یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات ہست وبود میں رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ نے سب سے زیادہ عزت و عظمت و رفعت امام الانبیاء حضور نبی کریم کو عطا فرمائی ہے۔آپ کے فضائل وخصائل، محامد ومحاسن اور صفات واوصاف کا احاطہ ممکن نہیں۔جو آدمی انبیاء ورسل کے حالات واخبار سے ادنیٰ آگاہی رکھتا ہے اس سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ حضرت محمد رسول اﷲ معجزات ودلائل وفضائل وشمائل میں کثرت وظہور کے لحاظ سے سب پر فوقیت اور بالادستی رکھتے ہیں۔
انبیاء ومرسلین میں سے جس کو معجزہ اور فضیلت سے سرفراز کیا گیا حضور نبی کریم کو اُس جیسے اور اُس سے اعلیٰ شرف سے مشرف کیا گیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انبیائے کرام کے تمام معجزات کا سرچشمہ بھی ذات ہی ہے۔
چنانچہ امام بوصیریفرماتے ہیں:
وكلّ آي أتى الرّسل الكرام بها
فإنما اتّصلت من نوره بهم
فإنّه شمس فضل هم كواكبها
يظهرن أنوارها للناس في الظّلم .1
جس قدر معجزات انبیاء دنیا میں لائے (فی الحقیقت) وہ تمام معجزات ان کو آپ ہی کے نور کے طفیل حاصل ہوئے۔ کیونکہ حضور آفتاب کمال ہیں اور دیگر تمام انبیاء حضور کے مقابلہ میں بمنزلہ ستاروں کے ہیں جو علم وہدایت کی روشنی کو ضلالت وجہالت کی تاریکی میں اہل دنیا پر ظاہر کرتے رہے۔
پوری کائنات میں ازاوّل تا آخر جمالِ ظاہری اور کمالِ باطنی میں آپ سے بہتر تو دور کی بات بلکہ بعض الوجوہ بھی مثل ومثیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح کمالات نبوت اور حقیقت محمدیہ احاطہ علمی سے خارج اور فہم وعقل سے بالاتر ہیں بالکل اسی طرح کمال وجمالِ جسمانی کا واقعی ادراک بھی عقل وبیان سے وراءُ الوراء ہے۔ نہ آپ کے کمالات باطنی کا احصاء ہوسکتا ہے اور نہ ہی آپ کے جمالاتِ ظاہری کو کوئی کما حقہ بیان کرسکتا ہے۔کیونکہ بقول شیخ سعدی :
بلغ العلی بکماله
کشف الدجٰی بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلّوا علیہ واله.2
آپ اپنےکمال کی بلندیوں پہ جلوہ گر ہوگئے۔آپ کے حسن مبارک سے تمام اندھیرے چھٹ گئے ۔آپ کی تمام عادات و اطوار بہترین ہیں۔آپ پر اور آپ کی آل پر درود پڑھو۔
عاشقِ رسول امام بوصیری بھی فرماتے ہیں:
دع ما ادّعته النّصارى في نبيّهم
واحكم بما شئت مدحا فيه واحتك
فإنّ فضل رسول الله ليس له
حدّ فيعرب عنه ناطق بفم.3
عیسائیوں نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو بات کہی (کہ وہ خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں) اسے چھوڑ کر نبی اکرم کی تعریف میں جو چاہو کہو اور مان لو۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے حبیب کے فضل و کمال کی کوئی ایسی حد نہیں ہے کہ جسے انسانی زبان بیان کرسکے۔
حلیہ مبارک کے لحاظ سے بھی آپ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھے ۔آپ کے حلیہ مبارک میں آپ کا قدمبارک، رنگ مبارک، بال مبارک، پیشانی مبارک، آپ کا حسن وجمال یہاں تک کہ ہر اعضاء مبارک کا ذکر بڑے خوبصورت پیرائے میں احادیث میں موجود ہے۔ بلکہ قرآن کریم میں بھی آپ کے بعض اعضاءِ مبارک کا ذکر موجود ہے۔
قرآنی آیات کی روشنی میں رسول رحمت کی شان اورعظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ رب کائنات نے رسولِ کائنات کے جسمانی اعضاء کا تذکرہ کرنے کے لیے قرآن کی آیات نازل فرمادی ہیں جن کو بار بار پڑھا جاتا ہے۔اسی طرح جن آیات میں آپ کے مقدس اعضاء کا ذکر مبارک آیا ہے ان کو بھی مسلمان تلاوت و حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
رسول اکرم کا چہرہ مبارک انتہائی حسین وجمیل تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ خود خالق کائنات اس چہرہ مبارک کے آسمان کی جانب اٹھنےکو نہ صرف ملاحظہ فرماتا ہےبلکہ اس کا ذکر قرآن مجید فرقان حمید میں بھی فرماتا ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا مقدس ارشاد ہے:
قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْھكَ فِى السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّك قِبْلَة تَرْضٰىھا فَوَلِّ وَجْھك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ 144 4
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے۔
سیدِ عالم کو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسندِخاطر تھا۔ حضور اس اُمید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھےکہ ربّ تعالیٰ اپنی بارگاہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اذن مرحمت فرمادے تاکہ قیامت تک مسلمان حضور کے پسندیدہ قبلہ کو اپنا قبلہ بنالیں ۔ اس خواہش محبوب پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔5
جونہی یہ آیت لے کر حضرت جبریل نازل ہوئے نبی کریم نماز کی حالت میں تھے اور دو رکعت نماز بیت المقدس کی طرف رُخِ انور کرکے ادا فرماچکے تھے۔ حکم کے نازل ہونے کے بعدبقیہ دو رکعت آپ نے کعبہ کی طرف رُخِ انور فرماکر ادا فرمائیں اور آپ کے ساتھ خوش قسمت صحابہ اُسی حالت میں آپ کی اقتداء میں کعبہ کی طرف مُڑگئے۔6
اس ارشاد خداوندی سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے پیارے محبوب مکرم کی رضا بہت محبوب تھی جو محبوب چاہتے تھےوہی عطا فرمادیا جاتا تھا۔جبکہ اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن نبی کریم کی تمنا یہ تھی کہ میرے لیے وہی قبلہ بنادیا جائے جو حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ، اﷲ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر ہے۔اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی کریم کے بار بار رخ ِانور کو آسمان کی طرف اٹھانے پر آپ کی اس خواہش کو پورا فرمادیا۔
رسول اکرم کی آنکھ مبارک بھی امتیازی شان رکھتی ہے کیونکہ اس کا ذکر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔چنانچہ اﷲتبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَا تَمُدَّنَّ عَینَیك 887
آپ ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیے۔
مسلمان کفار کے متاع دنیا کو دیکھ کر کبیدہ خاطر ہوتے تھے تو اللہ ربُّ العزّت نے اس آ یت کریمہ میں مسلمانوں کو کفار کے مال ومتاع کی طرف نظر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن تعریضا ًحضور اکرم کی آنکھوں کا ذکر فرمایا ہے۔8جس سےیہ اشارہ ملتا ہے کہ رب ِکائنات کوحضور نبی کریم کی خوبصورت آنکھوں کا ذکر مختلف انداز سے کرنا پسند ہے۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اسی محبوب اکرم کی آنکھوں کی بصارت کی تعریف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى17 9
اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔
معراج کی رات جب آپ نے انوار باری تعالیٰ کا دیدار کیا تو اس کی کیفیت کو اللہ تبارک وتعالی ٰنے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایاہے کہ اس دیدار انوار ربانی کےوقت آپ کی آنکھیں مبارک منحرف نہیں ہوئیں نہ اِدھر اُدھر ہٹیں اور نہ نور سے متجاوز ہوئیں۔10اس کے بر خلاف جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کی نظر بے اختیار ادِھر ادُھر ہو جاتی ہے لیکن آپ نے اتنے عظیم نور کو دیکھا اور آپ کی نظر ادِھر ادُھر نہیں ہوئی۔
رسول اکرم کی زبان مبارک بھی باقی اعضاء ِجسمانی کی طرح مشرف و ممتاز ہے کہ اس کا ذکر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰه بِلِسَانِك 9711
سو بیشک ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں ہی آسان کر دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
لَا تُحَرِّك بِه لِسَانك لِتَعْجَلَل به1612
(اے حبیب!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں۔
یعنی اے نبی آپ قرآن کریم کو یاد کرنےمیں اپنی زبان کو تکلیف نہ دے بلکہ قرآن مجید کو آپ کے سینے میں جمع کرنے اور یاد کروانےکا ذمہ ہمارا ہے ۔آپ اس معاملہ میں ہرگز پریشان اور فکر مند نہ ہوں۔
اسی طرح نبی کریم کی زبان مبار ک کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْھوٰى3 اِنْ هوَاِلَّا وَحْى يُّوْحٰى413
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے، اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔
یعنی جو کچھ بھی آپ دین کے متعلق گفتگو فرماتے ہیں وہ خالص وحی الہٰی ہےجو انہیں بھیجی جاتی ہے ایسا نہیں ہےجیسا( معاذ اللہ) کافر کہتے ہیں کہ یہ انسانی کلام ہے14اوراپنی مرضی سے کرتے ہیں یا کوئی آپ کو سکھاتا ہے۔15اس قول کفار کا رد کرتے ہوئے باری تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی اﷲ تعالیٰ انہیں وحی فرماتا ہے تو آپ بیان کرتے ہیں۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی دین کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی کے تحت فرماتے ہیں اپنی منشا ومرضی کے تحت نہیں اور نہ ہی اپنی رائے سے کچھ کہتے ہیں ان کا ارشاد وحی خالص ہے۔
اس کی تائید حدیث ذیل سے بھی ہوجاتی ہے جس کو حضرت عبد اللہ بن عمر نےنقل کیا ہے:
عن عبدللّٰه بن عمرو قال: كنت اكتب كل شىء اسمعه من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ارید حفظه فنھتنى قریش وقالوا: اتكتب كل شىء تسمعه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بشر یتكلم فى الغضب والرضا فامسكت عن الكتاب فذكرت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاوما باصبعه الى فیه فقال: اكتب! فوالذى نفسى بیده ما یخرج منه الا حق.16
حضرت عبداﷲ بن عمرو بیان کرتے ہیں: میں یاد کرنے کے ارادے سے ہر اس بات کو لکھ لیا کرتا جو رسول اﷲ سے سنتا ۔پس قریش نے مجھے منع کیا اور کہا کہ آپ ہر اس بات کو لکھ لیتے ہیں جو سنتے ہیں حالانکہ رسول اﷲ بھی انسان ہیں جو ناراضگی اور رضا مندی میں بھی کلام فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور حضور سے اس بات کا ذکر کیا تو حضور نے انگشتِ مبارک سے دہن اقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے حق کےسواکوئی بات نہیں نکلتی۔
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا ہر دینی فرمان عالیشان وحی الہٰی سے ہوتا ہے اپنی طرف سے نہیں ہوتا۔
اسی طر ح نبی اکرم کے سینہ اقدس کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ117
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔
شرح صدر کی دولت اتنی بڑی ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اﷲ جیسے اولو العزم پیغمبر اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔چنانچہ ان کی دعا کو ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِى2518
(موسٰی نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔
لیکن سیّدنا محمد رسول اللہ پر یہ احسانِ الہٰی ہوا کہ ربّ کریم نے اپنے حبیب کو یہ دولت بن مانگے عطا فرمائی۔ جس کاذکر کرتے ہوئے اللہ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ119
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔
شیخ ابو علی دقاق "حبیب"اور "کلیم" کے شرح صدر پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
كان موسى مریداً وكان نبینا صلى اللّٰه عليه وسلم مرادا.20
حضرت موسیٰ مرید تھے (کہ انہوں نے عرض کی رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ)25 اورہمارے نبی کریم مراد تھے(کہ آپ سے فرمایا گیا اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ .)
شرح صدر کے لفظی معنی ہیں سینے کاکھول دینااوریہ ہدایت کا آخری مرتبہ ہے۔ اس مرتبے میں تمام حقائقِ ملک وملکوت، لاہوت وجبروت منکشف ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زبان اسرار غیب کی کنجی اور دل خزانہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ راغب کے حوالہ سے امام صالحی نے لکھتے ہیں:
بسط اللحم ونحوه یقال شرحت اللحم وشرحته ومنه شرح الصدر وھو بسطه بنور الھى وسكینة من جھة اللّٰه وروح منه.21
گوشت پھیلانا اور کہا گیا:گوشت پھیلایاگیا۔اسی سے شرح صدر ہے اس سے مراد رب تعالیٰ کی طرف سے سینہ اقدس کا نور الہٰی کی وجہ سے اس کی طرف سے سکینہ(اطمینان) اور سکون کی وجہ سے پھیل جانا ہے۔
آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام صالحی فرماتے ہیں:
الکشاف میں ہے کہ یہ عَلیٰ وَجہِ الاِنکار انشراحِ صدر کی نفی پر استفہام ہے۔ اس سے انشراح صدر کے اثبات اور ایجاب میں مبالغہ مقصود ہے گویا کہ آپ سے کہا گیاکہ ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا ہے۔22 اسی لیے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے اس کا "ووضعنا" پر عطف کیا ہے۔
مزید امام صالحی نے علامہ الطیبیکے حوالہ سے لکھا ہے :
اى انكر عدم الشرح فاذا انكر ذلك ثبت الشرح لان الھمزة للانكار والانكار نفى والنفى اذا دخل على النفى عاد اثباتا ولا یجوز جعل الھمز للتقریر.23
یعنی(فی الحقیقت اللہ ربُّ العز ت نے) عدم انشراح کا انکار کیا ہے جب اس کا انکار ہوا تو انشراح ثابت ہوگیا۔ کیونکہ ہمزہ انکار کے لیے ہے انکار نفی کے لیے ہے جب نفی نفی پر داخل ہو تو اثبات لازم آتا ہے۔ اس ہمزہ کو تقریر بنانا درست نہیں ہے۔
شرح صدر سے مراد قلب کا انوار و تجلیات الہٰیہ سے مزین ہونا اور ان کا مرکز و محل بننا ہے۔ اس کے ذریعے تمام بوجھ دور ہوجاتے ہیں فرحت وسرور کی کیفیت قائم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ومعنی میں مفسرین نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام راغب اصفہانیلفظ شرح کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
شرح الصدر اى بسطه بنور الھى وسكینة من جھة اللّٰه وروح منه.24
شرح صدر سینے کا نور الہٰی کے جلووں سے وسیع ہونا اور اس کا اﷲ کی طرف سے سکون ،فرحت و راحت پانا ہے۔
علامہ آلوسی نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے بہت خوب بات کہی ہے کہ شرح صدر ہر ذات کے حسب حال ہوتا ہے۔بعض اوقات شرح صدر کی صورت میں دل انوار و تجلیات کا عرش قرار پاتا ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
قد یراد تائید النفس بقوة قدسیة وانوار الھیة بحیث تكون میدانا لمواكب المعلومات وسماء لكواكب الملكات وعرشا لانواع التجلیات وفراشا لسوائم الواردات فلا یشغله شان عن شان ویستوى لدیه یكون وكائن وما كان.25
اس سےیہ بھی مراد لیا جاسکتاہےکہ نفس کو قوتِ قدسیہ اور انوار الہٰیہ سے اس طرح مزین کردیا جائے کہ وہ خزائن معلومات کے لیے میدان ، ملکات واستعداد کے لیے آسمان اور تجلیات کے لیے عرش بن جائے۔ جب کسی کے سینے کو یہ حالت نصیب ہوجاتی ہے تو اس کی دلی کیفیات میں استحکام پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے ہاں مستقبل ،حال اور ماضی یکساں ہوجاتے ہیں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اگر "الم نشرح" کے بعد لفظ "لک" نہ بھی ہوتا تب بھی جملہ مکمل رہتا اور اس کے مفہوم میں کوئی تشنگی نہ رہتی لیکن "لک" (آپ کے خاطر) کے اضافے سے آیت مبارکہ کے معنی میں مزید محبت کا پہلو اجاگر ہوا ہے کہ اے محبوب ہم نے آپ کا سینہ آپ کے خاطر کھولا ہے۔ آپ کے خاطر کے الفاظ واضح کررہے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کوآپ کی رضا ہر شے پر مقدم ہے۔چنانچہ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے امام صالحی شامی فرماتے ہیں:
انما لم یقل الم نشرح صدرك دون لك لوجھین احدھما اراد شرحته لاجلك كما تفعل انت الطاعة لاجلى.26
لک کے بغیر صرف الم نشرح نہیں فرمایا اس کی دو حکمتیں ہوسکتی ہیں ۔ایک یہ ہے کہ جس طرح اے حبیب آپ میری خاطر میری اطاعت کرتے ہیں اسی طرح میں نے آپ کی خاطر آپ کو شرح صدر کی دولت عطا کی ہے
مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم کے سینہ اقدس کا ذکر قرآن مجید میں جس انداز سے فرمایاہے وہ انتہائی دلآویز اور محبت سے لبریز ہے۔
آپ کے قلبِ انور کا ذکر بھی اللہ ربُّ العزّت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف انداز سے فرمایا ہے۔انہی میں سے ایک مقام پر رسول اللہ کے منصبِ جلیلہ و رفیعہ کو بیان کرتےہوئے فرمایا کہ یہ قرآن مجید ربُّ العالمین کی طرف سے جبریل امین لے کر آئے ہیں اور آگےارشادِ باری تعالیٰ ہے:
عَلٰى قَلْبِك لِتَكوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ194 27
آپ( )کے قلبِ انور پر تاکہ آپ( )نافرمانوں کو ڈر سنانے والوں میں سے ہوجائیں۔
یعنی اس قرآن ِمجید کو آپ کے مبارک قلب پر اتارا ہے تاکہ اس مقدس پیغام کو آپ آگے پہنچاکر مخاطبین کواللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی پاداش میں ڈرائیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں کئی مقاما ت پر مختلف انداز سے رسول اکرم کے دل مبارک کا تذکرہ ہوا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالنَّجْمِ اِذَا ھوٰى1 28
قَسم ہے روشن ستارے (محمد ) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے ۔
امام جعفر صادق سے "والنجم اذا ھویٰ" کے بارے میں منقول ہے کہ سے مراد حضور کا قلب انور ہے۔قاضی عیاض نے ان کا قول ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
ھو قلب محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.29
نجم سے مراد حضرت محمد مصطفی کا قلب انور ہے۔
شیخ احمد شہاب الدین خفاجی اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ان انوار سے وہ ربانی تجلیات مراد ہیں جو علوم و حکم اور کمالات ومشاہدات کی صورت میں آپ کو حاصل ہوئیں۔ اس کے بعد قلب اقدس کو نجم کہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وتشبىه قلبه صلى اللّٰه عليه وسلم بالنجم لا یخفى ظھوره لا شراقه بنور ربه.30
قلب انور کی نجم کے ساتھ تشبیہ واضح ہے کیونکہ آپ کے قلب اقدس کا رب کریم کے انوار سے روشن ہوناچھپانہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ اس کا بوجھ برداشت نہ کرسکتا اور ریزہ ریزہ ہوجاتا 31لیکن ہم نے اپنے محبوب کے قلب انور کو اتنی قوت واستقامت عطا کی کہ آپ کے قلب اطہر نے اسے محفوظ کرلیا او ر نہ آپ پر بوجھ ہوا اور نہ ہی اس کی وجہ سے کوئی تکلیف ہوئی۔ بلکہ جب بھی قرآن حکیم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ پہلے سے بھی زیادہ توانائی محسوس کرتے ۔قرآن مجید کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کے قلب اقدس کو مزید تقویت حاصل ہو۔چنانچہ اسی کے متعلق اللہ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:
كذٰلِك ۚ لِنُثَبِّتَ بِه فُؤَادَك وَرَتَّلْنٰه تَرْتِيْلًا32 32
یوں (تھوڑا تھوڑا کر کے اسے) تدریجاً اس لیے اتارا گیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کے قلبِ (اطہر) کو قوت بخشیں اور (اسی وجہ سے) ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے (تاکہ آپ کو ہمارے پیغام کے ذریعے بار بار سکونِ قلب ملتا رہے)۔
اسی طرح حضرت جبریل کے حوالے سے ایک اورمقام پرارشاد فرمایا:
نَزَّلَه عَلٰى قَلْبِك بِـاِذْنِ اللّٰه9733
کیونکہ اُس نے (تو) اس(قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔
تیسرے مقام پر قرآن کریم میں آپ کے قلب انور کی اس عظیم قوت کو ایک رمز کی صورت میں بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان مبارک ہے:
قۗ ۣۚ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ134
ق (حقیقی معنی اﷲ اور رسول ہی بہتر جانتے ہیں)، قسم ہے قرآنِ مجید کی۔
اس کی تفسیر میں امام ابن عطاء سے منقول ہے:
اقسم بقوة قلب حبیبه محمدصلى اللّٰه عليه وسلم حیث حمل الخطاب و المشاهدة ولم یوثر ذلك فیه لعلو حاله.35
اﷲ نے اپنے حبیب کے قلب انور کی قوت کی قسم کھائی کہ اس نے باری تعالیٰ سے بالمشافہ گفتگو کی اور مشاہدہ ذات باری تعالیٰ کی سعادت حاصل کی اور یہ آپ کے حال و مقامات کی بلندی ہی ہے۔
امام ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں اس کو نقل کیا ہے۔36 علامہ خفاجی نے اس قول کا ترجمہ اپنے ان الفاظ میں کیا ہے:
حیث تحمل واطاق خطاب اللّٰه ورؤیته لیلة الاسراء ومشاهدة الملكوت ومھابته فما یشھد له الجبال ولا تطیقه الملائكة.37
آپ بلاواسطہ کلام الہٰی کے متحمل ہوئے اور معراج کے موقعہ پر دیدار الہٰی اور ملکوت کے مشاہدہ سے بہرہ ور ہوئے، جس کی ہیبت اور دبدبہ پر پہاڑ گواہ ہیں اور اس کی ملائکہ طاقت نہیں رکھتے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم کے دلِ مبارک کی طاقت و قوت پہاڑوں سے بھی زیادہ مستحکم و مثبت ہے کہ یہ انوارِ الہٰیہ اور وحیِ ربانی کا مقام ہے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں دل اس کی تصدیق نہیں کرتا اوراسے تذبذب رہتا ہےکہ یہ شاید میرا وہم ہو۔ معراج کے موقعہ پر اﷲ تعالیٰ نے جب اپنے پیارے حبیب کو اپنی عظیم قدرتوں اور نشانیوں کا مشاہدہ عطا فرمایا تو صرف آپ کی مبارک آنکھوں ہی نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ دل نے بھی اس کی تصدیق کی کہ یہ محض خیال یا وہم نہیں بلکہ یہ مشاہدات ایک حقیقت ہیں جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ آپ کی اس کیفیت کا ذکر قرآن میں واقعہ معراج میں دکھائی گئی نشانیوں کے متعلق یوں ہوا:
مَا كذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى1138
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔
یعنی ان نشانیوں اور انوار ِ الہٰیہ کے مشاہدات کی تصدیق کرنے میں آنکھوں کے ساتھ ساتھ رسول اکرم کا دل بھی برابر کا شریک تھا اور ان میں ذرہ برابر بھی کسی شک و شبہ کی راہ درنہ آئی تھی۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ذات اقدس کو سراپا رحمت وشفقت بنایا۔ رقتِ قلبی اور نرمی آپ کی طبیعت مبارکہ کا اہم اور کامل جز تھی۔ حضور کا قلب منور سوز و گداز اور محبت وشفقت کا مخزن تھا۔ انسان تو انسان آپ کسی جانور پر بھی تشدد برداشت نہ کرسکتے تھے کیونکہ آپ بے حد رقیق القلب تھے۔قرآن مجید نے اس رقت قلبی کو یوں بیان کیا کہ آپ چونکہ نہایت ہی مشفق ورحیم ہیں اس لیے آپ کے ارد گرد غلاموں کا پروانوں کی طرح ہجوم رہتا ہے اور یہ آپ پر اﷲ کی رحمت ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فَبِمَا رَحْمَة مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَھمْ ۚ وَلَوْ كنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِك159 39
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔
قرآن کریم کی بعض آیات اور الفاظ آقائے دو جہاں حضور نبی کریم کے قلب مبارک سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔
امام ثعلبی ، امام خازن اور امام بغوی رحمۃ اللہ علیھم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس نے حضرت کعب سے کہاکہ مجھے مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ 40 آیت کے بارے میں بتائیے کہ اس سے کیا مراد ہے؟تو حضرت کعب نے جواب دیا:
هذا مثل ضربه للّٰه سبحانه لمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیه النبوة توقد من شجر مباركة هى شجرة النبوة.41
(آیت مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب کے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکوۃ سے آپ کا سینہ اقدس مراد ہے زجاجۃ سے مراد آپ کا قلب اطہر ہے جبکہ مصباح سے مراد وہ صفت نبوت ہے جو شجر نبوت سے روشن ہے۔
امام ابو حاتم رازی اپنی سند کے ساتھ اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
عن شمر بن عطیة قال جاء ابن عباس الى كعب الاحبار فقال: حدثنى عن قول اللّٰه فیھا مصباح. قال: والمصباح قلبه یعنى قلب محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.
شمر بن عطیتہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت کعب الاحبار کے پاس آکر کہا کہ: مجھے آپ باری تبارک و تعالیٰ کے اس قو لفیھامصباح کے بارے میں بتائیں۔تو انہوں نے کہا اس سے مراد دل ہے یعنی (سیّدنا) محمد کا دل انور۔
ابو حاتم مزید روایت کرتے ہیں:
عن ابى بن كعب فى قوله المصباح فى زجاجة فذلك النور فى زجاجة والزجاجة . قلبه.42
حضرت ابی بن کعب سے المصباح فی زجاجۃ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نورِ نبوت شیشی میں ہے اور وہ شیشی آپ کا دلِ اطہر ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ ربُّ العزّت نے حضور کے مبارک سینے کو انوار و معارفِ الہٰیہ کا خزینہ بنایاتھا۔حضور نبی کریم معراج سے مشرف ہونے سے پہلے جب کفار و مشرکین کو شرک میں مستغرق دیکھتے اور انہیں قرآن کریم پر طعن وتشنیع کے تیر چلاتے ہوئے پاتے اور وہ لوگ حضور کے ساتھ تمسخراڑایا کرتے تو حضور کو بڑا دکھ ہوتا تھا اور طبیعت میں گھٹن پیدا ہوجاتی تھی اس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں یوں فرمایاہے:
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّك يَضِيْقُ صَدْرُك بِمَا يَقُوْلُوْنَ97 43
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔
لیکن جب اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عرش بریں پر بلایا اور اپنی قدرت، ہمہ دانی اور حکمت بالغہ کی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں پھر مقام قاب قوسین پر فائز کرکے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا تو وہ سینہ کی تنگی ہمیشہ کے لیے کافور ہوگئی جتنا بھی کوئی ستاتا یا کوئی تمسخر اڑاتا توجبین نبوت پر کبھی ملال کے آثار نمودار نہ ہوتے۔
قرآن میں آپ کے جن مبارک اعضاء کا ذکر ہے۔ ان میں سے دست اقدس بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر ان مبارک ہاتھوں کی عظمت کیا ہوسکتی ہے کہ آپ کے مبارک ہاتھ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا۔
چنانچہ نبی کریم نے ذو القعدہ 6ہجری میں عمرہ کرنے کا جو قصد کیا تھا اور چودہ سو اصحاب کے ساتھ آپ عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے تھے ،اس کا سبب یہ تھا کہ نبی کریم کو اﷲ تعالیٰ نے واقعہ حدیبیہ سے پہلے خواب میں یہ دکھایا تھا کہ آپ مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ انتہائی امن اور بے خوفی کے ساتھ عمرہ کرنے جارہے ہیں۔ ہر چند کہ اس خواب میں یہ تعین نہیں تھا کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے کب روانہ ہو ں گے؟لیکن چھ سال سے آپ اور مسلمانوں نے بیت اﷲ کا طواف نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کی زیارت کی تھی تو آپ اور سب مسلمان بیت اﷲ کی زیارت اور اس کا طواف کرنے کے لیے بے چین تھے۔اس لیے خواب میں جب بیت اﷲ کی زیارت اور اس کے طواف کرنے کا مژدہ اور اس کی بشارت ملی تو آپ نے عمرہ کے لیے رختِ سفر باندھنے میں ذراتا خیر نہ کی اور فوراً عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے اور اس کے لیے مسلمانوں میں اعلان عام کرایا گیا ۔ا س طرح آپ اپنے چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
اسی سے متعلق امام ابن اسحاق کے حوالہ سے امام ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباسنے فرمایا:
کہ قریش نے چالیس یا بچاس آدمی بھیجے اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ رسول اﷲ کے لشکر کے گرد چکر لگائیں تاکہ آپ کے اصحاب میں سے کسی کو پکڑ لیں۔انہوں نے رسول اﷲ کے لشکر کے اوپر پتھر پھینکے اور تیر مارے،ان کو گرفتار کرکے رسول اﷲ کے پاس لایا گیا توآپ نے ان سب کو معاف کردیا اور چھوڑ دیا۔پھر رسول اﷲ نے حضرت عمر کو بلایا تاکہ ان کو مکّہ بھیجیں اور وہ آپ کی طرف سے قریش کے سرداروں کو یہ پیغام پہنچائیں کہ آپ صرف عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ قریش مجھ سے بہت شدید عداوت رکھتے ہیں لیکن میں آپ کو ایک شخص بتاتا ہوں جو میری بہ نسبت ان کے نزدیک بہت معزز اور محترم ہے اور وہ حضرت عثمان بن عفان ہیں۔ پھر رسول اﷲ نے حضرت عثمان کو بلایا اور ان کو ابو سفیان اور قریش کے سرداروں کی طرف بھیجاتاکہ وہ ان کو بتائیں کہ رسول اﷲ جنگ کے لیے نہیں آئے بلکہ آپ صرف بیت اﷲ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لیے آئے ہیں۔
امام ابن اسحاق نے کہا: پھر حضرت عثمان مکّہ گئے اور ابو سفیان و قریش کے دیگر سرداروں کو رسول اﷲ کا پیغام سنایا۔ انہوں نے حضرت عثمان سے کہا اگر تم بیت اﷲ کا طواف کرنا چاہتے ہو تو تم طواف کرلو۔ حضرت عثمان نے کہا جب تک رسول اﷲ طواف نہ کرلیں میں طواف کرنے والا نہیں ہوں۔ پھر قریش نے حضرت عثمان کو پکڑ کر بند کردیا اور رسول اﷲ اور مسلمانوں تک یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان بن عفان کو قتل کردیا گیا۔
امام ابن اسحاق نے کہا کہ جب رسول اﷲ کے پاس حضرت عثمان کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس قوم سے جنگ میں مقابلہ نہ کریں۔پھر رسول اﷲ نے لوگوں کو بیعت کرنے کے لیے بلایا اور پھر ایک درخت کے نیچے یہ بیعت منعقد ہوئی ۔ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم نے رسول اﷲ کے ہاتھ پر مرنے کے لیے بیعت کی ہے یعنی تادم مرگ آپ کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔حضرت جابر بن عبداﷲ یہ کہتے تھے کہ ہم نے موت پر بیعت نہیں کی تھی ہم نے اس پر بیعت کی تھی کہ ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور بھاگیں گے نہیں۔ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے حضرت عثمان کی طرف سے خود بیعت کی اور اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دے کر اس ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا۔ 44
اسی بیعت کے متعلق اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَك اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰه ۭ يَدُ اللّٰه فَوْقَ اَيْدِيْھمْ10 45
(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔
حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں:
كنا یوم الحدیبیة الفا واربع مئة فبایعناه و عمر آخذ بیده تحت الشجرة.46
یوم حدیبیہ کو ہم چودہ سو افراد تھے ہم نے آپ سے بیعت کی اور حضرت عمر نے آپ کا ہاتھ مبارک (کیکر کے) درخت کے نیچے پکڑا ہوا تھا۔
آپ کے دست مبارک کی نسبت سے کنکریاں پھینکنے کے واقعہ میں ربّ تعالیٰ نے آپ کے دست مبارک کو اپنا دستِ اقدس قرار دیا۔ایک غزوہ کے موقعہ پر آپ نے اپنے دست اقدس سے کافروں کی طرف سنگریزے پھینکے جس سے سینکڑوں کافروں کی آنکھیں اور منہ بھر گیا اس منظر کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكنَّ اللّٰه رَمٰى17 47
اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔
اسی حوالہ سے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں :
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : ناولنى كفا من حصى فناولته فرمى به فى وجوه القوم فما بقى فى القوم احد الا ملئت عیناه من الحصا فنزلت. وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمى17 48
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: مجھے کنکریوں کی ایک مٹھی پکڑاؤ۔ میں نے آپ کو یہ پکڑائی تو آپ نے لوگوں کے چہروں کی طرف پھینکی، لوگوں میں سے کوئی آدمی نہیں بچا جس کو کنکری نہ لگی ہو۔ اﷲ نے یہ آیت نازل فرمائی "اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔’’
اسی آیت کریمہ کے شان ِ نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:
انزل اللّٰه جل جلاله على نبیه صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة (سَيُھزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ45)49 فقال عمر بن الخطاب: یا رسول اللّٰه! اى جمع وذلك قبل بدر؟ قال: فلما كان یوم بدر وانھزمت قریش. نظرت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى آثارھم مصلتا بالسیف یقول: (سَيُھزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ45)50 وكانت لیوم بدر فانزل اللّٰه عزوجل فیھم (حَتّٰٓي اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْھمْ بِالْعَذَابِ64)51 الایة وانزل اللّٰه (اَلَمْ تَرَ اِىى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰه 28)52 الایة ورماھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فوسعتھم الرمیة وملات اعینھم وافواھھم حتى ان الرجل لیقتل وھو یقذى عینیه رماہ فانزل اللّٰه (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى17)53 وانزل اللّٰه فى ابلیس (فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيْه وَقَالَ اِنِّى بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّى اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّى اَخَافُ اللّٰه ۭ وَاللّٰه شَدِيْدُ الْعِقَابِ48)54 وقال عتبة بن ربیعة وناس معه من المشركین یوم بدر: غر ھولاء دینھم فانزل اللّٰه (اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِى قُلُوْبِھمْ مَّرَضٌ غَرَّ ھٰه ؤُلَاۗءِ دِيْنُھمْ 49)55 الایة.56
اﷲعزوجل نے اپنے نبی کریم پر مکہ میں یہ آیت "سیھزم الخ..." نازل کی، حضرت عمر بن خطاب نے عرض کی: یا رسول اﷲ! جمع سے مراد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :بدر سے پہلے جب بدر کا دن تھا قریش بھاگے۔ میں نے رسول اﷲ کو ان کے پیچھے تلوار سونتے ہوئے دیکھا،آپ پڑھ رہے تھے "سیھزم...الی آخرہ" بدر کے دن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی"حتی اذا اخذنا...الی آخرہ" پھر یہ آیت اُتاری"الم تر۔۔۔الی آخرہ" رسول اﷲ نے ان پر مٹی پھینکی وہ ان سب پر پھیل گئی، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں اور منہ بھر گئے چنانچہ جب کوئی آدمی (قریش) کاقتل ہوتا تو وہ اس حال میں قتل ہوتا کہ اس کی دونوں آنکھوں میں مٹی پڑی ہوتی۔ سو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی"ومارمیت...الی آخرہ"ابلیس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی"فلما تراء...الی آخرہ"بدر کے دن عتبہ اور ا س کے مشرک ساتھیوں نے کہا :ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے تو اﷲ عزوجل نے یہ آیت نازل کی" اذ یقول المنافقون...الی آخرہ"۔
اسی طرح حضرت جابر بیان کرتے ہیں:
سمعت صوت حصیات وقعن من السماء یوم بدر كانھن وقعن فى طست فلما اصطف الناس اخذھن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فرمى بھن فى وجوه المشركین فذلك قوله تعالى57:(وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى17).58
میں نے ان کنکریوں کی آوازیں سنی تھیں جو بدر کے دن آسمان سے ماری گئی تھیں گویا کہ وہ طشت میں گررہی ہیں پھر جب لوگوں نے صفیں درست کیں تو رسول اﷲ نے کنکریوں کو لے کر مشرکوں کے چہروں کی جانب پھینکا اس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے: اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ :حضور نبی کریم نے فرمایا:علی! مجھے مٹھی بھر سنگریزے دوپھرحضور نبی کریم نے انہیں کفار کی طرف پھینک دیا ۔چنانچہ کفار کی حالت کچھ یوں ہوئی:
فما بقى احد من القوم الا امتلات عیناه من الحصباء.59
دشمن کا کوئی فرد نہ بچا جس کی آنکھ میں سنگریزےنہ گئےہوں ۔
ان سنگریزوں کے متعلق ابن عقبہ اور ابن عائذ لکھتے ہیں:
فكانت تلك الحصباء عظیما شانھا لم تترك من المشركین رجلا الا ملات عینیه وجعل المسلمون یقتلونھم ویاسرونھم وبادر كل رجل منھم منكبا على وجھه لایدرى این یتوجه یعالج التراب ینزعه من عینیه.60
ان سنگریزوں کی عظیم شان تھی مشرکین کے ہر فرد کی آنکھیں اس سے بھر گئیں۔ مسلمان انہیں تہ تیغ کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے۔ ہر شخص چہرے کے بل جھک گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ کہاں جائے؟اور وہ اپنی آنکھوں سے مٹی نکال رہا تھا۔
امام عبد الرحمن سہیلی جنگ بدر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وجاء النصر من عنداللّٰه وقبض النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قبضة من البطحاء ورماھم بھا فملات عیون جمیع العسكر وذلك قوله سبحانه (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى17)61
پھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نصرت آئی اور حضور نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھری اور دشمن کی طرف پھینک دی جس نے سارے لشکر کی آنکھوں کو بھر دیا اسی کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔
جنگ بدر جو 2ہجری میں واقع ہوئی، اس میں کفّار مکّہ بہت سازوسامان کے ساتھ مدینہ طیّبہ پر حملہ کرنے آئے اور اہل مدینہ کے پاس سوائے اﷲ کی مدد اور رسول کی برکت کے اور کچھ بھی نہ تھا۔ کفار تقریباً ایک ہزار تھے اور مسلمان تین سو تیرہ جن کے پاس ہر طرح کے کھانے پینے کا سامان تھامگر مسلمانوں کے منہ میں دن بھر روزہ اور رات میں آیاتِ قرآن کے سوا کچھ نہ تھا۔
مسلمانوں کی اس ظاہری حالت کو دیکھ کر حضور نے سجدہ میں سر رکھ کر بارگاہ الہٰی میں عرض کیا کہ خدایا اس وقت روئے زمین پر تیری سچی عبادت کرنے والی صرف یہی مسلمانوں کی بے سروسامان چھوٹی سی جماعت ہے۔ اگر آج تو نے ان کی امداد نہ فرمائی اور یہ جماعت شکست کھاکر ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تیرا سچا نام لیوا کوئی بھی نہ رہے گا ۔ آپ نے اس قدر گریہ زاری فرمائی کہ اس جگہ کی کنکریاں حضور کے آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ پھرآپ نے سجدے سے سر اٹھایا اور ایک مٹھی خاک کی لے کر لشکر کفار کی طرف پھینکی۔ وہ تمام کنکریاں کافروں کی آنکھوں میں پہنچ گئیں اور کافر آنکھیں ملتے رہ گئے۔بعد میں اﷲ کے فضل سے مسلمانوں کی اس تھوڑی سی جماعت نے کافروں کے اس سازوسامان والے لشکر پر اسی سے فتح پائی کہ جس کا آج تک ذکر چلا آرہا ہے اور بڑے بڑے سردارانِ قریش کفار اس جنگ میں مارے گئے اور بہت سے قید ہوئے۔
یہ تو واقعہ تھا جس کا اس آیت پاک میں ذکر ہوا۔ گویا یہ آیت فرمارہی ہے کہ وہ واقعہ جب آپ نے ایک مشتِ خاک کفار کی طرف پھینکی اور سب کی آنکھوں میں پہنچ گئی تو یہ آپ نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ آپ کے رب نے پھینکی تھیں یعنی ہاتھ تو آپ کے ہی تھے مگر کام اللہ تبارک وتعالیٰ کاتھا۔62
رسول اکرمکی پشت مبارک کا ذکر بھی رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے:
وَوَضَعْنَا عَنْك وِزْرَك2 الَّذِى اَنْقَضَ ظَھرَك3 63
اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا، جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا۔
اسی طرح امام قسطلانیآپ کی خصوصیات کا ذکر کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ومنھا ان اللّٰه تعالى ذكره فى القرآن عضوا عضوا.64
آپ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کے ایک ایک عضو کا ذکر فرمایا۔
خلقِ خدا کے لیے ایسی ذات جس پر ایمان لانا اور جس کے ذریعہ رب تعالیٰ پر ایمان لانا ضروری ہو وہ کتنا جامع الصفات ہونا چاہیے؟تو صاف ظاہر ہے کہ ایسی ہستی مجموعہ صفات و کمالات ہی ہونی چاہیے چنانچہ رب تعالیٰ نے آپ کو سراپا معجزہ بنایا اور آپ کے اوصافِ خُلقی کے ساتھ ساتھ اوصاف خِلقی کا ذکر بھی قرآن کریم میں جابجا فرمایا اور عظمت و مقام مصطفیٰ کو تاقیامت اپنے کلام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش فرما دیاتاکہ جب جب اللہ ربُّ العزّت کے کلام کی تلاوت کی جائے، تب تب اللہ کے رسول کی عظمت کے پائندہ نقوش ، اہل ِایمان کے باصرہ نواز ہوتے رہیں۔