حضور نبی کریم کی جسمانی وجاہت اور حسن ورعنائی قدرت کا ایک عظیم شاہکار تھی جس کو آپ کی نفاست پسندی اور نظافت وطہارت کی عادت شریفہ نے چار چاند لگادئیے تھے ۔آپ سرتاپا پاکیزگی کا پیکر تھے اورآپ کاجسم اطہر ہر طرح کی آلائشوں سے پاک و صاف تھا۔
آپ کا جسمِ اطہر حسین و جمیل ہونے کے ساتھ نہایت ہی نرم ونازک تھا حالانکہ آپ زندگی کے تمام نجی اور معاشرتی معاملات سفر، تجارت، جہاد وغیرہ میں بنفس نفیس شرکت فرماتے تھےتاکہ اپنی امت کو نظامت و لطافت اور پاکیزگی کی تعلیم دیں اور وہ آپ کی اس معاملہ میں اتباع کرکے اپنی زندگی کو خوشگوار اور پاک و صاف بناسکیں۔ساتھ ہی ساتھ گندگی و نجاست سے ان کو نفرت و کراہت پیدا ہو اور اس سے ہرممکن صورت وہ دور رہیں۔
رسول اکرم کے نرم و ناز ہونے کو بیان کرتےہوئےحضرت علی روایت کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى للّٰه علیه وسلم رقیق البشرة.1
حضور نبی کریم کا جسم اقدس نہایت نرم و نازک تھا۔
آپ کے عم محترم حضرت ابو طالب فرماتے ہیں:
واللّٰه ما ادخلته فراشى فاذا ھو فى غایة اللین.2
خدا کی قسم! جب بھی میں نے حضور کو اپنے ساتھ بستر میں لٹایا تو آپ کے جسم اطہر کو نہایت ہی نرم و نازک پایا۔
حضرت انس امام ابو عیسیٰ ترمذی روایت کرتے ہیں:
و لامسست خزا قط ولاحریرا ولا شیئا كان الین من كف رسول اللّٰه صلى للّٰه علیه وسلم.3
میں نے کوئی خز(نرم کپڑےکی قِسم)،ریشم اور دوسری چیز رسول اﷲ کے ہاتھ سے زیادہ ملائم نہیں چھوئی۔
حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ نے ایک سفر کے دوران اپنے پیچھے بٹھالیاتو:
فما مسست شیئا الین من جلد رسول اللّٰه صلى للّٰه علیه وسلم.4
میں نے کبھی کسی ایسی چیز کو مس نہیں کیا جو آپ کی جلد مبارک سے نرم تر ہو۔
حضرت ام معبد آپ کے جسمِ اطہر کی لطافت اور تروتازگی کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
غصنا بین غصنین فھو انضر الثلاثة منظرا.5
آپ کا وجود اقدس اس تروتازہ شاخ کی طرح تھا جو دوشاخوں کے درمیان ہو اور تینوں میں خوشنما نظر آتے ۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ایسی چارپائی پر آرام کرتے جو خرمے کی رسی سے بنی تھی اور نیچے کوئی کپڑا تک نہ ہوتا،حالانکہ آپ کا جسمِ اطہر تمام لوگوں سے نرم تھا۔جب آپ اٹھتے تو آپ کے مبارک بدن پر اس کی رسیوں کے نشانات ہوتے۔ ایک دن یہ منظر دیکھ کر حضرت فاروق اعظم زارو قطار روپڑے، رسالت مآب نے فرمایا: اے عمر رونے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اﷲ !
اما واللّٰه ما ابكى الا اكون اعلم انك اكرم على اللّٰه عزوجل من قیصر و كسرى انھما یعیشاق فیما یعیشان فیه من الدنیا وانت رسول اللّٰه صلى للّٰه علیه وسلم بالمكان الذى ارى.6
میں اس لیے رورہا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کا مقام اﷲ تعالیٰ کے ہاں قیصرو کسریٰ سے کتنا بلند ہے۔وہ دنیا کی آسائشوں میں ہیں اور آپ اس حال میں ہیں جو میں دیکھ رہا ہوں۔
اس پر آپ نے فرمایا اے عمر کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ ہمارے لیے آخرت ہو اور ان کے لیے صرف دنیا؟ عرض کیا یا رسول اﷲ آپ نے سراسر حق فرمایا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود سے بھی یہی مروی ہے کہ آپ ایسی چٹائی پر آرام فرماتھے جو سخت تھی۔ اس کے نشانات آپ کے مبارک بدن پر دکھائی دیئے توہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اﷲ!
الا اذنتنا فنبسط تحتك الین منه؟.7
کیا ہمیں نرم چٹائی بچھانے کی اجازت ہے۔
آپ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا غرض؟ میری اور دنیا کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسافر دوران سفر کسی درخت کے سایہ میں چند لمحات ٹھہر کر آگے گذر جاتا ہے۔
تاجدار کائنات کے جسم اطہر کی مثل شان نظافت اﷲ رب العزت نے آج تک کسی کو عطا نہیں کی۔ آپ جہاں حسن وجمال کے پیکر اتم تھے وہاں نظافت و طہارت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔حضور نبی کریم ظاہری صفائی وپاکیزگی کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھےاور نفاست پسندی کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ اگرچہ جسمِ اطہر ہر قسم کی آلائش سے پاک تھا اور قدرت نے اس پاکیزگی کا خصوصی اہتمام فرمایا تھا تاہم حضور اپنے لباس اور جسم کی ظاہری پاکیزگی کو بھی خصوصی اہمیت دیتے تھے۔
آپ کا جسمِ اطہر لطیف ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی نظیف تھا اور یہ نظافت آپ کو اﷲ تعالیٰ نے ولادت کے موقع سے عطا فرمادی تھی۔شب میلاد میں جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے اس وقت بھی ہر لمحہ پاکیزگی اور طہارت کا مظہر بن گیا تھا۔ عام بچوں کے برعکس جسمِ اطہر ہر قسم کی آلائش اور میل کچیل سے پاک تھا۔چنانچہ حضور کی والدہ محترمہ سیّدہ طاہرہ آمنہ فرماتی ہیں:
ولدته نظیفا ما به قدر.8
میں نے آپ کو اس طرح پاک صاف جنم دیا کہ آپ کے جسم پر کوئی میل نہ تھا۔
ایک دوسری روایت میں مذکور ہے:
ولدته امه بغیر دم ولا وجع.9
آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو بغیر خون اور تکلیف کے جنم دیا۔
امام خفاجی "نظیفا ما بہ قذر" کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اى شى مما یكون على المولود اى نقیا من الوسخ والدرن.10
آپ میل کچیل کی ان آلائشوں سے پاک صاف پیدا ہوئے جو ولادت کے موقع پر ہر بچہ کے ساتھ ہوتی ہیں۔
یعنی اﷲ پاک نے اس کو بھی نا پسند فرمایا کہ ولادت کے موقع پر اس کے محبوب پاک کے جسم اقدس پر کوئی ایسی چیز ہو جس سے لوگ نفرت کرتے ہیں لہٰذا اس مقصد کے لیے نظامِ ولادت ہی کو بدل دیا ۔نہ آپ کی والدہ کو تکلیف ہوئی اور نہ ہی آپ کے جسمِ اطہر پر کوئی میل لگنے دیا۔
مذکورہ بالا معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ اس قدر نظافت کے باوجود آپ نظافت کا اہتمام فرماتے، ہمیشہ غسل فرماتے، آنکھوں میں سُرمہ لگاتے،بالوں کو تیل اور کنگھی فرماتے، صاف ستھرے لباس کا اہتمام فرماتے تھے۔ سر اقدس پر ٹوپی استعمال فرماتے تاکہ عمامہ شریف تیل کی وجہ سے میلا نہ ہو۔ آپ کے لباس مبارک پر پیوند تو ہوتے مگر وہ میلا ہرگز نہ ہوتا۔ اسی طرح آپ کا جسمِ اطہر خوشبو دار تھا مگر اس کے باوجود آپ خوشبو استعمال فرماتےتھے۔