یوں تو اﷲ رب العزت نے جملہ انبیاء کرام کی دعوت کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی خاطر انہیں غیر معمولی رعب ودبدبہ سے نوازا مگر حضور ختمی مرتبت کو رعب و دبدبہ کی وہ شان عطا کی گئی جو اور کسی نبی اور رسول کے حصے میں نہیں آئی۔ آپ کو حُسنِ صورت و سیرت کی وجہ سے قدرتی وقار حاصل تھااور آپ کے شخصی وقار وہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک ماہ کی مسافت تک اس کا رعب ودبدبہ تھا۔ آپ کی ہیبت سے بڑے بڑے جابر کانپ اٹھتے اور آپ نے اپنے شخصی وقاراور و جاہت کے لیے کبھی بھی تَکلّف نہیں فرمایا۔
تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ بڑے بڑے سرداران قریش اور رئیسانِ مکہ آپ کی شخصی وجاہت اور وقار وتمکنت سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ تاریخ کے دامن میں ایسے واقعات محفوظ ہیں کہ ابو جہل، ابو لہب، مغیرہ، عتبہ، شیبہ اور امیہ جیسے صاحبانِ رعونت ہیبت و جلال کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔آپ کا اتنا رعب و دبدبہ تھا کہ حوالی مدینہ میں آباد قبائل اپنے جم غفیر اور کثیر جنگی ساز وسامان کے باوجود اپنے مضبوط قلعوں میں نبی کریم کی پیغمبرانہ جلالت سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔کئی قبائل کے سرکردہ افراد تو آپ کے مطیع ہوگئے۔
نبی اکرم کے رعب و دبدبہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر ہوا ہے۔چنانچہ اسی حوالہ سے ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
سَاُلْقِى فِى قُلُوْبِ الَّذِینَ كفَرُوا الرُّعْبَ12 1
میں ابھی کافروں کے دلوں میں (لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں۔
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَقَذَفَ فِى قُلُوْبِھمُ الرُّعْبَ262
اور ان کے دلوں میں (اسلام کا) رعب ڈال دیا۔
یعنی یہ رعب و دبدبہ اور جاہ وجلال منجانب اللہ تعالی رسول اکرم کو دیا گیا ہےکہ آپ کے دشمن آپ سے ہر لمحہ ڈرتے رہیں۔
اس رعب ِ نبوی کا ذکر احادیث میں بھی خود صاحبِ قرآن نے کیاہے۔چنانچہ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
نصرت بالرعب مسیرة شھر.3
ایک ماہ کے فاصلہ سے ہی طاری ہونے والے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
نصرت بالرعب على العدو.4
دشمن پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی۔
اسی حوالہ سےحضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
نصرت بالرعب فیرعب منى العدو عن مسیرة شھر.5
رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے پس دشمن مجھ سے ایک ماہ کے فاصلہ پر ہی مرعوب ہوجاتا ہے۔
ایک ماہ کے فاصلہ سے مراد یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام پر حضور کا رعب اتنے فاصلہ سے طاری ہونے لگتا اور وہ آپ کے نام کی ہیبت سے کانپنے لگتے۔
امام ابن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں:
میری دانست میں ایک ماہ کی مسافت کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ کفار اور یہود ونصاریٰ کی طاقت کے مراکز ایک ماہ کے زمانی فاصلے پر واقع تھے جیسے شام، عراق، یمن اور مصر۔6
حضرت ابوامامہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
نصرت بالرعب یسیر بین یدى مسیرة شھر یقذف فى قلوب اعدائى.7
ایسے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی جو ایک ماہ کے فاصلے سے میرے آگے آگے چلتا اور میرے دشمنوں کے دلوں میں (اتنے فاصلہ پر ہی) ڈال دیا جاتا ہے۔
امام ترمذی اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:
فاذا جعل نصرته من الرعب فقد اعطى جندا لایقاومه احد ولم یعط احد من الرسل ذلك فكان این ماذكر من مسیرة شھر وقع ذلك الرعب فى قلب عدوه فذل بمكانه.8
جب آپ کی رعب کے ذریعے مدد کی گئی تو آپ کو ایسے لشکر عطا کئے گئے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایسے لشکر کسی اور رسول کو عطا نہیں کئے گئے اور جہاں کہیں بھی ایک ماہ کی مسافت پر آپ کا ذکر کیا جاتا تو دشمن کا دل دہل جاتا اور وہ اسی جگہ پست ہمت ہوجاتا۔
اسی حوالہ سے عبد الرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں:
فالظاھر اختصاصه به مطلقا وانما جعل الغایة منھا شھرا لانه لم یكن بین بلده وبین احد من اعدائه اكثر منه وھذ ه الخصوصیة حاصلة له على الاطلاق حتى لو كان وحدہ بغیر عسكر.9
یہ بات بڑی واضح ہے کہ رعب کی صفت آپ کے ساتھ مطلقاً خاص تھی اور آپ کا ایک ماہ ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے شہر اور آپ کے دشمنوں کے درمیان اس مدّت سے زیادہ مسافت نہ تھی ۔ آپ کو یہ خصوصیت ہمیشہ حاصل تھی چاہے آپ کسی لشکر کے بغیر تنہا ہی کیوں نہ ہوتے۔
حضور کے رعب کی مختلف جہتیں تھیں جن میں سے ایک جہت دشمن کا عددی کثرت کے باوجود عساکرِ اسلام سے خوف زدہ ہونا تھا ۔چنانچہ اس حوالے سے امام قرطبی لکھتے ہیں:
ان الغزاة اذا خرجوا من دیارھم بالنیة الخالصة وضربوا بالطبل وقع الرعب والھیبة فى قلوب الكفار مسیرة شھر فى شھر علموا بخروجھم اولم یعلموا.10
جب عساکرِ اسلام اپنے علاقے سے جہاد کی نیت سے نکلنے لگتے اور جنگ کا نقارہ بجاتے تو کفار کے دلوں میں دو ماہ کے فاصلہ پر ہی رعب طاری ہوجاتا خواہ انہیں مجاہدین کے نکلنے کا علم ہوتا یا نہ ہوتا۔
اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں :
نصر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالرعب مسیرة شھرین على عدوه.11
دشمن پر دو ماہ کے فاصلہ پر ہی طاری ہوجانے والے رعب کے ذریعے رسول اﷲ کی مدد کی گئی۔
یہ اسلام دشمن عناصر شمعِ اسلام کو بجھانے کے منصوبے بناتے مگر جب اپنی چشم تصو رسے داعی اسلام حضور نبی کریم کو دیکھتے تو ان پر آپ کا ایسا رعب طاری ہوجاتا کہ ان کے تمام قبیح منصوبے اور ناپاک ارادے پانی کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے۔سمتوں کے ذکر میں اس امر کا اشارہ ہے کہ دشمن چاہے سامنے سے آئے یا عقب سے حضور کا رعب اس پر یکساں طور پر طاری ہوتا اور وہ اسلام کی قوت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پاتا۔
آپ کے رعب ودبدبہ کا یہ عالم تھا کہ کوئی اجنبی اور ناواقف شخص جونہی آپ کو دیکھتا تو مرعوب ہوکر رہ جاتا۔چنانچہ حضرت علی اس حوالہ سے فرماتے ہیں:
من راه بدیھة ھابه.12
جو شخص اچانک حضور کے سامنے آتا مرعوب ہوجاتا۔
مگر جونہی وہ رحمت عالم کے قریب آتا اس کا سب خوف جاتا رہتا اور آپ کی قربت میں طمانیت محسوس کرتا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ آپ کی عظمت ووقار کو یوں بیان کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما.13
حضور نبی کریم اپنی ذات والاصفات کے لحاظ سے عظیم تھے اور دوسروں کے نزدیک معظم اور باوقار تھے۔
"فخما مفخما" کا معنی شارحین حدیث نے یہ تحریر کیا ہے:
ھو عظیم فى نفسه معظم فى القلوب والعیون عند كل من راه صلى اللّٰه علیه وسلم.14
آپ ذات کے لحاظ سے عظیم اور ہر دیکھنے والے کے دل اور نظر میں معظم تھے۔
امام عبد الرؤف مناوی یہ معنی بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہی قدرتی وجاہت تھی کہ مخالف آپ کی تعظیم نہ چاہنے کے باوجود کرنے پر مجبور ہوجاتا اور ان الفاظ کا ایک اور معنی بھی بیان کیا:
فخم عظیم عنداللّٰه مفخم معظم عند الناس.15
آپ اﷲ کے ہاں عظیم اور لوگوں کے ہاں معظم ہیں۔
اسی طرح اس حوالہ سے حضرت خارجہ بن زید انصاری بیان کرتے ہیں:
كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم او قر الناس فى مجلسه.16
حضور نبی کریم مجلس میں تمام شرکاء سے باوقار ہوتے۔
حضرت اُم معبد آپ کے حسنِ وجاہت اور شخصی وقار کے بارے میں فرماتی ہیں:
ان صمت فعلیه الوقار وان تكلم سماه وعلاه البھاء اجمل الناس وابھاه من بعید واحسنه واجمله عن قریب.17
نبی کریم بوقت سکوت حد درجہ متین اور سراپا وقار دکھائی دیتے۔ جب گفتگو فرماتے تو رخ انور پر شگفتگی پھیل جاتی۔ دور سے ذی وجاہت اور بارعب دکھائی دیتے جبکہ قریب سے کمال درجہ حسین اور منٹھار تھے۔
آپ کے حسن وجاہت ووقار کا یہ عالم تھا کہ کسی کو بھی آپ کے چہرہ اقدس کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی طاقت نہ تھی ۔اسی بات کا تذکرہ آپ کی بارگاہ سے فیض پانے والے صحابی رسول حضرت عمرو بن العاص یوں بیان کرتے ہیں:
وما كان احد احب الى من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولا اجل فى عینى منه وما كنت اطیق ان املا عینى منه اجلا لا له ولو سئلت ان اصفه ما اطقت لانى لم اكن املا عینى منه.18
میرے نزدیک رسول اﷲ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ سے حسین تر تھا۔میں حضور رحمتِ عالم کے مقدس چہرہ کو اس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگرکوئی مجھے آپ کے محامد ومحاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا ؟کیونکہ (حضور رحمت عالم کے حسن جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔
رسول اکرم کی بارگاہ میں بیٹھنےکا تذکرہ کرتے ہوئےحضرت انس بیان کرتے ہیں :
كنا نجلس عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كانما على رؤوسنا الطیر ما یتكلم منا احد الا ابوبكر و عمررضى اللّٰه عنھا.19
ہم حضور نبی کریم کی محفل پاک میں اس طرح بیٹھے تھے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے علاوہ کسی میں آپ کے ساتھ گفتگو کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔
سروں پر پرندے ہونے سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم کے رعب اور دبدبے کے باعث صحابہ کرام جب بھی آپ کی محفل میں موجود ہوتے تودرخت کی مثل بلکل ساکت ہوتے ۔
حضرت ابو رمثہ طبیب تھے ۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میں جب مدینہ منورہ میں آیا تو میں نے ابھی رسول اﷲ کی زیارت نہیں کی تھی۔ اچانک آپ باہر تشریف لائے اور آپ نے دو سبز کپڑے زیب تن فرما رکھے تھے، میں نے اپنے بیٹے سے کہا خدا کی قسم! یہی اﷲ کے رسول ہیں۔ پس میرا بیٹا رسول اﷲ کے رعب و دبدبے کے باعث کانپنے لگا۔20
اس رعب و دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ نبی اکرم جس کو بھی مخاطب فرمادیتے تو اسی وقت اس پر آپ کا رعب و جلال طاری ہوجاتا۔چنانچہ حضرت ابو مسعود بدری بیان کرتے ہیں :
انى كنت اضرب غلاما لى اذ سمعت صوتا من خلفى اعلم ابا مسعود للّٰه اقدر علیك منك علیه قال: فجعلت لا التفت الیه من الغضب حتى غشینى فاذا ھو رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما رایته وقع السوط من بین یدى من ھیبته.21
میں اپنے غلام کو مار رہا تھا میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی کسی نے کہا: ابو مسعود! جان لو کہ اﷲ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمہیں اس غلام پر ہے۔ میں غصے کی وجہ سے اس ہستی کی طرف توجہ نہ کررہا تھا حتیٰ کہ وہ مجھ پر چھاگئے میں نے دیکھا تو وہ حضور نبی کریم تھے جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے نیچے گرپڑا۔
بنت مخرمہ نے حضور کو مسجد نبوی میں دیکھا تو آپ کے پیغمبرانہ جلال کی تاب نہ لاسکیں اور ان پر رعب طاری ہوگیا۔22
میدانِ جنگ میں بھی یہی رعب اور دبدبہ دشمنوں کو مبہوت کئے رہتا اور انہیں ہزیمت اٹھانا پڑتی۔ غزوہ بدر کے موقع پر کفار کے دلوں پر جو رعب طاری ہوا اس کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہوا ہے:
سَـنُلْقِى فِى قُلُوْبِ الَّذِینَ كفَرُوا الرُّعْبَ15123
ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیں گے ۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
ان ابا سفیان قد اصاب منكم طرفا وقد رجع وقذف اللّٰه فى قلبه الرعب.24
بے شک ابو سفیان کو تمہاری طرف سے سخت دھچکالگا ہے اور وہ مکہ لوٹ گیا اور اﷲ تعالیٰ نے اس کے دل میں رعب ڈال دیا۔
ایک مرتبہ دوران سفر حضور ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرما تھے کہ اچانک وہاں ایک اعرابی آنکلا اور آپ کی تلوار جو آپ نے درخت کی شاخ سے ٹکارکھی تھی لے کر کہنا لگا:
من یمنعك منى؟
اب تمہیں مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟
آپ نے فرمایا میرا خدا۔یہ سن کر وہ شخص اتنا مرعوب ہوا کہ اس نے فوراً تلوار نیام میں کرلی۔یہ واقعہ حضور نے صحابہ کرام کو خود بیان فرمایا جس کے راوی حضرت جابر ہیں۔25
محمد بن کعب قرظی کی روایت میں ہے کہ اس وقت بدو کا ہاتھ کانپنے لگا اورتلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی اور وہ درخت سے جاٹکرایا جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہوگیا۔26
قیصر روم ہر قل کو جب حضور کا مکتوب ملا تو اس نے سردارِ قریش ابو سفیان جو کہ تجارت کے سلسلہ میں وہیں تھا اپنے دربار میں بلوایا اور اس سے آپ کے بارے میں چند سوالات کئے۔ آپ کے نامہ مبارک سے ہر قل پر جو رعب و دبدبہ طاری ہوا اسے ابو سفیان اپنے ساتھیوں سے یوں بیان کرتا ہے:
لقد امر امر ابن ابى كبشة انه یخافه ملك بنى الاصفر فما زلت موقنا انه سیظھر حتى ادخل اللّٰه على الاسلام.27
بخدا ! ابو کبشہ 28کے بیٹے (محمد ) کی شان بہت بڑھ گئی اتنی کہ ان سے شہنشا روم ڈرنے لگا۔ اس وقت سے مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ حضور بہت جلد غالب ہوں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل فرمادیا۔
ہر قل کے مزید خوف زدہ ہونے اور مرعوب ہونے کا ذکر یوں کیا گیا ہےکہ ابن ناظور جو ہر قل کا دوست اور ایلیاء کا حاکم تھا بیان کرتا ہے کہ ہر قل جب بیت المقدس آیا تو ایک دن پریشان نظر آیا۔ اس پر اس کے بعد بعض اراکین سلطنت نے پوچھا کیا بات ہے؟ آپ کا مزاج ہم خلاف معمول پارہے ہیں ہر قل علوم نجوم جانتا تھا۔ اراکین کے سوال کرنے پر اس نے بتایا:
انى رایت الیلة حین نظرت فى النجوم ملك الختان قد ظھر.29
میں نے آج رات جب ستاروں میں نظر کی تو یہ دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ (حضور نبی کریم ) ظاہر ہوگیا ہے۔
حضور نبی کریم کے دور مبارک میں یمن پہلے ایران کے بادشاہ کسریٰ کے ماتحت تھا یمن پر بھی کسری کی حکومت تھی ۔ جب آپ نے دنیا کے بادشاہوں کو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھے تو ان میں شاہ ایران کسریٰ کو بھی خط لکھا:
بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ
محمد رسول اﷲ کی جانب سے ایران کے عظیم بادشاہ کسریٰ کی طرف۔
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلامتی ہو، اما بعد! تم مسلمان ہوجاؤ تو بچ جاؤ گے… ۔
جب اس کے پاس یہ خط پہنچا تو اس نے کہا:یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ خط جزیرۂ عرب کے ایک شخص کی طرف سے آیا ہے جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے۔ جب اس نے خط کو کھولا تو دیکھا کہ آپ نے کسریٰ کے نام سے قبل اپنے نام سے خط کا آغاز کیا ہے تو کسریٰ کو بہت غصہ آیا اور اس نے خط پڑھنے سے قبل خط کو پارا پارا کردیا اور اپنے یمن کے گورنر باذام کو لکھا کہ جب میرا یہ خط تجھے ملے تو جزیرہ عرب کے اس شخص کی طرف جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے ،اپنی طرف سے دو امیروں کو بھیجو اور اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو ۔جب باذام کو خط ملا تو اس نے دو دانشمند امیروں کو اپنی طرف سے بھیجا ان میں سے ایک کا نام بابویہ تھا ۔ اپنی اس ناکام مہم سے واپسی پر وہ والی یمن باذام کے دربار میں آیا تو اس نے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
ما كلمت رجلا قط اھیب عندى منه.30
میں نے آپ ( ) سے بڑھ کر کسی کو بارعب نہیں دیکھا۔
حضور کا یہ رعب و دبدبہ اور ہیبت وجلال سپاہ کی کثرت اور اسلحہ کی فراونی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یہ آپ کی پیغمبرانہ خصوصیت تھی جو اسلام کی شوکت وسربلندی اور تزویج اشاعت کے لئے بروئے کار آئی حتیٰ کہ وعدہ الٰہی کے مطابق دین اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہوکر رہا۔
رعب و دبدبہ، شان و شوکت اور جلال و ہیبت کا تعلق عمومی طور پر دنیاوی عہدوں اور مناصب کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر بادشاہانِ وقت اور شہنشایان ِ دنیاوی اور آج کل کی اصطلاح میں صدرِ مملکت اور وزرائے اعظم کا پروٹوکول اتنا ہوتا ہے کہ ایک معمولی اور چھوٹا انسان بھی بہت بڑا اور پرہیبت منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ لیکن سید الانبیاء کا رعب وجلال فطری تھا جس سے بڑے بڑے بادشاہ مرعوب ہوتے تھے۔