Encyclopedia of Muhammad

قد مبارک

حضور نبی کریم نہ بہت لمبے تھے اور نہ کوتاہ بلکہ میانہ قد مائل بہ درازی تھے۔ قدوقامت حسنِ تناسب کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا اور حقیقت میں یہ آپ کا معجزہ تھا۔ جب علیحدہ ہوتے تو میانہ قد مائل بہ درازی ہوتے اور جب اوروں کے ساتھ چلتے یا بیٹھتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے تاکہ باطن کی طرح ظاہر میں بھی آپ سے کوئی اونچایا بڑا معلوم نہ ہو۔

آپﷺکے قد مبارک کی خوبصورتی

رسول اکرم کا قد مبارک ایسا تھا کہ دیکھنے والا آپ کے قد مبارک کو دیکھ کر آپ کی وجاہت کا مشاہدہ کرلیا کرتا تھا۔چنانچہ امام بخاریروایت کرتے ہیں:

  عن ابى اسحاق سمع البراء یقول كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مربوعاً وقد رأیته فى حلة حمراء مارایت شیئا احسن منه.1
  ابو اسحاق سے مروی ہےکہ انہوں نے حضرت براء کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور کا قد مبارک متوسط تھا میں نے آپ کو سرخ رنگ کے حلہ یعنی دوچادروں میں لپٹا ہوا دیکھا۔ میں نے آپ سے زیادہ کسی چیز کو حسین نہیں دیکھا۔

اسی طرح امام مسلم ایک حدیث مبارکہ ذکر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم رجلا مربوعا.2
  حضور درمیانہ قد تھے۔

اس حدیث کو ابویعلی نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔3

اسی طرح حضرت ہند بن ابی ہالہ سے روایت ہے :

  كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم...اطول من المربوع واقصرمن المشذب...معتدل الخلق بادن متماسك.4
  حضور نبی کریم کی قامت درمیانہ قد سے نکلی اورطویل قامت سے کم تھی۔۔۔ آپ کی تخلیق اعتدال پر ہوئی تھی اعضاء کا اعتدال عیاں تھا۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ خدائے پاک نے آپ کوقامت کے اعتبار سے بھی معتدل بنایاتھا۔زیادہ پستہ اورزیادہ لمبادونوں ناقابل تعریف ہیں اس لئے آپ دونوں کے بیچ میں تھے ۔5

اسی طرح حضرت انس سے مروی روایت میں منقول ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس قواما واحسن الناس وجھا واحسن الناس لونا واطیب الناس ریحا والین الناس كفا.6
  حضور نبی کریم قامت میں سارے لوگوں سے حسین، چہرےکے اعتبار سے سارے لوگوں سے جمیل، رنگت کے اعتبار سے سارے لوگوں سے خوبصورت، خوشبو کے اعتبار سے سارے لوگوں سے عمدہ اور ہتھیلیوں کے اعتبار سے سارے لوگوں سے زیادہ نرم تھے۔

آپ کا سراپا اقدس تناسبِ اعضاء کا بہترین شاہکار تھا ۔آپ کا حسی و ظاہری پہلو حد درجہ دلکش اور جاذبِ نظر تھا ۔آپ ہر مجلس میں مرکزِ نگاہ ہوتے تھے اور دیکھنے والی ہر آنکھ آپ کے سراپا انور کے حسن و جمال کی رعنائیوں میں کھوئی رہتی۔

وجود مبارک کا حسن اعتدال

امام بخاری روایت کرتے ہیں:

  عن ابى اسحاق قال سمعت البراء یقول كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا واحسنه خلقا لیس بالطویل البائن ولا بالقصیر.7
  ابو اسحاق سےمروی ہے کہ حضرت براء بن عاذب بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ کا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھا۔ آپ تخلیق کے اعتبارسےتمام لوگوں سے زیادہ حسین تھے ،آپ کا قد مبارک بہت زیادہ لمبا تھا نہ بہت چھوٹا۔

اسی طرح حضرت انس سے روایت ہے :

  كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة من القوم لیس بالطویل البائن ولا بالقصیر.8
  حضور کا قدمبارک درمیانہ تھا نہ آپ دراز قد اور نہ ہی کوتاہ قد تھے۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ:

  كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة وھو الى الطول اقرب.9
  حضور نبی کریم کا قد میانہ تھا جو طوالت کے زیادہ قریب تھا۔

حضرت علی سے روایت ہے :

  لم یكن رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالطویل الممغط ولا بالقصیر المتردد كان ربعة من القوم.10
  حضور نبی کریم نہ تو بہت زیادہ دراز قد اور نہ ہی زیادہ پست تھے بلکہ آپ کا قد مبارک درمیانہ تھا۔

حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہ سے روایت ہے :

  كان ابیض ملیحا مقصدا.11
  آپکا رنگ سفید روشن، قامت مبارکہ درمیانی تھی۔

شیخ سندی نے "مقصد" کا معنی یوں بیان کیا ہے:

  لیس بطویل ولا قصیر ولا جسیم.12
  ایسے جسم کو مقصد کہتے ہیں جو قد میں لمبا ہو نہ پست اور نہ ہی اس میں موٹاپا ہو۔

حضرت اُم معبد سے روایت ہے :

  فكان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة لا بائن من طوله ولا تقتحمه عین من قصر غصنا بین غصنین فھو انظر الثلاثة منظرا واحسنھم قدرا.13
  حضور نبی کریم نہ اتنے طویل تھے کہ آنکھوں کو برا لگے اورنہ اتنے پست قد تھے کہ آنکھیں حقیر سمجھیں۔ آپ دوشاخوں کے مابین ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سرسبز وشاداب اور قد آور ہو۔

سب کے درمیا ن امتیاز

رسول اکرم کی خاصیت یہ تھی کہ آپ چلتے تو لوگوںمیں بلند نظر آتے۔چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے :

  لم یكن رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالطویل البائن ولا بالقصیر المتردد وكان ینسب الى الربعة اذا مشى وحده ولم یكن یماشیه احد من الناس ینسب الى الطول الا طاله رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولربما اكتنفه الرجلان الطویلان فیطولھما رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا فارقاه نسب رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى الربعة.14
  حضور کا قد مبارک نہ تو بہت زیادہ طویل اور نہ ہی بہت زیادہ پست تھا جب آپ تنہا چلتے تھے تو آپ کا قد مبارک میانہ لگتا تھا۔جب بھی کوئی ایسا شخص آپ کے ساتھ چلتا جس کا قدطویل ہوتا تو آپکی قامت مبارکہ اس سے طویل ہوجاتی ۔جب بھی دودراز قد آدمی آپ کے ساتھ چلتے تو حضور نبی کریمکا قد مبارک ان سے طویل ہوجاتا اور جب وہ دونوں آپ سے جدا ہوتے تو آپ کا قد میانہ ہوجاتا۔

اسی صفت مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے :

  ما مشى مع احد الا طاله.15
  حضور نبی کریم جس شخص کے ساتھ بھی چلتے آپ اس سے طویل نظر آتے ۔

حضرت علی سے روایت ہے:

  كان لیس بالذاھب طولا وفوق الربعة اذا جامع القوم غمرھم.16
  حضور نبی کریم کا قد مبارک نہ طویل تھا نہ ہی پست تھا بلکہ میانہ تھا آپ کسی قوم میں ہوتے تھے تو آپ کی قامت سب سے بلند نظر آتی تھی۔

ابن سبع اور رزین نے آپ کے خصائص میں ذکر کیا ہے کہ آپ جب لوگوں میں بیٹھتے تو ممتاز نظر آتے۔چنانچہ امام سیوطی ان کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  انه كان اذا جلس یكون كتفه اعلى من جمیع الجالسین.17
  جب آپ لوگوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ کا کندھا مبارک سب سے اونچا ہوتا۔

قد مبارک کی اہمیت

رسول اکرم کے قد مبارک کے نمایاں ہونے کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے ملا علی قاریتحریرفرماتے ہیں:

  ولعل السر فى ذلك انه لا یتطاول علیه احد صورة كما لا یتطاول علیه معنى.18
  ممکن ہےکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس طرح باطنی محامد ومحاسن میں حضور نبی کریم سے کوئی بلند نہیں، اسی طرح ظاہری قدوقامت میں بھی کوئی آپ سے بڑھ نہیں سکتا۔

سب سے نمایاں اور سربلند کی دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے:

  فى الطول مزیة خص بھا تلویحا بانه لم یكن احد عند ربه افضل منه لا صورة ولا معنى.19
  یہ بلندی اس لئے تھی کہ ہر ایک پر یہ بات آشکار ہوجائے کہ اﷲ رب العزت کے ہاں ظاہری وباطنی احوال میں اس ذات اقدس (رسول کائنات ) سے بڑھ کر کوئی افضل نہیں۔

پیکر رحمت کی انفرادیت

امام خفاجی فرماتے ہیں کہ آپ کا قدِ انور خلقت کے لحاظ سے دوسروں سے زیادہ طویل نہیں تھا بلکہ معتدل ہی تھا ۔لیکن اس کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ عنایت تھی کہ دیکھنے والوں کو آپ بلند دکھائی دیتے تاکہ صورت کے لحاظ سے بھی کوئی فوقیت حاصل نہ کرپائے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی تعظیم میں بھی اضافہ ہو۔

چنانچہ اس حوالہ سے امام خفاجی لکھتے ہیں:

  ولم یخلق اطول من غیره لخروجه عن الاعتدال الاكمل المحمود ولكن جعل للّٰه له ھذا فى راى العین معجزة خصه للّٰه تعالىٰ بھا لئلا یرى تفوق احد علیه بحسب الصورة ولیظھر من بین اصحابه تعظیما له بما لم یسمع لغیره فاذا فارق تلك الحالة زال المحذور و علم التعظیم فظھر كماله الخلقى.20
  حضور کا قد انور زیادہ طویل پیدا نہیں کیا گیا کیونکہ حد سے زیادہ طویل ہونا اعتدال کے منافی ہے اور قابل تعریف نہیں۔ ہاں اس کے باوجود اﷲ رب العزت نے دیکھنے والی آنکھوں میں یہ بات پیدا کردی تھی کہ حضور نبی کریم ﷺبلند نظر آتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ خصوصیت اس لئے عطا کی تھی کہ کوئی صورت کے لحاظ سے بھی حضور سے بلند دکھائی نہ دے اور آپ کی تعظیم میں اضافہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ ضرورت نہ رہتی تو حضور اس کمال پر دکھائی دیتے جس پر آپ کی تخلیق ہوئی تھی۔

اسی طرح امام زرقانی فرماتے ہیں:

  اﷲ تعالیٰ چاہتا تو حضور کے قدر انور کو طویل پیدا فرمادیتا،لیکن ربِ قادر نے حضور کو میانہ قد ہی عطا فرمایا۔ البتہ یہ آپ کا اعجاز تھا کہ دیکھنے والے محسوس کرتے کہ آپسب سے سربلند ہیں اور کوئی آپ کی نظیر نہیں۔اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے شیخ عبد الباقی زرقانی تحریر فرماتے ہیں:
ان ذلك یرى فى اعین الناظرین فقط، وجسده باق على اصل خلقته على حد...فمثل ارتفاعه المعنوى فى عین الناظر فراہ رفعة حسیة.21
ترجمہ:.....صرف لوگوں کی نظروں میں بلند دکھائی دیتے لیکن حضورکا جسم اطہر اس حال میں بھی اصل خلقت پر (میانہ) ہی رہتا۔۔۔ پس حضور کی رفعت معنوی کو ہی اﷲ رب العزت نے دیکھنے والے کی آنکھ میں رفعت حسی بنا دیا تھا۔

اسی حوالہ سے امام زرقانی مزید فرماتے ہیں:

  وذلك كى لا یتطاول علیه احد صورة كم لا یتطاول معنى.22
  اور ایسا اس لئے تھا تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ جس طرح معنوی اور باطنی لحاظ سے آپ سے زیادہ کوئی بلند نہیں اسی طرح ظاہر میں بھی آپ سے کوئی بڑھ کرنہیں ہوسکتا۔

حضور کی ذات مبارکہ رب تعالی ٰ کی قدرت تخلیق کا سب سے خوبصورت ،بے مثال اور بے مثل شاہکار تھی۔ رب تعالیٰ نے آپ کے جسم مبارک کو نہایت اعتدال کے ساتھ خوبصوت بنایاتھا۔جس طرح آپ کے دوسرے اعضاء بدنی حسن اعتدال کا بہترین نمونہ ہیں ویسے ہی آپ کا قد مبارک بھی نہایت معتدل اور حسن سے آراستہ ومتوازن تھا۔ رب تعالیٰ چاہتا تو آپ کو سب سے طویل اقامت بنادیتااور چاہتاتو معاملہ اس کے برعکس ہوتا لیکن یہ بات واضح ہے کہ دونوں اشتہاوں میں سے کوئی بھی محبوب ومطلوب نہیں ۔اس کےباوجود بھی یہ آپ کا معجزہ تھا کہ اونچے سے اونچے قد کاآدمی بھی جب آپ کے ساتھ کھڑا ہوتاتو آپ ان سے اونچے نظرآتے ۔ اسی طرح اگر آپ لوگوں کے ساتھ کسی مجلس میں تشریف فرماں ہوتے تو تب بھی قد کے اعتبار سے سب سے زیادہ نمایاں آپ ہی نظرآتے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح نبوت ورسالت علم وحکمت اور فکرودانش میں کوئی شخص آپ سے بلند نہیں ہوسکتاویسے ہی جسمانی قدمیں بھی اللہ تعالی ٰ نے آپ کو تمام انسانوں پر فضیلت اور عظمت عطافرمائی تھی۔ کیونکہ رب العالمین کویہ بات کسی بھی طورپرمنظور ہوہی نہیں سکتی تھی کہ اس کے حبیب پاک کے سرِمبارک سے کسی دوسرے انسان کا سراونچاہو۔

 


  • 1 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 5510، ج-5، مطبوعۃ: دارابن کثیر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :2198
  • 2 مسلم بن الحجاج القشيرى، صحيح مسلم ،حدیث:2337، مطبوعۃ:دارالاسلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421، ص:1029
  • 3 ابو یعلی احمد بن الموصلی،مسند ابو یعلی، حدیث :1714، ج-3مطبوعۃ :دارالمـامون للتراث، دمشق، السوریۃ، 1984ء، ص:262
  • 4 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث: 1362، ج -3، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 2003ء، ص:24
  • 5 مفتی ارشاد احمد قاسمی، شمائل کبریٰ، ج-5،مطبوعہ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص:72
  • 6 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:82
  • 7 محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح البخاری ، حدیث :3356، ج -3، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،، ص: 303
  • 8 سلیمان بن احمد طبرانی ، المعجم الصغیر، حدیث: 328، ج -1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:205
  • 9 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:82
  • 10 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:-6، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت،لبنان، 1988ء، ص: 10
  • 11 احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی ، مسند احمد، حدیث:23737، ج-39، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان 2001ء، ص:215
  • 12 ایضاً، ص:216
  • 13 ابو نعیم احمد اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 238، ج-1 ، مطبوعۃ: دار النفائس ،بیروت، لبنان، 1986ء، ص:238-237
  • 14 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ص:116
  • 15 سلیمان بن احمد طبرانی، مسند الشامیین، حدیث: 2727، ج-4، مطبوعۃ : مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت، لبنان، 1984ء، ص:59
  • 16 احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، حدیث :1300، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:429
  • 17 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ص :116
  • 18 نور الدین بن سلطان القاری ، جمع الوسائل فی شرح الشمائل ،ج -1، مطبوعہ :نور محمد اصح المطابع ،کراچی،پاکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:13
  • 19 نورالدی علی بن سلطان القاری، شرح الشفاء، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1309ھ ،ص:161
  • 20 شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر خفاجی ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:521
  • 21 محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج -5،مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1996ء،ص:485
  • 22 ایضًا