حضور نے خود کبھی اپنی تصویر نہیں بنوائی اور نہ ہی اس ضمن میں کبھی کسی شخص کو آپ کی تصویر بنانے کی اجازت کی نوبت پیش آئی۔ کیونکہ اسلام نے جہاں مجسمہ و بت سازی سے منع کیا ہے وہیں تصویر سازی سے بھی روکا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی مجسمے اور تصاویر کچھ عرصہ کے بعد مورتیوں کی شکل میں ڈھل کر انسانوں کی نگاہ میں مسجود و معبود بن جایا کرتے تھے۔ انسان کی تصویری یادگاریں آنے والی نسلوں کے لیے عظمت تقدیس بن جایا کرتی تھیں۔ انسان کی یہ کمزوری کہ وہ عظمتِ باری تعالیٰ جو ہر انسان اپنی جسمانی نگاہوں سے مشاہدہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا ، کے مقابلہ میں ایسی مادّی اور فانی اشیاء کو رب اور رزّاق مان لیتا تھا جس کو خود اس کی ذات نے گھڑا ہوتاتھا ۔ لہٰذا اسلام جو دین توحید ہے اور اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اعمال میں کسی قسم کے شرک کو روا نہیں رکھتا وہ ایسے کسی بھی عمل کو جائز قرار نہیں دے سکتا تھاجس کے نتیجے میں توحیدِ خالص کا چشمہءِ صافی کسی بھی درجے میں گدلا ہوسکتا ہو۔ چنانچہ مکۃ المکرمہ اور بیت اللہ میں بعثت نبوی کے وقت اصنام پرستی اور تصویر سازی کے وہ مظاہر جنہیں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی وحدانیت کے مقابلہ میں شرک کے مظاہر کے طور پر رکھا گیا تھا ،اسلام نے اُس کے استعمال پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردی۔
ذیل میں جن احادیث انبیائے کرام اور حضور کی تصاویر کا ذکر ہے ان کے بنائےجانےمیں نہ اسلام کا کوئی حکم ہے،نہ کسی نبی کا عمل اورنہ ہی کسی مسلمان نے انہیں بنایا، بلکہ ان کے بنانے میں اسلام اور مسلمان اس سے کلیتاً بری ہیں۔ عیسائی بادشاہ کے اپنے تبرکات میں ان تصاویر کا پایا جانا کسی بھی طور پر کسی مسلمان کی کاریگری نہ تھی ۔ بقول نصرانی بادشاہ کے یہ تصاویر حضرت آدم کی فرمائش پر رب تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائیں اور پھر حضرت آدم کے بعد ذوالقرنین بادشاہ نے وہاں سے نکال کر حضرت دانیال کو تحفتاً دیں اور پھر حضرت دانیال کے حکم سے ان تصاویر کو ریشمی کپڑوں کے ٹکڑوں پر منتقل کیا گیا۔ وہاں سے یہ بادشاہوں کے خزانوں میں شامل ہوئیں اور نسل درنسل ایک بادشاہ سے دوسرے بادشاہ تک منتقل ہوتے ہوتے روم کے شہنشاہ کے خزانے تک پہنچی۔ 1
دوسرے انبیائے کرام کی تصاویر جو حضور کی تصویر کے ساتھ موجود تھیں ان کی تصدیق کا بظاہر کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن صحابہ کرام کا حضور کی تصویر مبارک دیکھ کر تصدیق کرنا اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ باقی ماندہ تمام تصاویر بھی انبیائے کرام کے اصل حلیوں سے بہت حد تک مشابہ تھیں۔ ہم درج ذیل روایات کے دوسرے تمام پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جس خاص نقطہ پر یہاں انسانی فکر کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ کی تصویر میں آپ کے جسمانی خدوخال ، چہرے کی بناوٹ، اعضاء کا تناسب اور زلف عنبریں کی کیفیت اس طرح تھی کہ حسن و جمال اپنے کامل درجہ میں آشکارا ہورہا تھا، یعنی اہلِ کتاب علماء و عوام اور مشائخ و خواص کا اس بات پر قطعی ایمان تھا کہ حضور کی شخصیت نہایت حسین و جمیل ہے۔ اس پورے واقعہ کی تفصیلات ثقہ راویوں کی روایت کے تناظر میں پیش کی جارہی ہیں۔
حضرت موسیٰ بن عقبہ اور حضرت ابوامامہ باہلی سے روایت ہے کہ ہشام بن عاص اور نعیم بن عبداللہ فرماتےہیں :
بعثوا إلى ملك الروم زمن أبى بكر، قال:" فدخلنا على جبلة بن الأيھم، وھو بالغوطة، فإذا علیه ثیاب سود، وإذا كل شىء حوله أسود، فقال: یا ھشام، كلمه، فكلمه ودعاه إلى اللّٰه تعالى، فقال: ما ھذه الثیاب السود؟ قال: لبستھا نذرا، ولا أنزعھا، حتى أخرجكم من الشام كلھا، قال: فقلنا: فواللّٰه، لنأخذنه منك، وملك الملك الأعظم إن شاء اللّٰه، أخبرنا بذلك نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم، قال: فأنتم إذا السمراء؟ قلنا: السمراء قال: لستم بھم، قلنا: ومن ھم؟ قال: ھم الذين یصومون بالنھار، ويقومون الیل، قلنا: نحن ھم واللّٰه، قال: فكیف صومكم؟ فوصفنا له صومنا، قال: فكیف صلاتكم؟ فوصفنا له صلاتنا، قال: فاللّٰه یعلم لقد غشیه سواد، حتى صار وجھه كأنه قطعة من طابق، قال: قوموا، فأمر بنا إلى الملك، قال: فانطلقنا، فلقینا الرسول بباب المدینة، فقال: إن شئتم أتيتكم ببغال، وإن شئتم أتيتكم ببراذين؟ فقلنا: لاواللّٰه، لاندخل علیه إلا كما نحن، قال: فأرسل إلیه أنھم يأبون قال: فأرسل أن خل سبیلھم، قال: فدخلنا متعممين، متقلدين السیوف على الرواحل، فلما كنا بباب الملك، إذا ھو فى غرفة عالیة، فنظر إلینا، قال: فرفعنا رءوسنا، فقلنا: لا إله إلا اللّٰه، قال: فاللّٰه یعلم لنفضت الغرفة كلھا، حتى كأنھا عذق نفضته الریح، قال: فأرسل إلینا إن ھذا ليس لكم، أن تجھروا بدینكم على، فأرسل إلینا أن ادخلوا، فدخلنا، فإذا ھو على فراش إلى السقف، وإذا علیه ثیاب حمر، وإذا كل شىء عنده أحمر، وإذا عنده بطارقة الروم، قال: وإذا ھو یرید أن یكلمنا برسول، فقلنا: لاواللّٰه، لا نكلمه برسول، وإنما بعثنا إلى الملك، فإن كنت تحب أن نكلمك، فائذن لنا نكلمك، فلما دخلنا علیه ضحك، فإذا ھو رجل فصيح يحسن العربیة، فقلنا: لا إله إلا اللّٰه، قال: فاللّٰه یعلم لقد نفض السقف حتى رفع رأسه ھو وأصحابه، فقال: ما أعظم كلامكم عندكم؟ فقلنا: ھذہ الكلمة قال: التى قلتماھا قبل؟ قلنا: نعم، قال: وإذا قلتموھا فى بلاد عدوكم نفضت سقوفھم؟ قلنا: لا، قال: فإذا قلتموھا فى بلادكم نفضت سقوفكم؟ قلنا: لا، وما رأيناھا فعلت ھذا، وماھو إلا شىء ميزت به، فقال: ما أحسن الصدق فما تقولون إذا فتحتم المدائن؟ قالوا: نقول: لا إله إلا اللّٰه، واللّٰه أكبر، قال: تقولون: لا إله إلا اللّٰه ليس معه شىء، واللّٰه أكبر، أكبر من كل شىء؟ قلنا: نعم، قال: فما منعكم أن تحیونى بتحیتكم بينكم؟ قلنا: إن تحیة بيننا لاتحل لك، وتحیتك لاتحل لنا فنحییك بھا، قال: وماتحیتكم؟ قلنا: تحیة أھل الجنة، قال: وبھا كنتم تحيون نبیكم؟ قلنا: نعم قال: وبھا يحییكم؟ قلنا: نعم، قال: فمن كان یورث منكم؟ قلنا: من كان أقرب قرابة، قال: وكذلكم ملوككم؟ قلنا: نعم، قال: فأمر لنا بمنزل كبیر، ومنزل حسن، قال: فمكثنا ثلاثا، ثم أرسل إلینا لیلا، فدخلنا علیه، ولیس عنده أحد، فاستعادنا كلامنا، فأعدناه علیه، فإذا عنده شبه الربعة العظىمة مذھبة، وإذا فیھا أبواب صغار، ففتح منھا بابا، فاستخرج منه خرقة حرير سوداء، فیھا صورة بیضاء، فإذا رجل طویل أكثر الناس شعرا، فقال: تعرفون ھذا؟ قلنا: لا، قال: ھذا آدم، ثم أعاده، وفتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة سوداء، فیھا صورة بیضاء، فإذا رجل ضخم الرأس، عظيم، له شعركشعر القبط، أعظم الناس إلیتین، أحمر العینین، فقال: أتعرفون ھذا؟ قلنا: لا، قال: ھذا نوح، ثم أعاده، وفتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة سوداء، فیھا صورة بیضاء، فإذا رجل أبیض الرأس واللحیة، كأنه حى یتبسم، فقال: أتعرفون ھذا؟ قلنا: لا، فقال: ھذا إبراھيم، ثم أعاده، وفتح بابا آخر فاستخرج منه حریرة سوداء، فیھا صورة بیضاء، قال: قلنا: النبى محمد صلى اللّٰه علیه وسلم، قال: ھذا واللّٰه محمد رسول اللّٰه، قال: فاللّٰه یعلم أنه قام، ثم قعد، ثم قال: آللّٰه بدینكم، إنه نبیكم؟ قلنا: آللّٰه بديننا إنه نبینا، كأنما ننظر إلیه حيا، قال: إنما كان آخر الأبواب، ولكنى عجلته؛ لأنظر ماذا عندكم، ثم أعاده، وفتح بابا آخر، فاستخرج منه خرقة سوداء، فیھا صورة بیضاء، فإذا رجل مقلص الشفتين، غائر العىنىن، متراكب الأسنان، كث اللحیة عابس، فقال: تعرفون ھذا؟ قلنا: لا، قال: ھذا موسى، وإلى جنبه رجل یشبھه غير أن فى عینیه قبلا، وفى رأسه استدارة، فقال: ھذا ھارون، ثم رفعھا، ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه خرقة سوداء، فیھا صورة حمراء، أو بیضاء، وإذا رجل مربوع، فقال: تعرفون ھذا؟ قلنا: لا، قال: ھذا داود، ثم أعاده، وفتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة، أو خرقة سوداء، فیھا صورة بیضاء، وإذا رجل راكب على فرس طویل الرجلین، قصیر الظھر، كل شىء منه جناح تحفه الریح، قال: أتعرفون ھذا؟ قلنا: لا، قال: سلىمان، ثم أعاده، وفتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة سوداء، فیھا صورة بیضاء، وإذا صورة شاب تعلوه صفرة، صلت الجبىن، حسن اللحیة، یشبھه كل شىء منه قال: أتعرفون ھذا؟ قلنا: لا، قال: ھذا عیسى ابن مریم، ثم أعاده، وأمر بالربعة، فرفعت، فقلنا: هذه صورة نبینا، قد عرفناھا، فإنا قد رأیناه فھذه الصور التى لم نرھا كیف نعرفھا أنھا ھى؟ فقال: إن آدم علیه السلام سأل ربه أن یریه صورة نبى نبى، فأخرج إلیه صورھم فى خرق الحریر من الجنة، فأصابھا ذو القرنىن فى خزانة آدم فى مغرب الشمس، فلما كان دانیال صورھا ھذه الصور، فھى بأعیانھا، فواللّٰه لو تطیب نفسى فى الخروج عن ملكى مابالیت أن أكون عبدا لأشدكم ملكة، ولكن عسى أن تطیب نفسى قال: فأحسن جائزتنا، وأخرجنا. وفى روایة شرحبیل: ففتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة بیضاء، إذا فیھا صورة رجل، كأنه صورة آدم سبط ربعة، كأنه غضبان حسن الوجه قال: ھل تعرفون ھذا؟ قلنا: لاقال: ھذا لوط، ثم أعاده، وفتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة بیضاء، فیھا صورة رجل أبیض، مشرب حمرة، أحنى خفىف العارضین، حسن الوجه قال: ھل تعرفون ھذا؟ قلنا: لاقال: ھذا إسحاق، ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة بیضاء، فیھا صورة تشبه صورة إسحاق، إلا أن على شفته السفلى خالاقال: تعرفون ھذا؟ قلنا: لاقال: ھذا يعقوب، ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة بیضاء، فیھا صورة رجل أبیض، حسن الوجه، أقنى الأنف، حسن القامة، یعلو وجھه النور، ىعرف فى وجھه الخشوع، یضرب إلى الحمرة، فقال: ھل تعرفون ھذا؟ قلنا: لاقال: ھذا إسماعیل جد نبیكم، ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه حریرة بیضاء، فیھا صورة رجل كأنه صورة آدم، كأن وجھه الشمس قال: ھل تعرفون ھذا؟ قلنا: لاقال: یوسف، ثم ذكر القصة إلى آخرھا، وزاد: فلما قدمنا على أبى بكر حدثناه بما رأینا، وما قال لنا، وما أدنانا، فبكى أبو بكر، وقال: مسكىن لو أراد اللّٰه به خیرا لفعل، ثم قال: أخبرنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أنھم الیھود یجدون بعث محمد صلى اللّٰه علیه وسلم، فقال اللّٰه عز وجل: {یجدونه مكتوبا عندھم فى التوراة والإنجبل.}2 3
حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دور خلافت میں ہمیں شہنشاہ روم کی طرف سفیر بناکر بھیجا تاکہ اسے دعوت اسلام دیں۔ ہم دمشق میں عیسائی سردار جبلہ بن ایہم غسانی کے پاس پہنچے، اس نے سیاہ کپڑے پہن رکھے تھے اس کے آس پاس کی ہر چیز بھی سیاہ رنگ کی تھی۔ ہم میں سے ایک ساتھی نے اس سے سلسلہ کلام شروع کیا ،اسے دعوت اسلام دی اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھ لیا کہ آپ نے سیاہ کپڑے کیوں پہن رکھے ہیں۔ اس نے کہا میں نے یہ لباس بطور منت پہن رکھا ہے کہ جب تک تم مسلمانوں کو سارے ملک شام سے نکال نہ لوں سیاہ لباس ہی پہنتا رہوں گا۔ ہم نے اسے کہا اللہ تبارک و تعالیٰ کی قسم ہم تجھ سے اور تیرے بادشاہ سے یہ ملک فتح کرلیں گے اور تمہاری بادشاہی ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے، ان شاء اللہ،ہمارے پیارے پیغمبر نے اس بات کی ہمیں خوشخبری دی ہوئی ہے۔ اس نے ہم سے ہماری نماز اور روزہ کے متعلق پوچھا کہ تم نماز کیسے پڑھتے ہو اور روزہ کیسے رکھتے ہو۔ ہم نے اسے اپنی نماز اور روزے کی تفصیل بتائی تو پریشانی سے اس کا رنگ فق ہوگیا، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگ گئیں ، اس نے ہمیں کہا، آپ بادشاہ کو ملنے کے لیے آئے ہیں لہٰذا آپ بادشاہ کے پاس چلے جائیں۔ اس نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ انہیں شاہ روم ہرقل کے پاس پہنچائیں۔ ہم اونٹوں پر سوار تھے جب بادشاہ کے ہاں جانے کے لیے اس کے شہر کے دروازہ کے پاس پہنچے تو ہمیں کہا گیا آپ ان پر سوار ہوکر آگے نہیں جاسکتے ہم تمہارے لیے خچر یا گھوڑے لے آتے ہیں ان پر سوار ہوکر بادشاہ کے ہاں جائیں۔ ہم نے انکار کردیا اور کہا ہم انہی سواریوں پر سوار جائیں گے جن پر آئے ہیں۔ بادشاہ نے اجازت دے دی کہ انہیں انہی سواریوں پر ہی آنے دو۔ہم عمامے باندھے ہوئے تھے تلواریں حمائل کئے ہوئے تھے، اسی حالت میں اونٹوں پر سوار شاہ روم کے دروازے پر پہنچے۔ شاہ روم ھرقل بلند بالکونی میں بیٹھا ہوا ہمیں دیکھ رہا تھا، ہم نے اپنے سروں کو اوپر اٹھاکر کہالَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کیا تھا کہ جب ہم نے سروں کو اوپر اٹھاکر لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کہا تو جس بالکونی میں وہ بیٹھا ہوا تھا وہ یوں تھر تھرا اٹھی جیسے تیز ہوا میں کھجور کا درخت لہراتا ہے۔ اس نے ہمیں پیغام بھیجا کہ تمہیں اس طرح مجھ پر اپنے دین کو ظاہر کرنے کا حق نہیں۔ پھر بادشاہ نے ہمیں اندر بلایا۔ ہم اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ بادشاہ ایک بلند تخت پر بیٹھا ہوا تھا، اس نے سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا، اس کے اردگرد کی ہر چیز بھی سرخ رنگ کی تھی، سرداران روم بھی اس کے پاس موجود تھے، اس کی خواہش تھی کہ ہم براہ راست اس کے ساتھ بات کرنے کی بجائے اس کے نمائندے سے بات کرلیں۔ ہم نے دوٹوک بتادیا کہ ہم کسی نمائندے کے ساتھ بات نہیں کریں گے اگر بادشاہ خود ہم سے بات کرنا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے اگر نہیں تو ہم بات کیے بغیر واپس چلے جاتے ہیں کیونکہ ہمیں شاہ روم سے بات کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے نہ کہ اس کے نمائندے سے ۔ بادشاہ نے ہمیں بالکل اپنے قریب بلالیا ہم نے محسوس کرلیا کہ بادشاہ بہت اچھی طرح سے عربی بول لیتا ہے ہم نے پھر دوبارہ اس کے قریب بلند آواز سے کہا لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ جس سے اس کا تخت لرز اٹھا، سرداران روم جو اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے گھبرا کر اپنے سر اوپر اٹھائے بادشاہ نے ہمیں کہا تمہارے پاس بڑا طاقتور کلام ہے ہم نے کہا یہ کلمہ ہے اس نے کہا کیا اس سے پہلے بھی تم نے یہی کلمہ پڑھا تھا؟ ہم نے کہا بے شک یہی کلمہ ہی پڑھا تھا۔ اس نے پوچھا جب تم کسی دشمن ملک میں پڑھتے ہو تو کیا ان کی عمارتیں بھی لرزجاتیں ہیں؟ ہم نے کہا نہیں اور نہ ہی ہم نے پہلے عمارتیں لرزتی دیکھی ہیں یہ تو صرف تمہارے لیے ایسا ہوا ہے۔ بادشاہ نے کہا تم بہت سچ بولتے ہو پھر بادشاہ نے پوچھا تم شہر فتح کرتے وقت کیا کہتے ہو، ہم نے کہا ہم لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اَکْبَر پڑھتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا تم آپس میں جیسے ایک دوسرے کو سلام کہتے ہو ویسا سلام میرے ساتھ آپ نے کیوں نہیں کیا؟ ہم نے کہا ہمارا سلام آپ کے لیے جائز نہیں اور آپ کا سلام ہمارے لیے جائز نہیں۔ اس نے پوچھا تمہارا سلام کیسا ہے؟ ہم نے کہا جنتی لوگ جو ایک دوسرے کے ساتھ سلام کہیں گے وہ ہمارا سلام ہے۔ بادشاہ نے کہا کیا اپنے نبی کے ساتھ بھی یہی سلام کہتے ہو؟ ہم نے کہا ہاں یہی سلام کہتے ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا تم میں سے جو فوت ہوجائے اس کا وارث کون ہوتا ہے۔ ہم نے کہا جو اس کا قریبی رشتہ دار ہو وہ وارث ہوتا ہے ۔ اس نے کہا کیا تمہارے فرمانرواؤں کے بھی ایسے ہی اس کے قریبی رشتہ دار وارث بنتے ہیں؟ ہم نے کہا ہاں وہی بنتے ہیں۔اس گفتگو کے بعد ہمیں ایک بہت ہی خوبصورت اور وسیع مکان میں ٹھہرایا گیا، وہاں تین دن تک ہم ٹھہرے رہے پھر ایک رات بادشاہ نے ہمیں اپنے پاس بلایا، ہم گئے تو بادشاہ اکیلا بیٹھا ہوا تھا کوئی اور دوسرا شخص اس کے پاس نہیں تھا۔ اس نے پھر ہم سے وہی پہلے والے سوال کیے اور ہم نے وہی جواب دیئے۔ اس کے پاس ایک مربع شکل سنہری رنگ کا خوبصورت نقش و نگار والا صندوق رکھا ہوا تھا جس کے اندر چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے تھے، ہر خانے کا علیحدہ علیحدہ چھوٹا سا دروازہ تھا۔ اس نے ہمارے سامنے صندوق کھولا اور اس کے ایک خانے سے سیاہ رنگ کے ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا نکالا جس پر سفید رنگ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ تصویر بڑے ہی خوبصورت آدمی کی تھی۔ دراز قد ،گھنے سیاہ بال، خوبصورت بڑی آنکھیں۔ بادشاہ نے ہمیں کہا جانتے ہو یہ تصویر کس کی ہے؟ ہم نے کہا ہمیں نہیں معلوم۔ اس نے کہا یہ حضرت آدم کی تصویر ہے پھر اس نے وہ تصویر واپس وہیں رکھ دی جہاں سے اٹھائی تھی۔ اس کے بعد اس نے صندوق کے دوسرے خانے کا دروازہ کھولا اس میں سے بھی سیاہ رنگ کے ریشمی کپڑے پر بنی ہوئی سفید رنگ کی تصویر نکالی یہ بھی بڑے خوبصورت آدمی کی تصویر تھی، خوبصورت بڑی سرخ آنکھیں، سفید رنگت جسم ،حسین و جمیل داڑھی ۔ ہمیں کہا کیا جانتے ہو یہ کن کی تصویر ہے؟ ہم نے کہا نہیں ہم نہیں جانتے۔ اس نے کہا یہ حضرت نوح کی تصویر ہے پھر اس تصویر کو بھی اپنی جگہ پر رکھ کر ایک اور خانے سے ایک اور ریشمی پارچہ تصویر والا نکالا۔ یہ بھی انتہائی حسین و جمیل آدمی کی تصویر تھی۔ کشادہ پیشانی، ستواں ناک، سر اور داڑھی سفید تھی، مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ بادشاہ نے ہمیں کہا جانتے ہو یہ کون ہیں؟ ہم نے کہا نہیں۔ اس نے کہا یہ حضرت ابراہیم کی تصویر ہے۔ پھر بادشاہ نے صندوق کے ایک اور خانے سے ایک اور ریشمی پارچہ نکالا جس پر حسن و جمال کی مرقع تصویر تھی، اس تصویر کی تعظیم میں بادشاہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا پھر بیٹھ گیا۔ ہم نے اس تصویر کو دیکھتے ہی کہا بخدا یہ ہمارے محبوب کی تصویر ہے۔ بادشاہ نے ہمیں کہا:تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ اور تمہارے دین کی قسم کیا واقعی یہ تمہارے نبی کی تصویر ہے؟ ہم نے کہا ہاں اللہ کی قسم یہ تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا بعینیہٖ آپ ہی ہیں، ہم انہیں یوں دیکھ رہے ہیں جیسے ہم آپ کی ظاہر حیات طیّبہ میں آپ کو دیکھتے تھے۔ بادشاہ نے کہا میں نے اس تصویر کو آخری خانے میں رکھا ہوا تھا مگر نکالنے میں جلدی اس لیے کی ہے تاکہ تم سے ان کے متعلق معلوم کرسکوں اور تمہارا امتحان بھی مقصود تھا۔پھر بادشاہ نے ایک اور خانے سے ایک اور تصویر والا سیاہ رنگ کا ریشمی پارچہ نکالا اس پر بھی بڑے خوبصورت حسین و جمیل مرد کی تصویر تھی۔ گندمی رنگت، سیاہ بال، تیز چشم، عمدہ نگاہ، غضبناک شخص کی تصویر تھی۔ بادشاہ نے ہم سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ کن کی تصویر ہے؟ ہم نے کہا ہمیں معلوم نہیں۔ بادشاہ نے کہا یہ حضرت موسیٰ کی تصویر ہے۔ اس تصویر کے پہلو ایک اور حسین و جمیل شخص کی تصویر تھی بال سیاہ، کشادہ پیشانی، خوبصورت مرد کی تصویر نکالی اور بتایا یہ حضرت لوط کی تصویر ہے۔ پھر بادشاہ نے ایک اور خوبصورت مرد کی تصویر نکالی جسم سفید سرخی بہ مائل تھا، متواضع لوگوں کی طرح گردن ایک طرف کو جھکی ہوئی تھی۔ بادشاہ نے بتایا یہ حضرت اسحاق کی تصویر ہے۔ پھر بادشاہ نے ایک اور تصویر نکالی جو حضرت اسحاق کی تصویر سے مشابہ تھی مگر ان کے نچلے ہونٹ پر تل تھا۔ بادشاہ نے بتایا یہ حضرت یعقوب کی تصویر ہے۔ پھر بادشاہ نے ایک اور حسین و جمیل مرد کی تصویر نکالی جسم کی رنگت سفید سرخی مائل تھی، پیشانی بہت زیادہ چمکدار، چہرہ تواضع کا اثر لیے ہوئے تھا، قامت معتدل، خوبصورت ستواں ناک۔ بادشاہ نے بتایا یہ تمہارے پیغمبر ( ) کے جد اعلیٰ حضرت اسماعیل ہیں۔ اس کے بعد حضرت یوسف کی تصویر دکھائی جو حضرت آدمکی طرح تھی۔ پھر بادشاہ نے ایک اور ریشم کے کپڑے کا ٹکڑا نکالا اس پر بھی ایک خوبصورت مرد کی تصویر تھی۔ سرخ رنگ تھا، باریک ساق تھی، میانہ قد تھا، تلوار حمائل کی ہوئی تھی۔ بادشاہ نے بتایا یہ حضرت داؤد کی تصویر ہے۔ پھر ایک اور خوبصورت تصویر والا کپڑا نکالا، تصویر بہت ہی خوبصورت تھی، سیاہ ریش، گھنے بال اور نیلگو چشم۔ بادشاہ نے بتایا یہ حضرت عیسیٰ کی تصویر ہے۔ ہم نے شاہ روم ہرقل سے پوچھا آپ کو یہ تصویریں کہاں سے حاصل ہوئیں؟ بادشاہ نے بتایا کہ حضرت آدم نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ اے رب کائنات میری اولاد سے جو انبیاء کرام ہیں وہ مجھے دکھائے جائیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ تصویریں حضرت آدم کے پاس بھیجیں۔ یہ تصویریں بلاد مغرب میں حضرت آدم کے خزانہ میں محفوظ تھیں۔ ذوالقرنین نے وہاں سے نکال کر حضرت دانیال کو دے دیں۔ حضرت دانیال نے ان تصویروں کو ریشمی کپڑوں کے ٹکڑوں پر منتقل کیا پھر یہ بادشاہوں کے خزانوں میں پہنچیں اور ہم تک پہنچیں۔ یہ تصاویر بالکل وہی ہیں جو حضرت دانیال کے پاس پہنچی تھیں۔ پھر بادشاہ نے ہمیں کہا کاش اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرمائے کہ سلطنت سے دست تصرف کوتاہ کروں اور آپ کے غلاموں کی غلامی میں کمر بستہ ہوجاؤں یہاں تک کہ موت کی آغوش میں چلاجاؤں اور زندگی کا چراغ موت کی تندوتیز ہوا سے گل ہوجائے۔حضرت ہشام بن عاص فرماتے ہیں کہ جب ہم واپس جانے لگے تو بادشاہ نے ہمیں انواع و اقسام شاہانہ الطاف اور خسروانہ عنایات سے نوازا۔ ہم نے واپس آکر تمام سرگذشت سے خلیفۃ المسلمین سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق کو آگاہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق سُن کر روپڑے اور فرمایا اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کو منظور ہوتا تو دولت ایمان سے مشرف ہوتا پھر فرمایا حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ اہلِ کتاب نے تورات و انجیل میں میری صفات پڑھی ہوئی ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نبی برحق ہوں۔ رب العالمین کا ارشاد ہے:یجدونہٗ مکتوباً عندہم فی التّورٰۃ والانجیل ۔ اس نبی ( ) کو اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
نہ صرف رسول اکرماور دیگر انبیاء کرام کی تصاویر ان کے پاس تھیں بلکہ نبی اکرم کے ساتھیوں کی بھی تھیں ۔ جس سے روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب کے پاس جو تصاویر موجود تھیں ، ان پر ان کا مکمل ایمان و اعتقاد تھا اور وہ اس سے بالکل بھی بے خبر نہیں تھے ۔
زیر نظر حدیث میں بھی حضور کی تصویر کی موجودگی کی شہادت ہے۔ آپ کی یہ تصویر اگرچہ کہ بادشاہ کے پاس موجود تصویر کے علاوہ ہے لیکن یہ اس بات پر قطعی دلیل ہے کہ آپ کی تصاویر جو یقیناً اُس اصلی تصویر، جس کے بارے میں مندرجہ بالا روایت میں اللہ کی بارگاہ سے عطا کیے جانے کا ذکر ہے ، کی نقل ہوگی اور یقیناً اس طرح کی اور بھی بہت سی تصاویر اُس وقت کے عیسائی علماء و رہبان کے پاس کلیساؤں میں موجود رہی ہونگی۔ اسی لیے درجہ ذیل اثر میں دو کلیساؤں میں کثرت کے ساتھ تصاویر کی موجودگی کا ذکر ہے جس میں ایک تصویر حضور کی اس طور پر موجود تھی کہ آپ کے ساتھ اس تصویر میں سیّدنا ابوبکر صدیق بھی موجود تھے اور آپ کے دامن کو تھامے ہوئے تھے۔ یعنی حضور کی شخصیت کا پورا خاکہ اہلِ کلیسا کے یہاں موجود تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کے قریب ترین ساتھیوں کی تصاویر اور ان کے اسمائے گرامی کا ذکر بھی کتب سابقہ میں موجود رہا ہے۔ لہٰذا یہاں وہ روایت پیش کی جارہی ہے جس میں حضور کے سراپا مقدس اور حسن و جمال کو آپ کے خلیفہ اوّل کی شخصیت کے ساتھ آسمانی مذاہب کے اہل علم صورتاً ،معناً، علماً ، صفتاً یعنی کماحقہٗ جانتے تھے۔چنانچہ روایت میں ہےحضرت جبیر بن مطعم فرماتےہیں:
لما بعث اللّٰه عز وجل نبیه، صلى اللّٰه علیه وسلم، وظھر أمره بمكة خرجت إلى الشام، فلما كنت ببصرى أتتنى جماعة من النصارى، فقالوا لى: أمن الحرم أنت؟ قلت: نعم. قالوا: أفتعرف هذا الذى تنبأ فیكم؟ قلت: نعم. قال: فأخذوا بیدى فأدخلونی دیرا لھم فیه تماثیل وصور، فقالوا لى: انظر ھل ترى صورة ھذا النبى الذى بعث فیكم؟ فنظرت فلم أر صورته. قلت: لا أرى صورته. فأدخلونی دیرا أكبر من ذلك الدیر، وإذا فیه تماثیل وصور أكثر مما فى الدیر، فقالوا لى: انظر ھل ترى من صورته، فنظرت فإذا أنا بصفة رسول اللّٰه، صلى اللّٰه علیه وسلم، وصورته، وإذا أنا بصفة أبى بكر وصورته وھو آخذ بعقب رسول اللّٰه، صلى اللّٰه علیه وسلم، وقالوا لى: ھل ترى صفته؟ قلت: نعم. قالوا: أھو ھذا؟ وأشاروا إلى صفة رسول اللّٰه، صلى اللّٰه علیه وسلم. قلت: اللّٰھم نعم، أشھد أنه ھو. قالوا: أتعرف ھذا الذى أخذ بعقبه؟ قلت: نعم. قالوا: نشھد أن ھذا صاحبكم، وأن ھذا الخلیفة من بعده.4
جب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم کو مبعوث فرمایاتوآپ کے اعلان نبوت کے بعد میں ملک شام گیا جب میں بصریٰ پہنچا تو وہاں کے کچھ عیسائی لوگ میرے پاس آئے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا تم اہلِ حرم (مکّہ مکرّمہ) سے ہو؟ میں نے کہا ہاں اہلِ حرم سے ہوں۔ انہوں نے کہا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہاں ایک شخص نے دعویٰ نبوّت کیا ہے کیا تم اسے جانتے ہو؟ میں نے کہا میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ مجھے اپنے کلیسا میں لے گئے وہاں تصاویر تھیں، انہوں نے ان تصاویر کی طرف اشارہ کرکے کہا کیا ان تصاویر میں آپ کے ہاں اعلان نبوّت کرنے والے کی تصویر ہے؟ میں نے ان تمام تصاویر کو غور سے دیکھا مجھے ان میں حضور نبی کریم کی تصویر نظر نہ آئی لہٰذا میں نے کہا نہیں، ان میں انکی تصویر نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ مجھے اس سے بڑے کلیسا میں لے گئے اس میں اس سے زیادہ تصاویر تھیں۔ انہوں نے کہا ان تصاویر کو غور سے دیکھو کیا ان میں ان کی تصویر ہے؟ میں نے دیکھا ان تصاویر میں حضور نبی کریم کی تصویر موجود تھی۔ ان تصاویر میں حضرت ابوبکر صدیق کی تصویر بھی تھی جو اپنے نبی کے دامن کو تھامے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا ان تصاویر میں ان کی تصویر ہے جنہوں نے آپ کے ہاں دعویٰ نبوت کیا ہے؟ میں نے کہا ہاں! انہوں نے حضور نبی کریم کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہا کیا یہی ہیں جنہوں نے دعویٰ نبوت کیا ہے؟ میں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ بالکل انہی کی تصویر ہے۔ انہوں نے کہا ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ یہ وہی ہیں اور ساتھ ہی جو ان کے دامن کو تھامے ہوئےہیں یہ ان کے خلیفہ ہیں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ بنی مالک کے ساتھ میں مکّہ مکرّمہ سے مصر و سکندریہ کے حکمران مقوقس کے پاس گیا۔ اس نے تعجب سے ہمیں کہا کہ تم مکّہ مکرّمہ سے یہاں امن و امان و خیریت سے کیسے پہنچ گئے جب کہ ادھر آنے کے لیے راستے میں مدینہ شریف ہے جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبی اور ان کے صحابہ تشریف فرما ہیں ( اور تمہاری ان کے ساتھ جنگیں بھی ہوچکی ہیں اور ان سے تمہاری دشمنی ہے)۔ میں نے کہا، ہم براستہ سمندر آئے ہیں مگر اس راستہ سے بھی ان سے خوف زدہ ہی آئے ہیں۔
مقوقس حاکم مصر نے ہمیں کہا تم نے محمد ( ) کی دعوت پر کیا ردِعمل ظاہر کیا؟ میں نے کہا ہم میں سے کوئی بھی ان پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اس نے کہا تم ان پر کیوں ایمان نہیں لاتے؟ ہم نے کہا وہ ایسا نیا دین لائے ہیں جو ہمارے باپ دادا نے بھی نہیں سُنا اور نہ ہی وہ شاہ مصر مقوقس کا دین ہے۔ اس نے کہا ان کی قوم نے ان کی اس دعوت (اسلام) پر کیا ردِعمل ظاہر کیا ہے؟ ہم نے کہا چند نوجوانوں نے ان کی پیروی کی ہے ان کی اپنی قوم اور عرب قبائل کے کچھ لوگوں سے جنگ بھی ہوئی ہے جس میں کبھی اہلِ مکّہ کو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اور کبھی ان کو۔
مقوقس نے ہمیں کہا سچ بتانا وہ تمہیں کس چیز کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے کہا وہ دعوت دیتے ہیں کہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں (صرف اللہ تبارک و تعالیٰ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کریں اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں)۔ ہم اور ہمارے باپ دادا جن بتوں کی اب تک پرستش کرتے آئے ہیں انہیں ترک کردیں، نیز وہ نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
مقوقس نے پوچھا نماز ،زکوٰۃ کیا ہوتی ہے؟ کیا ان کا کوئی وقت یا تعداد مقرر ہے؟ ہم نے کہا: ہر روز دن اور رات میں پانچ نمازیں ہوتی ہیں، ان کے اوقات مقرر ہیں، ہر نماز خاص مقررہ وقت میں ادا کرتے ہیں، اسی طرح مال سے زکوٰۃ کی تعداد و مقدار بھی معین ہے، زکوٰۃ کے علاوہ بھی ان کے صدقات و خیرات ہیں۔ مقوقس نے کہا کیا جانتے ہو کہ وہ زکوٰۃ خرچ کہاں کرتے ہیں؟ ہم نے کہا وہ غریب اور نادار لوگوں میں اسے تقسیم کردیتے ہیں۔ وہ صلح رحمی اور ایفاء عہد کا حکم دیتے ہیں، سود، زنا اور شراب سے منع کرتے ہیں، غیر خدا کے نام پر ذبیحہ کو حرام سمجھتے ہیں، اس کے گوشت کو بالکل نہیں کھاتے۔ مقوقس نے یہ سُن کر کہا وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور تمام نسلِ انسانی کے رسول ہیں۔ اگر قبط اور اہل روم ان کی دعوت سُن لیں تو فوراً ان پر ایمان لے آئیں گے اور ان کے پیروکار بن جائیں گے کیونکہ سیّدنا حضرت عیسیٰ کا انہیں یہی حکم ہے۔ آپ لوگوں نے ان کی جو صفات بیان کی ہیں پہلے انبیاء کرام بھی انہی صفات سے متصف تھے۔ یاد رکھیں! انجام کار وہی سب پر غالب آئیں گے۔ کسی کو بھی ان سے مقابلہ کی تاب نہیں ہوگی، ان کا دین سمندروں کو چاک کرتا ہوا ہر طرف پھیل جائے گا، ان کی مخالف قوم ہی اپنے نیزوں سے ان کا دفاع کرے گی۔
مغیرہ کہتے ہیں ہم نے کہا اگر تمام دنیا ان پر ایمان لے آئے تو ہم پھر بھی ان کے ساتھی نہیں بنیں گے نہ ہی ان پر ایمان لائیں گے۔ مقوقس نے ہم سے یہ سُن کر حیرانی و استعجاب سے ہماری طرف دیکھا اور کہا تم ابھی تک اسے کھیل سمجھ رہے ہو، یہ بتاؤ ان کا نسب کیسا ہے؟ ہم نے کہا وہ سب سے افضل نسب والے ہیں۔ مقوقس نے کہا: حضرت عیسیٰ اور تمام انبیاء کرام ایسے ہی افضل نسب والے تھے۔ مقوقس نے کہا یہ بتاؤ ان کی گفتگو میں صداقت کا کیا عالم ہے؟ ہم نے کہا صداقت کی وجہ سے ہم نے انہیں صادق و امین کا لقب دے رکھا ہے۔ بادشاہ مقوقس نے کہا، ذرا سوچ و سمجھ سے کام لو اور غور کرو جو تم سے جھوٹ نہیں بولتے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں کیسے جھوٹ بولیں گے۔ بادشاہ نے کہا جو ان پر ایمان لائے ہیں وہ کیسے ہیں؟ ہم نے کہا وہ نوجوان طبقہ ہے ۔ بادشاہ نے کہا مجھے عیسیٰ کی قسم انبیاء کرامکے پیروکار ایسے ہی رہے ہیں۔
بادشاہ نے ہم سے پوچھا مدینہ منوّرہ کے یہودیوں نے ان کے متعلق کیا رویہ رکھا ہے؟ وہ اہل کتاب ہیں، ہم نے کہا۔ انہوں نے زبردست ان کی مخالفت کی ہے ان کی جنگیں بھی ہوئی ہیں، مسلمانوں نے یہودیوں کو قتل بھی کیا ہے اور گرفتار بھی۔ یہودی اب وہاں سے تتر بتر ہوگئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا یہودی صرف حسد میں مررہے ہیں حالانکہ ہماری طرح وہ انہیں خوب پہچانتے ہیں کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ ہم وہاں سے واپس لوٹے تو بادشاہ کی گفتگو سے ہم حضور نبی کریم کے گرویدہ ہوچکے تھے ، ہمیں دل میں بار بار سوچ و خیال آتے تھے کہ ایک وہ ہیں جو سینکڑوں میل دور عجم میں شاہانہ شان و شوکت کے باوجود ان سے ڈر بھی رہے ہیں اور ان کی تصدیق بھی کررہے ہیں جب کہ ہم ان کے رشتہ دار اور پڑوسی ہوکر بھی سعادت ایمان سے محروم ہیں جب کہ وہ ہمیں ہمارے گھروں پر رشد و ہدایت کا پیغام دے رہے ہیں۔ 5
حضرت مغیرہ مصر کے والی مقوقس کی زبان سے مصطفیٰ کریم کی عظمت سن کر اس بات پر مجبور ہوئے کہ ایک طرف مقوقس جو خود بھی مسلمان نہ تھا اور نہ ہی اسلام کی تبلیغ کے شوق میں حضرت مغیرہ کو اسلام کی طرف قائل کررہا تھا بلکہ وہ جو کچھ کہہ رہا تھا اس کی گفتگو میں شاہی دبدبہ، جلال اور تمکنت نہ تھی بلکہ وہ لازماً حضرت مغیرہ کو ان اخبار پر مطلع کررہا تھا جو اعلان نبوت کے بعد غلبہ نبوت محمدی کی صورت میں ظاہر ہونے والے تھے اور یہ ساری خبریں اس تک اس کے اہل مذہب علماء کے توسط سے ہی پہنچی تھیں۔ اور اتنی درستگی حجت اور قابل اعتبار ذرائع سے پہنچی تھیں کہ ملک مصر کا بادشاہ نہایت اعتماد کے ساتھ ساری باتیں، بشارتیں، آئندہ کے واقعات کو بڑے وثوق کے ساتھ سنا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت مغیرہ جنہوں نے اس وقت ہر باری اپنی دشمنی کا اعلان کیا تھا اندر سے ہل کر رہ گئے تھے کہ ایک ملک کے بادشاہ کو جب ان کے غالب ہونے کا اتنا یقین ہے اور وہ حضور سے اس قدر دوری کے باوجود لرزہ براندام ہے تو پھر ہم ان کے قریبی ہوکر بھی ان سے دور ہیں۔ اس بات نے ان کے اندر کی سختی کو توڑ ڈالا تھا۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ ہم واپس وطن کو لوٹتے ہوئے اسکندریہ شہرمیں ٹھہرے۔ میں وہاں سب گرجوں میں گیا، وہاں عیسائیوں کے قبطی اور وصی علماء سے حضور نبی کریم کے متعلق معلومات حاصل کرتا رہا۔ ان میں سے ایک قبطی عالم ابوغیثم نامی جو ان کا سب سے بڑا پادری پوپ تھا سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے بہتر کسی کو پانچ نمازیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا اب کسی نبی کی آمد باقی رہ گئی ہے؟اس نے کہا :
وھو آخر الأنبیاء ليس بینه وبین عیسى نبى قد أمر عیسى باتباعه وھو النبى الأمى العربى أسمه أحمد لیس بالطویل ولا بالقصیر فن عینیه حمرة ولیس بالأبیض ولا بالآدم یعفى شعره ویلبس ما غلظ من الثیاب ویجتزى بما لقى من الطعام سیفه على عاتقه ولا يبالى من لاقى یباشر القتال بنفسه ومعه أصحابه یفدونه بأنفسھم ھم أشد له حبا من آبائھم وأولادھم من حرم یأتى وإلى حرم یھاجر إلى أرض سباخ ونخل یدین بدین إبراھیم قلت زدنى فى صفته قال یأتزر على وسطه ویغسل أطرافه ویخص مالم یخص به الأنبیاء قبله كان النبى یبعث إلى قومه ویبعث إلى الناس كافة وجعلت له الأرض مسجدا وطھورا أینما أدركته الصلاة تیمم وصلى وكان من قبله مشددا علیه لا یصلون إلا فى الكنائس والبیع قال المغیرة فوعیت ذلك كله من قوله وقول غيره ورجعت فأسلمت.6
وہ آخر الانبیاء ہیں، ان کے اور حضرت عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، حضرت عیسیٰ نے ہمیں ان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ وہ نبی امی عربی ہیں ان کا نام نامی اسمِ گرامی احمد ( ) ہے نہ طویل قامت ہوں گے نہ کوتاہ قد ان کی دونوں آنکھوں میں سرخ ڈورے ہوں گے۔ ان کا رنگ نہ بالکل سفید نہ گندمی ہوگا وہ صاحب دراز زلف ہوں گے، سادہ لباس ان کی پہچان ہے، روکھی سوکھی کھالیا کریں گے، تلوار کندھے پر رکھیں گے، جہاد میں بذات خود شرکت فرمایا کریں گے، ان کے ساتھی ان پر جان چھڑکتے ہوں گے، ان کے صحابہ اپنے والدین اور اپنی اولاد سے زیادہ ان سے محبت کریں گے، وہ پتھروں والے علاقے سے ظاہر ہوں گے، حرم سے حرم کی طرف ہجرت کریں گے، وہ دین ابراہیمی کے حامل ہوں گے۔مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں میں نے اسے کہا اس نبی کی کچھ اور صفات کا تذکرہ کریں۔ اس نے کہا وہ کمر پر تہبند باندھیں گے، اعضاء دھویا کریں گے (وضو کیا کریں گے) وہ ان عظمتوں اور شانوں سے آئیں گے جو پہلے انبیاء کرام کو حاصل نہیں ہوئیں۔ ہر نبی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے مگر وہ تمام نسلِ انسانیت کے لیے رسول ہوں گے۔ ان کے لیے تمام روئے زمین مسجد اور پاکیزہ بنادی جائے گی ، جہاں چاہیں گے تیمّم کرکے نماز پڑھ لیا کریں گے، جب کہ ان سے پہلے انبیاء کرام پر پابندیاں تھیں وہ صرف عبادت گاہوں میں ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔حضرت مغیرہ کہتے ہیں۔ میں نے یہ ساری باتیں ذہن نشین کرلیں۔ جب واپس آیا تو حضور نبی کریم کی بارگاہ عالیہ مقدسہ میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔
اسی ضمن میں آج کی موجودہ بائبل میں حضرت داود کی وہ نظم شاہدودلیل ہے جس میں آپ کےحسن وجمال کا ذکرہے۔چنانچہ بائبل کی عبارت میں ہے:
میرا محبوب سُرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں ممتاز ہے۔ اس کا سر خالص سونا ہے۔ اس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوّے سی کالی ہیں۔ اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو دودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بیٹھے ہوں۔ 7 8
"غزل الغزلات" کی اس عبارت کا پہلا جملہ ہے "میرا محبوب سُرخ و سفید ہے" ۔اصل عبرانی عبارت ہے "دَو دی صاح و ادوم"۔ جملے کا پہلا لفظ"دَود"ہے ۔ لغوی اعتبار سے"محبوب "کے الفاظ مبہم طور پر محمدرسول اللہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ان سے پیش گوئی کرنے والے کی نیت کا صاف پتہ چل جاتا ہے۔سٹرونگ(Strong) کی بائبل کے عبرانی الفاظ کی لغت میں اس کے مندرجہ ذیل معنی بیان ہوئے ہیں:
Lover, friend, beloved, especially an uncle, father's brother. 9
محبت کرنے والا، دوست، محبوب، خصوصاً چچا یعنی باپ کا بھائی۔
لفظ "دَود"کے یہ معنی بائبل کے بعض مفسرین کی اس پیشن گوئی کے حضرت مسیح پر اطلاق کو بدیہی طور پر مسترد کر دیتے ہیں کیونکہ حضرت سلیمان کےجدِاعلیٰ حضرت اسحاق تھے۔حضرت اسماع ان (اسحاق ) کے بڑے بھائی تھے۔ اس طرح اس پیش گوئی کا اطلاق حضرت عیسٰی پر ممکن نہیں کیونکہ بائبل کی رُو سے حضرت عیسٰی کا کوئی باپ نہ تھا۔ آپ کنواری مریم سے معجزانہ طور پر بِن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔اُن کا والد کی طرف سے تو کسی سے کوئی رشتہ بنتا ہی نہیں۔ حضرت عیسٰی کی والدہ بھی حضرت اسحاق ہی کی نسل سے ہیں نہ کہ حضرت اسحاق کے کسی بھائی کی نسل سے۔ اس لحاظ سے حضرت عیسٰی کسی طرح بھی اس آیت کے لفظ"محبوب" (دَود) کا مصداق نہیں ہو سکتے۔حضرت سلیمان کے جَدِّ اعلیٰ حضرت اسحاق ہیں۔ حضرت اسماعیل اُن کے بھائی ہونے کے ناطے حضرت سلیمان کے بزرگ چچا ہیں۔محمدرسول اللہ حضرت اسماعیل کی نسل سے ہیں، اس طرح لفظ "دَود" کی رُو سے یہ لفظ محمدرسول اللہ ہی سے متعلق ہے۔
اس کے بعد والی آیت میں رسول اللہ کے چہرے کی رنگت کا بیان ہے، جس کے لیے عبرانی میں "صاخ و ادوم" کے الفاظ ہیں۔ جس کا ترجمہ"سرخ و سفید "کیا جاتا ہے۔سٹرونگ(Strong) کی بائبل کے عبرانی الفاظ کی لغت کے لحاظ سے پہلے لفظ یعنی "صاخ" کے اصل معنی "صاف اور چمک دار" ہیں۔ پلپٹ(Pulpit) کی تفسیر بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ"اس سے مریضانہ سفیدی مُراد نہیں"۔ اگلے عبرانی لفظ "ادوم" کے معنی گلابی اور سُرخ رنگت ہے۔ اس طرح سُرخ و سفید کے الفاظ کا مطلب صحت، سُرخی، توانائی، چمک اور حسن بنتا ہے۔
احادیث میں محمدرسول اللہ کے چہرے کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں، یہ اُن کی مُنہ بولتی اور کامل تصویر ہے۔آپ کے چہرے میں سُرخی، چمک، حُسن اور سفیدی کا حسین اِمتزاج تھا جو پیش گوئی کے عبرانی الفاظ کی ہو بہو عکاسی کرتا ہے۔ دُوسری طرف حضرت عیسٰی کے اوصاف کا بیان اوّل تو بہت کم دستیاب ہے، تاہم جو کچھ محفوظ ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی کا ان الفاظ سے دُورکا بھی تعلق نہیں۔
پیشن گوئی کا اگلا جملہ ہے:"وہ دس ہزار میں ممتاز ہے۔ "اصل عبرانی الفاظ کا تلفظ ہے:دجول مع ربوبہ یعنی "دس ہزار کی فوج کا سربراہ "یہ الفاظ محمدرسول اللہ کی فتح مکّہ کےدن کی کیفیت کے علاوہ کسی چیز پر صادق نہیں آتے۔اگلی آیت کا پہلا جملہ ہے: " اُس کا سر خالص سونا ہے" جس کے متعلق میتھیو ہنری(Matthew Henry) اپنی تفسیر میں لکھتا ہے:"مسیح کا سر اُن کی سب پر حاکمیت اور اپنے کلیسا کے ارکان پر اُن کے مضبوط اثرورسوخ کی دلالت کرتا ہے۔ مسیح کی حاکمیت حسین بھی ہے اور مضبوط بھی"۔ حالانکہ جہاں تک حضرت مسیح کا تعلق ہے آپ کو اپنی زندگی میں کبھی قوت و اقتدار نصیب ہی نہیں ہوااور نہ ہی اس کے لیے آپ نے جدوجہد فرمائی جبکہ محمدرسول اللہ کو ہجرت کے بعد مدینہ منوّرہ کی ریاست پر پوری طرح قوت و اقتدار حاصل تھا، جو بعد میں پورے جزیرہ نمائےعرب پر حاوی ہو گیا اور اس حیثیت میں آپ کے فیصلے اور اَحکام ہمیشہ بے لاگ اور بے عیب رہے۔ اس سے قاری خود اندازہ کر سکتا ہے کہ" اُس کا سر خالص سونا ہے" کے الفاظ کس پر صادق آتے ہیں۔
آیت کے اگلے الفاظ ہیں: "اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں"۔ یہاں زُلفوں کے لیے جو"پیچ در پیچ"کا لفظ استعمال ہو ا ہے، اُس کے لیے عبرانی میں"تال تال"کا لفظ آیا ہے۔ سٹرونگ(Strong) کی ڈکشنری میں اس کے معنی ہیں"ایک لٹکتی ہوئی شاخ"۔جملے کا دوسرا حصہ ہے"کوّے سی کالی"۔ کالی کے لیے عبرانی میں "سحر" کا لفظ آیا ہے۔ یہ وہی عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں "پو پھٹنے سے پہلے کا وقت"۔سٹرونگ(Strong) کی ڈکشنری میں اس کے معنی ہیں"صبح سویرے روشنی پھیلنے سے پہلے کی تاریکی" یا "صبح سویرے کسی کام کے لیے اُٹھنا"۔ اس حصے کا دوسرا اہم لفظ ہے "کوا"۔ عبرانی میں اس کے لیے "عرب یاعُراب"کا لفظ آیا ہے اور اس کے ایک معنی"کوا" کے ہیں مگر دوسرے معنی "عرب کا باشندہ" کےبھی ہیں اور "دُھندلا یا کالا ہونا" بھی۔ اس طرح عبرانی میں غُراب کو بھی عُراب کہیں گےاورسٹرونگ(Strong) کی عبرانی لغت کےمطابق عُراب کے معنی عبرانی میں "کوا" بھی ہوسکتے ہیں اور" عرب کا باشندہ بھی"۔10
بائبل کے مترجمین کو یہاں"عرب کا باشندہ لکھنا اپنے خلاف جاتا ہوا معلوم ہوا تو اُنھوں نے اس کے معنی "کوا" لکھ دیے حالانکہ پہلی ترجیح "عرب " کو دی جانی چاہیے تھی۔
"پیچ در پیچ" کے لیے بائبل میں "تال تال"کا عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ایک لٹکتی جھولتی شاخ کے ہیں اور عام مشاہدہ یہ ہے کہ لمبی لٹکتی ہوئی شاخ آخر میں تھوڑا سا بل کھا کر اُوپر کی طرف اُٹھ آتی ہے ۔اس طرح بائبل کی عبارت "اُس کی زُلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں" کا صحیح مطلب یہ ہے کہ" اُس کی زُلفیں کالی ہیں، اُن میں ہلکا سا گھونگر ہے اور وہ مُلکِ عرب کا باشندہ ہے"۔ ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق حضرت عیسٰی پر کسی طرح ممکن نہیں کیونکہ اُن کی زُلفوں کے متعلق تو بائبل کی کتاب "مکاشفہ "میں صاف لکھا ہے:"اُس کا سر اور بال سفید بلکہ برف کی مانند سفید تھے"۔11 جہاں تک محمدرسول اللہ کے بالوں کا تعلق ہے تو ان کے متعلق یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ روشن اور سیاہ تھے۔ ان سارے دلائل وبراہین سےیہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ حضرت سلیمان کے اس ارشاد کہ"اُس کاسر خالص سونا ہےاوراُس کی زلفیں پیچ درپیچ اورکوےسی کالی ہیں" کامحمدرسول اللہ پرحرف بہ حرف اطلاق ہوتا ہےاورحضرت عیسٰی اِس کے کسی طرح بھی مصداق نہیں ہیں۔
آیت نمبر 12میں حضرت سلیمان فرماتے ہیں:" اُس کی آنکھیں اُن کبوتروں کی مانند ہیں جو دُودھ میں نہا کر لبِ دریا تمکنت سے بیٹھے ہوں"۔ اُردو بائبل کا یہ ترجمہ درست نہیں،بلکہ ناقص ہے۔ کنگ جیمز ورژن (King James Version)میں اس کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
His eyes are as the eyes of doves by the rivers of waters, washed with milk, and fitly set."12
اس کی آنکھیں اُن فاختاؤں کی آنکھوں جیسی ہیں جو پانی کی ندیوں کے کنارے بیٹھی ہوں، یہ دودھ میں دھلی ہوئی ہیں اور نہایت متناسب انداز میں (پیشانی کے جوف میں) رکھی ہوں۔
حضرت عیسٰی کے خدوخال کا تفصیلی بیان نہ تو بائبل میں دستیاب ہے نہ کسی اور کتاب میں،اگر کہیں کچھ ناقص سی جھلکیاں موجود بھی ہیں تو اُن کا "غزل الغزلات"کے اس بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ مسیحی علماء کھینچ تان کرکے اِن صفات کا حضرت عیسٰی پر اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ طرز ِاستدال درست نہیں۔مذکورہ آیت میں آپ کی آنکھوں کو"کبوتر یا فاختہ کی آنکھوں" سے تشبیہ دی گئی ہے۔سٹرونگ(Strong) کی ڈکشنری کےلحاظ سے اس کے معنی ہیں:"مخمور،شراب اورشراب کا نشہ"۔13 عام مشاہدے کی بات ہے کہ نشے کی حالت میں انسان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے سے جھلکنے لگتے ہیں۔ آپ کی مخلوق کے لیے شفقت اور ذِکرِ الٰہی کا ذوق و شوق آپ کی آنکھوں میں نمی کا مؤجب تھا۔ آپ کی آنکھوں میں سفیدی ، چمک، نمی اور سُرخ ڈورے نمایاں تھے اور یہ اوصاف عبارت کے پہلے حصے کے عبرانی الفاظ کی کامل عکاسی کرتے ہیں۔جہاں تک آخری الفاظ (Fitly set)کا تعلق ہے تو اُن کے لیے عبرانی میں لفظ"ملایت"درج ہے۔ سٹرونگ(Strong) کی لغت کے تحت اس کے معنی "بھرا ہوا ہونا، آنکھوں کے خول میں نہایت خوبصورت نظر آنے والی بھری بھری آنکھیں" درج کیے گئے ہیں۔14
اس لحاظ سے پوری آیت کا مفہوم کچھ اس طرح بنتا ہے :حضرت سلیمان کے اس محبوب کی آنکھیں ، چہرے اور پیشانی میں اتنے موزوں اور مناسب انداز میں جڑی ہوئی ہیں کہ وہ خوبصورت ، بڑی بڑی ، خوب بھری ہوئی، گداز، اُبھری ہوئی اور پُرکشش نظر آتی ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں محبت و مسرت کا جوش ہے۔ اُس کی آنکھیں نشیلی سی ہیں اور اُن میں سرخ ڈورے ہیں۔ اُس کی آنکھیں نہ صرف پاکیزہ، مہربان اور صاف ہیں، بلکہ اُن میں نمی کی چمک ہے جو اِحساسِ ہمدردی اور محبتِ الٰہی کی آئینہ دار ہے، نہ اندر کو دھنسی ہوئیں اور نہ باہر کو نکلی ہوئیں۔مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ آیت محمدرسول اللہ کی آنکھوں کی مکمل اور سچی تصویر پیش کرتی ہے جس کی عکاسی حضرت سلیمان نے محمد رسول اللہ سے قریباًڈیڑھ ہزار سال پہلے کر دی تھی۔