Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺ اور تعیّن ِ دن

دنیا کا ہر کام ، ہر بزم،مجلس،کانفرنس،محفل اوراجتماع کا انعقاد کسی دن یارات میں ہی کیاجاتا ہےاوراس دن یا رات کا وقوع بھی عیسوی یا ہجری کلینڈر کے اعتبار سےکسی تاریخ میں ہی ممکن ہے۔پروگرام ٹی وی کا ہویاریڈیوکا،اخبار کا ہو یارسالہ کا،ادارہ کا ہو یاجماعت کا،اسلامی تحریک کاہو یا مدرسہ کا اس کا جب تک قبل از وقت دن،تاریخ،ماہ،سال اوروقت متعین نہ کیاجائے تو وہ منعقد ہو ہی نہیں سکتا۔ایک چھوٹی سی ملاقات جو صرف دو افراد پر مشتمل ہوتی ہو اسکو بھی مہذب افراد اور معاشرے طے کرکے کرتےہیں تاکہ ملاقات بامعنی اور حصولِ مقصد کاذریعہ بن سکے۔اسی تناظر میں امتِ مسلمہ میں سے چند افرادہر مذہبی ودینی وروحانی محفل کےانعقاد کے بارے میں ایک لایعنی بحث چھیڑدیتے ہیں۔

محفل میلاد کے لیے کسی دن اور وقت کو خاص نہیں سمجھاجاتا اور اسی وجہ سے ہر سال کے ہر دن میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور پر محفل میلاد النبی کا انعقاد کیاجاتا ہے لیکن اگر کسی مصلحت کے تحت کوئی دن مقرر کر لیاجائے تو اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اعمال صالح کے لیے دن مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں جیساکہ نبی مکرم نے1 اور صحابہ کرام نے2بعض کاموں کے لیے اس طرح کی تعیین فرمائی ہے3لہذا اگر کوئی شخص بارہ (12) ربیع الاول شریف کو یومِ میلاد میں ہونے والی برکات کی وجہ سے محفل میلاد النبی منعقد کرتا ہے تو یہ عقل کا تقاضا ہے کہ جس کی یادمنانی ہو تو اسی دن منائی جائے جس دن اور جس تاریخ کو اس شخصیت سے نسبت ہو چنانچہ شیخ محمد عبد الحکیم شرف قادری لکھتے ہیں:

  تعین کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم ہے تعین شرعی یعنی شریعت نے کسی کام کے لیے ایک وقت معین کردیا ہے اوروہ کام اس وقت کے علاوہ ہو ہی نہیں ہوسکتا مثلاً قربانی کے خاص دن مقرر ہیں آگے پیچھے نہیں ہوسکتی ۔اسی طرح بعض ایسے کام جن کومقررہ وقت سے آگے پیچھے سرانجام دینا مکروہ ہو مثلاً حج کے احرام کے لیے شوال، ذوالقعدہ اور دس (10) دن ذی الحجہ کے مقرر ہیں اور ان سے پہلے حج کے لیے احرام باندھنا مکروہ ہے ۔بعض وہ کام جن کاخاص ثواب مقررہ وقت میں تو ہے لیکن کسی دوسرے وقت میں نہیں ہے مثلاًعشاء کے لیے رات کا پہلا تہائی حصہ جو ثواب اس وقت میں ہے اس کے بعد نہیں۔دوسری قسم ہے تعین عادی یعنی شریعت نے ایک کام کی عام اجازت دے رکھی ہے کہ جب ادا کرلیں لیکن کچھ مصلحتوں کے پیش نظر ایک وقت معین کرلیا جائے مثلاً شریعت کی طرف سے ایصال ثواب کی عام اجازت ہے کسی وقت بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے اب اگر کوئی شخص ایصال ثواب کے لیے دن مقرر کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس وقت کے علاوہ ایصال ثواب نہیں ہوسکتا یا جو ثواب اس وقت ہے وہ آگے پیچھے نہیں ہوگا تو یہ تعیین شرعی ہے اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ تعیین شرعی شارع کی طرف سے ہی ممکن ہے اورکسی شخص کو اپنے طور پر وقت مقرر کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن اگر کوئی شخص بعض فوائد کے پیش نظر وقت مقرر کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے وقتوں میں بھی ایصال ثواب ہوسکتا ہے نیز تمام اوقات میں ثواب یکساں پہنچتا ہے تو یہ ہرگز تعیین شرعی نہیں تعیین عادی ہے اسے ناجائز کہنا کسی طرح بھی درست نہیں اور اسے ناجائز کہنے کی اصلاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ 4

اگر ان اقسام کو تسلیم نہ کیا جائے تو ہر نیک کام جس کے لیے تاریخ مقرر کی جاتی ہے وہ ناجائز ہو جائے گا جس کے لیے شریعت نے کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیامثلاً نماز کے لیے وقت مقرر کرنا کہ ظہر ایک بج کر پندرہ منٹ پر ہوگی یہ بھی ناجائز ہوگا کیونکہ شریعت نے اس کے لیے کوئی خاص وقت (اپنے مقررہ وقت ہی میں )مقرر نہیں کیا بلکہ اس کاتقرر ہماری طرف سے ہے علی ہذا القیاس کئی مسائل اس قسم کے انکار کی وجہ سے ناجائز ہوجائیں گے جو کہ شرعی اصول وضوابط کے خلاف ہے لہذا معلوم ہوا کہ تعین شرعی شارع کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے لیکن تعین عادی جائز ہے اور اس کو سہولت کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تعین عادی اور احادیث

احادیث اس بات کی شاہد ہیں کہ خود نبی کریم نے بھی کچھ کام معین وقت میں کیے تھے اور صحابہ کرام بھی بعض نیک کاموں کے لیے وقت مقرر فرمایا کرتے تھے چنانچہ حضرت ابووائل بیان کرتے ہیں :

  كان عبداللّٰه یذكر الناس فى كل خمیس فقال له رجل یا أبا عبدالرحمن لوددت أنك ذكرتنا كل یوم قال أما أنه یمنعنى من ذلك أنى أكره أن أملكم وإنى أتخولكم بالموعظة كما كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یتخولنا بھا مخافة السامة علینا. 5
  حضرت عبداﷲ بن مسعود لوگوں کو ہر جمعرات کے دن نصیحت کرتے تھے ان سے ایک شخص نے کہا اے ابو عبد الرحمن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز نصیحت کیا کریں حضرت ابن مسعود نے کہا لیکن مجھے جو چیز اس سے باز رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ میں تمہیں ملال اور اکتاہٹ میں مبتلا کرنے کو ناپسند کرتا ہوں اور میں نصیحت کرنے میں تمہاری اس طرح حفاظت اور رعایت کرتا ہوں، جس طرح نبی کریم اکتاہٹ اور ملال کے خدشہ سے ہماری رعایت کرتے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیّدنا عبداﷲ بن مسعود ہر روز نصیحت نہیں کرتے تھے بلکہ اس وعظ و نصیحت کے لیے جمعرات کا دن مقرر کرلیا تھا جس سے ثابت ہوا کہ نفلی عبادات کے لیے اپنی سہولت سے دن مقرر کرنا جائز ہے یہ تَعیُّن عرفی وعادی ہے نہ کہ تَعیُّن شرعی ۔

اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب بھی قائم کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ تَعیُّن عرفی جائز و مباح ہے چنانچہ امام بخاری نے ایک حدیث بیان کرنے سے پہلے اس کے لیے یوں باب باندھا ہے:

  باب من جعل لأهل العلم أیاما معلومة.6
  باب جس شخص نے اہل علم کے لیے معین دن مقرر کیے۔

اسی طرح اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئےحضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں:

  أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم كان یأتى مسجد قباء كل سبت یأتیه ماشیا وراكبا.7
  بے شک رسول اﷲ ہر ہفتہ کے روز مسجد قبا جاتے تھے، آپ پیدل اور سوار ہوکر جاتے۔

اسی طرح ایک روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عبد الرحمن بن کعب بن مالک فرماتے ہیں :

  إن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم خرج فى غزوة تبوك یوم الخمیس، وكان یحب أن یخرج یوم الخمیس.8
  بے شک رسول اﷲ جمعرات کے روز غزوہ تبوک کے لیے نکلے اور آپ جمعرات کے روز نکلنا پسند فرماتے تھے۔

اسی حوالہ سے حضرت محمد بن ابراہیم التیمی بیان کرتے ہیں :

  كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یأتى قبور الشھداء عند رأس الحول فیقول: السلام علیكم بما صبرتم فنعم عقبى الدارقال: وكان أبوبكر و عمر و عثمان رضي الله عنهم یفعلون ذلك. 9
  حضور نبی کریم سال کے آغاز میں شہداء کی قبروں پر تشریف لاتے تھے اور فرماتے تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے صلہ میں آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ راوی نے کہا حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

رسول مکرم کی طرح یہ تعیین عرفی حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء سے بھی ثابت ہے چنانچہ حضرت علی بن حسن اپنے والد کا بیان نقل کرتے ہیں :

  إن فاطمة بنت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم كانت تزور قبر عمھا حمزة كل جمعة فتصلى وتبكى عنده. 10
  حضور کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ہر جمعہ کے دن حضور نبی کریم کے چچا حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کے لیے جاتی تھیں ۔آپ نماز بھی پڑھتیں اور آپ کی قبر کے پاس روتی بھی تھیں۔

اسی طرح نبی مکر م نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کو تَعیُّن عرفی کا حکم دیا ہے چنانچہ آپ فرماتی ہیں :

  كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یأمرنى أن أصوم ثلاثة أیام من كل شھر أولھا: الاثنین، والجمعة والخمیس.11
  رسول اﷲ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میں ہر مہینہ میں تین دن روزے رکھا کروں اور ان روزوں کو پیر سے شروع کروں یا جمعرات یا جمعہ سے۔

جلیل القدر تابعی محدث امام علقمہ ختم قرآن کے لیے جمعرات کا دن مقرر فرمایا کرتے تھے چنانچہ امام ابراہیم نخعی فرماتے ہیں:

  كان علقمة یختم القرآن كل خمیس.12
  امام علقمہ ہر جمعرات کو قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔

مذکورہ بالا حوالہ جات سے دینی اور دنیوی مصلحتوں کے تحت تاریخ مقرر کرنے کا ثبوت ملتا ہے تو اگر کوئی نبی کی ولادت باسعادت کا دن مقرر کرکے میلاد النبی منائے تو وہ بھی ناجائز یا حرام نہیں ہو سکتا، ہاں اس کا فرض یا واجب سمجھنا ناجائز ہے ۔یہ تو عام نفلی عبادت کے لیے تَعیُّن وقت کا مسئلہ تھا جہاں تک بارہ ( 12)ربیع الاول کی تاریخ مقرر کرکے اس دن خوشی کا اظہار کرنا اور محفلیں منعقد کرنا ہے تو اس کا ثبوت تو سیرت وغیرہ کی کتب میں صراحتاً موجود ہے کہ حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت بارہ ( 12)ربیع الاول کو ہوئی جس کی تفصیل گزرچکی ہے تو اس دن کو معین کرکے میلاد النبی منانا بالکل جائز ومستحب ہے کیونکہ خود نبی مکرم اس دن کو معین کر کے اپنے میلاد کی خوشی میں شکر باری تعالیٰ ادا کرنےکے لیے روزہ رکھا کرتے تھے۔

مذکورہ شبہ کا ازالہ

بعض افراد اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اسلام میں یادیں اور دن منانے کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام نے یادیں اور دن منانے کی بڑی ترغیب دی ہے ،جگہ جگہ اس کا جلوہ کارفرما ہے۔اسلامی اعمال کا ایک معتدبہ حصہ یادگاروں پر مبنی ہے اورقرآن وحدیث میں جگہ جگہ یادوں کا حکم اور ترغیب دی گئی ہے چنانچہ چند آیات قرآنی میں حضرت ابراہیم ،13 حضرت موسیٰ ،14 حضرت اسماعیل ، 15 حضرت ادریس ، 16 حضرت داؤد ، 17 حضرت ایوب ، 18حضرت اسحق ویعقوب ،19حضرت یسع وذوالکفل ، 20 حضرت مریم 21 اور بالجملہ تمام ہی انبیاء کرامکی یاد دہانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور تذکرہ کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔22 نہ صرف اتنا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہ کوبھی کئی اہم دنوں کا تذکرہ کرنےکا حکم دیا ہے۔

اہم دنوں کی یادیں

اس حکم باری میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی مکرم کو ان اہم دنوں کی یاد کا حکم دیتےہوئے ارشاد فرمایا:

  وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ523
  اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے)۔ بیشک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے (اور) خوب شکر بجا لانے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔

اگرچہ کہ تمام ایام اﷲ ہی کے تخلیق کردہ ہیں مگر معتبر مفسرین کے بقول اس حکم ربانی سے مراد ایسے ایام خاص کا تذکرہ ہے جن میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندگانِ خدا پر خصوصی انعامات نازل ہوئے مثلاً عید الفطر، عید الاضحی، لیلۃ القدر، شب برات وغیرہ ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو میلاد النبی قدرت کی طرف بندگانِ خدا پر ایسا انعام ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس لیے حضور کی ولادتِ مقدسہ کے حوالے سے خوشی ومسرت کا اظہار کرنا خدا کے اس حکم کی تعمیل کے مترادف ہے۔

ایام ِاﷲ (اﷲ کے دنوں) سے مراد وہ دن ہیں جن میں اہم واقعات رونما ہوئے جن دنوں میں اﷲ تعالیٰ نے کافروں کو عذاب دیا اور ایمان والوں پر انعام نازل کیا۔اسی کو بیان کرتے ہوئے سیّدنا ابی بن کعب نے نبی کریم سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ایام اﷲ سے مراداللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہیں چنانچہ مروی ہے:

  عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یفى قوله عزوجل (وذكرهم بأيام اللّٰه)قال:بنعم اللّٰه.24
  رسول اکرم سے باری تعالیٰ کے فرمان"وذکر ھم بایام اللہ "کے بارے میں منقول ہے کہ اس سے مراد اﷲ کی نعمتیں ہیں۔

حضرت ابن عباس 25 اور حضرت قتادہ سے بھی یہی مروی ہے26 اور اس سے معلوم ہوا کہ فرمان باری تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ ان دنوں کو یاد کرو جن میں اﷲ کی نعمتیں ، فضل اور رحمتیں نازل ہوئی ہیں۔یہ سب ہی جانتے ہیں کہ حضور اکرم اللہ تبارک وتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا آپ کے "یوم میلاد"کے موقع پر لوگوں کو یہ نعمت یاد دلاکر فرمان خداوندی پرعمل کیا جاتا ہے اور اس کےلیے لوگوں کی آسانی کے خاطر تعین عرفی سے یوم میلاد کو معین کیا جاتا ہے کیونکہ تعین عرفی جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔

یومِ نجات کو روزہ کے لیے معین کرنا

حضرت موسیٰ کی فرعون سے نجات دہندگی کی خوشی میں یہودِ مدینہ روزہ رکھاکرتے تھے پھر جب نبی مکرم مدینہ منورہ آئے تو آپ کو اس روزہ کی وجہ معلوم ہوئی تو آپ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ میں اس خوشی منانے کا زیادہ حقدار ہوں تو آپ نے اس دن کی تعیین کونہ صرف برقرار رکھا بلکہ صحابہ کرام کو اس دن روزہ رکھنے کابھی حکم دیا چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے :

  قدم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة فرأى الیھود تصوم یوم عاشوراء فقال: ما هذا؟ قالوا: هذا یوم صالح هذا یوم نجى اللّٰه بنى إسرائیل من عدوهم فصامه موسى، قال: فأنا أحق بموسى منكم فصامه وأمر بصیامه.27
  نبی کریم مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال)آپ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون)سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر حضرت موسیٰ کے(شریک مسرت ہونے میں)ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا۔

اسی حوالہ سے ایک روایت میں اس طرح منقول ہے:

  فقالوا: هذا یوم عظیم أنجى اللّٰه فیه موسى وقومه وغرق فرعون وقومه فصامه موسى شكرا فنحن نصومه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فنحن أحق وأولى بموسى منكم فصامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأمر بصیامه.28
  انہوں نے کہا یہ بہت عظیم دن ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی کریم نے فرمایا تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

یعنی نبی مکرم نے اس دن میں خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا جس کا سبب بیان کرتے ہوئے شیخ عثمانی علامہ قرطبی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

  قال القرطبى مع انضمام أن من شرعه تعظیم الأیام التى أظھر اللّٰه سبحانه فیھا الرسل فاستحسن فیھا الصوم.29
  علامہ قرطبی فرماتے ہیں:( رسول اﷲ نے دس محرم کا جو روزہ رکھا اس میں حضرت موسیٰ کی موافقت کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ) آپ کی شریعت میں ان ایام کی تعظیم ہے جن میں اﷲ تعالیٰ نے رسولوں کو غلبہ عطا فرمایا اس وجہ سے آپ نے دس محرم کے روزے کو مستحسن قرار دیا۔

علامہ قرطبی نے جن ایام کی تعظیم کا ذکر فرمایا ہے ان میں مثلاً جمعہ مبارک کا دن ہے کیونکہ اس دن حضرت سید نا آدم پیدا ہوئے اور اسی دن آپ دنیا میں تشریف لائے، ایام تشریق کی عبادات حضرت ابراہیم کی یادگار ہیں، دس(10) ذی الحج کا عظیم دن حضرت اسماعیل کی قربانی کی یادگار ہے اور ان تمام دنوں میں سب سے افضل وہ دن ہے جس میں رسول اﷲ رونق سرائے عالم ہوئے کہ تمام دنوں کی عظمتیں اس دن سے ہیں۔ اس لیے اس دن سلام پڑھنا ،آپ کے فضائل وخصائل بیان کرنا،آپ کی جناب میں عبادات کے ہدایا ایصال کرنا اور اجتماعی طور پر خوشی منانا، ایمان کی علامات اور محبت رسول کے ثمرات ہیں اور اس ماہ اور اس دن کی عرفی تعیین حدیث عاشورہ کی روشنی میں جائز اور مستحسن ہے۔ 30

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ مذکورہ روایت میں صراحت ہے کہ یہودیوں نے یوم آزادی مناتے ہوئے عاشورہ کے روزے کا اہتمام کیا اور آپ نے اسے رد کرنے کے بجائے خود بھی منایا اور اسے منانے کا حکم بھی فرمایا۔ اگر یہودیوں کے لیے "یوم آزادی" منانا درست ہے تو ہمارے لیے حضوراکرم کی ولادت کا شکر ادا کرنے کےلیے اس دن کی تعیین بھی جائز ہے کیونکہ آپ ہر ظلم، ناانصافی، کفر، جہنم اور ابلیس سے نجات اور آزادی کا پیغام لے کر آئے بلکہ آپ کو قرآن نے نجات دہندہ قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  وَيَضَعُ عَنْھمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْھمْ 15731
  اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔

لہٰذا مسلمانوں کے لیے آپ کی آمد کا دن بھی یوم نجات اور یوم آزادی ہے جس کے لیے شرعا تَعیُّن عرفی جائز ہے اور اس کا ثبوت نبی مکرم کی حیات طیبہ اور آپ کے صحابہ کرام کی زندگی سے ثابت ہے لہذا معترضین کا اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھتا اور یہ سراسر لاعلمی کی بنا پر کیا جاتا ہے۔

یومِ تعظیم اور یومِ غلبہ

عاشورہ کو منانے کی ایک اور وجہ بھی احادیث میں منقول ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہود مدینہ اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی مکرم نے اس دن کو معین فرماکر اپنے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا چنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئےسیّدنا ابن عباس فرماتے ہیں:

  أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قدم المدینة فوجد الیھود صیاما یوم عاشوراء فقال لھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ماهذا الیوم الذى تصومونه؟ فقالوا: هذا یوم عظیم أنجى اللّٰه عز وجل فیه موسى وقومه وغرق فیه فرعون وقومه فصامه موسى شكرا فنحن نصومه فقال: رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فنحن أحق وأولى بموسى منكم فصامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأمر بصیامه.32
  رسول اﷲ مدینہ پہنچے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، پس رسول اﷲ نے ان سے فرمایا: یہ کونسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ (یعنی تمہارے روزہ رکھنے کی کیا وجہ ہے؟) تو انہوں نے کہا یہ عظمت (وتعظیم) والا دن ہے۔ اس میں اﷲ نے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون کو غرق کردیا تو حضرت موسیٰ نے شکرانے کا روزہ رکھا، پس ہم بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اﷲ نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ حقدار اور زیادہ قریب ہیں حضرت موسیٰ کے، پس آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم بھی فرمایا۔

اس روایت سے واضح ہے کہ دس محرم کو "یوم تعظیم" کے طور پر بھی منایا جاتا ہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ ہمارے آقا حضرت محمد رسول اﷲ تمام انبیاء کرام سے معزز، محترم اور مکرم ہیں۔ جس دن آپ کی تشریف آوری ہوئی وہ دن بھی عزت وتعظیم اور عظمت وحرمت والا دن ہےلہٰذا اس کو بھی منانا حکمت اسلامی کے عین مطابق ہے۔

اسی طرح قوم یہود عاشورہ کے روزہ کو مذکورہ وجوہات کے ساتھ ساتھ اس بنا پر بھی رکھا کرتی تھی کہ اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودیوں کو غلبہ عطا فرمادیا تھا اور ابن شیبہ نے اس کے الفاظ یوں نقل کیے ہیں :

  أظھر اللّٰه فیه.33
  اس دن میں اﷲ تعالیٰ نے (سیّدناموسیٰ وبنی اسرائیل کو) غلبہ عطا فرمایا تھا۔

جس سے ثابت ہوتا ہے کہ "غلبہ" کا دن بھی منانا چاہیے اور قرآن مجید میں نبی مکرم کی آمد کو غلبۂ دین کا سبب بتایاہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشادبار ی تعالیٰ ہے:

  هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۭ 2834
  وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے ۔

معلوم ہوا کہ "آمد مصطفی " سے غلبہ نصیب ہوگا اس لیے آپ کا یوم میلاد "یوم غلبہ"کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

یومِ نوح

سیّدنا ابو ہریرہ سے مروی حدیث میں یہ ذکر بھی ہے کہ جب یہودیوں سے عاشورہ کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جہاں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات اور اس کے غرق ہونے کا بیان کیا وہاں یہ بھی کہا:

  وهذا یوم استوت فیه السفینة على الجودى، فصام نوح وموسى شكراً للّٰه.35
  اور یہ وہ دن ہے جس میں حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھہری۔ تو اس دن حضرت نوح اور حضرت موسیٰ دونوں نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔

جب یوم نوح تعیین کے ساتھ منایا جاسکتا ہے تو یوم میلاد مصطفی بھی تعیین کے ساتھ منایا جاسکتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا دیگر انبیاء کرام کی بنسبت اپنے نبی حضرت محمد رسول اﷲ سے اسی طرح تعلق زیادہ ہے جس طرح آپ کا حق مومنین پر کئی گنا ہےلہذا یو م میلاد النبی کی تعیین کرنا جائز ہے ۔

یوم ِسیّدنا آدم

سیدنا آدم کی تخلیق جمعہ کے روز ہوئی اور آج تک اس دن کو منایا جاتا ہے بلکہ اس دن کو عید قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ حضرت اوس بن ابی اوس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:

  من أفضل أیامكم یوم الجمعة فیه خلق آدم وفیه قبض.36
  تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی۔

تو واضح ہوگیا کہ جمعہ کا دن سیّدنا آدم کی یاد کے طورپر منایا جاتا ہے لہٰذا جس دن کوسیّدنامحمد رسول اللہ سے مناسبت ہو اس دن کو منانے میں کوئی حرج نہیں اور یہ عین حکم خداوندی کے مطابق ہے۔

یومِ امام الانبیاء

پیر کے دن کو رسول اﷲ کی ذات وسیرت کے ساتھ بڑی مناسبت ہے چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے سیّدنا ابن عباس فرماتے ہیں:

  ولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الإثنین واستنبىء یوم الإثنین وخرج مھاجرا من مكة إلى المدینة یوم الإثنین وقدم المدینة یوم الإثنین وتوفى صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الإثنین ورفع الحجر الأسود یوم الإثنین.37
  پیر کے دن آپ کی ولادت ہوئی، پیر کے دن ہی آپ کی بعثت ہوئی،پیر کے دن ہی آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے دن ہی آپ مدینہ شریف پہنچے اور پیر کے دن ہی آپ وصال فرماگئے۔ پیر کے دن ہی حجر اسود اپنی جگہ نصب کیا گیا۔

وہ دن جسے امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی کے ساتھ اتنی قوی نسبت ہے اسے منانا خود عمل نبوی اور عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے کیونکہ جب رسول اﷲ سے پیر کے دن روزہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

  ذاك یوم ولدت فیه ویوم بعثت فیه وفى روایة وفیه أنزل على القرآن .38
  یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور ایسا دن ہے جس میں میری بعثت ہوئی اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اسی دن مجھ پر قرآن اتارا گیا۔

امام نووی قاضی عیاض کی عبارت کو بطور تائید واستدلال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  ویرجع الوصف بالولادة والإنزال إلى الاثنین.39
  پیر کے دن میں آپ کی ولادت اور وحی اترنے دونوں کا وصف پایا جاتا ہے۔

اس عمل سے آپ نے خود اپنا دن مناکر اس کی عظمت کو واضح فرمادیا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور وحی نازل ہوئی تب ہی اس دن کو معین فرماکر آپ نے روزہ رکھا جس سے معلوم ہوا کہ تَعیُّن عرفی کو غلط گرداننا ایک بڑی غلطی ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

خلاصۂ کلام یہ ہواکہ میلاد النبی کی تعیین شرعی نہیں بلکہ عرفی ہے جو کہ جائز ہے اور اس میں صحابہ کرام کا عمل بھی موجود ہے۔یہ ایسی تعیین نہیں ہے جیسے یکم(1) شوال عید الفطر کے لیے اور نو (9)ذی الحج حج کے لیے معین ہے، یا رمضان المبارک کا مہینہ روزوں کے لیے معین ہے یا جیسے غروب آفتاب اور طلوع فجر مغرب اور فجر کی نمازوں کے لیے معین ہیں۔ میلاد شریف سال کے بارہ مہینوں میں کیا جاسکتا ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے لیکن ربیع الاول کے مہینہ اور بارہ (12)تاریخ کی اس لیے خصوصیت ہے کہ اس ماہ اور اس تاریخ میں آپ کی ولادت مبارکہ ہوئی ہے۔ اس کی شرعی نظیر یہود مدینہ کے عاشورہ کے روزہ کو برقرار رکھنے والی حدیث مبارکہ ہے جس سےیہ معلوم ہوتاہے کہ جس تاریخ میں اﷲ تعالیٰ نے کسی قوم یا کسی نبی کو کوئی نعمت عطا کی ہو اس دن اس نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور اس نعمت کی تعظیم کی جائے۔ رسول اﷲ کی پیر کے دن ولادت ہوئی اس دن آپ پر قرآن نازل ہوا اور اسی دن آپ مبعوث ہوئے تو آپ اس دن کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتے تھے ۔بنا بریں چونکہ بارہ(12) ربیع الاول کو آپ کی ولادت ہوئی اس لیے مسلمان خصوصیت کے ساتھ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں اس دن اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور اس دن انواع واقسام کے صدقات وخیرات کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں ۔یہ دونوں حدیثیں تاریخ اور دن کی خصوصیت اور تعیّن پر دلیل ہیں۔

 


  • 1 أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 6120، ج-12، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، 2009م، ص: 292
  • 2 أبو نعیم أحمد بن عبداﷲ الأصبہانی، حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفياء، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:99
  • 3 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:70، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:17
  • 4 شيخ عبد الحکیم شرف قادری، مسائل اہل سنت، مطبوعہ: مکتبہ قادریہ ،لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص: 48
  • 5 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:70، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص:17
  • 6 ایضاً
  • 7 أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 6120، ج-12، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، 2009 م، ص: 292
  • 8 أبو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، سنن نسائی، حدیث: 8734، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 99
  • 9 أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی، المصنف، حدیث:6716، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 273
  • 10 أبو عبد الله محمد بن عبداﷲ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 1396، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 533
  • 11 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث :26480، ج-44، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:82
  • 12 أبو نعیم أحمد بن عبداﷲ الأصبہانی، حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفياء، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:99
  • 13 القرآن، سورۃ مریم19: 41
  • 14 القرآن، سورۃ مریم19: 51
  • 15 القرآن، سورۃ مریم19: 54
  • 16 القرآن، سورۃ مریم19: 56
  • 17 القرآن، سورۃ ص 38: 17
  • 18 القرآن، سورۃ ص 38: 41
  • 19 القرآن، سورۃ ص 38: 45
  • 20 القرآن، سورۃ ص 38: 48
  • 21 القرآن، سورۃ مریم19: 16
  • 22 القرآن، سورۃ آل عمران3: 81
  • 23 القرآن، سورۃ ابراھیم14: 5
  • 24 أبو محمد عبد الحمید بن حمید الكشى، المنتخب من مسند عبد بن حمید ، حدیث:168، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ، القاہرۃ، مصر، 1988م، ص: 87
  • 25 أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تأویل القرآن، حدیث:20579، ج-16، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 522
  • 26 جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الدر المنثور فی التفسیر المأثور، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:6
  • 27 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2004، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص: 321
  • 28 أبو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:1130، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص: 462
  • 29 شیخ شبیر احمد عثمانی، فتح الملہم، ج-3، مطبوعہ: مکتبۃ الحجاز، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص: 145
  • 30 علامہ غلام رسول سعیدی، شرح صحیح مسلم، ج-3، مطبوعہ: فرید بک اسٹال،لاہور، پاکستان، 2004ء،ص:171-173
  • 31 القرآن، سورۃ الأعراف 7 :157
  • 32 أبو بکر أحمد بن الحسین البیہقی، السنن الکبری، حدیث:8397، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 473
  • 33 أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، المصنف فی الأحادیث والآثار، حدیث: 9359، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد،الریاض، السعودیہ 1409ھ، ص: 311
  • 34 القرآن، سورۃ الفتح 48 :28
  • 35 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث :8717، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 335
  • 36 أبو بكر محمد بن اسحاق بن خزيمة، صحيح ابن خزيمة، حديث:1733،ج-3،مطبوعة: المكتب الاسلامي، بيروت، لبنان، (ليس التاريخ موجودًا)،ص:118
  • 37 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:2506، ج-4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م، ص: 304
  • 38 أبو عوانۃ یعقوب بن إسحاق الإسفرایینی، مستخرج أبی عوانۃ، حدیث: 2949، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 229
  • 39 أبو زکریا یحییٰ بن شرف محیی الدین النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم، ج-8، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص : 52