Encyclopedia of Muhammad

آپﷺکی پیشانی مبارک

اللہ ربُّ العزّت نے تمام مخلوقات میں سے سب سے افضل اور مکرم نوع انسان کو بنایا ہے۔اسی وجہ سے یہ نوع انسانی ہر لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل حیثیت کی حامل ہے۔چنانچہ اس بات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح ذکر فرمایا ہے:

  وَلَقَدْ كرَّمْنَا بَنِى اٰدَمَ وَحَمَكنٰھمْ فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰھمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰھمْ عَلٰى كثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا701
  اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔

اسی نوع انسانی میں سے افضل ترین اشخاص انبیاء کرام ہیں۔ جنہیں نوع انسانی کے لیے رہنما بناکر بھیجا گیا۔ان انبیاء کرام میں سے سب سے افضل اور مکرم نبی سیّدنا محمد رسول اللہ ہیں جو سیّد الانبیاء ہیں اور جن پر ایمان لانے اور جن کی نصرت کرنےکا عہد انبیاء کرام سےلیا گیا ہے۔2

اسی وجہ سے آپ ہر لحاظ سے اللہ رب العز ت کی مخلوقات میں سے افضل و اعلی اور بلند و بالا ہیں۔آپ کی ہر ہر چیز منفرد اور ممتاز ہے۔آپ کا جسم اطہر بھی اسی طرح مکمل طور پر منفرد اور یکتائے روزگار ہے۔

اسی جسم اطہر میں آپ کی پیشانی مبارکہ بھی نمایاں مقام کی حامل در حقیقت جہان ِ خلق میں فرید الدھر والعصرتھے۔علماء سیر نے بیان کیا ہے کہ حضور کی مبارک پیشانی فراخ،کشادہ، روشن اور چمکدار تھی جس پر ہر وقت خوشی واطمینان اور سرور ومسرت کی کیفیت آشکارا رہتی۔ جو کوئی حضور کی مبارک پیشانی پر نظر ڈالتا تو اس پر موجود خاص چمک دمک اور تابانی دیکھ کر مسرور ہوجاتااور اس کادل اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوجاتا۔اسی وصفِ دلنواز کو بیان کرتے ہوئے حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم..... واسع الجبین.3
  رسول اﷲ ۔۔۔کشادہ پیشانی والے تھے۔

امام ابن جوزی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔4

حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ اوصاف مصطفی ﷺبیان کرتے تو آپ کی پیشانی مبارک کا وصف یوں بیان کرتے:

  كان مفاض الجبین.5
  حضور کی پیشانی مبارک کشادہ تھی۔

یعنی رسول اکرم کی پیشانی مبارک نہ چھوٹھی تھی او رنہ ہی موٹی بلکہ حسن کے امتیاز کے ساتھ کشادہ و فراخ تھی۔

پُر نورپیشانی مبارک

رسول اکرم کی پیشانی مبارک کشادہ ہونے کے ساتھ ساتھ روشن بھی تھی۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں:

  كان جبین رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صلتا.6
  آپ کی پیشانی مبارک کشادہ وہموارتھی۔

روایت میں مذکور لفظ"صلتا"کی تشریح و توضیح کرتے ہوئےامام صالحی تحریر فرماتے ہیں:

  الصلت الجبین اى واسعة وقیل الصلت الاملس.7
  صلت کا معنی واسع ہوتا ہے اورکہاگیاہے کہ اس کا معنی چمکدارپیشانی ہے۔ 8

اسی طرح مذکورہ وصف کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حافظ ابن ابی خیثمہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ کی پیشانی مبارک چمکدار تھی۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اجلى الجبین اذا طلع جبینه من بین الشعر او طلع من فلق الشعر او عند اللیل او طلع بوجھه على الناس تراء ى جبینه كانه السراج المتوقد یتلالا كانوا یقولون ھو صلى اللّٰه علیه وسلم .9
  حضور نبی کریم کی مبارک پیشانی روشن تھی جب موئے مبارک سے پیشانی ظاہر ہوتی یا رات کے وقت دکھائی دیتی یا دن کے وقت ظاہر ہوتی یا آپ لوگوں کے سامنے تشریف لاتے تو اس وقت پیشانی مبارک یوں نظر آتی جیسے روشن چراغ ہو جو چمک رہا ہو۔ یہ حسین اور دلکش منظر دیکھ کر لوگ بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ رسول اﷲ ہیں۔

اس مذکورہ روایت کوامام بیہقی نے بھی دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے جس میں یوں اضافہ بھی ہے کہ لوگ آپ کی جبین روشن کو دیکھ کریہی تاثر لیتے اور یہی تصور قائم ہوتا جیسے چراغ روشن اور چمک متحرک ہورہی ہے۔10

امام ابن عساکر نے حضرت عیسیٰ کے حوالہ سے ایک روایت ذکر کی ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اکرم کو چمکدار اور شفاف پیشانی والا فرمایا ہے۔11

پیشانی انور اور حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ

اُم المؤمنین حضرت عائشۃ الصدیقۃ نے ایک مرتبہ رسول اکرم کی جبین ِ اقدس پر پسینہ مبارک کے قطروں کو دیکھ کر چند اشعار بھی پڑھے تھےجن میں اس پیشانی مبارک کی نورانیت کو بیان کیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے علامہ ابن کثیر روایت کرتے ہیں:

  عن عائشة قالت: كنت قاعدة اغزل وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخصف نعله قالت: فنظرت الیه فجعل جبینه یعرق وجعل عرقه یتولد نورا قالت: فبھت قالت: فنظر الى فقال: ما لك یا عائشة؟ قالت: فقلت: یا رسول اللّٰه! نظرت الیك فجعل جبینك یعرق وجعل عرقك یتولد نورا ولو راك ابو كبیر الھذلى لعلم انك احق بشعره...
;                                واذا     نظرت     الى     اسرة   وجھه
;                                برقت  كبرق  العارض  المتھلل.12

  ام المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ میں چرخہ کات رہی تھی اور حضور نبی کریم میرے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے۔ آپ کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے تھے جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ اس حسین منظر نے مجھ کوکاتنے سے روک دیا۔پس میں آپ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ نے فرمایا تجھے کیا ہوااےعائشہ؟ میں نے عرض کیا: آپ کی پیشانی مبارک پہ پسینے کے قطرے ہیں جو (چمکتے ہوئے)نور کے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) آپ ﷺکو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کرلیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ ہی ہیں۔" جب میں اس کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں تو اس کے رخساروں کی چمک مثل ہلال نظر آتی ہے"۔

شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت نے آپ کی روشن پیشانی کے حسن کا لفظی مرقع اپنے ایک شعر میں یوں پیش کیا ہے:

  متى    یبد   فى   الداجى   البھیم   جبینه
یلح  مثل  مصباح  الدجى  المتوقد.13

  رات کی تاریکی میں حضور کی پیشانی مبارک اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے سیاہ اندھیرے میں روشن چراغ چمکتاہے۔

یعنی رسول اکرم کی پیشانی مبارک میں حسن و جمال اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ جو بھی شخص آپ کی پیشانی کو دیکھتا تو اپنی آنکھیں خیرہ کرتا اور مزید بھی بار بار یوں ہی خیرہ کرنا چاہتا۔

جبینِ مبارک چومنے کا شرف

اس امت میں وہ کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جن کو رحمت دوجہاں کی مقدس پیشانی کا بوسہ نصیب ہوا۔ اس کاتصور ہی انسان کویہ سوچنے پر مجبور کرتاہے کہ وہ لوگ عظمت و رفعت کے بام ِعروج پر فائز ہیں جنہیں اس جبین ِخیر و سعادت کو قریب سے دیکھنے اور چومنے کا شرف حاصل ہوا۔ایسے با عظمت افراد تو کافی زیادہ ہیں البتہ ان میں سے دو کا ذکر پیش خدمت ہے۔

جب حضور کا وصال ہوا تو حضرت صدیق اکبر حجرہ عائشہ صدیقہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور آپ یمنی کپڑے میں آرام فرما تھے:

  فكشف عن وجھه ثم اكب علیه فقبله...الخ.14
  حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کے چہرے کو کھولاپھر آپ کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیا۔

دوسری روایت حضرت خزیمہ کی ہے۔ امام احمد روایت کرتے ہیں:

  عن خزیمة بن ثابت انه راى فى منامنه انه .قبل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاخبره بذلك فناوله النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فقبل جبھته.15
  حضرت خزیمہ بن ثابت سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ وہ نبی کو(پیشانی مبارک پر) بوسہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے نبی کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ خواب بتایا ۔ نبی نے اپنا سر ان کے آگے فرما دیا چنانچہ انہوں نے پیشانی مبارک کو بوسہ دے لیا۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں مذکورہ واقعہ یوں مذکور ہے:

  عن عمارة بن خزیمة بن ثابت، أن أباه، قال: رأیت فى المنام كأنى أسجد على جبھة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فأخبرت بذلك رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: "إن الروح لتلقى الروح" وأقنع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم رأسه ھكذا، فوضع جبھته على جبھة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم .16
  حضرت عمارہ بن خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ ان کے والد نے کہا: انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور کی پیشانی پر سجدہ کررہا ہوں۔ پس میں نے حضور کو اس کے بارےمیں عرض کیا۔ توحضور نے فرمایا:بے شک روح کی روح سے ملاقات ہوتی ہے۔ اور اپنا سر مبارک اوپر فرما دیا چنانچہ انہوں نے اپنی پیشانی حضور کی جبین مبارک پر رکھ دی۔

رسول اکرم کی پیشانی درحقیقت ایسی تھی کہ جیسے روشن چراغ ہو جو چمک رہا ہو۔ یہ حسین اور دلکش منظر دیکھ کر لوگ بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ رسول اﷲ ہیں۔آپ کی کشادہ اور پر نور پیشانی مبارک ہر قسم کی ظاہری وباطنی آلائشوں اور کثافتوں سے پاک تھی ۔صحابہ کرام میں سے کسی نے آپ کی پیشانی مبارک پر کبھی بھی اُکتاہٹ اور بیزاری کی کیفیت نہیں دیکھی۔ آپ کی مبارک پیشانی پھولوں کی طرح ترو تازہ اور ماہ تاباں کی طرح روشن و آبدار تھی جس پر کبھی شکن نظر نہ آئی۔ آپ ملاقات کے لیے آنے والوں سے اس قدر خندہ پیشانی سے پیش آتے کہ آپ کی شخصیت کے نقوش مخاطبین کے دلوں پر نقش ہوجاتے اور وہ آپ کی مجلس سے موانست، چاہت اور اپنائیت کا احساس لے کر لوٹتے۔کیاکمال تھا رب کائنات کا حضور کی شخصیت میں کہ انسان کی عقل وذھن اس کا تصور کرنے سے محروم ہے۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ الاسراء70:17
  • 2 القرآن، سورۃآل عمران81:3
  • 3 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 7، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:11-13
  • 4 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:41
  • 5 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص :214
  • 6 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص :21
  • 7 ایضًا: ص: 22
  • 8 المنجد میں’’صلت‘‘ کے معنی کشادہ اور ہموار پیشانی کیے گئےہیں۔(لوئس معروف،المنجد،مطبوعہ:دارالاشاعت،کراچی، پاکستان، 1994ء، ص:573)
  • 9 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:21
  • 10 امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراتشی، باکستان، 2009ء، ص:253
  • 11 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص :21
  • 12 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج -8، مطبوعۃ: دارھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت،لبنان،1997ء، ص:401
  • 13 حسان بن ثابت ، دیوان حسان، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:67
  • 14 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:1241، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، القاھرۃ ، مصر، 2003ء، ص :258
  • 15 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:21863، ج-36، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص :186
  • 16 ایضًا:حدیث: 21864، ص:188