Encyclopedia of Muhammad

خصائص ِجسمِ پاک

قرآن حکیم اور احادیث صحیحہ کا مطالعہ کرنے والے شخص کو ایسی بہت ساری نصوص ملیں گی، جن کے ذریعہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم کی قدر ومنزلت اور عظمت ورفعت کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے آپ کو کتنی نعمتیں بخشی ہیں اورکس طرح آپ کو ساری مخلوق سے افضل و برتر بنایا ہے ۔ایسی خصوصیات سے سرفراز فرمایا ہے، جو دوسرے انبیاء ومرسلینکو حاصل نہیں تھیں۔ اس نے آپ کے ساتھ لطف ومہربانی کا معاملہ فرمایا اور شفقت ومحبت اور عزت وکرامت سے نوازا۔ آپ کی مدح وستائش کی۔ آپ کے ہاتھوں اپنے بہت سے انعام واکرام کا اظہار فرمایا اور آپ کے محاسن کو صورۃً وسیرۃً کامل ومکمل کیا۔

کئی مقامات پر اﷲ ربُّ العزّت نے اپنی رحمت، کرم اور فضل کے عموم و شمول کو بیان فرمایا بالخصوص مومنین کاملین پر اپنی لازوال بخشش، فضلِ عظیم اور غیر فانی عطا کا ذکر فرمایا :

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  فَاِنْ كذَّبُوْك فَقُلْ رَّبُّكمْ ذُوْ رَحْمَة وَّاسِعَة 147 1
  پھر اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو فرما دیجئے کہ تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  وَرَحْمَتِى وَسِعَتْ كلَّ شَىءٍ 1562
  اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  رَبَّنَا وَسِعْتَ كلَّ شَىءٍ رَّحْمَة 73
  اے ہمارے رب! تو (اپنی) رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے ۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  ھذَا عَطَاۗؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِك بِغَیرِ حِسَابٍ39 4
  (ارشاد ہوا:) یہ ہماری عطا ہے (خواہ دوسروں پر) احسان کرو یا (اپنے تک) روکے رکھو (دونوں حالتوں میں) کوئی حساب نہیں۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  اِنَّ اللّٰه یرْزُقُ مَنْ یشَاۗءُ بِغَیرِ حِسَابٍ 37 5
  بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ بِاَنَّ لَھمْ مِّنَ اللّٰه فَضْلًا كبِیرًا 47 6
  اور اہلِ ایمان کو اس بات کی بشارت دے دیں کہ ان کے لیےاللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس خاتم الانبیاء کی نسبتِ غلامی میں ہیں)۔

اسی طرح جل جلالہ کی وسعتِ عطا کے تصور کے لیےیہ حدیث بھی ہے، جس میں رب تعالیٰ کے آخری جنتی کو جہنم سے سزاپاکر جنت میں پہنچانے اور اسکو اس زمین سے دس گنا زیادہ حصہ جنت میں عطا فرمانے کا ذکر ہے اور وہ سارا حصہ حور و غلمان، محلات، باغات اور نعمتوں سے بھرا ہوا ہوگا- جس میں اس کو کلی اختیار ہوگا اور اس کو ہمیشہ کے لیےاس کا مالک بنادیا جائے گا۔ چنانچہ حدیث میں ہے:

  فیقول ھذا لك وعشرة امثاله.7
  اﷲ تعالیٰ( اس آخری اور ادنیٰ درجہ کے جنتی کو) فرمائے گا: یہ تیرےلیےہے اوراس جیسےدس اور تیرے لیےہیں۔

حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں:

  قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ان ادنى اھل الجنة منزلة لمن ینظر الى جنانه وازواجه و نعیمه وخدمه وسرره مسیرة الف سنة.8
  بے شک ادنی جنتی کی منزلت یہ ہوگی کہ وہ اپنی جنتوں، بیویوں، نعمتوں، خادموں اور تختوں کی طرف ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھ رہا ہوگا۔

غور فرمائیں کہ ایک ادنی درجے کا جنتی جو جہنم سے اپنی سزابھگت کر جنت میں پہنچا۔جو یقینا ً گناہ گار ہوگا اور کچھ بعید نہیں کہ وہ سابقہ اُمتوں میں سے ہو۔ اس پر رب عزوجل کی عطا و بخشش کا یہ عالم ہے کہ اس کو جنت میں دس گنا زمینوں جتنی جگہ عطا کی جائے گی ،اس کو اس زمین کا مالک بناکر اختیار دیا جائے گا اور یقینا ً اس کی جنت کے دائرہ کار کے مطابق اس کی رویت وبصارت اور سماعت کو بھی وسیع کردیا جائے گا ۔تو اگر ایک ادنیٰ درجے کے جنتی پر رب عزوجل کی عطا کا یہ عالم ہے ،تو پھر کامل جنتی، متقی اور خدا عزوجل کے ولی کے لیےکیا کچھ نہیں ہوگا۔ اس کی جنت، اس کے اختیارات وتصرفات اور اس کی رویت وبصارت کی وسعت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے اور پھر انبیاء بالخصوص سیّد الانبیاء والمرسلین حضور نبی کریم پر اﷲ رب العزت کے فضل وکرم، وسعتِ عطا اور ان کے تصرفات واختیارات اور ان کی وسعتِ بصارت وسماعت کا تو ادراک ہی ناممکن ہے۔جس محبوب کو اﷲ رب العزت نے عالم بیداری میں اپنے حسن و جمال اور انوار و تجلیات کا مشاہدہ کروایا۔ جن کو اپنی ذات وصفات کا مظہرِ کامل اور برھانِ اتم بنایا جو اس کائنات میں خدا عزوجل کی ذات تک رسائی کے وسیلہ عظمیٰ اور برزخ کبریٰ ہیں۔ جن کے سرِ انور پر رحمۃ اللعالمین اور خاتم النبیین کا تاج سجا اور جن کے بارے میں اﷲ رب العزت نے اعلان فرمایا:

  وَكانَ فَضْلُ اللّٰه عَلَیك عَظِیمًا 113 9
  (اے حبیب !) آپ پر اﷲ (جل مجدہ) کا فضل عظیم ہے۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  اِنَّ فَضْلَه كانَ عَلَیك كبِیرًا87 10
  بیشک (یہ) آپ پر (اور آپ کے وسیلہ سے آپ کی امّت پر)اس کا بہت بڑا فضل ہے۔

اﷲ رب العزت جس فضل کو صفتِ کبیر اور عظیم کے ساتھ موصوف فرمائے اس کی وسعت، جامعیت اور معنویت کا احاطہ وادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔

قاضی عیاض فرماتے ہیں:

  لا خفاء من مارس شیئا من العلم او خص بادنى لمحة من فھم بتعظیم للّٰه تعالىٰ قدر نبینا علیه الصلوة والسلام وخصوصه ایاه بفضائل ومحاسن ومناقب لا تنضبط لزمام وتنویھه من عظیم قدر بما تكل عنه الالسنة والاقلام.11
  یہ بات اس شخص پر بالکل مخفی نہیں جس کو ذرہ بھر علم سے لگاؤ ہے یا فہم کے ادنیٰ لمحہ سے مخصوص ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم کے مرتبہ اور شرف کو معظم کیا اور اﷲ تعالیٰ نے نبی مکرم کو اتنے فضائل ومحاسن اور مناقب سے مخصوص کیا کہ ضبط کی جدو جہد کرنے والا حصر نہیں کرسکتا اور اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم کے قدر عظیم کو اتنا بلند فرمایا کہ اس کے بیان کرنے سے زبانیں اور اقلام عاجز ہیں۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ سیّد دو عالم اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں ۔مگر آپ کو جو بشری خصوصیات حاصل ہیں وہ اور کسی کو حاصل نہ تھیں :

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  لَقَدْ جَاۗءَكمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكمْ 128 12
  بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔

ایک قراء ت کے مطابق أَنفُسِکُمْ کی( ف) پر پیش کی بجائے زبر ہے :

چنانچہ شیخ شہاب الدین الدمیاطی لکھتے ہیں:

ابن محیصن کی قرأت میں أَنفُسِکُمْ (فا) کی فتحه(زبر) کے ساتھ ہے اور نفاسةسے مأخوذ ہے۔13

مفسرین نے لکھا ہے کہ ابن عباس، ابو العالیہ، ضحاک، ابن محیصن، محبوب، ابوعمرو، زہری، عبداﷲ بن قسیط مکی اور بعض طرق سے یعقوب نے بھی نفاسةسے مشتق (مأخوذ) قرار دیتے ہوئے فا کی زبر سے پڑھا ہے، یعنی أَنفَسِکُمْ اور یہ رسول اللّٰه سیّدہ فاطمہ اور سیّدہ عائشہ صدیقہ کی قراءت ہے۔14

اس قراء ت کی رو سے نبی اکرم کا اَنفَس (سب سے بڑھ کر نفیس اور افضل) ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ، یہ بہت عمدہ تاویل ہے اور کیونکہ امام الانبیاء ساری کائنات سے انفس، افضل ، اعلیٰ اور اکمل ہیں۔متعدّد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات نے مخلوق کو طبقات، قبائل اور خاندانوں میں تقسیم کیا تو حضور کو اعلیٰ قبیلے اور اعلیٰ خاندان میں رکھا۔

حضرت مطلب بن ابی وداعہ بیان کرتے ہیں :

  جاء العباس الى رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فكانه سمع شیئا فقام النبى صلى اللّٰه علیه وسلم المنبر فقال: من انا؟ فقالوا: انت رسول للّٰه علیك السلام قال: انا محمد بن عبداللّٰه بن عبدالمطلب ان للّٰه خلق الخلق فجعلنى فى خیرھم فرقة ثم جعلھم فرقتین فجعلنى فى خیرھم فرقة ثم جعلھم قبائل فجعلنى فى خیرھم قبیلة ثم جعلھم بیوتا فجعلنى فى خیرھم بیتا وخیرھم نسبا.15
  حضرت عباس ایک مرتبہ حضور نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ایسا لگ رہا تھا گویا کہ آپ نے (اس وقت کافروں سے) کوئی ناگوار بات سنی تھی (اور آپ اس وقت جلال کی حالت میں تھے پس واقعہ پر مطلع ہوکر) حضور نبی اکرم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا :میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا آپ پر سلامتی ہو آپ رسول خدا ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: میں (رسول خدا تو ہوں ہی اس کے علاوہ نسباً میں) محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہوں۔ جب خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کردیا (یعنی عرب و عجم) تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں رکھا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں پیدا کیا پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے (ان میں سے) بہترین گھرانہ میں پیدا کیا اور ان میں سے بہترین نسب والا بنایا (اس لیےمیں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔

حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں :

  رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انا النبى لاكذب انا ابن عبدالمطلب انا اعرب العرب ولدتنى قریش ونشات فن بنى سعد بن بكر فانى یاتینى اللحن.16
  حضور نبی اکرم نے فرمایا :میں ہی (سچا) نبی ہوں ،یہ جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب جیسے سردار کا لخت ِجگر ہوں ،میں عربوں میں سے بہترین عربی ہوں۔ مجھے قریش نے جنم دیا اور میں نے بنو سعد بن بکر میں پرورش پائی۔ پس میری زبان میں غلطی کیسے آسکتی ہے؟۔

حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں: کہ میں نے رسول اﷲ کو فرماتے ہوئے سنا:

  ان للّٰه اصطفى كنانة من ولد اسماعیل واصطفى قریشا من كنانة واصطفى من قریش بنى ھاشم واصطفانى من بنى ھاشم.17
  بے شک اﷲنے حضر ت اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ سے قریش کو منتخب کیا اور قریش سے بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ھاشم سے مجھے منتخب فرمایا۔

امام قرطبی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

اصطفی"صفوۃ"سے ہے اور "صفوۃ الشیء" کا معنی ہے "کسی چیز کو بہت سی چیزوں میں سے منتخب کرنا"، مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جس چیز کو چاہتا ہے، منتخب کرلیتا ہے اور اُس چیز کو اُس کی ہم جنس اشیاء میں صفاتِ کمال سے نواز کر مخصوص کرلیتا ہے اور اُسے اُس نوع کی اصل کی حیثیت دے دیتا ہے، اور اپنے علم ازلی کی رو سے اُسے مکرم بنادیتا ہے۔ وہ اپنے حکم کو نافذ کرنے میں خود مختار ہے۔اس پر کوئی جبر واکراہ نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا:

  وَرَبُّك يَخْلُقُ مَا یشَاۗءُ وَیخْتَارُ 6818
  اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور (جسے چاہتا ہے نبوت اور حقِ شفاعت سے نوازنے کے لئے) منتخب فرمالیتا ہے۔

اور بے شک اﷲ تعالیٰ نے جنسِ حیوانی سے نوع انسانی کو اختیار کیا، جیسا کہ فرمایا:

  وَلَقَدْ كرَّمْنَا بَنِى اٰدَمَ وَحَمَلْنٰھمْ فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰھمْ مِّنَ الطَّیبٰتِ وَفَضَّلْنٰھمْ عَلٰى كثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا70 19
  اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔

اور آدمی کے مکرم ہونے کے لیے تمہیں اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے پورے عالم کو انسان کے لیے پیدا کیا اور صراحتاً ارشاد فرمایا:

  فَضْلًا مِّنْ رَّبِّك ۭ ذٰلِك ھوَالْفَوْزُ الْعَظِیمُ 5720
  یہ آپ کے رب کا فضل ہے (یعنی آپ کا رب آپ کے وسیلے سے ہی عطا کرے گا)، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

پھر اﷲ تعالیٰ نے نوع انسانی سے ان ہستیوں کو اختیار کیا جو معدنِ (منبعِ) نبوت اور محل رسالت تھیں۔ ان میں سے اول آدم ہیں۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم سے ایک معزز نطفہ منتخب فرمایا، پھر وہ معزز نطفہ مسلسل مقدس پشتوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتا رہا، اُسی سے انبیاء اور رسل پیدا ہوئے۔ ( ) جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

  اِنَّ اللّٰه اصْطَفٰٓى اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰھیمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِینَ33 ذُرِّيَّة بَعْضُھا مِنْۢ بَعْضٍ ۭ وَاللّٰه سَمِیعٌ عَلِیمٌ3421
  بیشک اﷲ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا، یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

مزید ارشاد فرمایا:

  اِنَّآ اَوْحَینَآ اِلَیك كـمَآ اَوْحَینَآ اِلٰى نُوْحٍ وَّالنَّـبِینَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَوْحَینَآ اِلٰٓى اِبْرٰھیمَ وَاِسْمٰعِیلَ وَاِسْحٰقَ وَیعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَعِیسٰى وَاَیوْبَ وَیوْنُسَ وَھرُوْنَ وَسُلَیمٰنَ وَاٰتَینَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا16322
  (اے حبیب!) بیشک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیھم السلام) کی طرف (بھی) وحی فرمائی، اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو (بھی) زبور عطا کی تھی۔

پھر اﷲ تعالیٰ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو منتخب کیا۔ جیسا کہ حضور نے اسی حدیث میں ذکر فرمایا پس اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عظمتوں کی انگوٹھی کا نگینہ، رفعتوں کی تسبیح کا امام اور کامیابیوں کے چمکتے دن کا آفتاب بنایا۔23

نیز اس حقیقت کو نہایت جامع الفاظ میں یوں بھی بیان فرمایا گیا:

  بعثت من خیر قرون بنى آدم قرنا فقرنا حتى كنت من القرن الذى كنت منه.24
  طبق در طبق مجھے اولادِ آدم کے بہترین طبقوں میں مبعوث کیا جاتا رہا حتیٰ کہ میں اس طبقہ سے ظہور پذیر ہوا جس سے میں ہوں۔

ان احادیث میں جس خیر کا ذکر ہے وہ خیر تمام خوبیوں کو شامل ہے۔ حسن وجمال، فضائل وکمال، شمائل وخصائص، رفعت و عظمت اور لطافت ونفاست کوئی خوبی ایسی نہیں جو لفظ خیر کے معنوی احاطہ سے باہرہو۔اﷲ عزوجل نے جملہ خوبیاں اپنے حبیب کی شخصیت میں اس شان سے جمع فرمادیں کہ کسی کا جسم رحمتِ دو عالم کے جسم پاک جیسا نہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو مختلف قسموں کے معجزات عطا کیے لیکن نبی کو سراپا معجزہ بناکر بھیجا چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

  یاَیھا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكمْ بُرْھانٌ مِّنْ رَّبِّكمْ17425
  اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہ کی) سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے۔

ہر زمانے میں جس فن وکمال کا عروج وشہرہ ہوتا تھا اﷲ رب العزت اس وقت کے نبی کو اسی صنف کا کمال ومعجزہ عطا فرماتا۔ وہ نبی اس معجزہ کے ساتھ ان لوگوں کو تحدی وچیلنج کرتا جو اس وقت اس فن وکمال میں ید طولیٰ ومہارت کاملہ رکھتے۔ اور جب نبی کا معجزہ وکمال ان کے فن اور کمال پر غالب آجاتا اور وہ نبی کے سامنے عاجزوبے بس ہوجاتے تو یہ بات نبی کی نبوت وصداقت پر بین دلیل وواضح برھان قرار پاتی اور اہل عقل ادنیٰ تامل سے اس حقیقت کا ادراک کرلیتے کہ جب یہ سب مل کر بھی اس فرد واحد کے کمال کا مقابلہ نہیں کرسکے تو لامحالہ اس کمال کی تائید میں غیبی قوت کار فرما ہے اور یہ اﷲ عزوجل کی طرف سے سچا رسول ونبی ہے چنانچہ حضرت موسیٰ کے زمانہ اقدس میں سحر یعنی جادو کا فن نقطہ کمال پر تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک ماہر جادو گر موجود تھا۔ اﷲ رب العزت نے حضرت موسیٰ کو اسی صنف کا کمال عطا فرمایا جس کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات پر ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  فَاَلْقٰى عَصَاه فَاِذَا ھى ثُعْبَانٌ مُّبِینٌ107 26
  پس موسٰی (علیہ السلام) نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گیا۔

اور جب حضرت موسیٰ دربار فرعون میں دعوتِ توحید لے کر گئے تو اس نے حضرت موسیٰ کی دعوت کو نہ صرف یہ کہہ کر مسترد کردیا بلکہ آپ کو زیر نگین کرنے کے لیےملک کے طول وعرض سے تقریبا ستر ہزار (70000) ماہر جاد و گر طلب کئے۔ مقررہ وقت پر حضرت موسیٰ کا ان ستر ہزار ماہر جادو گروں سے مقابلہ ہوا۔ انہوں نے اپنی رسیاں ڈنڈے پھینکے اور اپنے جادو کا اظہار کیا ۔حضرت موسیٰ نے باذن اﷲ اپنے معجزہ کا اظہار فرمایا اور آپ نے اپنا عصا مبارک پھینکا جو ایک بہت بڑے اژدھے کی صورت میں تبدیل ہوا اور اس نے ان تمام رسیوں اور لکڑیوں کو نگل لیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر وہ جادو گر جو فرعون کی تائید، کفر کے غلبہ کے لیےاور حق کے استیصال کے لیےآئے تھے، انگشت بدنداں رہ گئے۔ اور قسمت میں چونکہ ایمان تھا لہٰذا ادنیٰ تامل سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ جس کا مقابلہ ہم ستر ہزار ماہر جادو گر بھی مل کر نہ کرسکے یقینا وہ اﷲ رب العزت کے سچے رسول وپیغمبر ہیں ،وہ سب کے سب حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئے۔اسی طرح حضرت عیسیٰ کے زمانہ اقدس میں فن طب نقطہ کمال پر تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک ماہر اطباء موجود تھے لہٰذا اﷲ رب العزت نے حضرت عیسیٰ کو اس صنف کا معجزہ عطا فرمایا اور ایسا کہ تمام اطباء اس فن کے اظہار سے عاجز ہوگئے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

  وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّینِ كھیئَة الطَّیرِ بِـاِذْنِى فَتَنْفُخُ فِیھا فَتَكوْنُ طَیرًۢا بِـاِذْنِى وَتُبْرِى الْاَكمَه وَالْاَبْرَصَ بِـاِذْنِى وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِى110 27
  اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی، اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں (یعنی برص زدہ مریضوں) کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے، اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو (زندہ کر کے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے ۔

حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں علم طب اور علم طبیعات کا بہت زور تھا اور یونان کے اطباء و حکما کی طب و حکمت کا خوب چرچا تھا ۔حضرت عیسٰی کے ان معجزات میں سے جن کا مظاہرہ آپ نے قوم کے سامنے کیا قرآن کریم نے چار معجزات کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے:

  1. پیدائشی نابینا کو بینا اور جذامی کو تندرست کردینا۔
  2. اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مردہ کو زندہ کردینا۔
  3. مٹی سے پرندہ بناکر اس میں پھونک دینا اور اﷲ کے حکم سے اس میں روح کا پڑجانا۔
  4. علم غیب یعنی یہ بتادینا کہ کس نے کیا کھایا اور کیا خرچ کیا اور کیا گھر میں ذخیرہ محفوظ رکھا۔

امام ابوبکر احمد بن بیہقی لکھتے ہیں:

  وأقدر عیسى ابن مریم علیه أفضل الصلاة والسلام على الكلام فى المھد، فكان یتكلم فیه كلام الحكماء، وكان یحیى له الموتى، ویبرى ٔبدعائه أو بیده إذا مسح الأكمه، والأبرص، وجعل له أن یجعل من الطین كھیئة الطیر، فینفخ فیه فیكون طیرا بإذن اللّٰه، ثم إنه رفعه من بین الیھود، لما أرادوا قتله وصلبه، فعصمه اللّٰه تعالى بذلك من أن یخلص ألم القتل، والصلب إلى بدنه، وكان الطب عاما غالبا فى زمانه، فأظھر اللّٰه تعالى بما أجراه على یده، وعجز الحذاق من الأطباء عما ھو أقل من ذلك بدرجات كثیرة، أن التعویل على الطبائع، وإمكان ما خرج عنھا باطل وإن للعالم خالقا، ومدبرا، ودل بإظھار ذلك له وبدعائه على صدقه. وباللّٰه التوفیق.28
  حضرت عیسیٰ کو جھولے میں کلام کرنے پر قادر بنادیا تھا کہ و ہ جھولے میں حکماء اور داناؤں کی طرح کلام کرتے تھے۔اﷲ تعالیٰ ان کے لیےمردوں کو زندہ کرتا تھا۔اور ان کی دعاء سے اور ان کے ہاتھ کے ساتھ جب وہ ہاتھ لگاتے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اﷲ تعالیٰ ٹھیک کردیتا تھا۔اور انہیں یہ قدرت دی تھی کہ وہ مٹی کا پرندہ بناکر اس میں پھونک مارتے اور وہ اﷲ کے حکم کے ساتھ پرندہ بن جاتا۔پھر اﷲ تعالیٰ نے انہیں یہودیوں کے درمیان سے اس وقت اوپر اٹھالیا جب وہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے اور صلیب پر ٹکانا چاہتے تھے ۔اﷲ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھاکر ان کے جسم کو قتل اور پھانسی کی اذیت و تکلیف سے نجات دے دی ۔اس دور میں طب عام تھی اور اپنے عروج پر تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے جو معجزات ان کے ہاتھ پر جاری کئے ،ان کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ حاذق طیب اور حکماء ان نشانیوں اور معجزات سے کئی گنا کم درجات کے کارناموں سے بھی عاجز تھے اور اس زمانہ میں طبائع کی کیفیت ایسی تھی کہ ان کے آگے چیخ چیخ کریہ بتانا بلکہ اس کا امکان ظاہر کرنا کہ وہ تمام عالم کا خالق ہے اور کوئی مدبر ہے سب کچھ بے کار تھا۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے مذکورہ معجزات اور نشانیوں کے اظہار سے اس پر دلیل قائم کردی اور ان کی دعوت کے ساتھ ان کے صدق پر حجت قائم کردی۔

محدث کبیر امام ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں:

  وكان یخبر الناس بما یاكلون وما یدخرون كما قال للّٰه تعالىٰ: ویحیى الموتى ویخلق الطیر. فقیل: ھو الخفاش. قیل: كان لایعیش الا یوما واحدا.
وقال وھب: كان یطیر بحیث یغیب عن الاعین فیقع میتا لیتمیز خلق للّٰه من فعل غیره.
وقال الثعلبى: انما خص الخفاش لانه یجتمع فیه الطیر والدابة فله ثدى واسنان ویحیض ویلد ویطیر.
واتفق ان عصر عیسى كان فیه اعیان الاطباء فكان من معجزاته الاتیان بما لا قدرة لھم علیه وھو ابراء الاكمه والابرص.29
  آپ لوگوں کو ان کی کھائی ہوئی اور ذخیرہ کی ہوئی چیزیں بتادیتے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :مردوں کو زندہ کرتے،پرندے کی صورت بناتے۔ بقولِ بعض وہ چمگادڑ تھی۔ بقولِ بعض وہ ایک دن زندہ رہتی تھی۔ وہب فرماتے ہیں: چمگادڑ کو اس لیے مخصوص کیا کیونکہ وہ ایک حیثیت سے پرندہ اور ایک حیثیت سے چوپایہ ہے اس کے تھن اور دانت ہوتے ہیں اور اسے ماہواری آتی ہے اور یہ بچے جنتی ہے اور ساتھ ہوا میں اڑتی بھی ہے۔اتفاق سے حضرت عیسیٰ کا دور نامور اطباء کا زمانہ تھا اور آپ کے معجزات ایسے افعال پر مشتمل تھے ،جن میں اطباء کو دستگاہ حاصل نہ تھی۔ آپ مادر زاد اندھے کو بینا اور برص والے کو ہاتھ پھیر کر شفادیتے۔

اس طرح کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن ان مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ نبی کا کمال اور معجزہ امت کے جملہ فنون وکمالات پر حاوی اور غالب ہوتا ہے اور اسی معنی میں نبی کے کمال کو معجزہ (یعنی عاجز کردینے والا کام) کہتے ہیں۔ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ سرکار دو عالم خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد قیامت تک کوئی دوسرا نیا نبی نہیں آسکتا ہے، اس لیے کہ آپ قیامت تک بنی نوع انسان بلکہ جملہ مخلوقات وموجودات کے نبی اور رسول ہیں۔ اﷲ رب العزت نے آپ کی نبوت و رسالت کو وہ ہمہ گیریت اور کلیت عطا فرمائی ہے کہ موجودات ومخلوقات کا کوئی فرد اس سے خارج نہیں۔ اور یہ مضمون قرآن و حدیث کی متعدد نصوص میں موجود ہے۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  مَا كانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكمْ وَلٰكنْ رَّسُوْلَ اللّٰه وَخَاتَمَ النَّـبِینَا40 30
  محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں۔

حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا:

  انا خاتم النبیین لانبى بعدى.31
  میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  یاَیھا النَّاسُ اِنِّى رَسُوْلُ اللّٰه اِلَیكمْ جَمِیعَۨا15832
  آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔

اور حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم نے فرمایا:

  ارسلت الى الخلق كافة.33
  مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے۔

سو قیامت تک آپ کی امت میں علوم وفنون کا ارتقاء ہو یا کمال میں نقطہ عروج۔ امت خواہ امت اجابت ہو یا دعوت۔ نبی کریم اپنے جملہ معجزات و کمالات اور علوم ومعارف کے اعتبار سے ہمیشہ کے لیےسب پر حاوی وغالب ہیں۔ چنانچہ سائنس نے ترقی کی اور حضرت انسان کو چاند تک پہنچادیا لیکن نبی نے چودہ سو سال پہلے جب کہ سائنسی ترقی کانام ونشان تک نہ تھا، کائنات سماوی کی سیر فرمائی ۔ اس لیے کہ اﷲ رب العزت نے آپ کو برھان مطلق، سراپا معجزہ وکمال قرار دیا ہے ۔ پہلے انبیاء کی نبوت ورسالت کا دائرہ کار چونکہ محدود تھا لہٰذا ان کو معجزات بھی محدود معدود عطا فرمائے۔ لیکن نبی کا زمانہ نبوت جہات وسماعت کے تعین سے ناآشنا ہے لہٰذا اﷲ رب العزت نے اپنے حبیب کریم کو گنے چنے، محدود ومعدود معجزات عطا نہیں فرمائے بلکہ سراپا معجزہ وکمال اور برھان مطلق بنادیا۔

لہٰذا جب حبیبِ خدا سراپا معجزہ ہیں تو شاہِ کونین کا ہر ہر عضو مبارک معجزہ ہے۔ بال مبارک، زبان مبارک، آنکھ مبارک، کان مبارک، دہن مبارک، چہرہ مبارک، ہاتھ مبارک، پاؤں مبارک، ناک مبارک غرض کہ تمام جسمِ اطہر سراپہ معجزہ ہی ہے بلکہ ایک ایک عضو مبارک کی اتنی برکتیں اتنے اعجاز ہیں کہ شمار نہیں ہوسکتے۔

اسی حوالہ سے مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:

  برہان کے معنی ہیں دلیل جس سے دعوے کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں دلیل سے مراد معجزات ہیں جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں کو ملے وہ سب کے سب حضور کو عطا ہوئے، اس کے علاوہ اور بے شمار معجزے ملے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ حضور از سرتا قدم پاک خود اﷲ کی وحدانیت اور ذات وصفات کی دلیل ہیں، لہٰذا برہان سے مراد حضورکی ذات پاک ہے اور پیغمبروں کی ذات معجزہ نہ تھی بلکہ کسی کے صرف ہاتھ میں معجزہ اور کسی کی سانس میں معجزہ، کسی کی لاٹھی میں معجزہ، جیسے کہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ ۔ مگر حضور کا بال شریف ایسا معجزہ کہ حضرت خالد بن ولید کی ٹوپی میں رہا تو ان کو ہمیشہ دشمنوں پر فتح ہوتی رہی۔ ہر قل کی پگڑی میں رہا تو اس کے سر کے درد کو آرام رہا۔ سیّدنا عمرو ابن عاص نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے کفن میں حضور کے بال شریف رکھ دئیے جاویں تاکہ قبر کی مشکل آسان ہو، امیر معاویہ نے وصیت فرمائی کہ مجھے غسل دے کر میری آنکھوں اور لبوں پر حضور کے ناخن اور بال شریف رکھ دئیے جاویں تاکہ حساب قبر میں آسانی ہو۔معلوم ہوا کہ بال مبارک قبر کی مشکل آسان کرتا ہے صحابہ کرام بیماروں کو بال شریف کا غسل شدہ پانی پلایا کرتے تھے۔ حضرت طلحہ کے گھر ایک بار بال پہنچ گیا تو انہوں نے تمام رات ملائکہ کی تسبیح و تہلیل سنی۔آنکھ شریف کا معجزہ یہ ہےکہ قیامت تک کے واقعات کو دیکھا،جنت و دوزخ، عرش وکرسی کو ملاحظہ فرمایا، بلکہ خود رب کو دیکھا، نماز کسوف میں دوزخ اور جنت کو مسجد کی دیوار میں دیکھا پیچھے مقتدی جو کچھ کریں اس کو ملاحظہ فرمایا، ناک مبارک کا معجزہ جس نے محبت کی خوشبو یمن سے آتی ہوئی سونگھی زبان معجزہ جن کی ہر بات خدا کی وحی اور وہ زبان جو کہ کن کی کنجی ہے منہ کا لعاب معجزہ کہ حضرت جابر کے گھر ہانڈی میں ڈال دیا، تو ہانڈی کی ترکاری میں برکت ہوئی۔ آٹے میں ڈال دیا تو چار سیر آٹا ہزاروں آدمیوں نے کھایا۔ پھر بھی اتناہی رہا، موسیٰ نے پتھر میں عصا شریف مارکر پانی کے چشمے نکالے،لیکن حضور نے حضرت جابر کی ہانڈی میں لعاب شریف ڈال کر شوربے اور بوٹیوں کے چشمے جاری فرمادئیے۔ خیال رہے کہ شوربے میں نمک مرچ گھی دھنیا وغیرہ سارا ہی مصالحہ ہوتا ہے، لہٰذا یہ معجزہ نہایت ہی اعلیٰ ہے کہ یہاں ان تمام چیزوں کے چشمے بہادیے، خیبر میں حضرت علی کی دکھتی ہوئی آنکھ میں لگادیا تو آنکھ کو آرام ہوگیا، حضرت صدیق اکبر کے پاؤں میں غار میں سانپ نے کاٹا یعنی یار غار کو مار غار نے تکلیف پہنچائی ، اس پر لگادیا اس کو آرام، کھاری کنوئیں میں ڈال دیا تو اس کا پانی میٹھا ہوگیا۔ حدیبیہ کے خشک کوئیں میں ڈال دیا جائے تو پانی پیدا کردے ۔ آٹے میں پڑے تو آٹے میں برکت دے ۔ حضرت عبداﷲ ابن عتیک کے ٹوٹے ہوئے پاؤں میں پہنچ کر ہڈی جوڑدے۔ حضرت علی کی دکھتی ہوئی آنکھ سے لگے تو کحل الجواہر کا کام دے۔ آج لاکھ روپیہ کی دوا بھی اس قدر اثر نہیں رکھتی جتنا آپ کے لعاب مبارک میں اثر تھا ۔

ہاتھ مبارک بھی دلیل کہ بدر کے دن ایک مٹھی کنکر کفار کو مارے تو رب نے فرمایا کہ آپ نے نہ پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے۔ اسی ہاتھ میں آکر کنکروں نے کلمہ شریف پڑھا۔ اس ہاتھ سے بیعت لی گئی تو رب نے فرمایا کہ ان کے ہاتھوں پر ہمارا ہاتھ ہے۔ انگلیاں معجزہ کہ ایک پیالہ پانی میں انگلیاں رکھ دیں، اس سے پانچ چشمے پانی کے جاری ہوگئے، انگلی ہی کے اشارے سے چاند چیر دیا۔پاؤں مبارک بھی معجزہ کہ پتھر پر چلیں تو پتھر ان کا اثر لے لے اور فرش پر بھی چلیں اور عرش پر بھی غرضکہ ان کےہر ہر عضو مبارک اور ہر ہر بال مبارک رب کے پہچاننے کی دلیل ہے۔ آپ آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔

پسینہ مبارک کا معجزہ یہ ہے کہ جس میں گلاب،مشک و عنبر سے بہتر خوشبو موجود تھی۔جاگنا اور سونا معجزہ کہ ایک کی نیند وضو توڑدے مگر حضور کی نیند وضو نہیں توڑتی، تمام جسم مبارک سائے سے محفوظ کہ سایہ بھی کسی کے قدم کے نیچے نہ آنے پائے۔

تمام کے پیشاب وپائخانہ نجس ہیں، مگر حضور کے فضلاتِ مبارکہ پاک ہیں امت کے حق میں غرض یہ ہے کہ حضور کا ہر وصف معجزہ، ہر حالت رب تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے اس لیےفرمایا گیا برھان۔ 34

جاننا چاہیے کہ جیسے اﷲ تعالیٰ نے نبی کو بے شمار خصوصی صفات بخشی ہیں ویسے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بشری خصوصیت بھی عطا کی ہے ۔عام انسانوں کے ظاہری اعضاء کو حضور کے اعضاء مبارکہ سے کوئی نسبت نہیں۔

نبی کریم نور مجسم کا جسد مبارک ساری مخلوق میں سے بے مثل ہے ساری خدائی میں سے کسی کا جسم رحمتِ دو عالم کے جسم پاک جیسا نہیں، بلکہ سارے ولیوں، قطبوں، غوثوں کی روحانیت سے سیّد العٰلمین کا جسمِ پاک لطیف تر ہے ۔اﷲ رب العزت نے اپنے حبیب کو صورت وسیرت، حسن وجمال، فضل وکمال ہر اعتبار سے بے مثل وبے مثال بنایا ہے ۔

یہ ایک یقینی اور مشہور بات ہے کہ انسان جب صفاتِ جمال وکمال میں منفرد ہوتا ہے تو اس کی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ میں رفعت و بلندی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ لائق تعظیم واحترام ہوجاتا ہے ایسی صورت میں وہ ذاتِ مقدسہ کتنی جلیل القدر اور عظیم المرتبت ہوگی جو ایسے کمالات و امتیازات سے متصف ہے کہ ان انبیاء ومرسلین کے اندر بھی نہیں جو ساری مخلوقات میں بہتر، سارے انسانوں کے سردار اور ان سے اکمل وافضل ہیں، بلاشبہ یہ چیز نبی اکرم کی عظمتِ قدر ومنزلت اور رفعت مقام کا واضح اعلامیہ ہے۔

انبیاء ورسل کی عظمتیں

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  اِنَّ اللّٰه اصْطَفٰٓى اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰھيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیینَ33 ذُرِّیةّ بَعْضُھا مِنْۢ بَعْضٍ ۭ وَاللّٰه سَمِیعٌ عَلِیمٌ3435
  بیشک اﷲ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا، یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے تمام عالمین پر انبیاء کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔امام رازی نے علامہ حلیمیکی کتاب المنہاج سے یہ نقل کیا ہے کہ انبیاء کی جسمانی قوتیں عام انسان کی جسمانی قوتوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں انہوں نے پہلے حواس خمسہ کا ذکر کیا ہے اس کا بیان حسب ذیل ہے:

بے شک انبیاء کے متعلق یہ امر لازمی اور ضروری ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے جسمانی اور روحانی قوتوں میں مختلف ہوں۔قوت جسمانیہ دو قسم کی ہیں مدرکہ اور محرکہ۔ مدرکہ پھر دو قسم ہیں حواس ظاہرہ اور حواس باطنہ حواس ظاہرہ پانچ ہیں۔

(1) قوت بصارت

ہمارے نبی کریم کی قوت باصرہ انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی تھی کیونکہ رسول اﷲ نے فرمایا :

  اقیموا صفوفكم وتراصوا فانى اراكم من وراء ظھرى.36
  اپنی صفوں کو قائم کرو اور مل کر کھڑے ہو کیونکہ میں تم کو پسِ پشت بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح سامنے سے دیکھتا ہوں۔

اسی طرح حضرت ابراہیم کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:

  وَكذٰلِك نُرِى اِبْرٰھیمَ مَلَكوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیكوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِینَ 7537
  اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیےکہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے۔

اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی نظراتنی قوی کردی کہ انہوں نے تحت الثریٰ سے لے کر عرش اعلیٰ تک تمام مخلوق کو دیکھ لیا۔

امام حلیمی نے فرمایا:

  وھذا غیر مستبعد لان البصراء یتفاوتون فروى ان زرقاء الیمامة كانت تبصر الشى من مسیرة ثلاثة ایام.فلا یبعد ان یكون بصر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اقوى من بصرھا.38
  قوت باصرہ کا اس غایت تک پہنچنا محل تعجب اور مقام استغراب نہیں ہے کیونکہ لوگ قوت ابصار میں متفاوت ہوتے ہیں مروی ومنقول ہے کہ زرقاء یمامہ تین دن کی مسافت سے اشیاء کو دیکھ لیا کرتی تھی۔

لہٰذا نبی خدا کی نگاہ اقدس اگر اس سے اقویٰ اور اس سے زیادہ دور تک دیکھ سکے تو اس میں استبعاد اور حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔

(2) قوت سماعت

ہمارے نبی سیّد نامحمد کی سماعت تمام انسانوں سے زیادہ قوی تھی کیونکہ رسول اﷲ نے فرمایا :

  اطت السماء وحق لھا ان تئط ما فیھا موضع قدم الاوفیه ملك ساجد ٌ للّٰه.39
  آسمان چرچراتا ہے اور اسے چرچرانے کا حق ہے۔ آسمان میں ہر قدم پر ایک فرشتہ اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہے۔

امام حلیمی نے فرمایا:

  ولاسبیل للفلاسفة الى استبعاد ھذا فانھم زعموا ان فیثا غورث راض نفسه حتى سمع خفیف الفلك ونظیر ھذه القوة لسلیمان علیه السلام فى قصة النمل.40
  فلاسفروں کے لیے اس میں استبعاد کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ خود اس امر کے قائل ہیں کہ فیثا غورث نے ریاضت ومجاہدہ سے اپنے آپ کو اس حد تک پہنچالیا تھا کہ زمین پر بیٹھ کر آسمان کی حرکت کی آواز سن لیتا تھا ۔اور اس قوت کی نظیر حضرت سلیمان میں بھی متحقق تھی جیسے کہ( چیونٹی کی آواز سن لینا اور اس پر تبسم فرمانا اور پھر ہنس پڑنا)قصۂ نمل(چیونٹی) سے ثابت ہے:
  حَتّٰٓى اِذَآ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ ۙ قَالَتْ نَمْــلَة یاَيُّھا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكنَكمْ ۚ لَا یحْطِمَنَّكمْ سُلَیمٰنُ وَجُنُوْدُه ۙ وَھمْ لَا یشْعُرُوْنَ1841
  یہاں تک کہ جب وہ (لشکر) چیونٹیوں کے میدان پر پہنچے تو ایک چیونٹی کہنے لگی: اے چیونٹیو! اپنی رہائش گاہوں میں داخل ہو جاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔

چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو اس چیونٹی کا کلام سنادیا اور اس کے معنی ومفہوم پر بھی مطلع کردیا اور یہ ارشاد ربانی حضرت سلیمان کی تقویت فہم کی بھی دلیل ہے اور اس قسم کی قوت فہم سیّد الرسل کو بھی حاصل تھی جب کہ آپ نے اونٹ اور بھیڑیے کے ساتھ کلام فرمایا اور ان کے مقصد ومفہوم کو سمجھ لیا۔

(3) قوت شامہ

جس طرح حضرت یعقوب کی سونگھنے کی قوت تھی کیونکہ جب حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا:

  اِذْھبُوْا بِقَمِیصِى ھذَا فَاَلْقُوْه عَلٰى وَجْه اَبِى یاْتِ بَصِیرًا ۚ وَاْتُوْنِى بِاَھلِكمْ اَجْمَعِینَ93 وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیرُ قَالَ اَبُوْھمْ اِنِّى لَاَجِدُ رِیحَ یوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ9442
  میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے، اور (پھر) اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ، اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا ان کے والد (یعقوب علیہ السلام) نے (کنعان میں بیٹھے ہی) فرما دیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کرو۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اِدھر قافلہ مصر سے روانہ ہوا اور ادھر حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کے کرتے سے ان کی خوشبو آگئی۔

(4) قوت ذائقہ

نبی کریم کو خیبر میں ایک یہودی عورت نے زہر آلود لقمہ کھلایا تو اس لقمہ نے آپ سے کہا کہ میرے اندر زہر ملا ہوا ہے۔اور اسی طرح بکری کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

  اجد لحم شاة اخذت بغیر اذن اھلھا.43
  یہ ایسی بکری کا گوشت معلوم ہوتا ہے جو مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کی گئی ہے۔

اور واقع میں بھی اس طرح تھا کہ گھر والا گھر پر نہیں تھا اور اس کی بیوی نے کہہ دیا لے جاؤ میں اسے راضی کرلوں گی یعنی حضور صرف چیزوں کے ذائقے کو محسوس ہی نہ کرتے تھے بلکہ ان میں پوشیدہ امراض و نقائص معنویہ پر بھی آگاہ ہوجایا کرتے تھے۔

(5) قوت لامسہ

جیسے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ گلزار ہوگئی ۔حضرت عیسیٰ برص کے مریضوں اور مادر زاد اندھوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفایاب ہوجاتے، ویسے ہی حضور نےاگر کھجور کے ستون سے ٹیک لگائی تو اس میں حیات آگئی جب آپ اسے چھوڑ کر منبر پر بیٹھے تو وہ آپ کے فراق میں اونٹنی کی طرح چیخنے لگا۔ جب آپ نے احد پہاڑ پر قدم رکھا تو اس میں زندگی کی رمق آگئی تو وہ ہلنے لگا آپ ﷺنے فرمایا اے احد! پر سکون ہوجا تو وہ ساکن ہوگیا۔44

حواس باطنہ

یہ تو حواس خمسہ ظاہرہ کا بیان ہے اور آپ کے حواس باطنہ کی غیر معمولی قوت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ان حواس باطنہ میں سے ایک قوت حافظہ ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  سَنُقْرِئُك فَلَا تَنْسٰٓى645
  (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے۔

قوت ذکاء

اور ان حواس میں سے ایک قوت ذکاوت ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ نے علم کے ایک ہزار باب سکھائے ہیں اور میں نے ہر باب سے ایک ہزار باب مستنبط کرلیےہیں۔جب ایک ولی کی قوت ذکاوت کا یہ عالم ہے تو نبی کی قوت ذکاوت کا کیا عالم ہوگا۔46

قوت محرکہ

نبی کا معراج پر جانا، حضرت عیسیٰ کا زندہ آسمان پر اٹھالیا جانا، حضرت ادریس اور حضرت الیاس کا آسمانوں پر اٹھایا جانا جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے حضرت سلیمان کے مصاحب نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت ان کے سامنے حاضر کردیا:

  قَالَ الَّذِى عِنْدَه عِلْمٌ مِّنَ الْكتٰبِ اَنَا اٰتِیك بِه قَبْلَ اَنْ یرْتَدَّ اِلَیك طَرْفُك4047
  (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے) ۔

(اور جب نبی کے صحابی اور ان کے ولی کی قوت محرکہ کا یہ حال ہے تو خود نبی کی قوت محرکہ کا کیا عالم ہوگا)جب انبیاء کی جسمانی قوتیں اس قدر کامل ہوتی ہیں تو ان کی روحانی اور عقلی قوتیں بھی منتہاء کمال پر ہوتی ہیں۔

نتیجہ بحث

مذکورہ بالا تمام تفصیلات کا لب لباب یہ ہے کہ انبیاء کا نفس قدسیہ تمام انسانوں کی نفوس سے اپنی ماہیت میں مختلف ہوتا ہے اور ان کے نفس کے کمال کے لوازم سے یہ ہے کہ وہ ذکاوت، ذہانت اور قوت عقلیہ میں عام انسانوں سے بہت بلند وبرتر ہوں اور جسمانیات اور شہوات سے تنزہ میں بھی عام لوگوں سے بہت فائق ہوں، اور جب ان کی روح انتہائی صاف اور مشرف ہو اور بدن بھی بہت منزہ اور پاکیزہ ہو تو ان کی قوت محرکہ اور قوت عاقلہ انتہائی کامل ہوں گی، کیوں کہ روح فاعل ہے اور بدن قابل ہے اور روح کے انوار بدن تک پہنچتے ہیں اور جب فاعل اور قابل دونوں کامل ہوں تو ان کے آثار بھی بہت قوی اور بہت مشرف ہوں گے اب اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عالم علوی کے ساکنین پر حضرت آدم کو فضیلت دی پھر قوت روحانیہ کے کمال کو ان کی اولاد میں سے حضرت شیث میں رکھا اور ان کی اولاد میں سے حضرت نوح میں پھر ان کی اولاد میں سے حضرت ابراہیم میں اس کمال کو رکھا پھر حضرت ابراہیم سے دو شاخیں ظاہر ہوئیں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق پھر اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیّدنا محمد رسول اﷲ کی روح قدسیہ کے ظہور کے لیےحضرت اسماعیل کو مبدء بنایا اور حضرت اسحاق کو دو شاخوں کا مبدء بنایا، حضرت یعقوب کی نسل میں نبوت رکھی اور عیسو کی نسل میں بادشاہت رکھی اور سیّدنا محمد رسول اﷲ کے ظہور تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور جب سیّدنا محمد رسول اﷲ کا ظہور ہوا تو نبوت کا نور اور بادشاہت ، دونوں حضرت سیّدنا محمد رسول اﷲ کی طرف منتقل کردئیے گئے اور قیامت تک کے لیےدین کی امامت اور ریاست کی فرمانروائی آپ کی امت کو سونپ دی گئی چنانچہ آپ کے بعد آنے والے خلفاء ریاست کے سربراہ بھی تھے اور دین کے امام بھی تھے۔48

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلى عَقِبَیه فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰه شَـیـــًٔـا ۭ وَسَیجْزِى اللّٰه الشّٰكرِینَ14449
  اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر (مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے) گزر چکے ہیں، پھر اگر وہ وفات فرما جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنے (پچھلے مذہب کی طرف) الٹے پاؤں پھر جاؤ گے (یعنی کیا ان کی وفات یا شہادت کو معاذ اللہ دینِ اسلام کے حق نہ ہونے پر یا ان کے سچے رسول نہ ہونے پر محمول کرو گے)، اور جو کوئی اپنے الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ اللہ کا ہرگز کچھ نہیں بگاڑے گا، اور اللہ عنقریب (مصائب پر ثابت قدم رہ کر) شکر کرنے والوں کو جزا عطا فرمائے گا۔

اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:

  مَا الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ ۭ وَاُمُّه صِدِّیقَة ۭ كانَا یاْكلٰنِ الطَّعَامَ 75 50
  مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں (یعنی خدا یا خدا کا بیٹا اور شریک نہیں ہیں)، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔

اور فرمایا:

  وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَك مِنَ الْمُرْسَلِینَ اِلَّآ اِنَّھمْ لَيَاْكلُوْنَ الطَّعَامَ وَیمْشُوْنَ فِى الْاَسْوَاقِ 2051
  اور ہم نے آپ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر (یہ کہ) وہ کھانا (بھی) یقیناً کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی (حسبِ ضرورت) چلتے پھرتے تھے۔

اور فرمایا:

  قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكمْ یوْحٰٓى اِلَى اَنَّمَآ اِلٰھكمْ اِلٰه وَّاحِدٌ ۚ فَمَنْ كانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّه فَلْیعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یشْرِك بِعِبَادَة رَبِّه اَحَدًا11052
  فرما دیجئے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے! ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اتر سکے) وہ یہ کہ تمہارا معبود، معبودِ یکتا ہی ہے پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔

پس محمد اور باقی انبیاء انسان ہیں وہ لوگ کی طرف بھیجے گئے تھے اور یہ بات نہ ہوتی تو لوگ ان سے مقابلہ ولڑائی کی طاقت نہ رکھتے نہ ان کی باتیں قبول کرتے نہ ان سے ملتے۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  وَلَوْ جَعَلْنٰه مَلَكًا لَّجَعَلْنٰه رَجُلًا 953
  اور اگر ہم رسول کو فرشتہ بناتے تو اسے بھی آدمی ہی (کی صورت) بناتے ۔

یعنی وہ انسان کی صورت میں ہوتا کہ جن سے تم کو ملنے کی طاقت ہوتی کیونکہ تم فرشتہ کے مقابلہ اور کلام کرنے اور دیکھنے کی طاقت نہ رکھتے جب کہ وہ اپنی اصلی شکل پر ہوتا۔

اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  قُلْ لَّوْ كانَ فِى الْاَرْضِ مَلٰۗیكة یمْشُوْنَ مُطْمَینِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیھمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا9554
  فرما دیجئے: اگر زمین میں (انسانوں کی بجائے) فرشتے چلتے پھرتے سکونت پذیر ہوتے تو یقیناً ہم (بھی) ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو رسول بنا کر اتارتے۔

یعنی اﷲ کی سنت میں فرشتہ کا رسول بنانا اسی کے لیےہے جو اسی کی جنس سے ہو یا وہ شخص جس کو اﷲ تعالیٰ خاص کرے اور پسند کرے او ر اس کے مقابلہ پر طاقت دے جیسے انبیاء اور رسول۔ پس انبیاء اور رسل اﷲ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں جو کہ ان کو اللہ کے احکام اور منہیات اور وعدہ ووعید پہنچاتے ہیں اور ان کو وہ باتیں بتلاتے ہیں جن کو وہ نہیں جانتے۔

اگر ان کے باطن ان کے ظاہر کی طرح خالص انسانی ہوتے تو بلاشبہ وہ ملائکہ سے (احکام) لینے کی طاقت نہ رکھتے نہ ان کو دیکھ سکتے نہ ان سے مل سکتے نہ دوستی پیدا کرتے جیسا کہ دوسرے لوگوں کو ان کی طاقت نہیں اور اگر ان کے جسم اور ظاہری حالات فرشتوں کی صفات پر ہوتے اور بشری صفات کے خلاف ہوتے تو بالضرور انسان اور جس کی طرف وہ گئے ہوتے ان کے ملنے کی طاقت نہ رکھتا۔ جیسا کہ قاضی عیاض نے لکھا ہے:

  فجعلوا من جھة الاجسام وظواھر مع البشر ومن جھة الارواح والبواطن مع الملائكة. 55
  پس وہ اجسام اور ظواہر کی وجہ سے انسان کے ساتھ ملتے ہیں اور ارواح اور باطن کی وجہ سے فرشتوں کے ساتھ ملتے ہیں۔

علامہ شہاب الدین خفاجی شفاء کی عبارت کے تحت فرماتے ہیں:

  فانھم خلقھم للّٰه تعالىٰ بابدان بشریة وارواح ملكیة فكانوا دون غیرھم مستعدین لمقاومة الملك ومخالطته ومخاطبته.56
  کہ انبیاء ورسل پر ملائکہ کا نزول اس لیے ہوتا ہے کہ ان کو اﷲ تعالیٰ نے اگرچہ ابدان بشریہ میں پیدا کیا ہے مگر ارواح وبواطن مَلکی بھی عطا فرمائے ہیں اس لیے وہ ملائکہ کو اصلی صورت میں دیکھتے اور ان کے ساتھ اختلاط ومیل جول اور دوستی وخلت کی طاقت رکھتے ہیں جب کہ دوسرے بشر اس صلاحیت واستعداد سے محروم و قاصر ہیں۔

امام قاضی عیاض اپنے دعویٰ پر پہلی دلیل اور تائید پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  كما قال صلى اللّٰه علیه وسلم: لوكنت متخذا من امتى خلیلا لاتخذت ابابكر خلیلا ولكن اخوة الاسلام لكن صاحبكم خلیل الرحمن.57
  اور جیسا کہ آپ نے فرمایا:اگر امت میں سے میں کسی کو دوست بناتا تو بے شک ابوبکر صدیق کو بناتا لیکن یہ اسلام کا بھائی چارہ ہے اور تمہارے صاحب(نبی) رحمن کے دوست ہیں۔

علامہ شہاب الدین خفاجی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

  وھذا دلیل انه لم یكن مع البشر بباطنه فھو لایعتمد غیر للّٰه ولایحتاج لاحد سواه... (الى) والحاصل ان بواطنھم وقواھم الروحانیة ملكیة ولذاترى مشارق الارض ومغاربھا وتسمع أطیط السماء وتشم رائحة جبریل اذا أراد النزول إلیھم كما شم یعقوب رائحة یوسف ولذا عرج به صلى اللّٰه علیه وسلم الى السماء.58
  یہ حدیث شریف اس امر کی دلیل ہے کہ آپ باطن کے لحاظ سے انسانوں کے ساتھ شریک نہیں تھے لہٰذا نہ آپ کو غیر پر اعتماد کی ضرورت نہ ماسوا کی طرف احتیاج ۔۔۔اور خلاصہ یہ ہے کہ ان کے بواطن اور قویٰ روحانیہ مَلکی ہیں اسی لیے مشارق ومغارب اور اطراف وجوانب کائنات کامشاہدہ کرتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھلنے کی آواز بھی سن لیتے ہیں اور جب جبرائیل سدرہ سے اترنے کا ارادہ کرتے تو ان کی خوشبو انبیاء کو محسوس ہونے لگتی ہےجس طرح حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کی خوشبو محسوس ہوئی اور اسی مَلکی قوت اور باطنی ونورانی صلاحیت کی وجہ سے ہی آپ کو آسمانی معراج کرائی گئی۔

امام قاضی عیاض اپنے دعویٰ پر دوسری دلیل اور تائید پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  تنام عیناى ولا ینام قلبى.59
  میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔

علامہ شہاب الدین خفاجی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

دوسرے انبیاء کا معاملہ بھی اسی طرح ہے ان کا حالتِ نیند میں صرف ظاہر محو خواب ہوتا ہے جب کہ باطن وقلب بیدار ۔ جس سے ظاہر وباطن اور جسم وروح بشریت ونورانیت کی امتیازی اور مشترک حیثیات واضح ہیں۔آپ مزید تحریر فرماتے ہیں:

  وھذا دلیل ان ظاھره صلى اللّٰه علیه وسلم بشرى وباطنه ملكى ولذا قالوا: ان نومه لاینقض الوضوء.كما صرحوا به ولایقاس علیه غیره من الامة كما توھم، وتوضیه صلى اللّٰه علیه وسلم بعد نومه استحبابا اوتعلیما لغیره او لعروض مایقتضیه.60
  یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ آپ کا ظاہر بشری ہے (اسی لیے نیند جو عوارض بشری سے ہے) اس پر طاری ہوتی ہے، اور باطن ملکی ہے (اور وہ نیند سے پاک اور منزہ ہوتے ہیں ۔ شب وروز اور ہر لمحہ و ہر لحظہ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں اور تھکتے نہیں ہیں) اسی لیے علمائے اعلام نے فرمایا کہ: آپ کی نیند وضو کے لیے ناقص نہیں تھی اور اس معاملہ میں امت کے کسی بھی ارفع واعلیٰ مرتبت شخص کو آپ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور نیند سے بیداری کے بعد بعض اوقات آپ وضو فرماتے تھے تو وہ بطور استحباب یا تعلیم امت کے لیے فرماتے تھے یا بیداری میں جس طرح ناقض وضو طاری ہوجاتے تھے اسی طرح کے عوارض کے طاری ہونے کی وجہ سے آپ وضو فرماتے تھے۔

امام قاضی عیاض اپنے دعویٰ پر تیسری دلیل اور تائید پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  وقال: انى لست كھیئتكم انى اظل یطعمنى ربى ویسقینى. فبواطنھم منزھة عن الافات مطھرة عن النقائص والاعتلالات.61
  اور فرمایا کہ بے شک میں تمہاری طرح نہیں ہوں بے شک مجھے میرا پروردگار کھلاتا اور پلاتا ہے۔پس ان کے باطن آفات سے پاک، نقائص اور علتوں سے بری ہیں ۔

امام ماوردی شافعی فرماتے ہیں:

  الكمال المعتبر فى البشر یكون من اربعة اوجه:
احدھا: كمال الخَلق
والثانى: كمال الخُلق
والثالث: فضائل الاقوال
والرابع: فضائل الاعمال
الوجه الاول فى كمال خَلقه:
اعتدال صورته صلى اللّٰه علیه وسلم فاما الوجه الاول:
فى كمال خَلقه بعد اعتدال صورته فیكون باربعة اوصاف
احدھا: السكینة الباعثة الھیبة والتعظیم الداعیة الى التقدیم والتسلیم وكان اعظم مھیب فى النفوس حتى ارتاعت رسل كسرى من ھیبته حین اتوه مع ارتیاضھم بصولة الاكاسرة و مكاثرة الملوك الجبابرة فكان فى نفوسھم اھیب وفى اعینھم اعظم وان لم یتعاظم باھبة ولم یتطاول بسطوة بل كان بالتواضع موصوفا وبالوطاء معروفا.
طلاقت صلى اللّٰه علیه وسلم.
والثانی: الطلاقة الموجبة للاخلاص والمحبة الباعثة المصافاة والمودة وقد كان محبوبا ولقد استحكمت محبة طلاقتة فى النفوس حتى لم یقله مصاحب ولم یتباعد منه مقارب وكان احب الى اصحابه من الاباء والابناء وشرب البارد الظماء.
میل القلوب الیه صلى اللّٰه علیه وسلم.
والثالث حسن القبول الجالب لممایلة القلوب حتى تسرع الى طاعته وتذعن بموافقته وقد كان قبول منظره مستولیا القلوب ولذلك استحكمت مصاحبته فى النفوس حتى لم ینفر منه معاند ولا استوحش منه مباعد الا من ساقه الحسد الى شقوته وقاده الحرمان الى مخالفته.
میل النفوس الیه صلى اللّٰه علیه وسلم.
والرابع: میل النفوس الى متابعته وانقیادھا لموافقته وثباته شدائده ومصابرته فما شذ عنه معھا من اخلص ولاند عنه فیھا من تخصص وھذہ الاربعة من دواعى السعادة وقوانین الرسالة وقد تكاملت فیه فكمل لما یوازیھا واستحق ما یقتضیھا.62
  انسانی کمالات کا اعتبار مندرجہ ذیل چار وجوہ سے ہوتا ہے۔
  1. حسن تخلیق
  2. حسن اخلاق
  3. حسن بیان
  4. حسن اعمال

حسن تخلیق

اعتدال صورت اور کمال تناسب کے بعد کمال خلقت کا اظہار چار اوصاف سے ہوتا ہے۔

(1) سکون و شائستگی

یہ ایسا وصف ہے جو ہیبت اور تعظیم کا باعث بنتا ہے اور تقدیم وتسلیم کی دعوت دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں نبی کریم کا زبردست رعب تھا یہاں تک کہ شہنشاہ ایران کے ایلچی، جو شاہان فارس کی سطوت اور جابر حکمرانوں کی ہیبت وشوکت سے آشنا اور ان کے ظلم وستم کے عادی تھے‘ جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو ان پر لرزہ طاری ہوگیا۔ ان کے دلوں پر حضور نبی کریم کا رعب چھاگیا اور ان کی آنکھوں میں آپ کی زبردست عظمت سماگئی حالانکہ آپ نے بتکلف عظمت و جاہ و جلال کا اظہار نہیں فرمایا نہ ہی شان و شوکت کی بے جانمائش کی، بلکہ تواضع آپ کا خصوصی وصف اور عجزوانکساری آپ کا شعار تھا۔

(2) مسکراہٹ

یہ ایسا وصف ہے جو اخلاص ومحبت کا موجب اورخلوص ومودّت کا سبب بنتا ہے نبی کریم لوگوں میں ہر دلعزیز اور محبوب تھے۔ خندہ پیشانی اور ادائے دلنوازی نے آپ کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں اس قدر مستحکم اور راسخ کردیا تھا کہ آپ کی بارگاہ کا حاضر باش کبھی ناراض ہوا نہ قرب حاصل کرنے والا کبھی دور ہوا۔ آپ اپنے صحابہ کرام کے نزدیک ان کے والدین اور ان کی اولاد سے زیادہ محبوب اور پیارے تھے بلکہ سخت پیاس میں، جبکہ پیاسا جاں بلب ہوتا ہے اور اس کو ٹھنڈا پانی انتہائی محبوب ومرغوب ہوتا ہے آپ کی شان محبوبی اس سے بھی زیادہ تھی۔

(3) قبولیت عامّہ

یہ دلکش ادا دلوں کو موہ لیتی ہے اور دل اسکی وجہ سے فرمانبرداری پر ہر وقت آمادہ اور موافقت پر تیار رہتے ہیں نبی کریم کی شان قبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کا لوگوں کے دلوں پر قبضہ تھا اسی لیےلوگوں کے دلوں میں آ پ کی مصاحبت اور قرب کے جذبات موجزن اور مستحکم تھے یہاں تک کہ آپ سے عناد وعداوت رکھنے والا بھی متنفرنہ ہوتا، نہ دور رہنے والا متوحش ہوتا، ہاں! جسے اس کے حسد ،شقاوت اور مخالفت نے حرمان نصیبی میں مبتلا کردیا ہو اس کا معاملہ اور ہے۔

(4) متبعین کی کمال اتّباع

لوگوں کا نبی کریم کی اطاعت وانقیاد کی طرف مائل ہونا اورشدید تکالیف ومصائب کے باوجود آپکی موافقت پر ثابت قدم رہنا۔ آپ کے کمال خلقت کا شاندار مظہر ہے یہی وجہ ہے کہ دامنِ مصطفی سے وابستہ ہونے والا کوئی مخلص اور بارگاہ رسالت کا کوئی باریاب کبھی آپ سے جدا نہ ہوا نہ دور ہونا پسند کیا۔

یہ ہیں قوانین رسالت اور کمال سعادت کے چار درجے، جو نبی کریم کی ذات گرامی میں علیٰ وجہ الکمال موجود تھے، لہٰذا آپنبوت کے تقاضوں کے کامل مستحق تھے۔

عظمت مصطفی

حضور نبی کریم کی محبت جانِ ایمان اورمغز قرآن ہے اور یہ بھی مسلّم ہے کہ کسی کی محبت دل میں بہت زیادہ اس وقت راسخ ہوتی ہے جب اس کے محاسن وکمالات سامنے ہوں اور ان پر یقین ہو چنانچہ حضرت علامہ شیخ سراج الدین شامیفرماتے ہیں:

  وذلك لینال مقام محبة الصادقة لان المعرفة سبب المحبة فكلما زادت المعرفة بمحاسن المحبوب زادت المحبة له.63
  ان محاسن کا جاننا اسی لیےضروری ہے تاکہ محبتِ صادقہ نصیب ہو کیونکہ محاسن کی معرفت محبت کا سبب ہے اور جیسے جیسے محبوب کے محاسن سے انسان آگاہ ہوتا ہے اس کے ساتھ محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

محاسن پر آگاہی کے فوائد

تجربہ شاہد ہے کہ جس کے کمالات ومحاسن پڑھے سنے جائیں تو فطرۃ دل میں اس کی محبت کا اضافہ ہوتا ہے یا کم از کم اس کی عظمت اور شان و شوکت کا اثر تو ضرور ہوتا ہے اور یہی بات ہمیں نبی پاک سے قریب کرنے کے لیےضروری ہے۔

حاتم کی عظمت دلوں میں اس لیےہے کہ وہ سخی تھا اور نوشیروان کی شان و شوکت اس لیےدلوں پر اثر انداز ہے کہ وہ عادل تھا وغیرہ اور ہمارے نبی پاک کمالات صوریہ ومعنویہ کے جامع ہیں آپ کے حوالے سےاور زیادہ ضروری ہے اسی لئے حضرت علامہ شیخ سراج الدین شامی فرماتے ہیں:

  ان للّٰه تعالى اوجب المومنین ان یحبوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فوق محبة الآباء والابناء والازواج والعشیرة والتجارة والاموال واوعد من تخلف عن تحقیق ذلك بالعقاب فقال سبحانه: قل ان كان آباء كم وابناء كم واخوانكم...الآیة. ولاریب ان اسباب المحبة ترجع الى انواع الجمال والكمال والنوال كما قرره الامام الغزالى وغیره. فاذا كان الرجل یحب لكرمه او بشجاعته او لحلمه او لعلمه او لتواضعه او لتعبده او تقواه او لزھدہ وورعه او لكمال عقله او وفور نعمه او جمال ادب او حسن خلقه او فصاحة لسانه او حسن معاشرة او كثرة بره و خیره او لشفقته ورحمته او نحو ذلك من صفاة الكمال فكیف اذا تاصلت واجتمعت ھذه الصفات الكاملة وغیرھا من صفات الكمال فى رجل واحد وتحققت فیه اوصاف الكمال ومحاسن الجمال اكمل وجوھھا الا و ھوالسیّد الا كرم سیّدنا محمد صلى اللّٰه علیه وسلم الذى ھو مجمع صفات الكمال ومحاسن الخصال قد ابدع للّٰه تعالى صورته العظیمة وھیئته الكریمة وطوى فیه انواع الحسن والبھاء بحیث یقول كل من نعته لم یرقبله ولا بعده مثله.64
  اﷲ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر یہ لازم و واجب کردیا ہے کہ وہ نبی کریم کو اپنے والدین، اولاد، بیوی، خاندان، تجارت اور اموال سے بڑھ کر محبوب سمجھیں اور اس کے خلاف کرنے والے کو عذاب کی وعیدسنائی ہے ارشاد ربانی ہے اے محبوب فرمادیجیۓ اگر تم اپنے والدین اولاد اور بھائی۔ ۔۔ الآیۃ۔ اور اسباب محبت کی وجوہ یہ ہی ہوسکتی ہیں حسن وجمال، کمال اور احسان۔ امام غزالی وغیرہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ جب کسی آدمی سے اس کی ایک صفت کی وجہ سے محبت کی جاتی ہے مثلاً اس کاکرم یا اس کی بہادری حلم یا علم یا تواضع یا عبادت وتقویٰ یا زھد وورع یاکمال عقل یا بہتر فہم یا جمال ادب یا حسن اخلاق یا فصاحت زبان یابہتر برتاؤ یا کثرت نیکی یاشفقت و رحمت یا اس کی مثل کسی اور وجہ سے اور جب یہ تمام صفات کسی ایک شخصیت میں جمع ہوجائیں اور یہ تمام اوصاف و محاسن اپنے شباب وکمال پر بھی ہوں تو اس وقت اس شخصیت سے محبت کا عالم کیا ہوگا اور یہ شخصیت ہمارے آقا کی ہے کیونکہ آپ تمام صفات کاملہ اور محاسن فاضلہ کے جامع ہیں اﷲ تعالیٰ نے آپ کی عظیم ہیئت و صورت اتنے احسن انداز پر بنائی ہے کہ تمام حسن وجمال کی خوبیاں اس طرح جمع ہوگئی ہیں کہ آپ کا وصف بیان کرنے والا ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ آپ کی مثل نہ کوئی دیکھا گیا اور نہ ہی دیکھا جائےگا۔

نیز کچھ آگے لکھتے ہیں:

  ان ذكر شمائله صلى اللّٰه علیه وسلم وسماع اوصافه ونعوته تحیا قلوب المحبین وتطرب ارواحھم وعقولھم ویزداد حبھم ویتحرك اشتیاقھم.65
  بےشک آپ کے شمائل مبارکہ کا ذکر اور آپ کے اوصاف ومحاسن کا سماع (سننا)اہل محبت کے دلوں کو زندگی بخشتا ہے اور ان کے ارواح و عقول خوشی سے مچل اٹھتے ہیں ان کی محبت میں اضافہ اور ان کے شوق میں جِلا پیدا ہوتی ہے۔

حضور اکرم کے اعضائے مبارکہ کا پاکیزہ ذکر اہلِ ایمان کے یقین کو جلا بخشتا اور عام قارئین کے حضور کے ساتھ محبت کے تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے اور جب ان اعضائے مبارکہ کے اعجاز و کمالات کے بارے میں مومنین کو آگاہی حاصل ہوتی ہے تو وہ سراپا شکر و امتنان بن جاتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے جس ہستی کو اپنا احسان بتایا بلکہ جتلایا ہے اس ذاتِ واہ صفات کی عظمت کا نقش دل و دماغ میں مرتسم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے آپ کے اعجاز و کمالات کا ذکر اس جلد میں شامل کیا گیا ہے۔

 


  • 1 القرآن،سورۃ الانعام6 : 147
  • 2 القرآن،سورۃ الاعراف7: 156
  • 3 القرآن، سورۃ غافر 40 : 7
  • 4 القرآن، سورۃ ص38 : 39
  • 5 القرآن، سورۃ آل عمران3: 37
  • 6 القرآن، سورۃ الاحزاب 33: 47
  • 7 مسلم بن الحجاج قشیری ، صحیح مسلم، حدیث: 312، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:176
  • 8 محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی ، حدیث:2553 ، ج -4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص: 269
  • 9 القرآن،سورۃ النساء 4: 113
  • 10 القرآن، سورۃ الاسراء 17: 87
  • 11 قاضی عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، مطبوعۃ، دار ابن حزم، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:11
  • 12 القرآن،سورۃ التوبۃ 9 : 128
  • 13 احمد بن محمد الدمیاطی، اتحاف فضلاء البشر فی القراء ات الاربعۃ عشر، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص:308
  • 14 ابو حفص عمر بن علی بن عادل الحنبلی، اللباب فی علوم الکتاب ،ج -10،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص:247
  • 15 محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3532، ج -5 ، مطبوعۃ: دارالغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:543
  • 16 سلیمان بن احمد طبرانی ،المعجم الکبیر، حدیث: 5437، ج -6، مطبوعہ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:35
  • 17 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 2276، ج- 4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:1782
  • 18 القرآن،سورۃ القصص 28: 68
  • 19 القرآن، سورۃ اسرا 17: 70
  • 20 القرآن،سورۃ الدخان44: 57
  • 21 القرآن، سورۃآل عمران3: 34-33
  • 22 القرآن، سورۃ النساء 4: 163
  • 23 ابو العباس احمد بن عمر القرطبی، المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم، ج -6، مطبوعۃ : دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 47
  • 24 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3557 ، ج -4، مطبوعۃ: دمشق،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:189
  • 25 القرآن، سورۃ النساء 4: 174
  • 26 القرآن، سورۃ الاعراف7: 107
  • 27 القرآن،سورۃ المائدہ 5: 110
  • 28 ابوبکر احمد بن الحسین بیہقی ،شعب الایمان ، حدیث، 132، ج -1، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ،الریاض،السعودیۃ، 2003ء،ص :283-284
  • 29 ابن حجر عسقلانی ، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ، حدیث:6164، ج- 4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان، 1990 ء، ص :636-637
  • 30 القرآن، سورۃالاحزاب33: 40
  • 31 محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث:2219، ج -4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:69
  • 32 القرآن، سورۃالاعراف7: 158
  • 33 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ، حدیث: 523، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:371
  • 34 مفتی احمد یار خان نعیمی، شانِ حبیب الرحمن من آیات ِ القرآن، مطبوعہ: قادری پبلشرز ،لاہور،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 76-74
  • 35 القرآن، سورۃ آل عمران3 : 33 -34
  • 36 محمد بن اسماعيل البخاری، صحيح البخاری، حديث:719، ج-1،مطبوعة:دارطوق النجاة، مصر، 1422ھ، ص:145
  • 37 القرآن، سورۃ الانعام6: 75
  • 38 ابو عبداﷲ محمد بن عمر الرازی ، التفسیر الکبیر ،ج-8،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت ، لبنان ،1420ھ، ص:199
  • 39 محمد بن عیسٰی الترمذی، سنن الترمذی، حدیث:2312، ج-4، مطبوعۃ:دار الغربی الاسلامی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:134
  • 40 ابو عبداﷲ محمد بن عمر الرازی ، التفسیر الکبیر ،ج-8،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:199
  • 41 القرآن، سورۃ النمل 27: 18-19
  • 42 القرآن، سورۃ یوسف 12: 93-94
  • 43 احمد بن محمد بن حنبل الشيبانی۔مسند الامام احمد بن حنبل، حديث:22509، ج-37، مطبوعة:مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2001،ص:185
  • 44 ابو عبداﷲ محمد بن عمر الرازی، التفسیر الکبیر، ج-8، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:200
  • 45 القرآن، سورۃ الاعلیٰ 87 :06
  • 46 ابو عبداﷲ محمد بن عمر الرازی، التفسیر الکبیر ،ج-8،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی ،بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:200
  • 47 القرآن،سورۃ النمل27: 40
  • 48 ابو عبداﷲ محمد بن عمر الرازی ، التفسیر الکبیر ،ج-8، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:201-200
  • 49 القرآن،سورۃ آل عمران 3: 144
  • 50 القرآن ،سورۃ الٓمائدہ5: 75
  • 51 القرآن، سورۃ الفرقان 25: 20
  • 52 القرآن، سورۃ الکہف18: 110
  • 53 القرآن، سورۃ الانعام6 : 9
  • 54 القرآن،سورۃ بنی اسرائیل 17: 95
  • 55 عیاض بن موسیٰ المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص :227-224
  • 56 أحمد بن عمر شہاب الدین الخفاجی ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج- 3،مطبوعۃ،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:544
  • 57 عیاض بن موسیٰ المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الفیحاء ، عمان، 1407ھ، ص:227
  • 58 أحمد بن عمر شہاب الدین الخفاجی، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -5،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان1421ھ، ص :140-141
  • 59 عیاض بن موسیٰ المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الفیحاء عمان، 1407ھ، ص:227
  • 60 أحمد بن عمر شہاب الدین الخفاجی، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -5،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ، ص:142
  • 61 عیاض بن موسیٰ المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الفیحاء عمان، 1407ھ، ص:227
  • 62 ابو الحسن علی بن محمد الماوردی ، اعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دار مکتبۃ الھلال، بیروت ، لبنان، 1409ھ، ص:216-217
  • 63 الشیخ سراج الدین شامی، محمد رسول اﷲ، مطبوعۃ: حلب ، السوریۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:6
  • 64 ایضاً
  • 65 ایضاً، ص:8