Encyclopedia of Muhammad

حسن و جمال مصطفیﷺ

اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ پاک کو ان عظمت ورفعت اورفضائل وکمالات سے نوازا جو کسی کو عطا نہیں کیے گئے۔آپ کو حُسنِ کل بنایا اور آپ کے جسمِ اطہر کو بے مثال پیدا فرمایا۔ رسول اﷲ دیگر انبیاء ورسلکی طرح کسی ایک قبیلہ کی طرف اور وہ بھی محدود وقت کے لیے نبی بناکر نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے تاقیام قیامت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ حضور کی ذات اقدس وہ آفتاب تھی جس کی روشنی ظاہر و باطن کو اپنے انوار سے منوّر کرنے والی تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ حضور نبی کریم کے باطنی محاسن کے ساتھ ساتھ آپ کے ظاہری وجسمانی محاسن بھی تمام انبیاء سابقین سے اعلیٰ وبرتر ہوں کیونکہ یہ مظاہرِ جسم باطن کی عظمت کے گواہ ہیں۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم کے ظاہر و باطن کو اتنی عظمتیں اور وسعتیں دیں کہ کوئی اس کی ہمسری کا گمان بھی نہ کرسکے۔اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب کو وہ حسن و جمال عطا فرمایا جس کی تعریف و توصیف سے زبان عاجز ہے۔مکمل وجودِ مصطفےٰ حسن و جمال کا ایسا مظہر ہےکہ اس حسنِ کُل کے سامنے حسنِ یوسف ایک تابش کی مانندہےاور حضرت یوسف کا حسن آپ کے حسنِ باکمال کا ایک حصہ ہے۔ آفتاب وماہتاب آپ سے روشنی حاصل کرتے ہیں، کائنات کی چمک دمک اور ضیاپاشیاں آپ کی نورانیت کا صدقہ ہیں اور دنیا بھر کے حسین و جمیل حسن محمد کی ایک جھلک ہیں۔

آپﷺکے حسن وجمال کی ایک جھلک حسنِ یوسف

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیّدنا یوسف کو حضور اکرم کا نصف حسن عطا کیا ۔ اس کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت انس سے مروی ہے اوراس کو نقل کرتے ہوئےامام شامی صالحی لکھتے ہیں:

  عن انس رضي الله عنه قال: مابعث للّٰه نبیا الاحسن الوجه حسن الصوت وكان نبیكم احسنھم وجھا وصوتا.1
  حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے جو نبی بھی مبعوث کیا اس کا چہرہ اور آواز خوبصورت تھی تمہارے نبی کریم چہرہ اور آواز کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین ہیں ۔

شمائل ترمذی میں حضرت قتادہ کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

  عن قتاده قال مابعث للّٰه نبیا الاحسن الوجه حسن الصوت وكان نبیكم صلى اللّٰه علیه وسلم حسن جالوجه حسن الصوت.2
  حضرت قتادہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: اﷲ تعالیٰ نے جو نبی بھی مبعوث کیا اس کا چہرہ اور آواز خوبصورت تھی اورتمہارے نبی کریم چہر ہ اور آواز کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین ہیں۔

اسی پر روشنی ڈالتے ہوئے امام ابو نعیم اصفہانی لکھتے ہیں:

  فان قیل: فان یوسف موصوف بالجمال على جمیع الانبیاء والمرسلین بل على الخلق اجمین. قلنا: ان جمال محمد صلى اللّٰه علیه وسلم الذى وصفه به اصحابه لا غایة وراء ه اذ وصفوه بالشمس الطالعة او كالقمر لیلة البدر واحسن من القمر ووجھه كانه مذھبة یستنیر كاستنارة القمر وكان عرقه صلى اللّٰه علیه وسلم له رائحة كالمسك الاذفر.3
  اگر کہا جائے کہ سب انبیاء کی نسبت حضرت یوسف کے حسن و جمال کا چرچا چہاردانگِ عالم میں ہے بلکہ آپ کو تمام خلق خدا سے حسین تر کہا جاتا ہے۔تو ہم کہیں گے کہ نبی کریم کے حسن کی تعریف جیسے آپ کے صحابہ نے کی ہے اس کے بعد حسن کا کوئی دوسرا تصور ہی نہیں ہوسکتا ۔صحابہ کرام نے آپ کو چمکتا ہوا آفتاب اور چودہویں رات کا بدر کامل کہا ہے۔ صحابہ کرام کی زبان میں رخِ مصطفی کے بالمقابل چاند کا حسن بھی پھیکا تھا۔ بعض صحابہ کے مطابق آپ کا زریں چہرہ چمکتے ہوئے ماہتاب کی طرح ضوفشاں رہتا تھا اور آپ کے پسینہ کی خوشبو مہکتی مشک سے میل کھاتی تھی۔

اسی طرح محدث کبیر امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

  قال ابو نعیم: اعطى یوسف من الحسن ما فاق به الانبیاء والمرسلین بل والخلق اجمعین ونبینا صلى اللّٰه علیه وسلم اوتى من الجمال مالم یوته احد ولم یوت یوسف الا شطر الحسن واوتى نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم جمیعه.4
  حضرت ابو نعیم فرماتے ہیں : حضرت یوسف کوتمام انبیاء ومرسلین بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ حسن وجمال دیاگیا تھے۔ مگر ہمارے نبی اوراﷲ کے حبیب کو وہ حسن وجمال عطا ہوا جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔حضرت یوسف کو حسن وجمال کا ایک جز ملا تھا اور آپ کو حسنِ کُل دیا گیا۔

حسنِ مصطفیٰﷺاور انسانی بصارت کی محدودیت

رہی بات کہ چہار دانگِ عالم میں حسنِ یوسف کا چرچہ کیسے ہےتو اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم کا حسن اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت ظاہر ہی نہیں ہواورنہ اسی حسن کامل کا ذکر ہر مخلوق کی زبان زدِ عام ہوتا۔اس حوالہ سے روشنی ڈالتے ہوئے امام عبد الملک بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری لکھتے ہیں:

  قال ابو سعد رحمه للّٰه:لم یظھر لنا تمام حسنه صلى اللّٰه علیه وسلم لانه لو ظھر لما طاقت اعیننا رؤیته.5
  امام ابو سعد نیشاپوری فرماتے ہیں :سرکارد و عالم کا تمام حسن ہمارے لیے ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ اگر حضور نبی کریم اپنے تمام حسن کے ساتھ جلوہ فرما ہوتے تو ہماری آنکھیں ان کی دید کی طاقت نہ رکھتیں۔

اسی طرح امام زرقانی لکھتے ہیں:

  وقد حکى القرطبى فى كتاب الصلاة عن بعضھم انه قال: لم یظھرلنا تمام حسنه صلى اللّٰه علیه وسلم لانه لو ظھر لنا تمام حسنه لما اطاقت اعیننا رؤیته صلى اللّٰه علیه وسلم.6
  امام قرطبی کتاب الصلوٰۃ میں بعض علماء سے روایت کرتے ہیں فرمایا: سرکار دو عالم کا تمام حسن ہمارے لیے ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ اگر حضور نبی کریم اپنے تمام حسن کے ساتھ جلوہ فرما ہوتے تو ہماری آنکھیں ان کی دید کی طاقت نہ رکھتیں۔

اس لیے مولا کریم نے اپنی حکمت بالغہ سے اپنے محبوب کے حسن وجمال کو صرف اتنا ظاہر ہونے دیا جس کی لوگ تاب لاسکیں اور چشمہ فیض کے قریب پہنچ کر اپنی پیاس بجھا سکیں۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کے محبوب کے حسن و جمال کی ساری اداؤں کا احاطہ کرلے تو یہ ممکن نہیں۔

چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلویفرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد شاہ عبد الرحیم کو خواب میں حضور نبی کریم کی زیارت نصیب ہوئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! زنان مصرنے حضرت یوسف کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بعض لوگ انہیں دیکھ کر بیہوش بھی ہوجاتے تھے لیکن کیا سبب ہے کہ آپ کو دیکھ کر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوتیں؟ اس پر نبی کریم نے فرمایا میرے اﷲ نے غیرت کی وجہ سے میرا جمال لوگوں سے مخفی رکھا ہے اگر وہ کما حقہ آشکار ہوجاتا تو لوگوں پر محویت وبے خودی کا عالم اس سے کہیں بڑھ کر طاری ہوتا جو حضرت یوسف کو دیکھ کر ہوا کرتا تھا۔ 7

اسی طرح اس حوالہ سے امام محمد مہدی فاسیالشیخ ابو محمد عبد الجلیل القصری کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وحسن یوسف وغیرہ جزء من حسنه لانه على صورة اسمه ولولا ان للّٰه تبارك وتعالىٰ ستر جمال صورة محمد صلى اللّٰه علیه وسلم بالھیبة والوقار واعمى عنه آخرین لما استطاع احد النظر الیه بھذه الابصار الدنیویة الضعیفة.8
  حضرت یوسف اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن وجمال حضور کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ آپ کے اسم مبارک کی صورت پر پیدا کیے گئے ہیں۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔

آپ سرتا قدم حسن مجسم تھے اوریہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ جسدِ اطہر کے کس حصہ کا صوری کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھورہا ہے ؟صحابہ کرام آپ کے سراپائے حسن کو دیکھ کر بےخود اور مبہوت ہوکر رہ جاتے اور آپ کے حسن سراپا کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذات مصطفوی کا حسن سرمدی اظہار وبیان سے ماورا تھا اور اہل عرب زبان وبیان کی فصاحت وبلاغت کے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود بھی اسے کما حقہ بیان کرنے سے عاجز تھے۔

حسن مصطفیٰ ﷺکا بے مثل وبے مثال ہونا

حضرت علی بن ابی طالب جیسی شخصیت کاآپ کے حسن ِسراپا کے بارے میں فرمان مبارک جو حضور کی تعریف کرتے کرتے آخر میں اعترافِ عجز کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  لم ارقبله ولا بعده مثله.9
  ان جیسا حسین و جمیل نہ کبھی پہلےدیکھانہ بعدمیں۔

یعنی کہ آپ کےحسن بے مثال کا یہ عالم تھا کہ زبان کو عالم حیرت میں یہ کہنا پڑا کہ ایسا حسین و جمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعد۔

حضرت علی یمن تشریف لائے تو بیت المقدس کے ایک یہودی عالم نے حضور کے حلیہ مبارک کے بارے میں آپ سے سوال کیا ۔جب آپ نےتعریف کرتے ہوئے آخر میں اعتراف عجز کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا حسین و جمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعدتو اس یہودی عالم نے کہا:

  یاعلى انى اصبت فى التوراة ھذه الصفة وقد ایقنت ان لا اله الا للّٰه وان محمدا رسول اللّٰه.10
  اے علی! میں نے تورات میں بھی آخری نبی کی یہی نشانیاں پڑھی ہیں اور مجھے یقین ہوگیا ہے کہ بلا شبہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور (سیّدنا)محمد اللہ کے رسول ہیں۔

اسی طرح رسول اکرم کے حسنِ کامل کو بیان کرنے سے انسان کے عجز کو تحریر کرتے ہوئے حضرت ملا علی قاری رقمطراز ہیں:

  (یقول ناعته) اى: واصفه اجمالا عجزا عن بیان جماله وكماله تفصیلا لم ارقبله ولا بعده مثله علیه الصلوٰة والسلام اذ لیس فى الناس من یماثله فى جمال ولا فى الخلق من یشابھه على وجه الكمال.11
  حضور کی تعریف کرنے والا حضور کے جمال اور کمال کے تفصیلی بیان سے عاجز آکر اجمالاً یوں کہتا ہے کہ میں نے حضور جیسا نہ حضور سے قبل دیکھا نہ حضور کے بعد۔اس لیے کہ تمام لوگوں میں ایسا کوئی نہیں جو جمال میں حضور کے مماثل ہو اور نہ مخلوق میں ایسا ہے جو علیٰ وجہ الکمال حضور سے مشابہ ہو۔

نیز حضرت ملا علی قاری اس فرمان مبارک ’’لم ارقبلہ ولا بعدہ مثلہ ‘‘ 12کے تحت اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

  اى مماثلا ومساویا له فى جمیع مراتب الكمال خلقا فى الاحوال وھذا فذلكة شاھدة لعجزه عن مراتب وصفه ومناقب نعتة.13
  یعنی کوئی ایسا نہیں جو تمام مراتب کمال اور خلقا (وخلقا)تمام احوال میں حضور کے مماثل اور برابر ہو۔ اور یہ ایسا خلاصہ ہے جو حضور کے مراتب وصف اور مناقب نعت سے عاجزی پہ شاہد ہے ۔

آپ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

  فھذه فذلكة مشتملة على اظھار العجز عن غایة وصفه ونھایه نعته.14
  یعنی کوئی ایسا نہیں جو تمام مراتب کمال اور خلقا (وخلقا)تمام احوال میں حضور کے مماثل اور برابر ہو۔ اور یہ ایسا خلاصہ ہے جو حضور کے مراتب وصف اور مناقب نعت سے عاجزی پہ شاہد ہے ۔

حضرت خالد بن ولید جیسے جلیل القدر صحابی رسول جن کوامت نبى ‘‘سیف اللّٰه’’ کے لقب سے پکارتی ہے وہ بھی اسی عجز کو بیان کرتے ہیں۔چنانچہ روایت میں ہے کہ کسی سائل کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:

  فقال له سید ذلك الحه صف لنا محمداصلى اللّٰه علیه وسلم فقال: اما انى افصل فلا لعجزى عن التفیل لان صفاته لا یمكن الاحاطة بھا.15
  قبیلہ کے سردار نے حضرت خالد بن ولید سے پوچھا کہ ہمیں حضرت محمد رسول اﷲ کی تعریف سنائیں تو حضرت خالد نے فرمایا کہ میں حضور کی تعریف مفصل طور سے بیان کروں؟ایسا تو نہیں ہو سکتا اس لیے کہ میں تفصیل بیان کرنے سے عاجز ہوں۔کیونکہ حضور کے (حسن وجمال وکمالات و) صفات کا احاطہ نہیں ہوسکتا۔

سیف اللہ حضرت خالد بن ولید کے اس قول سے ظاہر ہوا کہ آپ کی نظر میں اوصاف سیدِ دو عالم کا احاطہ و حصر ممکن نہیں۔ حضور کے لیے ہر کمال ثابت ہے بلکہ ہر کمالِ متصورہ سے فزوں ہے۔ جب سیف اﷲ جیسی شخصیت توصیف ِسیدِدو عالم سے کما حقہ عاجز ہے تو آج کا بندہ اس حسن وجمال کو کیسے بیان کرسکتا ہے؟

جمالِ محمدی ﷺکا دلیل نبوت ہے

قرآن نے آیت نور میں اس بات کو بڑے ہی حسین پیرائے میں بیان کیا ہے کہ اگر آپ اعلان نبوت نہ بھی کرتے تو آپ کی زیارت سے مشرف ہونے والے لوگ آپ کے حسن و جمال اور محاسن وکمالات کو دیکھ کر از خود محسوس کرلیتے کہ آپ اﷲ کے نبی ہیں۔چنانچہ اس رمزِ خلقت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:

  یكادُ زَیتُھا یضِىءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْه نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ یھدِى اللّٰه لِنُورِه مَن یشَاءُ.16
  قریب ہے اس کا تیل روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور علی نور ہے اﷲ تعالیٰ اپنے نور کے لیے جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔

اس آیت کریمہ کے تحت امام شامی صالحی نفطویہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

  وقال نفطویه رحمه للّٰه تعالىٰ فى قوله تعالىٰ یكادُ زَیْتُھا یضِىءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْه نَارٌ ھذا مثل ضربه للّٰه تعالىٰ لنبیه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول: یكاد نظره یدل على نبوته وان لم یتل قرآنا كما قال ابن رواحة.17
  نفطویہنے رب تعالیٰ کے اس فرمان "قریب ہے اس کا تیل روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے"کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ضرب المثل رب تعالیٰ نے اپنے نبی کریم کے لیے بیان کی ہے یعنی آپ کی نگاہ ناز ہی آپ کی نبوت پر دلالت کرتی تھی اگرچہ آپ قرآن پاک کی تلاوت نہ بھی کریں جیسا کہ ابن رواحہ کا کہناہے۔

مذکورہ بالا عبارت میں مصنف نے صحابی ِ رسول حضرت عبداﷲ بن رواحہ کے اس شعر کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں آپ نے اسی بات کو اپنے منفرد انداز میں بیان فرمایا ہے۔چنانچہ ان اشعار کو نقل کرتے ہو ئے اما صالحی تحریر فرماتے ہیں:

  لو لم تکن فیه آیات مبینة
كانت بداھة نبیک بالخبر.18
  اگر آپ کے پاس واضح معجزات نہ بھی ہوتے پھر بھی آپ کا سراپا آپ کے بارے میں سچی خبر بتادیتا۔

اسی طرح حضرت علامہ آلوسی اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

  یكادزیت استعدادہ صلوات للّٰه تعالىٰ وسلامه علیه لصفاه وزكاه یضى ولولم یمسه نور القرآن. روى البغوى عن محمد بن كعب القرظى تكاد محاسن محمد صلى اللّٰه علیه وسلم تظھر للناس قبل ان یوحى الیه.19
  اگر نورِقرآن آپ کو مس نہ بھی کرتا تب بھی آپ اپنی پاکیزگی اور کمالِ حسن کی وجہ سے جگمگا اٹھتے۔ امام بغوی نے امام محمد بن کعب قرظی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ آپ کے محاسن وکمالات نزول وحی سے قبل بھی لوگوں پر واضح و ظاہر تھے۔

اسی حوالہ سے روشنی ڈالتے ہوئے قاضی ثناء اﷲ پانی پتی لکھتے ہیں :

سیّدنا ابن عباس نے حضرت کعب الاحبار سے کہا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے فرمایا:

  ھذا مثل ضربه للّٰه لنبیه صلى اللّٰه علیه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیھا النبوة یكاد نور محمد صلى اللّٰه علیه وسلم وامرہ یتبین للناس ولو لم یتكلم انه نبى كما كان یكاد ذلك الزیت.20
  یہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مثال بیان کی ہے "مشکوٰۃ "سے آپ کا سینہ اقدس، "زجاجہ " سے قلب انور اور اس میں "مصباح "سے مراد نور نبوت ہے۔ یعنی اگر آپ ﷺاپنے منہ سے اعلان نبوت نہ بھی کرتے تب بھی آپ کے انوار و کمالات سے آپ کی نبوت واضح ہوجاتی۔

مشرف بن فارض نے رسول اکرم کے حسن وجمال کو بیان کرنے سے عجز کو اپنے اشعار میں بہت خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔ان کے اشعار نقل کرتے ہوئے امام صالحی لکھتے ہیں:

  و علی تفنن واصفیه بحسنه
یفنی الزمان وفیه ما لم یوصف.21
  آپ کے سراپا کو بیان کرنے والے گونا گوں افراد کا زمانہ ختم ہوگیا ہے مگر آپ کا ایک وصف بھی(کماحقہ ) بیان نہیں ہوسکا۔

اسی حوالہ سے اشعار کہتے ہوئے عاشقِ رسول امام بوصیری فرماتے ہیں:

  فھو الذي تم معناہ وصورته
ثم اصطفاہ حبیبا بارئ النسم
منزہ عن شریک فی محاسنه
فجوھر الحسن فیه غیر منقسم
أعيا الورى فهم معناه فليس يرى
في القرب والبعد فيه غير منفحم
کالشمس تظھر للعینین من بعد
صغیرۃ وتکل الطرف من امم.22

  آپ وہ ذات بابرکات ہیں جس کی صورت اور سیرت مکمل ہوگئی تو خالق کائنات نے آپ کو اپنا حبیب منتخب کرلیا۔آپ اس امر سے بالاتر ہیں کہ آپ کے اوصاف میں کوئی شریک ہوسکے آپ کا جو ہر ِحسن تقسیم نہیں ہوسکتا۔آپ کے کمالات کے سمجھنے سے قوم کو عاجز کردیا گیا ہے خواہ کوئی آپ کے قریب ہے یا بعید وہ آپ کے کمالات بیان کرنے سے عاجز ہی ہے۔ آپ کی مثال سورج کی سی ہے جو دور سے آنکھوں کو چھوٹا دکھائی دیتا ہے اور وہ نزدیک سے آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔

اسی طرح علی بن ابی وفا نے آپ کے حسن وجمال میں کتنے خوبصورت اشعار کہے ہیں:

  كم فيه للأبصار حسن مدهش
كم فيه للأرواح راح مسكر
سبحان من أنشاه من سبحاته
بشرا بأسرار الغيوب يبشر
فخر الملاح بحسنهم وجمالهم
وبحسنه كل المحاسن تفخر
فجماله مجلى لكل جميلة
وله منار كل وجه نير
إنما مثلوا صفاتك للناس
كما مثل النجوم الماء.23

  آپ میں کتنا ہی حسن ہے جو دیکھنے والے کو مدہوش کردیتا ہے آپ کے حسن میں ارواح کے لیے کتنی ہی لذت اندوز راحت ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی قدرت سے ایک کامل بشر پیدا کیا جو غیب کے اسرار کی بشارت دیتے ہیں۔حسین لوگ اپنے حسن وجمال پر فخر کرتے ہیں جبکہ ہر ہر محاسن آپ کے حسن پر فخر کرتا ہے۔

آپ کا جمال ہر خوبصورتی کی جلوہ گاہ ہے ہر اعتبار سے آپ کی ہرجانب ایک روشن مینار ہے۔ انہوں نے صفات میں حضور کی جلوہ گری کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اس طرح ہے جس طرح پانی میں ستاروں کا عکس ہے جو ستاروں کی حقیقت کو ظاہر کرنے سے عاجز ہے۔

حضور سرورِکونین کی ذات ِ قدسیہ حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ ہی کے دم قدم سے ہیں۔اس بزم ہستی میں آپ ہی کی وہ شخصیت ہے جس میں حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کے تمام کمالات ومحامد بدرجۂ اتم سمودیے گئے ہیں۔حسن وجمال کے سب نقش ونگار آپ کی صورت اقدس میں بدرجہ اتم اس خوبی سے جمع کردیے گئے ہیں کہ ازل تا ابد اس خاکدان ہستی میں ایسی مثال ملنا ناممکنات میں سے ہے۔ عالم انسانیت میں سرورِ کائنات فخر موجودات نبی اکرم بحیثیت عبد کامل ظاہری وباطنی حسن وجمال کے اس مرتبہ کمال پر فائز ہیں جہاں سے ہر حسین کو حسن کی اور ہر جمیل کو جمال کی خیرات نصیب ہورہی ہے۔

یہ پیکرِحسن وجمال دھوکہ نہیں دے سکتا

حضرت طارق بن عبداﷲ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہمارا قافلہ مدینہ طیبہ کے باہر آرام کے لیے رکا۔ اتنے میں حضور نبی کریم وہاں تشریف لے آئے اوراس وقت ہم آپ سے شناسا نہ تھے۔ ہمارے پاس سرخ رنگ کا اونٹ تھا جو حضور نبی کریم کو پسند آگیا ۔آپ نے اونٹ کے مالک سے اسے خریدنے کا اظہار فرمایا اوربالاخر سودا طے ہوگیا۔ چونکہ اس وقت آپ کے پاس اس کی قیمت نہیں تھی توآپ نے قیمت بھجوانے کا وعدہ فرمایا اور اونٹ لے کر چل دیے ۔جب آپ روانہ ہوچکے تو اہل قافلہ میں چہ میگویاں ہونے لگیں کہ کسی نے اس شخص کا نام تک نہیں پوچھا مبادا یہ شخص وعدہ پورا نہ کرے۔ لوگ اس قسم کی قیاس آرائیاں کر ہی رہے تھے کہ قافلہ سالار کی بیوی اہلِ قافلہ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی:

  وللّٰه لقد رایت رجلا كان وجھه شقة القمر لیلة البدر انا ضامنة لثمن جملكم اذ أقبل رجل فقال:انا رسول رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الیكم ھذا تمركم فكلوا واشبعوا واكتالوا واستوفوا فاكلنا حتى شبعنا واكتلنا واستوفینا.24
  اﷲ کی قسم میں نے اس شخص کی زیارت کی ہے اس کا چہرہ چودہویں کے چاند سے بڑھ کر خوبصورت ہے ایسا شخص کبھی دھوکہ نہیں کرسکتا اور میں آپ کی رقم کی ضامن ہوں۔جب شام کا وقت ہوا تو ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں رسول اللہ کا قاصد ہوں ۔یہ کھجوریں بھی خوب پیٹ بھر کر کھالو اور اپنی قیمت بھی پوری کرلو ۔ہم نے خوب پیٹ بھر کرکھایا بھی اور اپنی قیمت بھی پوری کی۔

اسی حوالہ سے امام شامی صالحی لکھتے ہیں

  وقال طارق بن عبید:اقبلنا ومعنا ظعینة حتى نزلنا قرییا من المدینة فاتانا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: الظعینة مارایت وجھا اشبه بالقمر لیلة البدر من وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم .25
  حضرت طارق بن عبید نے فرمایا: ہم عازم سفر ہوئے ہمارے ہمراہ ہودج میں ایک عورت بھی تھی حتیٰ کہ ہم مدینہ طیبہ کے قریب اترے۔ حضور نبی کریم ہمارے پاس تشریف لائے اس عورت نے کہا میں نے کسی کا چہرہ نہیں دیکھا جو چودہویں کے چاند سے ملتا جلتا ہو مگر آپ کا چہرہ سب سے زیادہ ماہِ کامل سے ملتا تھا۔

جلوہ حسنِ مصطفیٰ ﷺ

ربِّ کریم نے آپ کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اس کا ظہور کامل ہوجاتا تو انسانی آنکھ اس کے جلووں کی تاب نہ لاسکتی جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا۔لیکن بشری طاقت کے مطابق صحابہ کرام نے آپ کے کمال ِحسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔چنانچہ امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت براء بیان کرتے ہیں :

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مربوعا وقد رأیته فى حلة حمراء مارأیت شیئا أحسن منه.26
  حضور کا قد مبارک متوسط تھا میں نے آپ کو سرخ رنگ کے حلہ یعنی دوچادروں میں لپٹا ہوا دیکھا میں نے آپ سے زیادہ کسی چیز کو حسین نہیں دیکھا۔

نیز امام بخاری حضرت براء سے ہی ایک دوسری روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت براء نے فرمایا:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا.27
  رسول اﷲ کا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھا۔

اسی طرح امام ترمذی روایت کرتے ہیں:

  عن جابر بن سمرة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فلھو عندى احسن من القمر.28
  حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں: میں نے حضور کو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں (کبھی) آپ کی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف تو آپ میرے نزدیک چاند سے یقیناًزیادہ حسین تھے۔

جمال روئے مصطفی ﷺاور چاند

روایت میں منقول ہے کہ حضرت براء بن عازب سے کسی شخص نے نبی اکرم کے حسنِ بے مثال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ کا جواب یوں تھا:

  اكان وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مثل السیف؟فقال لا بل مثل القمر.29
  کیا رسول اﷲ کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟تو انہوں نے جواباکہا:‘‘نہیں ’’ بلکہ مثل ماہتاب تھا۔

یہ تشبیہات سب تقریبی ہیں ورنہ ایک چاند کیا ہزار چاند میں بھی حضور اقدس جیسا نور نہیں ہوسکتا۔اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں:

  سائل کا مقصد یہ تھا کہ کیا رسول اﷲ کا چہرہ تلوار کی طرح لمبوترا تھا؟حضرت البراء نے جواب دیا: وہ چاند کی طرح گول تھا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ سائل کا مقصد یہ تھا کہ کیا آپ ﷺکا چہرہ تلوار کی طرح روشن اور چمک دار تھا؟ توحضرت البراء نے جواب دیا:نہیں! وہ تلوار سے بڑھ کر روشن اور چمک دار اور چاند کی طرح تھا۔30

اسی طرح حدیثِ مذکور کی شرح کرتے ہوئے علامہ محمد فضیل بن فاطمی مغربی مالکی لکھتے ہیں:

حضرت البراء نے آپ کے چہرہ کو چاند سے تشبیہ دی سورج سے نہیں دی کیونکہ انہوں نے چاند سے تشبیہ دے کر آپ کے چہرہ کی ملاحت کا ارادہ کیا تھا ۔جبکہ سورج کے ساتھ تشبیہ سے اشراق اور چمک کا ارادہ کیا جاتا ہے۔دوسرے صحابہ نے آپ کے چہرہ کو سورج کے ساتھ بھی تشبیہ دی ہے اور ان تشبیہات سے مقصود یہ ہے کہ سب سے حسین چیز کے ساتھ آپ کے چہر ہ کو تشبیہ دی جائے ورنہ چاند یا سورج، سب آپ کے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور سب آپ کے نور سے روشن ہیں۔سو یہ تمام چیزیں فروع ہیں اور اصل آپ کا نور ہے۔ 31

اسی طرح امام یوسف نبہانی رسول اکرم کے چہرہ اقدس کو چاند سے تشبیہ دینے کی وجوہات کو تحریرکرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ اکثر حضرات نے قمر سے تشبیہ دی ہے کیونکہ قمر کو مکمل طور پر دیکھا اور مانوس ہواجاتا ہے،دیکھنے سے ایذأ نہیں ہوتی بخلاف شمس کے۔ اسی لیے آپ کے اسماء گرامی میں سے ایک قمر ہے یہی وجہ ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر اہل مدینہ نے آپ کا استقبال کرتے ہوئے یوں کہا:

  طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للہ داعی.32
  ہم پر چودھویں کا چاند ثنیات الوداع پہاڑی سے طلوع ہواہے تو ہم پراللہ کا شکر لازم ہے۔ جو اﷲ کی طرف بلانے والے ہیں۔

عربی زبان میں جمالِ مصطفیﷺکی تشبیہات

یہ تمام تشبیہات عرب کے رسم ورواج کے مطابق دی گئیں ہیں ورنہ کوئی چیز آپ کے صفات خلقیہ و خُلقیہ میں سے کسی کے عشر عشیر کے برابر کبھی نہیں ہوسکتی۔چنانچہ امام قسطلانی فرماتے ہیں:

  ھذه التشبیھات الواردة فى حقه علیه الصلوٰة والسلام انما ھى على سبیل التقریب والتمثیل والا فذاته اعلىٰ.33
  اسلاف نے آقا کے اوصاف کا جو تذکرہ کیا ہے یہ بطور تمثیل ہے ورنہ آقا کی ذات اقدس اور مقام اس سے بہت بلند ہے۔

حضرت حسن مجتبیٰ نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے عرض کی کہ حضور نبی کریم کا حلیہ مبارک مجھے بتائیے آپ نے جواب دیا۔

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما یتلالاوجھه تلالو القمر لیلة البدر...الخ.34
  حضور لوگوں کی نگاہوں میں بڑے جلیل القدر اور عظیم الشان دکھائی دیتے تھے حضور کا چہرہ اس طرح چمکتا تھا جس طرح چودھویں کا چاند۔

اسی طرح اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دخل علیھا مسرورا تبرق اساریر وجھه فقال الم تسمعى ما قال المدلجى لزید واسامة وراى اقدامھما ان بعض ھذه الاقدام من بعض.35
  رسول اﷲ ان کے پاس خوش خوش تشریف لائے آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا تو آپ نے فرمایا کیاتم نے نہیں سنا کہ مدلجی نے زید اور اسامہ کے متعلق کیا کہا ہے؟ اس نے ان دونوں کے قدم دیکھ کر کہاکہ یہ بعض قدم بعض قدموں کا جز ہیں۔

اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ سے منقول روایت تحریر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر رقمطراز ہیں:

  عن عائشة قالت كنت قاعدة اغزل وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخصف نعله قالت فنظرت الیه فجعل جبینه یعرق وجعل عرقه یتولد نورا قالت فبھت قالت فنظر الى فقال ما لك یا عائشة؟ قالت فقلت: یا رسول! نظرت الیك فجعل جبینك یعرق وجعل عرقك یتولد نورا ولو راك ابو كبیر الھذلى لعلم انك احق بشعره قال وما یقول ابوكبیر؟ فقلت یقول:
ومبرا من كل غبر حیضة
وفساد مرضعة وداء مغیل
واذا نظرت الی اسرة وجھه
برقت كبرق العارض المتھلل.36

  ام المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ میں چرخا کات رہی تھی اور حضور نبی کریم میرے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے۔آپ کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے تھے جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ اس حسین منظر نے مجھ کو چرخا کاتنے سے روک دیا۔پس میں آپ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ نے فرمایا تجھے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا آپ کی پیشانی مبارک پہ پسینے کے قطرے ہیں جو نور کے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) آپ کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کرلیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ ہی ہیں۔ حضور نےفرمایا:وہ کیا شعر کہتاہے؟میں نےکہا:وہ کہتا ہے: وہ ہرناپاک خون اور موذی دودھ پلانےوالی دایہ سے محفوظ ہے۔جب میں اس کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں تو اس کی پیشانی کی لکیریں ایسےچمکتی ہیں جیسےآسمان پربجلی کی لکیریں چمکتی ہیں۔

آپ ﷺکاحسن مثلِ آئینہ

رسول اکرم کا حسن ایک آئینہ کی مثل تھاجس میں آپ کا سرور وغم واضح جھلکتا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابو نعیم اصفہانی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ کی روایت میں لکھتے ہیں:

  وكان صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا وانورھم لونا لم یصفه واصف قط بمعنى صفته الا شبه وجھه بالقمر لیلة البدر یقول: ھو احسن فى اعین الناس من القمر یعرف رضاه وغضبه فى سرار وجھه كان صلى اللّٰه علیه وسلم اذا رضى او سر فكان وجھه المرآة واذا غضب تلون وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واحمرت عیناه.37
  آپ کا رخ انور سب سے حسین تر اور رنگ سب سے روشن ترتھا۔ جب بھی کسی نے آپ کا حلیہ بیان کرنا چاہا تو آپ کو چودھویں رات کے ماہ کامل سے تشبیہ دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ بلکہ اسے یہ کہنا پڑتا کہ آپ تو چاند سے بھی زیادہ حسین ہیں۔آپ کی خوشی اور غصہ آپ کے چہرہ کے خطوط سے واضح ہوجاتا جب آپ خوشی اور مسرت میں ہوتے تو چہرہ آئینے کی مانند روشن ہوجاتا اور حالت غضب میں چہرے کا رنگ بدل جاتا اور آنکھیں سرخ ہوجاتیں ۔

آپ کی حالت مسرت وانبساط کا نقشہ سیّدنا ابوبکر صدیق نے یوں کھینچا ہے:

  امین مصطفی للخیر یدعوا
كضوء البدر زایله الظلام
لو كنت من شئ سوى بشر
كنت المنور لیلة البدر.38

  وہ برگزیدہ امین جو بھلائی کی دعوت دیتا ہے۔ اور چہرہ انور کی تابانی ایسے ہے جیسے اندھیرے میں بدر کامل ضوفشاں ہو۔ اگر آپ آدمی نہ ہوتے تو چودھویں رات کے ماہ تاباں ہوتے۔

تو لوگ جناب صدیق اکبر کی تصدیق کرتے اور کہتے کہ ہاں آپ ایسے ہی ہیں۔اور حضرت عمر فاروق آپ کا چہرہ دیکھ کر زہیر بن ابی سلمیٰ کا شعر زبان پر لے آتےتو سننے والے پکار اٹھتے کہ ہاں آپ ایسے ہی ہیں۔

آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبد المطلب نے بھی آپ کے ہجرت کرجانے کے بعد آپ کے فراق میں یوں کہا تھا:

  عینی جودا بالدموعاالسواجم
علی المصطفیٰ كالبدر من ال ھاشم
علی المرتضیٰ للبر والعدل والتقی
وللدین والدنیا مقیم المعالم.39

  میری آنکھو! چھم چھم آنسو بہاؤ۔ اس برگزیدہ ہستی پر جو آل ہاشم میں ایسے ہے جیسے رات میں بدر کامل ہو۔اس پر جو اپنے حسن کردار اور عدل و تقویٰ کے سبب پسندیدہ تر اور دینی و دنیوی علوم کا مخزن ہے۔

محدث امام ابو عبداﷲ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی نے اس روایت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا وانورھم لونا لم یصفه واصف قط الا شبه وجھه بالقمر لیلة البدر وكان عرقه فى وجھه مثل اللؤلؤ اطیب من المسک الاذفر.40
  رسول اﷲ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور خوش رنگ تھے جس کسی نے بھی آپ کی توصیف کی اس نے آپ کو چودہویں کے چاند سے تشبیہ دی۔ چہرہ مبارک میں موتی کی مانند آپ پسینہ اطہر کے قطرات چمکتے نظر آتے تھے جو ازفر اور مشک سے بھی عمدہ قسم کی خوشبو سے مزین ہوتے۔

اسی طرح سیّدنا کعب بن مالک فرماتے ہیں:

  وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا سر استنار وجھه حتى كانه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه.41
  جب حبیب مکرم کسی بات پر خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور چمک اٹھتا گویا کہ آپ کا چہرہ انور چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم لوگ دیکھ کر پہچان جاتے تھے۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام بیہقی لکھتے ہیں:

  وكان احسن الناس وجھا وانورھم لونا لم یصفه واصف قط بلغتنا صفته الا شبه وجھه بالقمر لیلة البدر ولقد كان یقول من كان یقول منھم. لربما نظرنا الى القمر لیلة البدر فنقول ھو احسن فى اعیننا من القمر ازھر اللون نیر الوجه بتلالا تلالو القمر. یعرف رضاه وغضبه فى سروره بوجھه كان اذا رضى او سرفكان وجھه المرآة وكانما الجدر تلاحك وجھه واذا غضب تلون وجھه واحمرت عیناه.42
  آپ سب لوگوں سے حسین ترین چہرے والے تھے اوررنگ کے اعتبار سے سب سے زیادہ روشن۔ آپ کی صفت جس طرح ہم تک پہنچی ہےتو کسی وصف بیان کرنے والے نےاس طرح بیان نہیں کی مگر ان سب نے آپ کو چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔تحقیق ان میں سے جو بھی کہتا تو یہ کہتا کہ ہم بسا اوقات موازنہ کرنے کے لیے کبھی چاند کو دیکھتے تو کہتے کہ حضور ہماری نظروں میں چاند سے کہیں زیادہ حسین ہیں۔آپ پھولوں جیسے چہرے والے تھے اورچہرہ ایسے چمکتا تھا جیسے چودہویں کا چاند چمکتا ہے۔آپ کی خوشی اور ناراضگی آپ کے چہرے سے عیاں ہوجاتی تھی۔ جب آپ خوش ہوتے اور راضی ہوتے تو آپ کا چہرہ ایسے لگتا جیسے آئینہ ہے گویا کہ آپ کے چہرے میں دیواریں نظرآتیں۔ جب آپ غضب ناک ہوتے تو آپ کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں۔

اسی مذکورہ پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے امام زرقانی حاشیہ زرقانی علی المواہب میں نہایہ ابن اثیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

  انه علیه الصلوٰة والسلام كان اذا سر فكان وجھه المرآة التى ترى فیھا صور الاشیاء وكان الجدر تلاحك وجھه اى یرى الجدر فى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم .43
  جب حضور مسرور و خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ مثل آئینے کے ہوجاتا کہ اس میں اشیاء کا عکس نظر آتا اور دیواریں آپ کے چہرہ میں نظر آجاتیں۔

حسنِ مصطفیﷺاورحضرت اُم معبد

سیرت کی کتابوں میں حضرت اُم معبد عاتکہ بن خالد سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں حضرت ام معبد نے رسول اکرم کے حلیہ اقدس کوبیان کیا ہے۔جس سے حسن و جمالِ مصطفیٰ بھی واشگاف ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس روایت میں حضرت اُم معبد بیان کرتی ہیں :

  رسول اﷲ جس وقت مکّے سے نکالے گئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ان میں حضور نبی کریم ، حضرت ابوبکر ،ان کے غلام عامر بن فہیرہ اور ان کو راستہ بتانے والے حضرت عبداﷲ بن اریقط لیثی تھے۔ یہ لوگ قبیلہ بنو خزاعة کی ایک بوڑھی خاتون اُم معبد خزاعیہ کے خیموں کے پاس سے گزرے تو یہ خاتون اپنے خیمے کے صحن میں بیٹھی تھی۔ قبائلی دستور کےمطابق اس خاتون سے کھانے کے لیے گوشت یا کھجور مانگا گیا تاکہ اس بوڑھی اماں سے یہ چیزیں خرید لیں ۔مگر ان حضرات کواس کے پاس کوئی بھی چیز نہیں ملی اور ان کے پاس زادِ سفر بھی ختم ہوچکا تھا جس کی وجہ سے یہ حضرات قحط اور بھوک کی کیفیت میں تھے۔
اُم معبد نے کہا، اﷲ کی قسم اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہوتی تو ہم تمہیں اس کو ذبح کرنے سے بھی نہ روکتے۔ رسول اﷲ کی نظر اتنے میں خیمے کے کونے میں ایک بکری پر پڑی۔آپ نے پوچھا کہ یہ بکری کیسی ہے اے اُم معبد؟ اس نے بتایا کہ یہ ایسی کمزور بکری ہے جو بکریوں کے ساتھ چراگاہ تک چل کر نہیں جاسکتی اس لیے یہ خیمے میں باندھ رکھی ہے۔ حضور نے پوچھا کیا اس بکری کے پاس دودھ ہے؟ اس نے بتایا کہ نہیں یہ دودھ دینے سے معذور ہے۔ حضور نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اس کا دودھ دوہنے کی اجازت دیں گی؟ وہ بولی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اگر آپ کو اس کے پاس دودھ نظر آئے تو ضرور دوہ لیں۔
چنانچہ اجازت ملنے کے بعد حضور نے اس بکری کو اپنے پاس منگواکر اس کی دودھ دانی پر ہاتھ پھیرا، اﷲ تعالیٰ کا نام لیا، اُم معبد کی بکری کے لیے اور اُم معبد کے لیے دعا فرمائی تو بکری نے دودھ دینے کے لیے اپنی ٹانگیں کھول دیں اتنے میں اس کے تھنوں سے دودھ بہنے لگا توآپ نے دودھ دوہنا شروع کردیا ۔حضور نے دودھ کے لیے برتن منگوایا جو تین سے دس آدمیوں کے لیے کافی ہوسکتا تھا ۔حضور نبی کریم نے خود اپنے ہاتھ سے ان میں دودھ نکالا یہاں تک کہ وہ اوپر تک بھر گیا۔ اس کے بعد حضور نبی کریم نے پہلے اُم معبد کو دودھ پینے کو دیا اور وہ پی کر خوب سیر ہوگئیں۔ پھر اپنے ساتھیوں کو پلایا انہوں نے بھی شکم سیر ہوکر پیا پھر رسول اﷲ نے خود پیا اور سب خوش ہوگئے۔ اس کے بعد دوبارہ آپ نے بکری کا دودھ نکالا اور اس کے برتن بھردئیے اور اس دودھ کو اُم معبد کے پاس رہنے دیا اور اس دودھ کی قیمت بھی اسکو ادا کردی اور اس سے کوچ کرگئے۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اُم معبد کا شوہر دوسری بکری لائے پہنچ گیا جو کہ بھوکی اور کمزور تھی اور اس وجہ سے آہستہ چل رہی تھی۔
ابو معبد نے جب اتنی فراوانی سے گھر میں دودھ دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا کہ اےاُم معبد یہ اتنا دودھ کہاں سے آیا؟ بکریاں تو دور چراگاہ میں تھیں اور جبکہ گھر میں کوئی دودھ والا جانور بھی نہیں ہے؟ اُم معبد نے بتایا کہ نہیں، بات یہ نہیں ہے اور فرمایا :

فقالت لا وللّٰه الا انه مر بنا رجل مبارك من حاله كذا وكذا قال صفیه لى یا ام معبد قالت رایت رجلا ظاھر الوضاء ةابلج الوجه حسن الخلق لم تعبه نحلة ولم تزر به صعلة وسیم قسیم. وقال محمد بن موسىٰ وسیما قسیما. فى عینه دعج وفى اشفاره غطف وفى صوته صھل وفى عنقه سطع وفى لحیته كثاثة ازج اقرن. ان صمت فعلیه الوقار وان تكلم سما وعلاه البھاء اجمل الناس وابھاء من بعید، واحلاہ واحسنه من قریب. حلو المنطق، فصل، لا نزر ولا ھزر. كأن منطقه خرزات نظم ینحدرن. ربعة لا یأس من طول، ولا تقتحمه عین من قصر، غصنا بین غصنین فھو أنضر الثلاثة منظرا، وأحسنھم قدرا، له رفقاء یحفون به ان قال أنصتوا لقوله، وان أمر تبادروا الى أمره، محفود محشود لا عابس ولا مفند صلى اللّٰه علیه وسلم...الخ.44

ترجمہ...... ام معبد نے کہا :نہیں بخدا یہاں ایک نہایت بابرکت ہستی تشریف لائی تھی جن کی یہ کچھ صورت حال تھی وہ کہنے لگا مجھے ان کا حلیہ اور شکل و صورت بیان کرو۔کہنے لگی میں نے دیکھا وہ ایک نہایت حسین انسان تھے دمکتا چہرہ تھا۔ پورا جسم حسن کا ایک حسین پیکر تھا۔ نہ پیٹ بڑھا ہوا تھا نہ سر چھوٹا تھا۔ الغرض ہر ہر عضو میں ایک عجیب دل کشی اور نظر نوازی تھی آنکھیں موٹی اور سیاہ۔ پلکیں خم دار اور آواز میں ایک رعب اور وقار، گردن ایک گونہ کشادہ، داڑھی گھنی، ابروبڑے باریک دراز اور باہم ملے ہوئے جب وہ خاموش ہوتے تو چہرے سے جلال ٹپکتا اور گویا ہوتے تو حسن جھلکتا۔ دور سے دیکھو تو حسن و جمال کا پیکر ہیں اور قریب سے مشاہدہ کرو تو کرم و اخلاق کا مظہر ہیں گفتگو ازحد شیریں تھی جس میں کچھ الجھاؤتھا نہ بدگوئی، آپ کی باتیں کیا تھیں موتیوں کا ایک شکستہ ہار تھا، جس کے موتی تسلسل سے جھڑرہے ہوں۔ میانہ قد تھا، نہ اتنا لمبا کہ عجیب سا لگے اور نہ اتنا چھوٹا کہ حقیر نظر آئے بلکہ دونوں کے درمیان کا درجہ تھا جو ان دونوں سے زیادہ جاذب نظر اور حسین ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھ کچھ ساتھی بھی تھے جو آپ کاانتہائی احترام کرتے تھے۔ جب آپ کوئی ارشاد فرماتے تو وہ خاموش ہوکر سنتے اور جب کسی کام کا حکم دیتے تو اسے پورا کرنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ۔میں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو محترم اور مخدوم نہیں پایا درشت روئی اور تند خوئی آپ کے قریب بھی نہ پھٹکی تھی۔

اسی طرح امام دارمی روایت کرتے ہیں:

  عن ابى عبیدة بن محمد بن عمار بن یاسر قال قلت للربیع بنت معوذ ابن عفراء: صفى لنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. فقالت: یا بنى لو رایته رایت الشمس طالعة.45
  حضرت ابو عبید بن محمد بن عمار بن یاسر فرماتے ہیں: میں نے حضرت ربیع بنت معوذ سے عرض کیاکہ آپ حضور کی صفات بیان کریں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: بیٹےاگر تو سرکار دو عالم کے چہرہ انور کو دیکھے تو تو کہے گویا سورج نکلا ہوا ہے۔

اس کی تشریح کرتے ہوئےامام شامی صالحی لکھتے ہیں:

  قال الطیبی رحمه للّٰه تعالىٰ: قولھا "لقلت الشمس طالعة" اى: لرایت شمسا طالعة جردت من نفسه الشریفة شمسا.46
  امام طیبی نے کہا ہے: ان کے قول ”لقلت الشمس طالعۃ“ اس کا معنی ہے کہ گویا کہ تم دیکھتے کہ سورج نکل آیا ہے آپ کے نفس پاک سے ہی سورج کو نکالا گیا ہے۔

حضرت حلیمہ سعدیہ اور حضورﷺکی خوبصورتی

حضرت حلیمہ سعدیہ مکّہ مکرّمہ میں جب نبی کریم کو لینے کے لیے آئیں تو آپ کو بعد از ولادت پہلی باردیکھ کر سراپا حیرت بن گئیں اور ان تاثرات کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

  فاشفقت ان اوقظه من نومه لحسنه وجماله فدنوت منه رویدا فوضعت یدى على صدره فتبسم ضاحكا ففتح عینیه ینظر الى فخرج من عینیه نور حتى دخل خلال السماء.47
  حضور کو ان کے حسن وجمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہوگئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ مسکراکر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور نبی کریم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا۔

حسن مصطفی ﷺکی پاکیزہ چمک

حضور کے حسنِ دلرُبا کو چاندی سے ڈھال کر بنائی گئی دیدہ زیب اشیاء سے تشبیہ دیتے ہوئے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كأنما صیغ من فضه... الخ.48
  حضور نبی کریم (مجموعی جسمانی حسن کے لحاظ سے) یوں معلوم ہوتے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں۔

اسی طرح کی دوسری روایت منقول ہے کہ جس میں حضرت ابوہریرہ نے فرمایا:

  ما رایت شیئا احسن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كأن الشمس تجرى فى وجھه.49
  میں نے کوئی بھی چیز رسول اﷲ سے خوبصورت اور حسین نہیں دیکھی گویا کہ سرکار دو عالمکے چہرہ انور میں سورج رواں دواں ہے۔

اس کی تشریح کرتے ہوئے امام شامی صالحی لکھتے ہیں:

  قال الطیبى: شبه جریان الشمس فى فلكھا بجریان الحسن فى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم. ومنه قول الشاعر:
  یزیدک وجھہ حسنا
اذا ما زدتہ نظرا
وﷲ در القائل
لم لا یضی ء بک الوجود ولیلہ
فیہ صباح من جمالک مسفر
فبشمس حسنک کل یوم مشرق
وببدر وجھک کل لیل مقمر.50
  امام طیبی فرماتے ہیں: سورج کے فلک میں چمکنے کو آپ کےچہرہ انور میں حسن کے رواں ہونے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس سے شاعر کا یہ قول بھی ہے"ان کا چہرہ حسن میں تمہارے لیے اور اضافہ کردے گا جب تم ان کی زیارت کے لیے نظر کا اضافہ کرو گے"اور کسی شاعر نے کتنا خوب کہاہے: آپ کی وجہ سے کائنات اور اس کی رات روشن کیوں نہ ہو۔ اس میں آپ کے جمال کی روشن صبح ہے۔ آپ کے حسن کے سورج کی وجہ سے ہر دن روشن ہے آپکے چہرہ کے چاند کی وجہ سے ہر رات چاندنی والی ہے۔

صحابہ کا بیانِ حسنِ مصطفیٰ ﷺ

جب کبھی صحابہ کرام کسی ایسے شخص کو پالیتے جس نے آپ کی زیارت نہ کی ہوتی تو اسے اپنے پاس بٹھاتے اور پھر نبی کریم کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے تاکہ امتی اپنے نبىکی محبت کو اپنے دل میں نقش کرلیں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ کا معمول تھا کہ جب کسی شخص کو پالیتے جس نے محبوب خدا کے حسن و جمال کا نظارہ نہ کیا ہوتا تو اسے کہتے : کیا میں تمہیں نبی اکرم کےشمائل نہ بتاؤں؟ آپ نرم وگدازقدموں، دراز پلکوں والےتھےآپ کا پیٹ بڑھاہوانہیں تھا۔اگرآپ سامنےکی جانب متوجہ ہوتے تو پورےجسم کے ساتھ اوراگرپیچھےکی جانب متوجہ ہوتے تو بھی پورےجسم کےساتھ پلٹتے ۔اس کے بعد کہتے: میرے ماں باپ آپ پر قربان میں نے آپ کی مثل نہ آپ سےپہلے اورنہ بعد کوئی دیکھا۔51

اسی طرح حضرت ابو طفیل نے ایک دفعہ طواف کے بعد اعلان فرمایا لوگو آؤ مجھ سے اپنے آقا کے بارے میں جو پوچھنا ہے پوچھ لو ۔لو گوں نے آپ سے عرض کیا ہمیں آقا کے حسن وجمال کے بارے میں بتائیےکہ آپ کا حسن وجمال کیسا تھا؟تو انہوں یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا:

  كان ابیض ملیحا مقصدا.52
  آپ گورےخوبصورت تھےنہ بہت موٹےنہ بہت کمزور(لاغر)۔

اسی طرح ایک صحابیہ کے حوالہ سے امام بیہقی روایت کرتے ہیں:

  عن ابى اسحاق الھمدانی عن امراة من ھمدان سماھا قالت: حججت مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فرایته على بعیر له یطوف بالكعبة بیده محجن علیه بردان احمران تكاد تمس منكبه اذا مر بالحجر استلمه بالمحجن ثم یرفعه الیه فیقبله. قال ابو اسحاق فقلت لھا: شبھیه. قالت: كالقمر لیلة البدرلم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم .53
  حضرت ابو اسحاق ہمدانی ایک ہمدانی عورت سے روایت کرتے ہیں اس نے اس کا نام ذکر کیا تھا ۔ اس نے کہا کہ میں نے نبی کریم کے ساتھ کئی بار حج کیا۔ میں نے آپکوان کے اونٹ پر کعبے کا طواٗف کرتےدیکھا۔ ان کے ہاتھ میں عصاتھا۔ حضور نبی کریمکے اُوپر دو سرخ چادریں تھیں جو آپ کے کندھوں تک پہنچتی تھیں۔ جب آپ حجر اسود کے ساتھ گزرتے تھے توعصا کے ساتھ اس کا استلام کرتے تھے۔ پھر اس کو اپنی طرف اٹھالیتے اور اس کو بوسہ دیتے تھے۔ حضرت ابو اسحاق نے کہا :میں نے اس عورت سے کہا :حضور کی مشابہت کس چیز سے تھی؟ کہا: جیسے چودہویں رات کا چاند ہوتا ہے۔میں نے آپ کی مثل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔

اسی طرح امام طبرانی روایت کرتے ہیں:

حضرت ابو قرصافہ فرماتے ہیں کہ جب میں اورمیری والدہ اور میری خالہ حضور نبی کریم کی بیعت کرکے واپس آئے تو میری والدہ اور میری خالہ نے کہا:

  ما راینا مثل ھذا الرجل احسن منه وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.54
  ہم نے اس شخص کی مثل خوبصورت چہرے والا، پاکیزہ لباس والا، نرم اور میٹھے کلام والا کوئی نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کے وقت ان کے منہ سے نور نکلتا ہے۔

آپﷺکی جسمانی وجاہت

حضرت انس نے نبی کریم کی مسلسل دس سال خدمت کی۔آپ نبی اکرم کے جسمانی حسن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  كل شىء حسن قد رایت فمارایت شیئا قط احسن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.55
  میں نے ہر حسین چیز دیکھی ہے لیکن میں نے حضور نبی کریم سے بڑھ کر حسین وجمیل چیز نہیں دیکھی۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت انس فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ربعة ولیس بالطویل ولا بالقصیر حسن الجسم وكان شعره لیس بجعد ولا سبط اسمر اللون اذا مشى یتكفاء.56
  حضور نبی کریم درمیانے قد والے تھے نہ ہی بہت لمبے تھے اور نہ بہت پست قامت بلکہ آپ کا جسم مبارک نہایت خوبصورت تھا۔ آپ کے بال نہ بہت زیادہ گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے۔آپ کا رنگ مبارک گندمی تھا جب آپ چلتے تو طاقت سے چلتے اور دائیں بائیں مائل ہوجاتے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ کے جسم کو‘‘حَسن’’کہا گیا ہے، یہاں‘‘حَسن’’سے مراد ظاہری حُسن ہے۔ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے آپ کو معنوی، اخلاقی اور صفاتی حسن سے مالا مال فرمایا تھابالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے آپکو ظاہری جسمانی حُسن سے بھر پور طور پر نوازا تھا۔چنانچہ امام بخاری ایک روایت نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  كان احسن الناس وجھا واحسنه خلقا.57
  یعنی چہرے کے لحاظ سے آپ بہت خوبصورت تھے اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی سب سے اچھے اور نہایت حسین تھے۔

اسی طرح حضرت انس سے ایک اور حدیث مروی ہے:

  كان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس واجود الناس واشجع الناس .58
  یعنی آپ تمام لوگوں سے بہت حسین تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ کی تینوں قِوٰی (غضبیہ، عقلیہ اور شہوانیہ) کی کمال خوبیوں کو بیان کردیا گیا ہے۔ کیونکہ قوتِ غضبیہ سے خوبی شجاعت کا اظہار ہوتا ہے اور قوت ِشہوانیہ کی اصلاح وارتقاء سے جود وسخاء وجود میں آتی ہے۔ قوتِ عقلیہ کے حسن سے معتدل مزاجی، صفائی قلب، عمدگئِ طبع اور کمال عقل رونماہوتا ہے ۔اس طرح آپ تمام ظاہری اور حسی محاسن و فضائل کے ساتھ ساتھ معنوی اور صفاتی بلندیوں اور بے مثال کمالات سے سرفراز تھے۔

جمالِ مصطفیﷺکی حقیقت مستور تھی

رب کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدار کائنات کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کرسکے۔ انوار محمدی کو اس لیے پردوں میں رکھا گیا کہ انسانی آنکھ جمالِ مصطفی کی تاب ہی نہیں لاسکتی۔ اﷲ ربُّ العزت نے آپ کا حقیقی حسن وجمال مخلوق سے مخفی رکھا۔جیسا کہ امام زرقانی کے حوالہ سے ایک قول پیچھے گزرا کہ حضور کا حسن وجمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر آقائے کائنات کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔59

اسی حوالے سے امام یوسف نبہانی حافظ ابن حجر مکی کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  حضور اقدس کا حسن ِذات عمدہ اخلاق اور روشن صفات کی دلیل ہے کیونکہ آپ اوصاف وکمالات کی انتہا پر پہنچے جہاں کسی نبی کی بھی رسائی نہیں ۔۔۔ الخ۔اس سے معلوم ہوا کہ حسن کامل کی حقیقت آپ ہی ہیں جو اور کسی میں تقسیم نہیں ہوتیں اور اگر اس کو تقسیم کردیا جائے تو وہ کامل ومکمل نہیں رہتا۔ بعض ائمہ کا یہ قول ہےکہ اگر حضور کا پورا حُسن ظاہر ونمایاں ہوتا تو ہماری آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں۔60

اسی طرح حضور نبی کریم کے حسن وجمال کا ذکر جمیل حضرت عمرو بن العاص ان الفاظ میں کرتے ہیں:

  وما كان احد احب الى من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولا اجل فى عینى منه وما كنت اطیق ان املا عینی منه اجلالا له ولو سئلت ان اصفه ما اطقت لانى لم اكن املا عینى منه.61
  میرے نزدیک رسول اﷲ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ سے حسین تر تھا ۔میں حضور رحمتِ عالم کے مقدس چہرہ کو اس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا اگرکوئی مجھے آپ کے محامد ومحاسن بیان کرنے کے لیے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ( حضور رحمت عالم کے حسن جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔

انسانی آنکھ کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت جو اپنے آقا کی بارگاہ بیکس پناہ میں درُودوں کے گجرے اورسلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے تھے وہ آپ کا روئے منوّر دیکھ کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا کرتے تھے۔چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں:

  لما نظرت الى انوارہ صلى اللّٰه علیه وسلم وضعت كفى على عینى خوفا من ذھاب بصرى.62
  میں نے جب حضور کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کیا تو اپناہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیا ۔ اس لیے کہ (روئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہوجاؤں۔

حضرت حسان بن ثابت نے حضور نبی کریم کے کمال حسن کو بڑے ہی دلپذیر انداز میں بیان کیا ہے آپ فرماتے ہیں:

  واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء.63

  آپ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دکھائی دیتا ہے) جیسے آپ کے رب نے آپکی خواہش کے مطابق آپ کی صورت بنائی ہے۔

اسی حوالہ سےشیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

  آنحضرت بتمام از فرق تاقدم ھمه نور بود كه دیده حیرت درجمال با كمال وى خیره میشد مثل ماه وآفتاب تاباں وروشن بود، واگر نه نقاب بشریت پوشیده بودى ھیچ كس رامجال نظر وادراك حسن او ممكن نبودى.64
  حضور رحمت عالم سر انور سے لے کر قدم پاک تک نور ہی نور تھے ۔آپ کے حسن وجمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں۔ آپکا جسم اطہر چاند اور سورج کی طرح منوّر وتاباں تھا، اگر آپ کا جلوہ ہائے حُسن، لباس بشری میں مستور نہ ہوتا تو روئے منوّر کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہوجاتا۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں:

  ان جمال نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم كان فى غایة الكمال...لكن للّٰه ستر عن اصحابه كثیرا من ذلك الجمال الزاھر والكمال الباھر اذ لو برز الیھم لصعب النظر الیه علیھم.65
  ہمارے نبی کریم کا حسن وجمال اوج کمال پر تھا۔۔۔ لیکن رب کائنات نے حضور کے جمال کو صحابہ کرام پر مخفی رکھا اگر آپ کا جمال پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا تو ان پرحضور کے روئے تاباں کی طرف آنکھ اٹھانا بھی مشکل ہوجاتا۔

اسی حوالہ سے ملا علی قاری ایک دوسرے مقام پر قصیدہ بردہ شریف کی شرح میں لکھتے ہیں:

  انه اذا ذكر على میت حقیقى صارحیا حاضرا واذا ذكر على كافر و غافل جعل مؤمنا وھول ذاكرا لكن للّٰه تعالىٰ ستر جمال ھذا الدر المكنون وكمال ھذا الجوھر المصون لحكمة بالغة و نكتة سابقة ولعلھا لیكون الایمان غیبیا والامور تكلیفیا لا لشھود عینیا والعیان بدیھیا اولئلا یصیر مزلقة لاقدام العوام و مزلة لتضر الجمال بمعرفةالملك العلام.66
  اگر خدائے رحیم وکریم حضور کے اسم مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کردے تو اس کی برکت سے مردہ زندہ ہوجائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دور ہوجائیں اور غافل دل ذکر الہٰی میں مصروف ہوجائے۔ لیکن رب کائنات نے اپنی حکمت کاملہ سے حضور کے اس انمول ومحفوظ جوہر کے جمال وکمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید رب کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس ایمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اورمشاہدۂ حقیقت اس کے منافی ہے۔ حضور کے حسن وجمال کو مکمل طور پر اس لیے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلو کا شکار ہوکر معرفت الہٰی سے ہی غافل نہ ہوجائیں۔

حضرت اویس قرنی اور حسنِ مصطفیﷺ

حضرت اویس قرنی کے بارے میں روایت منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت گزاری کے باعث زندگی بھر حضور نبی کریم کی خدمت اقدس میں بالمشافہ زیارت کے لیے حاضر نہ ہوسکے۔لیکن سرکار دو عالم کے ساتھ والہانہ عشق و محبت اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ حضور نبی کریم اکثر صحابہ کرام سے اپنے اس عاشق زار کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ میرے وصال کے بعد اویس قرنی کے پاس جاکر اسے یہ خرقہ دے دینا اور اسے میری امت کے لیے دعائے مغفرت کے لیے کہنا۔

حضور نبی کریم کے وصال کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی حضرت اویس قرنی سے ملاقات کے لیے ان کے آبائی وطن قرن پہنچے اور انہیں آپ کا فرمان سنایا ۔اثنائے گفتگو حضرت اویس قرنی نے دونوں جلیل القدر صحابہ سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی فخر موجودات کا دیدار بھی کیا ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو مسکرا کر کہنے لگے:

  لم تریا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الا ظله.67
  تم نے حضور نبی کریم کے حسن و جمال کا محض پر تو دیکھا ہے۔

ملاعلی قاری بعض صوفیاء کرام کے حوالے سے فرماتے ہیں:

  قال بعض الصوفیة اكثر الناس عرفوا للّٰه عزوجل وما عرفوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لان حجاب البشریة غطت ابصارھم.68
  بعض صوفیا فرماتے ہیں: اکثر لوگوں نے اﷲ رب العزت کا عرفان تو حاصل کرلیا لیکن حضور نبی کریم ﷺکا عرفان انہیں حاصل نہ ہوسکا اس لیے کہ بشریت کے حجاب نے ان کی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔

اسی حوالہ سے شیخ عبد العزیز دباغفرماتے ہیں:

  وان مجموع نوره صلى اللّٰه علیه وسلم لو وضع على العرش لذاب... ولو جمعت المخلوقات كلھا ووضع علیھا ذلك النور العظیم لتھافتت وتساقطت.69
  اگر حضور کے نور کامل کو عرش عظیم پر ظاہر کردیا جاتا تو وہ بھی پگھل جاتا۔اس طرح اگر تمام مخلوقات کو جمع کرکے ان پر حضور کے نورِ مقدسہ کو ظاہر کردیا جاتا تو وہ فنا ہوجاتے۔

عقل ِ انسانی میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟تو شیخ عبد الحق محدث دہلوی اسی بات کی نشان دہی کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  انبیاء مخلوق اند از اسماء ذاتیه حق واولیاء از اسماء صفاتیه وبقیه كائنات از صفات فعلیه وسیدرسل مخلوق ست از ذات حق وظھور حق در وے بالذات ست.70
  تمام انبیاء رسلتخلیق میں اللہ رب العزت کے اسمائے ذاتیہ کے فیض کا پر تو ہیں اور اولیا ء (اللہ کے)اسمائے صفاتیہ کا اور باقی تمام مخلوقات صفات فعلیہ کا پر تو ہیں لیکن سیّد المرسلین کی تخلیق ذات حق تعالیٰ کے فیض سے ہوئی اور حضور نبی کریم ہی کی ذات میں اللہ رب العزت کی شان کا بالذات ظہور ہوا ۔

اسی مسئلے پر امام قسطلانیفرماتے ہیں:

  لما تعلقت ارادة الحق تعالىٰ بایجاد خلقه وتقدیر رزقه ابرز الحقیقة المحمدیة من الانوار الصمدیة فى الحضرة الاحدیة ثم سلخ منھا العوالم كلھا علوھا وسفلھا على صورة حكمه.71
  جب خدائے بزرگ وبرتر نے عالم خلق کو ظہور بخشنے اور اپنے پیمانہ عطا کو جاری فرمانے کا ارادہ کیا تو اپنے انوار صمدیت سے براہ راست حقیقت محمدیہ کو بارگاہ احدیت میں ظاہر فرمایا اور پھر اس ظہور کے فیض سے تمام عالم پست و بالا کو اپنے امر کے مطابق تخلیق فرمایا۔

اسی لیے حضور نبی کریم نے فرمایا تھا:

  یا ابابكر! والذى بعثنى بالحق! لم یعلمنى حقیقة غیر ربى.72
  اے ابوبکر! قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاکہ میری حقیقت میرے پروردگار کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔

حضور نبی کریم کا فرمان مذکورہ بالا تمام اقوال کی نہ صرف توثیق کرتا ہے بلکہ ان پر مہر تصدیق بھی ثبت کرتا ہے۔

حسن وجمالِ مصطفی ﷺکی عظمتوں کا راز دان

جس طرح اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب کی ذات مقدسہ کی حقیقت کو اپنی مخلوقات سے مخفی رکھا اورتجلیات مصطفی کو پردوں میں مستور فرمایا اسی طرح آپ کے اوصاف ظاہری کو بھی وہی پروردگار عالم خوب جانتا ہے۔ محدثین، مفسرین اور علمائے حق کا یہ اعتقاد ہے کہ حضور کے اوصاف ظاہری کی حقیقت بھی مکمل طور پر مخلوق کی دسترس سے باہر ہے۔ اس ضمن میں آپ کے صحابہ کرام اور تابعین عظام نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ بطور تمثیل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ رسول محتشم کی حقیقت کو ان کے خالق کے سوا کوئی نہیں جانتا اس لیے کہ آں ذات پاک مرتبہ دان محمد است۔

اسی حوالہ سے امام ابراہیم بیجوریفرماتے ہیں:

  ومن وصفه صلى اللّٰه علیه وسلم فانما وصفه على سبیل التمثیل والا فلا یعلم احد حقیقة وصفه الا خالقه.73
  جس کسی نے حضورکے اوصاف بیان کیے بطور تمثیل ہی کیے ہیں۔ ورنہ ان کی حقیقت ان کےبنانےوالے(اﷲ) کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔

اسی طرح امام علی بن برہان الدین حلبی فرماتے ہیں:

  كانت صفاته صلى اللّٰه علیه وسلم الظاھرة لا تدرك حقائقھا.74
  حضور کی صفات ظاہرہ کے حقائق کا ادراک بھی ممکن نہیں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

  مرا در تكلم در احوال وصفات ذات شریف وى وتحقیق آں حر جے تمام است كه آں متشابه ترین متشابھات است نزد من كه تاویل آں ھیچ كس جز خدا نداند وھر كسے ھر چه گوید برقدر واندازه فھم ودانش گوید واو صلى اللّٰه علیه وسلم از فھم و دانش تمام عالم برتراست.75
  میں نے حضور کے محامد ومحاسن پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہمیشہ ہچکچاہٹ محسوس کی ہے کیونکہ (میں سمجھتا ہوں کہ) وہ ایسے اہم ترین متشابہات میں سے ہیں کہ ان کی حقیقت پروردگار عالم کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ جس نے بھی حضور نبی کریم کی توصیف بیان کی اس نے اپنے فہم وفراست کے مطابق بیان کی اور حضور کی ذات اقدس تمام اہل عالم کی فہم و دانش سے بالا ہے۔

حسن مصطفی ﷺپر ایمان اساسِ دین ہے

اقلیم رسالت کے تاجدار حضور رسالت مآب مسندِ محبوبیت پر یکتا وتنہا جلوہ افروز ہیں۔ آپ کا باطن بھی حسنِ بے مثال کا مرقع اورظاہر بھی انوار وتجلیات کا آئینہ دار ہے ۔جہاں نقطہ کمال کی انتہاء ہوتی ہے وہاں سے حسن وجمال مصطفی کی ابتدا ہوتی ہے۔ آپ کے حسن وجمال کو بے مثل ماننا ایمان وایقان کا بنیادی جز ہے ۔کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہ نبی بے مثال کو باعتبار صورت و سیرت اس کائنات ہست وبود کی تمام مخلوقات سے افضل واکمل تسلیم نہ کرلے۔

ان تصریحات کے پیش نظر ائمہ امت اور فقہائے کرام نے ایمانیات کے باب میں بیان کیا ہے کہ کسی شخص کا ایمان اس وقت مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہ محبوب خدا کو باعتبار صورت وسیرت روئے زمین پر ابد الآباد تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں سے افضل واکمل تسلیم نہ کرلے۔ اور جو چیز ایمان کا مرکز ہے اس کے بیان سے ایمان کو جلا نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ اس حوالہ سے ملاعلی قاری فرماتے ہیں:

  من تمام الایمان به اعتقاد انه لم یجتمع فى بدن آدمى من المحاسن الظاھرة الدالة على محاسنه الباطنة ما اجتمع فى بدنه علیه الصلوة والسلام.76
  کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ یہ اعتقاد نہ رکھے کہ بلاشبہ آپ کے وجود اقدس میں ظاہری وباطنی محاسن وکمالات ہر شخص کی ظاہری وباطنی خوبیوں سے بڑھ کر ہیں۔

اسی طرح اس حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام ابن حجر مکی ہیتمی تحریر فرماتے ہیں:

  جان لو کہ نبی پر مکمل ایمان تب ہوگا جب یہ اعتقاد ہو کہ آدمی کے جسم میں جتنے محاسن ظاہر ہوسکتے ہیں وہ سب نبی کے جسم میں موجود تھے اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ محاسنِ ظاہرہ محاسنِ باطنہ اور اخلاق زکیہ پر دلیل ہوتے ہیں اوران محاسن میں کوئی شخص آپ سے بڑھ کر ہے اور نہ ہی آپکے برابر ہے۔ 77

اسی طرح شیخ ابراہیم بیجوری فرماتے ہیں:

  ومما یتعین على كل مكلف ان یعتقد ان للّٰه سبحانه تعالىٰ اوجد خلق بدنه صلى اللّٰه علیه وسلم على وجه لم یوجد قبله ولا بعده مثله.78
  مسلمانان عالم اس بات پر متفق ہیں کہ ہر شخص کے لیے سرکار دو عالم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ رب کائنات نے حضور کے بدن اطہر کو اس شان سے تخلیق فرمایا ہے کہ آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کو آپ کے مثل نہ بنایا۔

اسی طرح امام قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  اعلم ان من تمام الایمان به صلى اللّٰه علیه وسلم الایمان بان للّٰه تعالىٰ جعل خلق بدنه الشریف على وجه لم یظھر قبله ولا بعده خلق آدمى مثله صلى اللّٰه علیه وسلم . 79
  جان لو کہ ایمان کی تکمیل کے لیے (بندۂ مومن کا) یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نہ تو حضور سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کسی کو آپ کی مثل حسین وجمیل بنایا۔

حضور کی ذات گرامی پر ایمان کی تکمیل کے موضوع پر امام سیوطی فرماتے ہیں:

  من تمام الایمان به علیه الصلوٰة والسلام الایمان به بانه سبحانه خلق جسده على وجه لم یظھر قبله ولا بعده مثله.80
  ایمان کی تکمیل کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ رب کائنات نے حضور کا وجود اقدس حسن وجمال میں بے نظیر وبے مثال تخلیق فرمایا ہے۔

اسی عقیدہ کی صراحت کرتے ہوئے امام عبدالرؤف منادی فرماتے ہیں:

  وقد صرحوا بان من كمال الایمان اعتقاد انه لم یجتمع فى بدن انسان من المحاسن الظاھرة ما اجتمع فى بدنه صلى اللّٰه علیه وسلم.81
  تمام علماء نے اس امر کی تصریح کردی ہے کہ کسی انسان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ یہ عقیدہ نہ رکھے کہ حضور کی ذاتِ اقدس میں پائے جانے والے محامد ومحاسن کا کسی دوسرے شخص میں موجود ہونا ممکن ہی نہیں۔

یہی امام عبد الرؤف منادی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

  من تمام الایمان به علیه الصلوٰة والسلام الایمان به بانه سبحانه خلق جسده على وجه لم یظھر قبله ولابعده.82
  تکمیل ایمان کے لیے اس بات کا ماننا ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کا جسد اطہر حسن وجمال میں بے نظیر و بے مثال بنایا ہے۔

شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی امام ابن حجر مکی کے قول کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  انه یجب علیك ان تعتقد ان من تمام الایمان به علیه الصلوٰة والسلام الایمان بان للّٰه اوجد خلق بدنه الشریف على وجه لم یظھر قبله ولا بعده فى آدمى مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.83
  (اے مسلمان!) تیرے اوپر واجب ہے کہ تو اس اعتقاد کو حضور پر ایمان کامل کا تقاضا سمجھے کہ اﷲ تعالیٰ نے جس طرح حضور کے جسم مبارک کو حسین وجمیل اور کامل بنایا ہے اس طرح آپ سے پہلے یا بعد میں کسی بھی شخص کو نہیں بنایا۔

ان تمام ائمہ کے اقوال سے واضح اور ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے وجود ِ مسعود کو عالم رنگ وبو میں سب سے اکمل و احسن واجمل و افضل مانا جائے کہ ایمان کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔

تذکرہ جمال محمدی ﷺاساسِ حبِّ رسول ہے

ذکر حسن وجمال مصطفوی سے داعیہ محبت جنم لیتا ہے جو ایمان کی بنیاد ہے۔یہ بات مسلّم ہے کہ دل میں حضور کی محبت کا داعیہ پیدا کیے بغیر انسانی اعمال وافعال کی اصلاح کی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔ داعیہ محبت کے بغیر اصلاح عمل کا ہر قدم ریا کاری اور منافقت پر محمول ہوگا، اطاعت واتباع وہی مقبول و محبوب ہے جس کی بنیاد فقط محبت ہو۔

محبت کامل اطاعت واتباع کی مقتضی ہے جب تک کسی کے قلب وباطن میں حضور کی ذات اقدس سے محبت بدرجہ اتم جاگزیں نہ ہوگی نہ اطاعت کی روح پیدا ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں وہ لذت اور چاشنی آسکتی ہے جو ایمان کو کمال تک پہنچانے کے لیے لازم ولابدی ہے۔

بدیں سبب حقیقی اور کامل ایمان اسی صورت میں ممکن ہے جب حضور کی صورت وسیرت کے ہر پہلو اور ہر گوشے سے رشتہ محبت اتنا مستحکم اور مضبوط تر ہو کہ بندۂ مومن کے ہر عمل پر اس کی چھاپ نمایاں نظر آئے۔اسی حوالہ سے شیخ عبداﷲ سراج الدین شامی لکھتے ہیں:

  وذلك لینال مقام محبته الصادقة لان المعرفة سبب المحبة فكلما زادت المعرفة بمحاسن المحبوب زادت المحبة له.84
  (ان محاسن کا جاننا) اس لیے ضروری ہے تاکہ محبت صادقہ نصیب ہو کیونکہ محاسن کی معرفت محبت کا سبب ہے اور جیسے جیسے محبوب کے محاسن سے انسان آگاہ ہوتا ہےویسے ویسے اس کے ساتھ محبت میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔

حضرت ثمامہ بن اثال جب ایمان لائےتو فرمایا:

  فقد اصبح وجھك احب الوجوه الى ... الخ.85
  اب آپ کا چہرہ میرے نزدیک تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔

حضور ﷺکے شمائل وفضائل سے بے پروائی۔۔۔ایمان ہے

اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ذاتِ اقدس کو جو فضائل ومحاسن عطا فرمائے ہیں کتاب وسنت نے انہیں بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک تمام علماء امت نے ان کو حرزجاں بنایا ہےاورحق تو یہ ہے کہ ان سے غفلت برتنا یا ان کو اہم تصور نہ کرنا شرعا ًبہت بڑا جرم ہے۔

قرآن کریم نے یہود کی برائیوں میں سے اہم برائی یہ بیان کی ہے کہ وہ آپ کے فضائل کے بیان کو پسند نہیں کرتے تھے۔امام ابوبکر الاجری فضائلِ نبی سے غفلت برتنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  قبئح بالمسلمین ان یجھلوا معرفة فضائل نبیھم صلى اللّٰه علیه وسلم وما خصه للّٰه عزوجل به من الكرامات واشرف فى الدنیا و الاخرة. 86
  اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دنیا و آخرت میں جو فضائل ومحاسن اور خصائص عنایت فرمائے ہیں ان سے جہالت (بے خبری) مسلمانوں کے لیے انتہائی مکروہ اور قبیح ہے۔

بیانِ شمائل وخصائل مظہرِ ایمان ہے

اس ضمن میں ایک اصول اور نسخہ کیمیا ہے جسے ہر شخص اپنے ایمان کی پہنچان کے لیے بروئے کارلاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہادئ برحق حضور کے ذکر جمیل سے اس کا ظاہر وباطن کیا اثر قبول کرتا ہے؟اگر آپ کے سراپا مبارک، حسن وجمال اور شمائل وفضائل کے ذکر سے کوئی انسان اپنے دل کے اندر راحت وفرحت محسوس کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل کی زمین بحمداﷲ ایمان سے شاداب وآباد ہے کیونکہ دل کی زمین کی صفائی اور نظافت و پاکیزگی آپ کی ذات وصفات سے محبت ہی سے ممکن ہے اور اسی سے ایمان کا پودا نمو پاکر شجر سایہ دار کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

اس کے برعکس اگر ذکرِ مصطفوی سے دل لذت وحلاوت کی بجائے معاذ اللہ اکتاہٹ، بے رغبتی اور بیزاری محسوس کرے، حلیہ مبارک اور شمائل نبوی کے بیان سے طبیعت کو فرحت وراحت اور سرور وانبساط کی بجائے وحشت وتکدر ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا خانۂ دل آقائے دوجہاں کی محبت والفت سے خالی ہے۔چنانچہ امام بخاری حضرت انس سے ایک روایت نقل کرتے ہیں:

  عن انس قال: قال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : لا یؤمن احدكم حتى اكون احب الیه من والده و ولده والناس اجمعین.87
  حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲنے فرمایا :تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ترہوجاؤں۔

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:

  ثلاث من كن فیه وجد حلاوة الایمان ان یكون للّٰه ورسوله احب الیه مما سواھما وان یحب المرء لا یحبه الا للّٰه وان یكره ان یعود فى الكفر كما یكره ان یقذف فى النار.88
  تین باتیں جس میں ہوگی وہ حلاوت(چاشنی) ایمان پاجائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس مرد مومن کے نزدیک اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ دوسری بات یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے کرےاور تیسری بات یہ کہ کفر سے نجات پالینے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتاہو۔

اس حدیث میں ایمان کی بنیاد اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ کی محبت کو بتایا گیا۔ اور اس محبت کو ایمان کی دوسری حلاوتوں پر مقدم کرکے اس کی غیر معمولی اہمیت بھی بتادی گئی جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ محبت رسول ہی اصلِ ایمان ہے۔

اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے شیخ عبداﷲ سراج الدین شامی لکھتے ہیں:

  ان للّٰه تعالىٰ اوجب على المومنین ان یحبوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فوق محبة الآباء والابناء والازواج والعشیرة والتجارة والاموال واوعد من تخلف عن تحقیق ذلك بالعقاب فقال سبحانه قل ان كان آباء كم وابناء كم واخوانكم الآیة 89 ولاریب ان اسباب المحبة ترجع الى انواع الجمال والكمال والنوال كما قرره الامام الغزالى وغیره. فاذا كان الرجل یحب لكرمه او بشجاعته او لحلمه او لعلمه او لتواضعه او لتعبده او تقواه او لزھده وورعه او لكمال عقله او وفور نعمه او جمال ادب او حسن خلقه او فصاحة لسانه او حسن معاشرة او كثرة بره و خیره او لشفقته ورحمته او نحو ذلك من صفاة الكمال فكیف اذا تاصلت واجتمعت ھذه الصفات الكاملة وغیرھا من صفات الكمال فى رجل واحد وتحققت فیه او صاف الكمال ومحاسن الجمال على اكمل وجوھھا الا و ھوالسید الا كرم سیدنا محمدصلى اللّٰه علیه وسلم الذى ھو مجمع صفات الكمال ومحاسن الخصال قد ابدع للّٰه تعالى صورته العظیمة وھیئته الكریمة وطوى فیه انواع الحسن والبھاء بحیث یقول كل من نعته لم یرقبله ولا بعده مثله.90
  اﷲ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر یہ لازم و واجب کردیا ہے کہ وہ نبی کریم کو اپنے والدین، اولاد، بیوی، خاندان، تجارت اور اموال سے بڑھ کر محبوب سمجھیں اور اس کے خلاف کرنے والے کو عذاب کی وعیدسنائی ہے ۔جیساکہ ارشاد ربانی ہے: اے محبوب( ) فرمادیجیے: اگر تم اپنے والدین اولاد اور بھائی۔۔۔(الآیۃ) بلا شبہ اسباب محبت کی وجوہ یہ ہی ہوسکتی ہیں ،حسن وجمال کمال اور احسان امام غزالی وغیرہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ جب کسی آدمی سے اس کی ایک صفت کی وجہ سے محبت کی جاتی ہے مثلاً اس کاکرم یا اس کی بہادری حلم یا علم یا تواضع یا عبادت وتقویٰ یا زہد وورع یاکمال عقل یا بہتر فہم یا جمال ادب یا حسن اخلاق یا فصاحت زبان یابہتر برتاؤ یا کثرت نیکی یاشفقت و رحمت یا اس کی مثل کسی اور وجہ سے اور جب یہ تمام صفات ایک شخصیت میں جمع ہوجائیں اور یہ تمام اوصاف و محاسن اپنے شباب وکمال پر بھی ہوں تو اس وقت اس شخصیت سے محبت کا عالم کیا ہوگا اور یہ شخصیت ہمارے آقا کی ہے کیونکہ آپ تمام صفات کاملہ اور محاسن فاضلہ کے جامع ہیں اﷲ تعالیٰ نے آپ کی عظیم ہیئت و صورت اتنے احسن انداز پر بنائی ہے کہ تمام حسن وجمال کی خوبیاں اس طرح جمع ہوگئی ہیں کہ آپ کا وصف کرنے والا ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ آپ کی مثل کونہ پہلے کوئی دیکھا گیا اور نہ ہی بعد میں دیکھا جائےگا۔

تذکرہ حُسن وجمال مصطفوی تصورِ رسولﷺکا ذریعہ ہے

آپ کے حسن وجمال، جسمِ اطہر اورصورتِ مبارکہ کے تذکرے سے ایک عظیم فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کا دل ودماغ اور ذہن آپ کے تصور سے مالامال اور معمور ہوجاتا ہے۔ کبھی آپ کا حسین وجمیل رخ ِانور کبھی واللیل زلفیں، کبھی پر انوار جبین ِمقدس، کبھی نرم وملائم دستِ اقدس اور کبھی معطر ومطہر جسم کا تصور ذہن کو معطر کیے رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے تابعین صحابہ کرام سے آپکے بارے میں سوال کرتے تھے کہ آپ کا چہرہ مبارک کیسا تھا؟ آپ کی گفتگو کیسی تھی؟ آپکی رفتارکیسی تھی؟ حتی کہ آپ کے جسم کے ہر ہر عضو کے بارے میں پوچھتے تھے۔حضرت امام حسن مجتبی بھی آپ کے حسن مبارک کے بارےمیں سوال کیا کرتے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

  سالت خالى ھند بن ابى ھالة وكان وصافا عن حلیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وانا اشتھى ان یصف لى منھا شیئا اتعلق به... الخ.91
  میں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ (جو حضور کےاوصاف بیان کیاکرتےتھے) سے آپ کے بارے میں پوچھا مقصد یہ تھا کہ میں ان اوصاف کے ذریعے اپنے دل کو آپکی طرف متوجہ کروں۔۔۔الخ۔

حضرت امام حسن کے الفاظ "انا اشتھی ان یصف لی منھا شئ اتعلق بہ " (میں چاہتا ہوں کہ ان اوصاف کے ذریعے آپ کی حسین وجمیل صورت کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرلوں) واضح طور پر اس بات پر دال ہیں کہ صحابہ کرام حضور نبی کریم کی حسین یادوں کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت مبارکہ کو اپنے قلوب واذہان میں ہر وقت محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں رہتے اور وہ آپ کی ہر ہر ادا کو کبھی بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے بلکہ جب بھی آپ کے حسن وجمال کا تذکرہ چھڑتا تو ہر صحابی آپ کی کسی نہ کسی ادا کا اسی طرح ذکر کرتا جیسے وہ اب بھی اس حیات آفریں منظر کا مشاہدہ کررہا ہے۔

حضور کے حسن و جمال کا نظارہ کرنے والی آنکھیں الف الف مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ان کی نگاہیں کائنات کی سب سے حسین ہستی کا دیدار کرتی رہیں، حضور اکرم کےجمال و جلال کی اسیر رہیں اور آپ ہی کے روئےزیبا کے دیدارِ فرحت آثار پوری زندگی پر فزت وربّ ِالکعبۃ کا نعرہ مارتے ہوئے بلا خوف و ہچکچاہٹ جام شہادت نوش فرمالیتے۔ چشم فلک نے محبت و فدائیت کے ایسے واقعات کبھی نہ دیکھے تھے اور نہ ہی حضور جیسا پیکر حسن و جمال دیکھا تھا۔

اہل ِ اسلام کی خوش نصیبی ہے کہ محدثین اور سیرت نگاروں کی کاوشوں سے وہ تمام احادیث جن میں آپ کے حسن و خلق و خلق کا ذکر ہے ان کو محفوظ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

 


  • 1 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص: 12
  • 2 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 314، مطبوعۃ: دارالحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء ، ص: 150
  • 3 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص: 606
  • 4 عبد الرحمن بن ابی بکر جلال الدین سیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص : 309
  • 5 عبد الملک بن محمد بن ابراہیم، شرف المصطفیٰﷺ ،ج-2،مطبوعۃ:دارالبشائر الاسلامیۃ،مکۃالمکرمۃ، السعودیۃ، 1424ھ، ص: 104
  • 6 محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:241
  • 7 شاہ ولی اﷲ، الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین ﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ الشیخ،کراتشی، باکستان، 1410ھ، ص: 161
  • 8 محمد مہدی بن احمد بن علی یوسف، مطالع المسرات، مطبوعۃ: مکتبۃنوریۃرضویۃ، لاہور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 394
  • 9 احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، حدیث:746 ، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 143- 144
  • 10 علاؤ الدین علی متقی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال، حدیث: 1656، ج-7، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1981ء، ص: 172
  • 11 نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج- 1، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)،ص: 29-28
  • 12 احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، حدیث : 746، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 143-144
  • 13 نور الدین علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث: 5782، ج -9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002ء، ص: 3700
  • 14 ایضًا:حدیث :5790 ، ص:3704
  • 15 محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب ،ج -5،مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:240
  • 16 القرآن، سورۃ النور 35: 24
  • 17 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:13
  • 18 ایضاً
  • 19 شہاب الدین محمود بن عبداﷲ آلوسی، تفسیر روح المعانی، ج-9، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت ،لبنان، 1415ھ، ص:363
  • 20 قاضی محمد ثناء اﷲ المظہری، التفسیر المظہری، ج -6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشیدیۃ ،کراتشی، باکستان ، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :5261-5262
  • 21 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:13-14
  • 22 شرف الدين البوصيرى، قصيدة البردة، مطبوعة: دار البيروتى، دمشق، السورية، 1426ھ، ص:227
  • 23 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:13-14
  • 24 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج -5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:381
  • 25 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:10
  • 26 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث :5848، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:1219
  • 27 ایضًا: حدیث:3549، ص :743
  • 28 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:9، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت ،لبنان، 1988، ص:14
  • 29 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3552، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ،مصر، 2003ء، ص:744
  • 30 احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج -4 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت ،لبنان ، 1416ھ، ص:688-689
  • 31 محمد فضیل بن فاطمی مغربی مالکی، الفجر الساطع علی الصحیح الجامع، ج -8، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، 1430ھ، ص:328
  • 32 یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ حامدیۃ، لاہور ، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:253
  • 33 احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت ،لبنان، 1991ء،ص:249
  • 34 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:414، ج -22 ، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ، القاھرۃ ،مصر، ص :155-156
  • 35 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3555، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان ، المنصورۃ ،مصر،2003ء، ص:744
  • 36 ابو الفداءاسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1997ء ،ص :401
  • 37 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی ، دلائل النبوۃ ، ج-2 ، مطبوعۃ :دار النفائس ،بیروت، لبنان، 1986ء، ص:638
  • 38 ایضًا
  • 39 ایضًا
  • 40 محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، لبنان، بیروت، 1996ء،ص:536
  • 41 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3556، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ،مصر2003ء، ص:744
  • 42 احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:300
  • 43 محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج -5 ، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:257
  • 44 احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص 276-279
  • 45 عبداﷲ بن عبد الرحمن الدارمی، سنن الدارمی، حدیث:61، ج -1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع المملکۃ العربیۃ السعودیۃ ،2000ء،ص:204
  • 46 محمد بن یوسف صالحی شامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی القاھرۃ، مصر ، 1997ء ص:11
  • 47 یوسف بن اسماعیل النبہانی، الانوار المحمدیۃمن مواھب اللدنیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول، ترکی، 1014ء، ص:29
  • 48 احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:241
  • 49 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث :8943 ، ج -14، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت، لبنان 2001ء،ص:506
  • 50 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی القاھرۃ، مصر، 1997ء ص:11
  • 51 محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:318
  • 52 احمدبن حنبل ابو عبداﷲ الشیبانی، مسند احمد، ج-39، حدیث: 23797، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ،لبنان 2001ء، ص:215
  • 53 احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:199
  • 54 سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر، حدیث2518 ، ج -3 ، مطبوعۃ: مکتبۃابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر ، 1984ء،ص:18
  • 55 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:12
  • 56 محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث :1754، ج -4، مطبوعۃ: مكتبة مصطفى بابى، مصر، 1975ء،ص :233
  • 57 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3549، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ،مصر، 2003ء، ص:743
  • 58 ايضًا:حدیث: 2820، ص:595
  • 59 محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص:241
  • 60 یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1998ء، ص:101
  • 61 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، ج -1، حدیث:121 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان، ص :112
  • 62 یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:450
  • 63 حسان بن ثابت، دیوان حسان بن ثابت، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:21
  • 64 شیخ عبد الحق دھلوی، مدارج النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: نو لکشور، بھارت، (لیس التاریخ موجودا)، ص :137
  • 65 نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعہ :نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، )لیس التاریخ موجودًا)، ص:9
  • 66 نور الدین علی بن سلطان القاری،الزبدۃ فی شرح البردۃ، مطبوعہ: قدیمی کتب خانۃ، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 67 عبد المحمود ابن الشيخ نور الدائم الطيبى، الشمائل المحمدية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:48
  • 68 نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-1، مطبوعۃ: نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودا)، ص :10
  • 69 عبد العزیز الدباغ، الابریز، مطبوعۃ: طابع عبد الحمید الحنفی، مصر، (لیس التاریخ موجودا)، ص:271
  • 70 شیخ عبد الحق دھلوی، مدارج النبوۃ، ج -2، مطبوعۃ: نو لکشور، بھارت، (لیس التاریخ موجودا)، ص:771
  • 71 احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1991ء،ص:55
  • 72 محمد مہدی بن احمد بن یوسف فاسی، مطالع المسرات مطبوعہ: مکتبہ نوریہ رضویہ، فیصل آباد، باکستان، (لیس التاریخ موجودا)، ص :129
  • 73 ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی، مصر، ص:19
  • 74 علی بن برہان الدین حلبی،السیرۃ الحلبیۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1400ھ، ص :434
  • 75 شیخ عبد الحق دھلوی، شرح فتوح الغیب مطبوعۃ: نو لکشور بھارت،( سن اشاعت ندارد)،ص:340
  • 76 نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج -1، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع،کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :10
  • 77 شہاب الدین احمد بن الحجر الہیتمی، اشرف الوسائل الی فہم الشمائل، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص:32
  • 78 ابراہیم بن محمد بیجوری،المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی مصر، (لیس التاریخ موجودا)، ص:14
  • 79 احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1991ء،ص :248
  • 80 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیرﷺ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:27
  • 81 عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی، شرح الشمائل برحاشیہ جمع الوسائل، ج -1، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودا)، ص:22
  • 82 عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی، فیض القدر شرح الجامع الصغیر، ج -5، مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر، 1356ھ، ص:71
  • 83 یوسف بن اسماعیل النبہانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، 1998ء، ص:101
  • 84 عبداﷲ سراج الدین شامی، سیّدنا محمد رسول اﷲﷺ ، مطبوعۃ:مطابع الاصیل، حلب، سوریا، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:7
  • 85 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:4372، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص :904
  • 86 ابوبکر محمد بن الحسین الاجری،الشریعۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، 1990ء ،ص:1385
  • 87 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:15 ،مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ، مصر، 2003ء، ص:16
  • 88 ایضًا:حدیث:16
  • 89 القرآن، سور التوبۃ24: 9
  • 90 عبداﷲ سراج الدین شامی، سیّدنا محمد رسول اﷲﷺ ، مطبوعۃ:مطابع الاصیل حلب سوریا، (لیس التاریخ موجودا)، ص:6
  • 91 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت لبنان، 1998ء ، ص:12-11