالرحمن الثمالى قال كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یغیر لحیته بماء السدر ویامر بتغییر الشعر مخالفة للاعاجم.54
  عبدالرحمن ثمالی سے روایت ہے کہ رسول اﷲ اپنی داڑھی کا رنگ بیری کے پانی سے بدلتے تھے اور عجمیوں کی مخالفت کے لیے بالوں کا رنگ بدلنے کا حکم دیتے تھے۔

ان تمام روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ آپ اپنی داڑھی مبارکہ میں خضاب استعمال فرمایا کرتے تھے۔

روایات میں تطبیق

اب تک کی روایات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم نے اپنی داڑھی مبارک پرخضاب لگایا۔لیکن ان مذکورہ روایات کے برعکس بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور نے خضاب نہیں لگایا ۔اس حوالہ سے ایک روایت ماقبل میں گزری اور اسی طرح کی ایک روایت قتادہ سے بھی مروی ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور کے خادمِ خاص حضرت انس سے سوال کیا کہ کیا حضور نبی کریم نے خضاب استعمال کیا تو آپ نے فرمایا:

  لا انما كان شىء فى صدغیه.55
  نہیں!آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔

بعض اوقات حضور نے خضاب لگایا اور بعض اوقات خضاب نہیں لگایا حضرت انس نے ایک حال دیکھ کر اس کی روایت کی اور دوسرے صحابہ نے دوسرے حال کی روایت بیان کی۔بلکہ امام ترمذی نے خود حضرت انس سے بھی خضاب لگانے کی روایت کی ہے چنانچہ امام ابو عیسیٰ ترمذی روایت کرتے ہیں:

  عن انس قال: رایت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبا.56
  حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اﷲ کے بالوں کو رنگا ہوا دیکھا۔

اسی طرح امام نووی لکھتے ہیں:

  مختار یہ ہے کہ نبی کریم نے بعض اوقات میں بالوں کو رنگا اور اکثر اوقات میں رنگنے کو ترک کردیا سو ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق بیان کیا اور یہ تاویل محکماً معین ہے۔ حضرت ابن عمر سے بالوں کو زرد رنگ کے ساتھ رنگنے کی جوروایت ہے اس کو ترک کرنا ممکن نہیں اور نہ اس کی کوئی تاویل ممکن ہے۔57

حضرت انس کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم کو خضاب لگانے کی احتیاج نہیں تھی اور حضرت عبداﷲ بن عمر اور حضرت ابن عباس کی روایات اس کے منافی نہیں ہیں کہ انہوں نے نبی کریم کو زردرنگ کا خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم نے بعض اوقات اپنے سفید بالوں پر خضاب لگایا اور اکثر اوقات خضاب نہیں لگایا لہٰذا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق روایت کیا اور ہر ایک اپنے قول میں صادق ہے۔

متقدمین علماءکرام کی رائے

امام احمد بن حنبل بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ نبی اکرم خضاب لگاتے تھے۔امام محب الدین طبریلکھتے ہیں:

  قال احمد بن حنبل: انى لارى الشیخ المخضوب فافرح به.وقال لرجل: لم لا تخضب؟ قال: استحى. قال: سبحان للّٰه سنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟.58
  امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ میں جب کبھی کسی بوڑھےکومہندی لگائےدیکھتاہوں توخوش ہوتاہوں۔انہوں نےایک شخص سےکہا:تم کیوں مہندی نہیں لگاتے؟اس نےکہا:مجھے شرم آتی ہے۔انہوں نےکہا:سبحان اللہ سنت رسول سے! (کیسی شرم)۔

اسی طرح ابن قیم جوزی لکھتے ہیں:

  فاحمد اثبت خضاب النبى ومعه جماعة من المحدثین.59
  پس امام احمد نے حضور کا مہندی لگانا ثابت کیا ہے اور ان کے ساتھ محدثین کی پوری جماعت ہے۔

اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حافظ ابن کثیر روایت کرتے ہیں:

  قلت ونفى انس للخضاب معارض بما تقدم عن غیره من اثباته والقاعدة المقررة ان الاثبات مقدم على النفى لان المثبت معه زیادة علم لیست عند النافى وھكذا اثبات غیره لزیادة ما ذكر من السبب مقدم لا سیما عن ابن عمر الذین المظنون انه تلقى ذلك عن اخته ام المومنین حفصة فان اطلاعھا اتم من اطلاع انس لانھا ربما انھا فلت راسه الكریم علیه الصلاة والسلام.60
  میں کہتا ہوں کہ حضرت انس نے خضاب کی نفی کی ہےجبکہ قبل ازیں جو دوسروں کی احادیث بیان ہوئی ہیں ان میں اس کا اثبات پایا جاتا ہے اور طے شدہ اصول یہ ہے کہ مثبت منفی پر مقدم ہوتا ہے کیونکہ مثبت کے ساتھ اضافہ علم ہوتا ہے جو منفی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسروں کے اثبات میں جو اضافی سبب بیان کیا گیا ہےوہ مقدم ہے۔ خصوصا حضرت ابن عمر کے متعلق یہ ظن کیا جاتا ہے کہ آپ نے یہ بات اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہ سے معلوم کی ہوگی اور بلاشبہ حضرت حفصہ کی روایت حضرت انس کی روایت سے زیادہ مکمل ہےکیونکہ انہوں نےکبھی حضور کےبال مبارک سنوارے ہوں گے۔

اسی حوالہ سے امام طحاوی لکھتے ہیں:

  قال ابوجعفر: فكان فیما روینا عن ابى رمثة من ھذا ما یخالف ما رویناه فیه عن انس بن مالك ومن اثبت شیئا كان اولى ممن نفاه.61
  ابوجعفر طحاوی بیان کرتے ہیں کہ وہ روایات جو ہم نے ابورمثہ سے روایت کی ہیں وہ اس کے خلاف ہیں جو ہم نے انس بن مالک سے روایت کی ہے (اور قانون یہ ہے) وہ روایت جو کسی چیز کو ثابت کرے وہ اولیٰ ہوتی ہے ان روایات سے جو کسی چیز کی نفی کرے۔

حضرت ابن عمر کے فرمان مبارک فانی رایت رسول اﷲ یصفر لحیتہ سے اظہر من الشمس کی طرح واضح ثبوت مل رہا ہے کہ حضور نے خضاب لگایا ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابن عمر خو د بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی داڑھی زردرنگ سے اس لیے رنگتا ہوں کہ میں نے رسول اﷲ کو زرد رنگ سے داڑھی کو رنگتے ہوئے دیکھا ہے اور اہل علم حضرات پر مخفی نہیں کہ اتباع رسول میں حضرت عبداﷲ ابن عمر کا مقام بہت بلند تھا۔اسی کو بیان کرتے ہوئے حافظ ابن کثیرروایت کرتے ہیں:

  عن نافع قال: لو نظرت الى ابن عمر اذا اتبع رسول اللّٰه لقلت ھذا مجنون.62
  حضرت نافع فرماتے ہیں کہ جب میں ابن عمر کی حضور ل کی اتباع کو دیکھتا تو کہتا کہ یہ مجنون ہے۔

حضور اکرم ﷺکے خضاب کی اشیاء

عموماً رسول مکرم کا خضاب دو چیزوں سے ہوا کرتا تھا،ایک مہندی سے اور دوسری وسمہ سے۔ وسمہ کا معنی ہے کہ نیل کے پتے ۔چنانچہ اس حوالہ سے امام احمدابو رمثۃ سے روایت نقل کرتے ہیں:

  عن ابى رمثة قال: كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب بالحناء والكتم وكان شعره یبلغ كتفیه او منكبیه.63
  حضرت ابو رمثہ تمیمی بیان کرتے ہیں کہ :حضور مہندی اور وسمہ سے خضاب لگاتے تھے اور حضور کے بال مبارک کندھوں تک آتے تھے۔

اسی طرح امام بزار روایت کرتے ہیں:

  قال ر سول صلى اللّٰه علیه وسلم: احسن ما غیرتم به الشیب الحناء والكتم. قال: كان النبى یختضب بالحناء والكتم.64
  رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: سب سے بہترین چیز جس سے تم سفیدی کو تبدیل کرتے ہو وہ مہندی اور وسمہ ہے۔راوی فرماتے ہیں کہ نبی کریم مہندی اور وسمہ سے خضاب فرمایا کرتے تھے۔

اسی طرح امام ا بن ابی شیبہ لکھتے ہیں:

  عن یزید قال: قلت لابى جعفر ھل خضب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: قد مس شیئا من الحناء والكتم.65
  یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ نبی کریم خضاب لگاتےتھے؟ انہوں نے کہا: نبی کریم نے مہندی اور وسمہ (نیل کےپتوں)کو لگایا تھا۔

امام محمد بن سعد البصری لکھتے ہیں:

  عن ابى جعفر قال: شمط عارضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخضبه بحناء وكتم.66
  حضرت ابی جعفر سے روایت ہے کہ رسول اﷲ کے دونوں رخساروں کے بال بکھرے ہوئے(سیاہ وسفید ملے جلے) تھے آپ نے ان پر مہندی اور کتم(نیل کےپتوں) کا خضاب لگایا۔

حضورﷺمہندی کا خضاب بھی لگاتے تھے

اس حوالہ سے امام ترمذی روایت کرتے ہیں:

  ابو رمثة قال: اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مع ابن لى فقال: ابنك ھذا؟ فقلت: نعم اشھد به. قال: لایجنى علیك ولا تجنى علیه ورایت الشیب احمر.67
  حضرت ابورمثہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسو ل اﷲ کی خدمت میں اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوا توآپ نے فرمایا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میں نے کہا جی میں اس کی گواہی دیتا ہوں ۔آپ نے فرمایا یہ تم پر ظلم نہیں کرے گا تم اس پر ظلم نہیں کرو گے۔ میں نے دیکھا آپ کے سفید بال مبارک سرخ تھے۔

رسول اکرم کےخضاب مبارک لگانے کے متعلق اگرچہ کے روایات میں بظاہرتعارض ہے تاہم اس کی تحقیق و تصحیح کرتے ہوئے ملاعلی قاری فرماتے ہیں:

  وھذه الروایة صریحة فى خضابه صلى اللّٰه علیه وسلم.68
  اور یہ آپ کے خضاب کرنے میں صریح روایت ہے۔

ان مذکورہ روایات سے واضح ہوجاتاہے کہ رسول اکرم خضاب استعمال فرماتے تھے اور یہ خضاب مہندی اور نیل کے پتوں سے بنتا تھا۔

زرد رنگ کا خضاب بھی لگاتے تھے

عموما رسول اکرم ان دو چیزوں یعنی مہندی اور نیل کے پتوں کا خضاب استعمال فرماتے تھے۔لیکن ان کے علاوہ بھی رسول اکرم نے دیگر چیز وں کاخضاب استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابو داؤد حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں:

  عن ابن عمر ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یلبس النعال السبتیة ویصفر لحیته بالورسوالزعفران وكان ابن عمر یفعل ذلك.69
  حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضور بغیر بالوں کے چمڑے کی جوتی پہنتے تھے اور اپنی داڑھی کوورس اور زعفران سے رنگتے تھے۔ حضرت ابن عمر بھی ایساہی کرتے تھے۔

اسی حوالہ سے حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی روایت کرتے ہیں:

  عن ابن عمر ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یصفر لحیته.70
  حضرت عبداﷲ بن عمر رو ایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺاپنی داڑھی کو زرد رنگ لگاتے تھے۔

اسی طرح حافظ ابوبکراحمدبن حسین بیہقی کی روایت میں ہے:

  عن ابن عمر أنه كان یصفر لحیته بالخلوق ویحدث أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یصفر.71
  حضرت ابن عمراپنی داڑھی کوزعفران ملی خوشبوسے رنگتےتھےاوربیان کرتے تھےکہ رسول اللہ داڑھی کو رنگتے تھے۔

اسی طرح حضرت عبید بن جریج سے نقل کرتے ہوئے امام طحاوی لکھتے ہیں:

  عن عبید بن جریج انه قال لعبدللّٰه بن عمر: یا ابا عبدالرحمن رایتك تصبغ بالصفرة فقال: انى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصبغ بھا فانا احب ان اصبغ بھا.72
  حضرت عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداﷲ بن عمر سے کہا :اے ابو عبدالرحمن میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ پیلے رنگ کا خضاب استعمال کرتے ہیں؟ عبداﷲ ابن عمر نے کہا: میں نے نبی کریمکو دیکھا کہ وہ اسی رنگ سے (داڑھی مبارک) کو رنگتے تھے اور مجھے یہی رنگ پسند ہے کہ میں اس سے ( اپنی داڑھی کو)رنگوں۔

ابن عمر سے ہی نقل کرتے ہوئے امام عبدبن حمید لکھتے ہیں:

  عن ابن عمر: أنه كان یستحب الصفرة حتى فى العمامة، وزعم أن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یستحب الصفرة.73
  حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ عمامہ رنگنے کو بھی پسند فرماتے تھے اوراپنےاندازے سےفرماتےکہ نبی کریم بھی اسے محبوب رکھتےتھے۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی روایت کرتے ہیں:

  عن عبدللّٰه بن محمد بن عقیل قال :قلت لانس بن مالك: ھل كان شاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: ما اراه كان فى راسه ولحیته خمس عشرة شعرة بیضاء ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یمسھا بصفرة.74
  حضرت عبداﷲ بن عقیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے عرض کی :کیا حضور جوان تھے؟ حضرت انس نے فرمایا: آپ کے سر مبارک اور داڑھی مبارک میں پندرہ بال سفید تھے اور حضور اپنی داڑھی مبارک کو زرد رنگ کرتے تھے۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی روایت کرتے ہیں:

  عن عبید بن جریج انه كان یخضب بصفرة ویخبر ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یخضب بالصفرة.75
  عبید بن جریج سےمروی ہے کہ وہ زردرنگ کا خضاب لگاتےتھےاور بیان کرتےکہ بے شک رسول اللہ زرد رنگ کا خضاب لگاتے تھے۔

ان مذکورہ بالا روایات سے واضح ہواکہ نبی اکرم کا خضاب عمومی طور پر مہندی اور وسمہ یعنی نیل کے پتوں سے ہوا کرتاتھا اور ان کے علاوہ زرد رنگ اور ورس کو بھی نبی اکرم نے خضاب کے طور پر استعمال فرمایا ہے۔

مہندی اور وسمہ سے رنگے ہوئے موئے مبارک

رسول اکرم کے موئے مبارک کو صحابہ کرام اپنے پاس بطورِ تبرک رکھتے جس کی برکات مسلّم ہیں،جیسا کہ ماقبل میں حضرت ابو ایوب انصاری کےحوالہ سے روایت گزری ہے۔اسی حوالہ سے ایک روایت میں عثمان بن عبد اللہ سے نقل کرتے ہوئے امام ابو یوسف لکھتے ہیں:

  عن عثمان بن عبدللّٰه ابن موھب انه قال اخرجت لنا ام سلمة مشاقة من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبة بالحناء والكتم.76
  حضرت عبداللہ ابن موھب سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے(ام المومنین) حضرت ام سلمہ نےمشاقہ (بالوں کاگچھاجوکنگھی کرتےہوئےٹوٹ جاتےہیں)نکالا جس میں رسول اللہ کے بال مبارک تھے جو مہندی اور کتم(نیل) سے رنگے ہوئے تھے۔

اسی طرح امام محمد بن اسحاق بن خذیمہ روایت کرتے ہیں:

  محمد بن عبد اللّٰه بن زيد، أخبره أن أباه شھد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عند المنحر ھو ورجل من الأنصار فحلق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم رأسه فى ثوبه فأعطاه، فقسم منه على رجال، وقلم أظفاره، فأعطاه صاحبه قال: فإنه عندنا مخضوب بالحناء والكتم أو بالكتم والحناء.77
  حضرت محمد بن عبداﷲ بن زید فرماتے ہیں کہ ان کے والد قربان گاہ کے پاس نبی کریم کے ساتھ موجود تھے اور وہ ایک انصاری آدمی تھے۔پس رسول اﷲ نےاپناسر اپنے کپڑے میں مونڈا۔ پھر آپ نے وہ بال انہیں عطا کردیے اورانہوں نےان کولوگوں میں تقسیم کردیا۔ آپ نے ناخن تراشے اور ایک صحابی کو عطا کردیے۔صحابی فرماتے ہیں کہ آپ کے بال مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) یا فرمایا وسمہ اور مہندی کے ساتھ رنگے ہوئے ہمارے پاس موجود ہیں ۔

اسی پر روشنی ڈالتے ہوئےامام حاکم روایت کرتے ہیں:

  قالوا: فانه عندنا مخضوب بالحناء والكتم. ھذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه.78
  صحابہ کرام فرماتے ہیں وہ بال اب بھی ہمارے پاس مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے رنگے ہوئے موجود ہیں۔یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی معیار کے مطابق صحیح ہے مگردونوں نے اسے نقل نہیں کیا۔

اسی حوالہ سے امام مقدسی لکھتے ہیں:

  قال فانه لعندنا مخضوب بالحناء والكتم یعنى شعره.79
  راوی نے کہا بلاشبہ ہمارے پاس مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے رنگے ہوئے یعنی نبی کریم کے بال مبارک موجود ہیں۔

امام بخاری نے بھی اسی طرح کی ایک روایت حضرت عثمان بن عبد اللہ سے روایت کی ہے۔چنانچہ وہ روایت کرتے ہوئے نقل فرماتےہیں:

  عن عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: أرسلنى أھلى إلى أم سلمة زوج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح من ماء. وقبض إسرائیل ثلاث أصابع من قصة. فیه شعر من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، وكان إذا أصاب الإنسان عین أو شىء بعث إلیھا مخضبه، فاطلعت فى الجلجل، فرأیت شعرات حمرا.80
  عثمان بن عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ میرے گھر والوں نے مجھےام سلمہ کے پاس پانی کا ایک پیالہ لے کر بھیجا۔ اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں یعنی وہ اتنی چھوٹی پیالی تھی۔ اس پیالی میں بالوں کا ایک گچھا تھا جس میں نبی کریم کے بالوں میں سے کچھ بال تھے۔ عثمان نے کہا جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا پانی کا برتن بی بی ام سلمہ کے پاس بھیج دیتا۔ (وہ اس میں نبی کریم کے بال ڈبو دیتیں)۔ عثمان نے کہا کہ میں نے نلکی کو دیکھا (جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے) تو سرخ سرخ بال دکھائی دیے۔

ایک اور روایت میں امام بخاری نقل کرتے ہیں:

  عن عثمان بن عبد للّٰه بن موھب قال: دخلت على ام سلمة فاخرجت الینا شعراً من شعر النبى مخضبوباً. وقال لنا ابونعیم حدثنا نصیر بن ابى الاشعت عن ابن موھب ان ام سلمة ارته شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم احمر.81
  عثمان بن عبداللہ بن موہب نے کہا: میں ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں حضور نبی کریم کے چند بال نکال کر دکھائے جن پر خضاب لگا ہوا تھا۔ ہمیں ابونعیم نےبتایا نصیر بن ابوالاشعث نے ابن موہب سے روایت کی کہ حضرت ام سلمہ نے انہیں نبی کریم کا سرخ بال دکھایا۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی روایت کرتے ہیں:

  عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: دخلنا على أم سلمة، فأخرجت لنا صرة فیھا شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوب بحناء، فقالت: ھذا من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.82
  عبداللہ بن موھب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت امہ سلمہ کی خدمت میں حاضرہوئے تو انہوں نے ایک شیشی نکالی جس میں حضور کےمہندی سے رنگے ہوئے بال تھے۔پس آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم کے چند بال ہیں۔

امام حاکم لکھتے ہیں:

  عن ابى رمثة قال اتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وعلیه بردان اخضران وله شعر قد علاه الشیب وشیبه احمر مخضوب بالحناء.83
  حضرت ابو رمثہ فرماتے ہیں :میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ نے دو سبز چادریں اوڑھ رکھی تھیں اور آپ کے چند بال مہندی کے ساتھ خضاب استعمال کرنے کی وجہ سے سرخ تھے۔

یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اسے نقل نہیں کیا۔ سنن نسائی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:

  اتیت انا وابى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وكان قد لطخ لحیته بالحناء.84
  میں اور میرےوالد نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئےتوآپ نےاپنی داڑھی کومہندی سےرنگاہواتھا۔

علامہ بلاذری لکھتے ہیں:

  قال ابو صالح فى حدیثه عن ابن عباس رضى اللّٰه عنهما : رایت وفرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بھا ردع من حناء. وقال عكرمة فى حدیثه عن ابن عباس :رایت وفرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وبھا تلوین من الحناء.85
  حضرت ابن عباس نےفرمایا:میں نے رسول اللہ کے کانوں کے قریب تک بال دیکھے جو مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔

امام ابن ابی شیبہ لکھتے ہیں:

  عن عثمان بن حكیم قال: رأیت عند آل ابى عبیدة بن عبدللّٰه بن زمعة شعرات من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء.86
  امام عثمان بن حکم بیان کرتے ہیں کہ میں نے آل ابوعبیدہ بن عبد اللہ بن زمعہ کے پاس نبی کریم کے کچھ بال مبارک دیکھے جو مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔

محمد بن سعد البصری نے بھی اس حدیث کو اسی طرح ذکر کیا ہے۔ 87 اسی حوالہ سے حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

  ابوعقیل قال: انه راى شعرا من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء. قال: كنا نخضضه بالماء ونشرب ذلك الماء.88
  ابوعقیل نے کہا :انہوں نے حضور کے بالوں میں سے ایک بال دیکھا جو مہندی سے رنگا ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا: ہم اس بال کو پانی میں ہلالیاکرتے اور اس پانی کو پی لیا کرتے تھے ۔

ایک اور روایت نقل کرتے ہوئےحافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

  عن ابى مالك قال: انه رأى شعرا من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء ولیس بشدید الحمرة. قال: وكلنا نغلسه بالماء.89
  ابن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ کے بالوں میں سے ایک بال دیکھا جو مہندی سے رنگا ہوا تھا لیکن زیادہ سُرخ نہیں تھا۔مزیدکہا: ہم اسے پانی سے دھوتے تھے۔

اس حوالہ سے امام ابو عیسیٰ ترمذی روایت کرتے ہیں:

  عن انس قال رایت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبا. قال حماد واخبرنى عبدللّٰه بن محمد بن عقیل قال رأیت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عند انس بن مالك مخضوبا.90
  حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اﷲ کے بالوں کو رنگا ہوا دیکھا۔حماد نے کہامجھےعبد اللہ بن محمد بن عقیل نےبتایا: کہ میں نےحضرت انس کےپاس رسو ل اﷲ کامہندی میں رنگابال دیکھا۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی روایت کرتے ہیں:

  عن عبدللّٰه بن بریدة عن ابیه قال: رایت فى اصداغ النبى ا خضاب الحناء.91
  عبد اللہ بن بریدہ اپنےوالدسےروایت کرتے ہیں:میں نے نبی کریم کی کنپٹیوں (کےبالوں) کومہندی سے رنگے ہوئے دیکھا۔

امام محمد بن سعد بصری لکھتے ہیں:

  عن عكرمة بن خالد قال: عندى من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوب مصبوغ فى سكة.92
  حضرت عکرمہ بن خالد بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس رسول اﷲ کے بال ہیں جو رنگین اور خوشبو دار ہیں۔

ان روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کے موئے مبارک کو اپنے پاس بطورِ تبرک رکھنا اور اس سے برکت کا خواستگار ہونا صحابہ کرام کامعمول مبارک تھا۔نہ صرف اتنا بلکہ صحابہ کرام ا ن بال مبارک کو اپنے پاس رکھتے ، اس کی زیارت سے لوگوں کو مشرف فرماتے،ان بالوں کو غسل بھی دیتے اور اپنے مریضوں کو وہ پانی پلاتے جن میں ان موئے مبارک کو غوطہ دیا جاتا۔لہٰذا یہ تمام کام کوئی نئے کام نہیں ہیں بلکہ اس کی اصل دور رسالت مآب میں موجودہے اور صحابہ کرام کے معمولات میں رہے ہیں ۔

ماقبل تمام تفصیلات کاخلاصہ یہ ہوا کہ حضور اکرم کی داڑھی مبارک گھنی اور نور الٰہی کا مرقع تھی ۔صحابہ کرام نے بیان کیا کہ حضور کی داڑھی موتیوں کی طرح چمکتی تھی۔ اعتدال کے ساتھ ترتیب سے مزین کیے ہوئے ہوتی تھی ۔آپ کے اندازمیں نکھارِ شخصیت بدرجہ اولیٰ موجود تھا۔نہ صرف یہ بلکہ رسول اکرم کی داڑھی مبارک گہری سیاہ تھی جس میں سوائے معدودے چند بال مبارک کے باقی تمام کے تمام بال مانندِ بدلی تھے۔ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اکرم اپنی داڑھی مبارک کو تراشتے اور سنوارتے بھی تھے اور صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا کہ قبضۃ سے زائد داڑھی کو ترشوادیتے تھے۔آپ کی داڑھی مبارک کے بال مبارک بھی باعث ِ شفاء ہوتے تھے جن سے صحابہ کرام اپنے مریضوں کو پانی پلا کر ٹھیک کرتے تھے۔جب داڑھی مبارک کا یہ عالم ہے تو خود سرورِ دو عالم کی شان و عظمت کا اندازہ لگانا انسانی عقل سے وراء الوراء ہے۔اس مقام پر پھر صرف یہ وحیِ ربانی ہی جلوہ گر ہوجاتی ہے کہ رب کائنات نے تمام تر فضائل و عظمتیں آپ کو عطا فرمائیں اور اس کا یوں اعلان فرمایا کہ آپ پر اللہ ربُّ العزّت کا بے پناہ اور سب سے بڑھ کر فضل ہے۔93

 


  • 1 القرآن، سورۃالاسراء70:17
  • 2 القرآن، سورۃالتین4:95
  • 3 القرآن، سورۃالانفطار7:82
  • 4 القرآن، سورۃیوسف31:12
  • 5 محمدبن سعد البصری،الطبقات الکبرٰی، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:138
  • 6 ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری، شمائل مصطفی ﷺ ،مطبوعہ: منہاج القرآن پبلیکیشنز، لاہور،پاکستان،2013، ص:137
  • 7 فتی ارشاد احمد قاسمی ، شمائل کبریٰ، ج-5،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2003ء، ص:41
  • 8 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1408هـ، ص:216
  • 9 أبو عبداللہ محمد بن عبد الله الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج-2، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1990ء، ص:662
  • 10 ابوبکر محمد بن الحسین الآجری،الشریعۃ، حدیث: 1022، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض،السعودیۃ،1990ء ، ص: 150
  • 11 ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوہ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)،جـ1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراتشی، باکستان، 2009ء، ص:254
  • 12 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:34
  • 13 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:216
  • 14 عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان ،اردن،1407ھ، ص:148
  • 15 عبد الرحمن بن علی الجوزی ، الوفاء باحوال المصطفیٰ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:397
  • 16 ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر، تہذیب دمشق الکبیر، ج-1، مطبوعۃ: دار المیسرۃ، بیروت، لبنان، 1979ھ، ص:321
  • 17 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:218-217
  • 18 ایضًا: ص:217
  • 19 أبو القاسم على بن الحسن ابن عساكر، تاريخ دمشق، ج-3، مطبوعہ: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، دمشق، السوریۃ، 1995ء، ص:269
  • 20 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:321
  • 21 ابو عیسی محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2762، ج -4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:391
  • 22 ایضاً
  • 23 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5892، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ مصر، 2003ء، ص:1225
  • 24 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی، سنن نسائی، حدیث:3315، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:374
  • 25 ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:25481، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1409ھ، ص:225
  • 26 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5923، ج- 7، مطبوعۃ: دمشق، السوریۃ، (لیس تاریخ موجود اً)، ص: 164
  • 27 امام احمد رضا خان، فتاوی رضویہ، ج- 22، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان، 1429ھ، ص:596
  • 28 ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ،مصنف ابن ابی شیبہ، ج-8، مطبوعۃ: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، کراتشی، باکستان، 1406ھ، ص:379
  • 29 عبد الحق دہلوی،اشعۃ اللمعات، ج-1، مطبوعہ: لکشور، بھارت، (سن اشاعت ندارد)، ص:228
  • 30 امام احمد رضاخان، لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحی، مطبوعہ: مکتبہ فیضان مدینہ، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد) ، ص:45
  • 31 محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري، فيض الباري على صحيح البخاري، ج-4، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2005ء، ص:434
  • 32 ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)، ج-1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراتشی، باکستان، 2009ء، ص:254
  • 33 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3545، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشروالتوزیغ،الریاض، السعودیہ، 1419ھ، ص: 596
  • 34 علامہ غلام رسول سعیدی ،نعمتہ الباری فی شرح صحیح بخاری ،حدیث:3545، ج-6،مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2012ء، ص:610
  • 35 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3546، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشروالتوزیغ، الریاض، السعودیۃ، 1419ھ،ص:596
  • 36 علامہ غلام رسول سعیدی ،نعمتہ الباری فی شرح صحیح بخاری ،حدیث:3546،ج-6،مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2012ء، ص:610
  • 37 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3547، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:743
  • 38 ایضًا:حدیث: 3550
  • 39 ابو عبداللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:17219، ج-5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:205
  • 40 ابو عبداللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:18294، ج-5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:401
  • 41 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:334
  • 42 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:18
  • 43 ابو عیسی محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 43، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء،ص:28
  • 44 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:336
  • 45 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :4048، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:172
  • 46 احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث :2168، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:200
  • 47 مسلم بن الحجاج القشیری، صحيح مسلم، حدیث:6077، مطبوعۃ۔: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء، ص:130
  • 48 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:46، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 49 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 438-437
  • 50 ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ فی الخضاب بالحناء، حدیث: 25047، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 185
  • 51 ابو الحسن علی بن ابی بکر الہیثمی، مجمع الزوائد، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ القدسی، القاہرۃ،مصر، 1414ھ، ص:162
  • 52 ایضًا: ص:161
  • 53 ایضًا:ص:162
  • 54 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1410ھ، ص:338
  • 55 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3550، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:743
  • 56 محمد بن عیسیٰ ترمذی،الشمائل المحمدیۃ، حدیث:48، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:62
  • 57 یحییٰ بن شرف الدین نووی، شرح مسلم، ج -2، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع کراتشی، باکستان، ،(لیس التاریخ موجودًا) ، ص:259
  • 58 محب الدین ابوجعفر احمد بن عبد اﷲ الطبری، غایۃ الاحکام فی احادیث الاحکام، حدیث:1228، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :495
  • 59 محمد بن ابی بکر الدمشقی الشہیر بابن قیم الجوزیہ، زادالمعاد، ج -4، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:367
  • 60 ابو الفداء اسماعیل بن عمر نب کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ المعارف، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:22
  • 61 ابوجعفراحمدبن محمدالطحاوی، شرح مشکل الآثا، حدیث:3118 ، ج -8، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:195
  • 62 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی،جامع المسانید والسنن، ج-28، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:7623
  • 63 ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:17043، ج-5، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص: 169
  • 64 احمد بن عمر وبن عبد الخالق عتیکی بزار، مسند البزار، حدیث: 2777، ج -7 ، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ،السعودیۃ، ص:206
  • 65 ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ،مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:5060، ج-8، مطبوعۃ: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، کراتشی، باکستان ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 246
  • 66 محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 67 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:45، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 68 نور الدین بن سلطان القاری،جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج -1، مطبوعۃ: ادارہ تالیفات اشرفیۃ، ملتان، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:119
  • 69 سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، حدیث :4210 ،ج -4 ، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1430ھ، ص:86
  • 70 سلیمان بن احمدالطبرانی، طبرانی الاوسط، حدیث:2070، ج -2، مطبوعۃ: دارالحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:310
  • 71 ابوبکراحمدبن الحسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث :5985، ج-8، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1423ھ، ص:394
  • 72 ابوجعفراحمدبن محمدالطحاوی، شرح مشکل الآثار، ج-9 ، مطبوعۃ: بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:310
  • 73 عبدبن حمید بن نصرابو محمد الکسی، مسند عبد بن حمید، حدیث:840، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:265
  • 74 سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:5259، ج-5، مطبوعۃ: دارالحرمین، القاھرۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:261
  • 75 سلیمان بن احمد الطبرانی، مسند الشامیین، حدیث: 326 ، ج -1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1984ء، ص:187
  • 76 ابو یوسف یعوب بن ابراہیم،کتاب الآثار لامام ابو یوسف، حدیث:1033، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :232-233
  • 77 محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیشابوری، صحیح ابن خزیمہ، حدیث: 2931، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:300
  • 78 ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲالحاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث :1744، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:648
  • 79 ابو عبداﷲ محمد بن عبدالواحد الحنبلی المقدسی،الاحادیث المختارۃ، حدیث:354، ج -9، مطبوعۃ: مکتبۃ النھضۃ الحدیثۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:358
  • 80 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5892، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ھ، ص:1037
  • 81 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5897-5898، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص:1225
  • 82 سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :764 ، ج-23 ،مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل،عراق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:332
  • 83 ابو عبداﷲ محمد بن عبداللہ الحاکم نیشا بوری،المستدرک علی الصحیحین، حدیث:4203، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:664
  • 84 ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب نسائی، سنن النسائی، حدیث:5084، ج-8، مطبوعۃ: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:140
  • 85 احمد بن یحییٰ بن جابر بلاذری، جمل من انساب الاشراف، حديث:857، ج-1، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:396
  • 86 ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبۃ، مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث:25014، ج -5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:183
  • 87 محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 88 حافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی، المطالب العالیۃبزوائد المسانید الثمانیۃ، حدیث :2208، ج -2، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:276
  • 89 ایضًا:حدیث :2209
  • 90 محمد بن عیسیٰ ترمذی،الشمائل المحمدیۃ، حدیث:48، مطبوعۃ:موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:62
  • 91 سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الاوسط، حدیث:7743، ج -7، مطبوعۃ: دارالحرمین القاھرۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:366
  • 92 محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 93 القرآن، سورۃ النساء113:4