Encyclopedia of Muhammad

بے سایہ پیکرِ انور

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو بے شمار خصوصی صفات بخشی ہیں ،انہی کے سر پر اولیت کا تاج رکھا اور انہی کی پیشانی پر آخرت کا سہرا باندھا،انہی کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور انہی کو معراج کی رات میں تمام انبیاء کرامکا امام بنایا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو جہاں صدہا معجزے بخشے وہاں یہ معجزہ بھی عطا فرمایا کہ حضور کے جسم شریف کو بے سایہ بنایا۔ دھوپ چاندنی چراغ وغیرہ کی روشنی میں آپ کے جسم اطہر کا بالکل سایہ نہ ہوتا تھا بلکہ جو لباس حضور پہنے ہوتے تھے وہ لباس بھی بے سایہ ہو جاتا تھا۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے بشری جسم اقدس کو ایسا لطیف ونظیف اور پاکیزہ ومطہر کردیا تھا کہ اس میں کسی قسم کی عنصری اور مادی کثافت باقی نہ رہی تھی۔ اس لیے چاند، سورج، چراغ وغیرہ کی روشنی میں جب حضور تشریف فرما ہوتے تو جسم اقدس اس روشنی کے لیے حائل نہ ہوتا تھا اور دیگر اجسام کثیفہ کی طرح حضور کے جسم پاک کا کوئی تاریک سایہ نہ پڑتا تھا۔کیونکہ سایہ اس جگہ کی تاریکی کو کہتے ہیں جہاں جسم کثیف کے حائل وحاجب ہوجانے کی وجہ سے چاند سورج وغیرہ کی روشنی نہ پہنچ سکےجبکہ آپ کے جسمِ مبارک میں کثافت ہی نہ تھی ۔وہ تو نورانی جسم انور تھا جوکسی روشن چیز کی روشنی کے لیے حائل نہیں ہوتاتھا اور اسی لیے تاریک سایہ سے حضور کا جسم اطہر پاک تھا۔

رسول ِ اکرم کا بحیثیتِ نور قرآن مجید میں ذکر

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کے جسم اطہر کو کائنات کی ہر شے سے زیادہ لطیف و نظیف بنایا اور اسے مادی اور عنصری کثافت سے مبرّا رکھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ کو سراپا نور قرار دیاہے۔چنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  قَدْ جَاۗءَكمْ مِّنَ اللّٰه نُوْرٌ وَّكتٰبٌ مُّبِینٌ15 1
  بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید) ۔

اس آیت مبارکہ میں نور سے مراد آپ کی ذات اقدس ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام علی بن احمد الواحدیلکھتے ہیں:

  قد جاء كم من اللّٰه نور یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.2
  تحقیق تمہارے پاس نور آیا یعنی نبی کریم آئے۔

امام عبدالرحمن ثعلبی نے بھی اسی طرح تحریر فرمایا ہے ۔3 اسی طرح امام بغوی لکھتے ہیں:

  قد جاء كم من اللّٰه نور یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.4
  تحقیق تمہارے پاس نور آیا یعنی نبی کریم آئے۔

اسی حوالہ سے امام ابن جوزی لکھتے ہیں:

  قوله تعالى قد جاء كم من اللّٰه نور قال قتادة: یعنى بالنور النبى محمد صلى اللّٰه علیه وسلم.5
  باری تعالیٰ کا ارشاد مقدس قدجاء کم من اللہ نور کے بارے میں حضرت قتادۃ نے فرمایا کہ:نور سے مراد (سیّدنا)محمد ہیں۔

اسی طرح ایک اور مقا م پر قرآن ِمجیدنے آپ کی ذات اقدس کو فقط نور ہی قرار نہیں دیا بلکہ اسے سراجامنیرا بھی فرمایا۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مقدس ہے:

  یاَيُّھا النَّبِى اِنَّآ اَرْسَلْنٰك شَاھدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا45وَّدَاعِیا اِلى اللّٰه بِـاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِیرًا46 6
  اے نبیِ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔

قرآن مجید نے چاند کو بھی دوسری جگہ منیرا فرمایا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

  تَبٰرَك الَّذِى جَعَلَ فِى السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیھا سِرٰجًا وَّقَمَـــرًا مُّنِیرًا61. 7
  وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا۔

کیونکہ وہ خود چمکنے کےساتھ ساتھ مکمل روئے زمین چمکاتا بھی ہے ۔ اسی طرح حضور کو بھی مذکورہ بالا آیت میں سراجامنیر افرمایاگیا ہے کہ حضور اکرم خود بھی چمک رہے ہیں اور صحابہ کرام و اولیاء اﷲ کو نور بھی بنارہے ہیں کہ یہ سب کے سب حضور ہی کے طفیل و وسیلہ سے جگمگارہے ہیں۔

جب قرآن کریم نے آپ کے جسمِ اطہر کو سراپا سراج منیر قرار دیا ہے تو اس کے بعد اس میں مادی کثافت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ قرآن کی بیان کردہ اس مقدس نورانیت کو ائمہ اسلام نے آپ کے جسم اطہر کے سایہ نہ ہونے پر دلیل بنایا ہے۔

رسول اکرم اور دعائے نور

نبی اکرم نے جوجو اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے چاہا تو ربُّ العزّت نے وہ سب آپ کوعطا فرمایا۔اسی طرح آپ کی دعاؤں میں سے ایک دعائے نور بھی ہے۔جس کے حوالہ سےحضرت عبداﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور اکرم نے دعا فرمائی:

  اللّٰھم اجعل لى نورا فى قلبى ونورا فى قبرى ونورا من بین یدى ونورا من خلفى ونورا عن یمینى ونورا عن شمالى ونورا من فوقى ونورا من تحتى ونورافى سمعى ونورا فى بصرى ونورا فى شعرى ونورا فى بشرى ونورا فى لحمى و نورا فى دمى ونورا فى عظامى اللّٰھم اعظم لى نورا واعطنى نورا واجعل لى نورا.8
  اے اﷲ میرے لیے میرے دل میں نور کردے، اور میری قبر میں نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میری سماعت میں نور اور میری بصارت میں نور اور میرے بالوں میں نور اور میری جلد میں نور میرے گوشت میں نور اور میرے خون میں نور اور میری ہڈیوں میں نور اے اﷲ تعالیٰ میرے لیے بہت ہی زیادہ نور کردے اور مجھ کو نور عطا کردے اور میرے لیےنوربنا۔

اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ آپ کے جسم اطہر کا ہر عضو نور ہے۔ جب آپ کے جسم اطہر کا ہر ہر عضو نور اور پھر اس کے بھی دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے اندر باہر نور ہی نور ہے تو پھر آپ کا سایہ کیسے ہوسکتا تھا؟ امام زرقانی اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  قال غیرہ ویشھد له قوله صلى اللّٰه علیه وسلم فى دعائه لما سال للّٰه تعالى ان یجعل فى جمیع اعضائه وجھاته نوراً ختم بقوله واجعلنى نوراً اى والنور لاظل له وبه یتم الاستشھاد.9
  اور ان کے علاوہ دوسرے علماء محدثین نے فرمایا : حضور کے سایہ نہ ہونے پر حضور کا وہ قولِ مبارک جو حضور کی دعا میں( گواہی دیتا )ہےکہ جب حضور نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اﷲ تعالیٰ حضور کے تمام اعضاء میں اور جمیع جہات میں نور کردے تو حضور نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا ’’واجعلنی نوراً‘‘ یعنی مجھے بالکل نور کردے۔ یہ جملہ حضور کے سایہ نہ ہونے پر اس لیے شہادت دیتا ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہوتا اور اسی کے ساتھ یہ استشہاد تمام اور پورا ہوجاتا ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم کا جسم اطہر انتہائی لطافت کی بناء پر بے سایہ تھا اور کسی بھی قسم کی روشنی میں آپ کے مقدس و لطیف جسد مبارک کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔

عدمِ سایہ پر دال حدیث ِ متصل ومرفوع

بعض لوگ حدیث ذکوان کو مرسل قرار دیتے ہوئے اسے قابل استدلال نہیں سمجھتے جبکہ اس کے بارے میں فقط حدیث ذکوان ہی نہیں بلکہ دیگر روایات بھی منقول ہیں۔ان میں سے ایک حضرت عبداﷲ بن عباس سے مروی ہے جو متصل بھی ہے۔ امام زرقانی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

  فھو مرسل لكن روى ابن مبارك وابن جوزى عن ابن عباس رضى للّٰه عنھما لم یكن للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم ظل.10
  حدیث ذکوان بے شک مرسل ہے مگر امام عبداﷲ بن مبارک اور امام ابن جوزی نے سیّدنا عبداﷲ بن عباس سے متصلا ًذکر کیا ہے کہ حضور کا سایہ مبارک نہیں تھا۔

عدم سایہ کے بارے میں حضرت عثمان کا قول بھی مروی ہے ۔مدارک التنزیل میں امام نسفی"لولا اذ سمعتموہ" کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ جب حضور نے حضرت عائشہ کے بارے میں حضرت عثمان سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا:

  انماللّٰه اوقع ظلك على الارض لئلا یضع انسان قدمه على ذلك الظل.11
  بےشک آپ کا سایہ اﷲ تعالیٰ نے زمین پر واقع نہیں کیا تاکہ کہیں کوئی شخص آپ کے سایہ اقدس پر اپنا قدم نہ رکھ دے۔

آپ کا یہ ارشاد حدیث تقریری کے درجے پر فائز ہے کیونکہ آپ نے عدم سایہ کا ذکر حضور کی خدمت میں کیا اور آپ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی۔ اگر سایہ نہ ہونا غلط ہوتا تو آپ حضرت عثمان کا رد فرمادیتے۔ا ب گویا کہ یہ قول براہ راست آقائے دو جہاں کا اقرار پایا جسے اصطلاح محدثین میں حکماً مرفوع کہا جاتا ہے۔

جسمِ رسولِ اکرم اور حسّی نور

علم وہدایت کی نورانیت تو حسب مراتب ودرجات ہر اہل علم اور ہدایت یافتہ شخص کو حاصل ہے۔ حضور کی شانِ اقدس تمام عالم سے بلند و بالا اور افضل و اعلیٰ ہے۔ اس لیے حضور کی ذاتِ مقدسہ اور کمالاتِ مبارکہ کو عوام کی ذات وصفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔حضور کو جو صفت ملی ہے وہ دوسروں کی نسبت اکمل واتم وارفع و اعلی ہے۔

بعض اشیاء ذات ہوتی ہیں اور بعض صفات ہوتی ہیں اور نور ذات بھی ہے جیسے چاند وسورج اور صفات بھی جیسے ایمان و ہدایت۔جو چیزیں ذات وعین نہیں بلکہ محض معنی و صفت ہیں جب ان کے لیے لفظ ِنور بولا جائے گا تو اس کے معنی اس چیز کے حسب حال ہوں گے۔ یعنی وصفی اور معنوی نورانیت اور جو چیزیں ذات اور صفت سب کی جامع ہوں گی ان کے لیے جب لفظ نور کا اطلاق ہوگا تو اس سے وہی نورانیت مراد ہوگی جو ان چیزوں کے حسب حال اور شایانِ شان ہے۔یعنی عین و معنی دونوں قسم کی جامع نورانیت۔ لہٰذا قرآن و تورات، اسلام وایمان اور علم وہدایت ان سب چیزوں کے لیے جو لفظ نور قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے اس سے وصفی اور معنوی نورانیت کے معنی مراد ہوں گے کیونکہ یہ سب چیزیں از قبیل اوصاف ومعانی ہیں اور ظاہر ہے کہ معنی کا عین اور وصف کا ذات ہونا محال ہے۔ ہاں! ایسی چیز جو ’’ذات ووصف‘‘ دونوں کی حامل اور ’’عین ومعنی‘‘ دونوں کی جامع ہواس کی نورانیت بھی ہر دو قسم کی نورانیت کی جامع ہوگی۔

چونکہ حضور ذات اور صفت دونوں کے جامع ہیں اس لیے حضور کے لیے جو لفظ قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے اس سے مراد وہی نور ہوسکتا ہے جو عین ومعنوی اورذاتی ووصفی ہر قسم کی نورانیت کا جامع ہو۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ حضور اسلام وایمان، ہدایت وقرآن، علم و عرفان تمام انوارِ معانی واوصاف کے حامل ہیں اور اس کے علاوہ جملہ انوارو اعیان یعنی ذات وعین کے قبیل سے جس قدر نور ہیں حضور ان سب کے بھی جامع ہیں۔12

صحابہ کرام جب رسول اکرم کے چہرہ انور کا تذکرہ کرتے تو کئی صحابہ کرام یہ جملہ ضرور ارشاد فرماتے کہ حضور کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔اس روایت میں یہ جملہ بھی نبی اکرم کی نورانیت کو ظاہر کرتا ہے۔چنانچہ یہ جملہ کئی روایات میں منقول ہوا ہے۔ حضرت حسن مجتبیٰ نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی کہ حضور نبی کریم کا حلیہ مبارک مجھے بتائیے آپ نے جواب دیا:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما یتلا لاوجھه تلالو القمر لیلة البدر… الخ.13
  حضور لوگوں کی نگاہوں میں بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان دکھائی دیتے تھے حضور کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔

اس کا معنی بیان کرتے ہوئےحضرت ابراہیم بن محمد بیجوری فرماتے ہیں:

  ومعنى یتلالؤ یضىء ویشرق كاللؤلؤ وقوله تلالؤ القمر لیلة البدر اى مثل تلالؤ القمر لیلة البدر.14
  یتلالؤ کے معنی روشن ہونے اور چمکنے کے ہیں جیسے موتی چمکتا ہے اور تلالؤالقمر لیلۃ البدر کے معنی یہ ہیں کہ حضور کا چہرۂ انور اس طرح چمکتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے۔

حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں :

  رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فلھو عندى احسن من القمر.15
  میں نے حضور کو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں (کبھی) آپ کی طرف دیکھتا اور کبھی چاندی کی طرف تو آپ میرے نزدیک چاند سے یقینا زیادہ حسین تھے۔

حضرت ابراہیم بن محمد بیجوری اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

  وفى روایة فى عینى بدل عندى والتقیید بالعندیة فى الروایة الاولى لیس للتخصیص فان ذلك عند كل احد راه كذالك .16
  ایک اور روایت میں "عندی" کی بجائے "فی عینی" آیا ہے اور روایت اولیٰ میں "عندی" کی قید تخصیص کے لیے نہیں ہے، یعنی یہ مطلب نہیں کہ میرے ہی نزدیک حضور چاند سے زیادہ حسین تھے بلکہ فی الواقع ہر دیکھنے والے کے نزدیک حضور ﷺچاند سے زیادہ حسین تھے۔

اس کے بعدحضرت ابراہیم بن محمد بیجوری اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

  وانما كان صلى اللّٰه علیه وسلم احسن لان ضوء ہ یغلب على ضوء القمر، بل وعلى ضوء الشمس ففى روایة لابن المبارك وابن الجوزى لم یكن له ظل، ولم یقم مع شمس قط الاغلب ضوءہ على ضوء الشمس ولم یقم مع سراج قط الاغلب وضوءہ على ضوء السراج.17
  اور حضور چاند سے زیادہ حسین اس لیے تھے کہ حضور کی روشنی چاند کی روشنی بلکہ سورج کی روشنی پر غالب رہتی تھی۔ کیونکہ سیّدناابن مبارک اور علامہ ابن جوزی محدث کی روایت میں آیا ہے کہ حضور کا سایہ نہ تھااور حضور کبھی سورج کے سامنے کبھی کھڑے ہوئےتو حضور کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب ہوجاتی تھی۔اسی طرح کبھی حضور اکرم چراغ کے سامنے بھی کھڑے ہوتے توچراغ کی روشنی پر بھی حضور کی روشنی غالب رہتی تھی۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم جس طرح معنوی و صفتی نور کا پیکرِ انور ہیں بالکل اسی طرح آپ حسّی نور کا بھی پیکر ہیں کہ جس کا سایہ اس لیے نہ تھا کہ آپ کی روشنی سورج و چاندو دیگر نورانی چیزوں پر غالب آجایا کرتی تھی۔

صحابہ کرام اور نورِ حسّی

حضرت عبداﷲ بن عباس سے مروی ایک روایت میں اس طرف واضح اشارہ بھی ملتا ہےجس سے مذکورہ بات کی تصدیق بھی ہوجائے گی۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلج الثنیتین اذا تكلم روى كالنور یخرج من بین ثنایاہ.18
  حضور نبی کریم کے سامنے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعائیں پھوٹتی دکھائی دیتیں ۔

اسی طرح آپمسکراتے تو ایسا لگتا جیسے موتیوں کی لڑیاں فضا میں بکھر جاتیں اور چہرہ انور گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھتا۔چنانچہ قاضی عیاض مالکی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  إذا افتر ضاحكا افتر عن مثل سنا البرق وعن مثل حب الغمام، إذا تكلم رى كالنور یخرج من ثنایاه.19
  جب حضور تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی اور بارش کے اولوں کی طرح چمکتے جب گفتگو فرماتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔

حضرت ابراہیم بن محمد بیجوری اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

  اى راى شىء له صفاء یلمع كالنور یخرج من بین ثنایاه ویحتمل ان یكون الكاف زائدة للتفخیم ویكون الخارج حینئذ نوراً حسیا معجزة له صلى اللّٰه علیه وسلم.20
  حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نور کی طرح صاف شفاف چیز چمکتی ہوئی دیکھی جاتی جو حضور کے نورانی دانتوں کے درمیان سے نکلتی تھی۔ یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ "کالنور"میں کاف زائدہ ہواورتفخیم کے لیے بڑھادیا گیا ہو۔ اس تقریرپر نور حسی تھا جو حضور کے دندان مبارک کے درمیان سے بطور ظہور معجزہ چمکتا تھا۔

اسی طرح اس حوالہ سےامام طبرانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قرصافہ فرماتے ہیں کہ جب میں اورمیری والدہ اور میری خالہ حضور نبی کریم کی بیعت کرکے واپس آئے تو میری والدہ اور میری خالہ نے کہا:

  ما راینا مثل ھذا الرجل احسن منه وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.21
  ہم نے اس شخص کی مثل خوبصورت چہرے والا، پاکیزہ لباس والا، نرم اور میٹھے کلام والا کوئی نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کے وقت ان کے منہ سے نور نکلتا ہے۔

اسی طرح سیّدناکعب بن مالک فرماتے ہیں :

  وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا سر استنار وجھه حتى كانه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه.22
  جب حبیب مکرم خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور چمک اٹھتا گویا کہ آپ کا چہرہ انور چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم لوگ دیکھ کر پہچان جاتے تھے۔

ا ن مذکورہ روایات میں رسو ل اکرم کا تذکرہ صحابہ کرام نے اس انداز سے کیا ہے کہ علامہ بیجوری کے اصول کے تحت عین ممکن ہے کہ ان روایات میں نورِ حسّی مراد لیاجائے۔اسی حوالہ سے ایک روایت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر روایت کرتے ہیں:

  عن عائشة قالت:كنت قاعدة اغزل وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخصف نعله، قالت: فنظرت الیه فجعل جبینه یعرق وجعل عرقه یتولد نورا، قالت: فبھت قالت: فنظر الى فقال: ما لک یا عائشة؟ قالت فقلت: یا رسول اللّٰه! نظرت الیك فجعل جبینك یعرق وجعل عرقك یتولد نورا ولو راك ابو كبیر الھذلى لعلم انك احق بشعره. قال: وما یقول
ابوكبیر؟ فقلت: یقول:
ومبرأ من كل غبر حيضة
وفساد مرضعة وداء مغيل
وإذا نظرت إلى أسرة وجهه
برقت كبرق العارض المتهل.23

  اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں: میں چرخا کات رہی تھی اور حضور نبی کریم میرے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے۔ آپ کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے تھے جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ اس حسین منظر نے مجھ کو چرخا کاتنے سے روک دیا۔پس میں آپ ﷺکو دیکھ رہی تھی کہ آپ نے فرمایا: کیا ہواعائشہ؟ میں نے عرض کیا: آپ کی پیشانی مبارک پہ پسینے کے قطرے ہیں جو نور کے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) آپ کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کرلیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ ہی ہیں: حضور نےفرمایا:وہ کیا شعر کہتاہے؟میں نےکہا:وہ کہتا ہے: وہ ہرناپاک خون اور موذی دودھ پلانےوالی دایہ سے محفوظ ہے۔جب میں اس کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں تو اس کی پیشانی کی لکیریں ایسےچمکتی ہیں جیسےآسمان پربجلی کی لکیریں چمکتی ہیں۔

مزید ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ ہی بیان کرتی ہیں :

  كنت اخیط فى السحر فسقطت منى الابرة فطلبتھا فلم اقدر علیھا فدخل رسول اللّٰه افتبینت الابرة بشعاع نوروجھه فاخبرته فقال: یا حمیراء! الویل ثم الویل ثلاثا لمن حرم النظر الى وجھى.24
  میں سحری کے وقت (کپڑا)سی رہی تھی مجھ سے سوئی گرگئی تومیں نے اس کو ڈھونڈا لیکن وہ مجھے نہیں ملی۔رسول اﷲ تشریف لے آئےتو آپ کے چہرہ کے نور کی شعاع سے وہ سوئی مل گئی۔ میں نے رسول اﷲ کو یہ بتایا توآپ نے فرمایا :اے حمیرا! افسوس ہو پھر تین بار فرمایا: اس شخص کے لیے افسوس ہو جو میرا چہرہ دیکھنے سے محروم رہا۔

سیّدناابوہریرہ آپ کے مسکرانے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  اذا ضحك كادیتلالا فى الجدار لم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.25
  جب آپ مسکراتے تو آپ کے نورِ مسکراہٹ کی شعاعیں دیواروں پر پڑنےکوہوجاتیں۔ میں نے آپ کی مثل حسین آپ سے قبل اور آپ کے بعد نہیں دیکھا۔

حضرت عبداﷲ بن عمر آپ کی خوشی کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یعرف رضاء ہ وغضبه بوجھه كان اذا رضى فكانما ملاحك الجدر وجھه واذا غضب خسف لونه واسود.قال ابوبكر سمعت ابا الحكم اللیثى یقول ھى المرآة توضع فى الشمس فیرى ضوءھا على الجدار یعنى قوله ملاحك الجدر ویروى یلاحك الجدر وجھه والملاحكة یرید یرى الجدر فى وجھه.26
  نبی کریم کی رضا (خوشی) اور غصہ آپ کے چہرۂ انور سے جانا جاسکتا تھا۔ جب آپ راضی ہوتے تو گویا دیواروں کا عکس آپ کے چہرۂ انور میں دکھائی دیتا اور جب آپ غصے ہوتے تو آپ کا رنگ مبارک گہناجاتا۔ ابوبکر کہتے ہیں: میں نے ابو الحکم لیثی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ"ملاحک الجدر" سے مراد یہ ہے کہ ایک آئینہ دھوپ میں رکھا جائے تو اس کی روشنی دیوار پر دکھائی دیتی ہے اور اسے "یلاحک الجدر وجھہ" بھی روایت کیا گیا ہے اور "ملاحکۃ" سے مراد یہ ہے کہ آپ کے چہرے میں دیواریں دکھائی دیتی تھیں۔

جب آپ کے تبسم مبارک کا یہ عالم ہے کہ اس میں گویا دیواروں کا عکس نظر آتا ہے اور گمشدہ سوئیں تک مل جاتی ہے27 تو اندازہ لگائیے کہ آپ کی نورانیت کا عالم کس درجہ عظیم ورفیع ہوگا۔اسی حوالہ سے ابن سبع نے روایت کیا ہے:

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یضىء الیت المظلم من نوره.28
  تاریک گھر حضور کے نور سے روشن ہوجاتا تھا۔

ان احادیث میں ایسے الفاظ موجود ہیں جو حضور کے حسین نور انیت کو وضاحت کے ساتھ متعین کررہے ہیں۔چنانچہ احادیث مذکورہ سے درجِ ذیل امور معلوم ہورہے ہیں:

(1) دندان ہائے مبارک کے درمیان سے نور نکلتا ہوا دیکھا جاتا۔(2) بینی اقدس کے نور کا بینی مبارک پر غالب ہونا اور معلوم ہونا۔(3) پیشانی کے خطوط کی چمک کا مشاہدہ۔(4) نور اقدس سے دیواروں کا روشن ہوجانا ایسے امور ہیں جو حضور کی اس چمک اور نور کے حسین اور جسمانی ہونے کو وضاحت کے ساتھ متعین کررہے ہیں۔اسی طرح اس حوالہ سے حضرت ذکوان فرماتے ہیں:

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لم یكن یراله ظل فى شمس ولا قمر.29
  حضور کا سایہ دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاند میں۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئےامام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:

  قال ابن سبع: من خصائصه ان ظله كان لایقع على الارض وانه كان نورا فكان اذا مشى فى الشمس او القمر لاینظر له ظل .قال بعضھم: ویشھد له حدیث قوله صلى اللّٰه علیه وسلم فى دعائه واجعلنى نورا.30
  امام ابن سبع نے حضور کی خصوصیات کے بیان میں کہا : آپ کا سایہ دھوپ اور چاند دونوں میں اس وجہ سے نہ ہوتا کہ آپ سرتا پا نور تھے۔بعض علماء نے کہا :اس کی شاہد یہ حدیث ہے جس میں حضور کی اس دعا کا ذکر ہے ‘‘یعنی اے رب مجھ کو سراپا نور بنادے۔

سیّدناعبداﷲ ابن مبارک اور حافظ علامہ ابن جوزی حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کرتے ہیں:

  قال: لم یكن لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ظل، ولم یقم مع شمس قط الا غلب ضوءه ضوء الشمس، ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوءہ على ضوء السراج.31
  فرمایا: نبی کا سایہ نہ تھا اور جب بھی آپ آفتاب کے سامنے کھڑے ہوتے آپ کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا۔ اور آپ چراغ کے سامنے کھڑے ہوتےتو آپ کا نور چراغ کے نور کو مدھم کر دیتا۔

اسی طرح کی ایک اور روایت امام عبدالرزاق نقل کرتے ہیں:

  ابن عباس قال لم یكن لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ظل ولم یقم مع شمس قط الاغلب وضوء ہ الشمس ولم یقم مع سراج قط الاغلب ضوء ہ ضوء السراج.32
  حضرت ابن عباس نے بیان فرمایا : نبی کا سایہ نہ تھا اور جب بھی آپ آفتاب کے سامنے کھڑے ہوتے آپ کا نور آفتاب کے نور پر غالب آجاتا۔ اور آپ چراغ کے سامنے کھڑے ہوتےتو آپ کا نور چراغ کے نور کو مدھم کر دیتا۔

ان متذکرہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا سایہ نہ سورج کی روشنی میں تھا اور نہ ہی چاند یا دیگر روشنیوں میں۔جو اس بات پر واضح دلالت کرتا ہے کہ نبی اکرم کا جسدِ اقدس بے انتہاء لطیف تھا۔

آپ کےبےسایہ ہونے پر ائمہ کے اقوال

رسول اکرم کے جسدِ اقدس کے لطیف ہونے کی وجہ سے بے سایہ ہونے پر کئی ایک علماء امت متفق ہیں۔چناچہ امام المحدثین امام قاضی عیاضفرماتے ہیں:

  وما ذكر من انه كان لاظل لشخصه فى شمس و لاقمر لانه كان نورا وان الذباب كان لایقع على جسده ولا ثیابه.33
  آپ کے دلائل نبوت ورسالت میں سے یہ بات بھی مذکور ہوئی ہے کہ آپ کے جسم اقدس کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ سراپا نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اطہر اور لباس مبارک پر نہ بیٹھتی تھی۔

امام شہاب الدین خفاجی محدث ابن سبع کے قول "لاظل لشخصہ فی شمس ولا قمر لانہ کان نورا" کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  (لا ظل لشخصه) أى لجسده الشریف اللطیف إذا كان( فى شمس ولا قمر) مما ترى فیه الظلال لحجب الأجسام ضوء النیرین ونحوھما، وعلل ذلك ابن سبع بقوله (لأنه) صلى اللّٰه علیه وسلم ( كان نوراً) والأنوار شفافة لطیفة لا تحجب غیرھا من الأنوار، فلا ظل لھا كما ھومشاھد فى الأنوار الحقیقیة...وقد نطق اللقرآن بأنه النور المبین وكونه بشراً لا ینافیه كما توھم، فإن فھمت فھو نورعلى نور، فإن النور ھو بنفسه المظھر لغیره.34
  آپ کے مقدس اور لطیف جسم کا سایہ دھوپ اور چاندنی میں نہیں ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ سایہ اس وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ اجسام کثیفہ چاند سورج کی روشنی کے لیے حاجب ورکاوٹ ہوتے ہیں (جبکہ آپ کا جسم اطہر کثیف نہیں بلکہ لطیف ہے)۔ امام ابن سبع نے عدم سایہ پر آپ کے سراپا نور ہونے کو دلیل بنایا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ انوار لطیف اور شفاف ہونے کی وجہ سے دوسرے کے لیے رکاوٹ وحاجب نہیں ہوتے۔ اس لیے انوار کا سایہ نہیں ہوتا جس طرح کہ انوار حقیقت میں مشاہدہ کیا جاتا ہے۔۔۔ قرآن مجید آپ کے نور مبین ہونے پر ناطق ہے اور آپ کا بشر ہونا آپ کے نور ہونے کے ہرگز منافی نہیں۔آپ ایسے نور ہیں جو دوسروں پر غالب ہے کیونکہ نور کہتے ہی اسے ہیں جو خود ظاہر ہو اور غیر کو ظاہر کرنے والا ہو۔

اسی طرح امام راغب اصفہانی اس حوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

  وروى ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى لم یكن له ظل.35
  مروی ہے کہ جب حضور چلتے تو حضور کا سایہ نہ ہوتا۔

علامہ حسین محمد دیار بکری نے اس بات کو تحریر کیا ہے۔36 اسی طرح امام قسطلانی فرماتے ہیں:

  لم یكن له صلى اللّٰه علیه وسلم ظل فى شمس ولا قمر.37
  سورج اورچاندکی روشنی میں آپ کا سایہ قطعاً نہیں تھا۔

امام سلیمان جمل نے بھی اسی طرح تحریر کیا ہے۔ 38 اسی حوالہ سےعلامہ محمد طاہر پٹنی لکھتے ہیں:

  من اسمائه صلى اللّٰه علیه وسلم النور قیل من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم: اذا مشى فى الارض فى الشمس والقمر لایظھر له ظل.39
  آپ کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک "نور" بھی ہے (اسی لیے) آپ کے خصائص میں سے بیان کیا گیا ہے کہ دھوپ اور چاندنی میں آپ کا سایہ نہ ہوتا تھا۔

امام حلبی آپ کے نور ہونے کی تصریح بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

  وانه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا مشى فى الشمس او فى القمر لایكون له ظل لانه كان نورا.40
  بے شک حضور جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور کا سایہ نہ ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔

اس کی مزید تشریح و توضیح کرتے ہوئےامام ابن حجر مکی فرماتے ہیں:

  ومما یؤید انه صلى اللّٰه علیه وسلم صار نورا انه كان اذا مشى فى الشمس والقمر لایظھر له ظل لانه لایظھر الا للكثیف وھو صلى اللّٰه علیه وسلم قد خلصه للّٰه من سائر الكثافات الجسمانیة وصیره نورا صرفا لایظھر له ظل اصلا.41
  اور جو چیز اس بات کی تائید کرتی ہے کہ حضور نور خالص ہوگئے یہ ہے کہ حضور جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور کا سایہ ظاہر نہ ہوتا تھا کیونکہ سایہ صرف جسم کثیف کا ظاہر ہوتا ہے، اور حضور کو اﷲ تعالیٰ نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کرکے ایسا نور محض بنالیا تھا جس کا سایہ اصلا ً ظاہر نہ ہوتا تھا۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں:

  وسایه ایشاں بر زمین نمى افتاد.42
  حضور کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا۔

اسی حوالہ سے مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں:

  وبكشف صریح معلوم گشته است كه خلقت آں سرور علیه و على آله الصلوٰة والتسلیمات ناشى ازیں امكان است كه بصفات اضافیه تعلق دارد، نه امكانیكه درسائر ممكنات عالم كائن است، ھر چند بدقت نظر صحیفه ممكنات عالم رامطالعه نموده مى آید، وجود آں سرور آنجا مشھود نمى گردد، بلكه منشاء خلقت وامكان او علیه و على آله الصلوٰةوالسلام درعالم ممكنات نباشد بلكه فوق ایں عالم باشد ناچار اور اسایه نبود، ونیز درعالم شھادت سایه ھر شخص لطیف ترست وچوں لطیف ترازوى درعالم نباشد اور اسایه چه صورت دارد، علیه و على آله الصلوٰة والتسلیمات.43
  اور کشف صریح سے معلوم ہوا کہ آپکی خلقت اس امکان سے ناشی ہے جو صفات اضافیہ سے تعلق رکھتا ہے، نہ اس امکان سے جو تمام عالم ممکنات میں ہے۔جس قدر بھی دقت نظر سے صحیفہ ممکنات عالم کا مطالعہ کیا جائے توآں سرور کا وجود مبارک وہاں (امکان ممکنات سے متصف ہوکر) ظاہر نہیں ہوتا(حتیٰ کہ) حضور کی خلقت وامکان کا منشا عالم ممکنات میں بالکل نہیں پایا جاتا بلکہ منشا خلقت محمدی اس عالم امکان سے بالاتر ہے لہٰذا ناچار حضور کا سایہ نہ تھا۔نیز عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے لطیف تر ہوتا ہے۔ جب حضور سے لطیف ترعالم میں کوئی چیز ہو نہیں سکتی تو حضور کا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے۔

ایک اور مقام پر حضرت مجدد الف ثانی اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئےفرماتے ہیں:

  ممكن چه بود كه ظل واجب باشد واجب را تعالى چرا ظل بود موھم تولید مثل است ومبنى برشائبه عدم كمال لطافت اصل ھرگاہ محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمد راچگونه ظل باشد.44
  کیسے ممکن ہے کہ واجب کا سایہ ہو؟واجب تعالیٰ کے لیے تو سایہ کا ہونا ممکن ہی نہیں کہ اس سے تولید مثل کا وہم پیداہوتا ہے اور عدم ِلطافتِ اصل کا مظہر ہے۔ جب کمالِ لطافت کی وجہ سے محمد رسول اﷲ کا سایہ نہ تھا تو خدائے محمد کا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے؟

یعنی کہ جب اللہ تبارک وتعالی واجب الوجود ہے اور اس کا سایہ نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پیدا ہوتا کہ جب سایہ ہے تو مثل بھی ممکن ہے اسی لیے واجب الوجود کا سایہ نہیں ہے۔اسی طرح حضور اکرم کی اصل بھی نور الہیہ کی تجلی ہے تبھی آپ کا بھی سایہ نہیں ہے۔

عدم سایہ تواتر سے ثابت ہے

بعض علماء نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ آپ کا جسم اطہر کا سایہ نہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔رشید احمد گنگوہی "امداد السلوک" میں اس مسئلہ پر یوں رقمطراز ہیں:

  وازیں جا است كه حق تعالى در شان حبیب خود صلى اللّٰه علیه وسلم فرمود كه البته نز وشما از طرف حق تعالى نور وكتاب مبین ومراد از نور ذاتِ پاك حبیب خداصلى اللّٰه علیه وسلم ھست ونیز او تعالى فرماید كه اے نبى صلى اللّٰه علیه وسلم ترا شاھد ومبشر ونذیر وداعى الى اللّٰه وسراج منیر فرستاده ایم ومنیر روشن كنند ونور دهنده راگویند پس اگر كسے را روشن كردن از انساناں محال یودے آں ذات پاك صلى اللّٰه علیه وسلم راھم ایں امر میسر نیامدے كه آں ذات پاك صلى اللّٰه علیه وسلم ھم از جمله اولاد آدم اند مگر آنحضرت صلى اللّٰه علیه وسلم ذات خود را چناں مطھر فرمود كه نور خالص گشتند و حق تعالى آنجناب سلامه‘ علیه را نور فرمود وبتواتر ثابت شدكه آنحضرت عالى سایه نداشتند وظاھراست كه بجز نور همه اجسام ظل مى دارند.45
  اور اسی جگہ سے یہ بات ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے حبیب کی شان میں فرمایا کہ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور آیا اور کتاب مبین آئی اور نور سے مراد حبیب خدا کی ذات پاک ہے، نیز اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ہم نے آپ کو شاہد ومبشر اور نذیر اور داعی الی اﷲ تعالیٰ اور سراج منیر بناکر بھیجا ہے اور "منیر" روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں، پس اگر انسانوں میں سے کسی کو روشن کرنا محال ہوتا تو آنحضرت کی ذات پاک کے لیے یہ امر میسر نہ ہوتا، کیونکہ حضور کی ذات پاک بھی جملہ اولاد آدم سے ہے، مگر آنحضرت نے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمالیا کہ نور خالص ہوگئے اور حق تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نور فرمایا اور تواتر سے ثابت ہے کہ آنحضرت سایہ نہیں رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام کا سایہ ہوتا ہے۔

غلبہ نور کی وجہ سے بشریت بھی بے سایہ تھی

آپ کی ذاتِ اقدس سراپا نور تھی اس لیے سایہ نہ ہونا کوئی عجیب بات نہ تھی کیونکہ نور کا سایہ واقعتا نہیں ہوتا۔ مگر جب آپ اس عالم شہادت و دنیا میں انسانیت کی بھلائی کے لیے لباسِ بشریت میں تشریف لائے تو اس لباس کے باوجود اﷲ پاک نے آپ کا سایہ پیدا نہ فرمایا۔ اس کی واضح وجہ تو یہ ہے کہ آپ کی مبارک بشریت بھی نور سے مغلوب تھی اس لیے قرآن مجید نے آپ کی دونوں شانیں بیان فرمائیں ہیں۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مبارک ہے:

  وَلَلْاٰخِرَة خَیرٌ لَّك مِنَ الْاُوْلٰى4 46
  اور بیشک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلے سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے درجات میں جو بلندی عطاء فرمائے گا ان میں سے ایک یہ ہے :

  اول تاآنكه بشریت ترا اصلا وجود نماند وغلبه نور حق پر تو على سبیل الدوام حاصل شود.47
  آپ میں بشریت کا وجود بالکل نہ رہے گا اور نور حق کا غلبہ دائمی طور پر حاصل ہوجائے گا۔

رسولِ اکرم کے عدمِ سایہ کی حکمت

نبی اکرم کا جسداقدس و اطہر چونکہ انتہائی لطیف تھا جس کا مشاہدہ صحابہ کرام اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی کیاکرتے تھے۔ جب منافقین حضرت ام المومنین عائشۃالصدیقۃ پر معاذ اللہ افتراء پردازی کرہے تھے تو اگرچہ حضور اپنی رفیقہ حیات کی معصومیت کے بارے میں باخبر تھے جس کا ذکر آپ نے اپنے جاں نثار صحابہ کے سامنے ان الفاظ میں فرما بھی دیا تھا:

  واللّٰه ما علمت على اھلى الا خیرا.48
  خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ میری اہلیہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے۔

حقیقت حال سے باخبر ہونے کے باوجود آپ نے اس مسئلہ میں مصلحتاً سکوت اختیار فرمایا اور بایں خیال کچھ کہنا گوارا نہ کیا کہ یہ بدبخت میری کہی ہوئی بات کب مانیں گے؟ چنانچہ آپ حضرت عائشہ صدیقہ کی برأت کے بارے میں وحی الٰہی کے منتظر رہے اور پھراس کی براءت کا اعلان خود رب کائنات نے قرآنِ مجید کی کئی آیات مبارکہ نازل فرماکر کیا۔ 49آپ نے بعض صحابہ کرام سے اس معاملہ پر فرداً فرداً رائے طلب کی تو انہوں نے اپنی اپنی محبت کا اظہار بڑے ہی احسن پیرائے میں کیا۔

سیّدنافاروق اعظم نے عرض کی یا رسول اﷲ ! میں اس بات پر یقین کامل رکھتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور منافقین کی شرارت ہے ۔50 حضرت علی نے بھی اسی مفھوم کے مثل کلام کیا۔51 اسی طرح ایک روایت میں منقول ہےکہ اس موقع پر حضرت ذوالنورین عثمان ابن عفان نے بارگاہ عالیہ میں یوں عرض کیا:

  قال عثمان: ان للّٰه ما اوقع ظلك على الارض لئلا یضع انسان قدمه على ذالك الظل فلما لم یكن احداً من وضع القدم على ظلك كیف یمکن احدا من تلوكث عرض زوجتک.52
  جناب عثمان نے عرض کیا : یارسول اﷲ رب نے آپ کا سایہ زمین پر نہ ڈالا تاکہ کوئی شخص اس سایہ پر قدم نہ رکھ سکے تو جب رب تعالیٰ نے کسی کوآپ کے سایہ پر قدم رکھنے کا موقع نہ دیا تو کسی کو یہ قدرت کیسے دے گا کہ آپ کی پاک زوجہ کی عصمت پر داغ لگائے۔

عظیم محدث امام رزین حضور اکرم کے جسد اطہر کا سایہ نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

  لغلبة انواره.53
  آپ کے انوار کےغلبہ کی وجہ (سے آپ کے جسم اطہر کا سایہ نہیں تھا) ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنے ذوق کے مطابق توجیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ کا مبارک سایہ ہوتا تو ممکن تھا کہ زمین کے کسی ناپاک حصے پر واقع ہوجاتا اور اﷲ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  نمى افتد حضرت را سایه بر زمین كه محل نجاست است.54
  نبی کریم کا سایہ اقدس اس لیے نہیں پڑتا تھا کہ زمین محل نجاست ہے۔

اسی طرح امام زرقانی سایہ نہ ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  وحكمة ذلك صیانته عن ان یطاء كافر على ظله.55
  یہ آپ کی تکریم کی وجہ سے تھا کہ کہیں آپ کے سایہ پر کسی کافر کا قدم نہ آجائے۔

امام ترمذی نے بھی حضرت ذکوان سے مروی حدیث کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا کہ سایہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے:

  لئلا یطاعلیه كافر فیكون مذلة له.56
  تاکہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر قدم نہ رکھ سکے ورنہ یہ آپ کی تکریم کے خلاف ہوتا۔

یعنی آپ کے سایہ نہ ہونے کی وجہ فی الحقیقت آپ کا عظیم الشان مرتبہ ہے جو اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو عطا فرمایا تھا۔اس کے علاوہ متذکرہ بالا تمام روایات سے درجِ ذیل فوائد معلوم و ثابت ہوئے۔

  1. آیت کریمہ قَدْ جَاۗءَكمْ مِّنَ اللّٰه نُوْرٌ وَّكتٰبٌ مُّبِین 57میں نور سے حضور کی ذات پاک مراد ہے۔
  2. حضور سراج منیر ہیں اور منیر روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں۔
  3. بشری جسم سے عنصری اور مادی کثافتوں کا دور ہوجانا محال نہیں بلکہ واقع ہے۔
  4. حضور ﷺ نے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمایا کہ حضور نور خالص ہوگئے اور اﷲ تعالیٰ نے حضور کو نور فرمایا۔
  5. بشریت اور نورانیت کا جمع ہونا ممکن ہے۔
  6. حضور کے جسم پاک کا سایہ نہ تھا۔
  7. حضور کے جسم اطہر کا سایہ نہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔
  8. نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں۔

حضور اکرم کے نور ہونے پر شرعی و نقلی دلائل پیش کیے گئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی مشاہدات و تجربات اور روئے زمین پر پھیلی ہوئی مختلف النوع مخلوقات کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف مچھلیوں میں نو سے زائد اقسام وہ ہیں جن کے جسم باقاعدہ روشنی دیتے ہیں، درختوں میں کئی درخت ایسے ہیں جن میں سے روشنی نکلتی ہے، اسی طرح پرندوں میں کئی پرندے ایسے ہیں جن کے جسم سے باقاعدہ رات کے وقت خارج ہونے والی روشنی کو ہر بینا شخص دیکھ سکتا ہے اور اجرام فلکی کی رات و دن نکلنے والی روشیوں (Lights) سے اگر ہم مستفید نہ ہوں تو شاید، انسانوں کے لیے زمین پر زندہ رہنا ہی محال (Impossible) ہوجائے۔ چاند، سورج، تارے اور دوسرے سیارات کی روشنی (Light) پر کبھی کوئی شخص معترض نہیں ہوسکتا ورنہ خود اس شخص کی ذہنی حیثیت بھی مشکوک ہوسکتی ہے۔

مذکورہ بالا تمام مخلوقات اپنی خِلْقَتْ میں مادی ہونے کے باوجود نورانیت کے (Aspect) سے غالب ہیں اور یہ غلبہ اتنا زیادہ ہے کہ ہر کس و ناکس ان مخلوقات کے مادی وجود کے بجائے نورانی وصف سے پہچانتا ہے۔ سورج ، چاند اور ستارے اگر اپنی شناخت رکھتے ہیں تو وہ روشنی ہے۔

ذاتِ رسالت مآب معنوی و حسی ہر دوجہتوں سے نورٌمن نور اللہ تعالیٰ تھے۔ اور یہ آپ کا وصف بالکل اسی طرح عام انسانوں سے منفرد تھا جس طرح آپ اپنے دوسرے اوصاف حمیدہ میں عام انسانوں سے باالکل جداگانہ تھے۔ اگر آپ سے ہزاروں معجزات کا صدور آپ کے نبوت کے لیے دلیل ہونے کی حیثیت سے بغیر کسی تردد کے قبول کرنا مسلمان ضروری سمجھتا ہے تو آخر آپ کی نورانیت کے امتیاز کا وصف کو قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ اور آپ کے اوصاف جسمانی کی طہارت و نظافت اور پھر اس کی لطافت اگر تمام انسانوں سے جدا ہے تو پھر آخر اس کے نورانی ہونے میں ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کے لیے عقل و فکر کے میدان میں قلمِ سپ نازی پر سوار ہونے کے باوجود حیران و سرگرداں رہا جائے؟۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ المائدہ5: 15
  • 2 علی بن احمد الواحدی،الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، ج-1 ، مطبوعۃ: الدار الشامیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:313
  • 3 عبدالرحمن بن محمد مخلوف ثعلبی،الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن، ج-1، مطبوعۃ: موسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 453
  • 4 حسین بن مسعود بغوی، تفسیر بغوی، ج-2، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:22
  • 5 ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی، زادالمسیر، ج -2، مطبوعۃ: مکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:316
  • 6 القرآن، الاحزاب33: 46-45
  • 7 القرآن، سورۃ الفرقان61:25
  • 8 محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3419، ج -5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:357
  • 9 ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج- 5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان 1996ء، ص:525
  • 10 ایضاً
  • 11 ابو البرکات عبداﷲ بن احمد نسفی، تفسیر مدارک، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکلم الطیب، بیروت، لبنان 1998ء، ص:492
  • 12 سیّد احمد سعید کاظمی، مقالات کاظمی، ج -4،مطبوعہ: کاظمی پبلی کیشنز ،ملتان، پاکستان، 2012ء،ص :68-69
  • 13 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 414، ج-22، مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، ص:155-156
  • 14 ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:23
  • 15 محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 9، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988 ، ص: 14
  • 16 ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:30
  • 17 ایضًا
  • 18 محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث :14، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع بیروت، لبنان، 1988، ص:16
  • 19 قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج -1،مطبوعۃ: عبد التوا ب اکیڈمی، ملتان، پاکستان، ص:39
  • 20 ابراہیم بن محمد بیجوری،المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:34
  • 21 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :2518، ج -3، مطبوعۃ: مکتبۃابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1984ء، ص:18
  • 22 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3556، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص:744
  • 23 ابوالفداءاسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1997ء، ص:401
  • 24 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 107
  • 25 عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث: 20490، ج-11، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص:259
  • 26 حسین بن مسعود بغوی، الانوار فی شمائل النبی المختارﷺ، حدیث: 298، ج -1، مطبوعۃ: دار المکتبی، دمشق، 1995ء، ص:245-246
  • 27 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 107
  • 28 محمد مہدی الفاسی، مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر، 1289ھ، ص:345
  • 29 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:116
  • 30 ایضًا
  • 31 ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، الوفاء باحوال المصطفی ﷺ، ج -2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 47
  • 32 عبدالرزاق بن ہمام صنعانی، الجزء المفقود من المصنف لعبدالرزاق، مطبوعۃ: مکتبۃ نو، لاہور، پاکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:56
  • 33 قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار القیحاء عمان،1407 ھ، ص:731-732
  • 34 شہاب الدین احمد خفاجی مصری، نسیم الریاض، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ، ص:335
  • 35 ابو القاسم حسین بن محمد راغب الاصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص:536
  • 36 حسین بن محمد الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:219
  • 37 احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ ،ج -2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 85
  • 38 سلیمان جمل، فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ، مطبوعۃ: دار ابن رجب، مصر،1303 ھ، ص:5
  • 39 محمدطاہر پٹنی، مجمع بحار الانوار، ج-3، مطبوعۃ: نول کشور، لکھنؤ، انڈیا، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:402
  • 40 علی بن ابراہیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 423
  • 41 احمد ابن حجر المکی، المنح المکیہ فی شرح الھمزیۃ، مطبوعۃ: دار المنہاج، جدۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا) ص:87
  • 42 شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اﷲ، تفسیر فتح العزیز،مطبوعہ: مجتبائی، دہلی، انڈیا، (سن اشاعت ندارد)، ص:219
  • 43 شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی، ج-3 ،مطبوعہ: نول کشور، لکھنؤ، ہند، ص:187
  • 44 ایضًا
  • 45 رشید احمد گنگوہی، امداد السلوک، مطبوعہ: بلالی دخانی پریس، ساڈھورہ ،ہند، ص :85-86
  • 46 القرآن، سورۃ الضحٰی4:93
  • 47 شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اﷲ، تفسیر فتح العزیز،مطبوعہ: مجتبائی، دہلی،انڈیا، ص:217
  • 48 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث : 2637، ج -3، مطبوعۃ: دمشق، السوریۃ، 1422ھ، ص:167-168
  • 49 القرآن، سورۃ النور11:24-26
  • 50 ابو البرکات عبداﷲ بن احمد نسفی، تفسیر مدارک، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکلم الطیب، بیروت، لبنان ، 1998ء، ص:492
  • 51 ایضاً
  • 52 ایضاً
  • 53 ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج-7 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص: 199
  • 54 الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ،ج -1،مطبوعہ: نؤل کشور ، ہند، ص:146
  • 55 ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب، ج -7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:199
  • 56 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ،1993ء، ص:90
  • 57 القرآن، سورۃالمائدۃ5: 15