Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺاورایصالِ ثواب

معمولاتِ میلاد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان اس دن صدقہ و خیرات کیاکرتے ہیں جن کو ایصال ِثواب کہا جاتا ہے اور اس کا ثواب حضور نبی کریم ﷺاور اپنے وفات پائے رشتہ داروں کو بخش دیتے ہیں۔ میلاد النبی ﷺکو ناجائز کہنے والے اس دن صدقہ وخیرات کو بھی منع کرتے ہیں اور اس کو بدعت وحرام کہتے ہیں حالانکہ ان میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس کو حرام کہا جائے کیونکہ معمولات میلاد کے ہر عمل کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔

ایصالِ ثواب کی تعریف

ایصال کا مادہ "وصل"ہے جس کا معنی جوڑنا اور پہنچانا ہے۔اس لحاظ سے ایصال کا مطلب ہوتا ہے "بھیجنا"اور ثواب کا مطلب ہے "اعمال کا بدلہ" یا وہ چیز کہ جس کے باعث انسان اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ومغفرت اور رسول اﷲ ﷺکی جانب سے شفاعت کا مستحق ہوجاتا ہے۔ایصالِ ثواب میں نیک اعمال کرکے اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا جاتا ہے کہ اس عمل کا ثواب فلاں کی روح تک پہنچادیں۔

چونکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فضل وکرم کی کوئی حد نہیں ہے اور وہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے اسی وجہ سے قبر میں اپنے اعمال کے علاوہ بخشش کا ایک ذریعہ موجود ہے جس کا نام"ایصال ثواب"ہے اور یہ بھی اﷲ تبارک وتعالیٰ ہی کا فضل وکرم ہے کہ انسان کے اعمال کے علاوہ بھی بخشش کا ایک ذریعہ پھر بھی باقی رکھا ہے کہ اس انسان کے رشتہ دار یا کوئی بھی مسلمان اس کی وفات کے بعد اس کے لیے ایصالِ ثواب کرسکتا ہے۔

ایصال ِثواب قرآن کی روشنی میں

کوئی بھی زندہ مسلمان شخص کسی بھی فوت شدہ مسلمان شخص کو اپنے کسی بھی نیک عمل کے ذریعہ سے ایصال ثواب کرسکتا ہے خواہ وہ کھانا کھلانےکی صور ت میں ہو یا پانی پلانے کی صورت میں۔یہاں تک کہ کوئی اپنی دعا سے بھی ایصال ثواب کرسکتا ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:

  رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ411
  اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے)اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔

اس آیت مبارکہ میں حضرت ابراہیم نے اپنےفوت شدہ والدین کے لیے اور دیگر اہل ایمان کے لیے دعاء مغفرت کی ہے جو کہ ایصال ثواب ہی کی ایک قسم ہے۔اسی طرح قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کی مغفرت کی دعا کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

  وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 10 2
  اور وہ لوگ (بھی) جو اُن (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے (اور) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی، جو ایمان لانے میں ہم سے آگے بڑھ گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کوئی کینہ اور بغض باقی نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بیشک تو بہت شفقت فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

ان مذکورہ بالا دونوں آیات ِمبارکہ میں فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کا ذکر کیاگیا ہے جس میں اس طرف واضح اشارہ ہے کہ اپنے ان مسلمان مرد وں اورعورتوں کےلیے ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے جو اس دنیا سے رخصت ہوجائیں کیونکہ دعائے مغفرت کرنا ہی اصل ایصال ثواب ہے۔

ایصال ثواب احادیث کی روشنی میں

اسی طرح بخشش کا یہ ذریعہ نبی مکرم ﷺکی کئی احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا :

  ما من ميت تصلى عليه أمة من المسلمين يبلغون مائة كلھم يشفعون له إلا شفعوا فيه.3
  جس میت پر مسلمانوں کی ایسی جماعت نماز پڑھے جس کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اﷲ کے حضور میں اس میت کے لے سفارش کریں تو ان کی یہ سفارش ضرور قبول کی جاتی ہے۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ میت نے کچھ بھی نہیں کیا لیکن اﷲ تعالیٰ کا فضل وکرم یہ ہےکہ محض اپنی مہربانی اور مسلمانوں کے نماز جنازہ پڑھنے سے مسلمان کی بخشش فرمادیتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بعد یہ سب برکتیں ایصالِ ثواب کی وجہ سے ہیں کہ ان نیکیوں کے ثواب بخشنے سے میت کو اتنابڑا نفع ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیث مبارکہ منقول ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ فوت ہوئیں تو انہوں نے نبی کریم ﷺسے عرض کیا:

  یا رسول اللّٰه إن أمى ماتت فأتصدق عنھا قال نعم قال فأى الصدقة أفضل قال سقی الماء قال فتلك سقایة آل سعد بالمدینة.4
  یا رسول اﷲ! میری والدہ فوت ہوگئی ہیں کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا ہاں! انہوں نے پوچھا کہ پھر کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا پانی پلانا ، راوی کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں آل سعد کے پانی پلانے کی اصل وجہ یہی ہے۔

اسی طرح اس روایت کو ابن خزیمہ نے بھی نقل کیا ہے جس میں مزید تفصیلات بھی منقول ہوئی ہیں چنانچہ امام ابن خزیمہ اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں:

  خرج سعد بن عبادة مع النبی صلى اللّٰه عليه وسلم فى بعض مغازیه فحضرت أم سعد الوفاة فقیل لھا أوصى فقالت فیما أوصى إنما المال مال سعد فتوفیت قبل أن یقدم سعد فلما قدم سعد ذكر له ذلك فقال یا رسول اللّٰه هل ینفعھا أن أتصدق عنھا قال نعم قال سعد حائط كذا وكذا صدقة عنھا لحائط قد سماه.5
  حضرت سعد بن عبادہ کسی غزوہ میں نبی کریم ﷺکے ساتھ نکلے توحضرت سعد کی والدہ کی وفات ہوگئی ان سے کہا گیا وصیت کردو کہنے لگی کس چیز کی وصیت کروں؟ یہ مال تو سعد کا ہے چنانچہ وہ حضرت سعد کے آنے سے پہلے وفات پاگئیں۔ جب حضرت سعد آئے تو ان کے سامنے اس بات کا ذکر ہوا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! اگر میں صدقہ کردوں تو کیا انہیں فائدہ ہوگا؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں حضرت سعد نے کہا فلاں فلاں باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے اور اس باغ کا نام اپنی والدہ کے نام پر رکھا۔

یعنی اس حدیث مبارکہ میں اس چیز کی وضاحت ہوگئی ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی نیک عمل کا فائدہ کسی دوسرے شخص کو پہنچا سکتا ہے ۔اسی طرح اس حوالہ سے ایک روایت نقل کرتےہوئے حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :

  إن رجلاً قال للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم أن أبى مات وترك مالا ولم یوص فھل یكفر عنه أن أتصدق عنه قال نعم.6
  ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرا باپ فوت ہوگیا اور مال چھوڑ گیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی پس کیا اس کی طرف سے اگر صدقہ کردوں تو ان کا کفارہ ہو جائے گا تو حضوراکرم ﷺنے فرمایا ہاں۔

اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :

  إن رجلا قال للنبی صلى اللّٰه عليه وسلم أن أمى أفتلتت نفسھا وأظنھا لو تكلمت تصدقت فھل لھا أجر أن تصدقت عنھا قال نعم.7
  ایک آدمی حاضر خدمت ہوا اورعرض کی کہ میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر اس کو بات کرنے کا موقع ملتا تو صدقہ کرتی تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو اجر ملے گا؟ فرمایا ہاں ثواب ملے گا۔

امام ابن ماجہ نے اس روایت کو یوں نقل کیا ہے:

  لتصدقت فلھا أجر إن تصدقت عنھا ولى أجر؟ فقال نعم.8
  اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کے ثواب کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ثواب ملے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔

اسی طرح اس حوالہ سے ایک اور حدیث مبارکہ کو اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہوئےامام ابو داؤد روایت کرتے ہیں:

  حدثنا محمد بن المثنى حدثنى ابراهیم بن صالح بن درهم قال سمعت أبى یقول انطلقنا حآجین فإذا رجل فقال لنا إلى جنبكم قریة یقال لھا الإهلة قلنا نعم قال من یضمن لى منكم أن یصلى لى فى مسجد العشار ركعتین أو أربعا ویقول هذه لأبى هریرة سمعت خلیلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یقول إن اللّٰه یبعث من مسجد العشار یوم القیامة شھداء لا یقوم مع شھداء بدر غیره. قال أبوداود هذا المسجد مما یلى النھر.9
  حضرت صالح بن درہم تابعیکہتے ہیں کہ ہم حج کے لیے بصرہ سے مکہ گئے تو وہاں کسی جگہ ایک شخص (یعنی حضرت ابوہریرہ ) کو کھڑے دیکھا ۔انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا تمہارے شہر کے نواح میں ایک بستی ہے جس کو ابلہ کہا جاتا ہے ہم نے کہا کہ ہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم میں سے کون شخص اس کا ذمہ لیتا ہے کہ وہ میری طرف سے مسجد عشار میں دو رکعت یا چار رکعت نماز پڑھے اور یہ کہے کہ اس نماز کا ثواب ابوہریرہ کو پہنچے کہ میں نے اپنے خلیل صادق ابو القاسم حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یقیناً اﷲ تعالیٰ مسجد عشار سے قیامت کے دن شہداء کو اٹھائے گا اور بدر کے شہداء کے ساتھ ان شہداء کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا ۔قیامت کے دن بدر کے شہداء کے ساتھ جو شہداء اپنی اپنی قبر سے اٹھیں گے وہ اسی مسجد کے شہداء ہوں گے یا یہ کہ قیامت کے دن مرتبہ کے اعتبار سے شہداء بدر کے ہمسران شہداء کے علاوہ اور کوئی شہید نہیں ہوگا۔امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ مسجدبصرہ کے اس نواحی حصے میں ہے جو دریا (فرات) کی طرف ہے۔

ان مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوا کہ کسی فوت شدہ مسلمان کو اپنی کسی نیکی کے ذریعہ سے ملنے والا ثواب کا تصدق و ایصال کیا جاسکتا ہے اور نبی مکرم ﷺنے اس ایصال کو ثابت فرمایا ہے اور اس کی اجازت بھی مرحمت فرمائی ہے۔

بعام کے ذریعہ ایصالِ ثواب

یہ ایصال ثواب ہر طرح کے عمل سے ممکن ہے خواہ وہ کھانا کھلانے کے ذریعہ سے کیا جائے چنانچہ حضرت مریم بنت قردہ فرماتی ہیں:

  أن عمران بن حصین لما حضره الوفاة قال إذا أنا مت فشدوا على بطنى عمامة وإذا رجعتم فانحروا وأطعموا.10
  جب حضرت عمران بن حصین وفات پانے لگے تو انہوں نے کہا جب میں مرجاؤں تو میرے پیٹ سے عمامہ باندھنا ۔جب تم مجھے دفن کرکے واپس جاؤ تو اونٹ ذبح کرکے کھانا کھلانا۔

اسی طرح مروی ہے کہ حضرت انس نے آنحضرت ﷺسے پوچھا:

  یا رسول اللّٰه إنا نتصدق عن موتانا ونحج عنھم وندعولھم فھل یصل ذالك إلیھم؟ قال: نعم إنه یصل إلیھم وإنھم لیفرحون به كما یفرح أحدكم بالطبق إذا أهدى إلیه.11
  یا رسول اﷲ ﷺہم اپنے مردوں کی طرف سے صدقہ دیتے ، حج کرتے اور ان کے لیے دعا مانگتے ہیں تو کیا یہ سب (چیزیں یعنی ان کا ثواب) ان کو پہنچتا ہے؟ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا ہاں ان کا ثواب ان کو پہنچتا ہے اور وہ اس سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی شخص (اس وقت) خوش ہوتاہے جب اس کو طشت بھر کوئی چیز ہدیہ دی جائے۔

اس حدیث میں نبی مکرم ﷺنے اس بات کی وضاحت فرمادی ہے کہ مختلف النوع اشیاء کا ثواب مسلمان میت کو پہنچایا جاسکتا ہے خواہ وہ کھانا کھلانے کے ذریعہ سے ہی کیوں نہ ہو۔

بدنی و مالی عبادات کا ایصالِ ثواب

بدنی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادات جن کا تعلق انسان کے بدن کے ساتھ ہوتا ہے جس میں صرف جسمانی محنت درکار ہے اور ا س میں مال خرچ کرنیکی ضرورت نہیں پڑتی ہے مثلاً نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، تلاوت قرآن کرنا، ذکر و اذکار وغیرہ کرنا اس کو "بدنی عبادت"سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

مالی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عبادات جس میں انسان کا مال خرچ ہو مثلاً صدقہ کرنا، خیرات کرنا، کسی کو نقد رقم دینا، زکوۃ دینا، قربانی کرنا اور اسی طرح کے دیگر کام جس میں انسان کا مال اﷲتبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ ہوتا ہو اس کو" مالی عبادت "کہتے ہیں۔

اسی طرح ان دونوں کے علاوہ ایک تیسری قسم یہ بھی ہےجس میں مالی و بدنی دونوں عبادات شامل ہوتی ہيں یعنی وہ عبادات جن میں بدن کو بھی مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے جیسے حج کرنایا عمرہ اداکرنا۔ ان مذکورہ تینوں قسم کی عبادات کوایصالِ ثواب کرسکتے ہیں اور ان کا میت کو ثواب پہنچتا ہے چنانچہ امام علی مرغینانی لکھتے ہیں:

  الأصل فى هذا الباب أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلوة أو صوما أو صدقة أو غیرها عند أهل السنة والجماعة.12
  اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اس باب میں اصل (یعنی قانون کلی) یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال صالحہ،نمازیا روزہ یا صدقہ خیرات یا اس کے علاوہ کسی عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔

اسی حوالہ سے فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

  الأصل فى هذا الباب أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلوة أو صوما أو صدقة أو غیرها كالحج وقرآءة القرآن والأذكار وزیارة قبورالأنبیاء علیھم الصلوٰة والسلام والشھداء والأولیاء والصالحین وتکفین الموتى وجمیع أنواع البر.13
  اس باب میں اصل یہ ہے کہ اپنے عمل کا ثواب کسی اور کے واسطے کردینا جائز ہے چاہے وہ عمل نماز ہو یا روزہ یاصدقہ یا کچھ اور جیسے حج، تلاوتِ قرآن اور دیگر اذکار وظائف اور انبیاء شہداء اولیاء اور صالحین کی قبروں کی زیارت اور مردوں کو کفن دینا اور ہر قسم کے نیک اعمال۔

اسی طرح امام ابن قدامہ حنبلی اس مؤقف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  وأى قربة فعلھا وجعل ثوابھا للمیت المسلم نفعه ذلك إن شاء اللّٰه أما الدعاء والإستغفار والصدقة وأداء المواجبات فلا أعلم فیه خلافا.14
  انسان جو بھی نیکی اور عبادت کرے اور اس کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو بخش دے تو ان شاء اﷲ اس مردے کو اس کا ثواب اور نفع ضرور پہنچے گا چنانچہ دعا واستغفار اور صدقہ خیرات نیز مرحوم کی چھوٹی ہوئی واجب (مالی)عبادات کی ادائیگی کے ذریعہ مردے کو نفع و ثواب پہنچنے میں ہماری دانست کے مطابق امت میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

یعنی فقہائے امت کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ کوئی زندہ مسلمان کسی فوت شدہ مسلمان کو اپنی مالی وبدنی یا ان دونوں سے مرکب عبادات کا ثواب ایصال کرسکتا ہے۔

غلام آزاد کرنے کے ذریعہ ایصالِ ثواب

اسی طرح یہ ایصال ثواب غلام کو آزاد کر کے بھی کیا جاسکتا ہے جو کہ مالی عبادت ہے چنانچہ اس حوالہ سے روایت کرتے ہوئے حضرت عمرو بن شعیب کے والد ماجد نے اپنے والد محترم سے نقل کیاہے :

  إن العاص بن وائل أوصى أن یعتق عنه مئة رقبة فاعتق ابنه هشام خمسین رقبة فأراد ابنه عمرو أن یعتق عنه الخمسین الباقیة فقال حتى أسأل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فأتى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال یارسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن أبى أوصى بعتق مئة رقبة وإن هشاما أعتق عنه خمسین وبقیت علیه خمسون رقبة أفأعتق عنه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لوكان مسلما فاعتقتم عنه أو تصدقتم عنه أو حججتم عنه بلغه ذلك.15
  عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے سو غلام آزاد کئےجائیں پس اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کردیے پھر اس کے صاحبزادے حضرت عمرو نے باقی پچاس غلام آزاد کرنے کا ارادہ کیا ۔پس دل میں کہا کہ کیوں نہ میں حضور نبی کریم ﷺسے دریافت کرلوں پس یہ نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے یا رسول اﷲ! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تو ہشام نے ان کی طرف سے پچاس آزاد کردیے اور پچاس باقی رہ گئے پس کیا میں ان کی طرف سے آزاد کردوں؟ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: اگر وہ مسلمان ہوتے اور تم ان کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اس کا ثواب انہیں پہنچ جاتا۔

اسی طرح بدنی عبادت کےذریعہ سے بھی ایصال ثواب کیاجاسکتا ہے چنانچہ ایک مروی حدیث میں سیّدنا ابن عباس بیان کرتے ہیں :

  أن امرأة أتت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت: إن أمى ماتت وعلیھا صوم شھر فقال أرأیت لو كان علیھا دین أكنت تقضینه عنھا فقالت نعم فقال دین اللّٰه أحق بالقضاء.16
  ایک عورت حضور نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور فرمایا کہ میری ماں فوت ہوگئی ہے اور ان پر مہینہ کے روزے تھے تو حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا :اگر تیری ماں پر کوئی قرضہ ہوتا تو کیا تو ادا کردیتی اس عورت نے جواباً عرض کیا "جی ہاں" تو حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :اﷲ تعالیٰ کا زیادہ حق ہے کہ اس کا قرضہ ادا کیا جائے۔

یعنی مالی و بدنی نیکی کے ذریعہ سے مسلمان میت کو ایصال کیا جاسکتا ہے اوراگر اس پر کوئی شرعی واجبات قضاء ہوں تب بھی اس کی طرف سے وہ ادا کیے جاسکتے ہیں۔

اعتکاف کے ذریعہ سے ایصالِ ثواب

اسی طرح اعتکاف جو کہ ایک بدنی عبادت ہے اس کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔اس پر ام المؤمنین عائشہ صدیقہ کا عمل صریح دلیل ہے چنانچہ مروی روایت میں اس حوالہ سے یہ منقو ل ہے:

  عن عامر بن مصعب أن عائشة اعتكفت عن أخیھا عبد الرحمن بعد ما مات.17
  عامر بن مصعب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ نے ان کی طرف سے اعتکاف کیا۔

اسی طرح بدنی و مالی مرکب عبادات کا ثواب بھی ایصال کیا جاسکتا ہے چنانچہ اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں:

  أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سمع رجلا یقول لبیك عن شبرمة فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من شبرمة قال قریب لى قال هل حججت قط قال لا قال فاجعل هذه عن نفسك ثم أحجج عن شبرمة.18
  حضور نبی کریم ﷺنے سنا کہ ایک آدمی (طواف کعبہ کے دوران) کہہ رہا ہے اے اﷲ میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں تو حضور نبی کریم ﷺنے اس سے دریافت فرمایایہ شبرمہ کون ہے؟ تو وہ عرض گزار ہوا میرا قرابت دار ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے پوچھا کیا تم نے خود حج کیا ہوا ہے؟ اس نے عرض کی نہیں تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا یہ حج اپنی طرف سے کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔

مذکورہ بالا آیات و احادیث نبویہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فوت شدہ مسلمان مرد و عورت کو اپنی کسی بھی طرح کی نیکی کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے اور یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل ِخاص ہے کہ مرنے کےبعد بھی یہ طریقہ جاری فرمادیا ہے تاکہ امت محمدیہ ﷺ رب کریم کے فضل و احسان سے شاد رہے۔

ایصالِ ثواب اوربزرگان دین

قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ایصال ثواب کے علاوہ کئی بزرگوں کے مشاہدات سے بھی یہ ثابت ہے کہ بے شمار گنہگار لوگ اس ایصالِ ثواب کے ذریعہ بخشے گئے ہیں چنانچہ امام ابوقلابہ سے ایک مردے نے خواب میں کہا :

  جزى اللّٰه أهل الدنیا خیرا أقرئھم منا السلام فإنه یدخل علینا من دعائھم نور مثل الجبال.19
  اﷲ اہل دنیا کو جزاء دے میرا انہیں سلام کہنا کیونکہ ان کی دعا سے ہم کو پہاڑ جتنا نور ملتا ہے۔

اسی طرح امام ابن ابی الدنیا بیان کرتے ہیں :

  وقال ابن أبى الدنیا حدثنا أبو عبداللّٰه بن بحیر حدثنى بعض أصحابنا قال رأیت أخالى فى النوم بعد موته فقلت أیصل إلیكم دعاء الأحیاء قال أى واللّٰه یترفرف مثل النورثم نلبسھا. وروى بإسناده عن بشاربن غالب البحرانى قال رأیت رابعة العدویة فى منامى وكنت كثیر الدعاء لھا فقالت لى یا بشار بن غالب هدایاك تأتینا على أطباق من نور مخمرة بمنادیل الحریر قلت وكیف ذلك قالت هكذا دعاء المومنین الأحیاء إذا دعوا للموتى فاستجیب لھم جعل ذلك على أطباق النور وخمر بمنادیل الحریر ثم أتى به إلى الذى دعى له من الموتى فقیل هذه هدیة فلان إلیك. وبإسناده عن عمرو بن جریر قال إذا دعا العبد لأخیه المیت أتاہ ملك فى قبره فقال له یا صاحب القبر الغریب هدیة من أخ شفیق علیك.20
  ایک آدمی نے کہا میں نے بھائی کی وفات کے بعد اسے خواب میں دیکھا تو پوچھا کیازندہ لوگوں کی دعا تم تک پہنچتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں واﷲ! وہ دعا نور کی چاد ر بن کر آتی ہے جسے ہم پہن لیتے ہیں۔حضرت بشار بن غالب البحرانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رابعہ بصریہ کو خواب میں دیکھا، میں ان کے لیے بڑی دعائیں کیاکرتا تھا، تو انہوں نے فرمایا: تیرے تحفے ہمارے پاس تھال میں رکھے ہوئے آتے ہیں جن پر ریشم کے رومال ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کس بنا پر؟ فرمایا میت کے لیے زندہ مومنوں کی دعا قبول کی جاتی ہے اور تھال میں ریشمی رومال سے ڈھک کر میت کو دی جاتی ہے پھر میت سے کہا جاتا ہے کہ تجھے یہ تحفہ فلاں کی طرف سے آیا ہے۔عمرو بن جریرسے روایت ہے کہ جب کوئی میت کے لیے دعا کرتا ہے تو قبر میں فرشتہ آکر کہتا ہے: اے قبر والے تیرے! فلاں مہربان بھائی نے تجھے ہدیہ بھیجا ہے۔

اسی طرح اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے امام عبد الحق ابن الخراط لکھتے ہیں:

  و عن بعض الصالحین أنه قال مات أخ لى فرأیته فى النوم فقلت یا أخى ما كان حالك حین وضعت فى قبرك قال أتانى بشھاب من نار فلولا أن داعیا دعا لى لھلكت.21
  بعض صالحین سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بیان کیا کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا میں نے اس کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ بتاؤ تمہارے ساتھ قبر میں کیا سلوک ہوا؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک آنے والا (فرشتہ) آگ کا شعلہ لے کر آیا پس اگر میرے حق میں ایک دعا کرنے والے شخص نے دعا نہ کی ہوتی تو میں ہلاک ہوجاتا۔

ان تمام مذکورہ واقعات کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس کو حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:

  ما المیت فى القبر إلا كالغریق المتغوث ینتظر دعوة لحقه من أب أو أم أو أخ أو صدیق فإذا لحقته كان أحب إلیه من الدنیا و ما فیھا و إن اللّٰه تعالى لیدخل على أهل القبور من دعآء أهل الأرض أمثال الجبال و إن هدیة الأحیاء إلى الأموات الاستغفار لھم.22
  میت قبر میں اس حالت میں ہوتی ہے جس طرح کوئی ڈوبتا ہوا آدمی مددمانگنےوالاہو۔ اسے انتظار ہوتا ہے کہ اسے کوئی دعا پہنچے ماں یا باپ یا بھائی یا کسی دوست کی طرف سے تو جب اس کو دعا پہنچ جاتی ہے تو وہ دعا اسے دنیا وما فیہا سے محبوب ہوتی ہے اور بے شک اﷲ تعالیٰ زمین والوں کی دعا سے اہل قبور کو پہاڑوں کے برابر ثواب عطا کرتا ہے اور بے شک اہل قبور کے لیے زندوں کا ہدیہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا ہے۔

یعنی کہ ایک فوت شدہ گناہگار مسلمان اپنے پسماندگان افرادسے کسی بھی قسم کے ایصال ثواب کی امید رکھتا ہے اور جب یہاں سے کوئی اسے ایصال ثواب کرتا ہے تو یہ اس فوت شدہ مسلمان کو انتہائی خوش و خرم کردیتا ہے اوراس ایصال کو وہ تمام چیزوں سے بڑھ کر محبوب جانتا ہے۔

ایصالِ ثواب کے فوائد

ایصال ثواب سے نہ صرف فوت شدہ مسلمان کو ہی فائدہ پہنچتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایصال کرنے والوں کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ فائدہ سے محروم نہیں فرماتا چنانچہ ایصالِ ثواب کے کئی فوائد ہیں جنہیں ذیل میں درج کیاجارہا ہے :

  1. ایصالِ ثواب نبی مکرم ﷺاور آپ ﷺکےصحابہ کرام کی سنت مبارکہ ہے تو جو کوئی بھی ایصالِ ثواب کرتا ہے وہ حضور ﷺاور صحابہ کرام کی سنت پر عمل کرتاہے۔
  2. رسول کریم ﷺاور صحابہ کرام نے ایصالِ ثواب کے لیے ترغیب ووصیت فرمائی تو جو کوئی بھی ایصالِ ثواب کرتا ہے وہ اس وصیت پر عمل کرتا ہے۔
  3. ایصالِ ثواب اصل میں وسیلہ نجات ہے اور اس کی برکت سے مرحومین کے گناہوں کو مٹادیا جاتا ہے تو جو کوئی بھی ایصالِ ثواب کرتا ہے وہ اپنے مرحومین کے ساتھ بڑی نیکی کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے مرحومین کے گناہوں کے مٹانے کا سبب بنتا ہے۔
  4. ایصالِ ثواب چونکہ ثواب ہی ثواب کا کام ہے اسی لیے مرحومین کے علاوہ ایصالِ ثواب کرنے والا خود بھی ڈھیر ساری نیکیاں کمالیتا ہے اور جتنا ثواب مرحومین کو ملتا ہے وہی ثواب اس ایصالِ ثواب کرنے والے کو بھی ملتا ہے۔

ایصال ثواب پر شبہات اور ان کا ازالہ

اب تک بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہوگیا ہے کہ فوت شدہ مسلمان کو ایصال ثواب کیاجاسکتا ہے ۔اس پر اعتراض کرتے ہوئے قرآن مجید کی درج ذیل آیات مبارکہ سے دلیل دیتے ہوئےبعض لوگ کہتے ہیں کہ ثواب کسی کو نہیں پہنچتا کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْھا مَا اكْتَسَبَتْ 28623
  اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے ۔

نیز ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 3924
  اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔

جس سے معلوم ہوا کہ غیر کا کام اپنے لیے مفید نہیں ہے اور غیر کا کیاگیا ایصال ثواب بھی نہیں پہنچ سکتا ۔اس اعتراض کے جواب ميں قابل غور بات یہ ہے کہ آیات کا یہ مفہوم لے کر ایصال ثواب کو رد کرنا غلط ہے کیونکہ پیش کردہ پہلی آیت مبارکہ میں یہ" لام" ملکیت کا ہے یعنی انسان کے لیے قابل بھروسہ اور اپنی ملکیت میں اپنے ہی اعمال ہیں نہ کہ غیر کے اعمال کہ معلوم نہیں ہے کہ کوئی دوسراایصالِ ثواب کرے یا نہ کرے ۔یعنی ایصال ثواب پر بھروسہ کرکے اپنے عمل سے غافل نہ رہے۔

رہی دوسری آیت مبارکہ تو اس آیت مبارکہ کی علماء امت نے کئی طرح سے تاویل کی ہے جس میں اس اعتراض کے کئی جوابات تحریر کیے ہیں جو بالترتیب درج ذیل ہیں:

آیت کا پہلا جواب

حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں بیان کردہ حکم ایک درج ذیل آیت مبارکہ سے منسوخ ہوگیا ہے جس میں خود اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کسی دوسرے کے عمل کی بنا پر بعض اشخاص کے درجات میں بلندی فرمائی ہے جو کہ ایصال ثواب کی ایک شکل ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادمبارک ہے:

  وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھمْ ذُرِّيَّــتُھمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِھمْ ذُرِّيَّتَھمْ وَمَآ اَلَتْنٰھمْ مِّنْ عَمَلِھمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهيْنٌ 2125
  اور جو لوگ ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے ایمان میں اُن کی پیروی کی، ہم اُن کی اولاد کو (بھی) (درجاتِ جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے (خواہ اُن کے اپنے عمل اس درجہ کے نہ بھی ہوں یہ صرف اُن کے صالح آباء کے اکرام میں ہوگا) اور ہم اُن (صالح آباء) کے ثوابِ اعمال سے بھی کوئی کمی نہیں کریں گے، (علاوہ اِس کے) ہر شخص اپنے ہی عمل (کی جزا و سزا) میں گرفتار ہوگا۔

حضرت ابن عباس نے کہا ہے اس آیت کے ذریعہ سے مذکورہ بالا آیت مبارکہ منسوخ ہے چنانچہ امام طبری لکھتے ہیں:

  وذكر عن ابن عباس أنه قال هذه الآیة منسوخة. حدثنا على قال ثنا أبو صالح قال ثنى معاویة عن على عن ابن عباس قوله وأن لیس للانسان إلا ما سعى قال فأنزل اللّٰه بعد هذا والذین آمنوا واتبعناهم ذریاتھم بإیمان الحقنابھم ذریاتھم فأدخل الأبناء بصلاح الآباء الجنة.26
  اورحضرت ابن عباس سےروایت ہےکہ یہ آیت منسوخ ہے۔علی نے ہم سے کہا کہ ہمیں ابو صالح نےبیان کیاکہ معاویہ نےمجھے بیان کیاعلی سے، انہوں نےابن عباس سےکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے"وأن لیس للانسان إلا ما سعی" پھرفرمایا کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے "والذین آمنوا واتبعناھم ذریاتھم بإیمان الحقنابھم ذریاتھم "نازل فرماکر اولاد کو آباء کی سعادت کی وجہ سے جنت میں داخل کردیا۔

قیامت کے دن فوت شدہ نابالغ بچے کو اس کے باپ کے میزان میں رکھا جائے گا اور اﷲتعالیٰ اس بچہ کی سفارش کو اس کے باپ دادا کے حق میں قبول فرمائے گا۔ اس کی دلیل درج ذیل آیت مبارکہ ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا1127
  تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔

یعنی دونوں ہی نفع مند ہیں لیکن کون زیادہ نفع مند ہے اس کےبارے میں انسان نہیں جانتا۔اس آیت مبارکہ سے بھی واضح ہوا کہ دوسرا شخص بھی نفع مند ہوسکتا ہے۔اسی طرح معترضین کی طرف سے پیش کردہ آیت مبارکہ کے حوالہ سے امام قرطبی لکھتے ہیں:

  فإن قیل فقد قال اللّٰه تعالىٰ "وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى28 وهذا یدل على أنه لا ینفع أحدا عمل أحد. قیل له هذه آیة اختلف فى تأویلھا أهل التأویل. فروى عن ابن عباس أنھا منسوخة بقوله تعالىٰ والذین آمنوا واتبعتھم ذریتھم بإیمان الحقنا بھم ذریتھم" فیجعل الولد الطفل یوم القیامة فى میزان أبیه ویشفع اللّٰه تعالىٰ الآباء فى الأبناء والأبناء فى الآباء. یدل على ذلك قوله تعالى "آباؤكم وابناؤكم لاتدرون أیھم أقرب لكم نفعا".29
  اگر یہ سوال کیاجائے کہ اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہےکہ" انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی"تویہ آیت تو دلالت کرتی ہے کہ کسی بھی شخص کا عمل کسی بھی دوسرے شخص کو نفع نہیں دیتا ؟(تو اس کا جواب یہ ہے کہ)اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں ۔حضرت عبداﷲ بن عباس نے فرمایا کہ یہ حکم آیت"اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّيَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ" 30 سے منسوخ ہوگیا یعنی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی۔قیامت کے دن فوت شدہ نابالغ بچے کو اس کے باپ کے میزان میں رکھا جائے گا اور اﷲ تعالیٰ اس بچہ کی سفارش کو اس کے باپ دادا کے حق میں قبول فرمائے گا اور اسی طرح باپ دادا کی شفاعت ان کی اولادوں کے حق میں قبول فرمائے گا۔ اس کی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے : تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم کیا جانو کہ ان میں کون تمہارے زیاده کام آئے گا۔

اس قول ابن عباس کو بیان کرتے ہوئے امام ابن الملقن لکھتے ہیں:

  وأما منسوخة بقوله تعالىٰ "الحقنا بھم ذریتھم.31
  البتہ یہ (ان لیس للانسان والی آیت) قول باری تعالیٰ "الحقنا بھم ذریتھم"سے منسوخ ہے۔

ان مذکورہ تمام عبارات سے واضح ہواکہ معترضین کی طرف سے پیش کردہ آیت کریمہ بقول ابن عباس اس کے بعد نازل ہونے والی دوسری آیت سے منسوخ ہے کیونکہ اس دوسری آیت اور دیگر آیات میں وضاحت کے ساتھ آیا ہے کہ کسی ایک شخص کے اعمال کا فائدہ کسی دوسرے شخص کو ہوسکتا ہے۔

آیت کا دوسرا جواب

معترضین کی طرف سے پیش کردہ آیت مبارکہ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں انسان سے مراد مسلمان نہیں بلکہ کافر ہے کیونکہ مسلمان کو تو اس کے اپنے عمل اور کوشش کا ثواب بھی ملتا ہے اور جو دوسرا کوئی اس کے لیے کوشش کرتا ہے اس کا بھی اسے نفع پہنچتا ہے جیساکہ آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

  اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا1132
  تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ باپ یا بیٹے دونوں ہی انسان کے لیے نفع مند ہوتے ہیں لہذا مذکورہ بالا آیت کریمہ میں انسان سے مراد کافر ہے کیونکہ اس کو اس طرح کا نفع نہیں ملےگا۔پھر کسی دوسرے کے فائدہ مند ہونے کے ثبوت پر کئی احادیث بھی موجود ہیں جیسا کہ احادیث میں منقول حضرت سعد کا واقعہ اس پر شاہد ہے۔33

معترضین کی طرف سے پیش کردہ آیت میں انسان سے مراد کافر ہے اس حوالہ سے امام قرطبی لکھتے ہیں:

  وقال الربیع بن أنس "وأن لیس للإنسان إلا ما سعى"یعنی الكافر. وأما المؤمن فله ماسعى وماسعى له غیره وقلت وكثیر من الأحادیث تدل على هذا القول ویشھد له وأن المؤمن یصل إلیه ثواب العمل الصالح من غیرہ.34
  اورربیع بن انس فرماتے ہیں آیت " انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی " میں انسان سے مراد اس جگہ کافر ہے باقی رہا مسلمان تو اس کو اپنے عمل اور کوشش کا ثواب بھی ملتا ہے اور جو دوسرا کوئی اس کے لیے کوشش کرتا ہے اس کا بھی اسے نفع پہنچتا ہے۔میں کہتا ہوں کہ ایصالِ ثواب کے سلسلے میں بکثرت احادیث طیبہ میں دلائل اور شواہد موجود ہیں اور بے شمار حدیثوں سے ثابت ہے کہ مومن کو دوسرے شخص کے نیک اعمال کا ثواب ملتا ہے۔

اس مذکورہ عبارت اور پیش کردہ قرآنی آیت و حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ جس کو دوسرے کی سعی کا فائدہ نہیں ملےگا وہ کافر ہے اور مومن کو اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کا بھی فائد ہ ملتا ہے۔

آیت کا تیسرا جواب

معترضین کی پیش کردہ آیت کریمہ کا تیسرا جواب یہ بھی ہے کہ اس آیت میں مراد صرف گناہ ہیں یعنی گناہوں کا ضرر صرف اسی کو پہنچتا ہو جو ان کا ارتکاب کرے گا رہی بات نیکیوں کی تو اس کافائدہ پہنچ سکتا ہے چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام قرطبی لکھتے ہیں:

  قلت ویحتمل أن یكون قوله تعالىٰ "وأن لیس للانسان إلا ماسعى" خاصاً فى السیئة بدلیل مافى صحیح مسلم عن أبى هریرة عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال قال اللّٰه عزوجل إذا ھم عبدى بحسنة ولم یعملھا كتبتھا له حسنة فإن عملھا كتبتھا له عشراً إلى سبعمائة ضعف وإذا ھم بسیئة ولم یعملھا لم أكتبھا علیه فإن عملھا كتبتھا سیئة واحدة. والقرآن دال على هذا قال اللّٰه تعالى من جاء بالحسنة فله عشر أمثالھا وقال اللّٰه تعالى مثل الذین ینفقون أموٰلھم فى سبیل اللّٰه كمثل حبة أنبتت سبع سنابل فى كل سنبلة مائة حبة. وقال فى الآیة الأخرى. كمثل جنة بربوة. من ذا الذى یقرض اللّٰه قرضاً حسناً فیضعفه له أضعافاً كثیرة.35
  میں کہتا ہوں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ باری تعالیٰ کا یہ فرمان " انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی " گناہ کے بارے میں ہوسکتاہے جس کی دلیل صحیح مسلم میں منقول حدیث مبارکہ ہے جسے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ نیکی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر ابھی عمل نہیں کرتا تو میں اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں اور اگر وہ اس نیکی پر عمل کرتا ہے تو میں اس کے لیے دس سے لے کر سات سو گنا تک کی نیکیاں لکھ دیتا ہوں اور جب وہ بندہ برائی کا رادہ کرتا ہے اور ابھی اس پر عمل نہیں کرتا تو میں اس پر گناہ نہیں لکھتا اور اگر وہ برائی کرے تو اسے ایک ہی گناہ لکھتا ہوں۔ قرآن پاک کی یہ آیت اس پر دلیل ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں۔ 36 اسی طرح اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:ان کی مثال جو اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح ہیں جس نے اگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے ہیں ۔ 37 ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:اس باغ کی مثل ہے جو ٹیلے پر ہو۔38 نیز ارشاد خداوندی ہے: ہے کوئی جو اﷲ کو قرض حسن دے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیےکئی گنا اجربڑھا دے گا۔3940

مذکورہ بالا عبارت ، اس میں مذکورہ آیات قرآنی اور حدیث نبوی ﷺسے یہ واضح ہوگیا کہ معترضین کی پیش کردہ آیت کریمہ میں گناہ مراد ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کی سزا کرنے والے کے علاوہ کسی کو نہیں دی جائیگی۔جہاں تک نیکی کا تعلق ہے تو اس کا اس آیت کریمہ میں ذکر نہیں ہے۔

آیت کا چوتھا جواب

معترضین کی طرف سے پیش کردہ آیت کریمہ کا چوتھا جواب دیتے ہوئے امام قرطبی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

  وهذا كله تفضل من اللّٰه تعالىٰ وطریق العدل (أن لیس للإنسان إلا ما سعى) إلا أن اللّٰه عزوجل یتفضل علیه بمالم یجب له كما أن زیادة الأضعاف فضل منه كتب لھم بالحسنة الواحدة عشرا إلى سبعمائة ضعف إلى ألف الف حسنة.كما قیل لأبى هریرة أسمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یقول إن اللّٰه لیجزى عن الحسنة الواحدة ألف ألف حسنة فقال سمعته یقول إن اللّٰه لیجزى على الحسنة الواحدة ألفى ألف حسنة فھا تفضل وقد تفضل اللّٰه على الأطفال بإدخالھم الجنة بغیر عمل فما ظنك بعمل المؤمن عن نفسه أو عن غیره وقد ذكر الخرائطى فى كتاب القبور قال سنة فى الأنصار إذا حملوا المیت أن یقرءوا معه سورةالبقرة.41
  اور"ان لیس للانسان الا ما سعی"کا مطلب ہے کہ انسان کے لیے بطریق عدل تو وہی ہے جو اس نے کوشش کی ہے البتہ بطریق فضل و احسان جائز ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس قدر چاہے زائد دے۔ یعنی انسان کو صرف اپنے عمل کا ثواب ملنا قانونِ عدل ہے اور دوسرے کے كئے کا فائدہ پہنچنا اس کا فضل ہے کہ وہ بندے کو استحقاق سے زائد عطا فرمادیتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے محض فضل سے ایک نیکی پر دس سے لے کر سات سو گنا اور بلکہ دس لاکھ تک نیکی کا ثواب اس کو دے دیتا ہے۔جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے کہا گیا کہ کیا آپ نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بے شک اﷲ تعالیٰ ایک نیکی کرنے پر دس لاکھ نیکیوں کا ثواب عطا فرمادیتا ہے (تو حضرت ابوہریرہ نے) فرمایا میں نے آپ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بےشک اﷲ تعالیٰ ایک نیکی کرنے پر ضرور بیس لاکھ نیکیوں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ فضل ہے اور بےشک اﷲ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے بچوں کو بغیر کسی عمل کے جنت میں داخل فرمایا تو اس مومن کے متعلق جو خود عمل کرلے یا کوئی دوسرا اس کی طرف سے عمل کرے آپ کا کیا خیال ہے کیا ان پر وہ فضل نہیں فرمائے گا؟ امام خرائطی نے "کتاب القبور" میں نقل فرمایا ہے کہ انصار میں یہ مسنون طریقہ اور معمول تھا کہ جب جنازہ اٹھاتے تو اس کے ساتھ سورۂ بقرہ پڑھتے ہوئے جاتے تھے۔

امام محب الدین طبری ، 42 امام سیوطی43اورامام زبیدی نے بھی تفصیل کے ساتھ ان تمام جوابات کو نقل کیا ہے۔ 44ان جوابات سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور یہ قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ بزرگان دین کے مشاہدہ سے بھی ثابت ہے اور اس میں کسی قسم کی شرعی ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے ۔اس كے علاوه ايك اور اہم بات جو اس حوالے سے مستحضر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کے لیے ایصالِ ثواب کرتا ہے تو اس کی وجہ اس مرحوم کی کوئی نہ کوئی نیکی اور بھلائی ہی ہوتی ہے جو اس نے کسی بھی عمر کے حصے میں اس ایصال ِثواب کرنے والے کے ساتھ کی ہوتی ہے ورنہ غیر اور دشمن کی بھلائی اور مغفرت کے لئے کوئی دعاگو نہیں ہوتا چہ جائیکہ اسے ایصالِ ثواب کرے ۔اس کے علاوہ بھی اگر کسی مومن نے دوسرےمومن کے لئےبغیر اسے جانے یا پہچانے بھی دعا کی ہو جیسا کہ قبرستان وغیرہ کے پاس سے گزرتے ہوئے لوگ اکثر پورے قبرستان کے لئے ایصال ثواب کر دیتے ہیں تو اس کی وجہ بھی مسلمان میت کی وہ بھلائی اور نیکی ہوتی ہے جو اس نے دینِ اسلام کو قبول کر کے یا اس پر ثابت قدم رہ کرکی ہوتی ہے اس لئے بھی یہ سارے اعمال اس کی "سعی"ہی میں شمار کئے جائیں گے جو اس کو اس آیت کے زمرے سے خود بہ خود خارج کر دیتے ہیں ۔

میلاد النبی ﷺکے دن خرچ کرنا

اسی ایصال ثواب کی بنا پر امت مسلمہ میں یوم میلاد النبیﷺپر خرچ کرنا رائج اور معمول بہ ہے جس کی ائمہ اسلاف نے وضاحت بھی کی ہے چنانچہ امام ابن جوزی لکھتے ہیں:

  ومن أنفق فى مولده درهما كان المصطفىٰ صلى اللّٰه عليه وسلم له شافعا ومشفعا وأخلف اللّٰه علیه بكل درهم عشرا.45
  جس نے حضور ﷺکے میلاد میں ایک درہم خرچ کیا تو مصطفیٰ ﷺاس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے اور میلاد میں خرچ کیے گئے ہر درھم کے عوض اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ، اس کو دس درہم سے زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔ 46

امام جلال الدین سیوطی میلاد شریف میں جائز کاموں کے حوالے سے لکھتے ہیں:

  ثم یمدّ لھم سماط یأكلونه وینصرفون من غیر زیادة على ذلك هو من البدع الحسنة التى یثاب علیھا صاحبھا لما فیه من تعظیم قدر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإظھار الفرح والاستبشار بمولدہ الشریف.47
  پھر اُن کے لیے دستر خوان بچھایا جاتا ہےجس پر لوگ کھانا کھا تے ہیں اور مزید کچھ کیے بغیر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ یہ اقدام بدعت حسنہ میں سے ہے جس کے کرنے والےکو اس پر ثواب دیا جائے گا کیونکہ اس میں نبی کریم ﷺکی تعظیم وتوقیر ہے اور میلاد النبیﷺ پر خوشی ومسرت کا اظہار بھی ہے

اس خرچ کرنےکی اصل خود نبی مکرم ﷺکا عمل ہے جس کو بیان کرتے ہوئے امام سیوطی لکھتے ہیں:

  قلت وظھر لى تخریجه على أصل آخر وهو ما أخرجه البیھقى عن أنس أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عقّ عنه فى سابع ولادته، والعقیقة لا تعاد مرة ثانیة، فیحمل ذلك على أن الذى فعله النبى صلى اللّٰه عليه وسلم إظھاراً للشكر على إیجاد اللّٰه تعالى إیاه رحمة للعالمین وتشریفا لأمته كما كان یصلى على نفسه لذلك، فیستحب لنا أیضاً إظھار الشكر بمولده باجتماع الإخوان وإطعام الطعام ونحو ذلك من وجوه القربات واظھار والمسرّات.48
  تحقیق میرے لیے میلاد کی اصل ایک اور حدیثِ مبارکہ کی تخریج سے ظاہر ہوئی ہے۔وہ حدیث امام بیہقی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺنے (اعلانِ)نبوت کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا حالانکہ آپ ﷺکے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ ﷺکی پیدائش کے ساتویں دن آپ ﷺکا عقیقہ فرمایا تھا اور عقیقہ دوبارہ نہیں ہوتاتو یہ اسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے کہ اس نے آپ ﷺکو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہےاور امت کےلیے ولادت پاک پر شکر ِخداوندی بجا لانا شروع فرمانے کے لیے دوبار ہ عقیقہ فرمایا باالکل اسی طرح جیسا کہ آپ ﷺبنفسِ نفیس اپنے اوپر درود پڑھا کرتے ، لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم میلاد پاک میں اجتماع کر کے،لوگوں کو کھانا کھلا کے اور دیگر جائز طریقوں سے خوشی ومسرت کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔

اسی طرح مسلمانوں کے عمل کو بیان کرتےہوئے امام سخاوی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:

  ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون السرور.49
  وہ اس کی راتوں میں گوناگوں خیرات کرتے ہیں اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔50

اسی طرح اس حوالہ سے امام ملا علی قاری لکھتے ہیں:

  وأما العجم فمن حیث دخول هذا الشھر المعظم والزمان المكرم لأهلھا مجالس فخام من أنواع الطعام للفقراء الكرام وللفقراء من الخاص والعامة وقراءة الختمات والتلاوات المتوالیات والإنشادات المتعالیات وأجناس المبرات والخیرات وأنواع السرور وأصناف الحبور حتى بعض العجائز من غزلھن ونسجھن یجمن مایقمن یجمعھن الأكابر والأعیان وبضیافھن ما یقدرون علیه فى ذلك الزمان.51
  عجم میں جب بھی یہ عظیم الشان مہینہ اور قابلِ احترام وقت آتا ہے تو یہاں کے لوگ بڑی بڑی محفلیں سجاتے ہیں قِسم قِسم کے کھانےفقراء کرام اور خاص وعام فقراء کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ختم شريف،مسلسل تلاوتیں، اعلیٰ قِسم کی نعتیں، طرح طرح کی نیکیاں اور قِسم قِسم کی نعمتوں کا اہتمام کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض بوڑھی عورتیں چرخہ کات کر اورکپڑا بن کر بڑے بڑے اجتماعات کا اہتمام کرتی ہیں جن میں بڑے بڑے بزرگ شامل ہوتے ہیں اور ایسی ضیافتیں اس موسم میں کرتی ہیں جو ان کے بس میں ہوں۔

ملا علی قاری اپنے دور کے اہل مکہ کے حکومتی میلاد کے حوالے سے لکھتے ہیں:

  فأنھى إلى السلطان فأمره بتھیئة أسبابه الملوكانیة من أنواع الأطعمة والأشربة.52
  بادشاہ نے شاہانہ اسباب کے ساتھ تیاری کا فرمان جاری کیا کہ طرح طرح کے کھانے،مشروبات اور دوسرے لوازمات کا اہتمام کیا جائے۔

امام شیخ نصیر الدین ابن الطباخ نے بھی اس کو بیان کیا ہے چنانچہ وہ اپنی فتاویٰ میں لکھتے ہیں:

  إذا أنفق المنفق تلك اللیلة وجمع جمعاً أطعمھم ما یجوز إطعامه وأسمعھم ما یجوز سماعه ودفع للمسمع المشوّق للآخرةملبوساً، كلّ ذلك سروراً بمولده صلى اللّٰه عليه وسلم فجمیع ذلك جائز ویثاب فاعله إذ أحسن القصد، ولا یختص ذلك بالفقراء دون الأغنیاء ، إلا أن یقصد مواساة الأحوج فالفقراء أكثر ثواباً. 53
  جب کوئی خرچ کرنے والا اس رات میں خرچ کرتا ہے، انہیں وہ جو کچھ کھلاتا ہے جس کا کھانا حلال ہے، وہ سناتا ہے جس کا سننا حلال ہے اور لوگوں کو ایسے امور بتاتا ہے جو انہیں آخرت کا شوق دلاتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ حضور ﷺکی ولادت ِمبارک پر خوشی مناتے ہوئے کرتا ہے تو یہ سب کچھ جائز ہے، اس سے ثواب ملے گا بشرطیکہ اس کی نیت صاف ہو۔وہ یہ دعوت فقراء کو چھوڑ کر اغنیاء کے ساتھ مختص نہ کرے۔ مگر وہ فقراء اور غرباء کے ساتھ ہمدردی کا ارادہ کرے تو اسے زیادہ ثواب ملے گا۔ 54

اسی کی ترغیب دیتے ہوئے امام جمال الدین بن عبد الرحمان الکتانی لکھتے ہیں:

  هذا الیوم یوم الجمعة من حیث أن یوم الجمعة لا تسعّر فیه جھنم فمن المناسب إظھار السرور وإنفاق المیسور وإجابة من دعاه ربّ الولیمة للحضور.55
  (میلاد کا ) یہ دن روز جمعہ کے مشابہ ہے جس میں جہنم کو بھڑکايا نہیں جاتا۔ اس لیے مسرت کا مناسب اظہار کرنا، خرچ کرنا اور اس شخص کی دعوت پر جانا جو محفل میلاد کراتا ہے مناسب ہے۔56

اسی طرح حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اپنی کتاب"الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین صلي الله عليه وسلم"کی بائسویں (22)حدیث میں تحریر فرماتے ہیں:

  الحدیث الثانى والعشرون: أخبرنى سیدى الوالد قال كنت فى أیام المولد طعاماً صلة بالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فلم یفتح لى سنة من السنین شى أصنع به طعاماً فلم أجد إلاحمصا مقلیا فقسمتة بین الناس فرأیته صلى اللّٰه عليه وسلم وبین یدیه هذه الحمص متبھجا بشاشا.57
  بائیسویں (22)حدیث:۔ میرے والد بزرگوار نے مجھے خبر دی فرمایا کہ میں میلاد النبی ﷺکے روز کھانا پکوایا کرتا تھا میلاد پاک کی خوشی میں۔ ایک سال میں اتنا تنگدست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر چنے بھنے ہوئے تھےوہی میں نے لوگوں میں تقسیم کیے تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور نبی کریمﷺکے روبرو وہ بھنے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ ﷺبہت مسرور ہیں۔

ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوگیا کہ امت مسلمہ یوم میلاد النبی ﷺپر دل کھول کر صدقہ وخیرات کرتی ہے اور طرح طرح کے کھانے بناکر غرباء و مساکین و فقراء اور ان کے علاوہ اپنے دوست واحباب میں تقسیم کرتی ہے کیونکہ امت مسلمہ ان تمام خیرات و اعمال کا ثواب نبی مکرم ﷺکی وساطت سے اپنے مرحومین کو ایصا ل کرتی ہے۔یہ ایصال ثواب کرنا قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے اور اس پر صدیوں سے امت مسلمہ عمل کرتی چلی آرہی ہے البتہ لا علمی کی بنا پر چند قلیل افراد وہ ہیں جنہوں نے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی غلط تفہیم کی بنا پر امت کے اوائل دور سے رائج اس ایصال ثواب کے عمل کومشکوک بنانے کی مذموم کوشش کی ہے اور لاعلمی پر مبنی ان کے اعترضات کے جواب دئے جاچکے ہیں ۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ایصالِ ثواب شرع کے خلاف نہیں ہے بلکہ اللہ تبارک وتعالی کا خاص فضل ہے جو رسول مکرم ﷺسے نسبت کی وجہ سے دیگر خصوصیات کی طرح اس امت او ر اس کے مرحومین پر کیاگیا ہے۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ ابراہیم41:14
  • 2 القرآن،سورۃ الحشر10:59
  • 3 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، السنن الصغیر، حدیث: 1132، ج-2، مطبوعۃ: جامعۃ الدراسات الإسلامیۃ، کراتشی، باکستان، 1989م، ص: 31
  • 4 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:22459، ج-37، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م، ص: 124
  • 5 أبو بكر محمد بن إسحاق ابن خزيمة النيسابورى، صحیح ابن خزیمة، حدیث:2496، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 123
  • 6 إسماعیل بن جعفر بن أبی کثیر الأنصاری، حدیث علی بن حجر السعدی عن إسماعیل بن جعفر المدنی، حدیث:251، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الرياض، السعودية،1998م، ص: 320
  • 7 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:1388، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص: 223
  • 8 أبو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجۃ، حدیث: 2717، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص: 493
  • 9 أبوداؤد سلیمان بن الأشعث السجستانی، سنن أبی داؤد، حدیث:4308، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص:850
  • 10 أبو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:199، ج-18، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، العراق،1983م، ص: 106
  • 11 ابو ریحان عبد الغفور سیالکوٹی، عقیدہ ایصالِ ثواب احادیث کی روشنی میں، مطبوعہ: مکتبہ فریدیہ ،اسلام آباد،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:67-68
  • 12 أبو الحسن علی بن أبى بکر برهان الدين المرغینانی، ہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدى، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 178
  • 13 ملا نظام الدین البلخى، فتاوی الهندية، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،1310ھ، ص: 257
  • 14 أبو محمد عبداﷲ بن أحمد ابن قدامة المقدسی، المغنی لابن قدامۃ، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ القاھرۃ، مصر،1388ھ، ص: 423
  • 15 أبوداؤد سلیمان بن الأشعث السجستانی، سنن أبی داؤد، حدیث:2883، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 586
  • 16 أبو بكر أحمد بن الحسین البیہقی، السنن الکبری، حدیث:8223، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 426
  • 17 أبو عثمان سعید بن منصور الخراسانی، سنن سعید بن منصور، حدیث: 424، ج-1، مطبوعۃ: دار السلفیۃ، الہند ، 1982م، ص: 149
  • 18 أبو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجۃ، حدیث: 2903، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص: 530
  • 19 زین الدین عبد الرحمن بن أحمد ابن رجب الحنبلی، أھوال القبور وأحوال أھلھا إلی النشور، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 66
  • 20 ایضاً، ص: 218
  • 21 أبو محمد عبد الحق بن عبد الرحمن ابن الخراط الاشبیلی، العاقبۃ فی ذکر الموت، مطبوعۃ: مکتبۃ دار الأقصی، الکویت، 1986م، ص: 182
  • 22 أبوبکرأحمدبن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث:7527، ج-10، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، 2003م، ص:300-301
  • 23 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 286
  • 24 القرآن، سورۃ النجم53: 39
  • 25 القرآن، سورۃ الطّور 52 :21
  • 26 أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البيان فى تأويل القرآن، ج-27، مطبوعۃ: دارالفکر ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 74
  • 27 القرآن، سورۃ النساء4 :11
  • 28 القرآن، سورۃ النجم53: 39
  • 29 أبو عبداﷲ محمد بن أحمد شمس الدين القرطبی، التذکرۃ بأحوال الموتی وأمور الآخرۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ دار المنھاج للنشر والتوزیع، الریاض، السعودية، 1425ھ، ص:289-290
  • 30 القرآن، سورۃ الطّور 52 :21
  • 31 أبو حفص عمر بن علی ابن الملقن المصرى، الإعلام بفوائد عمدۃ الأحکام، ج-1، مطبوعۃ: دار العامۃ للنشر والتوزیع، الریاض، السعودية ، 1997م، ص: 541
  • 32 القرآن، سورۃ النساء4 :11
  • 33 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:22459، ج-37، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م، ص: 124
  • 34 أبو عبداﷲ محمد بن أحمد شمس الدين القرطبی، التذکرۃ بأحوال الموتی وأمور الآخرۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ دار المنھاج للنشر والتوزیع، الریاض ، السعودية،1425ھ، ص:289-290
  • 35 أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3073، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص:907
  • 36 القرآن، سورۃ الانعام6: 160
  • 37 القرآن، سورۃ البقرۃ2 : 261
  • 38 القرآن، سورۃ البقرۃ2 : 265
  • 39 أبو عبداﷲ محمد بن أحمد شمس الدين القرطبی، التذکرۃ بأحوال الموتی وأمور الآخرۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ دار المنھاج للنشر والتوزیع، الریاض ، السعودية،1425ھ ، ص:291
  • 40 القرآن، سورۃ البقرۃ2 : 245
  • 41 أبو عبداﷲ محمد بن أحمد شمس الدين القرطبی، التذکرۃ بأحوال الموتی وأمور الآخرۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ دار المنھاج للنشر والتوزیع، الریاض ، السعودية،1425ھ ، ص:291-292
  • 42 أبو جعفر احمد بن عبداﷲ محب الدین الطبری، غایۃ الأحکام فی أحادیث الأحکام، حدیث: 7069، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص:41-42
  • 43 جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:268-269
  • 44 محمد بن محمد الزبیدی، اتحاف السادۃ المتقین بشرح إحیاء علوم الدین، ج-10، مطبوعۃ: مؤسسۃ التاریخ العربی، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 372
  • 45 أبو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، مولد العروس، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 9
  • 46 ایضاً(مترجم: پروفیسر دوست محمد شاکر)، مطبوعہ: قادری کتب خانہ، سیالکوٹ،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 34
  • 47 جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 189
  • 48 ایضاً، ص: 196
  • 49 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993م، ص: 362
  • 50 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد (مترجم: پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلشرز، لاہور، پاکستان،2012ء، ص: 324
  • 51 نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی المولد النبوی، مطبوعۃ: مکتبۃ الحلبی، المدینۃ المنورۃ، السعودية، 1980م، ص : 29
  • 52 ایضاً، ص : 29- 30
  • 53 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993م، ص:363-364
  • 54 ایضاً (مترجم: پروفیسر ذوالفقار علی ساقی) ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلشرز، لاہور، پاکستان، 2012ء، ص: 325
  • 55 ایضاً، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993م، ص:364
  • 56 ایضاً (مترجم: پروفیسر ذوالفقار علی ساقی) ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلشرز، لاہور، پاکستان ، 2012ء، ص:326
  • 57 شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی، الدر الثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ، مطبوعۃ: مکتبۃ الشیخ،کراتشی، باکستان، 1410ھ، ص:162